یہاں تو اللہ تعالیٰ کے ارادۂ شرعیہ کا پورا ہونا ضروری نہیں ہےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ (امرائے) قریش ایک مخزومی عورت کے معاملہ میں بہت ہی فکر مند تھے جس نے چوری کی تھی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا) وہ لوگ کہنے لگے کہ اس سارقہ کے واقعہ کے متعلق کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت کرے بعض لوگوں نے کہا اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے ہیں اگر کچھ کہہ سکتے ہیں تو وہی کہہ سکتے ہیں ان لوگوں نے مشورہ کر کے اسامہ بن زید کو اس بات پر مجبور کیا چنانچہ اسامہ نے جرات کر کے اس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہیتے اسامہ سے کہا کہ تم خدا کی قائم کردہ سزاؤں میں سے ایک حد کے قیام کے سفارشی ہو یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ ان میں جب کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور سزا نہ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے قسم ہے خدا کی! اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں۔
اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصددراصل یہ ہے کہ جس دین اسلام کے ہم ماننے والے ہیں وہ ہم ایک تقاضا کرتا ہے وہ یہ کے ہمیں اس میں پورا پورا داخل ہونا ہے۔۔۔ یہاں پر کوئی نسبت کسی کے کام نہیں آئے گی۔۔۔ اگر نسبتیں ہی نجات کا سبب بنتی تو یہ مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ ارشاد فرماتے۔۔۔
اور آپ پوراکرنا چاھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک فرضی بات پر کہ اگر فاطمہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔