کہاں میری پوسٹ اس موضوع سے ہٹ کر ہے اہل حدیث ہی کو فرقہ وہابیہ کہا جاتا جو کہ معروف ہے اس مشارکت میں میں نے یہی عرض کی ہے کہ فرقہ وہابیہ یعنی اہل حدیث کے عقائد پر جب ان کے اماموں کی لکھی ہوئی کتابوں سے ضرب پڑتی ہے تو وہ ان کتابوں کی نسبت اپنے اماموں کی جانب سے پھیرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اس دھاگہ میں ہورہا ہے کہ صرف قیاس سے کام لیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ کتاب ابن قیم نے نہیں لکھی کچھ اس طرح
پہلی بات :
ہمارے عقیدے کی بنیاد قرآن وسنت اور سلف صالحین کے متفقہ فہم پر ہے ۔ کسی عالم دین کے تفردات یا غلطیاں یا لغزشیں ہمارے عقیدے کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوسکتیں ۔ کسی پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کے بارے میں واقفیت بھی حاصل کرلینی چاہیے ۔
دوسری بات :
کتاب کی نسبت کا جس نے انکار کیا ہے صرف قیاس کی بنیاد پر نہیں کیا ۔ صرف اعتراض کے چکر میں نہ رہا کریں ذرا غور بھی کرلیا کریں ۔ کسی کتاب کا مخطوطہ بنیادی چیز ہوتا ہے اس پر اعتماد کرنے کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ کو اس کا قابل اعتماد مخطوطہ نہیں مل سکا ۔ اب ایسے ہی الہام کے ذریعے توکسی کتاب کی کسی کی طرف نسبت ہونے سے رہی ۔
تیسری بات :
یہ بھی آپ کی جہالت یا تجاہل ہے کہ صرف ’’ بحث برائے بحث ‘‘ کی عادت پوری کرنے کے لیے ایک ہی رٹ لگارکھی ہے ۔ حالانکہ خود وہابی علماء میں سے کئی علماء دین نے اس کتاب کی نسبت کو درست قراردیا ہے ۔ اور آپ کی طرح دعوی بلادلیل نہیں بلکہ دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے ۔ ابن القیم کے مجموعہ کے ضمن میں مطبوع اس کتاب میں سب تفصیلات موجود ہیں ۔ اور ا س سے بھی پہلے سالوں پہلے شیخ بکر ابو زید نے ابن قیم کےحالات زندگی پر مرتب کتاب یہ سب تفصیلات ذکر کردی ہیں۔ کہیں فرصت ملے تو پڑھ کے دیکھیے گا آپ کو اندازہ ہوگا اس قدر محنت تو شیعہ نے اپنی اعلی قسم کی کتاب کے لیے نہیں کی ہوگی جس قدر محنت وہابیوں نے اپنی ایک بہت بعد والی کتاب کے لیے کی ہے ۔
علماءدین ، محققین کا آپس میں اختلاف ہوسکتا ہے ۔ شیخ البانی کو صحت نسبت کے لیے کوئی دلیل نہیں مل سکی دیگر علماء شیخ بکر ابو زید وغیرہ کو یہ دلائل مل گئے ہیں تو انہوں نے شیخ البانی کی بات کی بذات خود تردید کی ہے ۔
لہذا آپ کی اس بات کی کوئی حیثیت نہیں کہ جہاں عقائد پر زد پڑتی ہے کتب کا انکار کرتے ہیں ۔ اس بات کے غلط ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ دونوں قسم کے علماء ( نسبت کے ثبوت و عدم ثبوت کے قائلین ) کے عقائد ایک ہی ہیں اور دونوں کو ابن قیم کے اس کتاب میں موجود بعض عقائد سے اختلاف ہے ۔
چوتھی بات :
ہماری طرف سے اگر کسی کتاب کے اندر موجود عقائد وغیرہ کی وجہ سے اس کی نسبت میں شک و شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہمارے عقائد پر ضرب پڑتی ہے بلکہ اس لیے کہ
اول : اس امام کا عقیدہ اس کی دیگر مشہور و معروف کتب میں اس کے خلاف ہوتا ہے ۔
ثانی : جس کتاب میں اس کا شاذ عقیدہ بیان ہوتا ہے ثبوت کے اعتبار سے اس کے اندر گنجائش ہوتی ہے ۔
ان دو باتوں کی موجودگی میں اس طرح کا موقف اپنایا جاتا ہے ( دوبارہ پھر سمجھ لیں ) اس لیے نہیں کہ ہمارے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے اس لیے کہ خود اس امام کے عقیدے پر ضرب پڑتی ہے ۔
اس کی ایک مثال امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب ’’ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ ‘‘ ہے ۔ بہت پہلے یہ کتاب چھپی ۔ طباعت میں تساہل کی وجہ سے اس میں بعض جگہ پر عبارت میں رد و بدل ہونے کی وجہ سے معنی و مفہوم ایسا سمجھ آنے لگا جس کی تردید شیخ الاسلام کی دیگر کتب سے ہوتی تھی ۔
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ ویرعاہ کی نظر سے یہ کتاب گزری انہوں نے اس عبارت کودیکھا تو اس کے قلمی نسخوں کی تلاش شروع کردی کہ اس مطبوع کتاب میں ضرور کہیں گڑ بڑ ہوگئی ہے ۔ لہذا نہوں نے ’’ مخطوطات ‘‘ کی طرف رجوع کیا تو واقعتا مطبوع کتاب میں عبارات میں رد و بدل تھا ۔ اور اصل مخطوطے میں عبارت ویسے ہی تھی جسطرح ابن تیمیہ کی دیگر کتب میں موجود تھی ۔ چنانچہ اب یہ کتاب ’’ قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ ‘‘ شیخ ربیع حفظہ اللہ کی تحقیق کے ساتھ مطبوع ہے ۔ یہاں دو باتیں سمجھیں
1۔ کتاب کی عبارت پر شک و شبہ اس لیے نہیں ہوا کہ یہ ان کے عقیدے کے مطابق نہیں تھی بلکہ یہ شیخ الاسلام کے معروف عقیدے کےمطابق نہیں تھی اور اس سے ان کے عقیدے پر حرف آتا تھا ۔
2۔ اس کتاب کا انکار بلا کسی ثبوت اور ٹھوس دلیل کے نہیں کیا ۔ بلکہ اپنے موقف کو مخطوطات اور کتاب کی تحقیق کے دیگر قواعد و ضوابط کے مطابق ثابت کیا ہے ۔
پانچویں بات :
میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ ’’ فصل الخطاب شیعہ مصنف کی کتاب کا حوالہ میں نے کیوں دیا تھا ۔۔ لیکن اس لیے نظر انداز کر رہا ہوں کہ دیگر پڑھنے والوں کو پہلے ہی سمجھ آگئی ہے اور آپ کو سمجھ آنے کی مجھے اب بھی امید نہیں ۔
ویسے بھی آپ کے جواب میں جتنی ’’ شراکتیں ‘‘ کرتا ہوں اس سے مجھے آپ سے کسی قسم کی ’’ خیر کی امید ‘‘ نہیں ہوتی البتہ اس طرف سے پر امید ہوتا ہوں کہ دیگر پڑھنے والے اس سے کچھ نہ کچھ ضرور مستفید ہوجائیں گے ۔