صرف دعوٰی تھا جیسا کہ سب ہی کرتے آرہے ہیں۔
قرآن و حدیث کا دعویٰ تو سب ہی کرتے آرہے ہیں لیکن صرف اہل حدیث کا دعویٰ سچا ہے کیونکہ ان کی تمام کتابوں میں یہی دعویٰ درج ہے جبکہ تقلیدیوں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ مقلد کتاب وسنت کا مکلف نہیں بلکہ قول امام کا مکلف ہے۔ یعنی اگر مقلد عمل کرے گا تو صرف قول امام پر اور اگر پیش کرےگا توصرف قول امام۔یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے صرف کوئی دجال ہی انکار کرے گا۔
مقلد کا امتیازی وصف پوچھا ہی نہیں۔۔ وہ ہمیں معلوم ہے کتاب اللہ ،سنت و حدیث، اجماع و قیاس شرعی ہے۔:)
آپ نے تو نہیں پوچھا لیکن ہم نے اس لئے بتادیا کہ آپ جھوٹ نہ بول سکو کہ مقلد کے لئے بھی قرآن وحدیث ہی دلیل ہے۔ لیکن آفرین ہے آپ کی ہمت پر کہ پھر بھی آپ نے تقلیدی عادت سے مجبور ہوکر جھوٹ بو ل ہی دیا۔ خیر ہمارے پاس اس کا علاج ہے۔ وہ علاج ہے آپ کی مذہبی کتابوں کے حوالے جس سے آپ کا انکار ممکن نہیں۔
نام مسلم الثبوت کا لے رہے ہیں اور حوالہ غیر مقلد امین پشاوری کی کتاب تحفہ المناظرکا۔ اللہ کا خوف کرو۔ کب تک جھوٹ بولوگے۔ کچھ خود بھی تحقیق کر لیا کرو۔ کب تک اپنے مولویوں کی اندھی تقلید کروگے؟
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ حوالہ دینے کا ایک انداز ہے۔ میں دیوبندیوں کی کتاب سے ایسا ہی ایک حوالہ پیش کرتاہوں۔
١۔ صوفی محمد اقبال قریشی نے اپنی کتاب ھدیہ اھلحدیث کے صفحہ ٢٣٩ پر اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی ایک عبارت اپنے مولوی محمد شفیع کی کتاب مجالس حکیم الامت کے حوالے سے نقل کی ہے۔
اگر یہ عمل بقول ابن جوزی صاحب اندھی تقلید ہے تو پھر کیا آپ اعتراف کرینگے کہ صوفی محمد اقبال دیوبندی نے یہ حوالہ دے کر ابوحنیفہ کے بجائے محمد شفیع دیوبندی کی اندھی تقلید اختیار کر لی ہے؟
اگر نہیں تو ایک ہی چیز ہمارے لئے اندھی تقلید اور آپ کے لئے قرآنی حکم کیوں؟ یہ دو غلی پالیسی اچھی چیز نہیں!
آپ ایک مقلد ہیں لہذا آپ کو اپنی حدود یاد دلانے کے لئے ایک اور حوالہ پیش خدمت ہے: رشید احمد لدھیانوی لکھتے ہیں:
رجوع الی الحدیث وظیفہ مقلد نہیں۔(احسن الفتاویٰ: ٣-٥٥)
ثابت ہوا کہ حدیث کی جانب رجوع کرنا اسے سمجھنا اس سے استدلال کرنا یا اسے بطور دلیل ذکر کرنا مقلد کا کام نہیں ہے۔ جبکہ ابن جوزی صاحب تو نہ صرف حدیث کی طرف رجوع کررہے ہیں بلکہ اسے اپنے کفر اور شرک کے لئے دلیل بھی بنارہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
ابن جوزی صاحب ہمیں اس بات کا جواب عنایت فرمادیں کہ ایک مقلد ہوکر بھی قرآن و حدیث پیش کرکے آپ اپنے مذہب سے بغاوت کررہے ہیں یا آپ کے اکابرین جھوٹ بول رہے ہیں؟
مقلد اگر اپنے امام(تمہارے مولویوں کا بھی امام۔ امام اعظم) کی پیروی کرتا ہےتو قرآن کے اس آیت کے تحت فاسئلو اہل الذکر۔۔۔ اس حساب سے آپکا اعتراض قرآن پر ہے؟
ہمارا اعتراض قرآن پر نہیں بلکہ مقلدین کے دوغلے پن پر ہے۔کیونکہ ایک طرف تو یہ لوگ راگ الاپتے ہیں کہ ہم قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتے اس لئے کسی مجتہد کی تقلید اختیار کرتے ہیں اور دوسری طرف امام کی تقلید کو ٹھوکر مار کر خود ہی قرآن و حدیث سمجھ رہے ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سمجھا رہے ہوتے ہیں۔
آپ نے تقلید پر جو دلیل پیش کی ہے قرآن کی اس آیت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ زندہ آدمی سے مسئلہ پوچھنا چاہیے جبکہ مقلدین قرآن کی اس آیت کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مردہ امام کے اقوال دریافت کرتے پھرتے ہیںِ۔قرآن کی اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متعین کئے بغیر کسی سے بھی مسئلہ پوچھا جاسکتا ہے جبکہ دیوبندی مذہب میں متعین کئے بغیر کبھی کسی سے اور کبھی کسی سے مسئلہ پوچھنا اور اس پر عمل کرنا نری گمراہی ہے۔دیکھئے یہ مضمون
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا کیا یہ قرآن کی کھلی مخالفت نہیں؟!
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حنفی مذہب کے اصول کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ عامی کا عالم سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے۔ اس لئے ابن جوزی صاحب کا اس قرآنی آیت کو تقلید کی دلیل بتانا باطل و مردود ہے۔
اس کے علاوہ آپ تو اپنے مذہب کے پابند ہو جس میں قرآن وحدیث مجتہد کے دلائل ہیں مقلد کو اختیار نہیں کہ قرآن وحدیث کی طرف نظر بھی کرے۔اگر مقلد بھی قرآن و حدیث پیش کرنے لگے تو پھر کسی نام نہاد امام اعظم کی ضرورت ہی کیا ہے؟
بخاری کی حدیث پیش کی جاچکی ہے۔ آپ حدیث نہیں مانتے ہم کیا کریں۔
ہم تو بخاری کی حدیث مانتے ہیں لیکن آپ کو ہرگز یہ اختیار نہیں کہ آپ مقلد ہوکر اپنی حدود سے تجاوز کرو اور احادیث پیش کرو۔آپ اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق مسئلہ وحدت الوجود پر امام ابوحنیفہ کا قول پیش کرو۔اور اگر امام کا قول نہ پاؤ تو اس مسئلے کو ترک کردو جس سے آپ کے امام بھی واقف نہیں تھے۔ ورنہ اس بات کا خطرہ ہے کہ آپ اپنے امام سے آگے بڑھ جاؤ گے پھر ابوحنیفہ آپ کے امام نہیں رہیں گے۔جو کہ شاید آپ کو منظور نہ ہو۔
ایسے نا خلف سلف فضلۃ الشیخ تکفیری کی نصوص قطعی ارشادات آپکو ہی مبارک !!
لیجئے آپ کے لئے مزید فتاواجات حاضر ہیں آخر کس کس کو تکفیری کہو گے؟
١۔ وحدت الوجود کے بانی ابن عربی اور اس کی تصنیف فصوص الحکم جو وحدت الوجود کے نظریات سے بھری پڑی ہے کہ بارے میں امام ذھبی رحمہ اللہ نے سیراعلام النبلاء میں فرمایا:
ابن عربی کی سب سے بدترین کتاب ’فصوص الحکم‘ ہے اگر اس میں کفر نہیں تو پھر دنیا میں کہیں بھی کفر نہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے عفو درگزر اور نجات کا سوال کرتے ہیں۔(القول البلیغ فی التحذیر من جماعۃ التبلیغ: ١٣٣)
معلوم ہوا کہ محدث امام ذھبی کے نزدیک وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے کافر ہیں۔
٢۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ امام شیخ الاسلام سراج الدین البلقینی رحمہ اللہ سے ابن عربی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فورا` جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔(لسان المیزان ٤-٣١٩)
یاد رہے کہ اس کافر یعنی ابن عربی کے دفاع میں اشرف علی تھانوی نے ایک کتاب بنام شیخ ابن عربی کا دفاع لکھی ہے جو میرمحمد کتب خانہ کراچی سے تبع شدہ ہے۔اسی بات سے اندازہ کرلیں کہ دیوبندی کس قسم کے لوگ ہیں۔
٣۔ حافظ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن عربی کی کتاب جس کا نام فصوص الحکم ہے اس میں بہت سی چیزیں ہیں جن کا ظاہر کفر صریح ہے۔(البدایۃ والنھایۃ ١٣-١٦٧)
اب ابن جوزی بتائیں کہ کس کس کو ناخلف اور تکفیری قرار دیں گے؟؟؟