• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کے مذہب میں مسجد میں صھبت اور پاخانہ کرنا درست ہے۔

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
جب میں نے پوچھا کہ
اس جگہ کی مارکیٹ ویلیو کی وجہ سے مسجد کو گرایا گیا؟ یا کوئی اور بھی اسباب تھے ؟ جن کو آپ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔؟
تو جناب نے کہا
جی ہاں ۔دین سے دوری اور مسجد کے حق اور تقدس سے ناواقفیت
دین سے دوری کی بات پڑھ کر مشرکین مکہ کے وہ اقوال یاد آگئے جو پیارے حبیبﷺ کے بارے میں بکا کرتے تھے۔ اشارہ ہی کافی ہے۔۔ جناب آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ شرع نے مسجد کا تقدس کس طرح کرنے کی تلقین کی ہے۔؟ کیا اس تقدس میں سے یہ باتیں بھی ہیں کہ
1۔ جہاں مسجد بن جائے اس کو کبھی نہ گرایا جائے
2۔ اگر گرایا بھی جائے تو وہ جگہ ہمیشہ سُن سان (ویران) ہی رکھی جائے اس پر آبادی وغیرہ نہ کی جائے
3۔ جہاں پہلے سے مکانات ہوں وہاں پر مسجد نہ بنائی جائے
4۔ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی نہ کیا جائے۔
بیان کرکے ہمارے علم میں اضافہ فرمائیں۔۔ جواب کا انتظار رہے گا۔

جب میں نے پوچھا کہ
مجھے آپ شرعی طور پہ یہ مسئلہ بتائیں کہ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتا ہے یا نہیں ؟
تو مفتی دی مسلم رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے کیا خوبصورت جواب دیا
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو کبھی مسجد کو گرا کر گھر اور دوکان نہیں بنایا اور نہ ہی مسجد کو منتقل فرمایا۔نہ ہی آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ نے مسجد کو منتقل کرنے کو کہا۔
جناب کے اس فرمان میں یہ باتیں ہیں
1۔ آپﷺ نے مسجد کو نہیں گرایا
2۔ آپﷺ نے مسجد کوگرا کر اس پر مکان نہیں بنایا
3۔ آپﷺ نے مسجد کو منتقل نہیں کیا
4۔ صحابہ نے بھی یہ تینوں کام نہیں کیے
5۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مسجد کومنتقل کرنے کا حکم نہیں دیا۔
پہلے آپ مجھے میرے سوال کا جواب دے دیں کہ جس کام کو اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہو؟ یا نبی کریمﷺ نے کیا ہو؟ یا صحابہ نے کیا ہو؟ وہ ہی ہمارے لیے حجت ہوگا۔؟؟ یا ایسا کام جس کا نہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہو؟ نہ نبی کریمﷺ نے وہ کام کیا ہو؟ اور نہ صحابہ نے کیا ہو؟ لیکن وہ شریعت کےخلاف بھی نہ ہو تو کیا جاسکتا ہے؟؟
یاد رہے اس تھریڈ میں لکھنے کےلیے آپ موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں تو کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا نبی کریمﷺ نے حکم دیا ہے یا پھر کسی صحابی سے جناب کی ملاقات ہوئی ہے اور آپ کو صحابی نے حکم دیا ہے کہ جناب آپ موبائل یا کمپیوٹر کے ذریعے لکھ سکتے ہیں۔؟؟

میں نے پوچھا تھا کہ شرعی طور مجھے بتائیں کہ ’’ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیاجاسکتا ہے یا نہیں ؟ ‘‘ اور آپ نے اس کا جو جواب دیا اسی کو کنفرم کرنے کےلیے سوال کیا ہے۔۔ آپ کے جواب کے بعد مزید گفتگو ہوگی۔

جناب دور نبویﷺ میں مسجد کو گرائے جانے کا واقعہ ہوا یا نہیں ذرا اس بارے بھی جان کاری کرلینا۔۔ تاکہ بعد میں شرمندہ نہ ہونا پڑے
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
شیخ الحدیث گڈ مسلم صاحب١پوسٹ کے جواب میں آپ نے تین چار پینترے بدلے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے۔ نام نہاد اہل حدیث حضرات کی اس ناپاک جسارت پر چکر تو آپ کو خوب آئے ہیں۔
مفتی اعظم جناب دی مسلم صاحب نہ میں نے پینترے بدلےہیں اور نہ مجھے چکر آئے ہیں۔۔ اورنہ کبھی قرآن وحدیث کے داعی کو پینترے بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کبھی ایسے آدمی کو چکر آتے ہیں۔۔ہاں یہ بات مسلم ہے کہ جناب اب پینترے بھی بدلیں گے اور چکر تو آگئے مزید آئیں گے بھی لیکن ساتھ جکھڑوں میں بھی جھولیں گے جھولوں کی طرح۔۔۔
پہلی تو بات یہ ہے کہ اس جگہ مسجد رہی ہی نہیں اس لیے اس جگہ کو مسجد کی جگہ نہیں کہہ سکتے
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نام نہاد اہل حدیث حضرات کی اس ناپاک جسارت کی تائید کر رہے ہیں۔
میری بات کا جواب دینے کےبجائے دوسری جانت ٹُر چلے محترم المقام عزت مآب دی مسلم صاحب۔۔۔نہ جناب میں نے جو پوچھا مجھے صرف اس کا جواب دو دوبارہ واضح انداز میں لکھ دیتا ہوں کہ اگر ایک جگہ مسجد ہو اور اس جگہ سے مسجد کو کسی بھی وجہ سے گرا دیا جائے تو کیا بعد میں اس جگہ کا نام مسجد ہی رہے گایا نہیں؟ اور جناب اگر ہوسکے تو لفظ مسجد کی تعریف بھی کردینا۔۔
دوسری بات بیت الخلاء تو مسجد کے ساتھ بھی ہوتے ہیں ؟ ہوسکتا ہے جہاں گھر کے بیت الخلاء بنائے گئے ہوں وہ اس جگہ پر ہوں جس جگہ مسجد کے بیت الخلاء تھے؟
تیسری بات ہوسکتا ہے جہاں بیڈ رکھا گیا ہو وہ جگہ مسجد میں آتی ہی نہ ہو ؟ یا پھر آپ کس طرح یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ’’اور بیڈ روم بھی ہے جہاں صحبت کی جاتی ہے‘‘؟؟ کیونکہ گھر میں صحبت کرنے کےلیے کیا بس ایک ہی بیڈ ہے ؟

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نام نہاد اہل حدیث حضرات کی اس ناپاک جسارت نے آپ کے ضمیر کو خوب جھنجھوڑا ہے ۔ "کہ گڈ مسلم جس جگہ مسجد بن جائے۔ وہ تو بیت اللہ ہے جنت کا ٹکڑا ہے، پاک ہے۔ تو مسجد کو منتقل کرنے کی دلیل کہاں سے لاو گے"۔
پہلی بات محترم جناب آپ کیسی باتیں کررہے ہیں؟ میں نے کچھ ممکن اشکالات اٹھائے ہیں آپ ان کا رد کرنے کے بجائے میرے ضمیر پر آ ٹپکے۔۔ جناب کی طرف سے پوسٹ کی گئی ہے اس لیے جو بھی اشکال اٹھایا جائے گا جناب کو مدلل انداز میں رفع کرنا ہوگا۔ اس لیے شاباش دیر مت کریں اور میرے اشکالات کو رفع کریں۔
دوسری بات آپ نے فرمان جاری کیا کہ ’’ جس جگہ مسجد بن جائے۔ وہ تو بیت اللہ ہے جنت کا ٹکڑا ہے، پاک ہے۔‘‘ جناب مجھے بھی اس بات سے انکار نہیں اور نہ میں نے پہلے کوئی انکار کیا ہے۔۔یاد رکھنا آپ نے جو الفاظ لکھے کہ ’’ جس جگہ مسجد بن جائے۔‘‘ یہاں بات کوئی اور چل رہی ہے شاید آپ خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر آئیں تو پتہ چلے۔جناب یہاں بات ہورہی ہے اس جگہ کی جہاں پہلے مسجد تھی اب نہیں۔۔یعنی جس جگہ پہلے مسجد ہو بعد میں اس کو کسی اور جگہ منتقل کرکے اس جگہ پہ مکانات وغیرہ تعمیر کیے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟
یہاں اس شبے کا جواب بھی دیتے جائیں کہ مارکیٹ اور مکان بنانے کیلیے اگر خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا مسجد اقصیٰ کو منتقل کرنا پڑے ۔تو آپ تائید کریں گے؟
آپ کے شبہے سے پہلے بھی ایک شبہ سر اٹھائے کھڑا ہے وہ یہ کہ اگر کسی وجہ سے خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مسجداقصیٰ کی توسیع کرنی پڑ جائے ( جو کہ کی گئی ہے لیکن آپ کا جواب مطلوب ہے) اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ساتھ ساتھ مکانات وغیرہ بھی ہیں تو آپ تائید کریں گے۔؟؟؟
آپ اس بات کا الزام اہل حدیث کے کسی فرد کو نہیں بلکہ پورے مذہب اہل حدیث کو ( اور آپ کو پتہ ہے کہ اہل حدیث میں کن کن شخصیات کے نام آتے ہیں، یا لفظ اہل حدیث کن لوگوں پر بولا جاتا ہے ؟ ) دے رہے ہیں

آپ کی آخری بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس ناپاک جسارت سے اہل حدیث مذھب اور باقی اہل حدیث عوام الناس کو بری ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو کہ قابل تحسین ہے۔
محترم جناب آپ لوگ ہی بعد میں چیختے ہیں کہ فرد کی باتیں پورے مسلک پہ کیوں فٹ کی جاتی ہیں۔۔ اصولی بات کی ہے کہ کسی بھی مسلک کے کچھ آدمیوں کا فعل پورا مسلک نہیں ہوا کرتا۔۔اگر جناب کو معلوم نہیں تو اپنے بڑوں سے ہی پوچھ لینا۔۔
مقصد اس پوسٹ کا یہ ہے کہ آپ لوگوں کے پوسٹس ان صاحب کو دیکحا کر ۔ یہ ثابت کیا جا ئے کہ باقی اہل حدیث عوام آپ کی اس بد حرکت سے بری ہیں۔ اور آپ اس فعل مکروہ سے توبہ کریں۔ اور مسجد کی جگہ کو مسجد ہی رہنے دیں۔
شرعی طور پہ آپ ہمیں دکھا دیں کہ یہ حرکت بد ہے مکروہ ہے اور جس جگہ ایک بار مسجد بن جائے ہمیشہ وہاں مسجد ہی بنی رہےاس کو منتقل نہیں کیاجاسکتا۔۔تب ہی آپ کی پوسٹ کا مقصد پورا ہوگا۔۔ اور ہم مل کر اس آدمی کو سمجھائیں گے کہ آپ نے غلط کام کیا ہے۔۔جب تک آپ شرعی طور ہمیں مطمئن نہیں کرلیتے تب تک آپ کا بد حرکت کہنا مکروہ کہنا الفاظ ہی رہیں گے جس کا بوجھ آپ پر ہی ہوگا۔۔
اور اگر کوئی اہل حدیث بھائی یا اہل حدیث مدرسہ والے یا صاحب حیثیت شخص ان کو خط لکھ کر سرزنش کرے تو انشااللہ ان کو ثواب ملے گا۔معتدل اور حق شناس اہل حدیث حضرات اس پر ضرور غور کریں۔
اہل حدیث شریعت کو ماننے والے ہوتے ہیں نہ کسی کے مقلد ہوتے ہیں اور نہ پیروں فقیروں کے مرید۔۔۔شرعی طور پہ آپ ہمیں اس بارے آگاہ فرمائیں کہ مسجد کو منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر مسجد منتقل کردی جائے تو اس جگہ کو کسی کھاتے استعمال میں لایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ شریعت اس بارے کیا کہتی ہے۔ مفتی اعظم صاحب فتوے کا انتظار رہےگا۔
تاکہ ایک مسلمان کو دنیا اور آخرت کی ضلالت اور رسوائی سے بچایا جا سکے۔
ایک آدمی کا مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے اس جگہ مکان تعمیر کرنے کو آپ اس لیے آخرت کی ضلالت اور رسوائی کہہ رہے ہیں کیونکہ مالک مکان اس میں پاخانہ بھی کرے گا اور ہمبستری وغیرہ بھی ہوگی چونکہ اس جگہ پہلے مسجد تھی اس لیے یہ دونوں فعل مسجد میں ہی ہونے کے مترادف ہیں۔۔۔جناب ذرا کنفرم کردیں کہ آپ انہیں وجوہات کی وجہ سے آخرت کی ضلالت اور رسوائی سے تعبیر کررہے ہیں؟؟ اگر یہی وجوہات ہیں تو پھر حرب بن شداد بھائی کے ان الفاظ پر بھی غور کرلینا۔شاید آپ کو اپنے الفاظ کی سختی یاد آجائے اور توبہ کرنے کی توفیق بھی مل سکے۔
’’ مسجد نبوی کا وہ حصہ جو حضرت آئشہ رضی اللہ عنہ کا حجرہ تھا وہ بھی مسجد کے اندر ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری نہیں مزید وضاحت پیش کی جائے۔۔۔ ‘‘
 

مشہودخان

مبتدی
شمولیت
جنوری 12، 2013
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
0
محترم جناب آپ لوگ ہی بعد میں چیختے ہیں کہ فرد کی باتیں پورے مسلک پہ کیوں فٹ کی جاتی ہیں۔۔ اصولی بات کی ہے کہ کسی بھی مسلک کے کچھ آدمیوں کا فعل پورا مسلک نہیں ہوا کرتا۔۔اگر جناب کو معلوم نہیں تو اپنے بڑوں سے ہی پوچھ لینا۔۔
یہ دو رخی بات
آپ لوگ رات دن یہ کام انجام دیتے ہیں کبھی کسی دیوبندی کو پکڑلیا اور کبھی کبھی کسی بریلوی کو پکڑ لیا اور بد نام کردیا ابو حنفیہ کو دیکھو ہئ نہیں دورخی بات میٹھا میٹھا ہپ ہپ کھٹا کھٹا تھو تھو
آپ کے شبہے سے پہلے بھی ایک شبہ سر اٹھائے کھڑا ہے وہ یہ کہ اگر کسی وجہ سے خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مسجداقصیٰ کی توسیع کرنی پڑ جائے ( جو کہ کی گئی ہے لیکن آپ کا جواب مطلوب ہے) اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ساتھ ساتھ مکانات وغیرہ بھی ہیں تو آپ تائید کریں گے۔؟؟؟
جناب گڈ صاحب توسیع الگ چیز ہے تجدید الگ چیز ہے اور منتقل کرنا با لکل الگ موضوع ہے ۔
شرعی طور پہ آپ ہمیں دکھا دیں کہ یہ حرکت بد ہے مکروہ ہے اور جس جگہ ایک بار مسجد بن جائے ہمیشہ وہاں مسجد ہی بنی رہےاس کو منتقل نہیں کیاجاسکتا۔۔تب ہی آپ کی پوسٹ کا مقصد پورا ہوگا۔۔ اور ہم مل کر اس آدمی کو سمجھائیں گے کہ آپ نے غلط کام کیا ہے۔۔جب تک آپ شرعی طور ہمیں مطمئن نہیں کرلیتے تب تک آپ کا بد حرکت کہنا مکروہ کہنا الفاظ ہی رہیں گے جس کا بوجھ آپ پر ہی ہوگا۔۔
جو جگہ وقف کردی گئی ہو اس میں تصرف کرنا کون سی شریعت کی بات ہے
مسجد عارضی کو منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن مسجد اصلی کو کیسے جائز کہیں گے گڈ مسلم صاحب ہم نے بھی لائیبریاں کھنگالی ہیں جناب
اہل حدیث شریعت کو ماننے والے ہوتے ہیں نہ کسی کے مقلد ہوتے ہیں اور نہ پیروں فقیروں کے مرید۔۔۔شرعی طور پہ آپ ہمیں اس بارے آگاہ فرمائیں کہ مسجد کو منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر مسجد منتقل کردی جائے تو اس جگہ کو کسی کھاتے استعمال میں لایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ شریعت اس بارے کیا کہتی ہے۔ مفتی اعظم صاحب فتوے کا انتظار رہےگا۔
اہل حدیث من وادی ہوتے ہیں ان کا اسکول کا فارغ ایک رائے رکھتا ہے اور مفتی ہوتا ہے
ایک آدمی کا مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے اس جگہ مکان تعمیر کرنے کو آپ اس لیے آخرت کی ضلالت اور رسوائی کہہ رہے ہیں کیونکہ مالک مکان اس میں پاخانہ بھی کرے گا اور ہمبستری وغیرہ بھی ہوگی چونکہ اس جگہ پہلے مسجد تھی اس لیے یہ دونوں فعل مسجد میں ہی ہونے کے مترادف ہیں۔۔۔جناب ذرا کنفرم کردیں کہ آپ انہیں وجوہات کی وجہ سے آخرت کی ضلالت اور رسوائی سے تعبیر کررہے ہیں؟؟ اگر یہی وجوہات ہیں تو پھر حرب بن شداد بھائی کے ان الفاظ پر بھی غور کرلینا۔شاید آپ کو اپنے الفاظ کی سختی یاد آجائے اور توبہ کرنے کی توفیق بھی مل سکے۔
’’ مسجد نبوی کا وہ حصہ جو حضرت آئشہ رضی اللہ عنہ کا حجرہ تھا وہ بھی مسجد کے اندر ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری نہیں مزید وضاحت پیش کی جائے۔۔۔ ‘‘
اچھے دلائل دے رہے ہیں اور پکش پات بھی فرمارہے ہیں آپ کا کوئی بھی آدمی تو فتویٰ دے سکتا ہے
حجرہ پہلے تھا اب کیا ہے
ہم بھی دیکھیں کہ پھر دوبارہ اس کو حجرہ بنا سکتے ہیں کیا
بابری مسجد کے بارے میں کیا خیال ہے کیا اس کو مندر میں تبدیل کردیا جائے
 

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
السلام و علیکم و رحمۃاللہ !

اس سلسلے میں ایک فتوٰی پیشِ خدمت ہے جو کہ فتاوٰی علمیہ جلد 1 صفحہ نمبر 238 میں موجود ہے۔ یہ فتوٰی حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے دیا ہے۔

سوال: ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک اور گاؤں ہے، اس گاؤں کے باہر ایک مسجد تھی لیکن اب گاؤں والوں نے گاؤں کے اندر ہی نئی مسجد بنا لی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب ہم اس پہلی مسجد کو جو بالکل بند پڑی ہے اسے سکول بنا سکتے ہیں یامسجد کی عمارت شہید کر کے اسے عید گاہ بنا سکتے ہیں ؟ کیونکہ مسجد بالکل بند ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ (ایک سائل)
الجواب:بہتر یہ ہے کہ مسجد کو تبدیل نہ کیا جائے بلکہ اسے آباد کیا جائے۔ اگر اس گاؤں کے صحیح العقیدہ لوگ بالاتفاق اسے عید گاہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کی تحقیق میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نےلکھا ہے :حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ملا کر اس کو فراخ کردیا۔ ملاحظہ ہو فتاوٰی ابن تیمیہ (فتاوٰی اہلِ حدیث ج 1 ص 349)
اس سلسلے میں انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جامع مسجد ، کھجوروں کے تاجروں سے بدل کر دوسری جگہ لے گئے اور وہاں بازار بن گیا (ایضاََ)
اس کے برعکس بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ جہاں مسجد بن جائے اسے قیامت تک تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ و اللہ اعلم (شہادت ، جولائی 1999ء)
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
السلام و علیکم و رحمۃاللہ !

اس سلسلے میں ایک فتوٰی پیشِ خدمت ہے جو کہ فتاوٰی علمیہ جلد 1 صفحہ نمبر 238 میں موجود ہے۔ یہ فتوٰی حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے دیا ہے۔

سوال: ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک اور گاؤں ہے، اس گاؤں کے باہر ایک مسجد تھی لیکن اب گاؤں والوں نے گاؤں کے اندر ہی نئی مسجد بنا لی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب ہم اس پہلی مسجد کو جو بالکل بند پڑی ہے اسے سکول بنا سکتے ہیں یامسجد کی عمارت شہید کر کے اسے عید گاہ بنا سکتے ہیں ؟ کیونکہ مسجد بالکل بند ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ (ایک سائل)
الجواب:بہتر یہ ہے کہ مسجد کو تبدیل نہ کیا جائے بلکہ اسے آباد کیا جائے۔ اگر اس گاؤں کے صحیح العقیدہ لوگ بالاتفاق اسے عید گاہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کی تحقیق میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نےلکھا ہے :حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے راستہ تنگ ہونے کی وجہ سے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ملا کر اس کو فراخ کردیا۔ ملاحظہ ہو فتاوٰی ابن تیمیہ (فتاوٰی اہلِ حدیث ج 1 ص 349)
اس سلسلے میں انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جامع مسجد ، کھجوروں کے تاجروں سے بدل کر دوسری جگہ لے گئے اور وہاں بازار بن گیا (ایضاََ)
اس کے برعکس بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ جہاں مسجد بن جائے اسے قیامت تک تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ و اللہ اعلم (شہادت ، جولائی 1999ء)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ !
محترم بھائی ! یہ جواز کا فتویٰ تو شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ،مولانا عبدالستار حماد حفظہ اللہ اور شیخ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے بھی دیا ہے اور حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی دیا ہے جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا۔جزاک اللہ خیرا۔
اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام شیوخ نے اعتماد کیا ہے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتویٰ پر اور اگر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتویٰ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے یہ فتویٰ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے دیا ہے اور وہ اصل فتویٰ میں نے کچھ دن قبل پوسٹ بھی کیا تھا :
مسجد تبدیل کرنے کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مؤقف :
وَسَأَلته عَن رجل بنى مَسْجِدا ثمَّ أَرَادَ تحويله إِلَى مَوضِع آخر أَله أَن يحوله ويهدم الأول أَو يَدعه على حَاله وَيَبْنِي الآخر وَإِن كَانَ الَّذِي يبنيه ضَرَر بِالْأولِ مَا ترى قَالَ إِن كَانَ الْمَسْجِد الَّذِي بناه يُرِيد أَن يحوله خوفًا من لصوص أَو يكون مَوْضِعه مَوضِع قذر فَلَا بَأْس أَن يحوله يُقَال إِن بَيت المَال نقب وَكَانَ فِي الْمَسْجِد فحول الْمَسْجِد ابْن مَسْعُود۔[مسائل الامام احمد بن حنبل بروایة ابنه صالح :٢٩٥/١]
لیکن جو واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا اس کو باسند امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے بھی بیان نہیں کیا۔
مجھے بہت کوشش کے باوجود اس واقعہ کی سند کے بارے میں کچھ علم نہ ہو سکا۔چونکہ بنیاد ان تمام فتاویٰ کی اس واقعہ پر ہے اس لیے اگر کسی بھائی کو اس کی سند کے بارے میں بھی کچھ علم ہو تو ضرور شیئر کریں تاکہ فتوے میں مزید پختگی آسکے۔
ویسے میری ذاتی رائے (جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے) یہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ جیسے ماہر اسماء الرجال نے بھی اپنی عادت کے بر خلاف اس روایت کی تحقیق پیش کئے بغیر فتویٰ دیا ہے ۔۔۔۔اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی سند میں کچھ گڑبڑ ہے !! واللہ اعلم۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
مسجد کی منتقلی کی شرعی بحث سے قطع نظر دی مسلم صاحب نے عنوان بہت غلط قائم کیا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
دی مسلم صاحب اگر کوئی حنفی مولانا صاحب ایسا کرتے تو تب بھی آپ یہی عنوان قائم کرتے؟
احناف کے مذہب میں مسجد میں صھبت اور پاخانہ کرنا درست ہے۔
 

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
لیکن جو واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا اس کو باسند امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے بھی بیان نہیں کیا۔
مجھے بہت کوشش کے باوجود اس واقعہ کی سند کے بارے میں کچھ علم نہ ہو سکا۔چونکہ بنیاد ان تمام فتاویٰ کی اس واقعہ پر ہے اس لیے اگر کسی بھائی کو اس کی سند کے بارے میں بھی کچھ علم ہو تو ضرور شیئر کریں تاکہ فتوے میں مزید پختگی آسکے۔
ویسے میری ذاتی رائے (جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے) یہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ جیسے ماہر اسماء الرجال نے بھی اپنی عادت کے بر خلاف اس روایت کی تحقیق پیش کئے بغیر فتویٰ دیا ہے ۔۔۔۔اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی سند میں کچھ گڑبڑ ہے !! واللہ اعلم۔
میرے محترم بھائی، آپ نے تلاش کیا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے، میرے پاس تو تلاش کے لیے کوئی مواد نہیں ، صرف زبیر صاحب کے فتاوٰی سے ہی کاپی کیا کہ شاید کچھ مدد مل سکے اور کوئی بھائی اس پر مزید بات کو آگے بڑھا سکے.

اس کے علاوہ عرض کروں گا کہ آپ حافظ زبیر علی زئی حفظہ االلہ کے ماضی کے طرزِ عمل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان سے حسنِ ظن رکھیئے، جس طرح دیگر اہلِ علم نے اس مسئلہ میں ان کی موافقت کی ہے ، جیسا کہ آپ نے نشان دہی فرمائی، ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کی سند کی تفصیل موجود ہو. واللہ اعلم

اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنی کوشش کو بھی جاری رکھئیے، اور اگر کسی بھی بھائی کو اس کی سند مل جائے تو ضرور شیئر کرے. شکریہ.
 

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
مسجد کی منتقلی کی شرعی بحث سے قطع نظر دی مسلم صاحب نے عنوان بہت غلط قائم کیا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
دی مسلم صاحب اگر کوئی حنفی مولانا صاحب ایسا کرتے تو تب بھی آپ یہی عنوان قائم کرتے؟
احناف کے مذہب میں مسجد میں صھبت اور پاخانہ کرنا درست ہے۔
جی ہاں احناف کا طریقہِ واردات عموماََ ایسا ہی ہوتا ہے. (الا من رحمَ ربی) بات کا بتنگڑ بنانا. یہاں تک کے ان کی کتب میں بھی (جو اہلِ حدیث کے خلاف لکھی جاتی ہیں) یہی طرزِ عمل ان کے "علماء" کا ہوتا ہے. عنوان کچھ ایسا ہوتا ہے جس سے ایک عام اہلِ حدیث پریشان ہو جاتا ہے کہ یا اللہ خیر !! لیکن جب تحریر کو مکمل طور پر پڑھ لیتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ "کچھ بھی نیا نہیں".

اللہ ہی ان کو ہدایت دے.
 

مشہودخان

مبتدی
شمولیت
جنوری 12، 2013
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
0
مدِنظر رکھتے ہوئے ان سے حسنِ ظن رکھیئے،
حسن ظن تو سبھی سے رکھنا چاہئے
کتاب و سنت سے دلیل دی جائے شخصی دلائل تو یہ تو پھر وہی بات ہوئی نہ کہ تقلید آپ حضرات بھی کررہے ہیں وہ بھی تقلید شخصی نہیں بلکہ تقلید کثیری
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
میرے محترم بھائی، آپ نے تلاش کیا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے، میرے پاس تو تلاش کے لیے کوئی مواد نہیں ، صرف زبیر صاحب کے فتاوٰی سے ہی کاپی کیا کہ شاید کچھ مدد مل سکے اور کوئی بھائی اس پر مزید بات کو آگے بڑھا سکے.

اس کے علاوہ عرض کروں گا کہ آپ حافظ زبیر علی زئی حفظہ االلہ کے ماضی کے طرزِ عمل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان سے حسنِ ظن رکھیئے، جس طرح دیگر اہلِ علم نے اس مسئلہ میں ان کی موافقت کی ہے ، جیسا کہ آپ نے نشان دہی فرمائی، ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کی سند کی تفصیل موجود ہو. واللہ اعلم

اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنی کوشش کو بھی جاری رکھئیے، اور اگر کسی بھی بھائی کو اس کی سند مل جائے تو ضرور شیئر کرے. شکریہ.
جی بھائی حسن ظن بالکل ہے۔لیکن جب تلک دلیل نہ آجائے اس وقت تک ہمیں احتیاط کا پہلو مدنظر رکھتے ہوئے جو دلیل ہمارے پاس موجود ہے اسی کی پیروی کرنی چاہیے۔
حسن ظن کی ایک مثال یاد آگئی وہ بھی شیئر کر دیتا ہوں
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ [٣١:١٤]
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
مندرجہ بالا آیت کی تفسیر کے تحت شبیر احمدعثمانی صاحب لکھتے ہیں:
تنبیہ:دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔امام ابو حنیفہ رح جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔(تفسیر عثمانی،ناشر پاک کمپنی لاہور،ص ٥٤٨)
میں ان شاءاللہ شیخ صاحب سے کسی ملاقات میں خود دریافت کروں گا اس بارے میں اور یہاں اپ ڈیٹ بھی کر دوں گا۔
 
Top