کیا ایسے غیر مصدّق واقعات کو صحیح احادیث پر قیاس کیا جا سکتا ہے؟
السلام علیکم
انس بھائی ،میں خود چاہ رہا تھا کہ اس طرح کا کوئی اعتراض اہل حدیث عالم کریں تاکہ میں اپنے موقف کی وضاحت کروں ، اگر میرا موقف غلط ہو تو رجوع کرلوں
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو حق بات کہنے اور اس پر عمل کی توفیق دے ، آمیں
امام ابو حنیفہ کے واقعہ کا اگر کوئی اس بنا انکار کرتا ہے کہ یہ واقعہ سندا ثابت نہیں یا اس کی سند مشکوک ہے تو میں بات کو آگے نہیں بڑھائوں گا اور اس انکار پر کوئی اعتراض نہیں کروں گا اعتراض جب ہوتا ہے جب اس کو خلاف شریعت عمل کہا جاتا ہے
حدیث میں ذکر واقعہ کرامت اور احناف کی کتب میں واقعہ شرک
احادیث مبارکہ میں کئی واقعات بطور کرامت ذکر ہیں مثال کے طور پر صحیح مسلم کی وہ حدیث لے لیتے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بچوں کی گود میں بولنے کے متعلق بتایا تھا جن میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام ہیں ۔ آپ تو اس حدیث سے واقف ہوں گے لیکن قارئین کے لئے لنک دے دیتا ہوں
لنک
اس میں ایک بچہ نے اپنی ماں کو بتایا ہے کہ فلاں باندی جس کو لوگ زانیہ سمجھ رہے ہیں زانیہ نہیں ہے
اب یہاں کوئی اس بچہ کو مافوق الفطرت مخلوق نہیں کہتا
اب یہاں اس بچہ کو عالم الغیب نہیں کہتا اگر چہ اس نے امر غیب میں سے ایک خبر دی ہے
جب احناف کی کتب میں کوئی خرق العادہ واقعہ تحریر ملتا ہے تو دیوبندیوں پر اس واقعہ کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو عالم الغیب سمجتھے ہیں اور کہا جاتا ہے ان کے اسلاف مافوق الفطرت مخلوق تھے
حدیث بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا اور احناف کی کتب میں بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا تو دو دو الگ نتائج کیوں اخذ کیے جارہے ہیں ، جب کہ دونوں واقعات بطور کرامت ذکر ہوئے ہیں
کیا احناف کا قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر قول ہے (معاذاللہ )
اب اعتراض آئے گا کہ میں احناف کے ان بیان کیے واقعات کو احادیث پر کیوں قیاس کر رہا ہوں ، یہاں انس صاحب آپ بھی شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئے
قرآن و صحیح حدیث کا بیان کیے گیئے کرامات والے پر ایمان لانا ہم پر لازم ہے ، لیکن احناف علماء کے بیان کردہ واقعات کی تصدیق کوئی شریعت کا حصہ نہیں اور نہ میں ان واقعات پر آپ حضرات کو یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سو فیصد درست ہے اور ان کا بیان کیا واقعہ میں غلطی کا کوئي احتمال نہیں ، لیکن ایک امتی کے بیان کیے واقعے میں غلطی کا احتمال رہتا ہے اس لئیے کہاں سوفیصد درست نبی کا قول اور کہاں امتی کا قول ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے
اگر آپ حضرات احناف کی کتب میں مذکور مثلا تبلیغی نصاب میں مذکور کرامت والے واقعات کو اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ان کی سند پر آپ کو یقین نہیں یا یہ بغیر سند کے ہیں تو میں آپ حضرات سے کوئی بحث نہیں کروں گا ، اصل اختلاف تب ہوتا ہے جب آپ ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ احناف اپنے اسلاف کے متعلق یہ عقیدہ رکتھے ہیںکہ وہ عالم الغیب تھے جیسا کہ طالب الرحمن صاحب (اللہ مجھے بھی حق راہ پر چلائے اور طالب الرحمن صاحب کو بھی ) نے اپنی کتب میں دعوی کیا ہے
میں تو احادیث سے کرامت والے واقعات پیش کرکے بس یہ کہتا ہوں کہ جب بطور کرامت حدیث ایک واقعہ موجود ہے جیسا کہ جریج والی حدیث میں ایک بچہ نے امور غیب میں سے ایک امر کی اطلاع کی اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل میں بچے عالم الغیب ہوتے تھے لیکن جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کوئي حنفی یا کوئی اور عالم بطور کرامت غیب کی خبر دیتا ہے تو وہاں کیوں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کیا وہ بزرگ غیب کا علم رکتھے تھے ؟؟؟
یہاں بھی یہی صورت الحال ہے
اگر آپ حضرات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے 40 سال تک شب بیداری کو سند بحث کرکے مشکوک قرار دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس کو خلاف شریعت قرار دیں تو پھر مجھے سخت احتلاف ہے ، کیوں کہ مسلسل شب بیداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے (کما سبق ) او اس کے خلاف شریعت نہ ہونے کہ مذید شواہد بھی ہیں
جزاک اللہ خیرا