آپ نے آیت کے مطلق ہونے کا ذکر کیا تو پہلی بات یہ ہے کہ یہاں مطلق اور معین کو دو پہلووں سے دیکھتے ہیں
ایک پہلو تو اعمال کا ہے یعنی فرضی اعمال کا باطل کرنا یا نفی اعمال کا باطل کرنا یا دونوں کا باطل کرنا
اور ایک دوسرا پہلو باطل ہونے کی علت ہے یعنی کس وجہ سے فرضی یا نفلی یا دونوں اعمال کو باطل کرنا
یہاں یاد رکھیں کہ ان دونوں پہلووں کا اکٹھا دیکھنا لازمی ہے کیونکہ اسی سے پتا چلے گا کہ باطل سے مراد کیا ہے
میرے خیال میں پہلے پہلو کو متعین کرنے کے لئے تاویل کی ضرورت ہی نہیں رہتی جب آپ دوسرے پہلو کو متعین کر دیں اور دوسرا پہلو کا تعین سیاق سے قاضح ہے اور تفاسیر سے بھی واضح ہے اور صحابہ کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے جو سمجھا اس سے بھی واضح ہے
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان نفلی اعمال کے باطل ہونے کی علت یا وجہ کو دیکھیں تو وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مثلا نفل کا توڑ دینا بھی ہو سکتی ہے اور ان نوافل کا شریعت کے حکم کے خلاف ہونا بھی ہو سکتی ہے پس جب ہم سیاق کو دیکھتے ہیں اور آیت کی تفاسیر کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کو توڑنا نہیں بلکہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے خلاف ہونا ہے
پس پوری آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ کوئی بھی نفلی یا فرضی عمل جب اطیعوا اللہ یا اطیعوا الرسول کے خلاف ہو تو وہ باطل ہو گا