• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلے کرنا انبیاء کی بنیادی خصوصیت رہی ہے اور ﷲ کی وحی کو چھوڑ کے فیصلے کرنا طاغوت کی بنیادی خصوصیت ہے اور ان فیصلوں کو دوسروں پہ بزور نافذ کرنا ایک اضافی خصوصیت ہے جو فیصلے کرنے والے کو کبھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی حاصل نہیں ہوتی مگر فیصلے کرنے والوں کی مذکورہ اضافی خصوصیت کے علاوہ ایک خصوصیت ’’لوگوں کا (اپنے اوپر طاری کسی زور زبردستی کی حالت کے بغیر) اپنی مرضی سے انبیاء یا طواغیت کے پاس فیصلوں کیلئے حاضر ہونا اور ان فیصلوں کو اپنی مرضی سے خود اپنے اوپر نافذ کرنا ہے۔

لوگ جب نبی کی اطاعت اختیار کرتے ہیں اور اس کے دست و بازو بنتے ہیں تو یہ چیز بنی کو عملاً بااختیار بناتی ہے اور یہی چیز جب کسی طاغوت کو حاصل ہوتی ہے تو اسے بزور فیصلے نافذ کرنے کے قابل بناتی ہے ورنہ اگر بمطابق وحی یا بغیر وحی فیصلے کرنے کی خصوصیت کی بجائے انہیں بزور نافذ کرنے کی کیفیت ہی کسی شخص کے نبی یا طاغوت ہونے کی نشانی ہوتی تو یہ کیوں کہا جاتا کہ:۔

’’ لَا اِکْراہَ فِیْ الدَّیْنِ قف لا قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ ویُؤْمِنْ م بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی‘‘۔
’’ دین میں کوئی زور و زبردستی نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ واضح کر دی گئی ہے پس جس نے طاغوت سے کفر کیا اور ﷲ پر ایمان ایا وہ ایک مضبوط سہارے سے وابستہ ہو گیا‘‘۔
(البقرہ: 256)

’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلاً م بَعِیْدًا o وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘۔
’’ چاہتے یہ ہیں کہ فیصلہ کروانے کیلئے طاغوت کے پاس جائیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے‘ شیطان انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو ﷲ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف آنے سے اپنے آپ کو سختی سے روکتے ہیں‘‘۔
(النساء: 60‘ 61)۔

اوپر پہلی آیت سے بھی صاف واضح ہوتا ہے کہ طاغوت سے کفر کرنے والا اس کی کسی بھی زور زبردستی سے محفوظ اور اس سے کفر کرنے کیلئے آزاد ہے۔ دوسری آیت میں ’’یریدون‘‘ (چاہتے یہ ہیں) کے الفاظ سے بھی صاف واضح ہو رہا ہے کہ جانے والا طاغوت کے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے جا رہا ہے ‘ طاغوت زور زبردستی نہیں کر رہا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
عدالتی فیصلہ ہو یا کوئی فلسفہ ‘ نظریہ‘ طریقہ‘ فتویٰ‘ حکم‘ قانون اور نظام زندگی وغیرہ یہ سب کسی فیصلے پر پہنچنے کے بعد ہی جاری کئے جاتے ہیں پھر فیصلہ کرنے والے کیلئے ضروری نہیں کہ وہ لازماً اقتدار کا مالک ہو یوں ہر وہ شخص طاغوت قرار پاتا ہے جو ﷲ کی وحی کی بجائے اھواء کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کی بنا پر حکم‘ قانون‘ عدالتی فیصلہ‘ فتویٰ‘ فلسفہ‘ نظریہ‘ طریقہ و نظام زندگی وغیرہ جاری کرے خواہ وہ والدین میں سے کوئی ہو یا قبیلے کا سردار ہو‘ ملک کا حکمران ہو یا کوئی قانون ساز و قاضی ہو‘ پارٹی کا سربراہ ہو یا علاقے کا سرپنچ ہو‘ عالم و مفتی ہو یا کوئی پیر و درویش ہو یا کوئی بھی اور شخص ہو۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ والدین طاغوت نہیں ہو سکتے ! یقینا تمام والدین اپنے بچوں کیلئے طاغوت نہیں ہو سکتے لیکن جو والدین اپنے بچوں کو ﷲ کے ساتھ شرک کا حکم دیں اور انہیں مسلمان سے عیسائی‘ یہودی یا مجوسی بنا دیں اپنے اس طغیٰ کی بنا پر ان کے طاغوت ہونے میں کیا شک و شبہ رہ جاتا ہے۔ ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَالِیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا‘‘۔
’’ اور اگر وہ (والدین) تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک ٹھہرائے جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کرو‘‘۔
(العنکبوت:8)

’’ مَامِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ قَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَ انِہِ اَوْیُنَصِّرَانِہِ اَوْیُمَجِّسَانِہِ‘‘۔
’’ہر ایک بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘۔
(بخاری‘ کتاب التفسیر‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اھواء کی اطاعت کرانا، ﷲ کی راہ سے روکنا ہے۔
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لِیَأکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ‘‘۔
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! حقیقت یہ ہے کہ علماء اور پیروں میں سے اکثر‘ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں ﷲکی راہ سے روکتے ہیں‘‘۔
(التوبہ :34)

قرآن میں سبیل یعنی راہ ایسی چیز کے طور پر ذکر ہوئی ہے جس کی اطاعت و اتباع کی جائے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلَنَجْمِلْ خَطٰیٰکُمْ‘‘۔
’’ اور کہتے ہیں یہ کافر ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں کہ تم ہماری راہ کی اتباع کرو ہم تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھالیں گے‘‘۔
(العنکبوت:12‘13)۔

ﷲ کی طرف سے واجب الاطاعت و اتباع بنائی گئی چیز ﷲ کا حکم اور اس کی وحی ’’کتاب و سنت‘‘ ہے یوں یہی سبیل ﷲ ہے۔ اس بنا پر ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے ’’ﷲ کی اطاعت میں رہنا‘‘ مراد پاتا ہے‘ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ سے ﷲ کی اطاعت میں جہاد کرنا مراد پاتا ہے اور ’’صدو عن سبیل اللہ‘‘ سے ﷲ کی اطاعت سے روک دینا مراد پاتا ہے۔ اس کے مقابل اھواء لوگوں کی طرف سے واجب الاتباع بنائی گئی چیز ہے‘ یہی لوگوں کی راہ ہے اور اس کی اتباع لوگوں کی راہ کی اتباع ہے۔

جب کوئی شخص لوگوں سے اپنی اہواء کی اطاعت کرواتا ہے تو یوں وہ انہیں اپنی راہ پہ لگاتے ہوئے دو طرح سے ﷲ تعالیٰ کی راہ سے روک رہا ہوتا ہے۔

1۔ جب وہ ﷲ کی وحی کی بجائے اپنی اہواء کی اطاعت کرواتا ہے تو یوں انہیں ﷲ کی راہ سے روک رہا ہوتا ہے۔

2۔ جب وہ ﷲ کی اطاعت کرنے والے سے ساتھ اپنی اطاعت (شرک) بھی کرواتا ہے تو یوں بھی اسے ﷲ کی راہ سے روک رہا ہوتا ہے کیونکہ ﷲ نے اسے ایسی عبادت کرنے سے منع بھی کیا ہے پھر ﷲ کو اپنی ایسی شرک آمیز اطاعت قبول بھی نہیں ہے۔

جب ایک شخص لوگوں کو اپنی راہ پہ لگا رہا ہوتا ہے تو یوں وہ حقیقت میں ﷲ تعالیٰ کے مقابل خود لوگوں کا رب بن رہا ہوتا ہے جیسا کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی بجائے کسی کی اطاعت کرتے ہیں وہ اسے ﷲ تعالیٰ کے مقابل اپنا رب بنا رہے ہوتے ہیں جیسا کہ اہل کتاب کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ‘‘۔
’’ انہوں نے اپنے علماء اور پیروں کو ﷲ کے سوا اپنا رب بنا لیا تھا‘‘۔
(التوبہ:31)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
طاغوت! غیرﷲ کی بندگی کا پیشوا۔

رسول اﷲﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ قَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ اَوْیُنَصِّرَانِہِ اَوْ یُمَجِّسَانِہِ کَمَا تُنْتَجْ الْبَہِیْمَۃً جَمْعَائَ ھَلْ تُحِسُوْنَ فِیْہَا مِنْ جَدْعَائَ ثُمَّ یَقُوْلُ
{فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ}‘‘
۔
’’ ہر ایک بچہ فطرت (اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی‘ نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے تم دیکھتے ہو کہ ہر ایک چوپائے جانور کا بچہ پورے بدن کا پیدا ہوتا ہے ‘ کہیں تم نے دیکھا ہے کوئی بچہ کن کٹا پیدا ہوا ہو؟
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :ترجمہ
(قائم ہو جائو) اس فطرت پر جس پر ﷲ نے انسانوں کو پیدا کیا‘ ﷲ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل نہیں ہو سکتی یہی دین قیم ہے‘‘۔
(الروم: 30)

حدیث بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کسی کی تبدیلی مذہب کے ذمہ دار اس کے والدین ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ والدین ایسا ’’ﷲ کی وحی کی بجائے اپنی اھواء کی اطاعت‘‘ ہی کی بنا پر کراتے ہیں پھر کتاب و سنت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے سرداراور حکمران وغیرہ بھی لوگوں کو اپنی اھواء کی اطاعت میں مبتلا کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص جب لوگوں کو ﷲ کی وحی کی بجائے اپنی اھواء کی اطاعت پہ لگا لیتا ہے تو وہ محض ایسا کر لینے ہی کی بنا پر طاغوت قرار پا جاتا ہے‘ اب اپنی اھواء کی اطاعت میں آگے بڑھتے ہوئے وہ لوگوں سے خود اپنے آپ کو سجدہ بھی کرا سکتا ہے اور کسی اور انسان ‘ بت یا قبر وغیرہ کو بھی‘ پھر وہ لوگوں کو اپنے علاوہ دیگر غیرﷲ کے اھواء سے وضع کردہ فلسفوں‘ نظریات‘ قوانین و نظام ہائے زندگی وغیرہ کی اطاعت کرنے‘ ان سے حاجتیں مانگنے اور ان کے سامنے دیگر افعال عبادت ادا کرنے پر بھی لگا سکتا ہے اور یہ سب کچھ وہ اپنی اھواء کی اطاعت ہی کی بنا پر کرواتا ہے یوں اس کا اپنی اھواء کی اطاعت کروانا اسے ’’خود اس کے سمیت دیگر غیرﷲ کی بندگی‘‘ کا پیشوا بنا دیتا ہے جیسا کہ فرعون‘ اس کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’وَقَالَ الْمَلَائُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُمُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِھَتَکَ ط قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَائَ ھُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَائَ ھُمْ ج وَاِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ‘‘۔
’’ اور کہا قومِ فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کیا تو چھوڑ دے گا ‘ موسیٰ اور اس کی قوم کو کہ وہ فساد مچائیں زمین میں اور چھوڑ دیں تجھے اور تیرے الٰہوں کو؟ فرعون نے کہا ہم ضرور قتل کروائیں گے‘ ان کے بیٹوں کو اور زندہ رکھیں گے ان کی عورتوں کو اور یقینا ہمیں ان کے اوپر اقتدار حاصل ہے۔
(الاعراف:127)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطُنٍ مُبِیْنٍ o اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِہٖ فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ ج وَمَآ اَمْرُفِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ o یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ ط وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ‘‘۔
’’ اور موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی سندِ ماموریت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا قیامت کے روز وہ اپنی قوم کی پیشوائی کرے گا اور انہیں جہنم کی طرف لے جائے گا اور بہت ہی برا ہے وہ مقام جہاں وہ اتارے جائیں گے‘‘۔
( ہود: 97‘ 98)

طاغوت غیرﷲ کی بندگی کا پیشوا ہوتا ہے تو وہ قیامت کے دن نہ صرف یہ کہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسے ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا جنہیں اس نے غیرﷲ کی بندگی میں مبتلا کیا تھا۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلَنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ط وَمَا ھُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰھُمْ مِّنْ شَیْئٍ ط اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ o وَلَیَحْمِلُنَّہ اتقالھم واثقالاً مع اثقالھم ز ولیسئلن یوم القیمۃ عما کانوا یفترون‘‘۔
’’ اور کہتے ہیں یہ کافر ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں کہ تم ہماری راہ کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھالیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے والے نہیں ہیں‘ وہ قطعاً جھوٹے ہیں اور البتہ ضرور اٹھائیں گے وہ اپنے بوجھ اور کچھ مزید بوجھ اپنے بوجھوں کے ساتھ اور ضرور باز پُرس ہو گی‘ ان سے قیامت کے دن اس جھوٹ کی جو وہ گھڑتے رہے ہیں‘‘۔
(العنکبوت: 12‘ 13)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
سرغنہِ طواغیت ’’ شیطان‘‘

دنیا میں طواغیت بہت سی قسموں کے ہیں مگر ان سب کا سرغنہ شیطان ہے جس نے انسان کی تخلیق کے وقت سے اسے ﷲ کی بندگی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کا عہد کیا تھا اور انسانوں کی کثیر تعداد کو اس راہ سے ہٹا کر گمراہ کر دیا۔ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ الذین امنوا یقتلون فی سبیل ﷲ ج والذین کفروا یقتلون فی سبیل الطاغوت فقاتلوا اولیآء الشیطن ج ان کید الشیطن کان ضعیفا‘‘۔
’’ جو لوگ ایمان والے ہیں ﷲ کی راہ میں قتال کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں قتال کرتے ہیں‘ پس ان شیطان کے ساتھیوں (کفار طواغیت) سے قتال کرو بے شک شیطان کی چال نہایت کمزور ہے‘‘۔
(النساء: 76)

’’ اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِی آدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوْا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ o وَلَقَدْ اَضَّلَ مِنْکُمْ جِبِلاًّ کَثِیْرًا اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ o ھٰذِہٖ جَہَنَّمُ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘‘۔
’’ اے بنی آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے مگر اس کے باوجود اس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کر دیا کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے؟ یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا تھا جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو۔
(یٰس: 60‘ 63)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
طاغوت سے کفر! ہر غیرﷲ سے کفر پر منتج ہوتا ہے۔

انسان غیرﷲ کی بندگی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ ایسا اکثر اپنے ایسے والدین‘ بزرگوں‘ سرداروں اور دنیاوی حکمرانوں وغیرہ کی اطاعت کی بنا پر ہوتا ہے جو اھواء سے فیصلے کرتے ہیں (اسی کی بنا پر یہ لوگ طاغوت قرار پاتے ہیں) ۔ اپنے اھوائی فیصلوں کی بنا پر ہی وہ اپنے علاوہ دیگر غیرﷲ کی بندگی کا حکم کرتے ہیں۔ پھر شیطان بھی انسان کو ’’صرف ایک ﷲ کی بندگی‘‘ کی سیدھی راہ سے بھٹکانے میں ان کی معاونت کرتا ہے مگر جب انسان ان طواغیت اور شیطان کی اطاعت ہی سے انکار کر دیتا ہے تو اس کا یہ انکار دیگر ہر غیرﷲ کی عبادت اس انکار پر منتج ہوتا ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرْطًا‘‘۔
اور کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی اھواء کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔

غیرﷲ کی بندگی کا حکم دینے والے والدین کا معاملہ دوسرے طواغیت سے قدرے مختلف ہے‘ ان کے ﷲ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے حکم کی اطاعت تو نہیں کی جائے گی البتہ ان سے نیک سلوک جاری رہے گا (جب تک کہ وہ اسلام کے خلاف جنگ کیلئے ہی کھڑے نہ ہو جائیں۔
(وﷲ اعلم)

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘‘۔
’’ اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک ٹھہرائے جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کرو‘ تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے پھر میں تمہیں بتائوں گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو‘‘۔
(العنکبوت:8)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
طاغوت سے کفر کرنے کی صورتیں

کتاب و سنت سے اس کی درج ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں:۔

الف: طاغوت کو باطل ماننا:

یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ طاغوت باطل ہے اور اس میں کسی قسم کا شک نہ کرنا۔

ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ھُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللہَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ‘‘۔
’’ یہ (اس لئے کہ) درحقیقت ﷲ ہی حق ہے اور یہ کہ جن کو یہ ﷲ کے سوا پکارتے ہیں درحقیقت وہ باطل ہیں اور یہ کہ درحقیقت ﷲ ہی بالا دست اور بہت بڑا ہے‘‘۔
(الحج:62)

’’ فَلَاتَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ھَئُولَآء‘‘۔
’’ تم ان کے (باطل ہونے کے) حوالے سے کسی قسم کے شک میں نہ رہو جن کی یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں‘‘۔
(ھود:109)

’’اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھَؤُلَائِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا o اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللہُ وَمَنْ یَّلْعَنِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا‘‘۔
’’ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دے دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والے سے تو یہی زیادہ سیدھے راستے پر ہیں‘ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر ﷲ نے لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی حامی و مددگار نہ پائو گے‘‘۔
(النساء: 51‘ 52)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
ب۔ طاغوت کی عبادت سے اجتناب کرنا۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَا بُوْا اِلَی اللہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی‘‘۔
’’ اور جن لوگوں نے طاغوت سے اجتناب کر لیا کہ اس کی عبادت کریں اور ﷲ کی طرف رجوع کر لیا ان کیلئے خوشخبری ہے‘‘۔
(الزمر:17)

طاغوت کی عبادت سے اجتناب سے ایک مراد اس سے راہنمائی لینے‘ اس کی طرف حاکمیت (احکامات‘ قوانین اور فیصلوں) کیلئے رجوع کرنے اور اس کی راہنمائی اور حاکمیت کی ’’اتباع و اطاعت‘‘ سے اجتناب کرنا ہے جو غیرﷲ کی بندگی کی بنیاد ہے اس کے علاوہ عبادت کے دیگر ہر فعل کے حوالے سے بھی اس کی عبادت سے اجتناب کرنا شامل ہے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اگر دل کی رضامندی اور دنیا کے فوائد حاصل کرنے کیلئے طواغیت کی عبادت مثلاً ان کی راہنمائی و حاکمیت کی اتباع و اطاعت کرتے ہیں تو ان کا ایسا کرنا ﷲ کے ساتھ شرک کرنا ہے لیکن کوئی شخص طواغیت کے ظلم و ستم کی بنا پر یعنی حالتِ اِکرہ کا شکار ہونے پر طواغیت کی اطاعت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کیلئے کیا حکم ہے؟

اس حوالے سے ہمیں ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ذیل کے ارشادات سے راہنمائی ملتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنَّ بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘‘۔
’’ جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے اگر اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر قبول اس پر ﷲ کا غضب ہے اور اس کیلئے عذاب عظیم ہے‘‘۔
(النحل:106)

درج بالا آیت سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جو دل سے ایمان پر راضی ہو مگر اس سے زبردستی (حالتِ اِکرہ میں مبتلا کر کے) کفر کروایا گیا ہو تو اس کا کفر کا ظاہری عمل حقیقتاً کفر کا عمل نہیں کہلائے گا اور اس کیلئے معافی کی امید ہے (وﷲ اعلم) لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ آیتِ بالا میں کفر کا ذکر ہوا ہے شرک کا نہیں جبکہ شرک کے حوالے سے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ شَیْئًا وَّاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ‘‘۔
’’ تم شرک نہ کرنا خواہ تم قتل کر دئیے جائو یا زندہ جلا دئیے جاؤ‘‘۔
(طبرانی ‘ معاذ رضی اللہ عنہ )

حدیثِ بالا سے سمجھ میں آتا ہے کہ زور زبردستی کی حالت میں اگر شرک کا معاملہ درپیش ہو تو جان سے گزر جانا چاہئے لیکن شرک میں مبتلاء نہیں ہونا چاہئے۔
(وﷲ اعلم)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
ج۔ طاغوت اور اس کے بندوں سے بے زاری ‘ عداوت اور دشمنی رکھنا مگر جنگ نہ کرنے اور بے گھر نہ کرنے والوں سے حسنِ سلوک اور انصاف کرنا:

طاغوت سے کفر و اجتناب کی اس کیفیت کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَئٰ ؤُامِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَائُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗ ‘‘۔
’’ تمہارے لئے ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور ان سے جن کو تم ﷲ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں‘ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم ﷲ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘۔
(الممتحنہ:4)

آیتِ بالا سے طاغوت اور اس کے عبادت گزروں سے بے زاری‘ عداوت اور دشمنی رکھنے کا عمومی حکم سامنے آتا ہے مگر اسی سورہ میں اس آیت سے تھوڑا آگے چل کر یہ تخصیص بھی سامنے آتی ہے کہ طواغیت اور ان کے بندوں میں سے جن لوگوں نے اہل ایمان سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور انہیں ان کے گھروں سے نہیں نکالا اور نہ ہی نکالنے والوں کی مدد کی تو ﷲ ایسے کفار سے اچھا سلوک کرنے اور ان سے انصاف سے پیش آنے سے اہل ایمان کو منع نہیں کرتا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’لَا یَنْھٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّن دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَیْھِمْ اِنَّ اللہَ یُحِبُ الْمُقْسِطِیْنَo اِنَّمَا یَنْھُکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَتْلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ‘‘
’’ نہیں منع کرتا تم کو ﷲ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے اچھا سلوک کرو اور ان سے انصاف کا برتائو کرو‘ بیشک ﷲ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘ البتہ منع کرتا ہے تم کو ﷲ ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تم کو تمہارے گھرون سے نکالا اور مدد کی ایک دوسرے کی تمہارے نکالنے میں کہ تم ان سے دوستی کرو اور جوان سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں‘‘۔
(الممتحنہ: 8‘ 9)
۔
 
Top