• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
اس حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ایک اور ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘۔
’’ اور جس نے ایمان سے انکار کیا تو اس کا عمل ضائع ہو گیا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا‘‘۔
(المائدہ: 5)۔

آیتِ بالا سے اُن لوگوں (کفار) کی حقیقت واضح ہوتی ہے جو زندگی بھر لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرتے رہتے ہیں مگر ﷲ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت کی شہادت نہ دینے کی بنا پر ان کے یہ تمام اعمال ضائع چلے جاتے ہیں اور وہ آخرت میں خسارے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

جب کوئی شخص نبی ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس بات کی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ تو وہ ’’ایمان و عمل کے باہم لازم و ملزوم ہونے‘‘ کی بنا پر دراصل یہ تین نکاتی عہد کر رہا ہوتا ہے کہ!

1۔ اب سے میں ہر غیرﷲ کو الٰہ ماننے سے انکار (کفر) کرتا ہوں اور ہر غیرﷲ کی بندگی/ عبادت سے انکار کرتا ہوں۔

2۔ صرف ﷲ کو الٰہ مانتا ہوں اور صرف ﷲ کی عبادت پر قائم ہوتا ہوں۔

3۔ محمد ﷺ کو ﷲ کا رسول مانتا ہوں اور غیرﷲ سے انکار‘ ﷲ پر ایمان اور اس کی عبادت پر ویسے کاربند ہوتا ہوں جیسے محمد رسول ﷲ ﷺ نے بتایا ہے۔

آئندہ تین ابواب میں کتاب و سنت کی روشنی سے انہی تین نکات کو مزید واضح کیا گیا ہے تا کہ اس ایمان کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے جو ﷲ تعالیٰ کو مطلوب ہے اور جس کے میسر آنے پہ ﷲ تعالیٰ کا سہارا اور اس کی مدد میسر آتی ہے۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب دوئم:

غیرُ ﷲ کو الٰہ نہ ماننا اور ان کی عبادت نہ کرنا

ﷲ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی بندگی و عبادت کیلئے یہ اوّلین اور اہم ترین چیز ہے۔ کسی شخص کا ﷲ پر ایمان اور اس کی بندگی ﷲ کے ہاں قابلِ قبول نہیں اور اسے ﷲ کا سہارا اور اس کی مدد میسر نہیں آتی جب تک وہ غیر ﷲ کو الٰہ ماننے اور ان کی عبادت کرنے سے کفر نہ کر لے اور اس میں اوّلین چیز طاغوت سے کفر کرنا ہے جو غیر ﷲ کی بندگی کا پیشوا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ﷲ کا سہارا پانے کیلئے اوّلین شرط
طاغوت سے کُفر کے ساتھ ﷲ پر ایمان

ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لاَ انْفِصَامَ لَھَا ط وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰئُھُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ‘‘۔
’’ پس جس نے طاغوت سے کفر کیا اور ﷲ پر ایمان لایا وہ ایک مضبوط سہارے سے یوں وابستہ ہو گیا کہ کبھی اس سے جدا کیا جانے والا نہیں اور ﷲ سنتا و جانتا ہے۔ ﷲ ان کا ولی (سرپرست‘ حامی و مددگار) ہو جاتا ہے جو ایمان لے آتے ہیں‘ وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لے آتا ہے اور جو انکار کرتے ہیں طاغوت ان کے ولی ہوتے ہیں جو انہیں روشنیوں سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں‘ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
(البقرہ: 256‘ 257)

آیاتِ بالا سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ﷲ کا مضبوط سہارا صرف اس شخص کو میسر آتا ہے جو طاغوت سے کفر کرنے (طاغوت کو ردّ (Reject) کرنے) کے ساتھ ﷲ پر ایمان لائے اس سے ’’طاغوت سے کفر کرنا‘‘ ﷲ پر ایمان کی بنیادی اور اوّلین شرط قرار پاتا ہے۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پھر ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﷲ ان کا ولی ہو جاتا ہے جو ایمان لے آتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول ایمان وہی ہے جس میں طاغوت سے کفر کی شرط پوری کی گئی ہو اور ایسا ایمان رکھنے والوں ہی کا ﷲ ولی ہوتا ہے ورنہ جس ایمان میں طاغوت سے کفر کی شرط پوری نہ کی گئی ہو بلکہ ساتھ ساتھ طاغوت پر ایمان اور اس کی عبادت بھی شامل ہو ﷲ تعالیٰ کو وہ ایمان قبول ہی نہیں کجا کہ ایسا ایمان رکھنے والوں کا ’’وہ‘‘ ولی ہو جائے جبکہ ﷲ تعالیٰ ہر امت میں اس خاص مقصد کیلئے رسول بھیجتا رہا ہے کہ صرف ﷲ کی بندگی کی جائے اور طاغوت سے اجتناب کیا جائے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ‘‘۔
’’ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ صرف ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو‘‘۔
(النحل: 36)

جو لوگ طاغوت کی عبادت سے اجتناب اختیار کر کے ﷲ کی طرف رجوع کر لیتے ہیں ان کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
’’
وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَعْبُدُوْھَا وَاَنَا بُوْآ اِلَی اللہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی‘‘
’’ جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کر لیا اور ﷲ کی طرف رجوع کر لیا ان کیلئے خوشخبری ہے‘‘۔
(الزمر:17)۔

اوپر درج سورہ بقرہ کی آیات سے یہ بھی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ’’طاغوت سے کفر کے ساتھ ﷲ پر ایمان لانے‘‘ سے انکار کرنے والوں یعنی طاغوت کی اطاعت میں مبتلا ہو جانے والوں کے ولی طاغوت ہو جاتے ہیں جو انہیں نور ہدایت سے جہالت کے اندھیروں میں کھینچ لے جاتے ہیں ‘ یہ تو ان کا دنیا میں انجام ہے‘ آخرت میں ان کا انجام یہ ہے کہ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
طاغوت

قرآنِ مجید سے ’’طاغوت‘‘ اپنی بندگی کی حد سے تجاوز کر کے ﷲ کے مقابل خود بندوں کا الٰہ (رب و معبود) بن بیٹھے والے سرکش بندے کے طور پر سامنے آتا ہے جیسا کہ فرعون۔ اس کے بارے میں ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی‘‘۔
’’ جائو (اے موسیٰ علیہ السلام) فرعون کی طرف وہ سرکش ہو گیا ہے‘‘۔
(طٰہٰ: 24)

’’قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَا جَعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنِ‘‘۔
’’ اس (فرعون) نے (موسیٰ علیہ السلام سے) کہا اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو الٰہ بنایا تو میں تمہیں قیدیوں میں شامل کر دوں گا‘‘۔
(الشعراء:29)

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
طاغوت کی خاص نشانی!
’’ﷲ کی نازل کردہ وحی‘‘ کی بجائے
’’اھواء‘‘ سے فیصلے کرنا

ﷲ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ!

’’ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیِّنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ ص وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ‘‘۔
’’ انسان امتِ واحدہ تھے (پھر یہ صورت باقی نہ رہی اور افتراق رونما ہوا) پس ﷲ نے انبیاء بھیجے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی برحق تا کہ لوگوں کے مابین اس چیز کا فیصلہ کر دیں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں‘‘۔
(البقرہ:213)۔

’’ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرَۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا‘‘۔
’’ بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے‘ انبیاء جو کہ ﷲ کے فرمانبردار تھے‘ اسی کے مطابق ان لوگوں کیلئے فیصلے کیا کرتے تھے جو یہودی کہلائے‘‘
(المائدہ: 44)

’’ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ‘‘
’’ تم ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق ان کے مابین فیصلے کرو اور ان کی اہواء کی پیروی مت کرو‘ اس حق سے منہ موڑ کے جو تمہارے پاس آ چکا ہے‘‘۔
(المائدہ: 48)

اوپر پہلی دو آیات میں انبیاء ’’ﷲ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلے کرنے‘‘ کی خاص نشانی کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور آخری آیت میں ﷲ تعالیٰ نبی ﷺ اور اہل ایمان کو ﷲ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے اور اھواء کی اتباع سے منع کرتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ اھواء کے حوالے سے اس طرح کا حکم قرآن میں اور بہت سے مقامات پر بھی یہ حکم دے چکا ہے۔ کتاب و سنت سے دیکھا جانا چاہئے کہ ’’اھواء‘‘ سے کیا مراد ہے؟

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اھواء

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘۔
’’ اور وہ (نبی ﷺ) اپنی اھواء سے نہیں بولتے بلکہ یہ تو ایک وحی ہے جو آپ کی طرف بھیجی جا رہی ہے‘‘۔
(النجم:3‘4)

آیتِ بالا سے ’’اھواء‘‘ وحی کے مقابل و متضاد کے طور پر سامنے آتی ہے اور کتاب و سنت کے مزید مطالعے سے ’’اھواء‘‘ خالق کائنات ﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی‘‘ کو چھوڑ کے (اس وحی سے علاوہ اور اس سے دلیل لئے بغیر) واجب الاتباع بنائی جانے والی ہر اس بات کے طور پر سامنے آتی ہے جو مخلوق کی طرف سے پیش کی گئی ہو یوں مخلوق کی طرف سے خالق کی وحی کو چھوڑ کر پیش کئے جانے والے فلسفے‘ نظرئیے‘ طریقے‘ فتوے‘ احکامات‘ قوانین اور نظام ہائے زندگی وغیرہ ’’اھواء‘‘ قرار پاتے ہیں کیونکہ ﷲ کی نازل کردہ وحی (کتاب و سنت) کے علاوہ دنیا میں انہی کی اتباع کی جاتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ قَالُوْا سِحْرَانِ تَظَاھَرَا وقفہ قف وَقَالُوْا اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوْنَ o قُلْ فَأْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللہِ ھُوَ اَھْدٰی مِنْھُمَا اَتَّبِعْہُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَائَ ھُمْ ط وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہٗ بِغَیْرِ ھُدًی مِنَ اللہِ ط اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘
’’ ﷲ تعالیٰ ‘ انبیاء علیہ السلام اور دیگر اہلِ ایمان کی خاص نشانی ’’ﷲ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلے کرنا‘‘ بتاتا ہے۔ ﷲ انہیں اسی وحی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم بھی دیتا ہے اور اھواء کی پیروی سے منع کرتا ہے‘‘۔
(القصص: 48‘ 50)

تو اس کے برعکس طاغوت کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے کہ:۔

’’ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا o وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا‘‘۔
’’ تم نے دیکھا نہیں ان لوگون کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر جو تم سے پہلے نازل ہوا ہے مگر فیصلہ کروانے کیلئے طاغوت کے پاس جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں اس سے کفر کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر دور کی گمراہی میں لے جانا چاہتا ہے اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو ﷲ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف آنے سے اپنے آپ کو سختی سے روکتے ہیں‘‘۔
(النساء: 60‘ 61)
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
آیاتِ بالا میں ’’طاغوت‘‘ ایسے شخص کے طور پر ذکر ہوا ہے جس کے پاس لوگ ﷲ کی نازل کردہ وحی اور رسول (ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلہ کرنے والے) کو چھوڑ کر اپنے معاملات کے فیصلے کروانے کیلئے جاتے ہیں‘ یوں لامحالہ وہ شخص طاغوت قرار پاتا ہے جو ﷲ کی نازل کردہ وحی کی بجائے کسی اور بات کی اتباع میں (کے مطابق) فیصلے کرے اور یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ﷲ کی وحی کو چھوڑ کے واجب الاتباع بنائی جانے والی مخلوق کی باتیں (فلسفے‘ نظرئیے ‘ طریقے‘ فتوے‘ احکامات‘ قوانین و نظام ہائے زندگی وغیرہ) ’’اھواء‘‘ کہلاتی ہیں۔

فیصلے کے حوالے سے لوگوں کا ذہن عام طور پر فریقین کے مابین ہونے والے عدالتی قسم کے فیصلوں ہی کی طرف جاتا ہے لیکن کتاب و سنت میں عدالتی کیفیت کی بجائے عمومی کیفیت میں اختیار کئے گئے فیصلے کو بھی فیصلہ ہی کہا گیا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’اصطفی البنات علی البنین o مالکم قف کیف تحکمون‘‘۔
’’ کیا اس نے منتخب کیا ہے بیٹیوں کو بیٹوں پر؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ کیسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘۔
(الصفٰت:153‘ 154)

آیتِ بالا سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فیصلے سے صرف عدالتی فیصلہ ہی مراد نہیں ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کسی فلسفے ‘ نظرئیے (مثلاً ﷲ کی بیٹیاں ہیں) وغیرہ کو جس فکر کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے اسے بھی فیصلہ کہا گیا ہے۔

بعض لوگ فیصلہ کرنے والے کیلئے اقتدار و قوت کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں جس سے وہ فیصلے کو نافذ کر سکے اس بناء پر وہ طاغوت اسے ہی مانتے ہیں جو اقتدار وقوت رکھتا ہو اور اپنے ’’بغیر وحی‘‘ فیصلے نافذ بھی کرتا ہو اسی طرح ان کے نزدیک اہل ایمان کے مابین ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلے کرنے والا بھی وہی ہو سکتا ہے جو قوت و اقتدار کا مالک ہو اور اپنے ’’بمطابق وحی‘‘ فیصلے نافذ بھی کرتا ہو جبکہ قرآن سے حقیقت اس کے برعکس سامنے آتی ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
قرآن سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ﷲ نے تمام انبیاء بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تا کہ لوگوں کے مابین اس چیز کا فیصلہ کر دیں جس میں وہ اختلاف میں مبتلا ہوئے پھر قرآن ہی سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انبیاء میں سے بیشتر اقتدار تک نہ پہنچ سکے تھے۔ بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے بیشتر اقتدار تک نہ پہنچ سکے تھے۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کے بارے میں قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تورات کے مطابق ان کے معاملات کے فیصلے بھی کرتے رہے تھے اور حدیث بتاتی ہے کہ انبیاء ہی ان کی سیاست کیا کرتے تھے (جبکہ فیصلوں کی طرح سیاست کے حوالے سے بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بھی صرف اہل اقتدار ہی کا کام ہے) جیسا کہ قرآن و حدیث میں ہے کہ:۔

’’ اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَنُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَائَ ج فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنَ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَأوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ‘‘۔
’’ بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے ‘ انبیاء جو کہ ﷲ کے فرمانبردار تھے‘ اسی کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کے فیصلہ کیا کرتے تھے جو یہودی کہلائے اور درویش اور علماء بھی (اسی کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے) کیونکہ وہ کتاب ﷲ کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے‘ سو تم لوگوں سے مت ڈرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر معاوضے پر مت بیچو اور جو لوگ ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
(المائدہ: 44)

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیّ‘‘۔
’’ حقیقت یہ ہے کہ ﷲ کی وحی کے مطابق یا اس کے بغیر فیصلے کر سکنے کی ’’بنا‘‘ اقتدار نہیں کچھ اور ہے‘‘۔
(بخاری‘ باب احادیث الانبیاء‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )۔

آیتِ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلے کرنے کی ’’بنا‘‘ ﷲ کا خوف اور لوگوں سے بے خوفی ہے۔ انبیاء میں سے بیشتر کو اقتدار تو حاصل نہیں تھا مگر یہ چیزیں حاصل تھیں جس کی بنا پر وہ لوگوں کا ذرا سا خوف رکھے بغیر ﷲ کی وحی کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے‘ اس کے برعکس سرکشی (طغٰی) کی ’’بنا‘‘ ﷲ کے ہاں پیشی کے خوف سے بے نیازی ہے نہ کہ اقتدار جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی o لَا اَنْ رَّاہُ اسْتَغْنٰی o اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی‘‘
’’ خبردار! انسان ضرور سرکش ہو جاتا ہے‘ اس بنا پر کہ اپنے آپ کو بے نیاز پاتا ہے حالانکہ اسے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
(العلق: 6‘ 7)۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
چونکہ انسان اپنے رب کے ہاں پیشی سے بے خوف ہونے کی بنا پر سرکش ہوتا ہے اس لئے جب اسے سرکشی سے منع کرنا ہوتا ہے تو ا س کے اندر ﷲ کا خوف ہی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ فرعون کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ:۔

’’ اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی o زصلے فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکّٰی o لَا وَاَھْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی‘‘۔2
’’ فرعون کے پاس جائو وہ سرکش ہو گیا ہے اور کہو کیا تجھے کچھ رغبت ہے اس بات کی کہ خود کو پاک کرے اور رہنمائی کروں میں تیری تیرے رب کی طرف کہ تیرے اندر اس کا خوف پیدا ہو‘‘۔
(النزعت: 17‘ 19)

اگر سرکشی کی بنا اقتدار ہوتا تو ہر مقتدر ہوتا تو ہر مقتدر کو سرکش ہونا چاہئے تھا جبکہ خود قرآن گواہ ہے کہ ایسا نہیں ہے اور اگر سرکشی کی بنا صرف اقتدار ہی ہوتا تو پھر کسی مغلوب کو سرکشی سے منع کرنے کی ضرورت نہیں رہنی چاہئے تھی جبکہ ایسا بھی نہیں ہے‘

ﷲ تعالیٰ اہل ایمان کو ان کی مکے کی مغلوبیت کی حالت میں ارشاد فرماتا ہے کہ:۔

’’ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتُ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘‘
’’ پس تم ثابت قدم رہو جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو تائب ہو کر تمہارے ساتھ ہیں اور سرکشی نہ کرنا‘ بیشک وہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے‘‘
(ھود: 112)

آیاتِ بالا سے سرکشی کی بنا معلوم ہوتی ہے لیکن خود سرکشی کیا اس کی وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے یعنی ’’ﷲ کی نازل کردہ وحی کے بغیر محض اھواء سے فیصلے کرنا‘‘ اس حوالے سے ﷲ تعالیٰ کے مزید ارشادات ہیں کہ:

’’ فَاَمَّا مَنْ طَغٰی o وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o فَاَنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰیo وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o لَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی‘‘۔
’’ پس جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے لیکن جو کوئی اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرا اور اپنے نفس کو اھواء کی پیروی سے روکا تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے‘‘۔
(النزعت:37‘ 41)

’’ وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضْلُّوْنَ بِاَھْوَآء ھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ‘‘
’’ اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ بغیر علم (وحی) کے اپنی اھواء کی بنا پر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں‘ بیشک تیرا رب ان حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔
(الانعام: 119)
۔
 
Top