• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہلحدیث کہلانے والوں کی قیاسی و عصبی نماز

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کوئی باسند تفسیر حدیث کا حوالہ دو اتنی آسانی سے فرار نہیں ہوسکتے
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
حدثنا أبو كريب، حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله

تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وحدثني أبو السائب، حدثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه، فنزلت: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا }


تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم


تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 537)
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم آپ نے تمام باتیں اچھے انداز میں لکھیں مگر آخر میں آپ کی تان بھی فقہ حنفی پر ہی آن کر ٹوٹی۔ حالانکہ میں نے دلائل صرف قرآن و صحیح حدیث ہی سے دیئے ہیں اب تک اور انشاء اللہ آئندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔
کوئی بات کسی پر ٹھونسی نہیں جاسکتی مگر دلائل دیئے جاتے ہیں۔ جو سلیم الطبع ہوتے ہیں وہ دلائل کو یا تو تسلیم کرتے ہیں یا ان کا رد اس سے بہتر دلائل سے کرتے ہیں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ دلیل کے اصل مأخذ صرف قرآن اور حدیث ہی ہیں۔
اب اگر کوئی آپ کے ارشاد کے مطابق قرآن و حدیث سے دی گئی دلیل کو چھوڑ کر کسی کے ”قول“ پر عمل کرتا ہے تو وہ ”حدیثِ نفس“ پر ہی عامل ہؤا۔

محترم قرآن و حدیث اگر فقہ حنفی کے حامی ہوں تو کیا ان سے اس وجہ سے اعراض کر لیا جائے؟
آخری فقرہ پر محترمین اشماریہ بهائی اور ابن عثمان بهائی توجہ دیں ۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
محترم آپ نے تمام باتیں اچھے انداز میں لکھیں مگر آخر میں آپ کی تان بھی فقہ حنفی پر ہی آن کر ٹوٹی۔ حالانکہ میں نے دلائل صرف قرآن و صحیح حدیث ہی سے دیئے ہیں اب تک اور انشاء اللہ آئندہ بھی ایسے ہی ہوگا۔
کوئی بات کسی پر ٹھونسی نہیں جاسکتی مگر دلائل دیئے جاتے ہیں۔ جو سلیم الطبع ہوتے ہیں وہ دلائل کو یا تو تسلیم کرتے ہیں یا ان کا رد اس سے بہتر دلائل سے کرتے ہیں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ دلیل کے اصل مأخذ صرف قرآن اور حدیث ہی ہیں۔
اب اگر کوئی آپ کے ارشاد کے مطابق قرآن و حدیث سے دی گئی دلیل کو چھوڑ کر کسی کے ”قول“ پر عمل کرتا ہے تو وہ ”حدیثِ نفس“ پر ہی عامل ہؤا۔

محترم قرآن و حدیث اگر فقہ حنفی کے حامی ہوں تو کیا ان سے اس وجہ سے اعراض کر لیا جائے؟
السلام علیکم،
محترم، آپ اپنا کام جاری رکھیے۔ اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا موقع آ جائے گا جب آپ کو احساس ہو جائے گا کہ کن بحثوں میں وقت ضائع کیا۔ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے کسی کتابچے میں پڑھا تھا کہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ آخری عمر میں متاسف بیٹھے ہوئے تھے، وجہ پوچھنے پر کہنے لگے مجھے امید ہے قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فقہی مسائل میں مختلف رائے رکھنے پر کسی عالم کو بھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ سب نے اپنی طرف سے حق کو پانے کی کوشش کی ہے، میں اس لیے غمگین ہوں کہ ایک فقہ کی برتری ثابت کرنے میں زندگی گزار دی حالانکہ اس سے بہتر کام کیے جا سکتے تھے۔ (روایت بالمعنیٰ ہے، بہت عرصہ پہلے پڑھا تھا اس لیے کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن مفہوم اسی قسم کا تھا)۔
والسلام علیکم
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
السلام علیکم،
محترم، آپ اپنا کام جاری رکھیے۔ اللہ نے چاہا تو کبھی ایسا موقع آ جائے گا جب آپ کو احساس ہو جائے گا کہ کن بحثوں میں وقت ضائع کیا۔ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کے کسی کتابچے میں پڑھا تھا کہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ آخری عمر میں متاسف بیٹھے ہوئے تھے، وجہ پوچھنے پر کہنے لگے مجھے امید ہے قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فقہی مسائل میں مختلف رائے رکھنے پر کسی عالم کو بھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ سب نے اپنی طرف سے حق کو پانے کی کوشش کی ہے، میں اس لیے غمگین ہوں کہ ایک فقہ کی برتری ثابت کرنے میں زندگی گزار دی حالانکہ اس سے بہتر کام کیے جا سکتے تھے۔ (روایت بالمعنیٰ ہے، بہت عرصہ پہلے پڑھا تھا اس لیے کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن مفہوم اسی قسم کا تھا)۔
والسلام علیکم
الحمد للہ یہ سب کچھ نہیں ہو رہا بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں صواب کی تلاش ہے۔ ہاں جو اپنی خفت مٹانے کے لئے بار بار قرآن و حدیث سے دلائل دینے کی بجائے ”اقوال“ کو بطور تصفیہ پیش کرتے ہیں ان پر گھمان غالب ہے کہ جب آنکھیں کھلیں گی اس وقت مداوا کا وقت گذر چکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ زندگی ہی میں اصلاح فرمادے۔ آمین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آخری فقرہ پر محترمین اشماریہ بهائی اور ابن عثمان بهائی توجہ دیں ۔
میں سمجھ نہیں سکا.
بندہ اختلافی مسائل میں اس قسم کے طرز عمل کا سخت مخالف ہے چاہے کسی حنفی کی طرف سے ہو یا اہل حدیث کی. جس چیز کی اجازت دربار نبوی ص سے ملی ہوئی ہے اس میں کسی کو مورد الزام ٹھہرانا خود کو الزام میں لانا ہے.
مجھے اس سے انکار نہیں کہ ہمارے اہل حدیث بھائی بھی کثرت سے احناف کو حدیث کا مخالف ثابت کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں. لیکن میں اس کا مطلب یہ نہیں لیتا کہ احناف کو بھی جواب میں یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے.
فریقین کو اکیلے میں اپنے اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی صلاحیتوں کو اچھی جگہ لگانا چاہیے.

کیا کہیں کہ اختلافی مباحث میں دندان شکن جوابات دل کو آسودگی بڑی دیتے ہیں. اللہ پاک اس خطرناک بیماری سے حفاظت فرمائیں. آمین.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کیا کہیں کہ اختلافی مباحث میں دندان شکن جوابات دل کو آسودگی بڑی دیتے ہیں. اللہ پاک اس خطرناک بیماری سے حفاظت فرمائیں. آمین.
دندان شکن جواب دینا خطرناک بیماری نہیں بلکہانبیاء کی سنت ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے؛
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آَتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (سورۃ البقرۃ آیت رقم 258)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اللہ تعالیٰ نے (امام کی) قراءتِ قرآن کے وقت اسے توجہ سے اور خاموش رہ کر سننے کا حکم (مقتدی کو) دیا (سورۃ الاعراف)۔
تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
حدثنا أبو كريب، حدثنا المحاربي، عن داود بن أبي هند، عن بشير بن جابر قال: صلى ابن مسعود، فسمع ناسًا يقرءون مع الإمام، فلما انصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا؟ أما آن لكم أن تعقلوا؟ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا } كما أمركم الله

تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وحدثني أبو السائب، حدثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه، فنزلت: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا }


تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 536)
وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن، من حديث الزهري، عن أبي أُكَيْمضة الليثي، عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: "هل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل: نعم يا رسول الله. قال إني أقول: ما لي أنازع القرآن؟" قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم


تفسير ابن كثير - (ج 3 / ص 537)
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
فقہ حنفی تو اس آیت کے اس خود ساختہ حکم کو بھی ساقط قرار دیتی ہے:
وحكمها بين الآيتين المصير إلی السنة؛ لأن الآيتين إذا تعارضتا تساقطتا، فلا بد للعمل من المصير إلی ما بعده وهو السنة، ولا يمكن المصير إلی الآية الثالثة؛ لأنه يفضی إلی الترجيح بكثرة الأدلة، وذلك لا يجوز، ومثاله قوله تعالی:﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ مع قوله تعالیٰ ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ فإن الأول بعمومه يوجب القراءة علی المقتدي، والثاني بخصوصه ينفيه، وردا في الصلاة جميعاً فتساقطا، فيصار إلی حديث بعده، وهو قوله عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له.
اس تعارض کا حکم یہ ہے کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو گیا تو سنت کی جانب رخ کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے کہ اس صورت میں ہر دو آیت پر عمل ممکن نہیں رہا اور جن تعارض ہوگا تو دونوں ہی ساقط ہوں گی لہٰذا عمل کیلئے سنت پر نظر کرنا ہوگی کہ اس کا درجہ اس کے بعد ہے کسی تیسری آیت کی جانب رجوع کرنا ممکن نہیں۔ اس وجہ سے کہ اس سورت میں کثرت دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا لازم آجائے گا جو درست نہیں ۔مثال: ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ اس کے بالمقابل دوسری آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ وارد ہوئی۔ لہٰذا تعارض ہو گیا کہ اول آیت علی العموم مقتدی پر قراءت کو ثابت کرتی ہے اور ثانی خاص صورت میں اس کی نفی کرتی ہے حالانکہ حضرات مفسرین کی تصریح کے مطابق ہر دو آیت نماز کیلئے ہیں۔ اس وجہ سے اب ضرورت ہوئی سنت کی جانب متوجہ ہونے کی۔ اس میں قال عليه السلام: من كان له إمام فقراءة الإمام قراءة له. جس سے ثابت ہو گیا کہ مقتدی قراءت نہ کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 – 88 جلد 02 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
فقہ حنفی تو اس آیت کے اس خود ساختہ حکم کو بھی ساقط قرار دیتی ہے:
یہاں فقہ حنفی کے دلائل نہیں دیئے جا رہے بلکہ (غیر مقلدین، الہحدیث اور سلفی وغیرہ کے منہج کے مطابق) قرآن و حدیث سےبراہِ راست دلائل دیئے جارہے ہیں۔ قرآن و حدیث سے دی گئی دلیل کا رد اپنے منہج کے مطابق لکھیں اپنی اصلیت ظاہر نہ کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top