کفایت اللہ صاحب نے یہ عنوان قائم کیاہے اوراس کے بعد جوکچھ لکھاہے اسکو دیکھ کرعربی شاعر کایہ شعر یقیناتازہ ہوگیاہےامام مالک رحمہ اللہ کا قول : ابوحنیفہ کی مدح یا مذمت؟
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم
ابن ابی حاتم نے اس موقع پر اسی فہم سقیم کا مظاہرہ کیاہے۔ویسے بھی ان کے والد کے بارے میں ابن قیم کہہ چکے ہیں وہ "نرے محدث"ہیں فقیہہ نہیں ہیں۔وآفتہ من الفہم السقیم
وهكذا الناس بعده قسمان.
(قسم حفاظ) معتنون بالضبط والحفظ والأداء كما سمعوا.
ولا يستنبطون ولا يستخرجون كنوز ما حفظوه.
وقسم معتنون بالاستنباط واستخراج الأحكام من النصوص، والتفقه فيها.
فالأول كأبي زرعة وأبي حاتم وابن دارة.
وقبلهم كبندار ومحمد بن بشار وعمرو الناقد وعبد الرزاق، وقبلهم كمحمد بن جعفر غندر وسعيد بن أبي عروية وغيرهم من أهل الحفظ والاتقان والضبط لما سمعوه، من غير استنباط وتصرف وأستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص.الوابل الصیب من الکلم الطیب(1/59)
اوریہی حالت نرے محدث ہونے کی ان کے بیٹے ابن ابی حاتم کی بھی ہے۔اوریہی یہی وجہ ہے کہ ان کویہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ یہ کلام مدح میں ہے یاذم میں ہے۔
اورجہاں کسی مسلکی بھائی دائودارشد کا ذکرکیاہے تواس کی بات اس قابل ہی نہیں کہ اس کی تردید میں وقت ضائع کیاجائے۔ ویسے کفایت اللہ صاحب سے ماقبل میں گزارش کی جاچکی ہے کہ اس قسم کے علمی مباحث میں خواہ مخواہ اس قسم کے لوگوں کے حوالہ جات نہ دیاکریں ۔لیکن شاید ان کو حوالہ جات بڑھانے کا شوق ہے۔
ویسے اس حدیث کو ابن ابی حاتم کتنے واسطوں سے نقل کرتے ہیں ذرااس کو دیکھتے چلیں تاکہ آپ پرکفایت اللہ صاحب کے اس جملہ کی یہ حقیقت کھل سکے۔
چنانچہ خود اس قول کے نقل کرنے والے ابن ابی حاتم رحمہ اللہ امام مالک کے اس قول کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واسطوں پر غورکریں۔
ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ مَالِكًا(آداب الشافعی ومناقبہ 162)
- 1ابی ابومحمد کے والد ابوحاتم
- 2ابن سریج
- 3امام شافعی
تین واسطوں سے نقل کرنے والے کے بارے میں کس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس قول کا نقل کرنے والاہی اس کو زیادہ بہترطورپر سمجھ سکتاہے دوسرے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرامام مالک خود بیان کردیتے کہ ان کی مراد مدح ہے یاذم ہے توان کی بات اس باب میں صاحب قول ہونے کی وجہ سے قابل قبول تھی امام شافعی بھی اگرخود وضاحت کردیتے توبھی یہ بات کسی حد تک قاقبل قبول تھی کیونکہ انہوں نے صاحب قول سے سناتھا اورکس حال میں کس قرینہ میں سناتھااس کا ان کو پتہ تھااس لئے وہ مراد سے زیادہ واقف ہوسکتے تھے لیکن تین واسطوں سے نقل کرنے والے شخص کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ وہ قائل کی مراد کو زیادہ جانتاہے ۔بس یہ صرف اس کا ایک اندازہ ہے جو کہ دیگر دلائل کی روشنی میں غلط ہے۔
اس جملہ پر غورکیجئے پہلے ہم دائودارشد کی ہی خبرلے لیں۔موصوف لکھتے ہیں(جیساکہ کفایت اللہ صاحب نے نقل کیاہے۔
امام مالک کے اس جملہ سے فقاہت کشید کرنا بجائے خود حماقت ہے۔ امام مالک تواس جملہ سے فقاہت نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کا زوراستدلال بتاناچاہ رہے ہیں۔ یعنی ان کااستدلال اس غضب کاہوتاہے کہ سامنے والا ان کی باتوں کاقائل ہوجاتاہے چاہے ان کا دعویٰ کتناہی عجیب وغریب کیوں نہ ہو لیکن ان کاطرزاستدلال اورزورخطابت سامنے والے کو قائل کراکے ہی دم لیتاہے۔ اگروہ لکڑی کے ستون کو سوناکا ثابت کرناچاہیں توان کیلئے یہ بھی مشکل کام نہیں ہے۔’’اے جی لکڑی وپتھرکوسونا ثابت کرنا فقاہت نہیں ضد اور ہٹ دھرمی ہے ، اور ضد اورہٹ دھرمی قابل تعریف نہیں قابل نفرت ہے، اور مگرآفریں مقلد انوار صاحب پر وہ اسے بطور مدح ومنقبت پیش کرتے ہیں‘‘ [حدیث اوراہل تقلید :ص 75]۔
یہ ہے اس جملہ کا مفہوم لیکن فقہ اورفقہاء سے دشمنی کی وجہ سے یہ نوبت آتی ہی ہے کہ آدمی جملہ کا صحیح مفہوم بھی سمجھ نہیں پاتا۔اورمدح بھی اس کو ذم معلوم ہونے لگتاہے۔
ابن ابی حاتم نے اس کو ضد اورہٹ دھرمی سمجھاہے لیکن یہ ان کے سمجھنے کی غلطی ہے اوراہل الرائے سے ان کی نفرت نے ان کو موقع ہی نہیں دیاکہ وہ اس جملہ کا درست مفہوم معلوم کریں۔ورنہ اگر وہ اس جملہ کی ساخت اوربنیاد پر غورکرتے تومعلوم ہوتاکہ یہ جملہ تعریف میں ہے اورضد وہٹ دھرمی اوراپنی رائے سے رجوع وغیرہ کا اس میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اس میں اگرکچھ ذکر ہے تو وہ صرف امام ابوحنیفہ کا طرزاستدلال اورزورخطابت۔اوریہ بات حدیث میں بھی آئی ہے کہ ان من البیان لسحرا بعض بیان جادو کے مماثل ہوتاہے یعنی کچھ افراد کا طرزگفتگو انداز استدلال بات کرنے کا رنگ اورڈھنگ اس طرح کا ہوتاہے کہ وہ سامنے والے کو فوراًقائل کرلیتاہے جس کو حدیث میں جادو سے تعبیر کیاگیاہے اسی کو امام مالک نے لکڑی کے ستون کو سونے سے ثابت کرنے سے تعبیر کیاہے۔ طرز تعبیر حدیث شریف اورامام مالک کے قول میں الگ ضرور ہے لیکن بنیاد ایک ہی ہے۔
ورنہ اگربات وہی ہوتی کہ اس میں غلطی پر اصرار مراد ہے توامام مالک کا جملہ یہ ہوتاکہ وہ اس دیوارکو سونے کی دیوار کہتے اوراس پر اڑجاتے لیکن امام مالک کا جملہ ہے کہ وہ اس کو ثابت کردیتے لقام بحجتہ ۔یہ آخری جملہ خود بتارہاہے کہ بات وہ نہیں جوابن ابی حاتم ہمیں سمجھاناچاہ رہے ہیں بلکہ بات وہ ہے جس کی جانب نفرت اورعداوت ان کی نگاہ جانے ہی نہیں دیتی۔ یعنی یہ تعریف کا جملہ ہے نہ کہ ذم کا۔
ہوسکتاہے کہ اب کفایت اللہ صاحب کہیں کہ ابن ابی حاتم عربی ہیں محدث ہیں ان کو عربی جملہ کی ساخت اورمفہوم کا زیادہ پتہ ہوگا۔ تواس تعلق سےبھی ان کی غلط فہمی ہم دورکئے دیتے ہیں اوربتائے دیتے ہیں کہ مجھ سے ماقبل دیگر عربی محدثین نے اس سے کیاسمجھاہے ۔
ابن نجارحافظ حدیث ہیں اورانہوں نے خطیب بغدادی کے تاریخ بغداد پر ذیل بھی لکھاہے اوراس کے ساتھ خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جوکچھ ذکرکیاہے اس کا پرزور دفاع بھی علیحدہ کتاب لکھ کر کیاہے جو ذیل کے ساتھ ہی شائع ہواہے۔اللہ کی شان ہے کہ وہ اسی جماعت میں ایک آدمی کو امام ابوحنیفہ کی حمایت اوردفاع پر کھڑاکردیتاہے جس جماعت کا ایک فرد امام ابوحنیفہ سے پرخاش رکھ کر ان کی سیرت کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتاہے۔)
ابن نجار اس تعلق سے کہ یہ قول امام مالک کا امام ابوحنیفہ کے حق میں مدح ہے یاذم۔اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
لأن مالكا رضى الله عنه كان يثنى على أبى حنيفة وهو ما رواه الخطيب. قال: أنبأنا البرقاني أنبأنا أبو العباس بن حمدان لفظا حدثنا محمد بن أيوب حدثنا أَحْمَد بن الصباح قال سمعت الشافعي مُحَمَّد بن إدريس قال قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال نعم رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته. وأما قول أبى محمد إن مالكا عنى أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له فمن أين لأبى محمد هذا؟ وهذا القول من مالك في حق أبى حنيفة أقرب إلى المدح منه إلى الذم وأظهر.
تاریخ بغداد وذیولہ22/70
اس لئے کہ امام مالک امام ابوحنیفہ کی تعریف کرتے ہوئے اوران سے یہ قول مروی ہے کہ مالک بن انس سے کہاگیاکہ کیاآپ نے ابوحنیفہ کو دیکھاہے توفرمایاہاں وہ ایسے شخص ہیں کہ اگر تم سے اس دیوار کے بارے میں بحث کریں کہ یہ سونے کا ہے تواس کو اپنے دلائل سے ثابت کردیں گے۔اورجہاں تک ابومحمد کے قول کا تعلق ہے یعنی ابن ابی حاتم کہ مالک نے اس سے یہ مرادلیاکہ وہ خطاء پر اصرارکرتے تھے اور درست کی طرف رجوع نہیں کرتے ہوئے جب کہ وہ واضح ہوجائے "تویہ بات ابومحمد کو کہاں سے معلوم ہوئی اورمالک کا یہ قول ابوحنیفہ کے حق میں مدح کے حق میں ذم سے زیادہ قریب اورظاہر ہے۔
دوسری جانب خطیب اورانہی شاکلہ اورافتادطبیعت والے کفایت اللہ صاحب وغیرہ حضرات کا ایک طرفہ تماشاملاحظہ ہو۔ایک جانب تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی بات کو بار بار بدلنے والے اوراسی وجہ سے فلاں فلاں افراد نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی ۔دیکھئے کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ اوراقتباس
یہ آپ نے پوراپڑھ لیاذرا ہمت کرکے اس پوسٹ کوبھی پڑھ لیں جس سے میں نے یہ نقل کیاہے۔امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 رقم 316 ،قال المحقق القحطاني: اسنادہ صحیح وھو کذالک]۔
امام اور فقیہ حفص بن غياث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کی مجلس میں جایا کرتا تھا تو میں نے انہیں سنا وہ ایک ہی دن میں ایک ہی مسئلہ میں پانچ اقوال پر فتوی دیتے تھے لہٰذا جب میں نے یہ چیز دیکھی تو اسے چھوڑ دیا اوراورحدیث کی طرف متوجہ ہوگیا۔
یادرہے کہ امام وفقیہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ کو مقلدین چہل رکنی مجلس تدوین کا رکن بھی بتلاتے ہیں۔
غور کیا جائے کہ امام وفقیہ حفص بن غياث رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہ ابوحنیفہ کو ایک مسئلہ میں مختلف فتاوی دینے والا بتلایا بلکہ ابوحنیفہ کی اسی مصیبت کے باعث ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جزاہ اللہ خیرا۔
ابوحنیفہ کی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی امام نے ابوحنیفہ کو نہیں ٹھکرایا بلکہ ایک اورامام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری واسطی نے بھی ابوحنیفہ کو الوداع کہہ دیا:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنبأنا القاضي أبو بكر احمد بن الحسن الحرشي أخبرنا أبو محمد حاجب بن احمد الطوسي حدثنا عبد الرحيم بن منيب قال قال عفان سمعت أبا عوانة قال اختلفت إلى أبي حنيفة حتى مهرت في كلامه ثم خرجت حاجا فلما قدمت أتيت مجلسه فجعل أصحابه يسألوني عن مسائل وكنت عرفتها وخالفوني فيها فقلت سمعت من أبي حنيفة على ما قلت فلما خرج سألته عنها فإذا هو قد رجع عنها فقال رأيت هذا أحسن منه قلت كل دين يتحول عنه فلا حاجة لي فيه فنفضت ثيابي ثم لم أعد إليه[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 401 واسنادہ حسن]۔
امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری فرماتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس آتا جاتا تھا حتی کہ ان کی باتوں کا ماہر ہوگیا پھر جب میں حج کرنے گیا توان کی مجلس میں حاضرہوا ، پھر ان کے اصحاب مجھ سے ان مسائل کے بارے میں پوچھنے لگے جن کو میں نے ابوحنیفہ سے سیکھاتھا ، پھر ان لوگوں نے اس سے مختلف باتیں بتلائیں ، میں نے کہا: میں نے تو ابوحنیفہ سے ایسے ہی سنا ہے جیسے بتلایا ، پھر جب ابوحنیفہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا تو وہ ان سے رجوع کرچکے تھے اورفرمانے لگے : ان نئے مسائل کو میں نے پرانے مسائل سے بہتر پایا ۔ امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: جس مذہب میں اس طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ، پھر میں نے بوریا بستر باندھا اور دوبارہ کبھی پلٹ کر ابوحنیفہ کی طرف نہیں آیا۔
اورلطف تو یہ ہے کہ خود ابوحنیفہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے چنانچہ:
عباس دوری رحمہ اللہ نے کہا
قال أبو نعيم وسمعت زفر يقول كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن فكنا نكتب عنه قال زفر فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف ويحك يا يعقوب لا تكتب كل ما تسمع مني فإني قد أرى الرأي اليوم وأتركه غدا وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 3/ 504 واسنادہ صحیح]۔
امام زفر کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ نے ایک دن ابویوسف سے کہا: اے یعقوب تیرا ستیاناس ہو تو جو کچھ مجھ سے سنتاہے وہ سب مت لکھا کر کیونکہ آج میں کوئی رائے قائم کرتاہوں اور کل اسے ترک کردیتاہوں اور کل کوئی رائے قائم کرتاہوں اورپرسوں اسے ترک کردیتاہوں۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/مکالمہ-197/کیا-شیخ-الاسلام-ابن-تیمہ-رحمہ-اللہ-کے-مزاج-میں-شدت-تھی-9011/index13.html#post68975
اس پورے کا خلاصہ یہی ہے کہ امام ابوحنیفہ اپنی بات کو بار بار بدلنے والے تھے
اوریہاں اس کے برعکس دوہرایاجارہاہے کہ امام ابوحنیفہ ضدی طبعیت کے تھے اپنی بات پر اصرار کرتے تھے اورہٹ دھرم تھے نعوذباللہ
کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اورجھوٹے کی یادداشت نہیں ہوتی۔ اوریہ سب سے بہترین مثال ہے کہ جھوٹوں کی یادداشت نہیں ہوتی ۔فارسی مثل ہے دروغ گورا حافظہ نہ باشد ۔جہاں ماضی کے ایک مراسلے میں امام ابوحنیفہ کو فوری فوری رائے بدلنے والابتایاگیاتھا۔اب انہی کو ضدی طبعیت کا بتایاجارہاہے۔
اس بات کو ابن نجار نے بھی بیان کیاہے ۔چونکہ خطیب کی طرح کفایت اللہ صاحب بھی کبھی یہ اورکبھی وہ بیان کرتے ہیں لہذا ہم ابن نجار کے الفاظ کو اولاخطیب اورپھر کفایت اللہ صاحب کی شان میں نقل کرتے ہیں۔
فانظر إلى الخطيب كيف يروى الشيء وضده ويجعله عيبا والشيء وضده لا يكونان عيبا، لأنه قال في الحكاية التي ذكر فيها أبا حنيفة: وإن مالكا قال ما ظنكم برجل لو قال هذه السارية من ذهب لقام بحجته، أى لجعلها من ذهب وهي من خشب أو حجارة. ثم قال قال أبو محمد- يعني أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له- ففي هذه الحكاية أخبر أنه لا يرجع وجعله عيبا، وفي هذه أخبر إنه يرجع وجعله عيبا، فهذا أيدك الله يعلم منه أنه انما أراد التشنيع ولم يرد التثبيت ولم يكن له من المعرفة ما يفرق به بين الجيد والرديء، ولا من العلم ما يعرف به الخطأ من الصواب. (تاریخ بغداد وذیولہ22/73)
خطیب کو دیکھو کیسے ایک ہی امر اوراس کی ضد کو نقل کرتاہے اورکسی شے اوراس کی ضد دونوں ہی عیب نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ اس نے ماقبل میں نقل کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاتھاکہ مالک نے کہاکہ تمہاراایسے شخص کے بارے میں کیاخیال جو اس دیوار کو سونے کا ثابت کرناچاہے توثابت کردے پھر خطیب نے کہاکہ ابومحمد نے کہااس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطاء پر ثابت ہرتے تھے اورحجت بگھاڑتے تھے اوردرست کی جانب رجوع نہیں کرتے تھے جب وہ واضح ہوجاتاتھا۔ تواس روایت میں خطیب نے بتایاکہ وہ اپنے قول سے رجوع نہیں کرتے تھے اوراس کو عیب ثابت کیااوراس زیر بحث روایت میں خطیب بتارہاہے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کرلیتے تھے اوراس کو عیب ثابت کررہاہے تویہ (اللہ تمہاری مدد کرے) واضح کررہاہے کہ خطیب نے صرف امام ابوحنیفہ پر تشنیع کا ارادہ کررکھاہے اس کا مقصد محض روایات کی نقل اورثبیت نہیں ہے اورخطیب کوعمدہ اورگھٹیا کے درمیان فرق ہی نہیں معلوم اورنہ ہی یہ اس کا علم ہے کہ کس ذریعہ سے درست اورخطاء کو جاناجائے۔
خطیب کی الجھن اورتضادبیانی
ایک جانب توخطیب امام مالک کے اسی جملہ کو ذکر ماقالہ العلماء فی ذم رایہ 15/544میں نقل کرتے ہیں اوراس پر ابن ابی حاتم کا حاشیہ چڑھاتے ہیں کہ اس سے کیامراد ہے۔سمعت الشافعي، يقول: سمعت مالك بن أنس، وقيل له: تعرف أبا حنيفة؟ فقال: نعم، ما ظنكم برجل لو قال: هذه السارية من ذهب لقام دونها حتى يجعلها من ذهب، وهي من خشب أو حجارة؟ قال أَبُو مُحَمَّد: يعني: أنه كان يثبت على الخطأ، ويحتج دونه، ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له
دوسری جانب خطیب امام مالک کے اسی جملہ کو امام ابوحنیفہ کی فقہ اورمناقب وفضائل کے باب میں بیان کرتے ہیں۔
ما قيل في فقه أبي حنيفة
أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو العباس بن حمدان لفظا، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أيوب، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن الصباح، قال: سمعت الشافعي مُحَمَّد بن إدريس، قال: قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته.
تاریخ بغداد15/459
ایسالگتاہے کہ اس مسئلہ میں خطیب خود ہی کفنیوژن کے شکار ہیں اوران کو معلوم نہیں ہورہاہے کہ اسجملہ کو کس خانہ میں رکھیں۔
ہم توصرف اتنی ہی قیاس آرائی کرسکتے ہیں کہ انہوں نے اولااس جملہ کی بنیادی ساخت کو دیکھتے ہوئے کہ یہ تعریف کا کلمہ ہے اس کو تعریف کے خانہ میں رکھاہوگا۔ بعد ازاں جب اس کو اسی جملہ کے تعلق سے ابن ابی حاتم کا کلام مل گیاکہ اس سے مذمت بھی مقصود ہوسکتی ہے تواس کو مذمت کے خانہ میں بھی ڈال دیا۔لیکن خود خطیب کو یہ خیال نہ آیاکہ ایساکرکے وہ خود ہی اپنی رسوائی کا سامان دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
دیگر محدثین نے اس قول سے کیاسمجھاہے؟
ابن عبدالبر
یہ تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ حدیث او رفقہ میں ان کی مہارت اوررسوخ مسلمہ امر ہے اسی کے ساتھ عربی ادبیات سے بھی ان کوکافی واقفیت حاصل تھی جس پر ان کی کتابیں شاہد عدل ہیں۔ یہ الانتقاء میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں امام مالک کایہ قول ذرادوسرے الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں اورفضائل والے حصہ میں نقل کرتے ہیں جس سے یہ سمجھنادشوار نہیں رہ جاتاکہ ابن عبدالبر کے نزدیک بھی یہ جملہ مدح کا جملہ ہے۔
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ سُئِلَ مَالِكٌ يَوْمًا عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ قَالَ كَانَ رَجُلا مُقَارِبًا وَسُئِلَ عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ فَقَالَ كَانَ رَجُلا مُقَارِبًا قِيلَ فَأَبُو حَنِيفَةَ قَالَ لَوْ جَاءَ إِلَى أَسَاطِينِكُمْ هَذِهِ يَعْنِي السَّوَارِيَ فَقَايَسَكُمْ عَلَى أَنَّهَا خَشَبٌ لَظَنَنْتُمْ أَنَّهَا خَشَبٌ(الانتقائ 1/147)
اب آئیے ہم دیگر محدثین مورخین اورفقہاء کے اقوال اس سلسلے میں نقل کرتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ انہوں نے مذکورہ قول سے مدح سمجھاہے یاذم سمجھاہے ۔
ابن جوزی
ابن جوزی نے المنتظم میں امام ابوحنیفہ پر ہونے والے نقد اوروجوہات سے قبل امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب بیان کئے ہیں اس میں وہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں ۔
وقيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ فَقَالَ: رأيت رجلا لو كلمك فِي هَذِهِ السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته.(المنتظم8/131)
حافظ مزی
حافظ مزی نے اس کو تہذیب الکمال میں نقل کیاہے ۔حافظ مزی کا علم حدیث میں نہایت بلند مقام ہے ۔انہوں نے تہذیب الکمال میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں مذمت کا ایک بھی حرف نقل نہیں کیاجس کی حافظ ذہبی نے تذہیب التذہیب میں تحسین کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں
قلت:قد احسن شیخناابوالحجاج حیث لم یورد شیئا یلزم منہ التضعیف
حافظ ذہبی کی اس بات سے اتنامعلوم ہوگیاکہ حافظ مزی نے تہذیب الکمال میں امام ابوحنیفہ کے حق میں کوئی بات جرح اورذم کی نقل نہیں کی ہے۔لیکن اسی تہذیب الکمال میں ہم یہ جملہ امام مالک کے کا نقل کردہ دیکھتے ہیں ۔
سمعت الشافعي مُحَمَّد بن إدريس، قال: قيل لمالك بن أنس: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلا لو كلمك فِي هَذِهِ السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته
تہذیب الکمال للمزی 29 /429
اس طرح دواوردوچار کے نتیجہ کی طرح یہ بات سامنے آگئی کہ حافظ مزی اورحافظ ذہبی کے نزدیک یہ جملہ ذم کا نہیں بلکہ مدح کاہے اوریہ دونوں ہی مشہور حافظ حدیث اورناقد رجال ہیں۔اس سے گزر کر خود حافظ ذہبی نے تذہیب التہذیب میں تہذیب الکمال کی ساری باتیں نقل کی ہیں اس میں سے یہ جملہ بھی نقل کردیاہے اورآگے یہ بات بھی کہہ دی ہے کہ ہمارے شیخ نے یہ بات اچھاکام کیاکہ کوئی بھی ضعف والی بات نقل نہیں کی ہے۔اس طرح حافظ ذہبی کے نزدیک بھی یہ جملہ مدح کا ہوانہ کی ذم کا۔
حافظ ذہبی
حافظ ذہبی نقد رجال میں استقراء تام کے مالک ہیں۔ محدثین کے اورائمہ نقد وتعدیل کےجملوں سے کیامراد ہے اوران کا درست کیامفہوم ہے وہ یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے چنانچہ انہوں نے مختلف کتابوں میں امام مالک کا یہ جملہ مدح میں ہی نقل کیاہے۔
مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ
یہ حافظ ذہبی کی مشہور کتاب ہے اس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ اورصاحبین کے مناقب اورفضائل نقل کئے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے امام مالک کا یہ جملہ بھی نقل کیاہے۔چنانچہ وہ نقل کرتے ہیں۔
رَأَيْتُ رَجُلًا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لَقَامَ بِحُجَّتِهِ»(مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ31)
سیر اعلام النبلاء
یہ بھی حافظ ذہبی کی مشہور کتاب ہے اس کتاب میں حافظ ذہبی امام ابوحنیفہ کے حق میں امام مالک کے جملہ کو نقل کرتے ہیں
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ قَالَ:قِيْلَ لِمَالِكٍ: هَلْ رَأَيْتَ أَبَا حَنِيْفَةَ؟قَالَ: نَعَمْ، رَأَيْتُ رَجُلاً لَوْ كُلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَباً، لَقَامَ بِحُجَّتِه.(سیر اعلام النبلاء6/399)
کفایت اللہ صاحب کا اعتراف
کفایت اللہ صاحب کایہ اپنااعتراف ہے کہ حافظ ذہبی نے ان کتابوں میں امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب نقل کئے ہیں اورروات کے عمومی تعارف میں امام ابوحنیفہ کے مذمت کے اقوال نقل نہیں کئے ۔
اس کے علاوہ کفایت اللہ صاحب امام ابوحنیفہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں والے تھریڈ میں یہ اقرار کرچکے ہیں کہ تاریخ الاسلام ،سیر اعلام النبلاء اوردیگر کتابوں میں صرف امام ابوحنیفہ کے فضائل ومناقب نقل کئے گئے ہیں مذمت اورجرح کے اقوال نقل نہیں کئے گئے۔ اس لحاظ سے یہ کفایت اللہ صاحب کا اپنااعتراف نامہ بھی ہواکہ حافظ ذہبی کی مذکورہ کتابوں میں امام مالک کا یہ جملہ پایاجاناحافظ ذہبی کے نزدیک مدح کا کلمہ ہوا نہ کہ ذم کا کلمہ ہوا۔وللہ الحمددراصل امام مزی کی مذکورہ کتاب خاص ضعفاء پر نہیں ہے بلکہ رواۃ کے عمومی تعارف پر ہے لہٰذا امام ذہبی رحمہ اللہ کی مصلحت یہ ہے کہ چونکہ امام ابوحنیفہ کے عقیدت مند بہت ہیں اور ان کی تضعیف والی بات سے بدک اٹھتے ہیں اس لئے ان کی تضعیف ہرجگہ ذکر کرنا مصلحۃ مناسب نہیں ہے
ابن کثیر
یہ مشہور مفسر، محدث اورمورخ ہیں۔ ان کی تفسیر حدیث اورتاریخ میں کتابیں مشہور ہیں۔ تاریخ میں ان کی البدایہ والنھایہ مشہور عالم ہے اس کتاب میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہایت اچھے لفظوں میں لکھاہے اورصرف مدح ومناقب کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے امام مالک کا بھی یہ جملہ نقل کیاہے۔وقال في الشافعي: رَأَيْتُ رَجُلًا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لَقَامَ بِحُجَّتِهِ.(البدایہ والنھایہ 10/114)
اس سے واضح رہے کہ حافظ ابن کثیر جیساعربی کارمزشناس بھی اس جملہ کو مدح کا جملہ سمجھتاہے کہ نہ کہ بہت سارے برخود غلط افراد کی طرح ذم کا ۔
ابواسحاق الشیرازی
یہ مشہور شافعی فقیہہ ہیں اورفقہائے شافعیہ میں ان کا مرتبہ ومقام بہت بلند ہے۔ جب یہ نیشاپور پہنچے تو امام الحرمین جیسی عظیمت شخصیت ان کے جلو میں عقیدت واحترام کے ساتھ چلاکرتی تھی۔اسی سے ان کے مقام کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ ان کی ایک کتاب طبقات الفقہاء ہے اس میں انہوں نے فقہائے کرام کا تعارف کرایاہے اورتعارف کے ضمن میں تھوڑے سے مناقب بیان کئے ہیں۔ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں وہ امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے نہ کہ ذم کا۔
قال الشافعي: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.(طبقات الفقہاء86)
حافظ عبدالقادرالقرشی
یہ مشہور حنفی حافظ حدیث ہیں۔ ان نے علم حدیث ورجال حدیث میں مختلف کتابیں لکھیں بعض کتابیں زمانہ کی دست برد کی نذر ہوگئیں۔ ان کی مشہور کتاب الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ہے۔اس میں وہ امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ اس جملہ کا نقل کیاجاناہی بتارہاہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ جملہ مدح کا ہے ذم کا نہیں ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وَقَالَ الإِمَام مَالك رضى الله عَنهُ وَقد سُئِلَ عَنهُ رَأَيْت رجلا لَو كلمك فى هَذِه السارية أَن يَجْعَلهَا ذَهَبا لقام بِحجَّة (الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ1/29)
حافظ بدرالدین عینی
یہ بھی مشہور حنفی محدث اورفقیہہ ہیں۔ ان کی مختلف کتابیں حدیث میں مشہور ہیں۔ ان کی بخاری کی شرح عمدۃ القاری بخاری کی شروحات میں ایک معتبر شرح مانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ایک شرح معانی الآثار کے رجال پر ایک کتاب مغانی الاخبار کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں وہ امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے۔ ذم کا نہیں ہے۔
عن الشافعى، عن مالك: رأيت رجلاً لو كلمك فى هذه السارية أن يجعلها ذهبًا لقام بحجته (مغانی الاخیارفی شرح اسامی رجال معانی الآثار3/4)
علامہ صفدی
محدثین کے بعد اب مناسب ہے کہ کچھ مورخین کا کلام بھی نقل کردیاجائے چنانچہ مشہور مورخ علامہ صفدی امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف امام ابوحنیفہ کے مناقب نقل کئے ہیں ذم اورجرح کا کوئی بھی کلمہ نقل نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح ہے کہ ان کے نزدیک امام مالک کا یہ کلام مدح کے باب میں ہے نہ کہ ذم اورجرح کے باب میں۔اوریہ بھی خیال رہے کہ علامہ صفدی عربی ادب کے بہت بڑے ماہر اورشناور ہیں اوران کی کتاب الوافی بالوفیات اس پر شاہد عدل ہے۔
قَالَ الشَّافِعِي قيل لمَالِك هَل رَأَيْت أَبَا حنيفَة قَالَ نعم رَأَيْت رجلا لَو كلمك فِي هَذِه السارية أَن يَجْعَلهَا ذَهَبا لقام بحجته (الوافی بالوفیات 27/90)
ابن خلکان
ابن خلکان مشہور مورخ ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ لکھاہے اوراس میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں کہاہے کہ لایعاب بشئ سوی قلۃ العربیۃ کہ امام ابوحنیفہ کی ذات میں سوائے قلت عربیت کے کوئی عیب نہیں ہے۔ (اس قلت عربیت کا جواب محققین بہت اچھی طرح سے دے چکے ہیں۔جس کے بعد یہ الزام پادر ہواہے)اوراسی کتاب میں انہوں نے امام مالک کا یہ جملہ بھی نقل کیاہے ۔اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے نہ کہ ذم کا ۔
قال الشافعي (3) ، رضي الله عنه، قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة فقال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.
وفیات الاعیان5/409
علامہ بھاء الدین الجندی الیمنی
ان کی کتاب السلوك في طبقات العلماء والملوك کافی مشہور اورمتداول ہے۔ اس کتاب میں بھی امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے اوراس کے علاوہ امام ابوحنیفہ کے حق میں صرف فضائل ومناقب ہی نقل کئے گئے ہیں۔اس سے بھی یہ واضح ہے کہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے حق میں امام مالک کا بیان کردہ یہ جملہ ان کے نزدیک مدح کا جملہ ہے نہ کہ ذم اورجرح کا ۔
رَأَيْت أَبَا حنيفَة قَالَ نعم رَأَيْت رجلا لَو كلمك فِي هَذِه السارية وَأَرَادَ أَن يَجْعَلهَا ذَهَبا لقام بحجته (السلوک فی طبقات العلماء والملوک)
ان محدثین مورخین کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام مالک کا بیان کردہ یہ جملہ درحقیقت امام ابوحنیفہ کے حق میں مدح کا جملہ ہے نہ کہ ذم کا جملہ ہے۔ اورجن لوگوں نے اسے ذم کا جملہ بنایاہے انہوں نے درحقیقت غلطی کی ہے۔
علامہ یافعی
یہ مشہور شافعی فقیہہ اورمورخ ہیں۔ ان کی فقہ اورتاریخ میں کتابیں بہت مشہور ہیں۔ تاریخ انہوں نے مرآۃ الجنان فی عبرۃ الیقظان کے نام سے کتاب لکھی جو مشہور ومتداول ہوئی۔ اس میں انہوں نے محض امام ابوحنیفہ کے فضائل نقل کئے ہیں جرح اورذم میں ایک بھی حرف نقل نہیں کیا۔ اس کتاب میں وہ امام مالک کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں ۔اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہ جملہ مدح کا ہے۔
وقال الإمام الشافعي رضي الله عنه قيل لمالك هل رأيت أبا حنيفة؟ قال نعم رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته
(مرآۃ الجنان وعبرۃ الیقظان1/243)
یوسف بن تغری بردی
یہ مشہور حنفی مورخ ہیں۔ ان کی کتاب النجوم الزاہرہ فی ملوک مصروالقاہرہ مشہور عالم ہے اورمصروقاہرہ کی تاریخ کے معتبر ذرائع میں شمار ہوتاہے اس کتاب میں بھی انہوں نے امام مالک کا یہ جملہ امام ابوحنیفہ کیلئےمدح کے موقع میں استعمال کیاہے ۔
الشافعي يقول: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.(النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصروالقاہرہ2/14)
الاتلیدی
یہ بھی مشہور مورخ ہیں اوران کی تاریخ کے ایک باب پر کتاب مشہور ہے جس میں انہوں نےبرامکہ کے تعلق سے لکھاہے چنانچہ ان کی کتاب کا نام ہے۔اعلام الناس بماوقع للبرامکۃ مع بنی العباس۔اس کتاب میں عباسی عہد کے حیثیت سے امام ابوحنیفہ کا بھی ترجمہ ہے اوراسمیں انہوں نے امام ابوحنیفہ کے حق میں دیگر مدحیہ کلمات کے ساتھ امام مالک کا یہ کلمہ بھی نقل کیاہے اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ کلمہ مدح کا ہے ۔
وقال الشافعي: قلت لمالك، هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلاً لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهباً لقام بحجته.( اعلام الناس بماوقع للبرامکۃ مع بنی العباس1/285)
یہ پوری بحث ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے اب آپ کو یہ خود فیصلہ کرناچاہئے کہ یہ مدح کا کلام ہے یاپھرذم کا کلام ہے ۔یاد رہے کہ تقلیدی ذہن سے آزاد ہوکر فیصلہ کیجئے گاکیونکہ کچھ لوگ تقلید کے منکر ہوتے ہیں لیکن اندر سے اپنے کچھ علماء کے بڑے مقلد ہوتے ہیں ۔بات کو سنتے ہیں سمجھتے ہیں اورقائل ہوتے ہیں لیکن فلاں صاحب سے اس بارے میں پوچھیں گے اس کے بعد کچھ عرض کریں گے ۔یہی کام اگرحنفی کرے تواس پر تقلید کی بھپتی کسی جاتی ہے اورخود کریں تو تحقیق کی دہائی دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ بعض حضرات نے اسی طرح کے جملے امام شافعی کی شان میں بھی نقل کئے ہیں جس کو میں نے نقل کرنے سے دانستہ گریز کیاہے ورنہ بات مزید طویل ہوجائے گی ۔کفایت اللہ صاحب اوران کے ہم خیالوں کے مطابق ان حضرات نے امام شافعی کی توہین اورجرح اورذم کے لحاظ سے اس طرح کی بات کہی ہوگی۔