آپ کی آخری بات کا جواب فقط یہ ہے کہ دو اتنے جلیل القدراصحاب رسول کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس بارے میں امام ابن تیمیہ کی رائے درست نہیں کیونکہ ہمارے لئے صحابہ کی مثال دی گئی ہے امام ابن تیمیہ کی نہیں
اصحاب رسول سے اجتہادی غلطیاں ہونا ایسی کوئی انہونی چیز نہیں کہ اس کا انکار ممکن نہ ہو- جب بعض لوگ جنگ جمل و صفین کے حوالے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنھما یا سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ یا طلحہ و زبیر رضی الله عنہ کا اجتہادی طور پر غلط ہونا ثابت کرتے ہیں - تو پھر حسین و ابن زبیر رضی الله عنہ تو سیاسی معملات میں ان اکابرین کی نسبت کہیں کم تجربہ کار اور کہیں کم فہم و فراست رکھنے والے تھے - تو پھر ان دونوں کی اجتہادی غلطیوں کو قبول کر لینے میں کیا امر مانع ہے ؟؟-(سوائے رافضیت کے)-
صحیح مسلم میں ہے کہ عبدللہ بن عمر رضی الله عنہ اور دیگر اکابرین نے آپ کو خلیفہ وقت کے خلاف اس طرح اٹھ کھڑے ہونے سے منع فرمایا تھا - جس کا مطلب ہے کہ اس وقت آپ رضی الله عنہ کا اس طرح کا اجتہادی ایکشن غلط تھا اور اس کے نتائج مثبت کے بجانے منفی نکلے -
ہمیں اسود بن شیبان نے ابو نوافل سے خبردی ،کہا: میں نے
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے جسد خاکی) کو شہر کی گھاٹی میں (کھجور کے ایک تنے سے لٹکا ہوا) دیکھا،کہا:تو قریش اور دوسرے لوگوں نے وہاں سے گزرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو وہ ان (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس کھڑے ہوگئے،اور (انھیں مخاطب کرتے ہوئے) کہا:ابو خبیب!آپ پر سلام! ابو خبیب!آپ پر سلام! ابو خبیب!آپ پر سلام!
اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا، اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا، اللہ گواہ ہے کہ میں آپ کو اس سے روکتا تھا،اللہ کی قسم!آپ،جتنا مجھے علم ہے بہت روزے رکھنے والے ،بہت قیام کرنے والے ،بہت صلہ رحمی کرنے و الے تھے۔ اللہ کی قسم!وہ امت جس میں آپ سب سے بُرے(قرار دیے گئے)ہوں،وہ امت تو پوری کی پوری بہترین ہوگی(جبکہ اس میں تو بڑے بڑے ظالم،قاتل اور مجرم موجود ہیں۔آپ کسی طور پر اس سلوک کے مستحق نہ تھے۔) پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے چلے گئے۔
(مسلم ٦٤٩٦)-
یہی معامله حضرت حسین رضی الله عنہ کا تھا - اکابرین صحابہ کی بڑی تعداد آپ کو کوفہ جانے سے منع کر رہی تھی (کہ یہ کوفی آپ رضی الله عنہ سے بد عہدی کریں گے بلکل ایسے جیسے آپ کے والد کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ کی- اور آپ یزید بن معاویہ کے مقابلے میں ان کوفیوں کا ہرگز ساتھ نہ دیں کیوں کہ یزید کی بیعت پر امّت متفق ہے) لیکن آپ رضی الله عنہ نے اجماع کے برعکس یہ فیصلہ کیا کہ کوفہ جا کر پہلے صورتحال کا جائزہ لیں گے پھر کوئی فیصلہ کریں گے- پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا - آپ رضی الله عنہ کو راستے میں گھیر لیا گیا- وہ کوفی جو کبھی ان کے والد حضرت علی رضی الله عنہ کے right hand ہوا کرتے تھے انہی کی نسلوں نے آپ کو شہید کردیا اور الزام لگا یزید بن معاویہ رحم الله (بے گناہ) کے سر- الله کی مشیت شاید یہی تھی کہ ایک کر گزرنے والا کام ہو کر رہا- لیکن آج امّت اس معاملے میں بٹ گئی - اور افراط و تفریط کا شکار ہو گئی-
الله سب کو صحیح راستے کی طرف ہدایت دے (امین)-