• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ علمائے وفقہائے احناف جھوٹی تہمتیں باندھنے میں دریغ نہیں کرتے! اور آپ سے بھی مجھے اس کی بعید نہ تھی!
ابن داؤد صاحب! حدیث کہاں ہے؟ حدیث میں مذکور الفاظ کہاں ہیں؟ آل حدیث کی طرح صرف "حدیث" والے کام نہ کیا کریں, اصل حدیث مبارکہ لائیں اور دکھائیں.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن داؤد صاحب! حدیث کہاں ہے؟ حدیث میں مذکور الفاظ کہاں ہیں؟ آل حدیث کی طرح صرف "حدیث" والے کام نہ کیا کریں, اصل حدیث مبارکہ لائیں اور دکھائیں.
اب آپ اپنے زخم چاٹیں!
ہم نے الحمدللہ ! اللہ کی توفیق سے اپنا مدعا احادیث سے ثابت کردیا ہے، اور فقہ حنفی کا مؤقف بھی باطل ثابت کر دیا ہے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اب آپ اپنے زخم چاٹیں!
ہم نے الحمدللہ ! اللہ کی توفیق سے اپنا مدعا احادیث سے ثابت کردیا ہے، اور فقہ حنفی کا مؤقف بھی باطل ثابت کر دیا ہے!
غلط فہمی ہے۔
چلیں اگر آپ نے بزعم خود اپنا مدعا حدیث سے ثابت کر دیا ہے اور فق حنفی کو باطل بھی ثابت کر دیا ہے تو پھر میں محترم برادران سے گفتگو کرتا ہوں۔ آپ اطمینان سے چپکے بیٹھے رہیے گا۔
آپ نے کوئی پھول جھڑنے کی کوشش کی تو میں اس کا جواب تب ہی دوں گا جب آپ حدیث مبارکہ بمع الفاظ کے دکھا چکیں گے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہم تو اللہ کی توفیق سے آپ کے جھوٹ، فریب ودجل کوآشکار کرتے رہیں گے! ان شاء اللہ!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی پہلی بات تو یہ کہ واقعی بعض فقہاء نے ایسی تاویل کی ہے اور نیک نیتی سے ہی کی ہے اور اس پہ انکو ثواب ملے گا البتہ کیا وہ تاویل یا بات درست ہے یا اجتہادی غلطی ہے اس پہ کوئی بحث کر سکتا ہے اور اپنا موقف رکھ سکتا ہے
محترمی عبدہ بھائی! اب دوسرے موقف کو دیکھتے ہیں:
آپ نے آیت کے مطلق ہونے کا ذکر کیا تو پہلی بات یہ ہے کہ یہاں مطلق اور معین کو دو پہلووں سے دیکھتے ہیں
ایک پہلو تو اعمال کا ہے یعنی فرضی اعمال کا باطل کرنا یا نفی اعمال کا باطل کرنا یا دونوں کا باطل کرنا
اور ایک دوسرا پہلو باطل ہونے کی علت ہے یعنی کس وجہ سے فرضی یا نفلی یا دونوں اعمال کو باطل کرنا

یہاں یاد رکھیں کہ ان دونوں پہلووں کا اکٹھا دیکھنا لازمی ہے کیونکہ اسی سے پتا چلے گا کہ باطل سے مراد کیا ہے
میرے خیال میں پہلے پہلو کو متعین کرنے کے لئے تاویل کی ضرورت ہی نہیں رہتی جب آپ دوسرے پہلو کو متعین کر دیں اور دوسرا پہلو کا تعین سیاق سے قاضح ہے اور تفاسیر سے بھی واضح ہے اور صحابہ کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے جو سمجھا اس سے بھی واضح ہے
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان نفلی اعمال کے باطل ہونے کی علت یا وجہ کو دیکھیں تو وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مثلا نفل کا توڑ دینا بھی ہو سکتی ہے اور ان نوافل کا شریعت کے حکم کے خلاف ہونا بھی ہو سکتی ہے پس جب ہم سیاق کو دیکھتے ہیں اور آیت کی تفاسیر کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کو توڑنا نہیں بلکہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے خلاف ہونا ہے
پس پوری آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ کوئی بھی نفلی یا فرضی عمل جب اطیعوا اللہ یا اطیعوا الرسول کے خلاف ہو تو وہ باطل ہو گا
اس موقف كے قائلين ميں حنفیہ سے زیادہ مالکیہ ہیں۔ یہاں دو اصول ہیں:
اول: آیات قرآنی میں خصوص سبب کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ عموم الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے۔
ثانی: حقیقت و مجاز میں تعارض کے وقت حقیقت کو ترجیح ہوتی ہے۔
پہلے اصول کے مطابق "لا تبطلوا" عام ہے۔ یہ شامل ہے ثواب کے باطل ہونے کو بھی، جسے آپ نے اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے خلاف ہونے سے تعبیر کیا ہے اور بہت سے مفسرین نے ریا، کبائر اور احسان جتانے سے تعبیر کیا ہے، اور یہ شامل ہے نماز کو توڑ کر اسے باطل کرنے کو بھی۔ پہلی تفسیر اصل میں ابو العالیۃ اور ابن عمر رض کی روایات کی بنا پر ہے جس میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام رض یہ سمجھتے تھے کہ نیکی ہمیشہ قبول ہوتی ہے تو یہ آیت نازل ہوئی (ملخص من تفسیر ابن کثیر)۔ اس روایت کی بنا پر پہلی تفسیر کی جاتی ہے لیکن یہ خصوص سبب ہے اور اس کا اعتبار نہیں ہے بلکہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہے۔
دوسرے اصول کے مطابق "لا تبطلوا" میں ابطال کی حقیقت ایک کام کو شروع کر کے اسے باطل کرنا یا توڑنا ہے اور مجاز اس کام کو جاری رکھتے ہوئے اس کے ثواب کا باطل کرنا ہے۔ علامہ شوکانیؒ کے مطابق حقیقت و مجاز کو جمع نہیں کیا جا سکتا اور حقیقت ذہن میں جلد آتی ہے (والحق امتناع الجمع بينهما لتبادر المعنى الحقيقي من اللفظ من غير أن يشاركه غيره في التبادر عند الإطلاق، وهذا بمجرده يمنع من إرادة غير الحقيقي بذلك اللفظ المفرد، مع الحقيقي۔۔۔۔۔ ارشاد الفحول)۔ اس لیے اس لفظ کی حقیقت (یعنی عمل کو حقیقتاً توڑنا اور باطل کرنا) مراد ہوگی۔
اس لفظ سے یہ معنی ذکر کرنے والوں میں اشبیلی (المسالک فی شرح الموطا)، قاضی عیاض (اکمال المعلم)، ابن بطال (شرح صحیح البخاری)، باجی (المنتقی)، عینی (عمدۃ القاری)، ملا علی قاری (مرقاۃ المفاتیح)، زرقانی (شرح موطا) اور کئی علماء شامل ہیں۔
ابن عبد البر نے الاستذکار میں کہا ہے کہ اس آیت سے یہ استدلال کرنے والا جاہل ہے لیکن تمہید میں خود اسے دلائل میں پیش کیا ہے۔

اب جب یہ متعین ہو گیا کہ "لا تبطلوا" میں ابطال کا حقیقی معنی یعنی توڑنا مراد ہے تو ایک بات معلوم ہوئی۔ وہ یہ کہ یہ نفل شروع کرنے سے پہلے تک تو نفل تھے لیکن اب پورا کرنا واجب ہو چکا ہے۔ اس لیے کہ نفل کہتے ہیں جس کے کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہو اور کرنے پر ثواب ہو اور واجب کہتے ہیں کہ جس کا کرنا لازم ہو اور نہ کرنے کا اختیار نہ ہو (قطع نظر واجب اور فرض میں فرق کے)۔ نفل شروع کرنے سے پہلے تو اختیار تھا کہ پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن اب پورا کرنے سے پہلے چھوڑنے کا اختیار نہیں رہا ہے۔
اس کی تائید حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے: جب ایک شخص کو نبی کریم ﷺ نے فرائض میں پانچ نمازوں کا ارشاد فرمایا تو انہوں نے پوچھا "ھل علی غیرھن؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "لا، الا ان تطوع"، یہ مشہور حدیث ہے اس میں جن علماء کرام نے استثناء کو استثناء متصل بنایا ہے (استثناء میں اصل متصل ہوتا ہے) وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہےکہ جب اس شخص نے پوچھا " کیا مجھ پر اور کوئی نماز لازم ہے" تو آپ نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفل پڑھو تو وہ لازم ہو جائیں گے۔ (علماء کے فریق ثانی نے اسے استثناء منقطع قرار دیا ہے۔)
اس کی تائید قیاس سے بھی ہوتی ہے۔ شوافع اور مالکیہ دونوں کا اتفاق ہے کہ حج نفل شروع کرنے کے بعد لازم ہوجاتا ہے اور پورا کرنا ضروری ہے۔ حج نفل ایک عبادت ہے اور نماز بھی ایک عبادت ہے تو نفل نماز کے شروع کرنے کو حج نفل کے شروع کرنے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
اور ایک اہم بات یہ کہ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ وہ تمام احادیث جن میں نبی کریم ﷺ نے فجر کی جماعت کے وقت میں سنتیں پڑھنے والے پر ناگواری کا اظہار فرمایا ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ نہیں ہے کہ آپ نے نماز تڑوائی بھی۔ بلکہ آپ نے نماز کے بعد اور پہلے صرف ناگواری کا اظہار فرمایا۔ اگر نماز توڑنا ضروری ہوتا تو آپ ﷺ تڑواتے بھی۔ اس لیے بھی نماز توڑنا ضروری نہیں بلکہ پوری کرنا ضروری ہے۔

اب رہ گئیں وہ احادیث جن میں روزے کے توڑنے کا ذکر ہے تو اوپر بیان کردہ اصول کی روشنی میں ان کی توجیہ کی جائے گی۔ اور آسان بات یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ جہاں کسی عبادت کو صراحتاً توڑنے کی اجازت مروی ہے وہاں وہ توڑی جا سکتی ہے ورنہ نہیں توڑی جا سکتی۔

یہ فریق ثانی کا موقف ہے جو اکثر مالکیہ کی مختلف کتب سے اخذ کیا ہے۔ اب اس مسئلہ کو اس زاویہ نظر سے دیکھیے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قَوْلُهُ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ تَطَّوَّعَ بِتَشْدِيدِ الطَّاءِ وَالْوَاوِ وَأَصْلُهُ تَتَطَوَّعُ بِتَاءَيْنِ فَأُدْغِمَتْ إِحْدَاهُمَا وَيَجُوزُ تَخْفِيفُ الطَّاءِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَاهُمَا وَاسْتُدِلَّ بِهَذَا عَلَى أَنَّ الشُّرُوعَ فِي التَّطَوُّعِ يُوجِبُ إِتْمَامَهُ تَمَسُّكًا بِأَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ مُتَّصِلٌ قَالَ الْقُرْطُبِيُّ لِأَنَّهُ نَفْيُ وُجُوبِ شَيْءٍ آخَرَ إِلَّا مَا تَطَوَّعَ بِهِ وَالِاسْتِثْنَاءُ مِنَ النَّفْيِ إِثْبَاتٌ وَلَا قَائِلَ بِوُجُوبِ التَّطَوُّعِ فَيَتَعَيَّنُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادَ إِلَّا أَنْ تَشْرَعَ فِي تَطَوُّعٍ فَيَلْزَمُكَ إِتْمَامُهُ وَتَعَقَّبَهُ الطِّيبِيُّ بِأَنَّ مَا تَمَسَّكَ بِهِ مُغَالَطَةٌ لِأَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ هُنَا مِنْ غَيْرِ الْجِنْسِ لِأَنَّ التَّطَوُّعَ لَا يُقَالُ فِيهِ عَلَيْكَ فَكَأَنَّهُ قَالَ لَا يَجِبُ عَلَيْكَ شَيْءٌ إِلَّا إِنْ أَرَدْتَ أَنْ تَطَّوَّعَ فَذَلِكَ لَكَ وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ التَّطَوُّعَ لَيْسَ بِوَاجِبٍ فَلَا يَجِبُ شَيْءٌ آخَرُ أَصْلًا كَذَا قَالَ وَحَرْفُ الْمَسْأَلَةِ دَائِرٌ عَلَى الِاسْتِثْنَاءِ فَمَنْ قَالَ إِنَّهُ مُتَّصِلٌ تَمَسَّكَ بِالْأَصْلِ وَمَنْ قَالَ إِنَّهُ مُنْقَطِعٌ احْتَاجَ إِلَى دَلِيلٍ وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ مَا رَوَى النَّسَائِيُّ وَغَيْرُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحْيَانًا يَنْوِي صَوْمَ التَّطَوُّعِ ثُمَّ يُفْطِرُ وَفِي الْبُخَارِيِّ أَنَّهُ أَمَرَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ أَنْ تُفْطِرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ أَنْ شَرَعَتْ فِيهِ فَدَلَّ عَلَى أَنَّ الشُّرُوعَ فِي الْعِبَادَةِ لَا يَسْتَلْزِمُ الْإِتْمَامَ إِذَا كَانَت نَافِلَة بِهَذَا النَّص فِي الصَّوْم وبالقياس فِي الْبَاقِي فَإِنْ قِيلَ يَرِدُ الْحَجَّ قُلْنَا لَا لِأَنَّهُ امْتَازَ عَنْ غَيْرِهِ بِلُزُومِ الْمُضِيِّ فِي فَاسِدِهِ فَكَيْفَ فِي صَحِيحِهِ وَكَذَلِكَ امْتَازَ بِلُزُومِ الْكَفَّارَةِ فِي نَفْلِهِ كَفَرْضِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ فِي اسْتِدْلَالِ الْحَنَفِيَّةِ نَظَرًا لِأَنَّهُمْ لَا يَقُولُونَ بِفَرْضِيَّةِ الْإِتْمَامِ بَلْ بِوُجُوبِهِ وَاسْتِثْنَاءُ الْوَاجِبِ مِنَ الْفَرْضِ مُنْقَطِعٌ لِتَبَايُنِهِمَا وَأَيْضًا فَإِنَّ الِاسْتِثْنَاءَ مِنَ النَّفْيِ عِنْدَهُمْ لَيْسَ لِلْإِثْبَاتِ بَلْ مَسْكُوتٌ عَنْهُ وَقَوْلُهُ إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ اسْتِثْنَاءٌ مِنْ قَوْلِهِ لَا أَيْ لَا فَرْضَ عَلَيْكَ غَيْرَهَا.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 196 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 132 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 132 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 88 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية

اور یہ کہا کہ کیا مجھ پر پانچ نمازوں کے سوا اور نماز بھی فرض ہے تو حضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ نفل چاہے تو پڑھ تو استدلال کیا یا ہے ساتھ اس کے اس پر اگر کوئی نفل کو شروع کرے تو اس کا تمام کرنا واجب ہوجاتا ہے واسطے استدلال کرنے کے ساتھ اس کے کہ استثناء اس میں متصل ہے قرطبی نے کہا اس واسطے کہ نفل کے سوا اور چیز کے وجوب کی نفی کردے اور استثناء نفی سے اثبات ہوتا ہے اور نہیں ہے کوئی قائل ساتھ واجب ہونے نفلوں کے پس متعین ہوئی یہ بات کہ ہو مراد مگر یہ تو نفلوں کو شروع کرے پس لازم ہوگا تجھ کو تمام کرنا ان کا اور تعاقب کیا ہے اس کا طیبی نے کہ یہ استدلال اس کا مغالطہ ہے اس واسطے کہ استثناء اس جگہ غیر جنس سے ہے اس واسطے نفلوں میں یہ نہیں کہا جاتا کہ تجھ پر واجب ہے پس گویا کہ آپ نے فرمایا کہ نہیں واجب ہے تجھ پر کوئی چیز مگر یہ کہ تو نفل پڑھے چاہے تو یہ تجھ کو درست ہیں اور تحقیق معلوم ہے کہ نفل واجب نہیں تو اور کوئی چیز بھی ہر گز واجب نہ ہوگی اسی طرح کہا ہے اس سے اور حرف مسئلہ کا دائر ہے استثناء پر سو جو کہتا ہے کہ وہ متصل ہے اس نے اصل کے ساتھ تمسک کیا ہے اور جو کہتا ہے کہ وہ منقطع ہے وہ دلیل کی طرف محتاج ہے اور اس پر دلیل وہ ہے جو نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرتﷺ کبھی نفل روزے کی نیت کرتے تھے پھر روزے کو کھول دیتے تھے اور بخاری میں ہے کہ حضرت ﷺ نے جو یریہ حارث کی بیٹی کو حکم دیا کہ روزہ کھول ڈالے بعد اس کے کہ اس نے اس کو شروع کرلیا تھا پس دلالت کی اس نے کہ شروع عبادت میں نہیں لازم پکڑتا پورا کرنے کو جب کہ ہو عبادت نفل ساتھ اس نص کے روزے میں اور ساتھ قیاس کے باقی میں پس اگر کہا جائے کہ وارد ہوتا ہے حج تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں اس واسطے کہ وہ جدا ہے اپنے غیر سے ساتھ لازم ہونے اتمام کے اس کے فاسد میں اگر کسی چیز سے حج فاسد ہو جائے تو بدستور اس کو پورا کرے درمیان سے نہ چھوڑ دے پس کس طرح ہے جب حج صحیح ہو اور اسی طرح جدا ہوا حج ساتھ لازم ہونے کفارے کے نفل حج میں مانند فرض حج کی، واللہ اعلم ۔ اور حنفیوں کے اس استدلال میں نظر ہے اس واسطے کہ وہ نہیں قائل ہیں ساتھ فرض ہونے اتمام کے بلکہ ساتھ وجوب کے استثناء واجب کا فرض سے منقطع ہے واسطے مبائن ہونے دونوں کے اور نیز پس تحقیق استثناء نفی سے نزدیک ان کے نہیں واسطے اثبات کے بلکہ اس سے سکوت کیا گیا ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں: 124 – 125 جلد 01 فیض الباری اردو ترجمہ فتح الباری – محمد ابو الحسن سیالکوٹی – مکتبہ اصحاب الحدیث، لاہور
﴿نوٹ: فتح الباری کی عبارت کا ترجمہ مشکل اردو میں ہے، لیکن میں نے اسے اسی طرح نقل کریا ہے جیسا کہ کتاب میں ہے۔﴾
اول تو ابن حجر العسقلانی نے نے یہاں استثناء متصل اور اس کے مطابق نفل نماز کو شروع کردنے کے بعد اس نفل نماز کے لازم و واجب یعنی فرض ہونے کو طیبی کے حوالہ سے بادلیل رد کیا ہے!
دوم کہ ابن حجر العسقلانی نے یہ بات بھی بتلا دی ہے کہ احناف کا مؤقف استثناء متصل اور اس کے مطابق نفل نماز کو شروع کردنے کے بعد اس نفل نماز کو پورا کرنے کے لازم و واجب یعنی فرض ہونے کےمطابق بھی نہیں!
یعنی کہ اگر احناف کا مؤقف یہاں استثناء متصل کے مطابق ہوتا تو وہ نفل نماز کو شروع کرنے کے بعد اس نفل نماز کے پورا کرنے فرض کے قائل ہوتے، لیکن احناف ایسی نماز کو پورا کرنے کے فرض کے قائل نہیں بلکہ واجب کہتے ہیں!
عقلمد را اشارہ کافی!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قَوْلُهُ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ تَطَّوَّعَ بِتَشْدِيدِ الطَّاءِ وَالْوَاوِ وَأَصْلُهُ تَتَطَوَّعُ بِتَاءَيْنِ فَأُدْغِمَتْ إِحْدَاهُمَا وَيَجُوزُ تَخْفِيفُ الطَّاءِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَاهُمَا وَاسْتُدِلَّ بِهَذَا عَلَى أَنَّ الشُّرُوعَ فِي التَّطَوُّعِ يُوجِبُ إِتْمَامَهُ تَمَسُّكًا بِأَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ مُتَّصِلٌ قَالَ الْقُرْطُبِيُّ لِأَنَّهُ نَفْيُ وُجُوبِ شَيْءٍ آخَرَ إِلَّا مَا تَطَوَّعَ بِهِ وَالِاسْتِثْنَاءُ مِنَ النَّفْيِ إِثْبَاتٌ وَلَا قَائِلَ بِوُجُوبِ التَّطَوُّعِ فَيَتَعَيَّنُ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادَ إِلَّا أَنْ تَشْرَعَ فِي تَطَوُّعٍ فَيَلْزَمُكَ إِتْمَامُهُ وَتَعَقَّبَهُ الطِّيبِيُّ بِأَنَّ مَا تَمَسَّكَ بِهِ مُغَالَطَةٌ لِأَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ هُنَا مِنْ غَيْرِ الْجِنْسِ لِأَنَّ التَّطَوُّعَ لَا يُقَالُ فِيهِ عَلَيْكَ فَكَأَنَّهُ قَالَ لَا يَجِبُ عَلَيْكَ شَيْءٌ إِلَّا إِنْ أَرَدْتَ أَنْ تَطَّوَّعَ فَذَلِكَ لَكَ وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ التَّطَوُّعَ لَيْسَ بِوَاجِبٍ فَلَا يَجِبُ شَيْءٌ آخَرُ أَصْلًا كَذَا قَالَ وَحَرْفُ الْمَسْأَلَةِ دَائِرٌ عَلَى الِاسْتِثْنَاءِ فَمَنْ قَالَ إِنَّهُ مُتَّصِلٌ تَمَسَّكَ بِالْأَصْلِ وَمَنْ قَالَ إِنَّهُ مُنْقَطِعٌ احْتَاجَ إِلَى دَلِيلٍ وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ مَا رَوَى النَّسَائِيُّ وَغَيْرُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحْيَانًا يَنْوِي صَوْمَ التَّطَوُّعِ ثُمَّ يُفْطِرُ وَفِي الْبُخَارِيِّ أَنَّهُ أَمَرَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ أَنْ تُفْطِرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ أَنْ شَرَعَتْ فِيهِ فَدَلَّ عَلَى أَنَّ الشُّرُوعَ فِي الْعِبَادَةِ لَا يَسْتَلْزِمُ الْإِتْمَامَ إِذَا كَانَت نَافِلَة بِهَذَا النَّص فِي الصَّوْم وبالقياس فِي الْبَاقِي فَإِنْ قِيلَ يَرِدُ الْحَجَّ قُلْنَا لَا لِأَنَّهُ امْتَازَ عَنْ غَيْرِهِ بِلُزُومِ الْمُضِيِّ فِي فَاسِدِهِ فَكَيْفَ فِي صَحِيحِهِ وَكَذَلِكَ امْتَازَ بِلُزُومِ الْكَفَّارَةِ فِي نَفْلِهِ كَفَرْضِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ فِي اسْتِدْلَالِ الْحَنَفِيَّةِ نَظَرًا لِأَنَّهُمْ لَا يَقُولُونَ بِفَرْضِيَّةِ الْإِتْمَامِ بَلْ بِوُجُوبِهِ وَاسْتِثْنَاءُ الْوَاجِبِ مِنَ الْفَرْضِ مُنْقَطِعٌ لِتَبَايُنِهِمَا وَأَيْضًا فَإِنَّ الِاسْتِثْنَاءَ مِنَ النَّفْيِ عِنْدَهُمْ لَيْسَ لِلْإِثْبَاتِ بَلْ مَسْكُوتٌ عَنْهُ وَقَوْلُهُ إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ اسْتِثْنَاءٌ مِنْ قَوْلِهِ لَا أَيْ لَا فَرْضَ عَلَيْكَ غَيْرَهَا.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 196 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 132 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 132 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 88 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 107 جلد 01 فتح الباري شرح صحيح البخاري - أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي - المكتبة السلفية

اور یہ کہا کہ کیا مجھ پر پانچ نمازوں کے سوا اور نماز بھی فرض ہے تو حضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ نفل چاہے تو پڑھ تو استدلال کیا یا ہے ساتھ اس کے اس پر اگر کوئی نفل کو شروع کرے تو اس کا تمام کرنا واجب ہوجاتا ہے واسطے استدلال کرنے کے ساتھ اس کے کہ استثناء اس میں متصل ہے قرطبی نے کہا اس واسطے کہ نفل کے سوا اور چیز کے وجوب کی نفی کردے اور استثناء نفی سے اثبات ہوتا ہے اور نہیں ہے کوئی قائل ساتھ واجب ہونے نفلوں کے پس متعین ہوئی یہ بات کہ ہو مراد مگر یہ تو نفلوں کو شروع کرے پس لازم ہوگا تجھ کو تمام کرنا ان کا اور تعاقب کیا ہے اس کا طیبی نے کہ یہ استدلال اس کا مغالطہ ہے اس واسطے کہ استثناء اس جگہ غیر جنس سے ہے اس واسطے نفلوں میں یہ نہیں کہا جاتا کہ تجھ پر واجب ہے پس گویا کہ آپ نے فرمایا کہ نہیں واجب ہے تجھ پر کوئی چیز مگر یہ کہ تو نفل پڑھے چاہے تو یہ تجھ کو درست ہیں اور تحقیق معلوم ہے کہ نفل واجب نہیں تو اور کوئی چیز بھی ہر گز واجب نہ ہوگی اسی طرح کہا ہے اس سے اور حرف مسئلہ کا دائر ہے استثناء پر سو جو کہتا ہے کہ وہ متصل ہے اس نے اصل کے ساتھ تمسک کیا ہے اور جو کہتا ہے کہ وہ منقطع ہے وہ دلیل کی طرف محتاج ہے اور اس پر دلیل وہ ہے جو نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرتﷺ کبھی نفل روزے کی نیت کرتے تھے پھر روزے کو کھول دیتے تھے اور بخاری میں ہے کہ حضرت ﷺ نے جو یریہ حارث کی بیٹی کو حکم دیا کہ روزہ کھول ڈالے بعد اس کے کہ اس نے اس کو شروع کرلیا تھا پس دلالت کی اس نے کہ شروع عبادت میں نہیں لازم پکڑتا پورا کرنے کو جب کہ ہو عبادت نفل ساتھ اس نص کے روزے میں اور ساتھ قیاس کے باقی میں پس اگر کہا جائے کہ وارد ہوتا ہے حج تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں اس واسطے کہ وہ جدا ہے اپنے غیر سے ساتھ لازم ہونے اتمام کے اس کے فاسد میں اگر کسی چیز سے حج فاسد ہو جائے تو بدستور اس کو پورا کرے درمیان سے نہ چھوڑ دے پس کس طرح ہے جب حج صحیح ہو اور اسی طرح جدا ہوا حج ساتھ لازم ہونے کفارے کے نفل حج میں مانند فرض حج کی، واللہ اعلم ۔ اور حنفیوں کے اس استدلال میں نظر ہے اس واسطے کہ وہ نہیں قائل ہیں ساتھ فرض ہونے اتمام کے بلکہ ساتھ وجوب کے استثناء واجب کا فرض سے منقطع ہے واسطے مبائن ہونے دونوں کے اور نیز پس تحقیق استثناء نفی سے نزدیک ان کے نہیں واسطے اثبات کے بلکہ اس سے سکوت کیا گیا ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں: 124 – 125 جلد 01 فیض الباری اردو ترجمہ فتح الباری – محمد ابو الحسن سیالکوٹی – مکتبہ اصحاب الحدیث، لاہور
﴿نوٹ: فتح الباری کی عبارت کا ترجمہ مشکل اردو میں ہے، لیکن میں نے اسے اسی طرح نقل کریا ہے جیسا کہ کتاب میں ہے۔﴾
اول تو ابن حجر العسقلانی نے نے یہاں استثناء متصل اور اس کے مطابق نفل نماز کو شروع کردنے کے بعد اس نفل نواز کے لازم و واجب یعنی فرض ہونے کو طیبی کے حوالہ سے بادلیل رد کیا ہے!
دوم کہ ابن حجر العسقلانی نے یہ بات بھی بتلا دی ہے کہ احناف کا مؤقف استثناء متصل اور اس کے مطابق نفل نماز کو شروع کردنے کے بعد اس نفل نماز کو پورا کرنے کے لازم و واجب یعنی فرض ہونے کےمطابق بھی نہیں!
یعنی کہ اگر احناف کا مؤقف یہاں استثناء متصل کے مطابق ہوتا تو وہ نفل نماز کو شروع کرنے کے بعد اس نفل نماز کے پورا کرنے فرض کے قائل ہوتے، لیکن احناف ایسی نماز کو پورا کرنے کے فرض کے قائل نہیں بلکہ واجب کہتے ہیں!
عقلمد را اشارہ کافی!
جزاکم اللہ خیرا
آگے اس کا رد ملا علی قاریؒ نے کیا ہے اور بہت عمدہ رد کیا ہے۔ انہوں نے ان سب چیزوں کی وضاحت کی ہے۔ پھر اس کا رد صاحب مرعاۃ المفاتیح نے کیا ہے۔ رد در رد کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
میرا مقصود فقہاء کے دونوں گروہوں کے موقف اور زاویہ نظر بتانے ہیں۔ ترجیح دینا مقصود نہیں۔
 
Top