• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب نے ایک روایت اعمش کی اہل حدیث کے فضائل کے باب میں پیش کی تھی اوراس کو دلیل بنایاتھا۔ اعمش کے اس قول کے بارے میں لکھاتھا کہ
اسنادہ صحیح
کفایت اللہ صاحب کے اسی اسنادہ صحیح کا جائزہ لیاگیاہے
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہانے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ ح وَأَخْبَرَنَا أَنَّ الْفَضْلَ أَيْضًا، وَالْحَسَنَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ، قَالَ أَبُو سَهْلٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ دَعْلَجٌ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَبَّارِ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَلَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَلَبِيُّ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ إِذَا غَضِبَ عَلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ: " لَا أُحَدِّثُكُمْ وَلَا كَرَامَةَ، وَلَا تَسْتَأْهِلُونَهُ، وَلَا يُرَى عَلَيْكُمْ أَثَرُهُ. فَلَا يَزَالُونَ بِهِ حَتَّى يَرْضَى، فَيَقُولُ: «نَعَمْ وَكَرَامَةٌ، وَكَمْ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ وَاللَّهِ لَأَنْتُمْ أَعَزُّ مِنَ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ» [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 135 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عطاء بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اعمش جب طلاب حدیث پر غصہ ہوتے تو کہتے اب میں تم سے حدیث بیان ہی نہیں کروں گا تمہاری کوئی عزت نہیں ، تم اس کے اہل نہیں اور نہ ہی تم پر اس کا کوئی اثر دکھائی پڑتا ہے ، یہ صورت حال دیکھ کر ان کے تلامذہ ان سے اصرار کرتے رہتے یہاں تک کہ انہیں راضی کرلیتے ، اس کے بعد امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے : ’’ ہاں ! تم قابل اکرام ہو ، تم لوگوں میں ہو ہی کتنے ، اللہ کی قسم تم لوگ سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز و قیمتی ہو۔
امام اعمش رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور وہ یہ کہ جب امام اعمش غصہ ہوتے تو اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے اور سخت الفاظ استعمال کرتے لیکن جب غصہ ختم ہوتا تو اپنے شاگردوں کا اکرام کرتے اور ان کی بہت تعریف کرتے حتی کہ انہیں سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز بتلاتے ، والحمدللہ۔
کفایت اللہ صاحب نے اس کے بارے میں بھی لکھاہے کہ اسنادہ صحیح۔ شاید اسنادہ صحیح ان کے نزدیک موم کی ناک ہے جب چاہا جدھرچاہا گھمادیا ۔ اب ہم ذرا اس سند پر بحث کرکے اس کی پول کھول دیتے ہیں تاکہ کفایت اللہ صاحب کی اسنادہ صحیح کی تقلید کرنے والے ذرا اپنے عقل وفہم اورتحقیق سے کام لیں کیونکہ تحقیق کا شور مچانے والے تویہاں بہت ہیں لیکن ایسے شورمچانے والے ہی زیادہ اندر سے اندھی تقلید کے قائل اوراس پر عمل پیراہوتے ہیں۔

اس کے ایک راوی عبیدبن ہشام ابونعیم الحلبی ہیں۔ دیکھئے اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کیاکہتے ہیں۔

امام ابودائود کہتے ہیں ثقہ تھے لیکن آخر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتوانہوں نے تلقین کے ذریعہ ایسی احادیث بیان کرنی شروع کردیں جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
امام نسائی کہتے ہیں لیس بالقوی،
ابوحاتم کہتے ہیں صدوق
ابواحمدحاکم کہتے ہیں وہ ایسی روایتیں کرتاہے جن کی متابعت نہیں ہوتی۔
حافظ ذہبی جونقد رجال میں استقراء تام کے مالک ہیں وہ وہ الکاشف میں کہتے ہیں لیس بذاک
حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں سچے ہیں لیکن آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتووہ تلقین کو قبول کرلیاکرتے تھے۔
الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط کے محقق کہتے ہیں
وعبيد بن هشام صدوق له مناكير وينفرد بما لا يتابع عليه لم يرو له غير أبي داود من أصحاب الكتب الستة تغير في آخر عمره واختلط حتى لقن ما لا أصل له ولكنه حتى قبل التغير والاختلاط في حديثه ضعف ونكاره
عبیدبن ہشام صدوق ہیں ان کی منکرروایتیں ہیں اورایسی روایتیں کرتے ہیں جس میں وہ تنہاہوتے ہیں اوران کی متابعت نہیں ہوتی کتب ستہ میں سے ان سے صرف ابودائود نے روایت لی ہیں۔ آخر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتھا اوروہ اختلاط کے شکار ہوکر بے اصل روایتوں کو تلقین کے ذریعہ قبول کرلیتے تھے لیکن اختلاط اورحافظہ بگڑنے سے پہلے بھی ان کی روایتوں میں ضعف اورنکارت تھی۔
اوریہ بھی بات کسی دلیل سے واضح نہیں ہے کہ ان سے روایت لینے والے علی بن احمد الابار نے ان کے حافظہ بگڑنے اوراختلاط سے قبل روایت لی تھی ۔
الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط1/237،الکواکب النیرات1/487،میزان الاعتدال3/24،

اسی روایت کے ایک دوسرے راوی
عطاء بن مسلم الحلبی
ہیں۔ان کی اگرچہ بعض ائمہ نے توثیق بھی کی ہے لیکن امام احمد بن حنبل نے ان کو مضطرب الحدیث بتایاہے۔ موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل3/6
حافظ ذہبی ان کے بارے میں الکاشف میں مختصرااپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں
لیس بذاک یہ جرح کا کلمہ ہے۔
اورحافظ ابن حجر تقریب میں ان پر اپنی فیصلہ کن رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
صدوق ، يخطىء كثيرا تقریب
ایسی راوی کی سند سے آنے والی روایتوں میں کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں اسنادہ صحیح۔ اس سے ہی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان کے اسنادہ صحیح کا کیامرتبہ اورکیامعیار ہے۔اگرکسی طرح کوشش کرکے اس روایت کو آگے بڑھایاجائے توپھر اس کو حسن لغیرہ ہی تسلیم کیاجاسکتاہے بشرطیکہ اس کی موید روایات مل جائیں ۔اورحسن لغیرہ کفایت اللہ صاحب کے نزدیک حجت نہیں ہے اورحسن لغیرہ ان کے نزدیک ضعیف ہے اورضعیف سند سے منقول روایت ان کے نزدیک مردود ہوتی ہے لہذا یہ روایت بھی ان کے نزدیک غیرثابت شدہ رہی۔

ایک طرفہ تماشاملاحظہ کریں
اس کتاب شرف اصحاب الحدیث کی تحقیق ایک غیرمقلد عمروعبدالمنعم سلیم نے کی ہے۔ یہ وہی غیرمقلدہیں جن کی ایک دوسرے غیرمقلد ابراہیم ابوالعینین سے حسن لغیرہ کے مسئلہ پر بحث نے آپسی رنجش کی شکل اختیار کرلی ہے اوردونوں کے بقول دونوں ایک دوسرے پر تہمت تراشی کررہے ہیں۔ہمیں ان کے آپسی جھگڑوں سے یوں بھی کوئی مطلب نہیں کہ بقول غیرمقلدیں حضرات جب ان کے پاس لڑنے کو کوئی دوسرے نہیں ملتے تویہ آپس میں خود ہی شروع ہوجاتے ہیں۔
عمروبن عبدالمنعم سلیم اس روایت کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
اسنادہ حسن،
ابونعیم الحلبی ھوعبیدبن ہشام ،صدوق الاانہ تغیر فی آخرعمرہ فلقن مالیس من حدثیہ فاطلق جماعۃ فی حقہ التضعیف
قلت :لاباس بخبرہ ھذا ،فانہ من المقطوعات وعطاء بن مسلم الحلبی فیہ ضعف ولایضرفی ھذا الخبر ،فانہ راویہ

شرف اصحاب الحدیث ص220
ہم عمروبن عبدالمنعم کی اس بات کو بغیر کسی تبصرہ کے چھوڑدیتے ہیں قارئین خود اس پر غورکرلیں۔بالخصوص دوسری لائن کی عبارت پر غورکریں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
سفیان بن عیینہ اورامام ابوحنیفہ


میں نے لکھاتھا
اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ، وَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَقَالَ: «أَنْتُمْ سُخْنَةُ عَيْنِي لَوْ أَدْرَكَنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»
2/1028جامع بیان العلم وفضلہ
سفیان بن عیینہ جب اہل حدیث کو دیکھتے تو کہتے تم لوگ میری آنکھوں کی چبھن ہو ۔اگرہم کو اورتم کو حضرت عمررضی اللہ عنہ پالیتے تو تو سخت مارمارتے۔
علم حدیث میں سفیان بن عیینہ ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ وہ اہل حدیث کو آنکھوں کی چبھن سے تعبیر کررہے ہیں آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد محبوب چیز ہوتی ہے جیسے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد الصلوٰۃ قرۃ عینی اورآنکھوں کی چبھن سے ناگوار اورمبغوض چیز کی جانب اشارہ ہوتاہے۔یہاں سفیان بن عیینہ نے اہل حدیث کو آنکھوں کی چبھن قراردیاہے ۔وہی سوال یہاں بھی ہے کہ کیایہ قول اپنے عموم پر ہے یااس کا خاص پس منظر ہے؟اگرخاص پس منظر ہے تویہ خاص پس منظر سفیان بن عیینہ کے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اقوال کے بارے میں کیوں نہیں ہوسکتاہے؟
یہ تفریق اوردوئی کیوں؟یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کس لئے ۔یہ دوہرارویہ کس کی خاطراپنایاجارہاہے کہ سفیان بن عیینہ اہل حدیث کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ خاص پس منظر میں سمجھاجائے اورامام ابوحنیفہ کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ عام اورمطلق قراردیاجائے؟
اس پر کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔
اولا:
خاص اور عام کی بات بعد میں کیجئے گا پہلے اس تبصرہ کو امام سفیان بن عیینہ سے ثابت تو کیجئے ،
سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ، وَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَقَالَ: «أَنْتُمْ سُخْنَةُ عَيْنِي لَوْ أَدْرَكَنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»
2/1028جامع بیان العلم وفضلہ
ہمیں ثابت کرنے کی کیاضرورت ہے ۔آپ کے مسلکی بھائی جنہوں نے جامع بیان العلم وفضلہ کی تحقیق کی ہے وہ اس قول کی سند پر کہہ چکے ہیں
رقم1966،جامع بیان العلم وفضلہ 1028،لاباس بہ
لیجئے یہ توآپ کے بڑے بھائی نے ہی کہہ دیاہے کہ اس کی سند لاباس بہ ہے پھر آپ کی بات کون تسلیم کرے گا۔ لہذا جہاں تک سند کی بات ہے اس کے چکر میں ہمیں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابوالاشبال الزہیری سے فیصلہ کرلیجئے کہ آپ دونوں میں سچاکون ہے اورجھوٹاکون ہے۔جولاباس بہ کہہ رہاہے وہ سچاہے یاجواس سند کو ضعیف بتارہاہے وہ سچاہے۔

تعجب ہے کہ جمشید صاحب یہ بھی بھول گئے کہ اس کی سند میں ایک ایساراوی ہے جس کی ذات کو خود جمشید صاحب نے معرض تنقید بتلایا ہے ،
اور اس کے شاگرمسلم بن القاسم پر تو خود جمشید صاحب نے بھی جرح کی ہے دیکھئے لنک۔
کمال یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب کو میرا جرح کرنا یاد رہالیکن اپنی جانب سے پیش کی گئی صفائی یاد نہ رہی۔ذراان کی یہ بات بھی دیکھ لیجئے۔
تنبیہ:
امام أبو الوليد، ابن الفرضي (المتوفى: 403) نے کہا:
وسَمِعْتُ من ينسبه إلى الكذب.وسألت محمد بن أحمد بن يحيى القَاضِي عنه فقالَ لِي: لم يكن كَذّاباً[تاريخ علماء الأندلس لابن الفرضي: 2/ 130]۔

عرض ہے کہ ابن الفرضی نے کذب کا الزام لگانے والے کا نام نہیں بتلایا ہے اورنہ ہی اس قول سے موافقت ظاہر کی ہے لہذا یہ جرح مردود ہے ، مزید یہ کہ آگے ابن یحیی القاضی نے اس الزام کی تردید بھی کردی ہے۔

بعض لوگوں نے اس پر تشبیہ کا الزام بھی لگایا ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وقيل كان من المشبهة روى عن أبي جعفر الطحاوي وأحمد بن خالد بن الحباب انتهى قلت هذا رجل كبير القدر ما نسبه إلى التشبيه إلا من عاداه[لسان الميزان لابن حجر: 6/ 35]۔
الغرض یہ کہ مسلمہ بن القاسم نیک بزرگ تھے مگر روایت میں ضعیف ہیں ، لیکن مذکورہ بات میں مسلمہ بن القاسم منفرد نہیں ہیں دیگر لوگوں نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
ایک لطیفہ سنتے نہیں بلکہ دیکھتے اورپڑھتے چلئے ۔
اس میں دیکھئے کہ وہ کس طرح ابن حجر کے حوالہ سے مسلمہ بن قاسم پر سے تشبیہ کی نفی کرتے ہیں مگر ذیل میں وہ حافظ ذہبی کے حوالہ سے ان کا مشبہ ہونابیان کرتے ہیں۔
دوسرالطیفہ اس سے بھی زیادہ زور دار ہے۔ انہوں نے ایک راوی احمدبن الفضل پر ماقبل میں اس لئے جرح کردی کہ ان کے الفاظ سے یہ متوہم ہوتاتھاکہ وہ اس کو متہم سمجھتے ہیں لیکن مسلمہ بن القاسم میں ان کا اصرار تھاکہ
عرض ہے کہ ابن الفرضی نے کذب کا الزام لگانے والے کا نام نہیں بتلایا ہے اورنہ ہی اس قول سے موافقت ظاہر کی ہے لہذا یہ جرح مردود ہے ، مزید یہ کہ آگے ابن یحیی القاضی نے اس الزام کی تردید بھی کردی ہے۔

ایسی دورنگیاں اورسہہ رنگیاں یہییں دیکھنے کو ملیں گی۔ اگرمسلمہ بن القاسم نے امام طحاوی پر جرح کی ہے تو وہ لائق صد قبول اوراگرامام بخاری پر جرح کردی تو وہ خفیف العقل اورضعیف العقل شمار ہوں گے۔ اگر ابن الفرضی نےاحمد بن الفضل کو فیمازعم کہہ دیاتو وہ محض اس عبارت سے متہم ہوجاتاہے لیکن اگر ابن الفرضی کہیں کہ میں نے ان کو کذب کی جانب منسوب کرتے ہوئے سناہے تو اس میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ کذب کا الزام لگانے والے نام نہیں بتلایاہے۔ پھر کمال یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب اسی اصول کو رجاء بن سلمہ میں بھی بھول جاتے ہیں کہ ابن جوزی نے جن کے حوالہ سے ان کو سرقہ حدیث کی تہمت لگائی ہے وہ ناقدین آخر ہیں کون اوران کی عبارات کہاں پائی جاتی ہیں۔

کفایت اللہ لکھتے ہیں
آئیے پورا قول مع سند دیکھتے ہیں:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا مَسْلَمَةُ بْنُ قَاسِمٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ، وَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَقَالَ: «أَنْتُمْ سُخْنَةُ عَيْنِي لَوْ أَدْرَكَنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»[جامع بيان العلم وفضله: 2/ 256]۔
یہ روایت باطل ہے سند میں ’’أحمد بن عيسى الليثي‘‘ ہے ۔
امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى963)نے کہا:
له أحاديث باطلة [تنزيه الشريعة لابن العراق: 1/ 31]۔
امام دارقطنی نے اسے ضعیف کہا ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کی کتاب سےنقل کیا ہے دیکھئے [لسان الميزان ت أبي غدة 1/ 571]۔
امام دارقطنی نے ضروراسے ضعیف کہاہے لیکن مسلمہ بن القاسم اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
قال مسلمة في الصلة انفرد بأحاديث أنكرت عليه لم يأت بها غيره شاذة كتبت عنه حديثا كثيرا وكان جامعا للعلم وكان أصحاب الحديث يختلفون فيه فبعضهم يوثقه وبعضهم يضعفه(لسان المیزان1/242)
انہوں نے بعض منکر احادیث روایات کی ہیں جس کی وجہ سے ان پر تنقید ہوئی ان روایات کو کسی دوسرے نے روایت نہیں کیا۔ میں نے ان سے بہت ساری حدیثیں لکھی ہیں اورعلم کے جامع تھے (یعنی مختلف فنون علم میں ماہر تھے۔)اوراصحاب حدیث کا ان کے سلسلے میں اختلاف تھا بعض ان کی توثیق کرتے تھے اوربعض ان کی تضعیف کرتے تھے۔)

الغرض یہ کہ سفیان بن عیینہ کا مذکورہ قول ثابت ہی نہیں۔
زیادہ سے زیادہ جوبات ثابت ہوگی وہ یہ ہوگی کہ یہ سند ضعیف ہوگی لیکن سفیان بن عیینہ کی اہلحدیث سے بیزاری دوسرے اقوال سے ثابت ہے بلکہ سند صحیح سے یہ ثابت ہے کہ سفیان بن عیینہ خود یہ کہتے ہیں کہ
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ مَيْمُونٍ الْعَطَّارَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: «مَنْ حَدَّثَ فِي هَذَا الزَّمَانِ فَهُوَ أَحْمَقُ
الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع 1/222۔اسنادہ صحیح۔ اس قول سے ابن عیینہ اگراہلحدیث حضرات سے اپنی بیزاری نہیں ظاہر کرناچاہتے تواورکیاکرناچاہتے ہیں۔

سفیان بن عیینہ سے ایک تیسراقول بھی دیکھیں۔
قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: «انْظُرْ مَنْ نُجَالِسُ، مِنْ كُلِّ طَيْرٍ رِيشَةٌ وَمِنْ كُلِّ ثَوْبٍ خِرْقَةٌ، سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ إِيَّايَ اتَّبَعْتُمْ، أَمْ هَذِهِ الْعَصَا، إِنِّي لَأَرْغَبُ عَنْ مُجَالَسَتِكُمْ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً»
الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع1/217
اس کی بھی سند صحیح ہے۔
دیکھوہم کس کے ہمنشیں بنتے ہیں ہرپھٹے حال اورپھٹے لباس والے شخص کے۔تم پر برابر ہے کہ تم میری اتباع کرو یااس لاٹھی کی(یعنی تم لوگ بالکل کند ذہن اورمغفل قسم کے ہو)میں تمہاری مجالست سے 40سال سے زائد سے بیزار ہوں۔

شیخ زاہد الکوثری نے تانیب میں ابن رزق پر اعتراض کیاتو معلمی نے اس کے اثبات میں پورازور لگادیاکہ نہیں راوی توآسمان سے ٹپکاہواہے بلکہ فرشتہ اورمعصوم ہے تواب اسی ثقہ راوی سے یہ بیان بھی سن لیں ۔اس کے علاوہ دعلج اوراحمد بن علی الابار جس پر شیخ زاہد الکوثری نے تنقید کی تھی اس کو معلمی نے پوری طرح ثقہ ثابت کیاہے۔ اب انہی ثقہ وصدوق راویوں کی زبانی ابن عیینہ کی بات سن لیں۔
صرف درمیان ایک مجاہد بن موسی بچ جاتے ہیں یہ مجاہد بن موسی بڑے درجہ کے امام ، اورثقہ راوی ہیں۔ حافظ ذہبی سیر اعلام النبلاء میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔

مُجَاهِدُ بنُ مُوْسَى بنِ فَرُّوْخٍ الخُوَارِزْمِيُّ * (م، ت، س، ق، د)
الحَافِظُ، الإِمَامُ، الزَّاهِد، أَبُو عَلِيٍّ الخُوَارِزْمِي، نَزِيْلُ بَغْدَادَ.
حَدَّثَ عَنْ: هُشَيْمٍ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ عَيَّاشٍ، وَسُفْيَانَ بنِ عُيَيْنَةَ، وَالوَلِيْدِ بنِ مُسْلِمٍ، وَإِسْمَاعِيْلَ ابْنِ عُلَيَّةَ، وَطَبَقَتِهِم.

(سیراعلام النبلاء11/495)
توابن عیینہ کے اس قول سے بھی کیاثابت ہورہاہے ؟یہی بات کہ وہ اہل حدیث سےبیزار اورمتنفر تھے۔
آپ نے ایک سند پر اعتراض کیاہم نے دوسند صحیح پیش کردیا ویسے جس سند پر آپ نے اعتراض کیاہے وہ سند بھی بقول ابوالاشبال الزہیری لاباس بہ ہے۔
ثانیا:
امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:

امام ابن عبدالبررحمہ اللہ کا بعض الناس پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ابوحنیفہ پر نظر کرم و نظر رحم کی ہے انہیں امام ابن عبدالبر سے یہ بھی سنتے چلیں آپ نقل کرتے ہیں:
امام ابن عبدالبر نے اپنی عاقبیت سنواری ہے خطیب کی طرح اپنی عاقبت سیاہ نہیں کی ہےویسے بھی شیخ سعدی بہت پہلے کہہ چکے ہیں
منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی
منت شناس ازوے کہ بخدمت بداشتت​

یہ احسان مت جتائوکہ تم بادشاہ کی خدمت کررہے ہو بلکہ اس کا احسان سمجھوکہ اس نے تمہیں اپنی خدمت کیلئے رکھاہے۔


حافظ ابن عبدالبر توائمہ ثلاثہ مالک شافعی وابوحنیفہ کی شان میں لکھتے ہیں
طَائِفَةً مِمَّنْ عُنِيَ بِطَلَبِ الْعِلْمِ وَحَمْلِهِ وَعَلِمَ بِمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ عَظِيمَ بَرَكَتِهِ وَفَضْلِهِ سَأَلُونِي مُجْتَمعين وَمُتَفَرِّقِينَ أَنْ أَذْكُرَ لَهُمْ مِنْ أَخْبَارِ الأَئِمَّةِ الثَّلاثَةِ الَّذِينَ طَارَ ذِكْرُهُمْ فِي آفَاقِ الإِسْلامِ لِمَا انْتَشَرَ عَنْهُمْ مِنْ عِلْمِ الْحَلالِ وَالْحَرَامِ وَهُمْ أَبُو عبد الله مَالك بن أنس الاصبحي الْمدنِي وَأَبُو عبد الله مُحَمَّد بن إِدْرِيس الشَّافِعِي الْمَكِّيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ الْكُوفِيُّ عُيُونًا وَفَقْرًا يَسْتَدِلُّونَ بِهَا عَلَى مَوْضِعِهِمْ مِنَ الإِمَامَةِ فِي الدِّيَانَةِ وَيَكُونُ ذَلِكَ كَافِيًا مُخْتَصَرًا لِيَسْهُلَ حِفْظُهُ وَمَعْرِفَتُهُ وَالْوُقُوفُ عَلَيْهِ وَالْمُذَاكَرَةُ بِهِ مِنْ ثَنَاءِ الْعُلَمَاءِ بَعْدَهُمْ عَلَيْهِمْ وَتَفْضِيلِهِمْ لَهُمْ وَإِقْرَارِهِمْ بِإِمَامَتِهِمْ وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ بِمَا يُرْغَبُ عَنْ كَثِيرٍ مِنْهُ فَاقْتَصَرْتُ مِمَّا ذَكَرُوهُ عَلَى عُيُونِهِ دُونَ حَشْوِهِ وَعَلَى سَمِينِهِ دُونَ غَثِّهِ
الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ ص9
پھریہی حافظ ابن عبدالبر جامع بیان العم وفضلہ میں لکھتے ہیں۔
فَمَنْ قَرَأَ فَضَائِلَهُمْ وَفَضَائِلَ مَالِكٍ وَفَضَائِلَ الشَّافِعِيِّ وَفَضَائِلَ أَبِي حَنِيفَةَ بَعْدَ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ [ص:1118] وَالتَّابِعِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعُنِيَ بِهَا، وَوَقَفَ عَلَى كَرِيمِ سِيَرِهِمْ وَسَعَى فِي الْإِقْتِدَاءِ بِهِمْ، وَسَلَكَ سَبِيلِهِمْ فِي عِلْمِهِمْ وَفِي سَمْتِهِمْ وَهْدَيْهِمْ كَانَ ذَلِكَ لَهُ عَمَلًا زَاكِيًا نَفَعَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِحُبِّهِمْ جَمِيعِهِمْ
جامع بیان العلم وفضلہ2/1117
حافظ ابن عبدالبر تویہ سمجھتے ہیں اورکفایت اللہ صاحب معکوس طورپر یہ سمجھتے ہیں ابن عبدالبر نے ان پر احسان کیا۔

وجرحه أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري فقال في كتابه في الضعفاء والمتروكين أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي قال نعيم ۔۔۔۔قال نعيم عن الفزاري كنت عند سفيان بن عيينة فجاء نعي ابى حنيفة فقال لعنه الله كان يهدم الإسلام عروة عروة وما ولد في الإسلام مولود أشر منه[الضعفاء والمتروكين للبخاری بحوالہ الانتقاء لابن عبد البر: ص: 149 نعیم شیخ البخاری فالاسناد صحیح]۔
نعیم کہتے ہیں کہ امام فزاری نے بیان کیا کہ میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ابوحنیفہ کے مرنے کی خبرآئی ، یہ سن کر امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا: ابوحنیفہ پراللہ کی لعنت ہو یہ رفتہ رفتہ اسلام کو منہدم کررہا تھا اوراسلام میں اس سے زیادہ برا شخص پیداہی نہیں ہوا۔


آپ نے ابن عبدالبر کے حوالہ سے یہ بیان کیااورابن عبدالبر کہہ چکے ہیں کہ
وَنَقَمُوا أَيْضًا عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ الْإِرْجَاءَ، وَمِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ يُنْسَبُ إِلَى الْإِرْجَاءِ كَثِيرٌ لَمْ يُعْنَ أَحَدٌ بِنَقْلِ قَبِيحِ مَا قِيلَ فِيهِ كَمَا عُنُوا بِذَلِكَ فِي أَبِي حَنِيفَةَ لِإِمَامَتِهِ، وَكَانَ أَيْضًا مَعَ هَذَا يُحْسَدُ وَيُنْسَبُ إِلَيْهِ مَا لَيْسَ فِيهِ وَيُخْتَلَقُ عَلَيْهِ مَا لَا يَلِيقُ بِهِ
جامع بیان العلم وفضلہ2/1082
خطیب نے سفیان بن عیینہ کے بارے میں ایک بات اوربھی ذکر کی ہے اس کا بھی جائزہ لیتے چلتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قال: أَخْبَرَنَا عبد الله بن جعفر، قال: حَدَّثَنَا يعقوب بن سفيان، قال: حَدَّثَنَا الفضل، يعني: ابن زياد، قال: سئل أحمد بن حنبل، قيل له: سفيان الثوري كان أحفظ أو ابن عيينة؟ فقال: كان الثوري أحفظ وأقل الناس غلطا، وأما ابن عيينة فكان حافظا، إلا أنه كان إذا صار في حديث الكوفيين كان له غلط كثير، وقد غلط في حديث الحجازيين في أشياء.
تاریخ بغداد10/233
واضح رہے کہ سفیان بن عیینہ حجاز مکہ کے رہنے والے اورامام ابوحنیفہ کوفہ کے توبے چارے اسی کو سچ سمجھیں گے نا جوخبران تک پہنچی ہوگی چاہے سچ ہو یاجھوٹ ہو ۔
لیکن سفیان بن عیینہ نے اپنے رفقاء اوراہل حدیث کے بارے میں جو ان کی بات ہے وہ تومشاہدہ اورطویل تجربے کی بات ہے دونوں کو یکساں کیسے ٹھہرایاجاسکتاہے؟


علاوہ ازیں صحیح سند سے سفیان بن عیینہ کی امام ابوحنیفہ کی تعریف بھی ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا إسحاق بن البهلول، قال: سمعت ابن عيينة، يقول: ما مقلت عيني مثل أبي حنيفة
تاریخ بغداد15/459،سندہ صحیح
اسحاق بن بہلول کہتے ہیں کہ میں نے ابن عیینہ سے سنا۔میری آنکھوں نے ابوحنیفہ کا مثل نہیں دیکھا۔

علاوہ ازیں سفیان بن عیینہ کایہ اعتراف بھی ملاحظہ ہو
سمعت سفیان بن عیینہ یقول:شیئان ماظننت انھما یجاوزان قطنرۃ الکوفۃ وقد بلغاالافاق قراءۃ حمزہ ورای ابی حنیفۃ
تاریخ بغداد 15/475،اسنادہ صحیح
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کے پل سے بھی تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ایک حمزہ کی قرات اوردوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں
علي بن سلمة، يقول: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: رحم الله أبا حنيفة، كان من المصلين، أعني: أنه كان كثير الصلاة
تاریخ بغداد15/482،اسنادہ صحیح
علی بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے ہوئے سنا کہ اللہ ابوحنیفہ پر رحم کرے وہ نمازیوں میں تھے۔میری مراد اس سے یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ نماز پڑھاکرتے تھے۔(اعنی کہنے والے علی بن سلمہ ہیں)
أَخْبَرَنَا أَبُو نعيم الحافظ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبد الله بن جعفر بن فارس، فيما أذن لي أن أرويه عنه، قَالَ: حَدَّثَنَا هارون بن سليمان، قَالَ: حَدَّثَنَا علي ابن المديني، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: كان أَبُو حنيفة له مروءة، وله صلاة في أول زمانه.
قال سفيان: اشترى أبي مملوكا، فأعتقه، وكان له صلاة من الليل في داره، فكان الناس ينتابونه فيها، يصلون معه من الليل، فكان أَبُو حنيفة فيمن يجيء يصلي
[ص:484]

تاریخ بغداد 15/483،اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات
علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں سفیان بن عیینہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے ابوحنیفہ ابتداء عمر میں مروت اورکثرت صلاۃ سے متصف تھے۔سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے ایک غلام خریدا اوراس کو آزاد کردیا اوروہ گھر میں رات کو نماز پڑھاکرتاتھا تولوگ آکر اس کی اقتداء کرتے تھے یعنی اس کے پیچھے نماز پڑھاکرتے تھے توابوحنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس کے پیچھے نماز پڑھاکرتے تھے۔

ایک غیرمقلد ابوطلحہ سلفی صاحب نے اردومجلس پر ایک مضمون لکھاہے جس میں اہل حدیث کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ تاریخ بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں۔
:- "تبع تابعین حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کو ان کے استاد امام ابو حنیفہ نے اہلحدیث بنایا تھا جیسا کہ آپ نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے ہی مجھے اہلحدیث بنایا تھا" (حدائق الحنفیہ: 134، تاریخ بغداد 9/178)
تاریخ اہل حدیث اور فرقہ دیوبند کی مغالطہ انگیزیوں کا رد - URDU MAJLIS FORUM
پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے ہی مجھے اہلحدیث بنایا تھا
یہ دراصل اول من صیرنی محدثا ابوحنیفۃ کا ترجمہ ہے۔
اس میں کفایت اللہ صاحب کے اس اشکال کا بھی حل موجود ہے کہ محدث سے اہل حدیث کا ترجمہ کس نے کشید کیاہے اوردوسرے یہ کہ اہل حدیث حضرات بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کو محدث بنانے والے امام ابوحنیفہ ہی تھے۔

ویسے اس معنی کی روایات کہ سفیان بن عیینہ امام ابوحنیفہ سے عقیدت رکھتے تھے الانتقاء میں موجود ہے جس کو حافظ ابن عبدالبر نے ذکر کیاہے۔
سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ أَوَّلُ مَنْ أَقْعَدَنِي لِلْحَدِيثِ بِالْكُوفَةِ أَبُو حَنِيفَةَ أَقْعَدَنِي فِي الْجَامِعِ وَقَالَ هَذَا أَقْعَدَ النَّاسَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فَحَدَّثْتُهُمْ
الانتقاء128
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ پہلے پہل جس نے مجھ کو حدیث کیلئے کوفہ میں بٹھایاوہ امام ابوحنیفہ ہی تھے انہوں نے مجھ کو جامع (مسجد) میں بٹھایا اورکہاکہ یہ عمروبن دینار کی حدیثوں کے سب سے زیادہ ماہر ہیں۔ پھر میں نے حدیث بیان کیا۔
سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ أَتَيْنَا سَعِيدَ بْنَ أَبِي عَرُوبَةَ يَوْمًا فَقَالَ إِنَّهُ أَتَتْنِي هَدِيَّةٌ مِنْ عِنْدِ أَبِي حَنِيفَةَ أَوْ قَالَ هَدَايَا وَجَّهَ بِهَا إِلَيَّ أَبُو حَنِيفَةَ أَفَنَجْعَلُ لَكَ فِيهَا حَظًّا قَالَ فَقُلْتُ مَتَّعَكَ اللَّهُ بِنَفْسِكَ وَجَزَى الْمَهْدِيَّ إِلَيْكَ عَمَّا أَهْدَاهُ إِلَيْكَ خَيْرًا
(المصدرالسابق)
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ہم سعید بن ابی عروبہ کے پاس آئے توانہوں نے کہاکہ میرے پاس ابوحنیفہ کی طرف سے ہدیہ آیاہواہے یاہدایاآئے ہوئے ہیں جوابوحنیفہ نے مجھ کو بھیجاہے توکیا میں اس میں تمہارابھی حصہ نہ لگائوں ۔تومیں نے کہااللہ اپ کابھلاکرے اورآپ کی جانب ہدیہ بھیجنے والے کو بہتر بدلہ دے۔

حَامِدُ بْنُ يَحْيَى الْبَلْخِيُّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَسَأَلَ عَنْ مسئلة قَالَ إِنِّي بِعْتُ مَتَاعًا إِلَى الْمَوْسِمِ وَأَنَا أُرِيدُ أَن أَخْرُجَ فَيَقُولُ لِي الرَّجُلُ ضَعْ عَنى وَأعجل لَك مَالك فَقَالَ سُفْيَانُ قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو حَنِيفَةَ إِذَا بِعْتَ بِالدَّرَاهِمِ فَخُذِ الدَّنَانِيرَ وَإِذَا بِعْتَ بِالدَّنَانِيرِ فَخُذِ الدَّرَاهِمَ
المصدرالسابق
اس میں دیکھاجاسکتاہے کہ سفیان بن عیینہ نے امام ابوحنیفہ کو فقیہہ کہا اورسائل کو امام ابوحنیفہ کے قولکے مطابق جواب دیا۔

یہ ساری روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی طورپر اوربالخصوص ماقبل میں سند صحیح سے ذکر کی گئی روایات کی وجہ سے ان کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔

ویسے کفایت اللہ صاحب سے ہمیں ایک شکوہ ہے کہ وہ اپنے محدث العصر کے ذہبی العصر کے فرمان کے مطابق صرف سندہ صحیح(وہ بھی غلط سلط)ذکرتوکردیتے ہیں لیکن بقیہ دیگر نوچیزیں جن کاہوناانہو نے ضروری قراردیاہے اس کی جانب توجہ نہیں دیتے۔ ہمیں یقین واثق ہے کہ کفایت اللہ صاحب اپنے اگلے مراسلے میں تمام ایسے اقوال جوامام ابوحنیفہ کے ذم میں ہوں گے ان کیلئے ذکر کردہ مکمل دس اسباب ووجوہ کوبیان کریں گے۔ ورنہ ان کے ذہبی العصر کے مطابق ان کی بات قطعالائق توجہ نہیں ہوگی۔

فإن المقالة المسندة، إذا كان ظاهرها الذم أو ما يقتضيه لا يثبت الذم إلا باجتماع عشرة أمور:
الأول: أن يكون الرجل المعين الذي وقع في الإسناد ووقعت فيه المناقشة ثقة.
الثاني: أن يكون بقية رجال الإسناد كلهم ثقات.
الثالث: ظهور اتصال السند تقوم به الحجة.
الرابع: ظهور أنه ليس هناك علة خفية يتبين بها انقطاع أو خطأ أو نحو ذلك مما يوهن الرواية.
الخامس: ظهور أنه لم يقع في المتن تصحيف أو تحريف أو تغيير قد توقع فيه الرواية بالمعنى.
السادس: ظهور أن المراد في الكلام ظاهره.
السابع: ظهور أن الذامّ بنى ذمه على حجة لا نحو أن يبلغه إنسان أن فلاناً قال كذا أو فعل كذا فيحسبه صادقاً وهو كاذب أو غالط.
الثامن: ظهور أن الذام بنى ذمه على حجة لا على أمر حمله على وجه مذموم وإنما وقع على وجه سائغ.
التاسع: ظهور أنه لم يكن للمتكلم فيه عذر أو تأويل فيما أنكره الذام.
العاشر: ظهور أن ذلك المقتضي للذم لم يرجع عنه صاحبه. والمقصود بالظهور في هذه المواضع الظهور الذي تقوم به الحجة.
وقد يزاد على هذه العشرة، وفيها كفاية.
التنکیل1/187


ایساقول جو متصل ہے اوراس سے ذم یاذم کے قبیل سے ہو توذم تب تک ثابت نہیں ہوگا جب تک اس کے ساتھ دس مزید امور ثابت نہ کئے جائیں
اول:وہ خاص راوی جس پر مناقشہ ہے وہ ثقہ ثابت ہو
دوم:بقیہ رجال (راوی)بھی ثقہ ہوں
سوم:سند متصل ہو منقطع نہ ہو
چہارم:کوئی مخفی علت نہ ہو جس کے ذریعہ انقطاع ،راوی کی غلطی یااسی قبیل کی بات ہوجس سے روایت کمزورہوجاتی ہے۔
پنجم:متن میں تصحیف ،تغیراورتحریف نہ ہواہوجوروایت بالمعنی کا نتیجہ ہو۔
ششم:وہی مراد بھی ہو جوظاہر سے سمجھ میں آرہاہے۔
ہفتم:یہ بات واضح ہو کہ جارح وناقد نے جس بنیاد پر ذم کا قول نکالاہے وہ دلیل پر مبنی ہو اٹکل پچو نہ ہو کہ فلانے نے خبردی کہ اس نے ایساکہااورایساکیا اوراس کو سچ جان کر اس نے وہ ذم کا قول منہ سے نکالا۔
ہشتم:یہ بات واضح رہے کہ جارح اورناقد نے جس بنیاد پر جرح اورنقد کیاہے وہ بنیاد مضبوط ہو صرف اس کا گمان اورخیال نہ ہو جو اس نے سمجھاہو
نہم:جس قول یافعل کی وجہ سے جارح جرح کررہاہے اس قول کے متکلم یافاعل کے پاس اپنے قول وفعل کی کوئی معقول عذر نہ ہو۔
دہم:یہ بھی ثابت کیاجائے کہ وہ تاعمر اسی قول یافعل پر قائم رہے جس کی بنیاد پر جرح کاقول یاذم کا قول کہاگیاہے۔
معلمی آخر میں لکھتے ہیں کہ ظہور سے مراد ایساظہور ہے جس پر حجت قائم ہوتی ہے نہ کہ خوش گمانی اورخوش فہمی والا ۔
اس کے علاوہ مزید امور ذکر کئے جاسکتے ہیں مگر اسی پر نہایت ہے۔
اس سے پتہ چلتاہے کہ معلمی کے ذہن میں کچھ مزید امور تھے
مثلا جارح کا ناقد ایسی بات ذکر کرے جس کا امام ابوحنیفہ جیسی شخصیت سے ہوناناممکن ہو۔
جارح کوئی ایسافقہی مسئلہ بیان کرے جو فقہ حنفی میں موجود نہ ہو یااس کے خلاف بیان کیاگیاہو۔
جارح خود ہی اہل الرائے کے خلاف کسی تعصب اورحسد میں مبتلانہ ہو۔جیسے ابوزعیہ الرازی اوراسحاق بن راہویہ اوردیگر کا معاملہ ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أنا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، نا أَبُو الْأَزْهَرِ الْخُرَاسَانِيُّ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْأَحْمَرِ، قَالَ: قَالَ شُعْبَةُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «قُومُوا عَنِّي، مُجَالَسَةُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُجَالَسَتِكُمْ، إِنَّكُمْ لَتَصُدُّونَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ»[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 217 ]۔
اولا:یہ روایت مردود ہے سند میں موجود ’’أبو الأزهر الخراساني‘‘ نامعلوم شخص ہے اس طبقہ میں اس کنیت کے ساتھ ’’خراسانی‘‘ کے لاحقہ سے کوئی بھی راوی معروف نہیں ہے ، ایک راوی ابوالازھر کی کنیت اور الخراسانی کی نسبت سے یعنی ’’ابوالازہر الخراسانی‘‘ سے ضرور مشہور ہے مگر وہ اس طبقہ کا نہیں نیز وہ سخت ضعیف راوی ہے ۔
نیزاس طبقہ میں بھی ’’ابوالازھر‘‘ کی کنیت والے ایک ثقہ راوی موجود ہیں اوروہ زیدبن الحباب کے شاگرد بھی ہیں مگروہ ’’خراسانی‘‘ نہیں بلکہ ’’نیسابوری‘‘ کی نسبت سے معروف ہیں، اور گرچہ نیسابور صوبہ خراسان ہی کا شہر ہے اور اس اعتبار سے یہ راوی بھی صوبہ خراسان کے ہوئے مگرکسی راوی کا کسی صوبہ کا ہونا ایک بات ہے اور اس صوبہ کی نسبت سے معروف ہونا الگ بات ہے ، اور اس طبقہ والے ابوالازھر ثقہ راوی صوبہ خراسان کی نسبت سے نہیں بلکہ اس کے شہر نیسابور کی نسبت سے معروف ہیں، اور زیرنظر سند میں موجود ابوالازھر کی نسبت ’’خراسانی‘‘ بتلائی جارہی ہے نہ کہ ’’نیسابوری‘‘ ، لہٰذا یہ کوئی اور راوی ہے جس کے حالات نا معلوم ہیں۔

نیز اس طبقہ والے ثقہ ومعروف ابوالازھر یہ کثیر الروایہ وشہرت یافتہ ہیں اسی طرح احمدبن مسلم الابار بھی کثیر الروایہ وشہرت یافتہ ہیں مگر زیر نظر روایت کی سند کے علاوہ کسی بھی دوسری روایت کی سند میں استاذو شاگرد کا یہ رشتہ نظر نہیں آتا اورائمہ فن نے تو سرے سے ان دونوں کے مابین استاذ وشاگردی کے رشتہ کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ، اس سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتاہے کہ زیرنظر سند میں ’’ابوالازھر الخراسانی ‘‘ کوئی اور راوی ہے۔
یہ پوری بحث آپ نے پڑھ لی۔

کفایت اللہ صاحب کو اس کا بھی اقرار ہے کہ ابوالازہر نام کا ایک سخت ضعیف راوی ہے لیکن اس طبقہ کا نہیں ہے۔ اورایک ثقہ شاگرد ہیں اورزید بن الحباب کے شاگرد بھی ہیں ۔ واضح رہے کہ زید بن الحباب بھی خراسان ہی کے ہیں۔
زَيْدُ بنُ الحُبَابِ بنِ الرَّيَّانِ * (م، 4)
وَقِيْلَ: ابْنُ رُوْمَانَ، الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثِّقَةُ، الرَّبَّانِيُّ، أَبُو الحُسَيْنِ العُكْلِيُّ، الخُرَاسَانِيُّ، ثُمَّ الكُوْفِيُّ، الزَّاهِدُ.

سیر اعلام النبلاء9/393
ان کو اس کا بھی اقرار ہے کہ نیشاپور خراسان میں ہی ہے اوراس بات سے بھی واقف ہوں گے کہ کبھی انسان کو پورے صوبہ کی جانب منسوب کردیاجاتاہے۔ جیساکہ کفایت اللہ صاحب کو عرب میں ہندی کہہ کر پکاراجائے گا۔ نہ کہ ان کے جائے پیدائش اورصوبہ کی جانب سے منسوب کرکے۔اوریہ عین ممکن ہے کہ یہ ان کے شاگرد یابعد کے کسی راوی کی کارستانی ہو ۔ خود خطیب اپنے اساتذہ کانام دس طریقہ سے بدلتے رہتے ہیں کبھی نام ذکر کرتے ہیں کبھی کنیت ذکر کرتے ہیں کبھی نسبت بیان کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان پر مدلس ہونے کابھی ٹھپہ لگاہے اورکیاپتہ یہ کارستانی بھی خطیب نے کرڈالی ہو۔

لیکن اس کے باوجود ان کے شک کی سوئی صرف اسی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ وہ نیشاپور کی نسبت سے معروف ہیں اوریہاں ان کوخراسانی کہاجارہاہے۔اوردوسرے یہ کہ کسی دوسری روایت میں یہ استادی وشاگردی کا سلسلہ نظرنہیں آتا۔
اورائمہ فن نے تو سرے سے ان دونوں کے مابین استاذ وشاگردی کے رشتہ کا ذکر ہی نہیں کیا ہے
ائمہ فن سرے سے تمام شاگردوں اوراستادوں کے استقصاء کا ارادہ ہی کہاں کرتے ہیں۔ وہ تو چند شاگردوں اوراستادوں کا ذکردیااوراس کے بعد خلق سواھم کہہ کر گزرجاتے ہیں۔ آپ کسی ایسی کتاب کا نام بتادیں جس میں راویوں کے تمام شاگردوں اوراساتذہ کا احاطہ اوراستقصاء کیاگیاہو۔
تہذیب الکمال میں حافظ مزی نے ایک حد تک اس کی کوشش کی ہے لیکن ماہرین فن کا اس پر اتفاق ہے کہ ان سے بہت سے نام چھوٹ گئے ہیں۔توپھر دوسری کتابیں جس میں اختصارکوہی ملحوظ رکھاگیاہے اس میں عدم ذکر سے یہ کیسے فرض کیاجاسکتاہے کہ ذکر کا عدم ہے۔پھر کون کس کا استاد اورشاگرد ہے اس کا پتہ روایت سے ہی چلتاہے کہ کون کس کا شاگرد اورکون کس کا استاد ہے۔

بہرحال یہ تمام عذرجوکفایت اللہ صاحب نے بیان کئے ہیں عذرلنگ کی حیثیت رکھتے ہیں اوران کی حیثیت تارعنکبوت سے زیادہ نہیں ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ معلمی صاحب کابھی تنکیل میں اسی طرح کے استدلالات پرزور ہے فلاں صاحب فلاں جگہ کے ہیں اورفلاں صاحب فلاں جگہ کے ہیں حالانکہ دونوں جگہوں میں فاصلہ کچھ خاص نہیں ہوتا اورایک جگہ کا دوسرے پر اطلاق بآسانی ہوسکتاہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ روایت بے غبار ہے ۔شعبہ نے اہل حدیث کی مجالست سے زیادہ یہود ونصاری کی مجالست کو پسند کیاہے۔ شعبہ خود امیرالمومنین فی الحدیث ہیں پوری زندگی انہی کےد رمیان گزری ہے وہ اس بارے میں جوکچھ کہیں گے اس کی حیثیت ان کے اعتراف کی ہوگی ۔اوران کی بات زیادہ لائق قبول ہوگی۔
ثانیا:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: ح وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْفَقِيهُ، قَالَ: قُرِئَ عَلَى إِسْحَاقَ النِّعَالِيِّ، وَأَنَا أَسْمَعُ، حَدَّثَكُمْ أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِيدِ يَقُولُ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ يَصُدُّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ» قَالَ أَبُو خَلِيفَةَ: يُرِيدُ شُعْبَةُ، رَحِمَهُ اللَّهُ، أَنَّ أَهْلَهُ يُضَيِّعُونَ الْعَمَلَ بِمَا يَسْمَعُونَ مِنْهُ وَيَتَشَاغَلُونَ بِالْمُكَاثَرَةِ بِهِ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ. وَالْحَدِيثُ لَا يُصَدُّ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، بَلْ يَهْدِي إِلَى أَمْرِ اللَّهِ، [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 114 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام شعبہ نے کہا کہ یہ حدیث تمہیں اللہ کے ذکر اورنماز سے روکتی ہے تو کیا تم اس سے باز نہ رہو گے ، ابوخلیفہ کہتے ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کی مراد وہ طلاب حدیث ہیں جو بہت ساری احادیث سن کر بھی اس پرعمل نہیں کرپاتے کیونکہ کثرت روایت وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں ، ورنہ حدیث حدیث اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی بلکہ اللہ کے حکم کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔
اس قول میں امام شعبہ رحمہ اللہ نے یہود ونصاری کی مثال نہیں دی ہے اسی طرح طلاب حدیث نہیں بلکہ نفس حدیث ہی پر بات کی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے اس کی وضاحت بھی اسی روایت کے ساتھ موجود ہے نیزاس کی وضاحت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے بہترین انداز میں پیش کی ہے چنانچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَلِيٍّ اللِّحْيَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عِيسَى الْقَاضِي، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، وَسُئِلَ، عَنْ قَوْلِ، شُعْبَةَ: إِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ يَصُدُّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ؟، فَقَالَ: «لَعَلَّ شُعْبَةَ كَانَ يَصُومُ، فَإِذَا طَلَبَ الْحَدِيثَ وَسَعَى فِيهِ يَضْعُفُ، فَلَا يَصُومُ، أَوْ يُرِيدُ شَيْئًا مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، فَلَا يَقْدِرُ أَنْ يَفْعَلَهُ لِلطَّلَبِ. فَهَذَا مَعْنَاهُ»[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 114 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام احمدرحمہ اللہ سے امام شعبہ کے مذکورہ قول کے بارے میں پوچھا گیا تو امام احمدرحمہ اللہ نے فرمایا: شاید امام شعبہ روزہ رکھنے والے تھے اورجب طلب حدیث میں مصروف ہوتے اوراس میں محنت کرتے توکمزرو پڑجاتے اور روزہ نہیں رکھ پاتے یا کچھ اور نیکیاں کرنا چاہتے لیکن طلب حدیث میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں کرپاتے ، یہی مراد ہے امام شعبہ کے قول سے۔
اولا:
توامام احمد بن حنبل کی شعبہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے جس کی بناء پر یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے شعبہ کودیکھاہے پرکھاہے اوراس بناء پر وہ ان کی مراد سے زیادہ واقف ہیں۔
ثانیا:
امام احمد بن حنبل نے اس قول کی دوتوجیہہ کی ہے وہ ان کے اپنے ذہن اورفہم کے اعتبار سے ہےاوراس کو بھی انہوں نے لعل سے تعبیر کیاہے شاید یہ شعبہ کی مراد ہو اس پر قطعیت جب امام احمد بن حنبل کونہیں ہے توپھرکفایت اللہ صاحب اس کو قطعی طورپر کیوں بیان کررہے ہیں۔
ثالثاً:
امام شعبہ نے حدیث بول کربھی اہل حدیث ہی مراد لیاہے جیساکہ کبھی مضاف الیہ کا ذکرکردیاجاتاہے لیکن مضاف کا ذکرنہیں کیاجاتا۔مطلب اس قول میں بھی اہل حدیث پر ہی تعریض ہے۔ کہ حدیث کے اسناد اورروات میں اتنے زیادہ مشغول ہوجاتے ہیں کہ انہیں نماز اوراللہ کے ذکر کی بھی فرصت نہیں ملتی۔

کمال یہ ہے کہ خود ابوخلیفہ نے جو وجہ بیان کی ہے اس کو محض ترجمہ کرکے کفایت اللہ صاحب نے چھوڑدیاہے۔حالانکہ بنظرانصاف دیکھاجائے توابوخلیفہ کی بات امام احمد بن حنبل سےزیادہ واضح اورشعبہ کے مطلب کے قریب ہے ۔دوسرے یہ کہ انسان تو تازندگی طالب علم ہی رہتاہے لیکن اس کے ساتھ اس کی نسبت کسی نہ کسی جانب ہوتی ہی ہے۔ کفایت اللہ صاحب اہل حدیث(غیرمقلد )ہیں لیکن طالب علم تواب بھی ہیں۔لہذا طلاب حدیث بول کر گلوخلاصی کرنا مفید نہیں ہے۔

خود خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قُلْتُ: وَلَيْسَ يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ: كَانَ شُعْبَةُ يُثَبِّطُ عَنْ طَلَبِ الْحَدِيثِ، وَكَيْفَ يَكُونُ كَذَلِكَ وَقَدْ بَلَغَ مِنْ قَدْرِهِ أَنْ سُمِّيَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحَدِيثِ؟ كُلُّ ذَلِكَ لِأَجْلِ طَلَبِهِ لَهُ وَاشْتِغَالِهِ بِهِ. وَلَمْ يَزَلْ طُولَ عُمُرِهِ يَطْلُبُهُ حَتَّى مَاتَ عَلَى غَايَةِ الْحِرْصِ فِي جَمْعِهِ. لَا يَشْتَغِلُ بِشَيْءٍ سِوَاهُ، وَيَكْتُبُ عَمَّنْ دُونَهُ فِي السِّنِّ وَالْإِسْنَادِ، وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ عِنَايَةً بِمَا سَمِعَ، وَأَحْسَنِهِمْ إِتْقَانًا لِمَا حَفِظَ[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 115]
یہی بات تواتنی دیر سے ہم آپ کو اورآپ کی جماعت کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کوئی دوسرا تیسرایہ بات کہتاتوشاید بات میں اتنازون نہ ہوتالیکن اہل حدیث کے ائمہ نے خود اپنی جماعت کا مدت مدید تک مشاہدہ کیاپھراورانہوں نے اس کے بارے میں یہ الفاظ کہے ہیں لہذا یہ زیادہ وزنی ،اہم ہیں اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی حیثیت اعتراف کی سی ہے۔ لہذا نہ ماننے کا کوئی جوازنہیں بنتاہے۔شعبہ علم حدیث میں امیرالمومنین فی الحدیث کےمقام تک پہنچنے اوراس کے بعد انہون نے یہ باتیں کہیں لہذا اس کا وزن بہت زیادہ ہے کہ اہل حدیث کی مجالست اورہم نشینی سے زیادہ یہود ونصاری کی مجالست ان کو پسند ہے۔

ثالثا:
امام شعبہ رحمہ سے منقول مردود روایت میں امام شعبہ نے اپنے بعض شاگردوں کی مجالست سے بہتر یہود ونصاری کی مجالست کو قرار دیا ہے مگر امام ابراہیم نخعی نے تو مرجئہ کی مجالست نہیں بلکہ اس جماعت ہی کو تمام اہل کتاب سے زیادہ مبغوض قراردیاہے ، چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا محمد بن الصلت قال: حدثنا منصور بن أبي الأسود عن الأعمش قال: ذكر عند إبراهيم المرجئة فقال: والله إنهم أبغض إلي من أهل الكتاب.[الطبقات لابن سعد: 6/ 282 واسنادہ حسن الی الاعمش]۔
یعنی امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے سامنے مرجئہ کاذکر ہوا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یہ لوگ میری نظر میں اہل کتاب سے بھی زیادہ مبغوض ہیں ۔
جولوگ امام اعمش کے عنعنہ کے مضر نہیں مانتے انہیں اس روایت پر ایمان لانا چاہئے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مرجئیہ کون لوگ ہیں۔
فی الحال توآپ شعبہ اوردیگر محدثین کی جانب سے ان باتوں کا جواب دے لیں جوانہوں نے اہل حدیثوں کو کہاہے۔جب یہ جواب دے لیں گے اس کے بعد اپنی باتیں عرض کیجئے گا۔

یہ تو ایک عمومی بات ہوئی لیکن بطور خاص رائے وقیاس کے امام اعظم کو کیا کہا گیا ہے وہ بھی دیکھتے چلیں:
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى290)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى النَّسَائِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يُحَدِّثُ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: قَالَ لِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: " اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَاسْأَلْهُ عَنْ عِدَّةِ أُمِّ الْوَلَدِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا سَيِّدُهَا، فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيْهَا عِدَّةٌ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى سُفْيَانَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ هَذِهِ فُتْيَا يَهُودِيٍّ "[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 194 واسنادہ صحیح]۔
شعیب بن حرب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ نے کہا: ابوحنیفہ کے پاس جاؤ اوراس سے اس ام الولد کی عدت کے بارے میں سوال کرو جس کا آقا فوت ہوگیا ہو ۔ شعیب بن حرب کہتے ہیں کہ پھر میں ابوحنیفہ کے پاس آیا اورسوال کیا تو ابوحنیفہ نے جواب دیا : اس پر کوئی عدت نہیں ۔ شعیب بن حرب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کے پاس لوٹا اوران کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا: یہ یہودی کا فتوی ہے۔
اس کا جواب ملاحظہ کیجئے
اولا:
کہ اگرکوئی ام ولد کا آقامرگیاتواس کی عدت کیاہوگی۔ شعیب بن حرب نے آکر یہ بات کہی۔اس پر کوئی عدت نہیں ۔
جب کہ فقہ حنفی کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں کہ اس کی عدت کتنی ہوگی۔
عِدَّةُ أُمِّ الْوَلَدِ إذَا مَاتَ عَنْهَا سَيِّدُهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا
المبسوط للسرخسی5/174
اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ شعیب بن حرب نے امام ابوحنیفہ کی بات ٹھیک سے نہیں سمجھی ہوگی اورمسئلہ کو انہوں نے گڈمڈ کردیا۔ ام ولد کی عدت نہ ہونے کی ایک صورت البتہ ضرور ہے لیکن وہ ایک خاص صورت میں ہے مطلقانہیں ہے۔ شاید اس بات کو شعیب بن حرب ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے اورجاکر کہہ دیا کہ ام ولد کے آقاکے مرجانے پر کوئی عدت نہیں ہے۔
چونکہ سفیان ثوری نے صرف ایک مرتبہ دریافت کرایا اورمطمئن ہوگئے بذات خود تحقیق نہیں کی جوان کیلئے دشوار نہیں تھا لہذا کسی پر بغیر تحقیق کے کچھ کہنے سے جب کہ وہ ویسانہ ہو قول اسی پر لوٹ جاتاہے لہذا یہ یہودی فتوی کا قول بھی خود سفیان ثوری پر ہی لوٹ جائے گا۔

ثانیا:
حدیث کے تعلق سے سفیان ثوری کا نظریہ معلوم کریں۔
شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: " كُنَّا عِنْدَ سُفْيَانَ يَوْمًا نَتَذَاكَرُ الْحَدِيثَ فَقَالَ: «لَوْ كَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَيْرٌ لَنَقَصَ كَمَا يَنْقُصُ الْخَيْرُ وَلَكِنَّهُ شَرٌّ فَأُرَاهُ يَزِيدُ كَمَا يَزِيدُ الشَّرُّ»
جامع بیان العلم وفضلہ اسنادہ صحیح
شعیب بن حرب کہتے ہیں ہم سفیان ثوری کے پاس حدیث کا مذاکرہ کررہے تھے توانہوں نے کہا۔اگراس حدیث میں بھلائی ہوتی تویہ بھی دوسرے امور خیر کی طرح گھٹ جاتا لیکن یہ (علم حدیث)برائی ہے اسی لئے میں دیکھتاہوں کہ یہ بڑھتاہی جارہاہے جیساکہ دیگر برائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔

اب جوآدمی علم حدیث ہی کو براکہہ دے تووہ دوسرے آدمیوں کو کچھ بھی کہہ سکتاہے۔کمال یہ ہے کہ اس کے بھی راوی سفیان ثوری سے شعیب بن حرب ہی ہیں۔
(نوٹ:شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کے شاگرد محمد عوامہ نے اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء نامی کتاب لکھی جس میں بتایاکہ حدیث کے معانی ومفہوم اورنفس حدیث میں بعض الفاظ کے اختلاف کی وجہ سے فقہاء کے درمیان مسائل میں کیااختلافات ہوتے ہیں اس پر غیرمقلدوں نے آسمان سرپراٹھالیا۔حالانکہ خود محدثین سے اس طرح کی عبارتیں مروی ہیں حدیث برائی ہے جیساکہ ابھی سفیان ثوری کا قول گزرا۔ ابن وہب کا قول ہے کہ حدیث جائے گمراہی ہے۔ اوردیگر محدثین کا قول ہے لیکن اسپر صم بکم عمی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔)
أَبَا أُسَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَقُولُ: [ص:1025] «لَيْسَ طَلَبُ الْحَدِيثِ مِنْ عَدَدِ الْمَوْتِ، وَلَكِنَّهُ عِلَّةٌ يَتَشَاغَلُ بِهِ الرَّجُلُ»
اسنادہ صحیح
علم حدیث کا طلب کرنا موت کی تیاری میں سے نہیں ہے لیکن یہ ایک مشغولی ہے ہے جس میں آدمی الجھارہتاہے۔

کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي حدثنا عبد الله بن محمد بن عثمان المزني بواسط حدثنا طريف بن عبد الله قال سمعت بن أبي شيبة وذكر أبا حنيفة فقال أراه كان يهوديا[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 413]
طریف بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ امام ابوبکربن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے کہا: میراخیال ہے کہ ابوحنیفہ یہودی تھا۔
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن جو لوگ جرح وتعدیل کے اقوال میں صحت وضعف پر بحث نہیں کرتے انہیں اس قول پر ایمان لانا چاہئے۔
نیزقاضی ابوالعلاء کی مروایات کے انتقاء میں ان کے شاگرد امام خطیب ماہر تھے اور طریف بن عبیداللہ فقط ضعیف ہیں ، کذاب یا متہم بالکذب نہیں اور وہ براہ راست اپنے استاذ سے نقل کرتے ہیں اوروہ بھی ابوحنیفہ سے متعلق تبصرہ اس لئے یہ بات بھولنے والی نہیں ہے ، اس اعتبار سے یہ روایت کسی حدتک معتبر ہوجاتی ہے ۔
آپ نے گزشتہ مراسلے میں ملاحظہ کیاہوگاکہ عمروبن الحارث کے قول کہ علم حدیث سے اشرف اوراہل حدیث سے زیادہ ذلیل کسی کونہیں دیکھاایک معمولی سی جرح جوغیرمفسر ابوخیثمہ کی ہے تو وہ لائق اعتبار ہوجاتی ہے اورسند کسی کام کی نہیں رہتی ۔ یہ ان کامعیار ہے۔مومل کی سند سے امام ابوحنیفہ پر جوجرح ہوتی ہے وہ اسنادہ صحیح ہوجایاکرتی ہے اور امام اعمش کی زبانی امام ابوحنیفہ کے فقاہت کی داد جو سند صحیح سے مروی ہے وہ مردود سند بن جایاکرتی ہے ۔ اعمش کا قول کہ اہل حدیث سرخ سونے سے بھی زیادہ محبوب ہیں ضعیف سند کے ساتھ ہے لیکن کفایت اللہ صاحب علم حدیث کو موم کی ناک بناتے ہوئے اوراپنی طرف گھماتے ہوئے اسنادہ صحیح لکھ دیتے ہیں۔

جب کہ عمروبن الحارث کے قول کی معنوی طورپر متابعت بھی ہوئی ہے۔
وَرُوِّينَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي الْحَوَارِيِّ قَالَ: قَالَ أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ: «الرِّيَاسَةُ فِي الْحَدِيثِ رِيَاسَةٌ مُذِلَّةٌ» إِذَا صَحَّ الشَّيْخُ الْحَدِيثَ، وَحَفِظَ وَصَدَقَ [ص:1027] قَالُوا: شَيْخٌ كَيِّسٌ، وَإِذَا وَهِمَ فِي الْحَدِيثِ قَالُوا: كَذَبَ "
جامع بیان العلم وفضلہ2/1026
ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ حدیث میں بلند مقام حاصل کرنا ذلت میں بلند مقام حاصل کرناہے۔ جب شیخ حدیث کوصحیح سے بیان کرتاہے اوراس کو یاد رکھتاہے توکہتے ہیں عقلمند شیخ ہے ۔اورجب کسی حدیث کے بیان میں اس کووہم ہوتاہے تو کہتے ہیں اس نے جھوٹ کہا۔
یہ بات خطیب نے بھی الجامع میں بیان کی ہے۔
أَخْبَرَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ عَلَّانَ، أنا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الطُّومَارِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ يَقُولُ: نا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: " قُلْتُ: لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: لِمَ لَا تُحَدِّثُ؟ قَالَ: «مَنْ حَدَّثَ ذَلَّ»
الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع1/222

سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ مَيْمُونٍ الْعَطَّارَ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: «مَنْ حَدَّثَ فِي هَذَا الزَّمَانِ فَهُوَ أَحْمَقُ»
الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع(المصدرالسابق)واسنادہ صحیح
بہرحال ان تمام روایات کا خلاصہ ایک ہے اور وہ یہ کہ
مارایت علمااشرف ولااھلااسخف من اھل الحدیث


کفایت اللہ صاحب سند کو محض ضعیف قراردے کر کام چلانے کی کوشش کی ہے جب کہ بات آگے تک کی ہے۔ یہ راوی صرف ضعیف ہی نہیں ہے بلکہ اوربھی بہت کچھ ہے۔ذراہم کتب جرح وتعدیل سے اس کاجائزہ لیتے ہیں کہ

القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي

اس کے بارے میں خود خطیب بغدادی لکھتے ہیں۔
وكان أهل العلم بالقراءات ممن أدركناه يقدحون فيه ويطعنون عليه فيما يرويه، ويذكرون أنه روى عن ابن حَبَش رواية لم تكن عنده، وزعم أنه قرأ بها عليه
جن اہل علم کوہم نے پایاہے وہ اس کی روایتوں پر طعن کرتے ہیں اوریہ بیان کرتے تھے کہ اس نے ابن حبش سے ایک ایسی روایت بیان کی ہے جو اس کے پاس تھی ہی نہیں اوریہ گمان کیاکہ اس نے ان پر اس روایت کو پڑھاہے۔

قارئین کو یاد ہوگاکہ کفایت اللہ صاحب نے فیمازعم سے اتہام کا مطلب کشید کیاتھا۔ لیکن اب زعم سے ان کے نزدیک محض ضعف ہی ثابت ہورہاہے۔

وسمعت أبا يعلي محمد بن الحسين السراج، وكان أحد من يرجع إليه في شأن القراءات وعلم رواياتها، يذكره ذكرًا غير جميل.
اورمیں نے ابویعلی محمد بن الحسین السراج جو علم قرات اورعلم روایت کے مرجع تھے ان سے سنا کہ کہ وہ اس کو (قاضی الواسطی) کا ذکر غیر جمیل کرتے تھے
اب ذکر غیرجمیل شاید کفایت اللہ صاحب کے نزدیک تعدیل وتوثیق کا کوئی جملہ ہے۔
وَحَدَّثَنِي أبو الفضل عبيد الله بن أحمد بن علي الصيرفي، قَالَ: كان عبد السلام البصري قد قرأ على أبي علي الفارسي معاني القرآن عن أبي إسحاق الزجاج، ووقعت إليَّ النسخة فلم أجد لأبي العلاء فيها سماعًا إلا في المجلس الأول، فذكر ذلك لأبي العلاء فقال: أنا قرأت الكتاب كله على أبي المجلس الأول، فذكر ذلك لأبي العلاء فقال: أنا قرأت الكتاب كله على أبي علي من نسخة أخرى.
قَالَ أبو الفضل: ولم يقرأ كتاب المعاني على أبي علي الفارسي غير دفعة واحدة، وسمعه الناس منه مع عبد السلام البصري ورأيت لأبي العلاء أصولا عُتُقًا سماعه فيها صحيح وأصولا مضطربة، وسمعته يذكر أن عنده تاريخ شباب العصفري، فسألته إخراج أصله به لأقرأه عليه فوعدني بذلك.
ثم اجتمعت مع أبي عبد الله الصوري فتجارينا ذكره، فقال لي: لا ترد أصله بتاريخ شباب فإنه لا يصلح لك.
قلت: وكيف ذاك؟ فذكر أن أبا العلاء اخرج إليه الكتاب فراه قد سمَّع فيه لنفسه تسميعا طريا؛ مشاهدته تدل على فساده.

یہ سب بھی کفایت اللہ صاحب کے نزدیک راوی کے محض ضعیف ہونے کی علامت ہے۔
وَذَاكَرْتُ أَبَا الْعَلاءِ يَوْمًا بِحَدِيثٍ كَتَبْتُهُ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ الْحَافِظِ عَنْ أَبِي مُحَمَّدِ ابْنِ السَّقَّاء، فَقَالَ: قَدْ سمعت هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ ابْنِ السَّقَّاء وَكَتَبَهُ عَنِّي أبو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكِيرٍ وَكِتَابُ ابْنِ بَكِيرٍ عِنْدِي، فَسَأَلْتُهُ إِخْرَاجَهُ إِلَيَّ فَوَعَدَنِي بِذَلِكَ.
ثُمَّ أَخْرَجَهُ إِلَيَّ بَعْدَ أَيَّامٍ، وَإِذَا جُزْءٌ كَبِيرٌ بِخَطِّ ابْنِ بَكِيرٍ قَدْ كُتِبَ فِيهِ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ الشُّيُوخِ، وَقَدْ عَلَّقَ عَنْ أَبِي الْعَلاءِ فِيهِ الْحَدِيثَ، وَنَظَرْتُ فِي الْجُزْءِ فَإِذَا ضَرْبٌ طَرِيٌّ عَلَى تَسْمِيعٍ مِنْ بَعْضِ أُولَئِكَ الشُّيُوخِ، ظَنَنْتُ أَنَّ أَبَا الْعَلاءِ كَانَ قَدْ أَلْحَقَ ذَلِكَ التَّسْمِيعَ لِنَفْسِهِ، ثُمَّ لَمَّا أَرَادَ إِخْرَاجَ الْجُزْءِ إِلَيَّ خَشِيَ أَنْ أَسْتَنْكِرَ التَّسْمِيعَ لِطَرَاوَتِهِ فَضَرَبَ عَلَيْهِ.وَرَأَيْتُ ل هُ أَشْيَاءَ سَمَاعُهُ فِيهَا مَفْسُودٌ، إِمَّا مَحْكُوكٌ بِالسِّكِّينِ، أَوْ مُصْلَحٌ بِالْقَلَمِ.

یہ سب بھی کفایت اللہ صاحب کے نزدیک متہم ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ محض ضعف ہے۔
ثُمّ قرأت عَلَيْهِ حَدِيثًا مِنَ الْمُسَلْسَلاتِ فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي بِعُلُوٍّ مِنْ طَرِيقٍ غَيْرِ هَذَا، فَسَأَلْتُهُ إِخْرَاجَهُ فَأَخْرَجَهُ إِلَيَّ فِي رُقْعَةٍ بِخَطِّهِ، وَقَرَأَهُ عَلَيَّ مِنْ لَفْظِهِ فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ الْمُزَنِيُّ الْحَافِظُ، وَهُوَ أَخَذَ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَوْصِلِيُّ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَهُوَ آخَذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي: " مَنْ أَخَذَ بَيَدِ مَكْرُوبٍ أَخَذَ اللَّهُ بِيَدِهِ ".
فَلَمَّا قَرَأَهُ عَلَيَّ اسْتَنْكَرْتُهُ، وَأَظْهَرْتُ التَّعَجُّبَ مِنْهُ وَقُلْتُ لَهُ: هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الطَّرِيقِ غَرِيبٌ جِدًّا، وَأَرَاهُ بَاطِلا.
فَذَكَرَ أَنَّ لَهُ بِهِ أَصْلا نَقَلَهُ مِنْهُ إِلَى الرُّقْعَةِ، وَأَنَّ الأَصْلَ قَرِيبٌ إِلَيْهِ لا يَتَعَذَّرُ إِخْرَاجُهُ عَلَيْهِ، وَاعْتَلَّ بِأَنَّ لَهُ شُغُلا يَمْنَعُهُ عَنْ إِخْرَاجِهِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ: فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخْرِجَهُ بَعْدَ فَرَاغِهِ مِنْ شُغُلِهِ، فَأَجَابَ إِلَى أَنَّهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ، وَانْصَرَفْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَالْتَقَيْتُ بِبَعْضِ مَنْ كَانَ يَخْتَصُّ بِهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ الْقِصَّةَ، وَقُلْتُ: هَذَا حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ عَلَى أَبِي يَعْلَى الْمَوْصِلِيِّ، وَكُنْتُ قَدْ سمعتهُ مِنْ غَيْرِ أَبِي الْعَلاءِ بِنُزُولٍ، وَقُلْتُ: مَا أَظُنُّ الْقَاضِي إِلا قَدْ وَقَعَ إِلَيْهِ نَازِلا مِنَ الطَّرِيقِ الْمَوْضُوعِ، فَرَكَّبَهُ وَأَلْزَقَهُ فِي رِوَايَتِهِ فَحَدَّثَ بِهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ الْمَعْرُوفِ بِابْنِ السَّقَّاءِ.
فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ أُسْبُوعٍ اجْتَمَعْتُ مَعَهُ، فَقَالَ لِي: قَدْ طَلَبْتُ أَصْلَ كِتَابِي بِالْحَدِيثِ، وَتَعِبْتُ فِي طَلَبِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ وَهُوَ مُخْتَلِطٌ بَيْنَ كُتُبِي، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُعِيدَ طَلَبَهُ إِيَّاهُ.
فَقَالَ أَنَا أَفْعَلُ.
وَمَكَثْتُ مُدَّةً أَقْتَضِيهِ بِهِ، وَهُوَ يَحْتَجُّ بِأَنَّهُ لَيْسَ يَجِدُهُ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَيْشِ قَدْرُ هَذَا الْحَدِيثِ؟ وَكَمْ عِنْدِي مِثْلَهُ يُرْوَى عَنِّي؟ فَمَا سَمَّعَنِي غَيْرَهُ.
وَسُئِلَ أَبُو الْعَلاءِ بَعْدَ إِنْكَارِيهِ عَلَيْهِ أَنْ يُحَدِّثَ بِهِ فَامْتَنَعَ وَلَمْ يَرْوِهِ لأَحَدٍ بَعْدِي، وَاللَّهُ أَعْلَمُ


کفایت اللہ صاحب یہ محض ضعف کی ہی علامتیں ہیں کیا؟حافظ مغلطائی کے باب میں تواس قسم کی باتوں پر آپ ان کو متہم کررہے تھے اوریہاں محض ضعف سے کام چلارہے ہیں۔ کچھ توشرم وحیاء کیجئے۔اورعلم حدیث کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کردیجئے۔

حَدَّثَنِي الْقَاضِي أَبُو الْعَلاءِ بَعْدَ هَذِهِ الْقِصَّةِ الَّتِي شَرَحْتُهَا بِمُدَّةٍ طَوِيلَةٍ مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الطَّيِّبِ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْجَعْفَرِيُّ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْفَقِيهُ الشَّافِعِيُّ الصُّوفِيُّ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَاصِمٍ الْمَعْرُوفُ بِابْنِ الْمُقْرِئ، بِأَصْبَهَانَ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي: " مَنْ أَخَذَ بِيَدِ مَكْرُوبٍ أَخَذَ اللَّهُ بِيَدِهِ ".
فَلَمَّا حَدَّثَنِي أَبُو الْعَلاءِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ لِي: كُنْتُ سمعت مِنْ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ السَّقَّاءِ.
حَدِيثَ أَبِي يَعْلَى الْمَوْصِلِيِّ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيِّ كُلَّهُ، ثُمَّ كَتَبْتُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْجَعْفَرِيِّ فَظَنَنْتُهُ فِي جُمْلَةِ مَا سمعتهُ مِنَ ابْنِ السَّقَّاءِ عَنْ أَبِي يَعْلَى فَرَوَيْتُهُ عَنْهُ.
فَأَعْلَمْتُ أَبَا الْعَلاءِ أَنَّه حَدِيثٌ مَوْضُوعٌ لا أَصْلَ لَهُ.
فَقَالَ: لا يُرْوَي عَنِّي غَيْرَ حَدِيثِ الْجَعْفَرِيِّ هَذَا.
وَرَأَيْتُ بِخَطِّ أَبِي الْعَلاءِ عَنْ بَعْضِ الشُّيُوخِ الْمَعْرُوفِينَ حَدِيثًا اسْتَنْكَرْتُهُ، وَكَانَ مَتْنُهُ طَوِيلا مَوْضُوعًا مُرَكَّبًا عَلَى إِسْنَادٍ وَاضِحٍ صَحِيحٍ عَنْ رِجَالٍ ثِقَاتٍ أَئِمَّةٍ فِي الْحَدِيثِ، فَذَاكَرْتُ بِهِ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الصُّورِيَّ، فَقَالَ لِي: قَدْ رَأَيْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي الْعَلاءِ وَاسْتَنْكَرْتُهُ فَعَرَضْتُهُ عَلَى حَمْزَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَاهِرٍ، فَقَالَ لِي: اطْلُبْ مِنَ الْقَاضِي أَصْلا بِهِ فَإِنَّهُ لا يَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ.
وَكَانَتْ مُذَاكَرَتِي بِهِ الصُّورِيَّ بَعْدَ مُدَّةٍ مِنْ وَفَاةِ حَمْزَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ


کفایت اللہ صاحب یہ سب کیانکل کر باہر آرہاہے۔ اپ نے بھی تو اس حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے تاریخ بغداد میں یہ سب کچھ پڑھاہوگا۔ پھرکیوں اس کو چھپائے رکھا۔
906) -[4: 165] أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو الْعَلاءِ الْوَاسِطِيُّ مِنْ كِتَابِهِ فِي سَنَةِ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى السَّلامِيُّ الشَّاعِرُ، قَالَ: بِفَائِدَةَ ابْنِ بَكِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ مُفَضَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الشَّاعِرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الشَّاعِرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو تَمَّامٍ حَبِيبُ بْنُ أَوْسٍ الشَّاعِرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي صُهَيْبُ بْنُ أَبِي الصَّهْبَاءَ الشَّاعِرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْفَرَزْدَقُ الشَّاعِرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ الشَّاعِرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ الشَّاعِرُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اهْجُ الْمُشْرِكِينَ وَجِبْرِيلَ مَعَكَ " وَقَالَ لِي: " إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةٌ ".
أَفَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الْعَلاءِ جَمَاعَةً مِنْ أَصْحَابِنَا الْبَغْدَادِيِّينَ وَالْغُرَبَاءِ مَعَ تَعَجُّبِي مِنْهُ؛ فَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُوسَى السَّلامِيَّ صَاحِبَ عَجَائِبَ وَطَرَائِفَ، وَكَانَ مَوْطِنُهُ وَرَاءَ نَهْرِ جَيْحُونَ، وَحَدَّثَ بِبُخَارَى وَسَمَرْقَنْدَ وَتِلْكَ النَّوَاحِي، وَلَمْ أَلْحَقْ بِخُرَاسَانَ مَنْ سَمِعَ مِنْهُ، وَلا عَلِمْتُ أَنَّهُ قَدِمَ بَغْدَادَ.
فَلَمَّا حَدَّثَنِي عَنْهُ أَبُو الْعَلاءِ جَوَّزْتُ أَنْ يَكُونَ وَرَدَ إِلَيْنَا حَاجًّا فَظَفَرَ بِهِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ بُكَيْرٍ وَسَمِعَ مَعَهُ أَبُو الْعَلاءِ مِنْهُ، وَلَمْ يَتَّسِعْ لَهُ الْمُقَامُ حَتَّى يَرْوِيَ مَا يُشْتَهَرُ بِهِ حَدِيثُهُ وَتَظْهَرُ عِنْدَنَا رِوَايَاتُهُ.
فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ وَقَعَ إِلَيَّ جُزْءٌ 26 بِخَطِّ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَدْ كَانَ جَمَعَ فِيهِ أَحَادِيثَ مُسْنَدَةٌ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الشُّعَرَاءِ وَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، فَوَجَدْتُ فِي جُمْلَتِهَا بِخَطِّ ابْنِ بُكَيْرٍ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ ب ْنُ عَلِيِّ بْنِ طَاهِرٍ أَبُو عَلِيٍّ الصَّيْرَفِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى السَّلامِيُّ الشَّاعِرُ مُشَافَهَةً، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ مُفَضَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الشَّاعِرُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي ذَكَرْتُهُ عَنْ أَبِي الْعَلاءِ عَنِ السَّلامِيِّ بِعَيْنِهِ بِسِيَاقِهِ وَلَفْظِهِ.
وَكَانَ فِي الْجُزْءِ حَدِيثٌ آخَرُ عَنِ ابْنِ طَاهِرٍ الصَّيْرَفِيِّ أَيْضًا عَنِ السَّلامِيِّ ذَكَرَ ابْنُ طَاهِرٍ أَنَّ السَّلامِيَّ أَخْبَرَهُمْ بِهِ مُنَاوَلَةً، فَأَوْقَفَتْ عَلَى كِتَابِ ابْنِ بُكَيْرٍ جَمَاعَةٌ مِنْ شُيُوخِنَا وَأَصْحَابِنَا، وَشَرَحَتْ هَذِهِ الْقِصَّةَ لأَبِي الْقَاسِمِ التَّنُوخِيِّ فَاجْتَمَعَ مَعَ أَبِي الْعَلاءِ، وَقَالَ لَهُ: أَيُّهَا الْقَاضِي لا تَرْوِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى السَّلامِيِّ، فَإِنَّ هَذَا الشَّيْخَ حَدَّثَ بِنَوَاحِي بُخَارَى وَلَمْ يَرِدْ بَغْدَادَ.
فَقَالَ أَبُو الْعَلاءِ: مَا رَأَيْتُ هَذَا السَّلامِيَّ وَلا أَعْرِفُهُ


یہ سب جومیں نے نقل کیاہے ۔تاریخ بغداد4/162میں موجود ہے۔ اس کے باوجود کفایت اللہ صاحب ہمیں سمجھارہے ہیں کہ روایت محض ضعیف ہے۔ہاں یہی اگرکوئی حنفی راوی ہوتاتوپھر دیکھناتھاکفایت اللہ صاحب کا ڈبل اسٹینڈرڈاورجوش وخروش۔وہ اس راوی کو کذاب وافاک اور روایت کو سیدھے من گھڑت اورموضوع ثابت کرکے ہی دم لیتے۔

حافظ ذہبی نے میزان میں جوکچھ کہاہے اس کوبھی دیکھ لیجئے۔
محمد بن علي القاضي، أبو العلاء الواسطي المقرئ.
ضعيف.
قرأ بالروايات على عدة أئمة، منهم ابن حبش (1) بالدينور، وولى قضاء الحريم، وصنف وجمع، وحدث عن القطيعى، وطبقته.
روى عنه أبو الفضل بن خيرون، وأبو القاسم بن
بيان، وخلق.
قال الخطيب (2) : رأيت له أصولا مضطربة، وأشياء سماعه فيها مفسود.
إما مصلح بالقلم وإما مكشوط.
وروى حديثاً مسلسلا بأخذ اليد رواته أئمة.
وقال الخطيب: حدثنا أبو العلاء، حدثنا الحافظ بن السقاء - وهو آخذ بيدي، حدثني أبو يعلي الموصلي - وهو آخذ بيدي، حدثنا أبو الربيع الزهراني - وهو آخذ بيدي، حدثنا مالك - وهو آخذ بيدي، حدثني نافع - وهو آخذ بيدي، حدثني ابن عمر - وفي النسخة (3) ابن عباس مضبب - وهو آخذ بيدي، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم - وهو آخذ بيدي: من أخذ بيد مكروب أخذ الله بيده.
قال الخطيب: فاستنكرته، وقلت له: أراه باطلا.
قال المصنف: وساق له الخطيب حديثاً آخر اتهم في إسناده.
وقال الخطيب: أما حديث آخذ اليد فاتهم بوضعه، فأنكرت عليه، فامتنع بعد من روايته، ورجع عنه.
وذكر الخطيب أشياء توجب وهنه.

(میزان الاعتدال3/654)
نیزقاضی ابوالعلاء کی مروایات کے انتقاء میں ان کے شاگرد امام خطیب ماہر تھے
کفایت اللہ صاحب نے روایات کی چھان بین اورانتقاء کی جوبات کی ہے وہ ان کی اپنی نہیں بلکہ معلمی کی تقلید میں ہے۔معلمی اسی راوی کے بارے میں تنکیل میں لکھتے ہیں۔
وأما ما وقع في أصول أبي العلاء فالخطيب هو الذي حقق ذلك، فالظن به أنه انتقى من مرويات أبي العلاء ما تبين له صحة سماعه فذاك هو الذي يرويه عنه
(تنکیل2/699)
لیکن ظاہر ہے کہ یہ معلمی صاحب کا ایک ظن ہےوالظن لایغنی من الحق شیئاً۔دوسراظن ہماراہے تومعلمی کا ظن ہمارے اوپریاکسی اورکے اوپر حجت کیسے ہوسکتاہے۔پھرمعلمی کی یہ بات بھی ناقبل قبول ہے کہ انہوں نے اس کی روایت چھان بین کے بعد لی ہے۔ خطیب کذاب روات سے بھی روایت کرتے ہیں توکیااس کے بارے میں بھی کہاجائے گاکہ خطیب نے اس کی روایت بھی چھان بین کے بعد لی ہے کیونکہ ان الکذوب قد یصدق۔
دوسرے یہ بات تو تمام ایسے ناقدین کے بارے میں پھر کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے ضعیف شیوخ سے جوروایتیں لی ہیں انہوں نے چھان بین کرکے لی ہوں گی۔ حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
علاوہ ازیں معلمی کی ایک بات توکفایت اللہ صاحب نے نقل کردی اوردوسری بات وہ بھول گئے۔
أقول: قد يقال: إنه اتهم في دعوى السماع، وإن لم يتهم بالوضع. والله أعلم.

حدثنا عبد الله بن محمد بن عثمان المزني بواسط

اس راوی کے حافظہ کی تعریف توملتی ہے لیکن توثیق کہیں بھی نہیں ملتی۔ حافظ ذہبی وغیرہ نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اوردیگر ناقدین نے اس کو حافظ کے لفظ سے یاد کیاہے لیکن بقول کفایت اللہ صاحب اتنی بات کافی نہیں ہوسکتی۔ بہت سارے راویان حدیث حفظ سے متصف ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ کسی دوسرے کمزوری سے بھی متصف ہیں لہذا کفایت اللہ صاحب اپنے ہی اصول پر عمل کرتے ہوئے ان کے بارے میں توثیق کا لفظ دکھادیں ۔یاپھر یہ ممکن نہ ہو توپھر ہمارے اصول قبول کرنے کا اعلان کردیں۔

طریف بن عبیداللہ

اس کے بارے میں ناقدین کی رائے یہ ہے کہ یہ ضعیف تھا۔
اس کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے معلمی کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ضرور تھا لیکن متہم بالکذب نہیں تھا۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اہل حدیث حضرات کی شان میں جو اقوال نقل کئے ہیں تواس میں سے کتنے متہم بالکذب اورکذاب ہیں۔ وہاں تومعمولی سی جرح پر سند مردود ہوجایاکرتی ہے لیکن یہاں پر سیدھے یہ کہاجارہاہے کہ سند میں کوئی متہم بالکذب نہیں ہے لہذا اسے مان لیناچاہئے۔ یاللعجب۔یہ کیسی دورنگی ہے۔

بہرحال معلمی نے اتنی بات ضرور قبول کی ہے کہ

أقول: لم يتهموه بتعمد الكذب، ولكن يظهر أنه كان مغفلاً يحدث على التوهم. والله أعلم.(تنکیل2/496)

کوئی ہمیں بتائے کہ ایک ایسی سند جس میں تین راوی ہوں۔ ایک اتہام بالکذب کے بالکل قریبی لائن پر ہو۔ دوسرے کاحافظہ اچھاہو لیکن توثیق مذکور نہ ہو۔ تیسرا حدیث کو توہم کے ساتھ بیان کرے۔تو اس کے بارے میں اگرکوئی کہے کہ
نیزقاضی ابوالعلاء کی مروایات کے انتقاء میں ان کے شاگرد امام خطیب ماہر تھے اور طریف بن عبیداللہ فقط ضعیف ہیں ، کذاب یا متہم بالکذب نہیں اور وہ براہ راست اپنے استاذ سے نقل کرتے ہیں اوروہ بھی ابوحنیفہ سے متعلق تبصرہ اس لئے یہ بات بھولنے والی نہیں ہے ، اس اعتبار سے یہ روایت کسی حدتک معتبر ہوجاتی ہے ۔
توسوائے عقل وفہم پر ماتم کرنے کے اورکیاکیاجاسکتاہے۔

یعنی راوی حدیث سے زیادہ امام ابوحنیفہ کے مثالب کے قول کو اہمیت دیتاہے۔حدیث میں اس کو وہم لاحق ہوسکتاہے۔ حدیث کو وہ توہم کے ساتھ بیان کرسکتاہے لیکن امام ابوحنیفہ کے متعلق تبصرہ کو وہ نہیں بھول سکتا۔

اس طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں آپ نے ماقبل میں سنی ہیں بالکل نہیں سنی ہوں گی۔ بے چارے معلمی بھی یہاں تک اگے بڑھ کر بولنے کی ہمت نہیں کرسکے وہ صرف اتناہی کہہ کر رہ گئے کہ خطیب نے ابوالعلاء الواسطی کی روایت کوچھان بین کے بعد قبول کیاہوگا۔ لیکن کفایت اللہ صاحب اس کے ساتھ مزید افادہ فرمارہے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے مثالب کا تبصرہ بھولنے والی بات نہیں ہے۔یعنی یہ حضرت معلمی سے بھی چارقدم آگے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
فضیل بن عیاض​

میں نے فضیل بن عیاض کااہل حدیث کی "شان"میں ایک قول اورفعل ذکر کیاتھا۔
" كَانَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ إِذَا رَأَى أَصْحَابَ الْحَدِيثِ قَدْ أَقْبَلُوا نَحْوَهُ وَضَعَ يَدَيْهِ فِي صَدْرِهِ وَحَرَّكَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكُمْ "
1/217الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع
فضیل بن عیاض جب اہل حدیث کواپنی جانب آتے ہوئے دیکھتے تواپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیتے ہیں اوراپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے کہتے میں تم سے خداکی پناہ چاہتاہوں۔
اس پر کفایت اللہ صاحب اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
یہ روایت مردود ہے سند میں ’’سويد بن سعيد الحدثاني‘‘ ہے یہ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہے اور اس نے یہاں پر سماع یا رویت کی صراحت نہیں کی ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے چوتھے طبقہ کا مدلس بتلایا ہے اور اس طبقہ کی غیرمصرح بالسماع مرویات بالاتفاق مردود ہوتی ہیں ، چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
سويد بن سعيد الحدثاني موصوف بالتدليس وصفه به الدارقطني والإسماعيلي وغيرهما وقد تغير في آخر عمره بسبب العمى فضعف بسبب ذلك وكان سماع مسلم منه قبل ذلك في صحته[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 70]۔
حقیقت یہ ہے کہ اس راوی کو علی الاطلاق ضعیف قراردینا محض کفایت اللہ صاحب کی ذہنی اپچ ہے۔یہ راوی علی الاطلاق ضعیف نہیں ہے۔ ہم اس کے بارے میں کچھ ناقدین فن کے اعترافات نقل کرتے ہیں تاکہ عام قارئین کو بھی اس سے آگاہی مل سکے۔
امام احمد بن حنبل کا سوید بن سعید کے تعلق سے خیال ملاحظہ ہو۔
سويد بن سعيد بن سهيل الهروي، ثم الحدثاني، الأنباري، أبو محمد.
• قال إسحاق بن إبراهيم بن يونس: بلغنى عن عبد الله بن أحمد بن حنبل قال: قال لي أبي: اكتب عن سويد أحاديث ضمام. «الكامل» (848) .
• وقال عبد الله بن أحمد: عرضت على أبي أحاديث لسويد بن سعيد، عن ضمام بن إسماعيل. فقال لي: اكتبها كلها، أو قال: تتبعها فإنه صالح، أو قال: ثقة. «تهذيب الكمال» 12/ (2643) .
• وقال الآجري: سألت أبا داود عن سويد. فقال: سمعت أحمد ذكره. فقال: أرجو أن يكون صدوقاً، أو قال: لا بأس به. «تاريخ بغداد» 9/230.
• وقال عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي: كان سويد من الحفاظ، وكان أبو عبد الله أحمد بن حنبل ينتقي عليه لولديه، صالح، وعبد الله، يختلفان إله فيسمعان منه.
هذا معنى ما قاله، حكاية عبد الله بن أحمد بن حنبل. قال: ورأيت في «تاريخ» أبي طالب أنه سأله عن غير شيء من حديث سويد، عن سويد بن عبد العزيز، وحفص بن ميسرة، فضعف حديث سويد بن عبد العزيز من أجله، لا من أجل سويد الأنباري. «تاريخ بغداد» 9/231.

اوراس کے بارے میں دیگر حفاظ کی آراء ملاحظہ ہوں۔
وَقَالَ أَبُو القَاسِمِ البَغَوِيُّ: كَانَ سُوَيْدٌ مِنَ الحُفَّاظِ
وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَدُوْقٌ، يُدَلِّسُ، وَيُكْثِرُ ذَلِكَ.
وَقَالَ صَالِحٌ جَزَرَةُ: صَدُوْقٌ عَمِيَ، فَكَانَ يُلَقَّنُ أَحَادِيْثَ لَيْسَتْ مِنْ حَدِيْثِهِ.
سیر اعلام النبلاء11/410
سويد بن سعيد بن سهل الهروي، أبو محمد الحدثاني الأنباري.
• قال السهمي: سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن سويد بن سعيد؟ فقال: تكلم فيه يحيى بن معين، وقال حدث عن أبي معاوية، عن الأعمش، عن عطية، عن أبي سعيد، أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة، قال يحيى بن معين وهذا باطل عن أبي معاوية، لم يروه غير سويد، وجرح سويد لروايته لهذا الحديث.
قال الدَّارَقُطْنِيّ: رحمه الله فلم نزل نظن أن هذا كما قاله يحيى، وأن سويدًا أتى أمرًا عظيمًا في روايته لهذا الحديث، حتى دخلت مصر في سنة سبع وخمسين، فوجدت هذا الحديث في مسند أبي يعقوب إسحاق بن إبراهيم بن يونس البغدادي، المعروف بالمنجنيقي، وكان ثقة، روى عن أبي كريب، عن أبي معاوية كما قال سويد سواء، وتخلص سويد، وصح الحديث عن أبي معاوية، وقد حدث أبو عبد الرحمن النسائي عن إسحاق بن إبراهيم هذا، ومات أبو عبد الرحمن قبله. (293) .
• وقال الدَّارَقُطْنِيّ: ثقة، ولما كبر ربما قرىء عليه ما فيه بعض النكارة فيجيزه. «الميزان» 2 (3621) .
موسوعۃ اقوال الدارقطنی1/309)
ہم کو اس سے انکار نہیں ہے کہ بعض حضرات نے تضعیف بھی کی ہے لیکن اگرکسی راوی میں تضعیف اور توثیق دونوں موجود ہو تو وہ راوی حسن درجے کا ہواکرتاہے نہ کہ مطلقاضعیف ہوتاہے۔ میراخیال ہے کہ کفایت اللہ صاحب نے اس باب میں آنکھیں بند کرکے ابن عدی کاقول دوہرادیاہے لیکن ابن عدی نے بھی کفایت اللہ صاحب کی طرح مطلقا ضعف کی بات نہیں کی ہے بلکہ اس کو الی الضعف اقرب سے تعبیر کیاہے۔اورکسی کو مطلقا ضعیف کہنااورضعف سے قریب ترکہنادونوں میں بہت فرق ہے۔بلکہ اگرکفایت اللہ صاحب اس باب میں خود اجتہاد کرنے کے بجائے اس فن کے ماہرین کی جانب نگاہ کرتے توپاتے کہ ان کی رائے دوسری اورکفایت اللہ سے قطعاالگ ہے۔

حافظ ذہبی نے سوید بن سعید الحدثانی کا ذکر من تکلم فیہ وھوموثق میں کیاہے۔ کتاب کے نام سے ہی اندازہ ہوجاتاہے کہ حافظ ذہبی کا مقصد یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اس راوی پر جرح ہواہے لیکن یہ راوی ثقہ ہےاوراس کی دیگر ائمہ فن نے توثیق کی ہے۔دیکھئے۔من تکلم فیہ وھوموثق97

اسی طرح حافظ ابن حجر اس راوی کے تعلق سے تقریب میں لکھتے ہیں۔
صدوق فى نفسه إلا أنه عمى فصار يتلقن ما ليس من حديثه فأفحش فيه ابن معين القول(تقریب)

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سوید بن سعید مدلس ہیں اورحافظ ابن حجر نے ان کو چوتھے طبقہ کا مدلس قراردیاہے۔لیکن ایک بات واضح رہنی چاہئے کہ سوید بن سعید کی فضیل بن عیاض سے ملاقات ثابت ہے۔ سوید بن سعید نے فضیل بن عیاض کے شاگرد ہیں لہذا فضیل بن عیاض کے تعلق سے اگرسوید بن سعید کچھ بیان کرتے ہیں تواسے مطلقا مردود قرارنہیں دیاجاسکتا۔ہاں ان کی تدلیس کی وجہ سے ایک شک برقرار رہتاہے ۔اگراس شک کو دورکرنے کا کوئی قرینہ مل جاتاہے تو اس روایت کی قبولیت میں کوئی عذر نہیں ہوگا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تدلیس کی وجہ سے پیداہونے والے اس روایت میں شک اوراحتمال کودورکرنے کا کوئی قرینہ ہے یانہیں۔

حضرت فضیل بن عیاض کا ذوق عبادت کی جانب تھا۔باوجود اس کے کہ انہوں نے کثرت سے احادیث سنی تھیں جس کی بناء پر ان کو ابن سعید کثیرالحدیث سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ان کو روایت حدیث سے پرہیز تھااوربہت مشکل سے ہی کبھی کبھار حدیث بیان کرتے تھے۔اس کیلئے مختلف سیر وتراجم کی کتابوں میں ان کے حالات دیکھے جاسکتے ہیں ۔اہل حدیث جس طرح ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے اس سے بھی ان کو ایک گونہ انقباض خاطر اورناگواری تھالہذا جب ایک مرتبہ اہل حدیث نے ان سے حدیث سنانے کا اصرار کیاتوانہوں نے کہہ دیا۔

فُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ، يَقُولُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «لِمَ تُكْرِهُونِي عَلَى أَمْرٍ تَعْلَمُونَ أَنِّي لَهُ كَارِهٌ؟ لَوْ كُنْتُ عَبْدًا لَكُمْ فَكَرِهْتُكُمْ لَكَانَ نَوْلُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي، وَلَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ دَفَعْتُ إِلَيْكُمْ رِدَائِي هَذَا ذَهَبْتُمْ عَنِّي لَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمْ»
جامع بیان العلم وفضلہ 1024،قال ابوالاشبال الزہیری اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ 8/95من وجہ آخر عن الحسن بن زیاد بہ واسنادہ صحیح
حسن بن زیادکہتے ہیں کہ میں نے فضیل بن عیاض کو اہل حدیث کو کہتے ہوئے سناتم لوگ مجھے ایسے کام پر کیوں مجبور کرتے ہو جس کے بارے میں تم جانتے ہیں کہ وہ مجھے ناپسند ہے ۔ہاں اگرمیں تم لوگوں کا غلام ہوتااورپھر تم مجھ کو مجبور کرتے توکوئی بات ہوتی ۔اوراگرمیں یہ جانتاکہ تم لوگوں کو اپنی چادر دے دینے سے تم سے پیچھاچھوٹ جائے گا تومیں اپنی چادر بھی تمہیں دے دیتا۔
اس قول کے سطور اوربین السطور دونون میں غورکیجئے کہ ان کی کس درجہ کی بے چارگی اورپریشانی کا اظہار ہورہاہے لہذااسی طرح اگرکبھی انہوں نے اہل حدیث سے خداکی پناہ چاہ لی تواس میں تعجب کی بات کیاہے۔بلکہ یہ توعین فطرت انسانی کے مطابق ہے۔

ہوسکتاہے کہ کوئی صاحب کہنے لگیں کہ آپ نے جوقیاس کیاہے وہ درست نہیں ہے میراجواب ہوگاکہ کیامیرایہ قیاس کفایت اللہ صاحب کے قیاس سے بھی گیاگزراہے؟۔اوریہ سند جوہم نے ذکر کی ہے کفایت اللہ صاحب کے بیان کی گئی سند سے بھی گئی گزری ہے؟

کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
مزید غور کرنے کے بات یہ ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کے ایک خلاف حدیث فتوی پر ابوحنیفہ کو یہودی کہہ دیا تو امام ابوبکربن ابی شیبہ نے تو ابوحنیفہ کے بہت سارے ایسے فتاوے اپنی کتاب مصنف میں نقل کئے جو حدیث کے خلاف تھے ، اس لئے ان سے بھی اس طرح کا تبصرہ صادر ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
یہی بات ہم بھی کہناچاہیں گے کہ فضیل بن عیاض جواہل حدیث سے اس درجہ بیزار تھے کہ ان کو دفع کرنے کیلئے اپنی چادر تک دینے کو تیار تھے(فضیل بن عیاض صرف حلال آمدنی پر اکتفاء کرتے تھے اورسلاطین اورغلط قسم کے ہدایاوتحائف سے پرہیز کرتے تھے لہذا ان کے یہاں فقروفاقہ اورتنگدستی ہی رہتی تھی،اسی سے اپنی چادردے دینے سے ان کی فراخ دلی اورایثار کا اندازہ ہوتاہے) لہذا جب مزید کسی وقت اہل حدیثوں نے ان کو حدیث بیان کرنے کیلئے زوردیاہوگاتوانہوں نے یہ تبصرہ کردیاہوگا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس جراح کا علمی جواب دیں
جو جوابات دیے گے ہیں وہ سب کے سب اضغاث احلام ہیں
جواب کا انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس جراح کا علمی جواب دیں
جو جوابات دیے گے ہیں وہ سب کے سب اضغاث احلام ہیں
جواب کا انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے گا
محترم محمد یوسف بھائی میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ساری بحث کو تفصیل سے پڑھوں البتہ پہلی پوسٹ کو کچھ پڑھا ہے آپ کی بات اور پہلی پوسٹ کو دیکھ کر کچھ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ مندرجہ ذیل میں سے کون سی بات کہنا چاہتے ہیں ایک یا زیادہ کا تعین کر دیں تاکہ اس پس منظر میں اگر میں باقی پوسٹیں پڑھنا ضروری سمجھوں تو پڑھوں کیونکہ انتہائی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اتنی لمبی پوسٹ پڑھنے کی جب تک افادیت کا پتا نہیں چلے گا وقت ضائع نہیں کر سکتا
1-اہل حدیث اور اہل الرائے کے دو گروہوں کا سلف صالحین کے دور میں کوئی وجود یا کوئی اختلاف نہیں تھا
2-وجود تو تھا مگر اہل حدیث سے مراد موجودہ دور کے اہل حدیث نہیں تھا البتہ اہل الرائے سے مراد موجودہ دور کے حنفی مراد تھا
3-وجود تو تھا مگر نہ ہی اہل حدیث سے مراد موجودہ دور کے اہل حدیث تھا اور نہ ہی اہل الرائے سے مراد موجودہ دور کے حنفی تھا بلکہ دونوں کسی اور نظریے کی وجہ سے معروف تھے
4-ہمارا مقصد اہل حدیث کے لفظ پر اعتراض کرنا نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں پر جس طرح اعتراض آپ کرتے ہیں وہی اعتراض پھر آپکے بزرگوں پر بھی آتے ہیں
5-کوئی اور ہی مقصد ہے تو وہ مختصرا لکھ دیں
اللہ اس تعین کرنے پر بہترین جزا دے امین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس جراح کا علمی جواب دیں
جو جوابات دیے گے ہیں وہ سب کے سب اضغاث احلام ہیں
جواب کا انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے گا
یہاں کوئی یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ ’’ جیساچہرہ ویسا تھپڑ ‘‘ ۔
جوابات کو غیر علمی یا ’’ اضغاث احلام ‘‘ کہنے کی بجائے اگر یہی قدغن سوالات یا اعتراضات پر لگا دیا جائے تو ؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس جراح کا علمی جواب دیں
جو جوابات دیے گے ہیں وہ سب کے سب اضغاث احلام ہیں
جواب کا انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے گا
ایک مقلد علمی جواب کا کیا اچار ڈالے گا؟؟؟
ایک مقلد کی قسمت میں صرف جہالت ہے اور اسکا اولین کام اپنے امام کی اندھی پیروی ہے۔ اسے علم اور علمی کاموں سے کیا سروکار؟
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
ایک مقلد علمی جواب کا کیا اچار ڈالے گا؟؟؟
ایک مقلد کی قسمت میں صرف جہالت ہے اور اسکا اولین کام اپنے امام کی اندھی پیروی ہے۔ اسے علم اور علمی کاموں سے کیا سروکار؟
مطلب آپ کے پاس علمی جواب نہیں ہے
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
یہاں کوئی یہ بھی تو کہہ سکتا ہے کہ ’’ جیساچہرہ ویسا تھپڑ ‘‘ ۔
جوابات کو غیر علمی یا ’’ اضغاث احلام ‘‘ کہنے کی بجائے اگر یہی قدغن سوالات یا اعتراضات پر لگا دیا جائے تو ؟
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
 
Top