• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل السنّۃ اور مُرجئہ کون ہیں؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
جہمیہ
ایمان کی تعریف اور مفہوم ومراد کے لحاظ سے ایک گروہ جہمیہ کاہے۔یہ لوگ جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں جو 128ھ میں قتل ہوا اسے مسلم بن احوذ مازنی نے ’’مرو‘‘ کے مقام پر قتل کرا دیا تھا۔ الموسوعۃ المیسرۃ میں ہے:
من غالی منهم وقال إنه المعرفة وهو قول الجحهم بن صفوان و من وافقه ویلزم من قولهم هذا أن ابلیس و فرعون لعنهما الله تعالیٰ کانا مؤمنین کاملی الإیمان وأن معنی الکفر عندهم هو الجهل بالرب تعالیٰ فقط وهذا النوع أشد أنواع الأرجاء و
أخطرها
([56])
’’ ان میں سے کچھ نے غلو اختیا رکیا او رکہا کہ ایمان معرفت ہے اور یہ جہم بن صفوان او راس کے موافق لوگوں کا قول ہے او ران کے اس قول سے لازم آتا ہے کہ ابلیس اور فرعون، ان پر اللہ کی لعنت ہو، مومن، کامل ایمان والے تھے، اور ان کے نزدیک کفر صرف رب تعالیٰ سے جہالت ہے او ریہ قسم إرجاء کی قسموں میں سے سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ترین ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ  لکھتے ہیں:
وعند الجهمیة إذا کان العلم فی قلبه فهو مؤمن کامل الإیمان إیمانه کإیمان النبیین ولوقال و عمل ماذا ([57])
’’ جہمیہ کے نزدیک جب دل میں (رب کے متعلق) علم ہے تو وہ کامل ایمان والا مومن ہے اس کا ایمان نبیوں کے ایمان کی طرح ہے اگرچہ وہ کچھ بھی کہے اور کرے۔ ان کے نزدیک عمل قلب بھی ایمان میں شامل نہیں ہے ۔‘‘
جیسا کہ امام ابن تیمیہ  لکھتے ہیں:
ومنهم من لا یدخلها فی الإیمان کجهم ومن اتبعه کالصالحی([58])
’’او ران کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے دل میں ۔‘‘([59])
مزید فرماتے ہیں:
الإیمان مجرد معرفة القلب وإن لم یقر بلسانه واشتد نکیرهم لذلك حتی أطلق وکیع بن الجراح وأحمد بن حنبل وغیرهما کفر من قال ذلك فإنه من أقوال الجهمیة([60])
(ایک قول یہ ہےکہ ) ’’ایمان صرف معرفت قلب ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کرے (ائمہ سلف نے) بڑی شدت سے ان کی تردید کی ہے حتیٰ کہ وکیع بن جراح اور احمد بن حنبل نے ایسے لوگوں پر کفر کا اطلاق کیا ہے او ربلا شبہ یہ جہمیہ کے اَقوال میں سے ہے۔‘‘
او رامام بخاریفرماتے ہیں:
نظرت فی کلام الیهود والنصاریٰ والمجوس فما رأیت قوما أضل فی کفرهم من الجهمیة وإنی لأستجهل من لا یکفرهم إلا من لا یعرف کفرهم و قال ما أبالی صلیت خلف الجهمي والرافضی أم صلیت خلف الیهود و النصاریٰ([61])
’’میں نے یہود و نصاریٰ او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جھمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہوں اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں سوائے اس کے جسے ان کے کفر کا علم ہی نہ ہو، اور (مزید) فرماتے ہیں : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں جھمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لو ں یا یہودی اور عیسائی کے پیچھے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کرامیہ
یہ لوگ ابوعبداللہ محمد بن کرام المتوفی 255ھ کے پیروکار ہیں:
ابوالفتح محمد عبدالکریم بن ابی بکر احمد شہرستانی راقم ہیں:
وقالوا الإیمان هو الإقرار باللسان فقط دون التصدیق و دون سائر الأعمال([62])
’’اور (ان کرامیہ نے) کہاکہ ایمان دل سے تصدیق کرنے اور تمام اعمال کے بجائے صرف زبان سے اقرار کا نام ہے۔‘‘
’’ ان کے نزدیک ایمان شئ واحد ہے۔ ‘‘([63])
ان کے نزدیک منافق بھی باعتبار دنیا مومن ہے بلکہ کامل مومن ہے، البتہ وہ آخرت میں عذاب ابدی کا مستحق ہے۔
فالمنافقون عندهم مؤمنون کاملوا الإیمان([64])
’’پس منافقین ان کے نزدیک مؤمن ، کامل ایمان والے ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
الماتریدیہ
ابومنصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی کی طرف منسوب ایک کلامی فرقہ ہے۔
امام ابن ابی العز الحنفی راقم ہیں:
أوالتصدیق کما قاله أبومنصور الماتریدی([65])
’’یا (ایمان صرف) تصدیق ہے جیسا کہ ابومنصور ماتریدی کا قول ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
ومنهم من یقول إن الإقرار باللسان رکن زائد لیس بأصلی وإلی هذا ذهب أبومنصور الماتریدی([66])
’’اور ان میں سے کچھ نے کہا کہ زبان سے اقرار (ایمان کے لیے) رکن زائد ہے اصلی نہیں ہے اور ابومنصورماتریدی اسی کے قائل ہیں۔‘‘
ومن قال: إن الإیمان هوالتصدیق هو أبومنصورالماتریدی ومن وافقه من الأشاعرة([67])
’’جس نے کہا کہ ایمان (صرف) تصدیق ہے ابومنصور ماتریدی ہے اور اشاعرہ میں سے وہ (لوگ ہیں اس مسئلہ میں) جو اس کے موافق ہیں۔‘‘
علامہ تفتازانی راقم ہیں:
هذا الذی ذکره من أن الإیمان هو التصدیق والإقرار مذهب بعض العلماء، وهو اختیار الإمام شمس الأئمة و فخر الإسلام رحمها الله و ذهب جمهور المحققین إلی أنه التصدیق بالقلب وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام فی الدنیا([68])
’’یہ جو (مصنف نے) ذکر کیا کہ ایمان تصدیق اور اقرار ہے (یہ) بعض علما کا مذہب ہے، اِمام شمس الائمہ اور فخر الاسلام کا (بھی) پسندیدہ مذہب یہی ہے او ر(جبکہ) جمہور محققین نے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ ایمان دل سے تصدیق ہے اور اقرار صرف دنیا میں اجراء احکام کے لیے شرط ہے۔‘‘
عقائد نسفیہ کی عبارت"والإیمان لا یزید ولا ینقص" ’’او رایمان نہ زیادہ ہوتا ہے او رنہ کم۔‘‘كی شرح میں علامہ تفتانی راقم ہیں:
فههنامقامان الأول أن الأعمال غیر داخلة فی الإیمان لما مرمن أن حقیقة الإیمان هوالتصدیق([69])
’’پس یہاں دو مقام ہیں: پہلا مقام یہ ہے کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں کیونکہ یہ بات (پہلے) بیان ہوچکی ہیں کہ حقیقت ایمان تصدیق ہی ہے
پھر اس پر مزید بحث کے بعد دوسرے مقام کو بیان فرماتے ہیں:
المقام الثانی أن حقیقة الإیمان لا تزید ولا تنقص لمامر من أنه التصدیق القلبی الذی بلغ حد الجزم والإذعان وهذا لا یتصور فیه زیادة ولا نقصان حتی أن من حصل له حقیقة التصدیق فسواء أتی بالطاعات أوارتکب المعاصی فتصدیقه باق علی حاله لا تغیر فیه اصلا([70])
’’دوسرا مقام یہ ہے کہ بلا شبہ حقیقت ایمان نہ زیادہ ہوتی ہے او رنہ کم، کیونکہ یہ (بات پہلے )بیان ہوچکی ہے کہ ایمان وہ تصدیق قلبی ہے جو مضبوطی او ریقین کی حد کو پہنچی ہوئی ہوں، اور اس میں زیادتی او رکمی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ جس کویہ حقیقت تصدیق حاصل ہوجائے پس (اس کیلئے) یکساں ہے وہ نیک اعمال بجا لائے یا گناہوں کا ارتکاب کرے، پس اسکی تصدیق اپنی حالت پر باقی رہنے والی ہے اصلاً اس میں کوئی تغیر نہیں (واقع ہوگا)‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مومن ناقص الایمان
اہلسنت کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب مومن، ناقص الایمان، آخرت میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے، چاہے تو عذاب دے او رچاہے تو معاف کردے اور وہ اَبدی جہنمی نہیں ہے البتہ خوارج او رمعتزلہ کے نزدیک یہ ابدی جہنمی ہے ۔ اس کے نیک اعمال کا ثواب ضائع ہوجائے گا اور نبیﷺکی شفاعت بھی انکے لیے کارگر ثابت نہیں ہو گی البتہ خوارج اسے کافر کا نام دیتے ہیں اور معتزلہ فاسق کا، رہے مرجئہ تو وہ انکے الٹ ہیں۔
إن مرتکب الکبیره عندهم مؤمن کامل الإیمان ولا یضر إیمانه معصیته بل قال غلاة المرجئة أنه لن یدخل النار من أهل التوحید أحد مهما ارتکب من ذنوب و خطایا ([71])
’’کبیرہ گناہ کا مرتکب ان (مرجئہ) کے نزدیک مومن کامل الایمان ہے او راس کی معصیت اس کے ایمان کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ غالی مرجئہ نے کہا کہ اہل توحید میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا خواہ جو بھی بھی گناہ اس سے سرزد ہوجائیں۔‘‘
امام ابن تیمیہ  راقم ہیں:
فقالت المرجئة جهمیتهم وغیر جهمیتهم هو مؤمن کامل الإیمان وأهل السنة والجماعة علی أنه مؤمن ناقص الإیمان ([72])
’’مرجئہ (خواہ) جہمیہ ہوں یا دوسرے (سب ہی ) کہتے ہیں کہ گناہ گارمومن، کامل الایمان ہے او راہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مؤمن ناقص الایمان ہے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
والتحقیق أن یقال: إنه مؤمن ناقص الإیمان، مؤمن بایمانه، فاسق بکبیرته، ولا یعطی اسم الإیمان المطلق ([73])
’’اور تحقیق یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ یہ مؤمن، ناقص الایمان ہے (یعنی اپنے ایمان کے سبب (تو) مومن ہے جبکہ کبیرہ گناہ کی وجہ سے فاسق ہے اور اسے ایمان مطلق کا نام نہیں دیا جائے گا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اِیمان کے ناقص نہ ہونے کا سبب
مرجئہ کے نزدیک ایمان کے شئ واحد ہونے اور مومن گنہگار کے ناقص الایمان نہ ہونے کےسبب کو امام ابن تیمیہ یوں بیان فرماتے ہیں:
قالت المرجئة علی اختلاف فرقهم:لاتذهب الکبائر و ترك الواجبات الظاهرة شیئا من الإیمان إذ لوذهب شئ منه لا یبقى منه شئ فیکون شیئا واحدا یستوی فیه البر والفاجر ([74])
’’اپنے فرقوں کے اختلاف کے باوجود (سب) مرجئہ کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب اور واجبات ظاہرہ کا ترک ایمان میں کچھ بھی نقص و کمی پیدا نہیں کرتا کیونکہ اگر ایمان میں سے کوئی شئ کم ہوجائے (تو پھر) اس میں سے کوئی شئ باقی نہیں رہے گی پس ایمان شئ واحد ہے جس میں نیک و بد برابر ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کمال ایمان
امام آجری راقم ہیں:
لا یتم له الإیمان إلابالعمل([75])
’’عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔‘‘
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
ودلالة الشرع علی أن الأعمال من تمام الإیمان لاتحصى کثرة ([76])
’’اعمال ایمان کو پورا کرنے والے ہیں(اس پر)شریعت کے دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
امام ابن تیمیہ مرجئہ الجہمیہ اور غیر جہمیہ کی مسئلہ ایمان میں غلطی کو بیان فرماتے ہوئے راقم ہیں:
ان کی غلطی کی تین وجوہ ہیں:
أحدها: ظنهم أن الإیمان الذی فی القلب یکون تاما بدون العمل الذی فی القلب کمحبة الله وخشیة و خوفه والتوکل علیه الشوق إلی لقائه.
والثانی: ظنهم أن الإیمان الذی فی القلب یکون تاما بدون العمل الظاهر وهذا یقول به جمیع المرجئة
([77])
’’ان کا یہ گمان کرنا کہ:عمل قلب جیسا کہ اللہ کی محبت، خوف، اس پر توکل اور اس کی ملاقات کے شوق کے بغیر ہی ایمان قلب مکمل ہے، دوسری غلطی ان کا یہ گمان ہے کہ عمل ظاہری کے بغیر ہی دل کا ایمان مکمل ہے، تمام مرجئہ اس کے قائل ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
فالسلف قالوا: هو اعتقاد بالقلب و نطق باللسان وعمل بالأرکان، وأرادو بذالك أن الأعمال شرط فی کماله ومن هنا نشألهم القول بالزیادة والنقص کما سیأتی و المرجئة قالوا: هو اعتقاد ونطق فقط، والمعتزلة قالوا: هو العمل والنطق والإعتقاد والفارق بینهم و بین السلف أنهم جعلوا الأعمال شرطا فی صحته والسلف جعلوها شرطا فی کماله ([78])
’’سلف نے کہا کہ (ایمان) دل سے اعتقاد، زبان سے اقرار اور عمل بالأرکان ہے اور اس سے ان کی مراد ہے کہ اعمال کمال ایمان کے لیے شرط ہیں او ریہیں سے (ایمان کے) زیادہ او رکم ہونے کا قول پیدا ہوا او رمرجئہ نے کہا کہ ایمان صرف اعتقاد اور اقرار ہے اور معتزلہ نے کہا کہ ایمان عمل، اقرار اور اعتقاد ہے ان (معتزلہ) اور سلف کے درمیان فرق کرنے والی چیز یہ ہے کہ انہوں نے اعمال کو صحت ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے او سلف نے اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرجئہ جہمیہ کے نزدیک ایمان رب تعالیٰ کی معرفت کا نام ہے اور کفر اس سے جہالت کا۔ جبکہ شیخ البانی فرماتے ہیں:
المعرفة بالشئ لاتعنی الإیمان به ([79])
’’کسی چیز کی (صرف) معرفت سے مراد ایمان لانا نہیں ہے۔‘‘
ماتریدیہ وغیرہ کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق ہے۔
اور مرجئہ فقہا کے نزدیک ایمان، دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے جبکہ اہلسنت، سلف صالحین کے نزدیک ایمان اعتقاد، زبان سے اقرار او رعمل سے عبارت ہے او رجو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں۔ علامہ البانی  ان پر شدید نکیر اور تردید فرماتے ہیں۔ دیکھیں: ([80])
مرجئہ کے نزدیک اعمال ایمان کا جز نہیں ہیں۔
جبکہ سلف کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء ہیں اور ترجمان سلف علامہ البانی کے نزدیک بھی اعمال ایمان کا جزء ہیں ۔ ([81])
جہمیہ وغیرہ کے نزدیک اعمال قلوب بھی ایمان کاجز نہیں ہیں۔
جبکہ شیخ البانی کےنزدیک اعمال قلوب ایمان کا جز ہیں۔ ([82])
سلف کے نزدیک مرجئہ میں سے کوئی بھی اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط نہیں کہتا۔
اور بعض حضرات کا یہ کہناکہ ’’مرجئہ ایمان کے لیے اعمال کو شرط کمال قرار دیتے ہیں‘‘ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
کیونکہ مرجئہ کے نزدیک تو ایمان شئ واحد ہے اس میں نیک و بد برابرہیں گنہگار بھی کامل الایمان ہے نہ کہ ناقص الایمان اور ان کے نزدیک تو اعمال ایمان میں شامل ہی نہیں لہٰذا شرط کمال کیونکر قرار پائیں گے۔
مرجئہ کے نزدیک ایمان میں کمی و بیشی نہیں ہوتی۔
جبکہ اہلسنت کے نزدیک ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔
اور شیخ البانی فرماتے ہیں:
إننی أخالفهم مخالفة جذریة فأقول:الإیمان یزید و ینقص وإن الأعمال الصالحة من الإیمان وأنه یجوز الإستثناء فيه خلافا للمرجئة([83])
’’ایمان میری ان(مرجئہ کے تمام فرقوں) سے بنیادی مخالفت ہے میں کہتا ہوں کہ ایمان زیادہ او رکم ہوتا ہے ، بلا شبہ اعمال صالحہ ایمان کا جز ہیں اوراس میں استثنا جائز ہے او ریہ (باتیں) مرجئہ کے خلاف ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
إرجاء کا الزام
لہٰذا بعض حضرات کی طرف سے سلف کے پیروکار ، اہلسنت والجماعت ، جن کے نزدیک ایمان قول و عمل سے مرکب ہے اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے،کو مرجئہ او رجہمیہ ہونے کا الزام دینا انتہائی لغو ہے۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
قیل لابن المبارك تری الإرجاء؟ قال أنا أقول: الإیمان قول و عمل و کیف أکون مرجئا ([84])
’’عبداللہ بن مبارک سے کہا گیا کہ آپ إرجاء (کا عقیدہ) رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ: میں کہتا ہوں کہ ایمان قول و عمل ہے، (لہٰذا) میں مرجئہ کیونکر ہوں گا۔‘‘
امام ابو محمد حسن بن محمد بن علی بن خلف البربہاری متوفی 329ھ فرماتے ہیں:
من قال الإیمان قول و عمل یزید و ینقص فقد خرج من الإرجاء أوله و آخره ([85])
’’جس نے کہا کہ ایمان قول و عمل ہے، زیادہ او رکم ہوتا ہے یقیناً وہ إرجاء سے اوّل و آخر نکل گیا۔‘‘
اسی لئے ناصر بن عبدالکریم العقل راقم ہیں:
أنه لیس کل من رمی بالإرجاء فهو مرجئ لاسیما فی عصرنا هذا، فإن أصحاب النزعات التکفیریة وأهل التشدد سواءفمن کانواعلی مذاهب الخوارج أو من دونهم من الذین یجهلون قواعد السلف فی الأسماء والأحکام، أقول: إن أصحاب هذه النزعات صاروا یرمون المخالفین لهم من العلماء و طلاب العلم بأنهم مرجئة وأکثر ما یکون ذلك من مسائل الحکم بغیر ما أنزل الله و مسائل الولاء والبراء و نحوها ([86])
’’ہر وہ شخص جس کی طرف اِرجاء کی نسبت کی جائے ضروری نہیں کہ وہ مرجئہ ہی ہو، خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں (کیونکہ) تکفیری رجحانات کے حامل اور متشدد حضرات، خواہ وہ خوارج کے مذاہب پر ہوں یا ان کے علاوہ ایسے لوگ ہوں جو اسماء و افعال میں سلف کے اصول و قواعد سے جاہل ہیں ایسے رجحانات کے حامل حضرات اپنے مخالف علما او رطالب علموں پر مرجئہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں او ریہ اکثر الحکم بغیر ما أنزل الله، الولاء والبراء جیسے مسائل میں ہوتا ہے۔‘‘
اور یہ بھی صرف ان حضرات کے خاص ماہرانہ تحقیقی ذوق کا ہی کرشمہ ہے کہ جس نے عمل کو ایمان جزء قررا دینے والے او راس میں کمی و بیشی کے قائل جمہور اَئمہ فقہ و حدیث کے اصل عقیدے او رکمزوری کو پہچان لیا ہے اور صدیوں بعد (خود ان کے اپنے قول کے مطابق) سب سے پہلے یہ سعادت بھی کسی او رکے نہیں بلکہ ان حضرات کے حصے میں ہی آئی ہے۔
جناب ابوعزیر عبدالالٰہ یوسف الجزائری صاحب اپنی کتاب’انحرافات۔صالح الفوزان فی مسئلۃ الایمان‘ میں تارک صلاۃ کے متعلق بات کرتے ہوئے امام ابن عبدالبر کے اعمال کو کمال ایمان کے لیے واجب قرار دینے (حالانکہ امام صاحب نے اسے آیات و احادیث کے دلائل سے ثابت اور ائمہ سلف سے نقل کیا ہے) کی وجہ سے ان جمہور ائمہ کو مرجئہ کہتے ہوئے امام ابن عبدالبر کو ان کی موافقت کا طعنہ دیا ہے۔ اور مسمی ایمان میں کمال کو بدعت کا چشمہ قرار دیا ہے۔
موصوف راقم ہیں :
أنه أوجب الأعمال وجوبا كماليا وليس أصليا في مسمى الإيمان وهذا القول هو ينبوع بدعية شر الكمال في مسمى الإيمان ([87])
نیز راقم ہیں:
ولا يعرف ذلك إلا الذكى المتمرس وليس الحاطب _ وابن عبد البر_ الموافق للجمهور وهم (مرجئة الفقهاء) في مسئلة الإيمان ([88])
قارئین کرام (ہمارا مقصد یہاں تارک صلوٰۃ کے بارے میں کوئی حکم لگانا یا اس کو راجح قرار دینا نہیں ہے بلکہ) ہم امام ابن عبدالبر کا وہ بیان آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اَئمہ دین کو مرجئہ کہا گیا۔ تاکہ معلو م ہو کہ وہ جمہور کون ہیں جن کی موافقت کا امام ابن عبدالبر کو طعنہ دیا جارہا ہے اور وہ کون لوگ ہیں؟ جن کو یہ حضرات مرجئہ کہہ ر ہے ہیں۔
امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
(امام ابو حنفیہ اور ان کے اصحاب کے سوا ) حجاز، عراق، شام او رمصر سے وہ تمام فقہا جو اجتہاد و آثار سے تعلق رکھتے ہیں ان میں امام مالک بن انس ، لیث بن سعد، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ، ابوعبید قاسم بن سلام، داؤد بن علی، طبری رحمہم اللہ اجمعین او روہ لوگ جو ان کے طریقہ کار پر ہیں، سب نے کہا کہ: ایمان قول و عمل ہے، زبان سے اقرار، دل سے اعتقاد اور عمل بالجوارح جس میں سچی نیت کے ساتھ اخلاص بھی ہو، ان (سب) نے کہا کہ ہر وہ فرض و نفل جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے ایمان میں سے ہے نیک اعمال کے ساتھ ایمان زیادہ ہوتا ہے او رگناہوں سے کم ، وأهل الذنوب عندهم مؤمنون غیر مستکمی الإیمان من أجل ذنوبهم و إنما صاروا ناقصی الإیمان بإرتکابهم الکبائر اور ان کے نزدیک گنہگار مومن ہیں البتہ گناہوں کی وجہ سے مکمل ایمان والے نہیں ہیں وہ تو کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے ناقص الایمان ہیں۔([89]) امام ابن عبدالبر چند دلائل نقل کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں :
أوضح الدلائل على صحة قولنا : إن مرتكب الذنوب نا قص الإيمان بفعله ذالك وليس بكافر كما زعمت الخوارج .‘‘ ([90])
’’(یہ )واضح دلائل ہیں ہمارے اس قول کی صحت پر کہ گناہوں کا مرتکب اپنے اس فعل کی وجہ سے ناقص الایمان ہے کافر نہیں ہے جیسا کہ خوارج کا گمان ہے ۔‘‘
امام ابوجعفر طبری  فرماتے ہیں:
هذا الإسم فیمن کان من قوله الإیمان قول بلا عمل و فیمن کان مذهب أن الشرائع لیست من الإیمان ([91])
’’یہ نام (مرجئہ) ان لوگوں کا ہے جن کا قول ہے کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر اور یہ اُن کا (نام ہے) جن کا مذہب ہے کہ شرعی احکام و اعمال ایمان کا جز نہیں ہیں۔‘‘
البتہ خوارج او رمعتزلہ سلف کے زمانہ میں بھی اپنے مخالفین اور اہلسنت والجماعت او ران کے اَئمہ و علما کو مرجئہ ہونے کا الزام دیا کرتے تھے۔
شیبان نے عبداللہ بن مبارک سے کہا:
یا أبا عبدالرحمٰن ما تقول فیمن یزنی و یشرب الخمر و نحو هذا أمؤمن هو؟ قال ابن المبارك: لا أخرجه من الإیمان فقال: علی کبر سن صرت مرجئا فقال له ابن المبارك: أن المرجئة لا تقبلنی أنا أقول: الإیمان یزید والمرجئة لا تقول ذلك والمرجئة تقول حسناتنا متقبلة وأنا لا أعلم تقبلت منی حسنة؟ وما أحوجك إلی أن تأخذ سبورة فتجالس العلماء ([92])
’’اے ابوعبدالرحمٰن (یعنی عبداللہ بن مبارک) آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو زنا کرتا، شراب پیتا اور اس طرح کے کام کرتا ہے، کیا وہ مومن ہے؟ تو عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ میں اسے ایمان سے خارج نہیں کرتا ۔ تو اس نے کہا کہ آپ بڑھاپے کی حالت میں مرجئہ ہوگئے ہیں؟ تو عبداللہ بن مبارک  نے کہاکہ بلا شبہ مرجئہ مجھے قبول نہیں کریں گے (یعنی میرا کسی صورت بھی مرجئہ میں شمار نہیں ہوسکتا) کیونکہ میں کہتا ہوں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے جبکہ مرجئہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ مرجئہ کہتے ہیں کہ ہماری نیکیاں (قطعی طور پر) قبول کا درجہ پانے والی ہیں جبکہ میں نہیں جانتا کہ میری نیکی قبول ہوئی(یا کہ نہیں) تو (اس بات کا) کس قدر محتاج ہے کہ ڈسٹر پکڑ کر علما کی مجلس میں بیٹھے۔‘‘
.....تمت بالخیر .....​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حوالہ جات

([38])..الملل والنحل از شہر ستانی :1؍ 186
([39])..سورۃ الاعراف:111
([40])..فتح الباری:1؍147
([41])..السنۃ از ابن احمد : 81، دوسرا نسخہ :1؍307، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ:2؍59
([42])..صحیح البخاری:48
([43])..السنۃ از خلال:2؍566
([44])..السنۃ از خلال:2؍566، رقم: 964
([45])..الشریعہ از آجری صفحہ 137
([46])..شرح السنۃ از بغوی:1؍80، حلیۃ الاولیاء:7؍29
([47])..موسوعۃ الألبانی:4؍152،153
([48])..منہاج السنۃ :1؍309
([49])..ایضاً 7؍231
([50])..الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1153
([51])..الموسوعہ المیسرۃ :2؍1153
([52])..الایمان لابن تیمیہ :ص155، 162، شرح العقیدہ الطحاویۃ ص144 از مفتی احسان اللہ شائق دیوبندی دارالاشاعت کراچی
([53])..ایضاً: ص 154
([54])..عقیدہ طحاویہ مع الشرح لابن ابی العز الحنفی:ص538
([55])..مجموع الفتاویٰ:7؍507
([56])..الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1154
([57])..مجموع الفتاویٰ:7؍143
([58])..الایمان :ص 155
([59])..ایضاً :ص 308
([60])..مجموع الفتاویٰ:7؍508
([61])..شرح السنۃ للبغوی:1؍194،195؛ خلق افعال العباد: رقم 31، 51
([62])..الملل والنحل:1؍104
([63])..الایمان :ص 308
([64])..شرح العقیدۃ الطحاویۃ :ص 332، الموسوعہ المیسرۃ 28؍1154، مجموع الفتاویٰ13؍56
([65])..شرح العقیدہ الطحاویۃ صفحہ 333
([66])..ایضاً صفحہ 332
([67])..الموسوعۃ المیسرۃ 2؍1154
([68])..شرح العقائد النسفیۃ:ص 126 طبع بمبئی
([69])..شرح العقائد النسفیۃ:ص128
([70])..ایضاً :ص 128
([71])..الموسوعۃ المیسرۃ:2؍1138
([72])..الایمان لابن تیمیۃ :ص 278
([73])..ایضاً :ص 190
([74])..الإیمان لابن تیمیہ صفحہ 176
([75])..الشریعہ:،ص 125
([76])..الایمان :ص 118
([77])..الایمان:ص 285،286
([78])..فتح الباری:1؍64
([79])..موسوعۃ الالبانی :4؍145
([80])..مقدمہ شرح عقیدہ طحاویہ :ص 57
([81])..الذب الاحمد صفحہ 32، موسوعہ الالبانی :4؍127
([82])..موسوعۃ الالبانی :4؍35
([83])..الصحیحہ:7؍153
([84])..السنۃ للخلال :2؍566
([85])..شرح السنۃ للبربہاری :ص 123 طبقہ سابعہ 1428ھ دارالصعیصی السعودیہ، دوسرا نسخہ :ص 57
([86])..القدریۃ والمرجئۃ :ص 121
([87])..انحرافات د. صالح الفوزان فی مسئلۃ الایمان: ص 16
([88])..ايضا: ص29
([89])..التمہید لابن عبدالبر :4؍156،159، الایمان لابن تیمیۃ :ص 259
([90])..التمہید 4؍160 تحت حدیث ثان لابن شہاب عن سالم
([91])..تہذیب الآثار:2؍182
([92])..مسنداسحاق بن راھویہ :3؍670 بحوالہ الصحیحۃ :7؍154، موسوعۃ الالبانی :4؍151
 
Top