دوسری بات :
کتاب کی نسبت کا جس نے انکار کیا ہے صرف قیاس کی بنیاد پر نہیں کیا ۔ صرف اعتراض کے چکر میں نہ رہا کریں ذرا غور بھی کرلیا کریں ۔ کسی کتاب کا مخطوطہ بنیادی چیز ہوتا ہے اس پر اعتماد کرنے کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس کا قابل اعتماد مخطوطہ نہیں مل سکا ۔ اب ایسے ہی الہام کے ذریعے توکسی کتاب کی کسی کی طرف نسبت ہونے سے رہی ۔
پہلی بات کا جن صاحب کی پوسٹ پر آپ نے جواب دینا تھا وہاں میں نے دے دیا ہے معذرت کے ساتھ
دوسری بات
کسی کتاب کی بنیادی چیز اس کا مخطوطہ ہوتا ہے یعنی وہ قلمی نسخہ جو منصف نے یا تو خود لکھا ہو یا کسی کابت سے اپنی نگرانی میں لکھوایا ہو شاید ایسی کو قابل اعتماد مخطوطہ کہتے ہیں جب ایسا مخطوظہ کسی امام کو نہ ملے تو وہ اس کتاب کی نسبت منصف کی طرف کرنے سے اپنے چاہنے والوں کو روک سکتا ہے (یاد رہے میں نے چاہنے والے لکھا ہے مقلد نہیں لکھا ) اس میں بچارے اس منصف کا کیا قصور ہے کہ قابل اعتماد مخطوطہ اس امام کو نہ ملا اور بچارے اس مصنف کی ایک کتاب ضائع ہوگئی اس امام کو یہ الہام تو نہیں ہوا کہ یہ کتاب اس مصنف کا مصنف فلاں ہے لیکن یہ الہام ضرور ہوا کہ یہ کتاب فلاں مصنف کی نہیں اور ایسی الہام کی بنیاد پر یہ حکم جاری کردیا کہ "
ہم ان کی طرف اس کتاب کی نسبت کاٹنے کا کہتے ہیں"
چوتھی بات :
ہماری طرف سے اگر کسی کتاب کے اندر موجود عقائد وغیرہ کی وجہ سے اس کی نسبت میں شک و شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہمارے عقائد پر ضرب پڑتی ہے بلکہ اس لیے کہ
اول : اس امام کا عقیدہ اس کی دیگر مشہور و معروف کتب میں اس کے خلاف ہوتا ہے ۔
ثانی : جس کتاب میں اس کا شاذ عقیدہ بیان ہوتا ہے ثبوت کے اعتبار سے اس کے اندر گنجائش ہوتی ہے ۔
ان دو باتوں کی موجودگی میں اس طرح کا موقف اپنایا جاتا ہے ( دوبارہ پھر سمجھ لیں ) اس لیے نہیں کہ ہمارے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے اس لیے کہ خود اس امام کے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے ۔
اس کی ایک مثال امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب ’’ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ ‘‘ ہے ۔ بہت پہلے یہ کتاب چھپی ۔ طباعت میں تساہل کی وجہ سے اس میں بعض جگہ پر عبارت میں رد و بدل ہونے کی وجہ سے معنی و مفہوم ایسا سمجھ آنے لگا جس کی تردید شیخ الاسلام کی دیگر کتب سے ہوتی تھی ۔
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ ویرعاہ کی نظر سے یہ کتاب گزری انہوں نے اس عبارت کودیکھا تو اس کے قلمی نسخوں کی تلاش شروع کردی کہ اس مطبوع کتاب میں ضرور کہیں گڑ بڑ ہوگئی ہے ۔ لہذا نہوں نے ’’ مخطوطات ‘‘ کی طرف رجوع کیا تو واقعتا مطبوع کتاب میں عبارات میں رد و بدل تھا ۔ اور اصل مخطوطے میں عبارت ویسے ہی تھی جسطرح ابن تیمیہ کی دیگر کتب میں موجود تھی ۔ چنانچہ اب یہ کتاب ’’ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ ‘‘ شیخ ربیع حفظہ اللہ کی تحقیق کے ساتھ مطبوع ہے ۔ یہاں دو باتیں سمجھیں
1۔ کتاب کی عبارت پر شک و شبہ اس لیے نہیں ہوا کہ یہ ان کے عقیدے کے مطابق نہیں تھی بلکہ یہ شیخ الاسلام کے معروف عقیدے کےمطابق نہیں تھی اور اس سے ان کے عقیدے پر حرف آتا تھا ۔
2۔ اس کتاب کا انکار بلا کسی ثبوت اور ٹھوس دلیل کے نہیں کیا ۔ بلکہ اپنے موقف کو مخطوطات اور کتاب کی تحقیق کے دیگر قواعد و ضوابط کے مطابق ثابت کیا ہے ۔
تیسری بات آپ نے جس پوسٹ کے جواب میں ارشاد فرمانی تھی وہ میں دونوں پوسٹوں کے ایک ساتھ پوسٹ کرکے دے چکا ہوں معذرت کے ساتھ
چوتھی بات
علامہ البانی صاحب یہ فرماتے ہوئے اس کتاب کی نسبت ابن قیم کی طرف کرنے سے منع کرتے ہیں
-کتاب الروح لابن القیم[شیخ البانی فرماتے ہیں:اس کتاب کے ابن القیم کی طرف منسوب ہونے کے بارے میں مجھے بھی شک ہے کیونکہ اس میں اس طرح کے قصے کہانیاں اور منکرات ہیں
یعنی وہابی مذہب کے خلاف قصے کہانیاں اور منکرات ہیں اس لئے اس کتاب کی نسبت ابن قیم کی جانب کرنا انھیں شک میں مبتلا کرتا ہے اور وہ اس کتاب کی نسبت ابن قیم کی جانب کرنے سے منع کرتے ہیں
اول
کیا کتاب روح ابن قیم کی مشہور کتاب نہیں ؟
دوم
اگر اس امام کے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے تو پڑتی رہے اس سے آپ کو کیا نقصان آپ اس امام کے مقلد تو ہیں نہیں جو اس کی ہر بات آپ کے لئے حجت ہو اور پھر اس طرح کی تحقیق کرنے سے کیا حاصل کہ اتنی جو محنت کی جاتی ہے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے یہ ضرب آپ کے عقیدے پر ہی پڑتی ہے جس کے لئے آپ اتنی محنت کرتے ہیں اس خود ساختہ تحقیق سے آپ کا امام محفوظ ہوجاتا
پانچویں بات :
میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ ’’ فصل الخطاب شیعہ مصنف کی کتاب کا حوالہ میں نے کیوں دیا تھا ۔۔ لیکن اس لیے نظر انداز کر رہا ہوں کہ دیگر پڑھنے والوں کو پہلے ہی سمجھ آگئی ہے اور آپ کو سمجھ آنے کی مجھے اب بھی امید نہیں ۔
ویسے بھی آپ کے جواب میں جتنی ’’ شراکتیں ‘‘ کرتا ہوں اس سے مجھے آپ سے کسی قسم کی ’’ خیر کی امید ‘‘ نہیں ہوتی البتہ اس طرف سے پر امید ہوتا ہوں کہ دیگر پڑھنے والے اس سے کچھ نہ کچھ ضرور مستفید ہوجائیں گے ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ میں آپ کے اشارے کو نہیں سمجھ سکا اس کم علم پر مہربانی فرماکر آسان الفاظ میں ارشاد فرمائیں اگر یہ بات موضوع کی مناسبت سے ہے تو شکریہ
آپ کی باقی باتوں سے میں درگذر کرتا ہوں اس امید پر کہ آپ ایسی طرح اپنے ارشاد عالیہ سے ہم جیسے کم علموں کے اذہان کو اپنے علم کی شمع سے روشن کرتے رہیں گے