یہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ اہل حدیث دور صحابہ سے موجود ہیں۔جب آپ نے صحابہ کو اہل حدیث تسلیم کر لیا تو اہل حدیث جماعت کو صحابہ کی جماعت سے بغیر کسی دلیل کے خارج کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ موجود اہل حدیث یا سابقہ دور کے اہل حدیث بلکہ قیامت تک آنے والے اہل حدیث صحابہ کرام کی مبارک جماعت ہی کا تسلسل ہیں کیونکہ ان کے اور صحابہ کے اصول و عقائد حتی کے مسائل بھی ایک جیسے ہی ہیں۔ اگر صحابہ اہل حدیث تھے تو آج کا مسلمان بھی جو صحابہ کی طرح صرف اور صرف قرآن اور حدیث پر عمل کرتا ہے اور قرآن و حدیث کے آگے کسی بھی امتی کے قول کو رد کردیتا ہے اور ابوحنیفہ، شافعی، مالک اور احمد بن حنبل میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتا بجا طور پر صحابہ کی طرح اہل حدیث کہلاوانے کا مستحق ہے۔ اور اس مسلمان سے یہ حق کوئی جاہل مقلد نہیں چھین سکتا۔
السلام علیکم شاھد نذیر صاحب
سب سے پہلے آپ کو یاد کروا دوں کہ آپ کی صرف دو دلیلیں ہیں ایک قرآن اور دوسری ہے حدیث ۔
لیکن اک بار پھر آپ نے ناہی اپنے موقف کے حق میں قرآن کی آیت پیش کی اور ناں ہی کوئی حدیث ۔ اور کہتے یہ ہیں کہ ““
آج کا مسلمان بھی جو صحابہ کی طرح صرف اور صرف قرآن اور حدیث پر عمل کرتا ہے اور قرآن و حدیث کے آگے کسی بھی امتی کے قول کو رد کردیتا ہے ““ ۔۔ اور موصوف کا زور سارے کا سارا ذاتی رائے اور امتیوں کے اقوال پر ہے ۔ ان شاء اللہ آگے چل کر آپ کو آپ کی ذاتی رائے کا تضاد دکھاتا ہوں کہ اوپر موجود اقتباس میں فرمایا ““ آج کا مسلمان بھی جو صحابہ کی طرح صرف اور صرف قرآن اور حدیث پر عمل کرتا ہے اور قرآن و حدیث کے آگے کسی بھی امتی کے قول کو رد کردیتا ہے ““
اور نیچے والی عبارت میں خود ہی لکھا ““
اس حدیث میں مذکور جنت میں جانے والے فرقے کے بارے میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جنت میں جانے والا فرقہ اہل سنت ہے اور مزید فرمایا کہ اہل سنت صرف اہل حدیث ہیں۔(غنیۃ الطالبین)““
اب آپ ہی بتائیے جناب شاھد نزیر صاحب کہ چند سطروں کے بعد ہی اپنی دلیلیں بھول جاتے ہیں ؟ جناب کو قرآن اور حدیث کیوں بھول جاتا ہے ؟
مزید آپ نے تقلید اور مقلدین پر تیر برسائے ہیں جبکہ غیر مقلد خود ایسے مقلد ہیں جو درجنوں امتیوں کی تقلید کرتے ہیں ۔ ابھی تازی تازی جو تقلید فرمائی ہے وہ ہے غنیۃ الطالبین نامی کتاب کی اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی ، جو خود حنبلی بزرگ تھے ۔
یہ بھی دیکھ لیجئے کہ آپ غیر مقلدین ،مقلدین کو کیا کہتے ہیں ۔
اور یہ بھی دیکھئے غنیۃ الطالبین کا چھوٹا سا عکس
اور جناب نے ایک مقلد بزرگ کی تقلید کرکے ثبوت دکھایا ہے کہ آپ غیر مقلد صرف نام کے ہیں ویسے ہی جیسے اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں۔
کیا بات ہے آپ کی شاھد صاحب ! ماشاء اللہ پہلے فرماتے ہیں ““
آج کا مسلمان بھی جو صحابہ کی طرح صرف اور صرف قرآن اور حدیث پر عمل کرتا ہے اور قرآن و حدیث کے آگے کسی بھی امتی کے قول کو رد کردیتا ہے اور ابوحنیفہ، شافعی، مالک اور احمد بن حنبل میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتا بجا طور پر صحابہ کی طرح اہل حدیث کہلاوانے کا مستحق ہے۔ ““ ۔
دیکھئے جناب شاھد صاحب آپ کو پھر سے کہتا ہوں امتیوں کے اقوالات آپ کی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کا ہی اقرار ہے ۔ لیکن آپ کی تحاریر سے اس اقرار کا انکار صاف نظر آرہا ہے
اور میں نے آپ کی تحریر سے دکھا کر ثابت کردیا ہے ، اور روز روشن کی طرح واضع نظر آرہا ہے کہ جناب شاھد نظیر صاحب مقلد بن گئے ہیں وہ بھی ایک مجتہد کے نہیں بلکہ مقلدین کے مقلد ۔(شاھد نذیر صاحب کے انداز میں لکھا ہے )
غیر مقلدین کی تقلید کے بارے میں مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث جس میں امت کے 73 فرقوں میں بٹ جانے کی پیشنگوئی ہے اس حدیث کے آخر میں ہے کہ صحابہ نے دریافت کیا کہ وہ کون سی جماعت ہوگی جو جنت میں جائے گی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ اس راستے پر ہونگے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔(مفہوم حدیث)
معلوم ہوا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے نزدیک صحابہ کرام کے راستے پر صرف اہل حدیث ہیں۔ اس طرح یہ خوبخود ثابت ہو گیا کہ اگر صحابہ اہل حدیث تھے تو ان کے راستے اور نقش قدم پر چلنے والا آج کا مسلمان بھی اہل حدیث ہے۔اسی طرح کا بیان امت کے دیگر سلف سے بھی ثابت ہے جیسے احمد بن حنبل، امام بخاری، امام شافعی، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرھم
جناب شاھد صاحب آپ پھر اپنا فہم پیش کررہے ہیں جناب ایسی حدیث پیش کریئے جس میں لکھا ھوا ہو کہ “ میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اہل حدیث ہیں اور جو ان کے طریقے پر چلے گا وہ بھی اہل حدیث بنے گا “ ۔ لیکن آپ نے تو بیان کرنا ہے صرف اپنا فہم ۔ یا پھر امتیوں کے اقوال کے پیچھے بھاگنا ہے ۔ مزکورہ حدیث میں " سنت" کا ذکر ہے جناب جماعت اہلحدیث کا نہیں ۔
وہ حدیث جسکا مفہوم آپ نے پیش کیا وہ حدیث میں پیش کردیتا ہوں ۔دیکھئیے
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الْأَفْرِيقِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَی أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَکَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً کُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي ۔۔۔
محمود بن غیلان، ابوداؤد حفری، سفیان، عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی، عبد اللہ بن یزید، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ۔ یہاں تک کہ اگر ان کی امت میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گا اور بنواسرائیل بہتر فرقوں پر تقسیم ہوئی تھی لیکن میری امت تہتر فرقوں پر تقسیم ہوگی ان میں ایک کے علاوہ باقی سب فرقے جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ نجات پانے والے کون ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے
راستے پر چلیں گے۔ ۔۔
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے
طریقے کو اپنا طریقہ قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ غیر مقلدین صحابہ کے طریقے کو حجت ہی نہیں مانتا ۔ اور اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ صحابہ اہل حدیث تھے اور امت کو بھی اہلحدیث بننا ہوگا یا صحابہ کے طریقے پر چلنے والا اہلحدیث ہوگا۔ اسمیں صرف سنت کو اپنانے کا زکر ہے ۔
مزید اک حدیث دیکھئیے
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ عَنْ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَی إِحْدَی أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفَرَّقَتْ النَّصَارَی عَلَی إِحْدَی أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً
ترجمہ
وھب بن بقیہ، خالد، محمد بن عمر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، یہود تو اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے، اور انصار بھی اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی کہ ان تہتر فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور یہ وہ فرقہ ہوگا جو ہمیشہ حق پر اور میری
“سنت“ پر قائم رہے گا۔
(سنن ابوداؤد)
دیکھا جناب ! اک حدیث میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے "راستے" کا ذکر ہے اور دوسری میں صاف صاف الفاظ میں "سنت" کا ۔
چلیں اک اور حدیث مبارکہ دکھاتا ہوں جس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ خلفہ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اور اپنی
“ سنت “ کو داڑھوں سے پکڑنے کی نصیحت فرماتے ہیں ۔ یاد رکھئیے
“سنت“ کو حدیث کو نہیں۔اگر آپ سنت اور حدیث کو اک ہی معنی میں لیتے ہیں تو قرآن اور حدیث سے دلیل دیجئے کہ سنت اور حدیث ایک ہی ہیں الگ الگ نہیں ۔
((اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَاِنَّہ، مَنْ یَّعْشِ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرٰی اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنِ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَا جِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃِ بِدْعَۃٌ ضَلَالَۃٌ))رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ
ترجمہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تم کو نصحیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو، اور تم کو مسلمان سردار جو کہے سننے اور بجا لانے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ وہ (سرادر) حبشی غلام ہو تم میں سے جو آدمی میرے بعد زدہ رہے گا وہ اختلاف بھی دیکھے گاا یسی حالت میں
تم پر لازم ہے کہ میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم جانو اور اسی طریقہ پر بھروسہ رکھو اور اس کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو اور تم (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچو اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
دیکھئیے اور نصیحت پکڑئیے جناب غیر مقلد شاھد نذیر صاحب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے یعنی سنت کو لازم ، بھروسے کے قابل ، اور دانتوں سے مظبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم فرمارہے ہیں ۔ اور معاذ اللہ انہیں خلفاء میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے طریقوں اور جاری کردہ احکامات کو آپ غیر مقلدین یہ کہہ کر رد کردیتے ہو کہ “فہم صحابی حجت نہیں“ ۔ کچھ یاد آیا ؟ کہ آپ غیر مقلدین کے ہاں صحابہ کا کیا مقام ہے ؟۔ صحابہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں کہ ان پر بھروسہ رکھو اور آپ کہتے ہیں کہ ان کا فہم معتبر نہیں ؟۔ اور دعوٰی ہے کہ ہم غیر مقلدین صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔ جناب اگر صحابہ کے نقش قدم پر چلتے تو جماعت اہل حدیث نام اختیار نہیں کرتے اور ناں ہی صحابہ کو غیر معتبر کہنے کا عقیدہ رکھتے ۔ بلکہ اہل سنت والجماعت بنتے۔
اسی طرح کا بیان امت کے دیگر سلف سے بھی ثابت ہے جیسے احمد بن حنبل، امام بخاری، امام شافعی، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ وغیرھم
آپ نے اپنے امام صاحب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام لیا ہے تو لیجئے ان کا اک قول پڑھ لیجئے ۔ کہ وہ ان اہل سنت والجماعت کے بارے میں کیا فرماگئے جن پر آپ کا تبررہ ختم ہی نہیں ہوتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے " بزرگ" غیر مقلدین کو تلقین فرماگئے ہیں کہ جن معاملات میں قرآن اور حدیث سے رہنمائی نہ ملے ان میں مجتہدین کی " تقلید " کرلیا کریں۔ اسکی کچھ تفصیل آگے آئے گی۔
شیخ ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیںفاہل السنتہ الجماعۃ ھم المتبعون للنص والاجماع
(منھاج السنہ ص 272 ج3)
یعنی اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو نص کتاب وسنت اور اجماع کی تابعداری کرتے ہیں۔
الحمداللہ ثابت ہوا کہ امت کے سلف نے صحابہ کے راستے پر چلنے والے ہر مسلمان کو صحابہ کی طرح اہل حدیث ہی قرار دیا ہے۔ امت کے سلف سے ایسی کوئی تفریق ہر گز ثابت نہیں کہ صرف عالم اہل حدیث کہلاوانے کا مستحق اور اور عامی اہل حدیث جماعت سے خارج ہے۔ اگر سہج صاحب کے پاس ایسی کوئی دلیل ہے تو امت کے معتبر ائمہ اور علماء سے پیش کریں ورنہ صرف ان کا خالی خولی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس سے موصوف عالم اور عامی اہل حدیث کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔
ماشاء اللہ آپ نے بھی کیا خوب ثابت کیا ہے (مسکراتے ہوئے) کوئی قرآنی آیت پیش نہیں کی اور اک حدیث پیش کی اس میں بھی یہ نہیں دکھا سکے آپ کہ
“ میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اہل حدیث ہیں اور جو ان کے طریقے پر چلے گا چاہے وہ عالم ہو یا جاہل، وہ بھی اہل حدیث بنے گا “۔ارے جناب آپ ہی کوئی حدیث پیش کردیجئے جس میں لکھا ہوا ہو وہ جو آپ اہنی فہم سے پیش کررہے ہیں، اور آگے چل کر
“امت کے معتبر علماء“ سے دلیل مانگتے ہیں ؟ شرم آرہی ہے مجھے (آپ کو تو آہی نہیں سکتی) ،کہ جو لوگ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سمجھ کو غیر معتبر کہتے ہوں ان میں سے ہی اک شخص کہتا ہے کہ ““کوئی دلیل ہے تو امت کے معتبر ائمہ اور علماء سے پیش کریں ““۔ یعنی آپ کے نزدیک صحابی رسول کی سمجھ معتبر نہیں اور امتی علماء کی سمجھ معتبر ہے ؟ کہ خود ہی ڈیمانڈ فرمارہے ہیں کہ امت کے معتبر علماء و ائمہ سے دلیل پیش کریں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آپ کوئی آیت اور حدیث پیش کردیتے جس سے ثابت ہوجاتا کہ“ صحابہ کے طریقے پر چلنے والا چاھے عالم ہو چاھے جاہل ، اہلحدیث ہوتا ہے، ویسے ہی جیسے صحابہ اہل حدیث تھے“۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آپ نے صحابہ کو اہل حدیث مانا تو وہ بھی امتیوں کے اقوال سے اور اپنے آپ کو اہل حدیث کہا تو وہ بھی امتیوں کے اقوال سے ۔ اور جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور صحابہ کی "سنت" کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم دیا ھے اور اہل سنت والجماعت کو نجات پانے والا فرمایا ہے اور اپ فرماتے ہیں کہ جماعت اہل حدیث والے نجات پانے والے ہیں ؟
آپ اپنے آپ کو صحابہ سے جوڑنے کے دعوے دار ہو جبکہ ایسا ہے نہیں ۔ اور اس جوڑنے سے آپ کا خیال ہے کہ آپ نجات پانے والی جماعت کے مصداق بنتے ہیں ۔ اب میں آپ کو اپنی عقل سے نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے دکھاتا ہوں کہ اہل سنت والجماعت ہی جنات پانے والی جماعت ہے ۔
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ما انا علیہ واصحابی یعنی نجات وہ پائیں گے جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے
طریقہ پرہوں گے یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی
“سنت“ پر اور فرمایا میری اور خلفا راشدین کی
سنت کو لازم پکڑنا(ترمذی) اور فرمایا جس نے میری
سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ـ (بخاری) اور ایک روایت میں توآپ نے تارک
سنت کو
ملعون فرمایا (مشکوۃ) اور
اہل سنت والجماعت کے علاوہ باقی فرقوں کو آپ نے دوزخی فرمایا(ابو داود) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے آیت کریمہ
یوم تبیض وجوہ کی تفسیر پوچھی گئی تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن کے چہرے قیامت کے دن روشن ہوں گے وہ اہل سنت والجماعت ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی ارشاد فرمایا (الدرمنثور ص 63 ج2)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سنت اور صحابہ کے طریقے کو اپنانے والوں کو خوشخبری سناتے ہیں اورکہیں بھی
جماعت اہل حدیث کا کوئی معنی نہیں نکلتا ۔ یہاں یہ بتادوں کہ اہل سنت والجماعت نجات پانے والی جماعت ہے ناکہ موجودہ “جماعت اہل حدیث“ ۔
اہل سنت والجماعت کے علاوہ باقی فرقوں کو آپ نے دوزخی فرمایا(ابو داود)
آج جو اہل حدیث جماعت ہے وہ دور صحابہ سے موجود ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ اسی راستے پر اول روز کی طرح آج بھی گامزن ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں تھی۔ اگر سہج صاحب موجودہ اہل حدیث جماعت کی نسبت صحابہ سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اہل حدیث کے وہ عقائد بتادیں جو جمہور صحابہ کے عقائد کے خلاف ہوں۔ اور اگر سہج صاحب اس میں کامیاب نہ ہوسکیں تو بے دلیل دعویٰ کرنا چھوڑ دیں۔
جناب شاھد صاحب آپ سے پھر گزارش ہے کہ قرآن اور حدیث سے دلیل فراہم کیجئے کہ
"آج جو اہل حدیث جماعت ہے وہ دور صحابہ سے موجود ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ اسی راستے پر اول روز کی طرح آج بھی گامزن ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں تھی"، مزید یہ کہ آپ کے بے شمار عقائد ہیں جو صحابہ کے اجماع کے خلاف ہیں ۔ لیکن
آپ صرف یہ کیجئے کہ مجھے صرف یہ دکھا دیں کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فہم اور فیصلوں کو دل و جان سے مانتے ہیں ۔ جیسے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود صحابہ کی جماعت نے ان کے فیصلوں کو مانا ویسے ہی آپ بھی ماننے کا اعلان کربھی دیں اور دکھا بھی دیں اپنے معتبر علماء سے ۔ اب تک دیکھا یہی ھے کہ آپ اپنی دونوں دلیلیں پیش نہیں کرسکے اور پیش کی بھی ہیں تو وہ عقلی دلیلیں جو امتیوں کے قول کہلاتے ہیں ۔(آپ غیر مقلدین کے مطابق) اسلئے دعوٰی تو آپ کا بے دلیل ہے کہ بس مان لو غیر مقلدین کو ویسا اہل حدیث جیسے صحابہ تھے ۔ جبکہ میں جناب کو بتاچکا ہوں کہ صحابہ کو اہلحدیث اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ حدیث کا علم لے کر چلے پڑھے لکھے صحابہ بھی اور ان پڑھ صحابہ بھی ۔ لیکن وہ انپڑھ صحابہ بھی مشاہدے کا علم رکھتے تھے ۔جیسے آج کے دور میں کوئی انپڑھ جاہل دودھ فروش ، جو کہ دودھ کو دیکھ کر اسکی کیفیت جان لیتا ہے کہ اسمیں پانی ہے یا نہیں یا یہ کہ یہ دودھ بھینس کا ہے یا گائے کا ۔ جبکہ جو لوگ اس فیلڈ کے نہیں وہ کبھی بھی دیکھ کر نہیں جان سکتے کہ کس دودھ میں پانی ھے اور کون سا دودھ گائے کا اور کون سا بھینس کا ۔بات صرف یہ ہے کہ دودھ کی کیفیت جاننے والا برتر ہے اس سے جو دودھ کی کیفیت نہیں جانتا ۔ اب یہ کوئی نہیں کہتا کہ فلاں ڈاکٹر صاحب ہیں تو وہ امراض کے ماہر بھی ہیں اور دودھ کے بھی ماہر ہیں۔ یا جوتیاں بنانے کے بھی ماہر ہیں ۔ یاد رکھیں ڈاکٹر کو ڈاکٹر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے فن کا ماہر ہے اور موچی کو موچی اسلئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے فن کا ماہر ہے اور دودھ والا گوالا اپنے فن کا ماہر ہے
اور
الحمدللہ صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سے جو افراد انپڑھ تھے وہ بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو آگے بیان کرتے ہوئے اس کیفیت کو جانتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس موقع پر تھی ۔ اور اسی جانب جناب کی توجہ نہیں ھے ۔ جناب صحابہ کرام حدیث بیان کرنے کے ماہرین تھے ۔ اسی حوالے سے انہیں حدیث والا کہا جائے تو غلط نہیں ۔ لیکن آپ غیر مقلدین کیسے اہلحدیث بن گئے ؟ کیونکہ آپلوگ حدیث پر عامل ہونے کے دعوے دار ہیں جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے " سنت " پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
میری اور خلفا راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا(ترمذی)۔
اب آپ جناب سے درخواست ہے کہ جماعت اہل حدیث کہلوانے پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرکے اپنی دلیل فراہم کریں۔ اور امتیوں کے اقوال سے پرہیز کرکے دکھائیں۔
آپ نے اہل حدیث جماعت کے جو مختلف نام دئے ہیں شاید آپ نے اپنے کسی جھوٹے عالم کی کتاب سے نقل کئے ہیں کیونکہ ان ناموں میں ثنائيہ اہلحدیث،غزنوی اہلحدیث،روپڑی اہلحدیث،امرتسری اہلحدیث،بنارسی اہلحدیث،توحیدی اہلحدیث،محمد ی اہلحدیث،گوندلوی اہلحدیث،نذيریہ اہلحدیث نام کی کوئی جماعت موجود نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ ان اہل حدیث جماعتوں کی موجودگی کے ثبوت فوری طور پر پیش کریں ورنہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ جھوٹ اور دروغ گوئی دیوبندیوں کے ایمان کا حصہ ہے۔
چلیں جی مان اگر مان لیتے ہیں کہ آپ نے ٹحیک کہا ، اور ہم جھوٹے ۔ ٹھیک لیکن کتنے جھوٹے یہ بھی بتادیں سو فیصد یا کچھ کم ؟ کیونکہ اس عبارت کے بعد آپ نے خود ہی تسلیم کیا ھے کہ
جہاں تک جماعة دعوة اہلحدیث،جمعیت اہلحدیث،غرباءاہلحدیث،يوتھ فورس اہلحدیث کی بات ہے تو یہ جماعتیں صرف انتظامی بنیادوں پر وجود میں آئی ہیں ورنہ حقیقت میں ساری جماعتیں اہل حدیث ہیں کیونکہ ان کے درمیان عقائد کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر ان کے درمیان عقائد کا کوئی اختلاف ہوتا تو پھر یقیناً آپ انہیں علیحدہ علیحدہ جماعتیں شمار کرسکتے تھے
چلیں یہ بھی اچھی بات ہے آپ کو یہ تو تسلیم ہے کہ آپ کے ہاں اہلحدیث نام سے کچھ اور جماعتیں ہیں ۔ اب یہ بھی بتادیتے آپ خود کہ ان میں سے "مدر جماعت اہلحدیث" کون سی ہے ؟ اس بات کا فیصلہ میں آپ پر ہی چھوڑتا ہوں ۔کیونکہ آگے آپ نے فرمایا ہے کہ
تو اہل حدیث گروپس کا صحابہ سے تعلق کیسے مشتبہ ہو سکتا ہے جبکہ ان تمام گروپس کے عقیدے و اصول بعینہ وہی ہیں جو صحابہ کے تھے؟!
یعنی یہ تو آپ مان ہی چکے کہ جماعت اہلحدیث کے کچھ گروپس ہیں۔
جس طرح دیوبندیوں میں عقیدے کے اختلاف پر دو جماعتیں حیاتی اور مماتی وجود میں آگئی ہیں۔ اس کے برعکس تبلیغی جماعت، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی میں چونکہ عقیدے کا کوئی اختلاف نہیں اس لئے انہیں دیوبندی ہی کہا جاتا ہے۔ امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔ ان شاء اللہ
اب یہ کذب بیانی نہیں ؟ کیا میں بھی آپ کی اس بات کے جواب میں آپ کو جھوٹا کہنا شروع کردوں ؟ جبکہ تمام اہلسنت والجماعت کا حیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ مسلمہ ہے ، اور جس نے اس عقیدہ سے اختلاف کیا وہ اہل سنت والجماعت سے باہر ہوگیا خود ہی ۔ جیسے آپ کے وحیدالزمان کو آپ نے نکال دیا ۔ حیاتی اور مماتی وجود میں نہیں آئے جناب صرف " مماتی" وجود میں آئے ۔
میں سہج صاحب سے پوچھتا ہوں کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اہل قرآن قرار دیا جو حدیث کے منکر تھے؟(نعوذ باللہ من ذالک) یقیناً نہیں۔ تو پھر سہج صاحب نے ایسی غلط مثال کیوں پیش فرمائی؟
نہیں جناب ، میں نے یہ بلکل نہیں کہا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منکرین حدیث کو اہل قرآن کہا ۔ یہ کہا کہ منکرین حدیث ایسا کہیں تو آپ کیا کہیں گے ؟ اسکے بارے میں آپنے ہی فرمایا ہے کہ
اگر کسی شخص کا دعوی مسلمان ہونے کا ہو اور عقائد و اعمال کافروں والے ہوں تو نہ تو محض دعوے سے وہ شخص مسلمان ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا مسلمان اسکے مسلمانی دعوے کو قبول کرے گا کیونکہ اس کا عمل اس کے قول کے خلاف ہے۔ اگر کوئی شخص مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ زبانی دعوے ساتھ ساتھ عقائد و اعمال بھی مسلمانوں والے قبول کرے۔جب ہی اس کا دعوی قابل قبول ہوگا۔
یہی بات آپ پر زیادہ فٹ آتی ہے کیونکہ نا اللہ نے فرمایا نا ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ اہلحدیث ہیں ہاں علماء امت نے قرار دیا کہ صحابہ حدیث والے تھے یعنی اہلحدیث۔ اب آپ غیر مقلدین کا دعوٰی تو ہے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کا ، لیکن اسی بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم تک کو نہیں مانتے ؟۔یعنی
“میری اور خلفا راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا(ترمذی) اور آپ غیر مقلدین صحابہ کی سنتوں کو “نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں “ کہہ کر رد کردیتے ہو ۔
جیسا کہ فقہ الحدیث میں صفحہ 544 پر لکھا ھواہے “خلفائے راشدین کی وہی سنت اختیار کی جاسکتی ہے جودر حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو“۔ دیکھا جناب شاھدنذیر؟ آپ کے غیر مقلد علماء آپ کی توقعات و فرمودات کے برعکس صحابی رسول خلفائے راشدین کی سنت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے "غیر ثابت" فرماکر ناقابل اختیار فرماتے ہیں اور یہ فرمان جاری کرنے سے پہلے “میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا“ لکھ کر پھر اسکا رد کیا گیا ہے یہ کہہ کر کہ “خلفائے راشدین کی وہی سنت اختیار کی جاسکتی ہے جودر حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو“۔ جناب شاہد نذیر صاحب اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آپ صحابہ کی سنت کو قابل اختیار کیسے مانتے ہیں تو آپ کا جواب کیا ھو گا ؟ کیا یہ کہیں گے کہ میرے لئے میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمادینا کافی ہے کہ “میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا“ یا پھر آپ اپنے کسی مولوی کی طرف دیکھیں گے کہ وہ اس بارے میں کیا کہتا ہے یعنی آپ مولوی کے کہنے پر اسکی تقلید کرتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابی کی سنت کو اختیار کریں گے ؟ سوچ سمجھ کر جواب دینا ۔
اب یہ آپ بتائیں کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کے طریقے پر چلتے ہیں اسلئے ہم صحابہ کی طرح اہلحدیث ہیں جبکہ آپ کی معتبر ہستیاں کتابوں میں لکھتی ہیں صحابہ کے طریقے “ناقابل اختیار“ ہیں ؟؟؟ ایسا تضاد کیوں ہے بھئی؟ یعنی صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں؟ اب میں کس کی مانوں آپ کی یا آپ کے اکابرین کی ؟ کیا آپ اپنے اکابرین کے نقش قدم سے ہٹ گئے ہیں ؟ کیا وحید الزمان کی طرح فقہ الحدیث لکھنے والے بھی آؤٹ ؟ فیصلہ اور جواب آپ کا ۔ ٹھیک
الحمداللہ ثابت ہوا کہ ہر وہ شخص جو اول اہل حدیث جماعت یعنی صحابہ کی جماعت کی پیروی کرنے والا ہوگا وہ ہر دور میں اپنی نسبت صحابہ کی جانب کرکے خود کو اہل حدیث کہنے اور کہلاوانے کا مستحق ہوگا۔ لیکن وہ شخص جس کا دعویٰ تو صحابہ سے نسبت کا ہوگا لیکن وہ صحابہ کے بہت بعد پیدا ہونے والے کسی ابوحنیفہ نامی شخص کا اندھا مقلد ہوگا یا کسی من گھڑت اور شرمناک فقہ کا قائل و فاعل ہوگا وہ صحابہ کرام سے اپنی نسبت پر جھوٹا ہوگا۔
پھر ثابت ہوا ؟؟؟؟ بھئی آپ سے گزارش ہے کہ پہلے قرآن یا حدیث دکھادیں بھائی آپ کی مہربانی جس میں لکھا ہوا ہو اور کسی امتی کی جانب سے تشریح کی محتاجی بھی نہ ہو ، کہ ““ ہر وہ شخص جو اول اہل حدیث جماعت یعنی صحابہ کی جماعت کی پیروی کرنے والا ہوگا وہ ہر دور میں اپنی نسبت صحابہ کی جانب کرکے خود کو اہل حدیث کہنے اور کہلاوانے کا مستحق ہوگا۔ ““۔
باقی آپ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اک بار پھر بغض اور نفرت کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم ابوحنیفہ کا مطلب کیا ہے اور ابوحنیفہ کا نام کیا ھے ۔ چلیں میں کوشش کرتا ہوں آپ کو سمجھانے کی دیکھتے ہیں کہ اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
دیکھو بھائی شاھد نذیر مجھے معلوم ہے کہ آپ جس غیر مقلد گروہ میں ہو اس کے مزاج میں بہت گرمی ہے یہاں تک کہ وہ صحابہ کوبھی نہیں بخشتے ۔ ان کے فیصلوں اور طریقوں کو “غیر معتبر“ کہہ کر رد کردیتے ہیں اور وہی تاثیر آپ جیسے چھوٹے چھوٹے غیر مقلدین کے انداز میں بھی نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی پر تعن کیا جائے یانہیں ابوحنیفہ پر ضرور کرنا ہے ۔ یا پھر حنفی پر ۔ اچھا یہ حدیث دیکھیں۔
عن أبي أمامة قال : خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم في سرية فمر رجل بغار فيه شيء من ماء وبقل فحدث نفسه بأن يقيم فيه ويتخلى من الدنيا فاستأذن رسول الله صلى الله عليه و سلم في ذلك فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني لم أبعث باليهودية ولا بالنصرانية ولكني بعثت بالحنيفية السمحة والذي نفس محمد بيده لغدوة أو روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها ولمقام أحدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة " . رواه أحمد
ترجمہ
حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم میں سے ایک شخص ایک ایسے غار(وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اپنی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی کرلے ۔چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیاہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ،بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقا کنارہ کشی کی اجازت دو ں بلکہ
میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اورنہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخر ی حصے میں یعنی صبح وشام کو خدا کی راہ جہادمیں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے ۔'' (احمد)
دیکھا شاھد صاحب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ؟ ““ بلکہ میں تو
دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے““ اب آپ کو یہ بتادوں ابوحنیفہ کو ابوحنیفہ کیوں کہتےہیں “حنیف“ کا مطلب ہے “سچا“ اور “حق کی طرف مائل“ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نام ہے نعمان رحمہ اللہ ۔ لیکن دنیا میں کم افراد ہی ابوحنیفہ کا اصل نام جانتے ہیں ، جانتے ہیں صرف “لقب“یعنی ابو حنیفہ ۔ اک مثال اور دیتا ہوں آپ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اصل نام کیا ہے ؟ معلوم ؟ یا نہیں ؟ چلیں میں بتادیتا ہوں “عبداللہ “۔ اور ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کیا نام ہے ؟ “عبدالرحمان “۔ اب آپ دیکھیں کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثریت اس وقت دونوں صحابہ کا اصل نام نہیں جانتی بلکہ لقب سے پہچانتی ہے۔ بلکل اسی طرح امام نعمام بن ثابت رحمہ اللہ کو بھی اکثریت نہیں جانتی ، جانتی ہے تو لقب سے یعنی “ ابوحنیفہ“ سے ۔ اور ابوحنیفہ لقب کیوں پڑا؟؟؟؟ شاھد نزیر صاحب یہ لقب آپ نے یا کسی غیر مقلد نے نہیں دیا قرون اولٰی کے اہل حق نے دیا ہے ۔ کیونکہ اسلام کے احکامات کو کھول کھول کر اور آسان تشریحات ،امت کی ضرورت کے مطابق ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کیں ۔ کیونکہ امام صاحب سے پہلے کسی نے دین کو “مدون“ نہیں کیا تھا ۔ اور یہ کام اللہ تعالٰی نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ سے لیا ۔ اور آج تک امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فقہ کے مسائل سے فائدہ حاصل کررہی ہے ۔ اور آپ بھی اگر غور فرمائیں تو دن بھر میں کئی مسائل ایسے نظر آئیں گے جن پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل فرماتے ہیں اور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جیسے آپ کے سالن میں اگر “چیونٹی“ گرجائے تو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے ۔ ان شاء اللہ
مزید یہ کہ میں نے حدیث پیش کردی ہے جس سے “حنفی “ نام دکھادیا ہے ۔ لیکن آپ نبی پاک کی حدیث سے اپنی جماعت کا نام نہیں دکھاسکے ۔ ہاں امتیوں کے اقوال ضرور دکھائے ہیں۔
الحمداللہ ہم ہی اہل قرآن ہیں اور ہم ہی اہل حدیث۔ سہج صاحب جواب دیں کہ کیا کسی صحابی نے خود کو حنفی کہا؟ کیا کسی حدیث میں اس گمراہ فرقے کا ذکر آیا؟
“حنفی“ نام مینے حدیث مبارکہ سے دکھادیا ہے اور “گمراہ فرقے“ کانام آپ ابھی تک نا قرآن سے دکھاسکے اور ناں ہی حدیث سے ۔ بلکہ اب جناب کا دعوٰی ہے کہ “ہم ہی اہل قرآن ہیں“؟؟ ماشاء اللہ
بھئی اک بات بتائیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی ہے “ احمد“ آپ اسے کیوں نہیں اپنالیتے ۔ میں کبھی بھی آپ پر اعتراض نہیں کروں گا جب آپ بتائیں گے کہ ہم “ احمدی“ ہیں ۔ کریں ہمت اور دکھائیں جوہر اپنی فہم کے ۔
آپ کا تو پورا مذہب ہی ایک امتی کے فضول اقوال پر مشتمل ہے اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ کیا قرآن وحدیث کسی مذہب کے دلائل ہونے چاہیں یا کسی امام کے ایسے اقوال جن اقوال کے بارے میں خود اس امام کو بھی نہ پتا ہو کہ یہ صحیح ہیں یا غلط؟؟؟ حنفی بیچارے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور ایک ایسے شخص کے اقوال کو دین و مذہب بنائے بیٹھے ہیں جن کے اقوال پل پل بدلتے رہتے تھے۔
آپ اہل حدیث کے دلائل پر تو بہت بات کرتے ہیں لیکن اپنی دلیل بالکل ہی فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ اگر سہج صاحب کو یاد نہیں تو ہم یاد دلا دیتے ہیں کہ حنفی کی دلیل قرآن و حدیث نہیں بلکہ صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے اقوال ہیں۔ کیا سہج صاحب اپنی دلیل سے اپنے مذہب کا کوئی مسئلہ ثابت کر سکتے ہیں؟ نہیں۔ تو پھر دوسروں پر کس منہ سے تنقید کرتے ہیں؟ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لیں۔
بھائی شاھد نذیر مجھے ترس آرہا ہے آپ کی حالت پر ۔ آپ تو ایسے کاٹ کھانے کو پڑ رہے ہو جو کہ آپ کی لکھائی سے صاف ثابت ہورہا ہے جناب ہوش کے ناخن لیجئے آپ کے بڑے اسی فضول اقوال پر مشتمل،صحیح یا غلط سے لاعلم امام، اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے حنفیوں کے بارے میں کیا نصیحتیں کرتے مرگئے مگر کیا کریں آپ غیر مقلدین کے سرکل میں جوبھی آیا وہ بچ نہیں سکا ۔ یا پھر خود ہی اپنی بربادی کا سبب بن گیا جیسے وحید الزمان اور امرتسری۔
“مولوی رشید احمد صاحب کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ خاکسار (مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب) کو جو سبیل الارشاد میں کئی جگہ “فرقہ غیر مقلدین“ کہا گیا ہے یہ مجھے ناگوار گزرا ہے ہم لوگ جو اس گروہ سے علم کی طرف منسوب ہیں۔ منصوصات میں قرآن و حدیث کے پیرو ہیں
اور جہاں نص نہ ملے وہاں صحابہ تابعین و ائمہ مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں خصوصاً آئمہ مزھب حنفی کی جن کے اصول و فروغ کی کتب ہم لوگوں کے مطالعہ میں رہتی ہیں“۔
(اشاعۃ السنہ۔ج23،ص290)
دیکھئیے حضور شاھد نذیر صاحب آپ کے عالم صاحب نے کیا کہا تھا ؟ کہ وہ “ تقلید “ کرتے ہیں ۔ کس کی ؟ اسی ابوحنیفہ کی جسے آپ تبررہ کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور انہی ائمہ حنفی کی کتابیں پڑھتے ہیں جن کے بارے میں آپ کا فرمان ہے کہ وہ “اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں“ مارتے ہیں۔اور آپ کے اکابرین میں سے آپ کے بزرگ انہی احناف کی تقلید کرتے رہے ان مسائل میں جن کی نصوص نہیں ملیں ۔ اسی لئے انہیں ناگوار گزرا “غیر مقلد“ کہہ کر مخاطب کرنا ۔
اب ان کی نصیحت بھی پڑھ لیجئے
“خاکسار نے رسالہ نمبر6 جلدنمبر 20 کے صفحہ 201 اپنے بعض اخوان اور احباب اہلحدیث کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اگر ان کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں اور
جہاں نص قرآنی اور حدیث نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں تو وہ مزہب حنفی یا شافعی(جس مزہب کے فقہ و اصول پر بوقت نص نہ ملنے کے وہ چلتے ہوں) کی طرف اپنے آپ کو منسوب کریں“۔
(اشاعۃ السنہ،ج23،ص291)
دیکھئے جناب شاھد صاحب درس ہے کہ نہیں تقلید کا ؟ آپ کے شمس العلماء صاحب کے بارے میں بھی فرماتے ہیں ۔
“
جس مسئلہ میں مجھے صحیح حدیث نہیں ملتی اس مسئلہ میں میں اقوال مزہب امام سے کسی قول پر صرف اس حسن ظنی سے کہ اس مسئلہ کی دلیل ان کو پہنچی ہوگی تقلید کرلیتا ہوں ۔ ایسا ہی ہمارے شیخ و شیخ الکل (میاں صاحب) کا مدت العمری عمل رہا“۔
(اشاعۃ السنہ،ج22،ص310)
شاھد صاحب اس عبارت سے ثابت ہوا کہ میاں صاحب اور محمد حسین بٹالوی صاحب کو جب کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث سے صریح دلیل نہ ملتی تو تقلید کا ہار گلے میں ڈال لیا کرتے تھے ۔جیسا کہ آپ نے کیا ہے لیکن مانتے نہیں کہ یہ تقلید ہے ۔ دیکھئیے
ہم نے اپنی دلیل کے طور پر کئی چیزیں پیش کیں جن میں ایک قرآن کی آیت اور علامہ ابو منصور بغدادی کی ایک گواہی بھی شامل تھی۔ یہ دونوں ہی دلائل اہل حدیث کے اصول کے عین مطابق تھے کیونکہ کسی ثقہ شخص کی گواہی کو قبول کرنا اور اس پر یقین کرنا قرآن سے ثابت ہے اس لئے ہم اپنے اصول قرآن وحدیث سے بالکل بھی باہر نہیں نکلے۔الحمداللہ
بلکل آپ اپنے اکابرین کی کھینچی گئی لکیروں سے باہر نہیں نکلے وہ بھی کسی کی گواہی مان لیاکرتے تھے جب قرآن و حدیث سے کچھ نہیں ملتا تھا اور آپ کو بھی جب حدیث یا آیت نہیں ملی تو آپ نے بھی ثقہ شخصیت کی تقلید کرلی ۔ اور یہی بات مقلدین کہیں تو آپ کو سمجھ ہی نہیں آتی اور تبرہ بازی شروع ھوجاتی ہے کہ اندھوں کی طرح تقلید کرتے ہو۔ اور
جناب نے زکر کیا قرآنی ثبوت کا ، تو بھائی جان مجھے ضرور وہ ثبوت دکھائیے گا جس کی رو سے آپ مقلدین پر تبرہ کرتے ہیں اور تقلید کو شیطانی عمل کہتے ہیں اور خود اپنے لئے تقلید کے دروازے کھولتے ہیں۔
محمد حسین بٹالوی مزید فرماتے ہیں۔
“اگر آپ کو اجتہاد مطلق کا دعوٰی نہیں ہے اور جہاں نص نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں ۔۔۔
حضرت شیخنا و شیخ الکل سید محمد نزیر حسین دھلوی صاحب شمد العلماء بھی ایسے ہی تھے وہ اہلحدیث کے سردار بھی تھے اور حنفی بھی کہلاتے تھے اور حنفی مزہب کی کتب متون و شرح اور فتاوٰی پر فتوٰی دیتے تھے“۔
(اشاعۃالسنۃ،ج23،ص290)
مزید یہ کہ سیرت ثنائی کے محشی “میاں صاحب“ کے متعلق لکھتے ہیں۔
“فقہ حنفیہ پر حدیث سے زیادہ عبور تھا“۔
(حاشیہ سیرت ثنائی ،ص120)
مولانا بٹالوی صاحب کی مزید بات پڑہیں ۔
“یہ بلا قادیانی کے اتباع کی اکثر اسی فرقہ میں پھیلی ہے جو
عامی و جاہل ہوکر مطلق تقلید کے تارک و غیر مقلد بن گئے ہیں یا ان لوگوں میں جو نیچری کہلاتے ہیں ۔ جو درحقیقت اس قسم کے غیر مقلدوں کی برانچ (شاخ) ہیں۔“
(اشاعۃ السنۃ،ص271،ج15)
جب نام نہاد اہلحدیث دھڑا دھڑ مرزائ عیسائی اور مرتد ہوتے دیکھے تو پھر اپنا پچیس سالہ تجربہ بیان کیا ان الفاظ میں ۔
“پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ
جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق (ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں) اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو سلام کربیٹھتے ہیں۔ کفر و ارتداد و فسوق کے اسباب دنیا میں اور بھی بکثرت موجود ہیں ۔ مگر دینداروں کے بے دین ہوجانے کے لئے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑا بھاری سبب ہے
گروہ اہل حدیث میں جو بے علم یا کم از کم ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں۔ اس گروہ کے عوام آزاد اور خود مختار ہوتے جاتے ہیں“۔
(اشاعۃ السنۃ نمبر2،جلد11،مطبوعہ 1888ء)
اب میں آپ کو آپ کی ہی بات سے جواب عرض کردیتا ہوں اسکے علاوہ اور کچھ نہیں کہتا۔
دوسروں پر کس منہ سے تنقید کرتے ہیں؟ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لیں
مزید فرمایا آپ نے
امت کے جلیل القدر ائمہ نے گواہی دی کہ صرف اہل حدیث ہی صحابہ کے راستے کی صحیح پیروی کرنے والے ہیں اور اگر ائمہ اس سچی بات کی گواہی نہ بھی دیتے تو بھی اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں آنا تھا۔ ہمیں قرآن و حدیث کا سہارا کافی ہے کسی دیوبندی عالم کی حمایت یا سہارے کی ہمیں قطعاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ دیوبندی اکابرین اور علماء ہمارے نزدیک ٹکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ دیوبندی عالم کا حوالہ ہم نے اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کے لئے پیش کیا تھا کیونکہ آپ کا منہ صرف آپکے علماء کے حوالوں ہی سے بند ہوتا ہے ورنہ قرآن و حدیث کے دلائل حنفیوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتے ۔ اگر آپ کے نزدیک بھی دیوبندی علماء بے وقعت ہیں اور ٹکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے تو ہمیں بتادیں آئندہ آپکو دیوبندی علماء کے حوالے پیش نہیں کئے جائیں گے۔
ماشاء اللہ جناب شاھد صاحب صحیح فرمارہے ہیں آپ اوپر جو آپ کے نزیر حسین دھلوی صاحب اور شیخ الکل صاحب کے فرمودات و طریقے پیش کئے آپ انکے ہی مطابق یہ عبارت لکھی ہے ۔ یعنی "امت کے جلیل القدر ائمہ نے گواہی دی " اور آپ نے وہ گواہی مان لی ؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کون مانے گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات خلفہ راشدین کے بارے میں فرمایا تھا (غور سے پڑھئیے گا اوپر بات کر چکا ہوں ) باقی آگے آپ نے ساری "ٹکے ٹکے " کی باتیں لکھی ہیں جن پر کچھ کہنا وقت ضایع کرنا ہوگا ۔ ہاں یہ ضرور کہوں گا آپ سے کہ دیوبندی علماء کے حوالے آپ میرے کو پی ایم کردیا کرو بھائی ،لنک سمیت۔ اور یہاں اپنے دو اصولوں کو پیش کیا کریں صرف ،بغیر امتیوں کے اقوال کی آمیزش کے ۔ اور ہاں یاد آیا ! اگر میں آپ سے درخواست کروں کہ اپنے دو اصول قرآن اور حدیث سے دکھا دیں ،
مکمل ۔ تو دکھادیجئے بھائی مہربانی ہوگی ۔
اصل پیغام ارسال کردہ از: sahj
دیکھئیے بھائی شاہد نذیر دلیل وہ دیاکریں جس کے آگے مجھ جیسا جاہل بھی مجبور ہوجائے کہ اسے مان لے ۔
ستم یہ ہے کہ آپ صرف جاہل نہیں بلکہ پکے ہٹ دھرم بھی ہیں۔ ان اوکاڑوی خصوصیات کے ہوتے ہوئے بھلا کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ کوئی صحیح بات تسلیم کرلینگے؟
دیکھئے بھائی شاھد نذیر ھٹدھرمی آپ کو ہی مبارک ہو مجھے تو آپ صرف جاہل ہی رہنے دیں ۔ باقی یہ لاجک بھی خوب ہے کہ
“آپ کوئی صحیح بات تسلیم کرلیں گے ؟“ بھائی صاحب تسلیم کریں گے کیوں نہیں کریں گے ، لیکن آپ کوئی صحیح بات کریں تب مانیں ناں ۔ آپ تو ایسے لکھتے ہو جیسے جلتے کوئلوں پر بیٹھے لکھ رہے ھو ۔
بھائی صاحب سہی بات کریں اور کوئی دلیل قرآن یا حدیث سے پیش کریں جن کی تشریح آپ کو نہ کرنی پڑے اور بس ۔
آپ نے اہم باتوں کو چھوڑ کر ایک غیر اہم بات پر اتنا طویل تبصرہ فرمایا کہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ دیکھئے محترم میں نے قرآن کی ایک آیت پیش کی اور کہا کہ اس سے ایک اصول ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی گروہ میں شامل ہونے کے لئے اس گروہ کی پیروی لازمی ہے اور جب کوئی شخص کسی گروہ کی پیروی کرتا ہے تو خودبخود اس گروہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ چونکہ صدیقین، صالحین اور شہداء کو یہ مقام اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے حاصل ہوا ہے اس لئے اللہ رب العالمین نے بتادیا کہ اگر تم بھی صدیقین، صالحین اور شہداء کے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہو، ان کا ساتھ اور ان کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو انہی کی طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ بس یہی وہ اصول ہے جس سے کوئی شخص صحابہ کے نقش قدم پر چلتا ہے تو قطع نظر اس کے کہ اس کا پیشہ کیا ہے اگرچہ وہ کوئی موچی یا ڈرائیور ہی کیوں نہ ہو، وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی طرح خود کو اہل حدیث کہلاوا سکتا ہے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کی آیت سے یہ استدلال غلط ہے تو برائے مہربانی بطور دلیل قرآن یا حدیث سے کوئی ایسا اصول بیان کردیں جس سے ہمارا پیش کردہ اصول غلط ثابت ہوجائے۔ آپ نے قرآن کی اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر سے جو کچھ نقل کیا ہے اس سے ہمارے اصول کے صحیح ہونے کی تائید ہوتی ہے۔ اپنا پیش کردہ حوالہ زرا غور سے دوبارہ اور سہہ بارہ پڑھ لیں ان شاء اللہ سمجھ میں آجائے گا
جناب اس اصول سے آخرت میں اہلحدیث بننا ثابت ہوا !!!!
دنیا میں صحابہ کا ساتھ آپ کس دلیل سے ثابت کریں گے ؟؟؟
تو برائے مہربانی بطور دلیل قرآن یا حدیث سے کوئی ایسا اصول بیان کردیں
ماشاء اللہ نزیر صاحب مجھ جاہل سے قرآن اور حدیث بطور دلیل کے مانگ رہے ہیں ؟؟
بھئی ابن کثیر سے آیت کا شان نزول بھی پیش کیا تھا ۔ کیا اس سے بھی جناب کی تسلی نہیں ہوئی؟
جناب اس شان نزول سے ثابت شدہ بات ہے کہ صحابہ بے چین تھے جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
“ساتھ“ کو حاصل کرنے کے لئے ، اسی لئے اللہ نے انہیں یہ خوشخبری دینے والی آیت عطا فرمائی ۔ اب آپ اسے دنیا کی زندگی پر قیاس فرمائیں یا قیاس فرمانے والے علماء کی تقلید کریں یہ آپ کے دعوے کے برعکس عمل ہے یعنی آپ صرف قرآن و حدیث کو دلیل مانتے ہیں ۔باقی رہا موچی اور ڈرائیور کے “حدیث والا “ ہونے کا فرمان عالی شان تو جناب کیا خیال ہے اس پر بھی آپ کوئی اپنے دونوں اصولوں سے کچھ پیش کریں گے ؟؟؟؟؟ میرا خیال ہے آپ اپنے شیخ الکل اور نزیر دھلوی صاحبان کے طریقے کے مطابق چل رہے ہیں ۔ غور فرمائیے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے نزدیک تو صرف اہل حدیث ہی اہل سنت ہیں جبکہ حنفی فرقہ گمراہ اور جہنمی فرقہ ہے۔ اس حقیقت کو کبھی مت بھولا کریں جناب سہج صاحب! اور کبھی کبھی غنیۃ الطالبین کے آئینہ میں اپنا مذہبی چہرہ دیکھتے رہا کریں۔
ماشاء اللہ جناب ایک مقلد بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے قول سے “استدلال “ فرمارہے ہیں ۔ بہت خوب ۔ ارے بھائی صاحب میں تو تھک گیا ہوں آپ کے اس مراسلے کا جواب دیتے ہوئے یہ لکھ لکھ کر کہ
جناب قرآن پیش کریں حدیث پیش کریں کیونکہ آپ کے یہی دو اصول ہیں ۔
بقول آپ کے ۔ لیکن لگتا ہے قرآن اور حدیث کانام صرف رعب داب کے لئے استعمال فرماتے ہیں ؟ حضور کچھ تو خیال کیجئے اپنے غیر مقلد ہونے کا ۔
اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید علم نہیں ہے یعنی جہالت ہے اور مقلد جاہل ہے۔ اب چاہے وہ خود کو مفتی کہے یا عالم یا شیخ الحدیث یا پھر فقہی ہر صورت میں جاہل ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن میں فی الحال اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا میں تو فی الحال صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں جب آپ نے اپنا جاہل ہونا تسلیم کر لیا ہے اور آپ ہی کی طرح حنفی مذہب کا موچی، ڈرائیور، ٹھیلے والا، کباڑی وغیرہ بھی بلا شک جاہل ہی ہوگا تو عرض ہے کہ آپ کا اور اسی طرح موچی و ڈرائیور وغیرہ کا حنفی ہونے کا دعوی سراسر جھوٹا ہے۔
قال فی ردالمحتار للشامی (1-33) ان من التزم مذھبا معیناکابی حنیفۃ والشافعی فقیل یلزم وقیل لاوھو الاصح وقد شاع ان العامی لامذہب لہ۔
کسی نے اپنے اوپر ایک مذہب کو لازم کر لیا جیسے حنفی شافعی تو بعض احناف کہتے ہیں: اس پر اس مذہب سے چمٹے رہنا لازمی ہے اور بعض کہتے ہیں: لازمی نہیں ہے۔ شامی کہتے ہیں کہ دوسری بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ امی (عامی) لامذہب ہواکرتا ہے۔
پھر باب التعزیر (3-190) میں تفصیل سے لکھتے ہیں: عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا جیسے حنفی، شافعی نہیں بن سکتا بلکہ وہ تو زندہ انسان کے فتوے پر چل رہا ہوتا ہے۔، مقلد وہ ہوسکتا ہے جو کسی امام کی کتاب پڑھ لے یا اقوال یاد کرلے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی، تو صرف اپنے آپ کو حنفی شافعی کہہ دینے سے حنفی شافعی نہیں بن سکتا۔ جس طرح اگر کوئی عامی اپنے آپ کو نحوی یا فقیہ کہہ دے تو یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اس سے کوئی نحوی یا فقیہ نہیں بن سکتا۔
دیکھا سہج صاحب آپ نے کہ شامی فرمارہے ہیں کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ لامذہب ہوتا ہے اس لئے محض زبانی دعوے سے نہ تو کوئی حنفی بن سکتا ہے اور نہ شافعی۔ اب تو آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ نہ صرف آپ کا بلکہ موچی، ڈرائیور وغیرہ کا بھی حنفی ہونے کا دعویٰ آپ کے اکابر کے مطابق جھوٹا ہے بلکہ خود کو حنفی کہنے سے نہ تو سہج صاحب اور نہ ہی کوئی دوسرا عامی حنفی بنتا ہے۔ سہج صاحب سے درخواست ہے کہ اپنے حنفی ہونے کی اور دیگر عامیوں کے حنفی ہونے کی کوئی مضبوط دلیل فراہم کریں۔
اوپر جناب کے اکابرین کے اقوال اور تقلید کرنے کے اعترافات پیش کرچکا ہوں ۔ اور اب آپ نے اگلی پوسٹ میں انکے حنفی ہونے کا فرمان بھی جاری کردینا ہے ۔ یہ بات آپ کے اس مراسلہ کے اس حصہ کو پڑھ کر لکھ رہا ہوں ۔ بحرحال میں عام فہم انداز میں بتادیتا ہوں کہ تقلید کون کرے گا ۔
حساب دان کے سامنے جب سوال آئے گا تو وہ خود حساب کے قاعدوں سے سوال کا جوا ب نکال لے گااور جس کو حساب کے قاعدے نہیں آتے یعنی کہ وہ عامی امتی ہے تو وہ حساب دان سے جواب پوچھ لے گا ۔ اسی طرح مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔
1
جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب وسنت پر عمل کرے گا
2
غیر مجتہد امتی یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کتاب و سنت کے ماہر سے پوچھ لوں کہ میں کتاب و سنت کا کیاحکم ہے۔
اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ اور مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدا اور مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگا ہ کیا ہے۔
جبکہ آپ کا اسرار ہے کہ جو جاہل موچی کمہار کباڑی ڈرائیور وغیرہ ہیں وہ سب آپ کی طرح اہلحدیث بن سکتے ہیں یعنی غیر مقلد ، بلکہ آپ تو انہیں صحابہ کی طرح اہلحدیث بناچکے ہیں ۔ وہ بھی ایسا اہلحدیث جو اپنے علماء کی تقلید کرتا ہے ۔ اور پوچھ پوچھ کر قدم اٹھاتا ہے ۔ اک حدیث اس موچی کو پڑھا دو کہ “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتے سمیت نماز پڑھی “ تو وہ موچی صاحب اس حدیث پر عمل کرنے کو مسجد میں جوتے سمیت چلے جائیں ۔ پھر سارے غیر مقلد اسکے پیچھے اور وہ موچی آگے ، یعنی موچی سب سے بڑا اہلحدیث جو حدیث پر عمل کرنے نکلا اور باقی سارے غیر مقلد حدیث کے دشمن جو اسے حدیث پر عمل نہیں کرنے دیتے ۔ آپ کی بات کا مطلب ایسا نکلتا ہے ناں ؟
ابتدائی ادوار میں حنفی وہ لوگ کہلاتے تھے جو امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے پھر وہ لوگ جنھوں نے وہی اصول اختیار کئے جو امام صاحب کے تھے۔مطلب صرف اہل علم ہی حنفی ہوا کرتے تھے۔ اب احناف کے پاس وہ کون سی دلیل ہے جس سے ایک موچی، کمہار، ریڑھی والا، چھولے بیچنے والا، ڈرائیور، کنڈیکٹر بھی خود کو حنفی کہلاواتا ہے؟ کیا یہ لوگ مذہب ابوحنیفہ کے اصول سے واقف ہیں؟ یا انہوں نے ابوحنیفہ کی شاگردی اختیار کی ہے؟
حضور کوئی دلیل اس عزیم الشان سوال پر ؟
وَ اَنۡ اَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ۚ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾
اوریہ کہ سیدھا کر منہ اپنا دین پر حنیف ہو کر اور مت ہو شرک والوں میں
(یونس)
باقی بات ان شاء اللہ آپ کے جواب کے بعد۔
شکریہ