• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں


اہل حدیث حضرات کایہ عمومی شعار اوروصف ہے کہ کتابوں میں جہاں کہیں ان کو اہل الحدیث ،اصحاب الحدیث یااس کا ہم معنی ومترادف لفظ دکھائی پڑتاہے توفورااس کو اپنی جماعت پر چسپاں کرنے لگتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ اس کے سیاق وسباق سے کون مراد ہیں فن حدیث سے اشتغال رکھنے والے مراد ہیں یاایک مسلک اورفرقہ مراد ہے۔ان کاحال اس باب میں بعینہ اس بھوکے کے ایساہے جس نےدواوردو کتنے کا جواب چارروٹیوں کی صورت میں دیاتھا۔یاپھر اس شخص کا جس کو ریگستان میں شدت پیاس میں ریت بھی پانی دکھائی دینے لگتاہے۔

اسی کے ساتھ اہل حدیث حضرات اس وصف میں بھی کمال رکھتے ہیں کہ محدثین نے غیض وغضب میں یاکچھ مخصوص حالات میں امام ابوحنیفہ کے حق میں جوتندوترش جملے کہے ہیں اس کو عمومی حالت اوراطلاق پر محمول کرتے ہیں اوراس کا ڈھنڈوراہ پیٹتے ہیں۔ مثلاکسی نے اگریہ کہہ دیاکہ امام ابوحنیفہ سے زیادہ منحوس اسلام میں کوئی پیدانہیں ہوا تواس کو لے کر اچھلتے کودتے ہیں اوردنیابھرکو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھوامام ابوحنیفہ جس کے علم وفضل کا احناف ڈھنڈواپیٹتے ہیں ان کے بارے میں محدثین نے یہ کہاہے اوریہی صحیح اوردرست ہےاوراس کو کسی دوسرے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرنامحدثین کے ساتھ ناانصافی اورظلم ہے۔

میں نے کوشش کی ہے کہ ذراان نام نہاد اہل حدیث حضرات کو آئینہ دکھایاجائے کہ محدثین نے خود اہل حدیثوں کو کیاکچھ کہاہے۔ ذرااس کو بھی دیکھتے چلاجائے اورکسی خاص سیاق وسباق میں سمجھنے کے بجائے اس کو مطلق اورعام سمجھیں ۔

اس فرقہ کا یہ کمال ہے کہ جہاں اہل حدیث کی منقبت مراد ہوتی ہے تووہاں پر اس کا ترجمہ اہل حدیث کرتے ہیں اوریہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہماری جماعت ہی کی توصیف بیان کی جارہی ہے اورجہاں کہیں اہل حدیث کی مذمت ہوتوترجمہ میں اہل حدیث لکھتے نہیں۔ ضمائر سے انہوں نے، ان کا اوراسی طرح کے دوسرے ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی ایک مثال دیکھئے ۔اہلحدیث یاعرف عام میں مشہور غیرمقلدین کے مشہور عالم مولوی محمد جوناگڈھی نے خطیب بغدادی کی شرف اصحاب الحدیث کا ترجمہ کیاہے۔اس ترجمہ میں وہ اہل حدیث کی منقبت اوربزرگی والی روایتوں میں توترجمہ میں اہل حدیث لکھتے ہیں

مثلا یہ قول کہ
ماقوم خیرمن اصحاب الحدیث کا ترجمہ یہ کیاہے ۔کہ "اہل حدیث سے بہتر کوئی قوم نہیں"(صفحہ33)لیکن یہ قول اما تری اہل الحدیث کیف تغیر واکیف افسدو ا کا ترجمہ یہ کیاہے۔"دیکھئے تو یہ طالب حدیث کیسے بگڑگئے۔اسی طرح اہل حدیث کی منقبت اوربزرگی والے دوسرے اقوال میں اہل حدیث یاجماعت اہل حدیث ترجمہ کیاہے۔(دیکھئے ص18-32-34)جب کہ مذمت والے اقوال میں ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کی ہے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں۔
امام اعمش کے قول
مافی الدنیاقوم شرمن اصحاب الحدیث کاترجمہ یہ کیاہے۔"دنیا میں اس قوم سے بری کوئی قوم نہیں ہے"حالانکہ صحیح ترجمہ اہل حدیث حضرات کےا صول پر ہوناچاہئے تھاکہ دنیا میں اہل حدیث سے بری کوئی قوم (جماعت)نہیں ہے۔اسی طرح امام اعمش کے قول لوکانت لی اکلب کنت ارسلتھاعلی اصحاب الحدیث کا ترجمہ یہ کیاہے"اگرمیرے پاس کتے ہوتے تومیں ان لوگوں پر چھوڑدیتا"لیکن صحیح ترجمہ اہل حدیث حضرات کے مطابق یہ ہوناچاہئے کہ "اگرمیرے پاس کتے ہوتے تو میں اہل حدیثوں پر چھوڑدیتا۔

یہ سمجھنامشکل نہیں ہے کہ جوناگڈھی صاحب نے ترجمہ میں اس کتربیونت سے کیوں کام لیاہے ؟سیانے لوگ اس کو میٹھامیٹھاہپ ہپ اورکڑواکڑواتھوتھوسے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
آج کاموضوع یہ ہے کہ اہل الحدیث اوراس کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ اکابر علماء سے جوکچھ منقول ہے اس کوبھی ذراپیش کیاجائے تاکہ اہل الحدیث کو اپنے اوپر چسپاں کرنے والے ذراحوصلہ دکھائیں اورذیل میں اہل الحدیث کو جوکچھ کہاگیاہے اس کے بارے میںاخلاقی جسارت سے کام لے کر اعتراف کریں کہ ہاں یہ ہماری جماعت کو ہی کہاگیاہے ۔ہم ہی اس کے مصداق ہیں۔ یہ سب ہماری ہی شان میں وارد اورنازل ہواہے۔

آئیے اس تعلق سے کچھ محدثین کرام کے ارشادات عالیہ کا مطالعہ کریں۔

حدیث اوراہلحدیث کا فرق
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمٌ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، «مَا رَأَيْتُ عِلْمًا أَشْرَفَ وَلَا أَهْلًا أَسْخَفَ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ»
2/10جامع بیان العلم وفضلہ
عمرو بن الحارث کہتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا(جانا) کہ کوئی علم علم حدیث سے زیادہ اشرف ہے اوراسی کے ساتھ یہ بھی نہیں جانتاکہ کوئی جماعت اہل حدیث سے زیادہ ارزل (ذلیل) ہے۔
بات اگرچہ تلخ ہے لیکن اہل حدیث کو اس کو داروئے تلخ سمجھ کر نوش فرماناہی چاہئے تھا۔اگرکوئی صاحب یہ تاویل کرناچاہیں کہ نہیں صاحب انہوں نے بعض دوسرے اعتبار سے یہ بات کہی تھی۔ اپنی جماعت کے بارے میں یہ بات انہوں نے کسی اورسیاق وسباق میں کہی تھی مطلقا جماعت اہل حدیث کی مذمت مقصود نہ تھی۔ توہمارسوال صرف اتناہوگاکہ ائمہ احناف کے ایک دوسرے پراسی طرح کے اقوال پیش کرتے وقت کبھی خوف خدایاد نہیں آتا۔ ہوسکتاہے وہاں بھی کسی خاص سیاق وسباق اورحالات میں ایک دوسرے پر تنقید کردی گئی ہو ۔مطلق الفاظ سے جوکچھ سمجھ میں آتاہے وہ مراد نہ ہو۔

اہل حدیث سب سے بری جماعت ہیں
عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: " مَا فِي الدُّنْيَا قَوْمٌ شَرٌّ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ(شرف اصحاب الحدیث1/131)
امام اعمش کہتے ہیں کہ دنیا میں اہل حدیث سے بری جماعت کوئی اورنہیں ہے۔
سلیمان بن مہران المعروف بالاعمش محدثین میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے اہل حدیث سے اپناجوشکوہ بیان کیاہے اس کو آپ نے سن ہی لیا۔امام ابوحنیفہ اگر امام ابویوسف کو کچھ کہیں تو موجودہ اہل حدیث اس کاڈھونڈراپیٹتے ہیں اوربعض دریدہ دہن توتین کذاب کی اصطلاح اپنانے سے بھی نہیں شرماتے۔ لیکن جب یہی محدثین اہل حدیثوں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں توآزاد لب خاموش ہوجاتے ہیں۔ قوت گویائی سلب ہوجاتی ہے۔ بولنے کی طاقت چھن جاتی ہے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتے ہیں۔

کچھ توشرم ،کچھ توحیاء ہونی چاہئے۔اگریہی معیار ٹھہراکہ کسی نے خاص حالات میں کسی کو کچھ کہہ دیاتواس کوحقیت پر محمول کرلیناچاہئے۔توآج سے تمام اہل حدیث خود کو ارذل سمجھناشروع کردیں جیساکہ عمروبن الحارث نے کہاہے۔ یہ بھی سمجھنے لگیں کہ اہل حدیثوں کی ہم نشینی سے بہتر یہود ونصاری کی ہم نشینی ہے۔یہ بھی تسلیم کرلیں کہ اہل حدیثوں کو شیطان تسلیم کرکے خداکی پناہ مانگنی چاہئے۔اوراگراس کا یارانہیں تب وتاب نہیں ،حوصلہ نہیں ،توپھر براہ کرم دوہرارویہ چھوڑ کر ائمہ احناف کے آپسی تنقیدات یاباتوں کو بھی انہی محامل پر محمول کریں جس طرح محدثین کی ان باتوں کے وجوہات اوراسباب وعلل تلاش کرتے ہیں۔

ذرایہ بھی سن لیجئے کہ ابوبکر بن عیاش اہل حدیث کے بارے میں کیاکہتے تھے۔
أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، يَقُولُ: أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، هُمُ الْمُجَّانُ (شرف اصحاب الحدیث136)
ابوبکر بن عیاش کہتے تھے اہل حدیث بدترین مخلوق ہیں۔ وہ دیوانے،عقل سے بے گانے ہیں
نوٹ:ہمیں معلوم ہے کہ ابوبکر بن عیاش نے اہل حدیث کی تعریف بھی کی ہے جس کو اہل حدیث حضرات پیش کرتے رہتے ہیں لہذا ہم نے وہ بات پیش کی ہے جس کو اہل حدیث حضرات پیش نہیں کرتے ۔ لہذا حساب برابر ہوگیا۔اگریہ خیانت علمی ہے تو درشہرشمانیز کنند اوراگرنہیں ہے توپھر کوئی بات ہی نہیں ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اہل حدیث سے بغض
سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ يَقُولُ: قَالَ شُعْبَةُ «كُنْتُ إِذَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ يَجِيءُ أَفْرَحُ، فَصِرْتُ الْيَوْمَ لَيْسَ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ أَنْ أَرَى وَاحِدًا مِنْهُمْ»
2/1028جامع بیان العلم وفضلہ
شعبہ کہتے ہیں ایک زمانہ تھاکہ جب میں کسی اہل حدیث کو آتے ہوئے دیکھتا توخوش ہوجاتالیکن اب مجھے کسی اہل حدیث کا دیکھناہی سب سے زیادہ ناگواراورمبغوض ہے۔
شعبہ کا علم حدیث میں جو مقام ومرتبہ ہے وہ محتاج تعارف نہیں لیکن اس کے باوجود وہ جوکچھ کہہ رہے ہیں اس پر جماعت اہل حدیث سنجیدگی سے غورکرے اوریہ بتائے کہ یہ قول حقیقت پر محمول ہے یامجاز پر اگرحقیقت پر نہیں مجاز پر محمول ہے اورکچھ خاص واقعات اورتناظر میں کہاگیاہے تو یہی بات ائمہ احناف پر تنقیدات کے اعتبار سے کیوں نہیں کہاجاسکتا۔

اہل حدیث حضرات عمومی طورپر اصحاب الحدیث سے بھی اہل حدیث مرادلیتے ہیں لہذا اس تعلق سے بعض محدثین نے جوکچھ کہاہے ۔اس کو بھی دیکھتے چلیں۔

اہل حدیث کی ہم نشینی سے یہود ونصاری مجالست زیادہ پسند ہے
قَالَ شُعْبَةُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «قُومُوا عَنِّي، مُجَالَسَةُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُجَالَسَتِكُمْ، إِنَّكُمْ لَتَصُدُّونَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ»
2/217جامع بیان العلم وفضلہ
شعبہ نے اہل حدیث سے کہا"نکل جائو یہاں سے،یہود اورنصاری کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرناتمہارے ساتھ بیٹھنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ تم لوگ اللہ کے ذکر اورنماز تک میں رکاوٹ بنتے ہو۔
ہوسکتاہے کہ اس بات سے کوئی اہل حدیث صاحب مجھ پر بدفہمی کی تہمت تراشنے لگیں اورکہنے لگیں کہ مضمون نگار کواتنابھی نہیں معلوم کہ امام شعبہ نے یہ اس وقت کہاجب راویان حدیث اورطلاب حدیث ان کو تنگ کردیتے تھے۔لہذا اس طرح کی بات تنگ آنے کی وجہ سے کہی گئی ہیں یہ مطلق اورعمومی قول نہیں ہے اس کوعمومی قول پر ڈھالنابدفہمی اورناسمجھی ہے۔
لیکن بے چارے ناقد کو میرے فہم کا ماتم کرنے سے قبل اپنے ان اکابرین کے فہم کا ماتم کرناپڑے گا جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے کچھ ایسے ہی سخٹ جملوں کو حقیت اورعموم پر محمول کرلیاہے۔کیاہمارے ناقد صاحب اس کیلئے تیار ہیں؟اگرتیار ہیں تو وہ ایک مرتبہ اپنے ان اکابرین پر جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے سخت اقوال کو حقیقت اورعموم پر محمول کیاہے،تبرابھیج دیں اورتبرابھیجنے کی سند دکھادیں اس کےبعد راقم کو ناقد صاحب کے بدفہمی کے الزام سرلینے میں کوئی حرج نہ ہوگا۔

سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ، وَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَقَالَ: «أَنْتُمْ سُخْنَةُ عَيْنِي لَوْ أَدْرَكَنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»
2/1028جامع بیان العلم وفضلہ
سفیان بن عیینہ جب اہل حدیث کو دیکھتے تو کہتے تم لوگ میری آنکھوں کی چبھن ہو ۔اگرہم کو اورتم کو حضرت عمررضی اللہ عنہ پالیتے تو تو سخت مارمارتے۔
علم حدیث میں سفیان بن عیینہ ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ وہ اہل حدیث کو آنکھوں کی چبھن سے تعبیر کررہے ہیں آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد محبوب چیز ہوتی ہے جیسے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد الصلوٰۃ قرۃ عینی اورآنکھوں کی چبھن سے ناگوار اورمبغوض چیز کی جانب اشارہ ہوتاہے۔یہاں سفیان بن عیینہ نے اہل حدیث کو آنکھوں کی چبھن قراردیاہے ۔وہی سوال یہاں بھی ہے کہ کیایہ قول اپنے عموم پر ہے یااس کا خاص پس منظر ہے؟اگرخاص پس منظر ہے تویہ خاص پس منظر سفیان بن عیینہ کے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اقوال کے بارے میں کیوں نہیں ہوسکتاہے؟
یہ تفریق اوردوئی کیوں؟یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کس لئے ۔یہ دوہرارویہ کس کی خاطراپنایاجارہاہے کہ سفیان بن عیینہ اہل حدیث کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ خاص پس منظر میں سمجھاجائے اورامام ابوحنیفہ کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ عام اورمطلق قراردیاجائے؟

فضیل بن عیاض کا اہل حدیث سے خداکی پناہ چاہنا
" كَانَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ إِذَا رَأَى أَصْحَابَ الْحَدِيثِ قَدْ أَقْبَلُوا نَحْوَهُ وَضَعَ يَدَيْهِ فِي صَدْرِهِ وَحَرَّكَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكُمْ "
1/217الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع
فضیل بن عیاض جب اہل حدیث کواپنی جانب آتے ہوئے دیکھتے تواپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیتے ہیں اوراپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے کہتے میں تم سے خداکی پناہ چاہتاہوں۔
فضیل بن عیاض مشہور بزرگ اورتبع تابعی گزرے ہیں۔ حافظ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں
الإِمَامُ، القُدْوَةُ، الثَّبْتُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو عَلِيٍّ التَّمِيْمِيُّ، اليَرْبُوْعِيُّ، الخُرَاسَانِيُّ، المُجَاوِرُ بِحَرَمِ اللهِ.(سیر اعلام النبلاء7/293)
وہ اہل حدیث سے خداکی پناہ چاہتے ہیں حالانکہ خداسے پناہ بری چیزوں سے ہی چاہاجاتاہے۔
اب ہماراجماعت اہل حدیث سے سوال یہ ہے کہ کیایہ قول حقیقت پر محمول ہے۔اگرحقیقت پر محمول ہے توفبہاونعم اوراگرنہیں توکیوں اورجس وجہ سے یہ قول حقیقت پر محمول نہیں ہے کیاانہی وجوہات سے اہل الرائے کی مذمت میں محدثین کے جوکچھ اقوال ہیں ان کو اسی خانہ میں نہیں رکھاجاسکتاجس خانہ میں فضیل بن عیاض کااہل حدیث کے سلسلے میں یہ قول رکھاجاتاہے ؟

الْأَعْمَشَ يَقُولُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «لَقَدْ رَدَّدْتُمُوهُ حَتَّى صَارَ فِي حَلْقِي أَمَرَّ مِنَ الْعَلْقَمِ، مَا عَطَفْتُمْ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا حَمَلْتُمُوهُ عَلَى الْكَذِبِ»
2/1033
اعمش نے اہل حدیثوں سے کہا:تم لوگوں نے مجھ پر اس قدر رد کیاہے کہ اب تم لوگ(اہل حدیث)میرے حلق میں علقم(ایک سخت کڑواپھل) سے بھی زیادہ سخت پھانس بن چکے ہو ۔تم کسی پربہت مہربانی کرتے ہو تو اس کی بات کو کذب پر محمول کرلیتے ہو۔
امام اعمش اہل حدیثوں سے اس قدر تنگ آگئے تھے کہ انہوں نے باقاعدہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اگرمیرے پاس کتے ہوتے توان کو اہل حدیثوں پر چھوڑدیتا۔
قَالَ الْأَعْمَشُ: «لَوْ كَانَتْ لِي أَكْلُبٌ، كُنْتُ أُرْسِلُهَا عَلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ»(شرف اصحاب الحدیث131)
اعمش کہتے ہیں کہ اگرمیرے پاس کتے ہوتے تومیں ان کو اہل حدیث پر چھوڑدیتا۔
یہ صرف خواہش نہیں تھی بلکہ اس نے باقاعدہ عمل کی صورت اختیار کرلی تھی۔ امام اعمش نے اہل حدیثوں کی دست برد اوردرازدستی سے بچنے کیلئے باقاعدہ کتابھی پال لیاتھاجس کی وجہ سے اہل حدیث امام اعمش کے پاس بے محابہ آنے سے ہچکنے لگے لیکن جب وہ کتامرگیاتواہل حدیثوں نے امام اعمش پر ہجوم کردیاجس پر امام اعمش غمزدہ ہوکر کہنے لگے ۔جو(اہل حدیثوں )کوامربالمعروف اورنہی عن المنکر کرتاتھاوہ مرگیا۔
اب یہ نوبت آگئی کہ اہل حدیث کو امربالمعروف اورنہی عن المنکر یہ کتے کرنے لگے۔ہم یہ نہیں کہناچاہتے کہ امربالمعروف ہرایک اپنے جنس کو ہی کیاکرتاہے۔ الگ سے کسی دوسرے کو نہیں کیاکرتا۔
براہ کرم کسی اہل حدیث صاحب کو بدکنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ ہماری بات نہیں ہے بلکہ امام اعمش کی اپنی بات ہے ہم نے اسے صرف نقل کیاہے۔
یہ سن کر کچھ یاد آیاکہ ہم نے یہ طرز کہاں سے نقل کی ہے۔ یہ ہمارے کفایت اللہ صاحب کی خاص اداہے وہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے کچھ اقوال نقل کرتے ہیں پھرفرماتے ہیں یہ ہماری بات نہیں ہم نے اجلہ محدثین کی امام ابوحنیفہ کے تعلق سے باتوں کونقل کیاہے۔بس وہی طرز سخن یاد رکھاجائے یہ ہماری بات نہیں ہے۔ ہم نے کچھ اپنی جانب سے نہیں کہاہے بلکہ اہل حدیثوں کے نہایت محترم محدث امام اعمش کی باتوں کو نقل کردیاہے۔اب جن حضرات کو تپ چڑھی ہو وہ امام اعمش سے عرض ومعروض کرلیں۔راقم الحروف کو درمیان میں گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي الْأَعْمَشَ، وَكَانَ لَهُ كَلْبٌ، يُؤْذِي أَصْحَابَ الْحَدِيثِ. قَالَ: فَجِئْنَاهُ يَوْمًا، وَقَدْ مَاتَ، فَهَجَمْنَا عَلَيْهِ , فَلَمَّا رَآنَا بَكَى، ثُمَّ قَالَ: «هَلَكَ مَنْ كَانَ يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ»شرف اصحاب الحدیث1/134
جریر کہتے ہیں کہ ہم اعمش کے پاس آتے تھے۔اوران کاکتااہل حدیث کو تکلیف دیاکرتاتھا۔ ہم ایک دن آئے توان کا کتامرچکاتھاتوہم نے ان پرہجوم کردیاہمیں دیکھ کر اعمش رونے لگے اورکہنے لگے وہ مرگیاجوامربالمعروف اورنہی عن المنکر کیاکرتاتھا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اہل حدیث اورسرقہ
ایک توشاعری میں سرقہ ہوتاہے شاعر دوسرے کو شعرکو اپنابناکر پڑھ دیتاہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی سند اورمتن کا سرقہ ہوتاہے ۔لیکن اس وقت موضوع فنی سرقہ نہیں بلکہ مالی سرقہ ہے۔ امام اعمش کا اہل حدیث حضرات کے بارے میں یہ خیال اوررائے تھاکہ اگراہل حدیثوں کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ دروازے میں لگے لوہے کی کڑیاں تک چرالےجائیں۔
الْأَعْمَشَ، يَقُولُ:: «لَوْ خَلَا هَذَا الْبَابُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَسَرَقُوا حَدِيدَهُ» [ص:132]شرف اصحاب الحدیث
امام اعمش کہتے ہیں اگریہ دروازہ اہل حدیث کیلئے کھول دیاجائے (کوئی نگرانی وغیرہ نہ ہو)تووہ اس کے کڑیاں بھی چراکر لے جائیں گے۔
اسی طرح کاایک واقعہ ایک دوسرے محدث کے بھی ساتھ پیش آیاتھا جس کے بعد سے وہ اہل حدیثوں پر خصوصی نگرانی کرنے لگے۔
سرق اصحاب الحدیث نعل ابی زید فکان اذاجائ اصحاب الشعرائ والعربیۃ والاخبار رمی بثیابہ ولم یتفقدھا واذاجائ اصحاب الحدیث جمعھا وجعلھابین یدیہ
(تاریخ بغداد9/79)
اہلحدیثوں نے ابوزید کا جوتاچرالیاتو اس کے بعد جب شعراء وغیرہ،ماہرین لغت،اخباری وغیرہ آتے توان کے کپڑے ادھر ادھر بکھرے رہتے اوراس کی جانب دھیان نہ دیتے لیکن جہاں اہل حدیث آتے تو اپنے تمام کپڑے اپنے آگے رکھ لیتے۔
امام اعمش کا تویہ خیال تھا اورابوزید کے ساتھ ایساواقعہ بھی ہوگیا جس کے بعد ہی وہ محتاط ہوگئے۔

کیاخیال ہے کہ ان واقعات سے عموم ثابت ہوتاہےکہ تمام اہل حدیث چور ہیں یامحض بعض افراد کی حرکت کی بناء پر اپنی رائے کااظہار اوراحتیاطی طریقہ کار اپناناہے۔ پوری جماعت کو مورد الزام بنانانہیں ہے۔ اگریہی بات ہے تومحدثین کے اہل الرائے کے بارے میں ذاتی آراء کو عمومی نوعیت دے کر کیوں پیش کیاجاتاہے۔یہ کیوں نہیں تسلیم کرلیاجاتاکہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اورہوسکتاہے جس کے اپنے اسباب اوروجوہات ہوں لیکن یہ پوری جماعت اہل الرائے پر اس کا طلاق درست نہیں۔
اگراب بھی کچھ لوگ اہل الرائے کے بارے میں محدثین کے ذاتی آراء کو عمومی نوعیت دینے کی شوقین ہیں توہمیں ان سے کوئی شکوہ نہیں ہے البتہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم امام اعمش کے ہم خیال ہوجائیں ۔

اہل حدیث کے اخلاق
عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَعْجَبَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، يَأْتُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُدْعَوْا، وَيَزُورُونَ مِنْ غَيْرِ شَوْقٍ، وَيُمَلُّونَ بِالْمُجَالَسَةِ، وَيُبْرَمُونَ بِطُولِ الْمُسَاءَلَةِ»(1/217الجامع لاخلاق الراوی واداب السامع)
ابوالزاہریہ کہتے ہیں"میں نے اہل حدیث سے زیادہ عجیب لوگ نہیں دیکھے۔بغیر بلائے پہنچ جاتے ہیں اوربغیر کسی اشتیاق کے زیارت کرتے ہیں اوراپنی ہم نشینی سے صاحب مجلس کو ملول کردیتے ہیں زیادہ پوچھ پوچھ کر بیزار کردیتے ہیں۔
یہ اہل حدیث کے چار نمایاں اوصاف بیان کئے ہیں۔(1)بغیر بلائے پہنچنا۔(2)بغیر کسی اشتیاق کے زیارت کرنا۔(3)اپنی ہم نشینی سے تھکانا۔(4)اتناپوچھناکہ جواب دینے والابیزارہوجائے۔
اول دوکوتو کسی حد تک نظرانداز کیاجاسکتاہے لیکن آخری دو کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔اپنی ہم نشینی سے لوگوں کو تھکادیتے ہیں اورپوچھ پوچھ کر بیزار کردیتے ہیں۔
ویسے آج کل خود اہل حدیث حضرات کی زبانی ان کی پانچویں نمایاں صفت بھی سننے اورپڑھنے میں آرہی ہے کہ اوروہ یہ ہے کہ
(5)اہل حدیث ہمیشہ اختلافی مباحث پر معرکہ برپاکئے رہتے ہیں اورجب ان کو ان مسائل پر لڑنے کیلئے دوسرے مسالک کے لوگ نہیں ملتے توآپس میں ہی شروع ہوجاتے ہیں ۔
مثل مشہور ہے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیر تھا توجس کو جوطبعیت ،سرشت اورطینت ہے اس کا اظہار توکسی نہ کسی شکل میں ہوگاہی۔ اگرچہ وقتی طورپر اس پر کسی اعتبار سے پردہ ڈال دیاجائے۔لیکن جوں ہی نقاب سرکے گا۔ اصل حقیقت وصورت نمایاں نظرآئے گی۔

اہل حدیثوں نے علم کے نورکوختم کردیا
نَظَرَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ وَزِحَامِهِمْ، فَقَالَ: «شِنْتُمُ الْعِلْمَ وَذَهَبْتُمْ بِنُورِهِ. وَلَوْ أَدْرَكْنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»
شرف اصحاب الحدیث122
عبیداللہ بن عمر نے اہل حدیثوں کی بھیڑ کی جانب دیکھااورفرمایاتم نے علم کے ٹکرے ٹکرے کردیئے اورعلم کی رونق گھٹادی اگرہم کو اورتم کو عمر بن خطاب پالیتے تو سخت مارمارتے۔
یہ واضح رہے کہ ا س زمانہ میں علم سے مراد قرآن وحدیث اورفقہ کا علم مراد ہواکرتاتھاتوعبیداللہ بن عمر کی یہ بات بتارہی ہے کہ اہل حدیث نے قرآن وحدیث اورفقہ کے علم کوپارہ پارہ کردیاتھااوراس کی رونق اورنور ختم کردی تھی ۔
اہلحدیث حضرا ت کے اصول کے مطابق عبیداللہ بن عمر کا یہ بیان مطلق اورعام ہوناچاہئے ۔کیونکہ نفس عبارت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اس کو کسی خاص حالت اورتناظر میں سمجھنے کی قید ہو۔

اپنے ہی بھائیوں پر ہاتھ صاف کردینا
حجاج بن نصير الفساطيطي3: وكان معروفًا بالحديث، لكن أفسده أهل الحديث بالتلقين، كان يُلقن وأدخل في حديثه ما ليس منه، فتُرك.(الثقات للعجلی1/109
حجاج بن نصیر الفساطیطی حدیث میں معروف تھے لیکن ان کو اہل حدیث نے تلقین کے ذریعہ بگاڑدیا۔ان کو تلقین کی جاتی اوران کی حدیث میں وہ بات داخل کردی جاتی جو کہ پہلے سے نہ ہوتی تھی اس وجہ سے ان کو ترک کردیاگیا۔
یہ امام عجلی جوخود مشہور محدث اورجرح وتعدیل کے امام ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ حجاج بن نصیر کو بگاڑنے والے ان کے اپنے بھائی اہل حدیث حضرات ہی تھے۔

اہل حدیث بننامسعربن کدام کی بددعا کااثر
اہل حدیث حضرات ایک عمومی وصف یہ بھی ہے کہ وہ محدث سے بھی اہل حدیث کا ترجمہ کشید کرلیتے ہیں لہذا مسعربن کدام کی یہ عبارت دیکھئے اورغوروفکر کیجئے۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ، نا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مِسْعَرًا، يَقُولُ: «مَنْ أَبْغَضَنِي جَعَلَهُ اللَّهُ مُحَدِّثًا
2/1027
جومجھ سے دشمنی رکھتاہو اللہ اس کو اہل حدیث بنادے۔
یعنی اللہ کسی کو اہل حدیث اس لئے نہ بنادے کہ اہل حدیث بننااچھی چیز ہے بلکہ اس لئے بنادے کہ پھر اس کے بعد زندگی بھراس مصیبت کو برداشت کرتارہے۔اورمجھ سے بغض رکھنے کی سزاپاتارہے۔ اب یہ سمجھنامشکل ہے کہ دورحاضر کے اہل حدیث امام مسعربن کدام سے بغض رکھنے کی پاداش میں اہل حدیث بنادیئے گئے ہیں یاپھرکچھ اورماجراہے۔

امام شافعی کو اہلحدیثوں سے تکلیف
امام شافعی کااہل حدیث حضرات پر بڑااحسان ہے کہ انہوں نے ان کو اصول استنباط واستدلال بتایااورحدیث کے اصول وضوابط سے آگاہی بخشی اس خدمت کے صلے میں ان کو ناصرالحدیث کا بھی خطاب دیاگیالیکن اپنے اس محسن کوبھی انہون نے نہیں چھوڑااورتکلیف پہنچاکر ہی دم لیا۔
سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ سُلَيْمَانَ , يَقُولُ: أَلَحَّ عَلَى الشَّافِعِيِّ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَآذَوْهُ (الفقیہ والمتفقہ 2/320)
ربیع بن سلیمان کہتے ہیں امام شافعی سے اہل حدیث کی ایک جماعت نے اصرار کیاحتی کہ ان کوتکلیف پہنچادی۔
امام شافعی کے سلسلہ میں احناف کو کوساجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ فلاں حنفی فقیہہ نے ایساکہہ دیا ویساکہہ دیا ۔کبھی اپنی جانب بھی نگاہ گئی کہ خود انہوں نے کیاکیاہے۔کسی کے صدیوں بعد کوسنے کا اثر امام شافعی تک نہیں پہنچتا لیکن ان کے حین حیات جنہوں نے تکلیف دی وہ کون تھے۔اہل حدیث تھے یاکوئی اورتھے۔مشہور اہل حدیث اشہب سجدے میں دعامانگتے تھے کہ اے اللہ شافعی کو دنیاسے اٹھالے ۔ورنہ امام مالک کا علم مٹ جائے گا۔یہ اشہب کون تھے؟ذرااہل حدیث حضرات ہی ہمیں جواب دیں؟

اگراہل حدیث حضرات کہیں کہ وہ مالکی تھے تودورحاضر کے بالخصوص برصغیر ہندوپاک کے اہل حدیثوں کااعتراف ہے کہ صرف حنفیہ اہل الرائے ہیں بقیہ مالکیہ،شافعیہ ،حنابلہ اہل حدیث ہیں لہذا اس اعتبار سے بھی اشہب اہل حدیث ہی ہوتے ہیں۔
حافظ ذہبی کے دور میں اہل حدیث کا حال
حافظ ذہبی اہل حدیث حضرات کے بہت طرفدار ہیں۔ اوران کی تمام کتابیں اس پر شاہد عدل ہیں۔ اس کے باوجود اپنے زمانہ کے اہل حدیث حضرات کا انہوں نے جومختلف عنوان سے شکوہ کیاہے اس کودیکھتے چلئے۔
ُقلْتُ: كَذَا كَانَ وَاللهِ أَهْلُ الحَدِيْثِ العِلْمَ وَالعِبَادَةَ وَاليَوْمَ فَلاَ عِلْمَ، وَلاَ عِبَادَةَ بَلْ تَخْبِيْطٌ وَلَحنٌ، وَتَصْحِيْفٌ كَثِيْرٌ وَحِفْظٌ يَسِيْرٌ، وَإِذَا لَمْ يَرْتَكِبِ العَظَائِمَ، وَلاَ يُخِلَّ بِالفَرَائِضِ فَلِلَّهِ دَرُّهُ.
سیر اعلام النبلاء 8/299
متقدمین اہل حدیث علم اورعبادت سے متصف تھے اورآج کے اہل حدیث تونہ ان کے پاس علم ہے اورنہ ہی وہ عبادت گزار ہیں بلکہ تخبیط،لحن اوربہت زیادہ تصحیف اورتھوڑے سے حفظ متصف ہیں۔ اوراس کے ساتھ اگر وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب نہ ہوں اورفرائض ہی اداکرلیں تو کیاکہنا۔
اس کے علاوہ مزید مقامات پر حافظ ذہبی نےاپنے زمانہ کے اہل حدیثوں کا رونارویاہے اوران کے قلت علم وحفظ اورعدم تفقہ کا شکوہ کیاہے۔ جہاں ایک اہلحدیث کے عدم تفقہ کی بات ہے تواس کا شکوہ اہل حدیث کے سب سے بڑے مدافع اورگن گان گانے والے خطیب نے بھی نصیحۃ اہل الحدیث اورالفقیہ والمتفقہ میں کیاہے۔ ان تمام نصوص کا ذکرکرناتطویل کاموجب ہوگا۔ اس لئے محض اشارات پر اکتفاء کررہاہوں۔ اس کے باوجود لوگوں کو یہی خوش فہمی رہتی ہے کہ جوجتنابڑامحدث وہ اتناہی بڑافقیہہ بھی ہو۔

یہ حافظ ذہبی نے اپنے زمانہ کے اہل حدیث کا رونارویاہے اسی سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آج کے اہل حدیث کیسے ہوں گے۔اورشب وروز کی آمدورفت اورگردش لیل ونہار کے ساتھ مزید کتنی پستیوں میں اترچکے ہوں گے۔

اہل الرائے کی طرح بننے کی اہلحدیثوں کو نصیحت
مشہور ناقد رجال اورجرح وتعدیل کے امام یحیی بن معین تواہل حدیث حضرات کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کم ازکم حدیث کے بیان کرنے میں اتنی ہی صداقت سے کام لیں جتنی کہ ابن سماعہ(امام ابویوسف کے شاگرد)رائے کے بیان کرنے میں صداقت سے کام لیتے ہیں ۔اگراہل حدیث اتنابھی اہتمام کرلیں تویہ ان کیلئے بہت بڑی بات ہوگی۔
قَالَ يَحْيَى بْن مَعِينٍ: لو كَانَ أهلُ الحديث يصدقون فِي الحديث كما يصدق محمد بْن سِمَاعة فِي الرأي لكانوا فِيهِ عَلَى نهاية.
تاریخ الاسلام 17/325
ابن معین کی اس بات سے ہی اہل حدیث حضرات کو خاموش ہوجاناچاہئے اورسوچناچاہئے کہ جتنااہل حدیث نے حدیث کی راوی کی روایت میں صدق ودیانت داری کا مظاہرہ کیاہے اتناہی احناف نے رائے کے بیان میں بھی صدق ودیانت داری کا مظاہرہ کیاہے۔وکفی ھذا شرفالفقہ الاحناف

ویسے یہ واضح رہناچاہئے کہ ابن معین جیساجرح وتعدیل کاامام بھی نہ صرف حنفی تھابلکہ بقول حافظ ذہبی غالی حنفی تھا۔اب ایسے میں اہل حدیثوں سے ایک سوال ہے کہ ابن معین اہل حدیث رہے یانہیں رہے۔اگروہ اہل حدیث ہیں توبقیہ احناف اہل حدیث کیوں نہیں اوراگربقیہ احناف اہل حدیث نہیں ہیں توپھرابن معین اہل حدیث کیوں اورکس معنی میں ہیں اورجس معنی میں ابن معین اہل حدیث ہیں باوجود حنفی ہونے کے توکیااسی معنی میں تمام موجودہ اہل حدیث بھی "اہل حدیث"ہیں۔

اہل حدیث یااہل خبیث
تقریباتمام ہی گمراہ فرقوں کایہ طرز عمل رہاہے کہ وہ خود کواچھے ناموں سے مزین کرنے کی کوشش اورفراق میں رہتے ہیں اوران کا بڑازور کام سے زیادہ نام پر ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ خوارج خود کواچھاسانام دیتے تھے اوراچھاسانعرہ لگاتے تھے۔اسی طرح معتزلہ اوردیگر تمام گمراہ فرقوں نے اپنے اچھے نام رکھنے پر زیادہ زور دیاہے لیکن جمہورامت نے ان کو ان کے اصل نام سے ہی یاد کیاہے ۔دورحاضر میں بھی کچھ لوگ خود کو اہل حدیث قراردیتے ہیں اوریہ تاثردینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویاصرف وہی حدیث ماننے والے ہیں اوربقیہ سارے غیراہل حدیث ہیں اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہور امت نے ان کے اس نام کو قبول نہیں کیاہے اوران کو الگ الگ خطوں میں الگ الگ نام دیاگیاہے۔ کہیں لامذہبیہ،کہیں غیرمقلدتوکہیں کچھ اور۔کچھ حضرات توتجاوز کرتے ہوئے ان کو اہل خبیث بھی کہہ جاتے ہیں ۔
لیکن یہ نئی بات نہیں ہے کہ اگرکسی کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ اہل حدیث ہے لیکن حقیقت میں ایسانہ ہوتواس کواہل خبیث کہاجائے۔ ابن معین سے ایک ایسے ہی شخص کے متعلق پوچھاگیاجس کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ اہل حدیث ہے تو فرمایاوہ توجھوٹا اورخبیث ہے۔
وَسَأَلت يحيى قلت كنَانَة بن جبلة الَّذِي كَانَ يكون بخراسان من أهل الحَدِيث قَالَ ذَاك كَذَّاب خَبِيث قَالَ عُثْمَان وَهُوَ قريب مِمَّا قَالَ يحيى خَبِيث الحَدِيث
تاریخ ابن معین روایۃ الدارمی
اس سے پتہ چلتاہے کہ جولوگ خود کو الٹے سیدھے اورغلط طورپر اہل حدیث کہتے ہیں اوران میں اہل حدیث کی صفات نہ پائی جائیں یاخواہ مخواہ دوسروں کے القاب وآداب کو اپنے اوپر اوراپنی جماعت پر چسپاں کیاجائے تو ابن معین کی تقلید میں ان کو خبیث الحدیث بھی کہاجاسکتاہے۔
اس بحث کو اتنے پر ہی ختم کرتاہوں ورنہ کہیں ایسانہ ہو اہل حدیث شیوخ کو چھوڑ کر میرے پیچھے پڑجائیں اورمجھے پھر دوڑکربھاگناپڑے کیونکہ اہل حدیث حضرات نے جب شیوخ کو نہیں چھوڑااوران کو دوڑادیاتومیں کون ہوتاہوں۔
وَحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَدَّادُ، قَالَ: سَمِعْتُ يَمُوتَ بْنَ الْمُزْرِعِ، يَقُولُ: «إِذَا رَأَيْتَ الشَّيْخَ يَعْدُو فَاعْلَمْ أَنَّ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ خَلْفَهُ»
(جامع بیان العلم وفضلہ2/1026
یموت بن المزرع کہتے ہیں جب تم کسی شخص کو بھاگتے ہوئے دیکھوتوسمجھ جائو کہ اہل حدیث اس کے پیچھے پڑے ہیں۔

نوٹ:کتابوں میں موجود اہل حدیث یااصحاب الحدیث اوراس کے ہم معنی الفاظ سے موجودہ افراد کو خود کومرادلیناکسی علمی لطیفہ سے کم نہیں ہے۔یہ تحریر بھی اسی لطیفہ کاجواب ہے کوئی سنجیدہ تحریر نہیں ہے۔ لہذاکوئی صاحب اس کو اپنے دل پر نہ لیں۔والسلام
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اس بحث کو اتنے پر ہی ختم کرتاہوں ورنہ
اتنے پر ہی ختم نہ کریں کچھ اور مغلظات ہوں تو انہیں بھی لکھ ڈالیں ہم پیشگی شکریہ کے ساتھ منتظر ہیں ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
نوٹ:کتابوں میں موجود اہل حدیث یااصحاب الحدیث اوراس کے ہم معنی الفاظ سے موجودہ افراد کو خود کومرادلیناکسی علمی لطیفہ سے کم نہیں ہے۔یہ تحریر بھی اسی لطیفہ کاجواب ہے کوئی سنجیدہ تحریر نہیں ہے۔ لہذاکوئی صاحب اس کو اپنے دل پر نہ لیں۔والسلام

أعوذ بالله أن أكون من الجاهلين
صحيح مسلم (4/ 1980)
وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ
ہم آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے بعد کفایت بھائی کے حوالے کرتے ہیں۔

{إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ } [المائدة: 48]
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہت خوب جمشید صاحب،
آپ کی تحریروں کے تو ہم شروع سے مداح ہیں۔ کچھ وقت گزرتا نہیں کہ آپ کوئی نہ کوئی پیار بھری تحریر لے کر حاضر ہو جاتے ہیں۔ بہت خبیث آدمی ہیں آپ۔ ابتسامہ۔
دل پر مت لیجئے گا ازراہ مذاق کہا ہے۔ جیسے چھوٹے بچوں کو والدین لاڈ پیار میں کہہ جاتے ہیں۔
کہیں پڑھا تھا کہ کتے کو چبائی ہوئی ہڈیوں سے محبت ہوتی ہے، آپ کو بہتر معلوم ہوگا، لیکن جس قسم کی ہڈیاں اس مضمون میں چبائی گئی ہیں، اس سے اس حکایت کی تصدیق ہوتی نظر آتی ہے۔

آپ کی شگفتہ اور مزاخیہ تحریر کے جواب میں ایک چٹکلا ہماری طرف سے بھی قبول فرمائیے۔
دو بھائی تھے۔ لڑ پڑے تو ایک نے دوسرے کو ماں کی گالی دی، دوسرے نے پہلے کو وہی گالی دے ڈالی۔
پاس سے گزرتے کسی سیانے نے کہا بے وقوفو! تم اپنی ہی ماں کو گالیاں دے رہے ہو۔ آپس میں لڑ لو لیکن لڑائی کی چج (پنجابی، اردو مترادف غالباً طریقہ یا سلیقہ ہو سکتا ہے) ہوتی ہے اس کا خیال رکھو۔

حنفی تو ہمارے لئے پرائے ہیں، چلو اہل حدیث ان کو کہہ لیں جو کہہ لیں۔ مخالفت میں، محدثین جو کہ آپ کے "اپنے" ہیں، جواب میں ان کو گالیاں دینا خوب ہے۔
ویسے آپ کا مضمون "فیروز المغلظات" میں شائع ہو سکتا ہے ، فوری اپلائی کر ڈالیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں سرورق کے لئے انتخاب ممکن ہو سکے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلام!

میں تو اپنے محدود علم کی بنا پر اس مضمون کا جواب دینے سے قاصر ہوں اور اسکے جواب کے لئے کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی جانب نظریں مرکوز ہیں۔ لیکن یہاں میں یہ بات ضرور کہنا چاہونگا کہ موضوع بہت غیر حقیقی اور غیر فطری محسوس ہورہا ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ انسان کسی چیز کو برا سمجھتا یا کہتا ہو اور وہ چیز اختیاری بھی ہو یعنی وہ کسی بھی وقت اپنی مرضی سے اس چیز سے دست بردار ہوسکتا ہو اور پھر بھی وہ چیز اپنے پاس رکھے یا اس چیز سے منسوب رہے۔ انسان جن چیزوں سے نفرت کرتا ہے اگر وہ قابل ترک ہوں تو انہیں فورا چھوڑ دیتا ہے اسی لئے یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک شخص اپنی مرضی سے اہل حدیث جماعت میں شامل ہوا ہو پھر جماعت اہل حدیث سے نفرت کا بھی اظہار کرتا ہو اور اسے برا بھلا بھی کہتا ہو۔ اس کی صرف دو صورتیں ہیں پہلی یا تو وہ شخص جو اہل حدیثوں کی مذمت بیان کرتا ہو خود اہل حدیث نہیں یا پھر اس کا کلام اہل حدیث کے بارے میں نہیں بلکہ کسی اور کے بارے میں ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جمشید صاحب نے حسب عادت اس مضمون میں تلبیس سے کام لیا ہے جیسا کہ انکے اکابرین کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ اہل حدیث کی عبارات جو کسی اور کی مذمت میں ہوتی ہیں جماعت اہل حدیث کی جانب ناحق منسوب کرکے شور و غوغا کرتے ہیں کہ دیکھو اہل حدیث کے بڑے علماء خود جماعت اہل حدیث سے بے زار تھے۔ دیوبندی اکابرین کے ایسے ہی کارناموں سے ہم نے یہاں پردہ اٹھایا تھا جس کا جواب ذریت دیوبندیت پر ابھی تک ادھار ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اتنے پر ہی ختم نہ کریں کچھ اور مغلظات ہوں تو انہیں بھی لکھ ڈالیں ہم پیشگی شکریہ کے ساتھ منتظر ہیں ۔
جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی آپ بات کرتے ہیں تو وہاں آپ کے منہ سے تو پھول جھڑتے ہیں اور ان مغلظات پر ہم کچھ احتجاج کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ علمی جرح ہے ۔ آج جب ایک تحریر جو آپ حضرات کے انداز میں لکھی گئی ہے تو سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت۔ اور آپ حضرات کو یہاں بھی علمی جرح کہ کر جواب دینا چاہئیے تھا
جزاک اللہ جمشید بھائی ، اللہ آپ کے علم و عمل میں مذید برکت عطا فرمائے آمین آپ نے بے شک غیر مقلدین کے انداز میں لکھ ان کو حیرت و تعجب میں ڈال دیا ہے

ویسے اس محدث فورم کی یہ دوسری تحریر ہے جس کا میں پرنٹ آوٹ نکال کر اپنے پاس محفوظ رکھوں گا ۔ ان شاء اللہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
مضمون لکھنے کے مقصد کو موصوف نے خود ہی واضح کردیا ہے، اور بتا دیا ہے کہ
ہر بات کو سیاق وسباق سے بیان کیا جانا چاہیے۔

پہیلی بات میرے خیال میں اس مضمون کا رد اس نقطہ پر پیش کیا جانا چاہیے، کہ جوعبارتیں ہم ان کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ وہ سیاق وسباق کے خلاف ہوتی ہیں؟ یا یہاں پر جو مغلظات پیش کیے گئے ہیں یہ سیاق وسباق کے خلاف ہیں۔؟

دوسری بات مقلدین کی طرف سے یہ واویلا بھی عام ہے، بلکہ گوگل سرفنگ کرکےدیکھ لو تو ان کےمضامین وکتب شتب میں ملے گا کہ غیر مقلدین انگریز کی پیداوار ہیں۔۔ان سے پہلے ان کا وجود ہی نہیں۔۔حوالہ
غیر مقلدین کی انگریز کے دور سے پہلے نہ کوئی مسجد ملتی ہے نہ مدرسہ نہ قبر نہ کوئی کتاب نہ رسالہ۔ معلوم ہوا کہ انگریز کے دور سے پہلے انکار جود نہیں تھا ۔ نقوش ابوالوفاء سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہندوستان میں رفع یدین کرنے والا انگریز کا ملازم محمد یوسف تھا۔ اس سے سارے ہندوستان میں یہ عمل پھیلا اور بقول مولوی محمد حسین بٹالوی وہ مرزائی ہو گیا تھا۔
۔۔۔لنک
اس طرح ایک مضمون پر موصوف نے بھی تبصرہ کیا ہوا ہے۔مضمون کاعنوان ہے۔۔۔غیرمقلدوں کی دین سے غداری اور انگریزوں سے وفاداری
لنک

ایک طرف کہتے ہیں کہ اہل حدیث (غیر مقلدین) انگریز کی پیداوار ہیں، اور دوسری طرف آنجناب کی یہ تحریر بتاتی ہے کہ کہ نہیں اہل حدیث انگریز کی پیداوار نہیں۔۔۔ اس تضاد سے پہلے بات تو یہ ثابت ہوئی کہ حنفی کذاب ہیں۔جھوٹ بولنا ان کا شعار ہے۔۔ اور اس اگر مگر پارٹی کے لینے دینے کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں۔۔۔

اس تحریر کو پیش کرکے جمشید میاں نے حنفیت کے منہ پر کالک مل دی ہے، کہ نہیں بچو اہل حدیث انگریز کی پیدا وار نہیں۔ بلکہ یہ تو بہت پہلے موجود تھے۔۔۔

حضرات کے انداز میں لکھی گئی ہے تو سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت۔ اور آپ حضرات کو یہاں بھی علمی جرح کہ کر جواب دینا چاہئیے تھا
محترم فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان شاءاللہ ہمارے اہل علم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔۔ جب اس تحریر کا جواب آجائے تو اس کا بھی پرنٹ نکال کر رکھ لینا۔۔۔ تاکہ حساب وکتاب برابر رہے۔۔شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نوٹ:کتابوں میں موجود اہل حدیث یااصحاب الحدیث اوراس کے ہم معنی الفاظ سے موجودہ افراد کو خود کومرادلیناکسی علمی لطیفہ سے کم نہیں ہے۔یہ تحریر بھی اسی لطیفہ کاجواب ہے کوئی سنجیدہ تحریر نہیں ہے۔ لہذاکوئی صاحب اس کو اپنے دل پر نہ لیں۔والسلام
اگر آپ یہ نوٹ نہ بھی لگاتے تو سمجھدار کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہ کس نوعیت کی تحریر ہے ؟
اس تحریر کے غیر سنجیدہ و غیر علمی ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اہل حدیث کی مذمت میں یہ اقوال جن مصادر سے لیے گئے ہیں اکثر میں ساتھ ساتھ ان اقوال کی توجیہات بھی ہیں ۔ لیکن جمشید صاحب نے اس کہاوت پر پورا پورا عمل کیا ہے جس کو اسی تحریر میں دوسروں پر چسپاں کر رہے تھے کہ
میٹھامیٹھاہپ ہپ اورکڑواکڑواتھوتھو
مثلا کئی اقوال خطیب بغدادی کی کتاب ’’شرف أصحاب الحدیث ‘‘سے لیے گئے ہیں ۔ اگر ان اقوال سے وہی نتیجہ نکلتا جو جمشید صاحب نے نکالا ہے تو اس کا نام ’’ ذم أصحاب الحدیث ‘‘ ہونا چاہیے تھا ۔
لہذاکوئی صاحب اس کو اپنے دل پر نہ لیں۔
اہل حدیث کی قدر و رمنزلت آپ کے بیان کی محتاج نہیں ۔ آپ نے جو کیا ٹھیک کیا ہے اور آپ سے یہی توقعی تھی کیونکہ یقینا آپ کی نظروں سے یہ قول گزرا ہوگا :
قال أحمد بن سنان الواسطي : ليس في الدنيا مبتدع إلا و هو يبغض أهل الحديث ، و إذا ابتدع الرجل نزع حلاوة الحديث من قلبه ( معرفة علوم الحديث ص ١١٠ )
دنيا میں کوئی بدعتی ایسا نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو ، کیونکہ جب آدمی بدعت کا رسیا ہوجاتا ہےتو حلاوت حدیث اس کے دل سے کھینچ لی جاتی ہے ۔
آپ اپنے فرض منصبی میں کیسے کوتاہی کر سکتے ہیں ؟
وقال الحاكم رحمه الله : وعلى هذا عهدنا في أسفارنا و أوطاننا كل من ينتسب إلى نوع من الإلحاد والبدع لا ينظر إلى الطائفة المنصورة إلا بعين الحقارة ويسميها الحشوية ۔ ( معرفة علوم الحديث ص ١١٠ )
ہم نے مختلف ملکوں کے سفر کیے ہیں اور یہ بات آزمائی ہے کہ ہر وہ شخص جس کا تعلق کسی بدعتی یا ملحد ٹولے سے ہے وہ طائفہ منصورہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو ’’ حشویہ ‘‘ کا نام دیتا ہے ۔
چونکہ جمشید صاحب نے تو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اپنی عادت سے مجبور ہو کر یہ سب اقوال جمع کردیے ہیں ۔البتہ دیگر قارئین کے لیے خطیب بغدادی کی کتاب الفقیہ و المتفقہ ( جس کے جمشید صاحب نے حوالے دیے ہیں ) سے ایک عبارت کا خلاصہ بیان کرنا مفید رہے گا کہ اہل حدیث کے بارے میں اس طرح کے اقوال کی کیا حیثیت ہے ۔
خطیب بغدادی کہتے ہیں اہل حدیث پر طعن کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں
جاہل عوام
پڑھے لکھے متعصب قسم کے لوگ
پہلی قسم کے لوگ تو اپنی جہالت کی وجہ سے معذور ہیں کیونکہ من جہل شیئا عاداہ ۔
دوسری قسم کے لوگ کی پھر دو قسمیں ہیں :
أہل الرائے اور اہل کلام ( بعض مقلدین دونوں گروہوں کا حسین امتزاج ہیں )
اہل الرائے کا اہل حدیث پر غصے ہونا کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ ان کے استدلالات و قیاسات کی بنیاد جن واہی او ضعیف قسم کی احادیث پر ہوتی ہیں اہل حدیث ان کا پول کھول دیتے ہیں اور اہل الرائے سر پیٹتے رہ جاتے ہیں ۔
متکلمین کی طرف سے اہل حدیث کی عیب جوئی کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ دونوں گروہوں کے درمیان ( احترام نصوص شرعیہ کو لے کر ) بہت سارے اختلافات اور محاذ چلتے رہتے ہیں لہذا ( متکلمین اگر محدثین کی مذمت کرتے ہیں ) تو محدثین کا طرز عمل بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ بقول شاعر
اللہ یعلم أنا لا نحبکم
ولا نلومکم إذ لا تحبونا


بعض آئمہ حدیث سے وارد اقوال کی توجیہ :
جمشید صاحب نے جتنے اقوال بیان کیے ہیں (اگر بسند صحیح ثابت ہیں )تو اس کی کچھ وجوہات ہیں مثلا:
١۔ ایسے اقوال سے مراد ان لوگون کی مذمت ہے جو غیر اہم چیزوں میں اپنا وقت صرف کرتے تھے مثلا غریب و منکر اسانید کی طلب میں لگے رہنا صحیح اسانید کو چھوڑ کر ۔
٢۔ بعض آئمہ حدیث نے اپنے تلامذہ کو تأدیب و تنبیہ کی غرض سے ایسے سخت جملے کہے تاکہ ان کی تربیت ہوتی رہے ۔

ہر جماعت میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ۔ اچھے اور برےمیں تمیز رکھنا باتمیز لوگوں کا کام ہے ۔
عام طور پر ہر استاد کے پاس دونوں طرح کے شاگرد ہوتے ہیں با اخلاق بھی اور بد اخلاق بھی ۔
اس کی واضح مثال دینی مدارس کی ہے ۔۔۔۔۔۔ کون نہیں جانتا کہ معاشرے کی اصلاح و ترقی میں دینی مدارس کا کیا مقام ہے ؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مدارس میں ایسے ایسے لوگ بھی آتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔
پچھلے دنوں ایک جگہ خبر لگی تھی کہ دیوبند کے ایک طالبعلم نے غسل خانے میں خود کشی کر لی اور مختصر عرصے میں یہ دوسری خودکشی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس سے جو لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ مدرسوں والے ہوتے ہی ایسے ہیں جمشید صاحب ان کو کیا جواب دیں گے ؟
ایک بات باقی رہ جاتی ہے جس پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ اہل حدیث اپنے خلاف اقوال کی بڑی توجیہات کر لیتے ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ کے سلسلے میں اس طرح کے جو اقوال ہیں ان میں ایسی باتوں کا خیال نہیں رکھتے ۔
دو دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے ۔ ایک طرف افراد کی پوری جماعت ہے اور دوسری طرف صرف ایک فرد ہے ۔ ایک دوسرے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔
اوپر اہل حدیث کے بارے میں وارد اقوال کی جو توجیہات کی گئی ہیں کیا یہ توجیہات امام ابو حنیفہ کے بارے میں وارد اقوال کے حوالے سے مستقیم رہیں گی ؟
بہر صورت خلاصہ یہ کہ ہم جو مناسب توجیہات ہیں وہ کسی بھی جگہ ہوں ہم کر تے ہیں بس یہ ہے کہ اس میں حقائق کا خون نہ کیا گیا ہو ۔
ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ امام صاحب کے حوالے سے کچھ توجیہات ایسی بھی ہیں جو امام صاحب کے چاہنے والوں کو منظور نہیں ۔

گزارش : اس طرح نظری باتوں سے شاید معاملہ حل نہ ہو آپ اس طرح کریں کہ امام صاحب پر ہونے والی جرح کی توجیہات پیش کریں اور بتائیں کہ اہل حدیث خود تو توجیہ کرتے ہیں لیکن امام صاحب کے بارے میں ایسی تو جیہات کو نہیں مانتے ۔۔۔۔ پھر ہم آپ کو بتائیں گے کہ ہم کسی جگہ مانتے ہیں تو کیوںں مانتے ہیں ؟ اور اگر کسی جگہ نہیں مانتے تو کیوں نہیں مانتے ؟
 
Top