• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایمانِ باﷲ کی قبولیت کیلئے لازمی شرط! توحید و رسالت کی شہادت اور اعمالِ صالح کو لازم و ملزوم رکھنا

اوپر عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ﷲ واحد پر ایمان کا جو اصول سامنے آتا ہے اس میں ’’ﷲ کے ہاں مقبول ایمان کیلئے شرط‘‘ کی صورت تین چیزیں یوں باہم مربوط اور لازم و ملزوم نظر آتی ہیں کہ انہیں ایک دوسری سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

٭ اس میں پہلی چیز تو ﷲ کی توحید (ﷲ کے الٰہ واحد و یکتا ہونے) کی شہادت جو بنیادی چیز ہے۔

٭ اس میں دوسری چیز یہ ہے کہ ’’اس میں ﷲ کی توحید کی شہادت کے ساتھ ساتھ محمد ﷺ کی رسالت کی شہادت بھی داخل ملتی ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ﷲ کے ’’الٰہ واحد و یکتا ہونے‘‘ پر ایمان کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ محمد ﷺ کے ’’ﷲ کے رسول ہونے‘‘ پر بھی ایمان لایا جائے‘ ’’اور اس سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی شہادت اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوتی جب تک ساتھ ’’محمدًا رسول ﷲ‘‘ کی بھی شہادت نہ دی جائے اور ذیل کی آیت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنْ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً o اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘۔
جہاں ﷲ کی توحید کی شہادت کے ساتھ ساتھ محمد ﷺ کی رسالت کی شہادت داخل ملتی ہے وہیں ساتھ ﷲ تعالیٰ کے مقرر کردہ افعالِ بندگی (اعمالِ صالح) کی ادائیگی بھی داخل ملتی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اعمالِ صالح کی ادائیگی بھی ﷲ واحد پر مقبول ایمان کا لازمی حصہ ہے۔
(النساء:150‘151)

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کتاب و سنت کے مزید مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ﷲ کے ہاں توحید و رسالت کی شہادت اس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہوتی جب تک (ایمان کے بعد زندگی ملنے اور اعمالِ صالح کے مواقع آ جانے پر) اعمالِ صالح ادا نہ کئے جائیں جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ یَوْمَ یَأْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَایَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِھَا خَیْرًا ‘‘۔
’’ جس روز تمہارے رب کی بعض مخصوص نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو گا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی (عملِ صالح) نہ کمائی ہو گی‘‘۔
(الانعام:158)

’’ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ‘‘۔
’’ اسی (اللہ) کی طرف طیب کلمات چڑھتے ہیں اور عمل صالح ان کو اونچا اٹھاتا ہے‘‘

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَاِقَامَ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ‘‘۔
’’ اسلام کی عبارت پانچ چیزوں پر اٹھائی گئی ہے۔ شہادت دینا اس بات کی کہ ﷲ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد ﷺ ﷲ کے رسول ہیں اور نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الایمان‘ عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ )

آیاتِ بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایمان کو قبولیت کے درجے تک پہنچانے کیلئے اعمالِ صالح کا ساتھ بہت ضروری ہے اور حدیثِ بالا سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ توحید و رسالت کی شہادت کے ساتھ کم از کم بالا چار اعمالِ صالح (جن میں غنیمت میں سے پانچواں حصہ جمع کرانے کی جگہ اب حج شامل ہے) کی ادائیگی تو فرض کر دی گئی ہے۔ اسلام میں یہ وہ چیزیں ہیں جن پر اسلام کی عمارت اٹھائی گئی ہے۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شہادت کی مطلوب کیفیت!​
کتاب و سنت سے شہادت کی مطلوب کیفیت بھی سامنے آتی ہے‘ اس کے مطابق شہادت وہی قابل قبول ہے جو پورے علم‘ یقین‘ صدق و اخلاق کے ساتھ ہو مثلاً علم کے ساتھ شہادت۔

ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘۔
’’ پس خوب جان لو کہ کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے‘‘۔
(محمد: 19)

’’ اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ‘‘۔
’’ سوائے ان کے جو حق کی شہادت دیں اور وہ علم بھی رکھتے ہوں‘‘۔
(الزخرف:86)

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَنْ مَاتَ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘۔
’’ جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہو کہ ﷲ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘۔
(مسلم کتاب الایمان‘ عثمان رضی اللہ عنہ )
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یقین کے ساتھ شہادت
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ لَا یَلْقٰی اللہَ بِھِمَا عَبْدٌ غَیْرَ شَاکً فِیْھِمَا اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘۔
’’ میں شہادت دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں ﷲ کا رسول ہوں‘ جو بندہ ان دونوں شہادتوں کے ساتھ ﷲ تعالیٰ سے جا ملے گا بشرطیکہ وہ ان دونوں باتوں کی حقیقت میں کوئی شک نہ رکھتا ہو‘ وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الایمان‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صدق کے ساتھ شہادت

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَامِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہِ صِدْقًا مِّنْ قَلْبِہٖ اِلَّا حَرَّمَہٗ اللہُ عَلَی النَّارِ‘‘۔
’’ جو آدمی بھی صدق دل سے یہ شہادت دے کہ ﷲ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ ﷲ کے رسول ہیں تو ﷲ تعالیٰ اس شخص کو آگ پر حرام کر دیتا ہے‘‘۔
(بخاری‘ کتاب العلم‘ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ )

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اخلاص کے ساتھ شہادت

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہٖ اَوْ نَفْسِہٖ‘‘۔
’’ قیامت کے دن میری شفاعت کا حقدار خوش نصیب ترین شخص وہ ہے جو خلوصِ دل خلوصِ نفس کے ساتھ یہ کہے کہ ﷲ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘۔
(بخاری‘ کتاب العلم‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )

’’ اِنَّ اللہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مِنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہَ یَبْتَغِیْ بِذَالِکَ وَجْہَ اللہِ‘‘۔
’’ ﷲ تعالیٰ نے ایسے آڈمی کو آگ پر حرام کر دیا ہے جو لا الہ الا ﷲ کہے اور اس بات سے صرف ﷲ کی خوشنودی کا طالب ہو‘‘۔
(بخاری‘ کتاب الصلوٰۃ‘ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ )

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
’’شہادت کے ساتھ اعمال‘‘ سے پہلے ’’شہادت کے مطابق عمل‘‘ کی اہمیت!​

اوپر ﷲ پر ایمان کی مطلوب صورت میں ’’توحید و رسالت کی شہادت کے ساتھ فرض اعمال کی ادائیگی‘ ایمان کے لازمی حصے کے طور پر سامنے آتی ہے‘ یہ چیز اپنی جگہ واقعی لازم ہے مگر کتاب و سنت میں اس سے پہلے اہمیت ’’توحید و رسالت کی شہادت کے مطابق عمل‘‘ کی سامنے آتی ہے کہ اگر عملاً اس شہادت کی خلاف ورزی کی جائے تو محض زبانی شہادت کے ساتھ فرض اعمال کی ادائیگی قطعی بے فائدہ رہتی ہے۔

جب ایک شخص اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ ’’کوئی الٰہ نہیں سوائے ﷲ کے اور یہ کہ محمد ﷺ ﷲ کے رسول ہیں‘‘ تو اس شاہدت کا پہلا لازمی تقاضا یہ ہو جاتا ہے کہ وہ غیر ﷲ پر ایمان اور ان کی بندگی و عبادت یعنی شرک سے اجتناب کرے‘ اس کا دوسرا لازمی تقاضا یہ ہو جاتا ہے کہ وہ ﷲ کی بندگی پہ قائم ہو جائے اور اس کی بندگی کے اعمال (اعمالِ صالح) بجا لائے اور اس کا تیسرا لازمی تقاضا یہ ہو جاتا ہے کہ وہ غیر ﷲ کی بندگی سے اجتناب اور ﷲ کی بندگی پہ اقامت صرف اس طریقے پہ اختیار کرے جو محمد ﷺ نے بتایا ہے۔ جو لوگ اپنی شہادت کے مطابق عمل نہیں کرتے وہ ﷲ تعالیٰ کے ذیل کے ارشادات کی زد میں آ جاتے ہیں کہ:۔

’’ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّوْرَ ط خُذُوْا مَا اٰتَیْنَکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا ط قَالُوْ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ق وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْل بِکُفْرِھِمْ ط قُلْ بِئْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہٖ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ اور جب ہم نے تم (بنی اسرائیل) سے عہد لیا تھا اور تمہارے اوپر طور کو اٹھا رکھا تھا (اور حکم دیا تھا) کہ پکڑے رہو اس کتاب کو مضبوطی سے جو ہم نے تمہیں دی ہے اور سنو۔ انہوں نے کہا سن تو لیا ہم نے مگر مانیں گے نہیں اور رچ بس گیا تھا ان کے دلوں میں بچھڑا ہی ان کے کفر کے سبب۔ تم کہہ دو بہت ہی برے ہیں وہ کام جن کے کرنے کا تمہارا ایمان تمہیں حکم دیتا ہے اگر تم واقعی مومن ہو تو‘‘۔
(البقرہ: 93)

’’ وَیَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مِّنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَا اُوْلٰئِکَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ﷲ پر اور رسول پر اور ہم نے اطاعت قبول کی پھر ان میں سے ایک گروہ منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہر گز مومنوں کے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔
(النور: 47)

’’ یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ‘‘۔
’’ اے ایمان والو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ﷲ کو سخت ناپسند ہے یہ کہ تم کہو وہ بات جو کرو نہیں‘‘۔
(الصف:2‘ 3)

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شہادت کا اوّلین اور اہم ترین تقاضا غیر ﷲ کی بندگی سے اجتناب کرنا!​

شہادت کے مذکورہ بالا تینوں تقاضے اپنی اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ان میں سب سے نازک‘ اہم اور دوسرے تقاضوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لینے والا تقاضا پہلا ہے یعنی غیرﷲ کی بندگی سے اجتناب کرنا۔ کوئی شخص توحید و رسالت کی شہادت کے بعد ﷲ کی بندگی کے اعمال و افعال بھی ادا کرتا ہے اور اس کیلئے نبی ﷺ کا طریقہ بھی اختیار کرتا ہے مگر ساتھ غیرﷲ کی بندگی (شرک) میں بھی مبتلا ہوتا ہے تو شہادت کے باوجود اس کے ﷲ کی بندگی کے اعمال و افعال ضائع ہو جاتے ہیں اور وہ خسارے میں پڑ جاتا ہے اور ہمیشہ کیلئے جہنم میں چلا جاتا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔


’’ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکْ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘۔
’’بیشک تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئوں کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائو گے‘‘۔
(الزمر:65)

’’ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰہُ النَّارُ ط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ‘‘۔
’’جس نے ﷲ کے ساتھ شرک کیا اس پر ﷲ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔
(المائدہ: 72)

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَرُمَ مَالُہٗ وَدَمُہٗ وَحِسَابُہٗ عَلَی اللہِ‘‘۔
’’ جو لا الہ الا ﷲ کا اقرار کرے اور ﷲ کے سوا جس جس کی عبادت کی جاتی ہے اس سے کفر کرے تو اس کی جان اور مال محفوظ ہو گئے البتہ اس کا حساب و کتاب ﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔
(مسلم‘ کتاب الایمان‘ ابی مالک عن ابیہ رضی اللہ عنہ)

غیرﷲ کی بندگی چھوڑنے کے بعد ﷲ کے ہاں حساب و کتاب اس کی اپنی بندگی ہی کا ہو سکتا ہے اور اگر ﷲ کی بندگی میں شرک شامل نہ ہو تو ﷲ اپنی بندگی میں ہونے والے جتنے بھی گناہوں وہ سب معاف کر سکتا ہے‘ اگر وہ چاہے تو جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰی اِثْمًا عَظِیْمًا ‘‘۔
’’ بیشک ﷲ تعالیٰ شرک ہی کو معاف نہیں کرتا اس کے سوا ہر گناہ معاف کر سکتا ہے جس کیلئے چاہے اور جس نے ﷲ کے ساتھ شرک کیا‘ اس نے بہت ہی بڑے گناہ کا ارتکاب کیا‘‘۔
(النساء: 48)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اصل دین! ﷲ پر ایمان کے ساتھ غیرﷲ کی بندگی چھوڑنا اور صرف ﷲ کی بندگی اختیار کرنا

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ قُلْ یَاٰ اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنَ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ ج صلے وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ج وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘۔
’’ کہو کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے تو (سُن لو کہ) میں اُں کی بندگی نہیں کرتا جن کی تم ﷲ کے علاوہ بندگی کرتے ہو بلکہ میں تو صرف اس ﷲ کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں فوت کرتا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے ہو جاؤں اور یہ کہ میں ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت جما دوں اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤں‘‘۔
(یونس:104‘ 105)

شہادت کا اوّلین اور اہم ترین تقاضا غیرﷲ کی بندگی سے اجتناب کرنا ہے تو آیت بالا کی بناء پر ’’اصل دین‘‘ بنیادی طور پر ’’غیرﷲ بندگی سے اجتناب کرتے ہوئے صرف ﷲ کی بندگی اختیار کرنا اور ساتھ ﷲ پہ ایمان رکھنا‘‘ قرار پاتا ہے۔

آیتِ بالا سے اصل دین سامنے آنے کے بعد محمد ﷺ پر ایمان لانا اور بندگی کے حوالے سے آپ کا طریقہ اختیار کرنا اسی ’’اصل دین‘‘ کا وضاحتی حصہ قرار پاتا ہے۔

آیتِ بالا سے جہاں غیرﷲ کی بندگی سے اجتناب کرتے ہوئے صرف ﷲ کی بندگی اختیار کرنا دین کی اصل میں سے قرار پاتا ہے وہیں ساتھ ﷲ پہ ایمان لانا اس اصل دین کا حصہ قرار پاتا ہے اس سے (ایمان کے ساتھ عمل کے لازمی ہونے کی طرح) عمل کے ساتھ ایمان کے لازم ہونے کا معاملہ سامنے آتا ہے۔

۔
 
Top