محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۔
ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلے کرنا انبیاء کی بنیادی خصوصیت رہی ہے اور ﷲ کی وحی کو چھوڑ کے فیصلے کرنا طاغوت کی بنیادی خصوصیت ہے اور ان فیصلوں کو دوسروں پہ بزور نافذ کرنا ایک اضافی خصوصیت ہے جو فیصلے کرنے والے کو کبھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی حاصل نہیں ہوتی مگر فیصلے کرنے والوں کی مذکورہ اضافی خصوصیت کے علاوہ ایک خصوصیت ’’لوگوں کا (اپنے اوپر طاری کسی زور زبردستی کی حالت کے بغیر) اپنی مرضی سے انبیاء یا طواغیت کے پاس فیصلوں کیلئے حاضر ہونا اور ان فیصلوں کو اپنی مرضی سے خود اپنے اوپر نافذ کرنا ہے۔
لوگ جب نبی کی اطاعت اختیار کرتے ہیں اور اس کے دست و بازو بنتے ہیں تو یہ چیز بنی کو عملاً بااختیار بناتی ہے اور یہی چیز جب کسی طاغوت کو حاصل ہوتی ہے تو اسے بزور فیصلے نافذ کرنے کے قابل بناتی ہے ورنہ اگر بمطابق وحی یا بغیر وحی فیصلے کرنے کی خصوصیت کی بجائے انہیں بزور نافذ کرنے کی کیفیت ہی کسی شخص کے نبی یا طاغوت ہونے کی نشانی ہوتی تو یہ کیوں کہا جاتا کہ:۔
’’ لَا اِکْراہَ فِیْ الدَّیْنِ قف لا قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ ویُؤْمِنْ م بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی‘‘۔
’’ دین میں کوئی زور و زبردستی نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ واضح کر دی گئی ہے پس جس نے طاغوت سے کفر کیا اور ﷲ پر ایمان ایا وہ ایک مضبوط سہارے سے وابستہ ہو گیا‘‘۔
(البقرہ: 256)
’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلاً م بَعِیْدًا o وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘۔
’’ چاہتے یہ ہیں کہ فیصلہ کروانے کیلئے طاغوت کے پاس جائیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے‘ شیطان انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو ﷲ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف آنے سے اپنے آپ کو سختی سے روکتے ہیں‘‘۔
(النساء: 60‘ 61)۔
اوپر پہلی آیت سے بھی صاف واضح ہوتا ہے کہ طاغوت سے کفر کرنے والا اس کی کسی بھی زور زبردستی سے محفوظ اور اس سے کفر کرنے کیلئے آزاد ہے۔ دوسری آیت میں ’’یریدون‘‘ (چاہتے یہ ہیں) کے الفاظ سے بھی صاف واضح ہو رہا ہے کہ جانے والا طاغوت کے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے جا رہا ہے ‘ طاغوت زور زبردستی نہیں کر رہا ہے۔
۔
ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلے کرنا انبیاء کی بنیادی خصوصیت رہی ہے اور ﷲ کی وحی کو چھوڑ کے فیصلے کرنا طاغوت کی بنیادی خصوصیت ہے اور ان فیصلوں کو دوسروں پہ بزور نافذ کرنا ایک اضافی خصوصیت ہے جو فیصلے کرنے والے کو کبھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی حاصل نہیں ہوتی مگر فیصلے کرنے والوں کی مذکورہ اضافی خصوصیت کے علاوہ ایک خصوصیت ’’لوگوں کا (اپنے اوپر طاری کسی زور زبردستی کی حالت کے بغیر) اپنی مرضی سے انبیاء یا طواغیت کے پاس فیصلوں کیلئے حاضر ہونا اور ان فیصلوں کو اپنی مرضی سے خود اپنے اوپر نافذ کرنا ہے۔
لوگ جب نبی کی اطاعت اختیار کرتے ہیں اور اس کے دست و بازو بنتے ہیں تو یہ چیز بنی کو عملاً بااختیار بناتی ہے اور یہی چیز جب کسی طاغوت کو حاصل ہوتی ہے تو اسے بزور فیصلے نافذ کرنے کے قابل بناتی ہے ورنہ اگر بمطابق وحی یا بغیر وحی فیصلے کرنے کی خصوصیت کی بجائے انہیں بزور نافذ کرنے کی کیفیت ہی کسی شخص کے نبی یا طاغوت ہونے کی نشانی ہوتی تو یہ کیوں کہا جاتا کہ:۔
’’ لَا اِکْراہَ فِیْ الدَّیْنِ قف لا قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ ویُؤْمِنْ م بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی‘‘۔
’’ دین میں کوئی زور و زبردستی نہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ واضح کر دی گئی ہے پس جس نے طاغوت سے کفر کیا اور ﷲ پر ایمان ایا وہ ایک مضبوط سہارے سے وابستہ ہو گیا‘‘۔
(البقرہ: 256)
’’ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلاً م بَعِیْدًا o وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘۔
’’ چاہتے یہ ہیں کہ فیصلہ کروانے کیلئے طاغوت کے پاس جائیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے‘ شیطان انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو ﷲ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف آنے سے اپنے آپ کو سختی سے روکتے ہیں‘‘۔
(النساء: 60‘ 61)۔
اوپر پہلی آیت سے بھی صاف واضح ہوتا ہے کہ طاغوت سے کفر کرنے والا اس کی کسی بھی زور زبردستی سے محفوظ اور اس سے کفر کرنے کیلئے آزاد ہے۔ دوسری آیت میں ’’یریدون‘‘ (چاہتے یہ ہیں) کے الفاظ سے بھی صاف واضح ہو رہا ہے کہ جانے والا طاغوت کے پاس اپنی آزادانہ مرضی سے جا رہا ہے ‘ طاغوت زور زبردستی نہیں کر رہا ہے۔
۔