• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
Ghair muqaldo ko haqeeqi aina dekhanay aur achoti tahreer par Jamshed sahib Mubarak baad k mustahiq hain. Jazak Allah
واقعی میں جمشید صاحب کی تحریر اس لائق ہے کہ اسے " اچھوت" قرار دیا جائے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
آئینہ

اہل حدیث حضرات کایہ عمومی شعار اوروصف ہے کہ کتابوں میں جہاں کہیں ان کو اہل الحدیث ،اصحاب الحدیث یااس کا ہم معنی ومترادف لفظ دکھائی پڑتاہے توفورااس کو اپنی جماعت پر چسپاں کرنے لگتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ اس کے سیاق وسباق سے کون مراد ہیں فن حدیث سے اشتغال رکھنے والے مراد ہیں یاایک مسلک اورفرقہ مراد ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ جمشید صاحب نے ایک بھی ایسی مثال نہیں پیش کی جس میں کسی اہل حدیث نے غیرمتعلق الفاظ کو اپنے اوپر چسپاں کردیا ہو بلکہ یہ خود جمشید صاحب ہی کی کارستانی ہے کہ موصوف نے ایسے الفاظ کو جماعت اہل حدیث پر چسپاں کرنے کی مذموم کوشش کی جس کا جماعت اہل حدیث سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ، جیساکہ آگے وضاحت آرہی ہے ۔

بہرحال یہاں پرجمشید صاحب نے صرف دعوی پیش کیا ہے اورکوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں پیش کی جہاں ہم نے اپنے اوپر غیرمتعلق قول کوچسپاں کیا ہو ، لگتاہے جمشید صاحب نے ابوحنیفہ والا آئینہ سامنے رکھ کر یہ سب کچھ لکھا ہے کیونکہ نصوص کو زبردستی ابوحنیفہ کے اوپرفٹ کرنا یہ سب ابوحنیفہ کے دیوانوں ہی کا کام ہے کیونکہ ابوحنیفہ کی مدح میں ائمہ کے نصوص نہ کے برابر ہیں اس لئے یہ بے چارے ادھر ادھر کے غیرمتعلق اقوال ہی سے ابوحنیفہ کی مدح سرائی کی ناکام کوشش کرتے ہیں ، اور جب ادھر ادھر کے اقوال بھی نہیں ملتے ، تو یہ مسکین ابوحنیفہ کی مدح میں ایسے اقوال بھی پیش کرجاتے ہیں جو حقیقت میں مدح کے نہیں بلکہ مذمت کے اقوال ہوتے ہیں۔
حتی بعض مسکین تو احادیث تک کو بھی ابوحنیفہ پر چسپاں کردیتے ہیں اورجوش عقیدت میں اتنابھی ہوش نہیں رہتا کہ پیش کردہ حدیث صحیح بھی ہے یا موضوع ومن گھڑت ، بلکہ حدہوگئی کہ ایک صاحب نے ایک آیت قرانی ہی کو ابوحنیفہ کی فضیلت پر چسپاں کردیا انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

اب تفصیلات بھی دیکھتے چلیں:

احادیث نبویہ کو ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، - قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - أَوْ قَالَ - مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ»[صحيح مسلم 4/ 1972]۔

صحیح مسلم وغیرہ کی اس حدیث کو زبردستی ابوحنیفہ پرچسپاں کیا جاتاہے جبکہ ابوحنیفہ فارسی تھے ہی نہیں تفصیل کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام از شیخ زبیرعلی زئی ج 2 ص 402۔


موضوع احادیث کو ابوحنیفہ پر چسپاں کرنا:
پاکستان میں کوئی گھمن صاحب ہیں موصؤف نے اپنی ایک تقریر میں ابوحنیفہ کی موہوم فضیلت ثابت کرنے کے لئے ایک موضوع ومن گھڑت روایت کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ أنا مدينة العلم، وعلي بابها (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا درازہ ) ۔
اور علم کے دروزے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں مقیم تھے اور اور امام ابوحنیفہ بھی کوفہ میں تھے اس لئے امام ابوحنیفہ ہی امام اعظم ہوئے کیونکہ علم کے دراوزے پر یہی تھے [ماحصل از تقریر گھمن مذکور]۔

حالانکہ یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے بہت سارے ائمہ حدیث نے اس روایت کو موضوع و من گھڑت بتلایا ہے تفصیل کے لئے دیکھیں[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 6/ 518 رقم 2955]۔

قرآن مجید کی آیت کو ابوحنیفہ کی فضیلت پرچسپاں کرنا:

کوئی حضرت مولانا محمدخواجہ شریف صاحب ہیں ، موصوف نے ابوحنیفہ کے جھوٹے مناقب بیان کرنے کے لئے ایک کتاب لکھی جس کانام رکھا ’’امام اعظم ، امام المحدثین‘‘ ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
’’امام اعظم‘‘ پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ واقعۃ ان سے بڑھ کر کسی بھی امام نے نصوص سے عاری رائے وقیاس سے فتاوے نہیں دئے ہیں ، اس لئے اس اعتبارسے وہ بے شک امام اعظم ہیں لیکن موصوف کو ’’امام المحدثین‘‘ جیسے بھاری بھرکم لقب سے بوجھل کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام موصوف کی اصل عظمت کے خلاف بلکہ ان پر ظلم عظیم ہے۔
بہرحال اس کتاب کے مولٍف نے ایک مقام پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:

’’قران مجید میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فضیلت کااشارہ‘‘​

پھراس عنوان کے تحت لکھا گیا ہے :

’’اللہ بزرگ وبرترکا ارشادہے:
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (٢) وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ ’’امام اعظم ، امام المحدثین‘‘ از: مولانا محمدخواجہ شریف :ص1]۔

غورکریں کیسی زورزبردستی ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت کو کوفہ کے ایک مظلوم امام پرفٹ کیاجارہا ہے ، شکر ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے قران کے الفاظ کی بھی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ورنہ یہ عاشقان ابو حنیفہ اپنے معشوق کی محبت میں نہ جانے کتنی سورتیں اور آیات بنالیتے اوررمضان میں بیس رکعات تراویح کےبجائے چالیس رکعات پڑھتے اور نصف حصہ میں صرف فضیلت ابوحنیفہ والی آیات ہی کی تلاوت ہوتی ۔
بہرحال اللہ تبارک وتعالی نے قرآنی الفاظ کے تحفط کی ضمانت لی ہے اس لئے اس معاملہ میں یہ لوگ ناکام رہے لیکن پھربھی پوری طرح مایوس بھی نہ ہوئے بلکہ سوچا کہ آیات کے لئے صرف قرآن ہی ایک آسمانی کتاب تھوڑی ہے بلکہ توریت وغیرہ بھی تو آسمانی کتاب ہے اور اس کتاب سے متعلق تو کوئی پہرہ داری بھی نہیں اس لئے قرآنی آیت نہ سہی توریت ہی کی آیات فراہم کردیتے ہیں ، پھر کیا تھا بے دھڑک ابوحنفیہ کی فضیلت میں آیت گھڑکے توریت کی طرف منسوب کردیا ، اناللہ وانا الیہ راجعون ! تفصیل آگے دیکھیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوحنیفہ کی فضیلت میں آیات واحادیث و اقوال گھڑنا


گذشتہ سطور میں قارئین نے دیکھ کیا کہ کس طرح مجنونان ابو حنیفہ نے غیرمتعلق احادیث کو اپنے امام پرچسپاں کردیا لیکن اس پر بھی آسودگی نہ ہوئی تو ان مجنونوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر بڑا ہی گھناونا کام کرڈالا اور وہ یہ کہ ابوحنیفہ کی فضیلت میں آیات واحادیث اور بے شمار اقوال گھڑ لئے ، چند نمونے ملاحظہ ہوں:



فضیلت ابوحنیفہ میں آیات گھڑنا:
مجنونان ابوحنیفہ اپنے امام کی فضیلت میں قرآنی آیات وضع نہ کرسکے اس لئے قران سے متعلق صرف اسی پراکتفاء کیا کہ آیت قرآنی کو زبردستی اپنے امام پر فٹ کردیا ، لیکن قران کے علاوہ دیگر کتب سماویہ کے بارے میں اللہ نے ایسی کوئی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی اس لئے دیگر کتب سماویہ میں ابوحنیفہ کی فضیلت والی آیت گھڑ کر ان لوگوں نے قران کے خلا کر پر کردیا چنانچہ:


موفق روایت کرتاہے:
(وبه الی النضری ھذا انبا ) ابوبکر محمدبن احمد القرطبی ، انباء محمدبن علی البلخی انباء سھل بن خلف بن وردان ، انبا عمر بن فطن انباء رقاد بن ابراھیم عن عبدالکریم ابن مسعر قال سمعت جماعة من اہل العلم یقولون مکتوب فی التوراة صفة کعب الاحبار والنعمان بن الثابت و مقاتل بن سلیمان [ مناقب ابی حنیفہ للمؤفق: 1 /16 -17]۔

ابوحنیفہ کی فضیلت میں احادیث گھڑنا:
جو لوگ اللہ پر جھوٹ بولنے سے بھی نہیں شرماتے وہ بھلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے سے کیوں پیچھے رہیں گے چنانچہ مجنونان ابوحنیفہ نے ابوحنیفہ کی فضیلت میں بہت ساری احادیث گھڑکر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ، چندملاحظہ ہوں:
خوارزمی روایت کرتاہے :
أخبرني الصدر الكبير شرف الدين أحمد بن مؤيد بن موفق بن أحمد المكي بخوارزم قال أخبرني جدي الصدر العلامة أبو المؤيد موفق ابن أحمد المكي قال أخبرنا الشيخ الزاهد محمد بن إسحاق السراجي الخوارزمي أخبرنا أبو جعفر عمر بن أحمد الكرابيسي أخبرنا الإمام أبو الفضل محمد بن الحسن الناصحي حدثنا أبو محمد الحسن بن محمد حدثنا أبو سهل عبد الحميد ابن محمد الطوافي حدثنا أبي حدثنا أبو القاسم يونس بن طاهر البصري حدثنا أبو يوسف أحمد بن محمد الواعظ في رباط إبراهيم بن أدهم حدثنا أبو عبد الله محمد بن نصير الوراق قال أخبرنا أبو عبد الله المأمون بن أحمد بن خالد حدثنا أبو علي بن أحمد بن علي الحنفي حدثنا فضل بن موسى السيناني عن محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يكون في أمتي رجل يقال له أبو حنيفة هو سراج أمتي يوم القيامة[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 14]۔

خوارزمی روایت کرتاہے :
(وأخبرني المشائخ الثلاثة) شرف الدين الحسن بن إبراهيم بن الحسين بن يوسف بمحروسة دمشق* وشرف الدين أبو محمد عبد العزيز بن محمد بن عبد المحسن الأنصاري بحماه من بلاد الشام حماها الله تعالى وعز الدين عبد الرزاق ابن رزق الله إذناً كلهم عن أبي اليمن زيد بن الحسن بن زيد الكندي عن أبي منصور عبد الرحمن بن محمد القزاز عن أحمد بن علي عن أبي الحسن أحمد بن عمر بن روح النهرواني عن أبي بكر محمد بن إسحاق بن محمد بن عيسى القطيعي عن أبي أحمد محمد ابن حامد بن محمد بن إبراهيم عن محمد بن يزيد بن عبد الله السلمي عن سليمان بن قيس عن أبي المعلات المهاجر عن أبان بن أبي عياش عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سيأتي من بعدي رجل يقال له النعمان بن ثابت ويكنى أبا حنيفة ليحيين دين الله وسنتي على يديه[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 16]۔

خوارزمی روایت کرتاہے :
أنبأني الصدر الكبير شرف الدين أحمد بن مؤيد بن موفق ابن أحمد المكي الخوارزمي عن جده صدر الأئمة أبي المؤيد موفق بن أحمد المكي عن عبد الحميد بن أحمد البراتقيني عن الإمام محمد بن إسحاق السراجي الخوارزمي عن أبي حفص عمر بن أحمد الكرابيسي عن أبي الفتح محمد بن الحسن الناصحي عن الزاهد أبي محمد الحسن بن محمد عن أبي سهل عبد الحميد بن محمد الطوافي عن أبيه عن أبي القاسم يونس بن طاهر النضري عن أبي نصر أحمد بن الحسين الأديب عن أبي سعيد أحمد بن محمد بن بشر عن محمد بن يزيد عن سعيد ابن بشر عن حماد عن رجل عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يظهر من بعدي رجل يعرف بأبي حنيفة يحيي الله سنتي على يديه[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 16]۔

خوارزمی روایت کرتاہے :
(وبهذا الإسناد) إلى يونس بن طاهر النضري قال حدثنا محمد بن موسى حدثنا أبو علي الحسن بن محمد الرازي حدثنا أحمد بن يحيى القزويني حدثنا الحسن بن إسماعيل بن الحسن بن قحطبة عن محمد بن سعيد القاضي عن الحجاج بن بسطام عن عبيد الله بن الحسن بن عبد الله بن مغفل قال سمعت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه يقول ألا أنبئكم رجل من كوفان من بلدتكم هذه أو من كوفتكم هذه يكنى بأبي حنيفة قد ملئ قلبه علماً وحكماً وسيهلك به قوم في آخر الزمان الغالب عليهم التنابز يقال لهم البنانية كما هلكت الرافضة بأبي بكر وعمر رضي الله عنهما[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 17] ۔

خوارزمی روایت کرتاہے :
(وبهذا الإسناد) إلى يونس بن طاهر النضري قال حدثني محمد بن طور قال حدثني أبي حدثنا محمد بن علي حدثنا يوسف بن محمد حدثنا محمد بن عبد الملك المروزي حدثنا أبو قتادة الحراني عن عبد الله بن واقد عن جعفر بن محمد عن جويبر بن سعيد عن الضحاك عن ابن عباس رضي الله عنهما قال يطلع بعد النبي صلى الله عليه وآله وسلم بدر على جميع خراسان يكنى بأبي حنيفة[جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 17]۔

خوارزمی روایت کرتاہے :
(وبهذا الإسناد) إلى يونس بن طاهر النضري حدثنا محمد بن طور حدثنا أبي حدثنا محمد بن عباد حدثنا محمد بن علي حدثنا محمد بن ناصر حدثنا حامد بن آدم المروزي أخبرنا عبد الله بن المبارك قال أخبرني ابن لهيعة قال قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في كل قرن من أمتي سابقون وأبو حنيفة سابق هذه الأمة [جامع المسانيد للخوارزمي: 1/ 18]۔

یادرہے کہ ہم نے ان کتابوں کے حوالے دئے ہیں جن میں ان روایات کو نہ صرف نقل کیا گیا ہے بلکہ ان سے بے چارے ابوحنیفہ کی فضیلت پر استدلال بھی کیا گیاہے۔

لطیفہ:
اورمزے کی بات یہ ہے ان من گھڑت روایات میں بعض کے اندر ابوحنیفہ کو سراج کہا گیا اب کوئی سوچ سکتاتھا کہ سراج منیر تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا ہے یعنی ابوحنیفہ کو نبی کے لقب سے ملقب کیا گیاہے تو ان مسکینوں نے اس بات کی بھی وضاحت فرمادی کہ ابو حنیفہ کو سراج منیرکہنے کا کیا مطلب ہے اسی طرح ان روایات میں استنادی لحاظ سے جو واضح کمزروی تھی اس کا بھی ازالہ کرنے کی ناکام کوشش کی ، مطلب یہ کہ ان احادیث سے ابوحنیفہ کی فضیلت پر استدال کیا گیا، کوئی تعارض محسوس ہوا تو اس کا حل پیش کیا گیا ، حتی کی سند میں موجود کمزوری کا بھی ازالہ کیا گیا ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے اللمحات ج 1 ص 155 ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوحنیفہ کی مذمت میں وارد اقوال سے ابوحنیفہ کی مدح ثابت کرنا

جمشید صاحب لکھتے ہیں
ان کاحال اس باب میں بعینہ اس بھوکے کے ایساہے جس نےدواوردو کتنے کا جواب چارروٹیوں کی صورت میں دیاتھا۔یاپھر اس شخص کا جس کو ریگستان میں شدت پیاس میں ریت بھی پانی دکھائی دینے لگتاہے۔
عرض ہے کہ ہمارے اس حال کی جمشید صاحب نے کوئی دلیل ہی نہیں دی لیکن ہم دلائل کے ساتھ بتلائیں گے یہ حال بلکہ اس سے بھی بدتر حال جمشید صاحب اور ان کی برادری کا ہے چنانچہ یہ لوگ غیرمتعلق اقوال ہی نہیں بلکہ ایسے اقوال کو بھی ابوحنیفہ کی مدح پرچسپاں کردیتے ہیں جن میں درحقیقت ابوحنیفہ کی مدح کے بجائے مذمت ہی ہوتی ہے یعنی رات کو دن اور سیاہ کو سفید بنانے کی ناکام کوشش ، چند نمونے ملاحظہ ہوں:


امام مالک رحمہ اللہ کا قول : ابوحنیفہ کی مدح یا مذمت؟
ائمہ ثلاثہ میں کسی امام نے ابوحنیفہ کی مدح میں ایک حرف بھی نہیں کہا ہے بلکہ تینوں اماموں نے متفق اللسان ہوکر ابوحنیفہ کی مذمت ہی کی ہے اور بھرپور مذمت کی ہے۔
لیکن اس حقیقت کےبرعکس بعض الناس امام مالک کے ایک قول کو(جودرحقیقت ابوحنیفہ کی مذمت میں ہے اسے)ابوحنیفہ کی مدح میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں چنانچہ:
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سمعت مالكا، وقيل له: أتعرف أبا حنيفة؟ فقال: نعم، ما ظنكم برجل، لو قال هذه السارية من ذهب، لقام دونها، حتى يجعلها من ذهب، وهي من خشب أو حجارة؟ ".[آداب الشافعي لابن أبي حاتم: ص: 162 وسندہ صحیح]۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کہاگیا کہ کیا آپ ابوحنیفہ کو جانتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں ! اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اس کھمبے کو سونے کا کھمبا کہہ دے تو اسے سونے ہی کا ثابت کرنے لگ جائے گا یہاں تک کہ اسے سونے ہی کابناڈالے گا جب کہ حقیقت میں وہ لکڑی یا پتھر کا ہوگا۔
بے چارے ابوحنیفہ کے مریدین امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کو ابوحنیفہ کی مدح پر چسپاں کرتے ہیں حالانکہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول ابوحنیفہ کی مدح میں نہیں بلکہ ابوحنیفہ کی قدح میں ہے ۔
چنانچہ خود اس قول کے نقل کرنے والے ابن ابی حاتم رحمہ اللہ امام مالک کے اس قول کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

يعني أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه، ولا يرجع إلى الصواب، إذا بان له[آداب الشافعي لابن أبي حاتم: ص: 162]۔
یعنی امام مالک کی مراد یہ ہے کہ ابوحنیفہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے غلطی پر مصر رہتا تھا اور اس کے سامنے صحیح بات واضح ہوجاتی تھی تب بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تھا۔
شیخ محمد داؤد ارشد بجاطور پرلکھتے ہیں:
’’اے جی لکڑی وپتھرکوسونا ثابت کرنا فقاہت نہیں ضد اور ہٹ دھرمی ہے ، اور ضد اورہٹ دھرمی قابل تعریف نہیں قابل نفرت ہے، اور مگرآفریں مقلد انوار صاحب پر وہ اسے بطور مدح ومنقبت پیش کرتے ہیں‘‘ [حدیث اوراہل تقلید :ص 75]۔
اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ دو اور دو چار روٹی والا فقیر کون ہے ؟؟؟

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول : ابوحنیفہ کی مدح یا مذمت؟
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے متعدد صحیح سندوں سے منقول ہے کہ آپ نے ابوحنیفہ کو حدیث میں یتیم کہا ہے چنانچہ:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
سمعت محمد بن محمود النسائي يقول: سمعت على بن خشرم يقول: سمعت على بن إسحق السمرقندى يقول: سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة في الحديث يتيما.[المجروحين - ابن حبان 3/ 71 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں یتیم تھا۔
عبداللہ بن المبارک کے اس قول کامطلب بہت ہی واضح ہے کہ ابوحنیفہ کے پاس بہت کم حدیثیں تھی ، لیکن بے چارے ابوحنیفہ کے گن گانے والے عبداللہ بن المبارک کے اس قول کو ابو حنیفہ کی مدح پرچسپاں کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ یتیم کے معنی نفیس ویگانہ روزگار ہے ۔

حالانکہ عبداللہ ابن المبارک ہی سے منقول دوسری روایت یوں ہے :

امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان بن عثمان قال سمعت بن المبارك يقول كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 449 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں مسکین تھا۔
اس روایت میں پوری صراحت کے ساتھ ابوحنیفہ کو مسکین کہا گیا ہے اور اس کا مفہوم سوائے اس کے کچھ نہیں ابوحنفیہ کے پاس حدیث بہت کم تھی ۔
لہٰذا اس وضاحت کے ہوتے ہوئے فقیروں کی دو اور دو چار فضائل ابوحنیفہ والی رٹ انتہائی قابل رحم ہے ۔

مزید یہ کہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ آدمی ڈھول کا پول ہے تو آپ نے نہ صرف یہ کہ ابوحنیفہ کی صحبت ترک کردی بلکہ ان کی حدیث کو بھی ترک کردیا اور وفات سے چند ایام قبل اپنے شاگردوں کو بھی وصیت کردی کہ ابوحنیفہ کی حدیث کو مٹا ڈالنا [السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 214 واسنادہ صحیح] ۔


اب قارئیں خود فیصلہ کریں کہ دو اور دو چار روٹی والی حالت بلکہ اس سے بدتر حالت کس کی ہے ؟


اسی کے ساتھ اہل حدیث حضرات اس وصف میں بھی کمال رکھتے ہیں کہ محدثین نے غیض وغضب میں یاکچھ مخصوص حالات میں امام ابوحنیفہ کے حق میں جوتندوترش جملے کہے ہیں اس کو عمومی حالت اوراطلاق پر محمول کرتے ہیں اوراس کا ڈھنڈوراہ پیٹتے ہیں۔ مثلاکسی نے اگریہ کہہ دیاکہ امام ابوحنیفہ سے زیادہ منحوس اسلام میں کوئی پیدانہیں ہوا تواس کو لے کر اچھلتے کودتے ہیں اوردنیابھرکو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھوامام ابوحنیفہ جس کے علم وفضل کا احناف ڈھنڈواپیٹتے ہیں ان کے بارے میں محدثین نے یہ کہاہے اوریہی صحیح اوردرست ہےاوراس کو کسی دوسرے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرنامحدثین کے ساتھ ناانصافی اورظلم ہے۔
اولا:
آپ یہاں بھی آئینہ دیکھ رہے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے حالت غضب میں امام المغازی محمدبن اسحاق رحمہ اللہ کو دجال من الدجالہ کہہ دیا تو آپ کی پوری براداری نہ صرف یہ کہ اسے عمومی حالت پر محمول کرتی ہیں بلکہ ہرخاص عام کے سامنے اس کا اعلان وپرچار کرتی ہے ، حالانکہ محدثین کی اکثریت نے ان کی تعدیل وتوثیق بھی کی ہے ، اس طرزعمل کو اختیار کیا جائے تو ابوحنیفہ کو بھی دجال کہنا چاہے کیونکہ ابوحنیفہ کو بھی دجال من الدجاجلہ کہا گیا ہے ۔
ثانیا:
اگر ہمارا یہ طرزعمل ہوتا جو جمشید صاحب بتلارہے ہیں تو ہم دنیا بھر میں ابوحنیفہ کو شیطان ثابت کرتے پھرتے کیونکہ کسی ثقہ ومستند امام نے ابوحنیفہ کو شیطان بھی کہا ہے ، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ غصہ کی حالت میں ابوحنیفہ کو شیطان کہا گیا ورنہ حقیقت میں ابوحنیفہ شیطان نہیں بلکہ انسان ہیں۔
ثالثا:
رہی بات ابوحنیفہ کو منحوس کہنے کی تو ہم اسے ظاہر پر محمول نہیں کرتے اور یہ ہرگز نہیں کہتے اگر ابوحنیفہ کو منحوس کہتے وقت نحوست کا وہی عقیدہ کار فرما ہے جسے اسلام نے باطل قراردیا ہے بلکہ ابوحنیفہ کو منحوس کہنے سے مراد یہ ہے کہ موصوف کے فتاوی اور ان کی آراء سے امت کو بہت نقصان پہنچا ہے، امت کا اتنا نقصان کسی بھی امام کی آراء وفتاوی سے نہیں ہواہے۔ اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے ، آج بھی امت کا ایک طبقہ ان آراء و فتاوی کو بھگت رہاہے۔
رہی بات اطلاق وعموم کی تو ہم بھی مانتے ہیں کہ ہربات مطلق وعام نہیں ہوتی ہے لیکن تقیید و تخصیص کے لئے دلیل درکارہے، اور ابوحنیفہ سے متعلق ان کے معاصرین اور ان کے قریبی ادوار کے لوگوں نے جو مطلق اور عمومی شہادتیں دی ہیں اگرکوئی صاحب تقیید و تخصیص کے صحیح دلائل بھی لے آئیں توہم دلائل کے بقدر تقیید و تخصیص ماننے کے لئے تیار ہیں ، بصورت دیگر ہمیں معذور سمجھاجائے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے



اس فرقہ کا یہ کمال ہے کہ جہاں اہل حدیث کی منقبت مراد ہوتی ہے تووہاں پر اس کا ترجمہ اہل حدیث کرتے ہیں اوریہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہماری جماعت ہی کی توصیف بیان کی جارہی ہے اورجہاں کہیں اہل حدیث کی مذمت ہوتوترجمہ میں اہل حدیث لکھتے نہیں۔ ضمائر سے انہوں نے، ان کا اوراسی طرح کے دوسرے ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی ایک مثال دیکھئے ۔اہلحدیث یاعرف عام میں مشہور غیرمقلدین کے مشہور عالم مولوی محمد جوناگڈھی نے خطیب بغدادی کی شرف اصحاب الحدیث کا ترجمہ کیاہے۔اس ترجمہ میں وہ اہل حدیث کی منقبت اوربزرگی والی روایتوں میں توترجمہ میں اہل حدیث لکھتے ہیں

مثلا یہ قول کہ
ماقوم خیرمن اصحاب الحدیث کا ترجمہ یہ کیاہے ۔کہ "اہل حدیث سے بہتر کوئی قوم نہیں"(صفحہ33)لیکن یہ قول اما تری اہل الحدیث کیف تغیر واکیف افسدو ا کا ترجمہ یہ کیاہے۔"دیکھئے تو یہ طالب حدیث کیسے بگڑگئے۔اسی طرح اہل حدیث کی منقبت اوربزرگی والے دوسرے اقوال میں اہل حدیث یاجماعت اہل حدیث ترجمہ کیاہے۔(دیکھئے ص18-32-34)جب کہ مذمت والے اقوال میں ضمائر سے کام نکالنے کی کوشش کی ہے۔اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں۔
امام اعمش کے قول
مافی الدنیاقوم شرمن اصحاب الحدیث کاترجمہ یہ کیاہے۔"دنیا میں اس قوم سے بری کوئی قوم نہیں ہے"حالانکہ صحیح ترجمہ اہل حدیث حضرات کےا صول پر ہوناچاہئے تھاکہ دنیا میں اہل حدیث سے بری کوئی قوم (جماعت)نہیں ہے۔اسی طرح امام اعمش کے قول لوکانت لی اکلب کنت ارسلتھاعلی اصحاب الحدیث کا ترجمہ یہ کیاہے"اگرمیرے پاس کتے ہوتے تومیں ان لوگوں پر چھوڑدیتا"لیکن صحیح ترجمہ اہل حدیث حضرات کے مطابق یہ ہوناچاہئے کہ "اگرمیرے پاس کتے ہوتے تو میں اہل حدیثوں پر چھوڑدیتا۔
ان سطور میں جمشیدصاحب نے خود اس بات کی شہادت دے دی کہ اہل حدیث ہر جگہ ’’اصحاب الحدیث ‘‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ کو اپنے اوپر چسپاں نہیں کرتے حالانکہ گذشتہ سطور میں موصوف بڑے طمطراق سے کہہ رہے تھے :
اہل حدیث حضرات کایہ عمومی شعار اوروصف ہے کہ کتابوں میں جہاں کہیں ان کو اہل الحدیث ،اصحاب الحدیث یااس کا ہم معنی ومترادف لفظ دکھائی پڑتاہے توفورااس کو اپنی جماعت پر چسپاں کرنے لگتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ اس کے سیاق وسباق سے کون مراد ہیں۔۔۔۔
الحمدللہ زیرنظر تحریر میں جمشید صاحب نے اعتراف کرلیا کہ اہل حدیث حضرات یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سیاق وسباق سے کون مراد ہیں ، اور اسی کے مطابق الفاظ کا مفہوم اخذ کرتے ہیں ، یادرہے کہ جمشید صاحب نے اپنے گذشتہ دعوی پر کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کی تھی ، اور یہاں آکر خود اعتراف کرلیا کہ اہل حدیث کا ایسا طرزعمل نہیں بلکہ ساتھ میں یہ بھی ظاہر کردیا کہ اس طرح کا طرزعمل اگرکسی کا ہے تو وہ خود بے چارے جمشید صاحب ہی کا ہے ، اس پر ہم اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حدیث اوراہلحدیث کا فرق
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمٌ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، «مَا رَأَيْتُ عِلْمًا أَشْرَفَ وَلَا أَهْلًا أَسْخَفَ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ»
2/10جامع بیان العلم وفضلہ
عمرو بن الحارث کہتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا(جانا) کہ کوئی علم علم حدیث سے زیادہ اشرف ہے اوراسی کے ساتھ یہ بھی نہیں جانتاکہ کوئی جماعت اہل حدیث سے زیادہ ارزل (ذلیل) ہے۔
بات اگرچہ تلخ ہے لیکن اہل حدیث کو اس کو داروئے تلخ سمجھ کر نوش فرماناہی چاہئے تھا۔اگرکوئی صاحب یہ تاویل کرناچاہیں کہ نہیں صاحب انہوں نے بعض دوسرے اعتبار سے یہ بات کہی تھی۔ اپنی جماعت کے بارے میں یہ بات انہوں نے کسی اورسیاق وسباق میں کہی تھی مطلقا جماعت اہل حدیث کی مذمت مقصود نہ تھی۔ توہمارسوال صرف اتناہوگاکہ ائمہ احناف کے ایک دوسرے پراسی طرح کے اقوال پیش کرتے وقت کبھی خوف خدایاد نہیں آتا۔ ہوسکتاہے وہاں بھی کسی خاص سیاق وسباق اورحالات میں ایک دوسرے پر تنقید کردی گئی ہو ۔مطلق الفاظ سے جوکچھ سمجھ میں آتاہے وہ مراد نہ ہو۔
اولا:
یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حدثنا عبد الوارث بن سفيان، قال: حدثنا قاسم، قال: حدثنا أحمد بن زهير، قال: حدثنا محمد بن سلام، قال: قال عمرو بن الحارث: ما رأيت علما أشرف ولا أهلا أسخف من أهل الحديث[جامع بيان العلم وفضله: 2/ 255 ]۔

یہ روایت مردود ہے کیونکہ سند میں موجود ’’محمد بن سلام‘‘ کی توثیق کسی بھی ناقد امام سے باسند صحیح ثابت نہیں ۔
مزید یہ کہ محمدبن سلام نے اپنے شاگرد احمدبن زہیر کے سامنے اس قول کے قائل کا نام عمروبن الحارث بتلایاہے جبکہ اپنے دوسرے شاگر د محمد بن إسماعيل بن يعقوب کے سامنے قائل کا نام حماد بن سلمہ بتلایا ہے چناچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، أنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى، أنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، يَقُولُ: «لَا تَرَى صِنَاعَةً أَشْرَفَ، وَلَا قَوْمًا أَسْخَفَ مِنَ الْحَدِيثِ وَأَصْحَابِهِ» وَالْوَاجِبُ أَنْ يَكُونَ طَلِبَةُ الْحَدِيثِ أَكْمَلَ النَّاسِ أَدَبًا، وَأَشَدَّ الْخَلْقِ تَوَاضُعًا، وَأَعْظَمَهُمْ نَزَاهَةً وَتَدَيُّنًا، وَأَقَلَّهُمْ طَيْشًا وَغَضَبًا، لِدَوَامِ قَرْعِ أَسْمَاعِهِمْ بِالْأَخْبَارِ الْمُشْتَمِلَةِ عَلَى مَحَاسِنِ أَخْلَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآدَابِهِ , وَسِيرَةِ السَّلَفِ الْأَخْيَارِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَطَرَائِقِ الْمُحَدِّثِينَ، وَمَآثِرِ الْمَاضِينَ، فَيَأْخُذُوا بِأَجْمَلِهَا وَأَحْسَنِهَا، وَيَصْدِفُوا عَنْ أَرْذَلِهَا وَأَدْوَنِهَا[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 78]۔

لہٰذا ایک طرف محمدبن سلام کی توثیق کا ثابت نہ ہونا اور دوسری طرف قائل کی تعیین میں اختلاف ، یہ معاملہ کو مزید مشکوک بنادیتاہے۔

ثانیا:
اوپر بتایا جاچکا ہے کہ محمدبن سلام نے اسی قول کو حمادبن سلمہ سے بھی نقل کیا ہے اورحمادبن سلمہ حالت غضب میں بہت سخت بول جایا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے غضب کی حالت میں ابوحنیفہ کو شیطان تک کہہ ڈالا ، چنانچہ:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ حمادبن سلمہ سے طلاب حدیث کے بارے میں سخت تبصرہ منقول ہے اور اس میں پوری جماعت کی شمولیت ناممکن ہے جبکہ خود امام حماد بن سلمہ بھی اہل حدیث ہی ہیں ، لیکن ابوحنیفہ کی ایک جماعت یا مسلک کا نام نہیں بلکہ ایک فرد واحد کا نام ہے لہٰذا اسے شیطان کہا گیا تو یہاں عموم وخصوص کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
ثالثا:
اس قول میں روئے سخن طلاب حدیث کی طرف ہے امام خطیب بغدادی جو اس قول کے راوی ہیں اور طلاب حدیث کے آداب پر لکھی گئی کتب میں یہ روایت لاتے ہیں اور روایت درج کرنے بعد بھی فورا طلاب حدیث کو نصیحت بھی کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، أنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى، أنا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، يَقُولُ: «لَا تَرَى صِنَاعَةً أَشْرَفَ، وَلَا قَوْمًا أَسْخَفَ مِنَ الْحَدِيثِ وَأَصْحَابِهِ» وَالْوَاجِبُ أَنْ يَكُونَ طَلِبَةُ الْحَدِيثِ أَكْمَلَ النَّاسِ أَدَبًا، وَأَشَدَّ الْخَلْقِ تَوَاضُعًا، وَأَعْظَمَهُمْ نَزَاهَةً وَتَدَيُّنًا، وَأَقَلَّهُمْ طَيْشًا وَغَضَبًا، لِدَوَامِ قَرْعِ أَسْمَاعِهِمْ بِالْأَخْبَارِ الْمُشْتَمِلَةِ عَلَى مَحَاسِنِ أَخْلَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَآدَابِهِ , وَسِيرَةِ السَّلَفِ الْأَخْيَارِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَطَرَائِقِ الْمُحَدِّثِينَ، وَمَآثِرِ الْمَاضِينَ، فَيَأْخُذُوا بِأَجْمَلِهَا وَأَحْسَنِهَا، وَيَصْدِفُوا عَنْ أَرْذَلِهَا وَأَدْوَنِهَا[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 78]

یعنی امام حمادبن سلمہ یا عمروبن الحارث نے طلاب حدیث کو ڈانٹ ڈپٹ کیا ہے اور ہمارےمہربان جمشید صاحب اسے پوری جماعت اہل حدیث پر منطبق کرتے ہیں جمشید صاحب نے یہ ادا منکرین حدیث سے سیکھی ہے چنانچہ ایک منکر حدیث نے بھی اس طرح کے اقوال غلط جگہ چسپاں کرنے کی جسارت کی تو فنتہ کوثریت کا قلع قمع کرنے والے علامہ معلمی رحمہ اللہ نے یہ جواب دیا:
وذكر أبو رية ص٣٣٠ كلمات لبعض المحدثين في ذم أهل الحديث يعنون طلابه، التقطها من كتاب العلم لابن عبد البر وقد قال ابن عبد البر هناك ٢ / ١٢٥ «وهذا كلام خرج على ضجر، وفيه لأهل العلم نظر» وإيضاح ذلك أن الرغبة في طلب الحديث كانت في القرون الأوى شديدة، وكان إذا اشتهر شيخ ثقة معمر مكثر من الحديث قصده الطلاب من آفاق الدنيا، منهم من يسافر الشهر والشهرين وأكثر ليدرك ذاك الشيخ، وأكثر هؤلاء الطلاب شبان، ومنهم من لا سعة له من المال إنما يستطيع أن يكون معه من النفقة قدر محدود يتقوت منه حتى يرجع أو يلقى تاجراً من أهل بلده يأخذه منه الشيء، وكان منهم من كل نفقته جراب يجعله فيه خبز جاف يتقوت كل يوم منه كسرة يبلها بالماء يجتزئ بهان ولهم في ذلك قصص عجيبة فكان يحتمع لدى الشيخ جماعة من هؤلاء كلهم حريص على السماع منه وعل الاستكثار ما أمكنه في أقل وقت، إذ لا يمكنه إطالة البقاء هناك لقة ما يبده من النفقة، ولأنه يخارف أن يموت الشيخ قبل أن يستكثر من السماع منه، ولأنه قد يكون شيوخ آخرون في بلدان أخرى، يريد أن يدركهم ويأخذ عنهم، فكان هؤلاء الشباب يتكاثرون على الشيخ ويلحون عليه ويبرونه، فيتعب ويضيق بهم ذراعاً، وهو إنسان له حاجات وأوقات يجب أن يسترح فيها وهم لا يدعونه، ومع ذلك فكثير منهم لا يرضون أن يأخذوا من الشيخ سلاما بسلام بل يريدون اختباره ليتبين له أضابط أم لا. فيوردون عليه بعض الأسئلة التي هي مظنة الغلط ويناقشونه في / بعض الأحاديث ويطالبونه بأن يبرز أصل سماعه، وإذا عثروا للشيخ على خطأ أو سقط أو استنكروا شيئاً من حاله خرجوا يتناقلون ذلك بقصد النصيحة، فكان بعض أولئك الشيوخ إذا أحل عليه الطلبة وضاف بهم ذرعا أطلق تلك الكلمات «أنتم سخة عين، ولو أدركنا وإياكم عمر بن الخطاب لأوجعنا ضربا، ما رأيت علماً أشرف ولا أهلاً أسخف من أهل الحديث. صرت اليوم ليس شيء أبغض إلى من أن أرى واحداً منهم. إن هذا الحديث يصدكم عن ذكر الله وعن الصلاة فهل أنتم منتهون. لأنا أشد خوفاً منهم من الفساق» لأنهم يبحثون عن خطاه وزلله ويشيعون ذلك والغريب أن أولئك الطلاب لم يكونوا يدعون هذه الكلمات تذهب، بل يكتبونها ويروونها فيما يروون، فيذكر من يريد عتاب الطلاب وتأديبهم كابن عبد البر، ويهتبلها أبو رية ليعيب بها الحديث وأهله جملة [الأنوار الكاشفة لما في كتاب أضواء على السنة من الزلل والتضليل والمجازفة ص: 289]۔

الغرض یہ کہ مذکورہ قول میں روئے سخن طلبائے حدیث کی طرف ہے اور ان کی تادیب کی لئے انہیں ڈانٹا گیا ہے جماعت اہل حدیث سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اس لئے اسے جماعت اہل حدیث پر چسپاں کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ اپنے طلباء کو ڈانٹ پلاتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرلیں تو اسے پوری دیوبندی جماعت پر چسپاں کردیا جائے ۔
واضح رہے کہ دیوبند کے اساتذہ آج کل اپنے طلباء کے ساتھ معلوم نہیں کیا سلوک کررہے ہیں کہ وہ بے چارے خودکشی کو ان کی شاگردی پر ترجیح دے رہے ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ قول ثابت نہیں اوربفرض ثبوت جماعت اہل حدیث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

جہاں تک ابوحنیفہ سے متعلق اس طرح کے اقوال کی بات ہے توہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ابوحنیفہ کسی گروہ یا جماعت کا نام نہیں بلکہ ایک فرد کا نام ہے لہٰذا اس سے متعلق اقوال میں عموم خصوص کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ہاں یہ کہاجاسکتاہے کہ ان پر بحالت غضب میں بھی کلام کیا گیا ہے اور الحمدللہ ہم یہ بات مانتے ہیں مثلا امام حمادبن سلمہ نے ابوحنیفہ کو شیطان کہا تو ہم اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے ابوحنیفہ کو انسانوں کی صف سے نکال کر شیاطین کی فہرست میں نہیں کھڑا کرتے بلکہ یہی کہتے ہیں کہ رد حدیث جیسے خطرناک جرم کی وجہ سے امام حمادبن سلمہ شدید غصہ میں آگئے اور موصوف کو شیطان تک کہہ دیا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اہل حدیث سب سے بری جماعت ہیں
عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: " مَا فِي الدُّنْيَا قَوْمٌ شَرٌّ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ(شرف اصحاب الحدیث1/131)
امام اعمش کہتے ہیں کہ دنیا میں اہل حدیث سے بری جماعت کوئی اورنہیں ہے۔
سلیمان بن مہران المعروف بالاعمش محدثین میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے اہل حدیث سے اپناجوشکوہ بیان کیاہے اس کو آپ نے سن ہی لیا۔امام ابوحنیفہ اگر امام ابویوسف کو کچھ کہیں تو موجودہ اہل حدیث اس کاڈھونڈراپیٹتے ہیں اوربعض دریدہ دہن توتین کذاب کی اصطلاح اپنانے سے بھی نہیں شرماتے۔ لیکن جب یہی محدثین اہل حدیثوں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں توآزاد لب خاموش ہوجاتے ہیں۔ قوت گویائی سلب ہوجاتی ہے۔ بولنے کی طاقت چھن جاتی ہے۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتے ہیں۔
اولا:
امام اعمش رحمہ اللہ نے ایسا حالت غضب میں کہا ہے اور جو کچھ بھی کہا ہے وہ صرف اپنے شاگردوں کو کہا ہے جیساکہ امام اعمش سے مروی اس سلسلے کی تمام روایات یکجاکرنے سے نتیجہ نکلتاہے بالخصوص وہ روایت جسے ہم آگے پیش کررہے ہیں مزید تفصیل شرف اصحاب الحدیث میں موجود ہے اوروہاں خود مولٍف شرف اصحاب الحدیث نے بھی اس طرح کے اقوال کی صحیح مراد بتلائی ہی ۔
اورامام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کے لئے جو سخت الفاظ استعمال کئے تو دراصل ان کا مزاج ہی ایسا تھا کہ وہ کبھی کبھی سخت ہوجایا کرتے تھے اور اس طرح کے الفاظ زبان پر لے آتے تھے ، اس کی کئی مثالیں امام خطیب نے شرف اصحاب الحدیث میں دی ہیں ، کچھ یہاں بھی دیکھتے چلیں :

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَبُو الْقَاسِمِ الْأَزْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَاعِظُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ لَا يَدَعُ أَحَدًا يَقْعُدُ بِجَنْبِهِ. فَإِنْ قَعَدَ إِنْسَانٌ، قَطَعَ الْحَدِيثَ وَقَامَ. وَكَانَ مَعَنَا رَجُلٌ، يَسْتَثْقُلُهُ. قَالَ: فَجَاءَ، فَجَلَسَ بِجَنْبِهِ، وَظَنَّ أَنَّ الْأَعْمَشَ لَا يَعْلَمُ. وَفَطِنَ الْأَعْمَشُ، فَجَعَلُ يَتَنَخَّمُ، وَيَبْزُقَ عَلَيْهِ، وَالرَّجُلُ سَاكِتٌ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْطَعَ الْحَدِيثَ " [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 133 واسنادہ صحیح]۔
یعنی محمدبن عبید کہتے ہیں کہ امام اعمش اپنے بغل میں کسی کو بھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور اگر کوئی بیٹھ جاتا تو حدیث بیان کرنا ہی بند کردیتے اوراٹھ کر چلے جاتے تھے ، محمدبن عبید کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک صاحب تھے جو امام اعمش کو پریشان کیا کرتے تھے یہ آئے اور ان کے بغل میں بیٹھ گئے اور یہ سمجھے کہ امام اعمش کو پتہ نہ چلے گا لیکن امام اعمش نے محسوس کرلیا ، پھر اس جانب تھوکنے اورکھنکار نے لگے لیکن وہ آدمی چپ چاپ بیٹھا ہی رہا اس ڈر سے کہ کہیں امام اعمش حدیث بیان کرنا بند نہ کردیں۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَطَّانُ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: " سَأَلَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ الْأَعْمَشَ عَنْ إِسْنَادِ حَدِيثٍ، فَأَخَذَ بِحَلْقَهِ، فَأَسْنَدَهُ إِلَى حَائِطٍ، وَقَالَ: هَذَا إِسْنَادُهُ[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 133 واسنادہ صحیح]
یعنی ابواسامہ کہتے ہیں کہ حفص بن غیاث نے امام اعمش رحمہ اللہ سے ایک حدیث کی سند کی پوچھی تو امام اعمش نے ان کی گردن پکڑ کر دیوار سے لٹکا دیا اور کہا یہ لے اس کی سند ۔
ان دونوں واقعات کی سند صحیح ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امام اعمش رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ کبھی کبھی سختی کرجاتے تھے اور سخت بول بھی جاتے تھے ۔

ثانیا:
امام اعمش سے صرف یہی منقول نہیں کہ وہ غصہ میں اپنے شاگردوں کو سخت بول جاتے تھے بلکہ ان سے بسندصحیح یہ بھی منقول ہے کہ بعد میں جب ان کا غصہ ختم ہوجاتا تو اپنی بات واپس لے لیتے اور اپنے شاگردوں کی تعریف کرتے اور انہیں سب سے بری قوم کے بجائے لوگوں میں سب سے بہتر حتی کہ سرخ سونے سے بھی بڑھ کر عزیز بتلاتے ، ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہانے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ ح وَأَخْبَرَنَا أَنَّ الْفَضْلَ أَيْضًا، وَالْحَسَنَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ، قَالَ أَبُو سَهْلٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ دَعْلَجٌ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَبَّارِ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَلَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَلَبِيُّ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ إِذَا غَضِبَ عَلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ: " لَا أُحَدِّثُكُمْ وَلَا كَرَامَةَ، وَلَا تَسْتَأْهِلُونَهُ، وَلَا يُرَى عَلَيْكُمْ أَثَرُهُ. فَلَا يَزَالُونَ بِهِ حَتَّى يَرْضَى، فَيَقُولُ: «نَعَمْ وَكَرَامَةٌ، وَكَمْ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ وَاللَّهِ لَأَنْتُمْ أَعَزُّ مِنَ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ» [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 135 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عطاء بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اعمش جب طلاب حدیث پر غصہ ہوتے تو کہتے اب میں تم سے حدیث بیان ہی نہیں کروں گا تمہاری کوئی عزت نہیں ، تم اس کے اہل نہیں اور نہ ہی تم پر اس کا کوئی اثر دکھائی پڑتا ہے ، یہ صورت حال دیکھ کر ان کے تلامذہ ان سے اصرار کرتے رہتے یہاں تک کہ انہیں راضی کرلیتے ، اس کے بعد امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے : ’’ ہاں ! تم قابل اکرام ہو ، تم لوگوں میں ہو ہی کتنے ، اللہ کی قسم تم لوگ سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز و قیمتی ہو۔
امام اعمش رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور وہ یہ کہ جب امام اعمش غصہ ہوتے تو اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے اور سخت الفاظ استعمال کرتے لیکن جب غصہ ختم ہوتا تو اپنے شاگردوں کا اکرام کرتے اور ان کی بہت تعریف کرتے حتی کہ انہیں سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز بتلاتے ، والحمدللہ۔

ثالثا:
ابوحنیفہ امام اعمش کی نظر میں ۔

امام اعمش رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں سے متعلق جو سخت الفاظ کہے اور بعد میں واپس بھی لئے ، جمشید صاحب نے ان الفاظ کو ایک تو جماعت اہل حدیث پر چسپاں کیا، اور دوسرے اسے توڑ مروڑ کرپیش کیا، اور اسی پربہت خوش ہیں ۔
قارئین لگے ہاتھوں ہم یہ بھی بتادیں کہ امام اعمش رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو کیا کہا ہے ، ملاحظہ ہو:

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، سَمِعْتُ مُعَرَّفًا، يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى الْأَعْمَشِ يَعُودُهُ فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ لَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ، عَلَيْكَ مَجِيئِي لَعُدْتُكَ فِي كُلِّ يَوْمٍ، فَقَالَ الْأَعْمَشُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «يَا ابْنَ النُّعْمَانِ أَنْتَ وَاللَّهِ ثَقِيلٌ فِي مَنْزِلِكَ فَكَيْفَ إِذَا جِئْتَنِي»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 190 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام اعمش رحمہ اللہ کے شاگرد معرف بن واصل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابوحنیفہ امام اعمش رحمہ اللہ کی عیادت کرنے کے لئے آئے اور کہا : ’’اے اعمش ! اگر میرا آپ کے پاس آنا آپ کو بوجھ نہ لگتا تو میں تو روزآنہ آپ کی عیادت کرتا ‘‘ ۔ امام اعمش نے کہا: یہ کون آگیا ؟ لوگوں نے کہا یہ ابوحنیفہ صاحب ہیں ۔ یہ سن کر امام اعمش رحمہ اللہ نے کہا: اے نعمان کے بچے ! اللہ کی قسم تو تو اپنے گھر میں بھی بوجھ بنا ہواہے پھرمیرے پاس آئے گا تو بوجھ کیوں نہ بنے گا۔
کیا خیال ہے یارو !
امام اعمش رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ ان کے شاگردوں پر یاکسی گروہ پر نہیں ہے کہ عموم وخصوص کی بات کی جائے بلکہ ایک فردواحد ابوحنیفہ کی شان میں امام اعمش رحمہ اللہ کا یہ ارشاد عالی ہے ، اور اس کے برعکس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ امام اعمش ابوحنیفہ کے گن گاتے تھے جو لوگ یہ کہتے کہ ابوحنیفہ کی فقہ کی امام اعمش نے داد دی تو اس طرح کی بات مردود سند سے مروی ہے ، والحمدللہ علی نعمۃ الاسناد۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بلبلاہٹیں


کچھ توشرم ،کچھ توحیاء ہونی چاہئے۔اگریہی معیار ٹھہراکہ کسی نے خاص حالات میں کسی کو کچھ کہہ دیاتواس کوحقیت پر محمول کرلیناچاہئے۔توآج سے تمام اہل حدیث خود کو ارذل سمجھناشروع کردیں جیساکہ عمروبن الحارث نے کہاہے۔
اولا:
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ عمروبن الحارث سے یہ بات ثابت ہی نہیں۔
ثانیا:
امام مالک نے امام المغازی محمدبن اسحاق کو دجال من الدجاجلہ کہا تو آپ لوگ ہر گلی کوچے میں اس کا اعلان کرتے پھرتے ہیں، اس وقت آپ لوگوں کی شرم وحیاء کہاں چلی جاتی ہے ؟
ثالثا:
یہ قول غیر ثابت ہونے کے ساتھ طلاب حدیث سے متعلق ہے وضاحت کی جاچکی ہے۔
رابعا:
نیز یہ قول حمادبن سلمہ سے بھی نقل کیا ہے اور حماد بن سلمہ نے ابوحنیفہ کو شیطان کہاہے ۔ اس بارے میں کیا خیال ہے ؟؟


یہ بھی سمجھنے لگیں کہ اہل حدیثوں کی ہم نشینی سے بہتر یہود ونصاری کی ہم نشینی ہے۔
یہود ونصاری والا حوالہ آپ نے آگے دیا ہے اوروہی پہنچ کر ہم بتائیں گے کہ یہود ونصاری سے کس کا رشتہ ہے ؟؟



یہ بھی تسلیم کرلیں کہ اہل حدیثوں کو شیطان تسلیم کرکے خداکی پناہ مانگنی چاہئے۔

آپ کی بے بسی پر مجھے ترس آرہا ہے آپ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا اہل حدیثوں کو شیطان تسلیم کرلیں ۔
میں پوچھتاہوں اس سوال کی بنیاد کیا ہے ؟؟ اور باتوں کے کے لئے تو آپ نے غیرمتعلق یا مردود حوالے پیش کئے لیکن شیطان والی بات کے لئے تو آپ نے کوئی غیرمتعلق یا مردود حتی کہ موضوع حوالہ بھی نہیں پیش کیا !!
پھرشیطان کی بات کہاں سے آگئی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہوسکتا آں جناب نے پناہ مانگنے والے حوالہ سے یہ نتیجہ نکالا ہو کہ کسی نے کہا ان سے پناہ مانگو (اس حوالہ کا جواب آگے آرہا ہے) تو شیطان سے پناہ مانگی جاتی ہے اس لئے یہ بھی شیطان ٹہرے ۔
عرض ہے کہ اگرواقعی آپ نے یہی نتیجہ نکالا ہے تو یہ بجائے خود شیطانی استدلال ہے ، کچھ اسی قبیل کے استدال کا ارتکاب آپ کے امام اعظم نے بھی کیا تھا جس کی بدولت انہیں بہت سارے خطابات کے ساتھ ساتھ شیطان کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا، بلکہ بعض روایات میں تو انہیں شیطان سے بھی بدترکہا گیا ہے ۔
اس سلسلے میں حمادبن سلمہ رحمہ اللہ کا قول پیش کیا جاچکاہے ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیں:

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]۔
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کردیا کرتا تھا۔
یہ بالکل صحیح وصریح حوالہ ہے کہ ابوحنیفہ کو شیطان کہا گیا ۔
پناہ مانگنے والی بات پر پوری بحث آگے آرہی ہے یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ کسی چیز سے پناہ مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شیطان ہے کتاب وسنت میں کتنے ایسے نصوص ہیں جن میں مختلف چیزوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے تو کیا یہ ساری چیزیں شیطان ہیں ؟؟
مثلا فقیری وغیر ہ سے پناہ مانگے کی تعلیم ہے تو کیا فقیری شیطان ہے ؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ذرایہ بھی سن لیجئے کہ ابوبکر بن عیاش اہل حدیث کے بارے میں کیاکہتے تھے۔
أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، يَقُولُ: أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، هُمُ الْمُجَّانُ (شرف اصحاب الحدیث136)

ابوبکر بن عیاش کہتے تھے اہل حدیث بدترین مخلوق ہیں۔ وہ دیوانے،عقل سے بے گانے ہیں
نوٹ:ہمیں معلوم ہے کہ ابوبکر بن عیاش نے اہل حدیث کی تعریف بھی کی ہے جس کو اہل حدیث حضرات پیش کرتے رہتے ہیں لہذا ہم نے وہ بات پیش کی ہے جس کو اہل حدیث حضرات پیش نہیں کرتے ۔ لہذا حساب برابر ہوگیا۔اگریہ خیانت علمی ہے تو درشہرشمانیز کنند اوراگرنہیں ہے توپھر کوئی بات ہی نہیں ہے۔
جمشید صاحب کی یہ انتہائی ذلیل حرکت اور بدترین تدلیس ہے ۔
ان کی یہ بات پڑھنے والا یہ سمجھے گا کہ ابوبکربن عیاش نے اصحاب الحدیث کو جو برا کہا ہے وہ کسی ایک مجلس کا واقعہ ہے اور آگے جمشید صاحب نے اپنی آبرو بچانے کے لئے جو وضاحت کے ہے اس سے کوئی صرف یہ سمجھے گا کہ کسی اورموقع پر ابوبکر بن عیاش نے اصحاب الحدیث کی تعریف بھی کردی ہے۔
لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ابوبکربن عیاش نے ایک ہی مجلس میں پہلے اصحاب الحدیث کو برا کہا اور فورا ہی اس بات کو واپس لے لیا اور انہیں تمام لوگوں میں سب سے اچھا قرار دیا یہ سب کچھ ایک ہی مجلس اور ایک ہی وقت کی بات ہے ، مزید وضاحت سے قبل آئیے مکمل روایت دیکھ لیتے ہیں:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْبَرْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُمَيْرَوَيْهِ الْهَرَوِيُّ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَمَّارٍ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَيَّاشٍ، يَقُولُ: أَصْحَابُ الْحَدِيثِ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، هُمُ الْمُجَّانُ، هُمْ كَذَا، هُمْ كَذَا، وَوَصَفَ أَشْيَاءَ، ثُمَّ سَكَتَ. قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: " هَؤُلَاءِ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ، هُمْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، هُمْ كَذَا هُمْ كَذَا. قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ بَدَا لَكَ فِيهِمْ؟ قَالَ. إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ يَلْزَمُنِي فِي حَدِيثٍ، فَلَا يَزَالُ بِي حَتَّى يَسْمَعَهُ، وَلَوْ شَاءَ لَذَهَبَ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، مَنْ كَانَ يَقُولُ لَهُ: إِنَّكَ لَمْ تَسْمَعْهُ؟ "[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 136]۔
یعنی ابن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ابوبکربن عیاش کو کہتے سنا کہ اصحاب الحدیث بڑے برے ہیں، کچھ بھی کرنے اورسننے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، ایسے ہیں ویسے ہیں ، اوراس طرح کی کچھ اور باتیں کہیں اورخاموش ہوگئے ، پھر کہنے لگے : ’’یہ اصحاب الحدیث تمام لوگوں میں سب سے اچھے ہیں ، یہ ایسے ہیں یہ ایسے ہیں ۔ ابن عمار کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ : اچانک آپ کو ان کے بارے میں کیا پتہ چل گیا؟ تو انہوں نے کہا: ان میں سے ہر شخص ایک حدیث کے لئے مجھ سے چمٹارہتاہے اور وہ تب تک میرے ساتھ رہتا ہے جب تک کہ وہ مجھ سے سن نہ لے اور اگرچاہئے تو تو وہ جاسکتاہے اور جو اس سے کہے کہ تم نے اسے نہیں سنا ہے ، اس سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم سے ابوبکربن عیاش نے بیان کیا ۔
اس پوری روایت کو ایک ساتھ پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا کہ ابوبکربن عیاش نے ایک ہی مجلس میں پہلے طیش میں آکر برا بھلا کہہ دیا لیکن جلد ہی خاموش ہوگئے اور فورا اپنی بات واپس لے لی اور ان کی تعریف کرنے لگے۔
یہ پورا واقعہ ایک ساتھ پڑھنے کے بعد بھی کوئی ابوبکربن عیاش کے مذکورہ کلام کو اصحاب الحدیث کی مذمت پر چسپاں کرے تو وہ احمق ہے یا پھر بہت بڑا مکار دغاباز اور تلبیس وتدلیس کا رسیا ہے۔

جمشید صاحب اپنی تدلیس پر پردہ ڈالنے کے لے یہ اعتراف کررہے ہیں کہ ابوبکربن عیاش نے اصحاب الحدیث کی تعریف بھی کی ہے ، لیکن یہ حقیقت نہیں بتلارہے کہ خود اسی مجلس میں ابوبکر بن عیاش نے اپنی بات واپس لے لی اور اس کے بعد ان کی تعریف کرنے لگے ، تدلیس تلبیس کی اتنی بدترین مثال شاید ہی کہیں ملے ۔

اس کے ساتھ ساتھ اس روایت کو مکمل دیکھنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ ابوبکر بن عیاش کے محولہ کلام میں اصحاب الحدیث سے مراد ان کے اپنے شاگرد ہیں ، کیونکہ ابوبکر بن عیاش نے پہلے ان کی مذمت کی پھر معا بعد ان کی مدح کی ، اس پر سوال کیا گیا کہ اچانک آپ نے ان کے اندر کیا دیکھ لیا کہ اپنی بات بدل دی ؟ تو انہوں نے کہا:
إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ يَلْزَمُنِي فِي حَدِيثٍ، فَلَا يَزَالُ بِي حَتَّى يَسْمَعَهُ،
ان میں سے ہر شخص ایک حدیث کے لئے مجھ سے چمٹارہتاہے اور وہ تب تک میرے ساتھ رہتا ہے جب تک کہ وہ مجھ سے سن نہ لے
یہ سیاق صاف بتلاتاہے کہ ابوبکربن عیاش نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے تلامذہ کی بابت کہا ہے لیکن جمشید صاحب کی جرات دیکھئے کہ ایک طرف روایت کا صرف ایک حصہ وہ بھی منسوخ شدہ حصہ لیتے ہیں، اوردوسری طرف اسے پوری جماعت اہل حدیث پرچسپاں کردیتے ہیں ، اوریہ سب کچھ کرنے کے بعد بخشش کی امید رکھتے ہیں اورپوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’اگریہ خیانت علمی ہے تو درشہرشمانیز کنند‘‘ ۔
ہم پوچھتے کہ اس طرح کی بدترین تدلیس کس اہل حدیث نے کی ہے ؟


نوٹ:
جمشید صاحب نے ابوبکر بن عیاش کے کلام میں مستعمل لفظ ’’الْمُجَّانُ‘‘ کا ترجمہ ’’دیوانے عقل سے بے گانے‘‘ کیا ہے ۔
ہم جمشید صاحب سے گذارش کرتے ہیں کسی طالب علم کے پاس بیٹھ کر اس کا صحیح ترجمہ سیکھ لیں۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
مبغوض و ملعون کون؟؟


اہل حدیث سے بغض
سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي عَدِيٍّ يَقُولُ: قَالَ شُعْبَةُ «كُنْتُ إِذَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ يَجِيءُ أَفْرَحُ، فَصِرْتُ الْيَوْمَ لَيْسَ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ أَنْ أَرَى وَاحِدًا مِنْهُمْ»
2/1028جامع بیان العلم وفضلہ
شعبہ کہتے ہیں ایک زمانہ تھاکہ جب میں کسی اہل حدیث کو آتے ہوئے دیکھتا توخوش ہوجاتالیکن اب مجھے کسی اہل حدیث کا دیکھناہی سب سے زیادہ ناگواراورمبغوض ہے۔

اولا:
امام شعبہ رحمہ اللہ سے یہ قول ثابت ہی نہیں پوری روایت مع سند ملاحظہ ہو:

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
أخبرنا أحمد بن محمد بن أحمد، قال: حدثنا أحمد بن الفضل، قال: حدثنا محمد بن جرير الطبري، قال: حدثنا محمد بن عبد الله الدورقي، قال: حدثنا محمد بن بكار العيشي، قال: سمعت ابن أبي عدي، يقول: قال شعبة: كنت إذا رأيت رجلا من أهل الحديث يجيء أفرح به فصرت اليوم ليس شيء أبغض إليّ من أن أرى واحدا منهم [جامع بيان العلم وفضله: 2/ 256]۔

یہ روایت مردود ہے ،اس کی سند میں احمدبن الفضل نامی راوی ضعیف ہے ۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قال الحافظ أبو القاسم الدمشقي: عنده مناكير، وما كان ممن يكتب حديثه[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 128]۔

لیکن یہ قول ابن عساکر کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ انہوں نے امام ابن الفرضی سے اسے نقل کیا ہے اس لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذھبی پر تعاقب کرتے ہوئے کہا:
وهذا لم يقله ابن عساكر من قبله إنما قاله نقلا من كتاب ابن الفرضي [لسان الميزان ت أبي غدة 1/ 577]۔

اب ہم امام ابن الفرضی کی کتاب سے براہ راست یہ جرح نقل کرتے ہیں ملاحظ ہو:

امام امام أبو الوليد، ابن الفرضي (المتوفى403)نے کہا:
وكانتْ عِنْده مناكيرٌ[تاريخ علماء الأندلس لابن الفرضي: 1/ 76]۔
مزید کہا:
لم يَكُن ضَابِطاً لما رَوى.[تاريخ علماء الأندلس لابن الفرضي: 1/ 75]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کے متھم ہونے سے متعلق بھی جرح نقل کی ہے چنانچہ :

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وقال أبو عَمْرو الداني في طبقات القراء: كان أبو سعيد بن الأعرابي فيما بلغني يضعفه ويتهمه.[لسان الميزان ت أبي غدة 1/ 578]۔

بلکہ ابن الفرضی کی بعض عبارت سے لگتاہے کہ آپ بھی اسے متھم سمجھتے ہیں چنانچہ :
ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ولزم مُحمد بن جَريرٍ الطَّبريِّ وخدمه، وتحقق بهِ وسَمِع منه مُصَنَّفاته فِيما زَعم[تاريخ علماء الأندلس لابن الفرضي: 1/ 75]۔

اسی طرح مزید لکھتے ہیں:
وكان: إذا أتى بِكتَابٍ من كُتُبِ الطَّبريّ قال: قد سَمِعْتُه منه. وسَمِعْتُه يقْرأ عليه ويُحَدَّث به عنه[تاريخ علماء الأندلس لابن الفرضي: 1/ 75]۔


بہرحال یہ راوی کم ازکم ضعیف ہے لہٰذا اس کے ذریعہ نقل شدہ مذکورہ قول مردود ہے ۔

ثانیا:
بفرض صحت امام شعبہ رحمہ اللہ کا اشارہ بھی اپنے شاگردوں کی طرف ہے جیساکہ لفظ ’’يَجِيءُ‘‘ سے مستفاد ہوتاہے اسی طرح انہیں سے متعلق منقول ایک روایت سے اس کی طرف اشارہ ملتاہے ، چنانچہ:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنا محمد بن أحمد بن رزق، أنا دعلج بن أحمد، نا أحمد بن علي الأبار، نا مجاهد بن موسى، نا عفان، قال: كنا عند شعبة بن الحجاج، فجعلوا يقولون: " يا أبا بسطام، يا أبا بسطام، فقال: " لا أحدث اليوم من قال: يا أبا بسطام "[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 221 واسنادہ صحیح]۔

ثالثا:
امام شعبہ رحمہ اللہ سے بغض والی بات تو ثابت نہیں نیز اس سے مراد بھی اصحاب الحدیث بھی نہیں لیکن اصحاب ابوحنیفہ کے لئے بغض والی بات ثابت ہے وہ بھی امام احمدرحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام سے ، بلکہ امام احمدرحمہ اللہ نے اصحاب ابوحنیفہ سے بغض رکھنے کو باعث اجر و ثواب بتلایا ہے ، ثبوت ملاحظہ ہو:

امام إسحاق بن منصور (المتوفى: 251) نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا:
قُلْتُ : يُؤجرُ الرجلُ على بغضِ أصحابِ أبي حنيفةَ ؟ قَالَ : إي واللهِ [مسائل الإمام أحمد بن حنبل وابن راهويه 2/ 565]۔
یعنی امام اسحاق بن منصور نے امام احمدرحمہ اللہ سے پوچھا کہ : کیا اصحاب ابو حنیفہ سے بغض رکھنے پر کسی آدمی کو ثواب ملے گا ؟ تو امام احمدرحمہ اللہ نے کہا: اللہ کی قسم یقینا ۔
رابعا:
امام احمدرحمہ اللہ نے تو اصحاب ابوحنیفہ کو نہ صرف مبغوض قراردیاہے بلکہ ان سے بغض رکھنے کو کار ثواب بھی بتلایا ہے ۔ لیکن امام شعبہ رحمہ اللہ جن کے حوالہ سے اصحاب الحدیث سے متعلق بغض کی مردود بات نقل کی گئی ہے انہوں نے تو اصحاب ابوحنیفہ کے امام ہی پر لعنت برسائی ہے چنانچہ:

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى290)نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ الْأَعْيَنَ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، «يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ» ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَكَانَ شُعْبَةُ " يَلْعَنُ أَبَا حَنِيفَةَ[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 211]۔
امام منصوربن سلمہ الخزاعی نے کہا : میں نے امام حماد بن سلمہ کو سنا وہ ابوحنیفہ پر لعنت کرنے تھے ، ابوسلمہ( منصور بن سلمہ) نے کہااورامام شعبہ ابوحنیفہ پر لعنت کرتے تھے ۔
اب کیا خیال ہے امام شعبہ کے اس ثابت شدہ قول کے بارے میں؟؟
 
Top