کفایت اللہ صاحب نے ایک روایت اعمش کی اہل حدیث کے فضائل کے باب میں پیش کی تھی اوراس کو دلیل بنایاتھا۔ اعمش کے اس قول کے بارے میں لکھاتھا کہ
اسنادہ صحیح
کفایت اللہ صاحب کے اسی اسنادہ صحیح کا جائزہ لیاگیاہے
اس کے ایک راوی عبیدبن ہشام ابونعیم الحلبی ہیں۔ دیکھئے اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کیاکہتے ہیں۔
امام ابودائود کہتے ہیں ثقہ تھے لیکن آخر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتوانہوں نے تلقین کے ذریعہ ایسی احادیث بیان کرنی شروع کردیں جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
امام نسائی کہتے ہیں لیس بالقوی،
ابوحاتم کہتے ہیں صدوق
ابواحمدحاکم کہتے ہیں وہ ایسی روایتیں کرتاہے جن کی متابعت نہیں ہوتی۔
حافظ ذہبی جونقد رجال میں استقراء تام کے مالک ہیں وہ وہ الکاشف میں کہتے ہیں لیس بذاک
حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں سچے ہیں لیکن آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتووہ تلقین کو قبول کرلیاکرتے تھے۔
الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط کے محقق کہتے ہیں
وعبيد بن هشام صدوق له مناكير وينفرد بما لا يتابع عليه لم يرو له غير أبي داود من أصحاب الكتب الستة تغير في آخر عمره واختلط حتى لقن ما لا أصل له ولكنه حتى قبل التغير والاختلاط في حديثه ضعف ونكاره
عبیدبن ہشام صدوق ہیں ان کی منکرروایتیں ہیں اورایسی روایتیں کرتے ہیں جس میں وہ تنہاہوتے ہیں اوران کی متابعت نہیں ہوتی کتب ستہ میں سے ان سے صرف ابودائود نے روایت لی ہیں۔ آخر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتھا اوروہ اختلاط کے شکار ہوکر بے اصل روایتوں کو تلقین کے ذریعہ قبول کرلیتے تھے لیکن اختلاط اورحافظہ بگڑنے سے پہلے بھی ان کی روایتوں میں ضعف اورنکارت تھی۔
اوریہ بھی بات کسی دلیل سے واضح نہیں ہے کہ ان سے روایت لینے والے علی بن احمد الابار نے ان کے حافظہ بگڑنے اوراختلاط سے قبل روایت لی تھی ۔
الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط1/237،الکواکب النیرات1/487،میزان الاعتدال3/24،
اسی روایت کے ایک دوسرے راوی
عطاء بن مسلم الحلبی
ہیں۔ان کی اگرچہ بعض ائمہ نے توثیق بھی کی ہے لیکن امام احمد بن حنبل نے ان کو مضطرب الحدیث بتایاہے۔ موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل3/6
حافظ ذہبی ان کے بارے میں الکاشف میں مختصرااپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں
لیس بذاک یہ جرح کا کلمہ ہے۔
اورحافظ ابن حجر تقریب میں ان پر اپنی فیصلہ کن رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
صدوق ، يخطىء كثيرا تقریب
ایسی راوی کی سند سے آنے والی روایتوں میں کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں اسنادہ صحیح۔ اس سے ہی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان کے اسنادہ صحیح کا کیامرتبہ اورکیامعیار ہے۔اگرکسی طرح کوشش کرکے اس روایت کو آگے بڑھایاجائے توپھر اس کو حسن لغیرہ ہی تسلیم کیاجاسکتاہے بشرطیکہ اس کی موید روایات مل جائیں ۔اورحسن لغیرہ کفایت اللہ صاحب کے نزدیک حجت نہیں ہے اورحسن لغیرہ ان کے نزدیک ضعیف ہے اورضعیف سند سے منقول روایت ان کے نزدیک مردود ہوتی ہے لہذا یہ روایت بھی ان کے نزدیک غیرثابت شدہ رہی۔
ایک طرفہ تماشاملاحظہ کریں
اس کتاب شرف اصحاب الحدیث کی تحقیق ایک غیرمقلد عمروعبدالمنعم سلیم نے کی ہے۔ یہ وہی غیرمقلدہیں جن کی ایک دوسرے غیرمقلد ابراہیم ابوالعینین سے حسن لغیرہ کے مسئلہ پر بحث نے آپسی رنجش کی شکل اختیار کرلی ہے اوردونوں کے بقول دونوں ایک دوسرے پر تہمت تراشی کررہے ہیں۔ہمیں ان کے آپسی جھگڑوں سے یوں بھی کوئی مطلب نہیں کہ بقول غیرمقلدیں حضرات جب ان کے پاس لڑنے کو کوئی دوسرے نہیں ملتے تویہ آپس میں خود ہی شروع ہوجاتے ہیں۔
عمروبن عبدالمنعم سلیم اس روایت کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
اسنادہ حسن،
ابونعیم الحلبی ھوعبیدبن ہشام ،صدوق الاانہ تغیر فی آخرعمرہ فلقن مالیس من حدثیہ فاطلق جماعۃ فی حقہ التضعیف
قلت :لاباس بخبرہ ھذا ،فانہ من المقطوعات وعطاء بن مسلم الحلبی فیہ ضعف ولایضرفی ھذا الخبر ،فانہ راویہ
شرف اصحاب الحدیث ص220
ہم عمروبن عبدالمنعم کی اس بات کو بغیر کسی تبصرہ کے چھوڑدیتے ہیں قارئین خود اس پر غورکرلیں۔بالخصوص دوسری لائن کی عبارت پر غورکریں۔
اسنادہ صحیح
کفایت اللہ صاحب کے اسی اسنادہ صحیح کا جائزہ لیاگیاہے
کفایت اللہ صاحب نے اس کے بارے میں بھی لکھاہے کہ اسنادہ صحیح۔ شاید اسنادہ صحیح ان کے نزدیک موم کی ناک ہے جب چاہا جدھرچاہا گھمادیا ۔ اب ہم ذرا اس سند پر بحث کرکے اس کی پول کھول دیتے ہیں تاکہ کفایت اللہ صاحب کی اسنادہ صحیح کی تقلید کرنے والے ذرا اپنے عقل وفہم اورتحقیق سے کام لیں کیونکہ تحقیق کا شور مچانے والے تویہاں بہت ہیں لیکن ایسے شورمچانے والے ہی زیادہ اندر سے اندھی تقلید کے قائل اوراس پر عمل پیراہوتے ہیں۔خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہانے کہا:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ ح وَأَخْبَرَنَا أَنَّ الْفَضْلَ أَيْضًا، وَالْحَسَنَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، قَالاَ أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ، قَالَ أَبُو سَهْلٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ دَعْلَجٌ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَبَّارِ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَلَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ مُسْلِمٍ الْحَلَبِيُّ، قَالَ: كَانَ الْأَعْمَشُ إِذَا غَضِبَ عَلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ: " لَا أُحَدِّثُكُمْ وَلَا كَرَامَةَ، وَلَا تَسْتَأْهِلُونَهُ، وَلَا يُرَى عَلَيْكُمْ أَثَرُهُ. فَلَا يَزَالُونَ بِهِ حَتَّى يَرْضَى، فَيَقُولُ: «نَعَمْ وَكَرَامَةٌ، وَكَمْ أَنْتُمْ فِي النَّاسِ وَاللَّهِ لَأَنْتُمْ أَعَزُّ مِنَ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ» [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 135 واسنادہ صحیح]۔
یعنی عطاء بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اعمش جب طلاب حدیث پر غصہ ہوتے تو کہتے اب میں تم سے حدیث بیان ہی نہیں کروں گا تمہاری کوئی عزت نہیں ، تم اس کے اہل نہیں اور نہ ہی تم پر اس کا کوئی اثر دکھائی پڑتا ہے ، یہ صورت حال دیکھ کر ان کے تلامذہ ان سے اصرار کرتے رہتے یہاں تک کہ انہیں راضی کرلیتے ، اس کے بعد امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے : ’’ ہاں ! تم قابل اکرام ہو ، تم لوگوں میں ہو ہی کتنے ، اللہ کی قسم تم لوگ سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز و قیمتی ہو۔
امام اعمش رحمہ اللہ کے اس دوسرے قول سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور وہ یہ کہ جب امام اعمش غصہ ہوتے تو اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے اور سخت الفاظ استعمال کرتے لیکن جب غصہ ختم ہوتا تو اپنے شاگردوں کا اکرام کرتے اور ان کی بہت تعریف کرتے حتی کہ انہیں سرخ سونے سے بھی زیادہ عزیز بتلاتے ، والحمدللہ۔
اس کے ایک راوی عبیدبن ہشام ابونعیم الحلبی ہیں۔ دیکھئے اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کیاکہتے ہیں۔
امام ابودائود کہتے ہیں ثقہ تھے لیکن آخر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتوانہوں نے تلقین کے ذریعہ ایسی احادیث بیان کرنی شروع کردیں جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
امام نسائی کہتے ہیں لیس بالقوی،
ابوحاتم کہتے ہیں صدوق
ابواحمدحاکم کہتے ہیں وہ ایسی روایتیں کرتاہے جن کی متابعت نہیں ہوتی۔
حافظ ذہبی جونقد رجال میں استقراء تام کے مالک ہیں وہ وہ الکاشف میں کہتے ہیں لیس بذاک
حافظ ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں سچے ہیں لیکن آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتووہ تلقین کو قبول کرلیاکرتے تھے۔
الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط کے محقق کہتے ہیں
وعبيد بن هشام صدوق له مناكير وينفرد بما لا يتابع عليه لم يرو له غير أبي داود من أصحاب الكتب الستة تغير في آخر عمره واختلط حتى لقن ما لا أصل له ولكنه حتى قبل التغير والاختلاط في حديثه ضعف ونكاره
عبیدبن ہشام صدوق ہیں ان کی منکرروایتیں ہیں اورایسی روایتیں کرتے ہیں جس میں وہ تنہاہوتے ہیں اوران کی متابعت نہیں ہوتی کتب ستہ میں سے ان سے صرف ابودائود نے روایت لی ہیں۔ آخر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیاتھا اوروہ اختلاط کے شکار ہوکر بے اصل روایتوں کو تلقین کے ذریعہ قبول کرلیتے تھے لیکن اختلاط اورحافظہ بگڑنے سے پہلے بھی ان کی روایتوں میں ضعف اورنکارت تھی۔
اوریہ بھی بات کسی دلیل سے واضح نہیں ہے کہ ان سے روایت لینے والے علی بن احمد الابار نے ان کے حافظہ بگڑنے اوراختلاط سے قبل روایت لی تھی ۔
الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط1/237،الکواکب النیرات1/487،میزان الاعتدال3/24،
اسی روایت کے ایک دوسرے راوی
عطاء بن مسلم الحلبی
ہیں۔ان کی اگرچہ بعض ائمہ نے توثیق بھی کی ہے لیکن امام احمد بن حنبل نے ان کو مضطرب الحدیث بتایاہے۔ موسوعۃ اقوال الامام احمد بن حنبل3/6
حافظ ذہبی ان کے بارے میں الکاشف میں مختصرااپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں
لیس بذاک یہ جرح کا کلمہ ہے۔
اورحافظ ابن حجر تقریب میں ان پر اپنی فیصلہ کن رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
صدوق ، يخطىء كثيرا تقریب
ایسی راوی کی سند سے آنے والی روایتوں میں کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں اسنادہ صحیح۔ اس سے ہی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان کے اسنادہ صحیح کا کیامرتبہ اورکیامعیار ہے۔اگرکسی طرح کوشش کرکے اس روایت کو آگے بڑھایاجائے توپھر اس کو حسن لغیرہ ہی تسلیم کیاجاسکتاہے بشرطیکہ اس کی موید روایات مل جائیں ۔اورحسن لغیرہ کفایت اللہ صاحب کے نزدیک حجت نہیں ہے اورحسن لغیرہ ان کے نزدیک ضعیف ہے اورضعیف سند سے منقول روایت ان کے نزدیک مردود ہوتی ہے لہذا یہ روایت بھی ان کے نزدیک غیرثابت شدہ رہی۔
ایک طرفہ تماشاملاحظہ کریں
اس کتاب شرف اصحاب الحدیث کی تحقیق ایک غیرمقلد عمروعبدالمنعم سلیم نے کی ہے۔ یہ وہی غیرمقلدہیں جن کی ایک دوسرے غیرمقلد ابراہیم ابوالعینین سے حسن لغیرہ کے مسئلہ پر بحث نے آپسی رنجش کی شکل اختیار کرلی ہے اوردونوں کے بقول دونوں ایک دوسرے پر تہمت تراشی کررہے ہیں۔ہمیں ان کے آپسی جھگڑوں سے یوں بھی کوئی مطلب نہیں کہ بقول غیرمقلدیں حضرات جب ان کے پاس لڑنے کو کوئی دوسرے نہیں ملتے تویہ آپس میں خود ہی شروع ہوجاتے ہیں۔
عمروبن عبدالمنعم سلیم اس روایت کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
اسنادہ حسن،
ابونعیم الحلبی ھوعبیدبن ہشام ،صدوق الاانہ تغیر فی آخرعمرہ فلقن مالیس من حدثیہ فاطلق جماعۃ فی حقہ التضعیف
قلت :لاباس بخبرہ ھذا ،فانہ من المقطوعات وعطاء بن مسلم الحلبی فیہ ضعف ولایضرفی ھذا الخبر ،فانہ راویہ
شرف اصحاب الحدیث ص220
ہم عمروبن عبدالمنعم کی اس بات کو بغیر کسی تبصرہ کے چھوڑدیتے ہیں قارئین خود اس پر غورکرلیں۔بالخصوص دوسری لائن کی عبارت پر غورکریں۔