• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل تصوف کی کارستانیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پھر انہوں نے عقل کو زائل کرنے کے لئے شراب کے بدلے ایک دوسری چیز اختیار کی جس کا نام حشیش اور معجون رکھا ہے۔
یعنی گانجا، افیون اور بھنگ، اور حرام گانے بجانے کا نام سماع اور وجد رکھا ہے۔ حالانکہ جو وجد عقل کو زائل کردے اس سے تعرض حرام ہے۔
اللہ شریعت کو اس طائفہ کے شر سے محفوظ رکھے جو لباس کی نفاست، زندگی کی بہار اور شیریں الفاظ کی فریب کاری کا جامع ہے۔ اور جس کے پیچھے احکام الٰہی کو ختم کرنے اور شریعت کو چھوڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لئے یہ دلوں پر ہلکے ہوگئے ہیں اور ان کے باطل پر ہونے کی اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا پرست ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں۔ جیسی محبت کھیل کود والوں سے اور ناچنے گانے والیوں سے کرتے ہیں۔

اس کے بعد ابن عقیل کہتے ہیں:
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے یہ لوگ تو صاف ستھرے، اچھے طور طریقے والے اور بااخلاق لوگ ہیں، تو میں ان سے کہوں گا کہ اگر یہ لوگ کوئی ایسا طریقہ نہ اپنائیں جس سے اپنے جیسے لوگوں کا دل کھینچ سکیں تو ان کی عیش و عشرت ہمیشہ رہ ہی نہ سکے گی۔
اور ان کا جو حال تم ذکر کررہے ہو وہ تو عیسائیوں کی رہبانیت ہے۔
اور اگر تم دعوتوں کے اندر طفیلی بننے والوں اور بغداد کے زنخوں کی صفائی ستھرائی دیکھو، اور ناچنے والیوں کی نرم اخلاقی کا مشاہدہ کرو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کا طریقہ ظرافت اور فریب کاری کا طریقہ ہے۔
آخر ان لوگوں کو طور طریقے یا زبان ہی سے تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ اگر ان لوگوں کے پاس علم کی گہرائی بھی نہ ہو اور کوئی طور طریقہ بھی نہ ہو تو آخر یہ کس مالداروں کا دل کھینچیں گے۔
تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ احکام الٰہی کی تعمیل مشکل کام ہے۔ اور بدکاروں کے لئے اس سے زیادہ کوئی بات آسان نہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ رہیں۔
اور اس سے زیادہ کوئی مشکل بات نہیں کہ شریعت کے اوامرونواہی کی روشنی میں صادر ہونے والی رکاوٹ کی پابندی کریں۔
درحقیقت شریعت کے لئے متکلمین اور اہل تصوف سے بڑھ کر کوئی قوم نقصان دہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ (متکلمین) لوگوں کے عقائد کو عقلی شبہات کا وہم لاکر فاسد کرتے ہیں۔
اور وہ لوگ (اہل تصوف) لوگوں کے اعمال خراب کرتے، دین کے قوانین کوڈھاتے، بیکاری کو پسند کرتے اور گانے وغیرہ سننے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
حالانکہ سلف ایسے نہیں تھے۔ بلکہ عقائد کے باب میں بندہ تسلیم ورضا تھے۔ اور دوسرے ابواب میں حقیقت پسند و جفاکش۔
وہ کہتے ہیں :
اپنے بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ ان کے دلوں کے افکار میں متکلمین کی بات نہیں پڑنی چاہیئے، اور ان کا کان صوفیوں کی خرافات کی طرف نہیں لگنا چاہیئے۔ بلکہ معاش کے کام میں مشغول ہونا صوفیوں کی بیکاری سے بہتر ہے۔ اور ظواہر پر ٹھہرے رہنا نام نہاد دین پسندوں کی وقت پسندی سے افضل ہے میں نے دونوں گروہوں کے طریقے آزمالئے ہیں، ان لوگوں کا منتہاء کمال شک ہے، اور ان لوگوں کا منتہاء کمال شطح ہے۔ (تلبیس ابلیس ص 375-374)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پھر یہ برا اور رسوا کن حال جس کو ابن عقیل نے بیان کیا ہے اور ابن جوزی نے نقل کیا ہے یہ برابر قائم رہا بلکہ اس کے بعد جو صدیاں آئیں وہ مزید جہل وتاریکی کی صدیاں تھیں۔ کیوں کہ ان صدیوں میں اہل تصوف نے اسلامی سرزمین میں خوب خوب بگاڑ اور خرابی مچائی، اور اسے دین اور اسلام کے نام پر فسق و فجور سے بھردیا۔ اور صرف عقل اور عقیدے ہی کو بگاڑنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اخلاق و آداب کو بھی تباہ وبرباد کیا۔
چنانچہ یہ عبدالوہاب شعرانی ہے جس نے اپنی کتاب "الطبقات الکبریٰ" میں صوفیوں کی ساری بدکاریوں، خرافات اور دہریت کو جمع کیا ہے۔ اور سارے پاگلوں ، مجذوبوں، لونڈے بازوں اور ہم جنسی کے خوگروں، بلکہ سرِ راہ کھلم کھلا جانوروں کے ساتھ بدفعلی کرنے والوں کو اولیاء اللہ قرار دیا ہے۔ اور انہیں عارفین اور اہل کرامت کی لڑی میں پرودیا ہے۔ اور ان کی طرف فضائل اور مقامات سلوک کی نسبت کی ہے۔
اور اسے ذرا شرم نہ آئی کہ وہ ان کی ابتداء ابوبکر صدیق پھر خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین سے کرتا ہے۔
پھر اسی لڑی میں ایسے شخص کو بھی پروتا ہے جو دن دھاڑے کھلم کھلا لوگوں کے روبرو گدھی کے ساتھ بدفعلی کرتا تھا۔
اور ایسے شخص کو بھی پروتا ہے جو زندگی بھر غسل نہیں کرتا تھا تھا،
یا زندگی بھر کپڑے سے ننگا رہتا تھا۔ اور ننگا ہی رہتے ہوئے جمعہ کا خطبہ دیتا تھا ۔ اور ۔۔۔اور ۔۔۔۔
ہرایسا پاگل، جھوٹا، کذاب جس سے زیادہ خسیس طبیعت ٹیڑھے مسلک، برے اخلاق اور گندے عمل کا آدمی انسانیت نے کبھی نہ دیکھا ہوگا، ان سب کو یہ شخص خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور اہل بیت نبوی اطہار جیسے اشرف واکرم انسانوں کے ساتھ ایک ہی دھاگے میں پروتا ہے۔
اور اس طرح یہ شخص طہارت کو نجاست کے ساتھ، شرک کو توحید کے ساتھ، ہدایت کو گمراہی کے ساتھ اور ایمان کو زندقہ کے ساتھ مخلوط کرتا ہے۔
لوگوں پر ان کا دین ملتبس کرتا ہے۔ اور ان کے عقیدے کی شکل و صورت مسخ کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آؤ! اور اس گناہ گار شخص نے اپنے نامزد کیے ہوئے اولیاء عارفین کے جو حالات لکھے ہیں ان میں سے تھوڑا سا پڑھ لو۔
یہ شخص سید علی وحیش نامی ایک شخص کے حالات میں لکھتا ہے کہ:
"وہ (علی وحیش) جب کسی شہر کی شیخ وغیرہ کو دیکھتا تو ان کو ان کی گدھی سے اتار دیتا ۔ اور کہتا کہ اس کا سر پکڑے رہو، تاکہ میں اس کے ساتھ بدفعلی کروں۔ اب اگر وہ شیخ انکار کردیتے تو زمین میں کیل کی طرح گڑجاتے۔ اور ایک قدم بھی نہ چل سکتے۔ اور اگر بات مان لیتے تو بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی (کہ وہ سر عام بدفعلی کرتا، اور یہ سر پکڑے رہتے) اور لوگ یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے) وہاں سے گزرتے رہتے۔" (الطبقات الکبریٰ ج2 ص 135)
دیکھو کہ کس طرح اس کا سید علی وحیش لوگوں کے روبرو ایسی حرکت کرتا تھا کیا اس کے بعد بھی کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ ناپاک تصوف مسلمانوں کے دین کا حصہ ہے۔ اور یہ بھی وہی چیز ہے کہ جس کے ساتھ پروردگار عالم کے پیغمبر ہادی و امین محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے تھے۔ اور کیا علی وحیش اور اس قماش کے لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی لائن میں رکھنے والا، اور ان سب کو ایک ہی راستے کا راہرد قرار دینے والا والا زندیق وافاک کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے جس نے دین اسلام کو ڈھانے اور مسلمانوں کے عقائد کو برباد کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور شعرانی نے اس مقصد کے لئے کہ عقلیں اپنی نیند سے بیدار نہ ہوں لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اولیاء اللہ کے لئے ان کی خاص شریعت ہوتی ہے جس کے مطابق وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔
اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں۔
چاہے اس کا ایک حصہ گدھیوں کے ساتھ بد فعلی ہی کیوں نہ ہو۔
اسی لیے جب بھی کوئی شخص کوشش کرتا ہے کہ جاگے اور غور کرکے ہدایت اور گمراہی اور پاکی و ناپاکی کے فرق کو سمجھے تو یہ لوگ اس پر تلبیس و تزویر کا پھندہ ڈال دیتے ہیں۔
چنانچہ اسی شعرانی کو لے لیجئے۔ اس نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس نے سید بدوی کے عرس میں ہونے والے فسق و فجور پر نکیر کی تھی۔ جہاں آج بھی شہر طنطا(مصر) کے اندر لاکھوں انسان جمع ہوتے ہیں۔
اور مردوں اور عورتوں کے درمیان بہت ہی بڑا اختلاط ہوتا ہے۔
بلکہ مسجدوں اور راستوں میں حرام کاریاں ہوتی ہیں۔
رنڈی خانے کھولے جاتے ہیں اور صوفی مرد اور صوفی عورتیں بیچ مسجد میں ایک ساتھ ناچتے ہیں۔
اور ہر حرام کو حلال کیا جاتا ہے۔
اسی کے متعلق شعرانی نے اپنی کتاب "الطبقات الکبریٰ " میں یہ بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے اس فسق و فجور پر نکیر کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ایمان چھین لیا۔ اور کس طرح چھین لیا۔
شعرانی لکھتا ہے کہ:
"پھر اس شخص کا ایک بال بھی ایسا باقی نہ بچا جس میں دین اسلام کی طرف جھکاؤہو۔ آخر اس نے سیدی احمد رضی اللہ عنہ سے فریاد کی ۔ انہوں نے فرمایا شرط یہ ہے کہ تم دوبارہ ایسی بات نہ کہنا۔ اس نے کہا جی ہاں۔ تب انہوں نے اس کے ایمان کا لباس اسے واپس کیا۔ پھر اس سے پوچھا تم کو ہماری کیا چیز بری معلوم ہوتی ہے؟ اس نے کہا مردوں اور عورتوں کا میل جول۔ جواب میں سیدی احمد رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات تو طواف میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی یہ حرمت (احترام) کے خلاف نہیں۔ پھر فرمایا میرے رب کی عزت کی قسم! میرے عرس میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ ضرور توبہ کرتا ہے اور اچھی توبہ کرتا ہے۔ اور جب میں جنگل کے جانوروں اور سمندروں کی مچھلیوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں، ان میں سے بعض کو بعض سےمحفوظ رکھتا ہوں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے عرس میں آنے والے کی حفاظت سے مجھے عاجز اور بے بس رکھے گا۔ (طبقات الکبریٰ ج 1 ص162)
اور شعرانی نے اپنی کتاب میں ان سب زندقے اور کفر اور جہالت اور گمراہی کو جو روایت کررکھا ہے تو یہ کچھ تعجب کی بات نہیں۔
کیوں کہ اس شخص نے خود اپنے متعلق یہ جھوٹ اڑایا ہے کہ سید بدوی جو اس سے چار سو برس پہلے انتقال کرچکا ہے اس سے سلام کرنے کے لیے قبر سے اپنا ہاتھ نکالتا تھا۔
اور یہ کہ اس مرے ہوئے سید بدوی نے اپنی مسجد کے زاویوں میں سے ایک زاویے کو شعرانی کے لئے شب عروسی کے کمرے کے طور پر تیار کیا تاکہ شعرانی اس کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ یکجا ہو۔
اور جب شعرانی سید بدوی کے عرس میں پہنچنے میں دیر کرتا تو سید بدوی اپنی قبر سے نکل کر قبر کے اوپر رکھا ہوا پردہ ہٹاتا تھا اور کہتا تھا ۔ عبدالوہاب نے دیر کردی آیا نہیں۔
آئیے خود شعرانی کی عبارت پڑھئیے ۔
وہ لکھتا ہے:

"احمد بدوی کے عرس میں ہر سال میرے حاضر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میرے شیخ عارف باللہ محمد شناوی رضی اللہ عنہ جو ان کے گھر اعیان میں سے ایک ہیں انہوں نے قبر کے اندر سیدی احمد رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کرکے مجھ سے عہد لیا۔ اور اپنے ہاتھ سے مجھے ان کے حوالے کیا۔
چنانچہ ان کا ہاتھ شریف قبر سے نکلا۔ اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
اور شناوی نے کہا حضور! آپ کی توجہ ان پر ہونی چاہیے۔ اور آپ انہیں اپنے زیر نظر رکھیں۔
اور اس کے ساتھ ہی میں نے قبر سے سیدی احمد کا یہ فرمان سنا کہ ہاں! "
پھر شعرانی مزید آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ :
"جب میں نے اپنی بیوی فاطمہ ام عبدالرحمٰن کو جو کنواری تھی رخصت کرایا تو پانچ مہینے تک رکا رہا اور اس کے قریب نہیں گیا۔ اس کے بعد سیدی احمد تشریف لائے، اور مجھے ساتھ لیا۔ اور بیوی ساتھ میں تھی۔ اور قبر کا جو گوشہ داخل ہونے والے بائیں واقع ہے اس کے اوپر بستر بچھایا۔ اور میرے لئے حلوہ پکایا۔ اور زندوں اور مردوں کو اس کی دعوت دی اور فرمایا کہ یہاں اس کی بکارت زائل کرو۔ چنانچہ اس رات وہ کام ہوا،"
پھر لکھا ہےکہ:
" میں 948ھ میں عرس کے اندر وقت مقررہ پر حاضر نہ ہوسکا۔ اور وہاں بعض اولیاء موجود تھے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ سیدی احمد رضی اللہ عنہ اس روز قبر کا پردہ ہتاتے تھے اور کہتے تھے کہ عبدالوہاب نے دیر کردی ۔ آیانہیں"۔

(تلبیس ابلیس ج 1ص161-162)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غرض یہ ہیں برے نمونے جن کے متعلق چاہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے انہیں کے نقش قدم پر چلیں۔
اور یہ ہے تصوف کا حقیقی چہرہ۔
اور یہ ہیں اس کے رموز اور رجال کی صورتیں۔
اور اگر ہم ان صورتوں کو گننا شروع کردیں تو اس مختصر رسالہ میں میانہ روی سے باہر نکل جائیں گے۔
البتہ بحمد للہ ، اللہ کی توفیق سے اس کو اپنی کتاب "الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب والسنۃ" میں پورے بسط سے لکھ دیا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے اسی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اور توفیق اللہ ہی طرف سے ہے اور اسی پر بھروسہ ہے۔ اور اسی سے یہ بات مطلوب ہے کہ وہ اسلامی معاشرہ کو اس خبیث سرطان سے پاک کردے جس نے مسلمانوں کے عقیدے ، عمل اور سماج کو فاسد کررکھا ہے۔
اور اخیر میں اللہ عزیز و حمید کے راستے کے داعی و طاہر پر درود وسلام ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا باب
اہل تصوف سے کس طرح بحث کی جائے؟

پچھلے باب میں ہم صوفیانہ افکار کی خطرناکیوں کا ذکر کرچکے ہیں۔ اب جو شخص بھی ان باتوں سے واقف ہوجائے اس پر ضروری ہے کہ اسلامی سماج سے اس خبیث درخت کی جڑ اکھاڑنے کی کوشش کرے۔
لیکن یہ کام نہیں ہوسکتا جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوتِ برحق نہ دی جائے۔
اور ہدایت و پاکیزگی کے پردے میں ہر قسم کے کفر وزندقہ کو چھپانے والے اس قابل نفرت تصوف کو سرعام رسوا نہ کیا جائے۔
اس لئے ضروری ہے کہ جس شخص کو حق معلوم ہوجائے وہ اسے پھیلانے اور عام کرنے کی کوشش کرے۔
اور اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو اس شر کا علم ہوجائے وہ اس کے درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرے۔
اور چونکہ بیشتر طالب علم تصوف کی حقیقت کو نہیں جانتے، اور اس کی کفریات، اکاذیب، اباطیل اور لاف و گزاف سے واقفیت نہیں رکھتے اس لئے صوفیوں سے بحث کرتے ہوئے بہترین جواب نہیں دے پاتے ۔
اور نہ انہیں حق پر قانع کرپاتے ہیں۔ کیوں کہ صوفی جب ایسے آدمی کو دیکھتا ہے جو کتاب و سنت اور دلیل کی عظمت کا قائل ہو تو جھٹ کہتا ہے کہ جنید نے جو کہ شیخ الطائفہ تھے فرمایا ہے کہ ہمارا طریقہ کتاب وسنت کا پابند ہے۔ اور جو کتاب و سنت کو نہ سمجھے وہ اس گروہ کے طریقے کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ اور فلاں نے یہ کہا ہے ۔ اور فلاں نے وہ کہا ہے ۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے دل میں اس گروہ کا کوئی نکتہ جاگزیں ہوتا تو میں اسے بیان نہیں کرتا جب تک کہ میں اس کے لئے کتاب و سنت سے دو شاہد نہ پاجاؤں۔
اور یہ باتیں سن کر صوفیوں کی راہیں نہ جاننے والا طالب علم سمجھتا ہے کہ یہ لوگ دین کے ماہر ہیں۔
اور ورع و اخلاص کے ایسے مقام پر فائز ہیں کہ کوئی بات اس وقت تک نہیں بولتے جب تک کہ وہ کتاب و سنت کے موافق نہ ہو۔
وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ اپنے اقوال وافعال میں کتاب و سنت کے پیروکار ہیں۔ ا
س لئے بیچارہ نادم اور عموماً لا جواب ہوجاتا ہے۔
البتہ کبھی کبھی یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ پھر یہ لوگ اپنے عرسوں اور اپنی محفلوں میں ناچتے کیوں ہیں؟
اور یہ مجذوب کیا ہیں جو اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں،
اور چیختے چلاتے ہیں۔ مگر اس کے جواب میں وہ کٹھ حجت صوفی کہتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ تو غفلت کے مارے ہوئے عوام ہیں۔
حقیقی صوفی نہیں ہیں۔ صوفیت تو کچھ اور ہی ہے۔ حالانکہ یہ بات فطری طور پر جھوٹ ہوتی ہے۔ لیکن اس قسم کا جواب طالب علم پر چل جاتا ہے، اور وہ چپ ہو رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تصوف اس امت کے جسم میں اپنا کام کرتا رہتا ہے، اور پتہ بھی نہیں چلتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور چونکہ بہت سے طالب علموں کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ تصوف کی کتابیں دیکھ سکیں۔ اور ان میں جو کچھ ہے اس کی حقیقت معلوم کرسکیں۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بعض کتابیں دیکھتے ہیں تو حق پوشیدہ رہ جاتا ہے اور باطل سے ممیز نہیں ہوپاتا۔ کیوں کہ اس میں ایسی تلبیس اور ملاوٹ ہوتی ہے کہ پڑھنے والا ایک مریض کے قول کے پہلو بہ پہلو ایک صحیح قول دیکھتا ہے۔ اور چھپے ہوئے لفظوں میں کفر والے ایک قول سے گزرتا ہے تو ایک چوتھا قول ایسا دیکھتا ہے جس سے حکمت پھوٹتی محسوس ہوتی ہے اس لئے وہ گڑ بڑا جاتا ہے، اور حقیقت نہیں دیکھ پاتا۔ اور یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ کون سے راستے سے گزررہا ہے۔
اس لئے ہم تصوف کے بنیادی اور کلی قضیوں کو بتلانے اور اساطین تصوف کے ساتھ مباحثہ کا ڈھنگ سکھانے کے لئیے یہ مختصرسا خلاصہ لکھ رہے ہیں۔ اس کی روشنی میں بحث کرنے والا اگر ایک مبتدی طالب علم بھی ہوا تو وہ بھی ان کو مغلوب اور خاموش کرلے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں صراط مستقیم کی ہدایت بھی دے دے۔
قواعد یہ ہیں:

تصوف گندگیوں کا ایک سمندر ہے

سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ تصوف گندگیوں کا ایک سمندر ہے۔ کیوں کہ اہل تصوف نے ہندوستان ، ایران اور یونان کے فلسفوں میں پائے جانے والے ہر طرح کے کفر و زندقہ کو، اور قرامطہ اور باطنی فرقوں کے تمام مکروفن کو، خرافیوں کی ساری خرافات کو، دجالوں کے سارے دجل کو اور شیطانوں کی ساری "وحی" کو اکٹھا کرلیا ہے۔ اور ان سب کو تصوف کے دائرے، اور اس کے علوم و اصول اور کشف کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ مخلوق کی طرف خدائی کی نسبت سے لے کر ہر موجود کو عین خدا قرار دینے تک تمہاری عقل روئے زمین پر جس کفریہ عقیدہ کا تصور کرسکتی ہے وہ تمہیں تصوف میں ضرور مل جائے گا۔ (تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلامی بھائیو! اس مقصد کے لیے آپ کے ذہن میں تصوف کا واضح نقشہ آجائے، ہم آپ کے سامنے صوفیوں کے عقائد کا، اور دین تصوف اور دین اسلام کے بنیادی فرق کا ایک بہت ہی مختصر سا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
اول: اسلام اور تصوف کے درمیان بنیادی فرق:
اسلام کا منہج اور راستہ تصوف کے راستے اور منہج سے ایک انتہائی بنیادی چیز میں علیحدہ ہے۔ اور وہ ہے "تلقی" یعنی عقائد اور احکام کے سلسلے میں دینی معرفت کے ماخذ۔ اسلام عقائد کے ماخذ کو صرف نبیوں اور پیغمبروں کی وحی میں محصور قرار دیتا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ہمارے پاس صرف کتاب و سنت ہے۔
اس کے برخلاف دین تصوف میں عقائد کا ماخذ وہ خیالی وحی ہے جو اولیاء کے پاس آتی ہے۔ یا وہ مزعومہ کشف ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے۔ یا خواب ہیں یا پچھلے وقتوں کے مرے ہوئے لوگوں اور خضرعلیہ السلام سے ملاقات وغیرہ ہے۔ بلکہ لوح محفوظ میں دیکھنا اور جنوں سے جنہیں یہ لوگ روحانی کہتے ہیں کچھ حاصل کرنا بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
اسی طرح اہل اسلام کے نزدیک شرعی احکام کا ماخذ کتاب و سنت اور اجماع و قیاس ہے، لیکن صوفیوں کی شریعت خوابوں،خضر اور جنوں اور مردوں اور پیروں وغیرہ پر قائم ہے۔ یہ سارے لوگ ہی شارع ہیں۔ اسی لیئے تصوف کے طریقے اور شریعتیں مختلف اور متعدد ہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مخلوق کی سانس کی تعداد کے مطابق راستے ہیں اور سب کے سب اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیئے ہر شیخ کا اپنا ایک طریقہ اور تربیت کا اپنا ایک اصول ہے۔ اس کا اپنا مخصوص ذکر واذکار ہے، مخصوص شعائر ہیں اور مخصوص عبادتیں ہیں۔ اسی لئے تصوف کے ہزاروں بلکہ لاکھوں، بلکہ بے شمار دین اور عقیدے اور شریعتیں ہیں۔ اور سب کو تصوف کا نام شامل ہے۔
یہ ہے اسلام اور تصوف کا بنیادی فرق۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس کے عقائد متعین ہیں۔ عبادات متعین ہیں۔ اور احکام متعین ہیں۔ اس کے برخلاف تصوف ایک ایسا دین ہے جس میں نہ عقائد کی تعیین ہے نہ شرائع اور احکام کی۔ یہ اسلام اور تصوف کے درمیان عظیم ترین فرق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوم: صوفی عقیدے کے تفصیلی خطوط
ا۔ اللہ کے بارے میں
اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں ۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے۔ یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے۔ یہ حلاج کا عقیدہ تھا۔ ایک عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ یعنی خالق مخلوق جدا نہیں۔ یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا۔ اور اخیر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی، ابن سبعین، تلمسانی، عبدالکریم جیلی، عبدالغنی نابلسی ہیں۔ اور جد ید طرق تصوف کے عام افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکے تھے۔ اور آپ اہل تصوف کے علوم سے ناواقف تھے۔ جیسا کہ بایزید بسطامی نے کہا ہے کہ: "خضنا بحراوقف الانبیاء بساحلہ" (ہم ایک ایسے سمندر کی تہ میں پہنچ گئے جس کے ساحل پر انبیاء کھڑے ہیں) اس کے برخلاف بعض دوسرے صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ئنات کا قبہ ہیں، اور آپ ہی وہ اللہ ہیں جو عرش پر مستوی ہے۔ اور آسمان و زمین اور عرش و کرسی اور ساری کائنات آپ کے نور سے پیدا کی گئی ہے۔ آپ پہلا موجود ہیں۔ اور آپ ہی اللہ کے عرش پر مستوی ہیں۔ یہ ابن عربی اور اس کے بعد آنے والے صوفیوں کا عقیدہ ہے۔
3: اولیاء کے بارے میں
اولیاء کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں۔ بعض صوفیاء ولی کو نبی سے افضل کہتے ہیں۔ اور عام صوفیاء ولی کو تمام صفات میں اللہ کے برابر مانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا ہے، روزی دیتا ہے، زندہ کرتا، اور مارتا ہے۔ اور کائنات میں تصرف کرتا ہے۔ صوفیاء کے نزدیک ولایت کے بٹوارے بھی ہیں چنانچہ ایک غوث ہوتا ہے جو کائنات کی ہر چیز پر حکم چلاتا ہے۔ چار قطب ہوتے ہیں جو غوث کے حکم کے مطابق کائنات کے چاروں کونے تھامے ہوئے ہیں۔ سات ابدال ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک غوث کے حسب الحکم سات براعظموں میں سے کسی ایک براعظم پر حکومت کرتا ہے۔ کچھ نجباء ہوتے ہیں جو صرف شہر پر حکومت کرتے ہیں۔ ہر نجیب ایک شہر کا حاکم ہوتا ہے۔ اس طرح اولیاء کا یہ بین الاقوامی نظام مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔ پھر ان کا ایک ایوان ہے جس میں وہ ہر رات غار حراء کے اندر جمع ہوتے ہیں ۔ اور تقدیر پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مختصر یہ کہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے۔
اور یہ طبعی طور پر اسلامی ولایت کے خلاف ہے جس کی بنیاد دینداری، تقوٰی، عمل صالح، اللہ کی پوری پوری بندگی اور اسی کا فقیر و محتاج بننے پر ہے۔ یہاں ولی خود اپنے کسی معاملے کا مالک نہیں ہوتا، چہ جائیکہ وہ دوسروں کے معاملات کا مالک ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:"قل انی الا املک ضرا ولا رشدا" (تم کہہ دو کہ میں نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہوں۔ نہ ہدایت کا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4: جنت اور جہنم کے بارے میں
جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو تمام صوفیاء کا عقیدہ ہے کہ جنت کو طلب کرنا بہت بڑا نقص اور عیب ہے ۔ ولی کے لیے جائز نہیں کہ وہ جنت کے لیئے کوشاں ہو، اور اسے طلب کرے۔ جو جنت طلب کرتا ہے وہ ناقص ہے۔ ان کے یہاں طلب اور رغبت صرف اس کی ہے کہ وہ اللہ میں فنا ہوجائیں، غیب سے واقف ہوجائیں اور کائنات میں تصرف کریں ۔۔۔۔۔ یہی صوفیوں کی خیالی جنت ہے۔
اور جہاں تک جہنم کا تعلق ہے تو صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ اس سے بھاگنا صوفی کامل کے شایان شان نہیں۔ کیوں کہ اس سے ڈرنا آزادوں کی نہیں غلاموں کی طبیعت ہے۔ اور بعض صوفیوں نے تو غرور و فخر میں آکر یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر وہ جہنم پر تھوک دے تو جہنم بجھ جائے گی۔ جیسا کہ ابویزید بسطامی نے کہا ہے۔ پھر صوفیاء وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ جہنم میں داخل ہوں گے ان کے لئے جہنم ایسی شیریں اور ایسی نعمت بھری ہوگی کہ جنت کی نعمت سے کسی طرح کم نہ ہوگی، بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ یہ ابن عربی کا مذہب اور عقیدہ ہے۔
5: ابلیس اور فرعون
جہاں تک ابلیس کا معاملہ ہے تو عام صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ کامل ترین بندہ تھا۔ اور توحید میں ساری مخلوق سے افضل تھا۔ کیوں کہ اس نے۔ ان کے بقول۔ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کیا۔ اس لیئے اللہ نے اس کے سارے گناہ بخش دیئے۔ اور اسے جنت میں داخل کردیا۔ اسی طرح فرعون بھی ان کے نزدیک افضل ترین موحد تھا۔ کیونکہ : " انا ربکم الاعلیٰ " (میں تمہارا سب سے اعلیٰ پروردگار ہوں) اس نےحقیقت پہچان لی تھی۔ کیوں کہ جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی ہے پھر وہ ان کے خیال میں ایمان لے آیا۔ اور جنت میں داخل ہوا۔
 
Top