7-حلال و حرام
یہی حال حلال و حرام کا بھی ہے۔ چنانچہ صوفیوں میں جو لوگ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں ان کے نزدیک کوئی حرام نہیں۔ کیوں کہ ہر موجود ایک ہی ہے۔ اسی لئے ان کے اندر ایسے ایسے ہوئے جو زندیق یا لوطی تھے یا گدھیوں کے ساتھ کھل کھلا دن دھاڑے بدفعلی کرتے تھے۔ پھر ان ہی میں وہ بھی تھے جویہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ نے اس سے سارے احکام ساقط کردیئے ہیں۔ اور ان کے لیئے وہ چیز حلال کردی ہے جو دوسروں پر حرام تھی۔
8-حکومت و سلطنت اور سیاست
جہاں تک حکومت و سلطنت اور سیاست کا تعلق ہے تو صوفیوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ برائی کا مقابلہ کرنا اور بادشاہوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں اللہ نے جس حال کو چاہا بندوں کو اسی حال میں قائم کیا ہے۔
9-تربیت
غالباً صوفی شریعت میں جو چیز سب سے خطرناک ہے وہ ہے ان کا طریقہ تربیت۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی عقل پر پوری طرح مسلط ہوجاتے ہیں اور اسے بیکار بناڈالتے ہیں۔ اور اس کے لیئے وہ قدم بہ قدم کام کرنے کا طریقہ اپناتے ہیں۔ چنانچہ پہلے وہ آدمی کو مانوس کرتے ہیں۔ پھر اس کے دل و دماغ پر تصوف اور صوفیوں کی عظمت، اور ہولناکی کا سکہ جماتے ہیں۔ اس کے بعد آدمی کو تلبیس اور فریب میں ڈالتے ہیں۔ پھر اس پر علوم تصوف میں سے تھوڑا تھوڑا چھڑکتے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اسے صوفی طریق کے ساتھ باند دیتے ہیں۔ اور نکلنے کے سارے راستے بند کردیتے ہیں۔
سوم: صوفی سے بحث کا نقطہ آغاز
بہت سے غیرت مند مسلمان بھائی جنہیں دین سے محبت ہے اور تصوف اور اس کی لغویات سے نفرت ہے وہ صوفیوں سے غلط طور پر بحث شروع کردیتے ہیں کیونکہ وہ فروعی اور ادھر ادھر کی باتوں پر بحث کرنے لگتے ہیں۔ جیسے ذکر و اذکار میں ان کی بدعتیں' صوفی نام رکھنا' عرس منانا محفل میلاد قائم کرنا' تسبیحیں لٹکانا' گڈری پہننا' یا اسی طرح کے دوسرے الگ تھلگ مظاہراور روپ جن میں وہ ظاہر ہوتے ہیں۔
لیکن واضح رہے کہ ان باتوں سے بحث کا آغاز کرنا پورے طور پر غلط ہے۔ اور باوجودیکہ یہ ساری باتیں بدعت اور خلاف شریعت ہیں' اور انہیں دین میں گھڑ کر داخل کیا گیا ہے' لیکن تصوف کی جو باتیں پس پردہ ہیں وہ ان سے کہیں زیادہ کڑوی اور خطرناک ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ باتیں فروع کی حیثیت رکھتی ہیں' لہٰذا اصول کو چھوڑ کر ان باتوں سے بحث کا آغاز کرنا درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ بھی جرائم ہیں اور خلاف شریعت ہیں' لیکن تصوف کے اندر جو ہولناک باتیں' جو گھڑنت' جو بدترین کفریات اور جو گندے مقاصد پائے جاتے ہیں ان کے مقابل میں مذکورہ بالا باتیں بہت معمولی اور ہیچ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو شخص صوفی سے بحث کرے وہ فروعی اور شکلی باتوں کے بجائے اصولی اور بنیادی باتوں سے ابتداء کرے۔
اور غالباً اسلام اور تصوف کا اصل جوہری اختلاف پڑھ لینے کے بعد تمہیں سمجھ میں آگیا ہوگا کہ بحث کی ابتداء کہاں سے کرنی چاہیے۔ یعنی سب سے پہلا سوال ماخذ دین کے متعلق ہونا چاہیے کہ دین کہاں سے لیا جائے اور عقیدہ و عبادت کس چیز سے ثابت کی جائے۔ یعنی دین اور عقیدہ و عبادت کے حاصل کرنے کا ماخذ کیا ہو؟ اسلام اس ماخذ کو صرف کتاب و سنت میں محصور کرتا ہے کسی بھی عقیدے کا اثبات قرآن کی نص یا رسول کے ارشاد کے بغیر جائز نہیں اور کسی بھی شریعت کا اثبات کتاب و سنت یا اس کے موافق اجتہاد کے بغیر جائز نہیں اور اجتہاد صحیح بھی ہوتا ہے اور غلط بھی اور کتاب اللہ اور سنت رسول کے علاوہ کوئی معصوم نہیں۔