• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت والجماعت کا تجزیہ سن ۴۰۰ صدی ہجری سے ۱۲۵۰ صدی ہجری تک

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
امام بیہقی ؒ سے لیکر جتنے بھی علماء کا تذکرہ آپ نے فرمایا وہ یاتو شافعی تھے یاحنفی، مالکی، یا حنبلی’ سوائے امیر صنعانیؒ اور قاضی شوکانیؒ جوکہ پہلے زیدی فقہ سے تعلق رکھتے تھے اور بعد میں انہوں نے وہ فقہ چھوڑ دی۔
تسلسل!۔۔۔
چنانچہ عقدی اختلاف کی صورت میں دو جماعتیں سامنے آئیں (۱) اہل سنت والجماعت (۲) اوراہل بدعت۔سن ۴۰۰ صدی ہجری صدی کے بعد سے سن ۱۲۵۰ صدی ہجری تک دنیا کا ہر عالم (اہل سنت والجماعت) ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے لگا اس زمانہ میں نہ کوئی اثری ہمیں ملتا ہے نہ سلفی نہ غیر مقلد نہ مدخلی نہ تیمی نہ البانوی نہ غرباء اہلحدیث حتی کہ اہل حدیث جنکا وجود چوتھی صدی کے آخر تک تھا’ انکا وجود بھی ختم ہوگیا اس زمانہ ہمیں صرف حنفی،شافعی، مالکی، حنبلی عالم ہی ملتا ہے۔
اب آپ اپنے جس عقیدے کی طرف ہماری توجہ مبزول کروانا چاہ رہے ہیں کچھ اس طرح سے ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے گا تو یہاں پر ایک سوال ہے؟؟؟۔۔۔ جس کو پوچھنے کی اجازت چاہوں گا۔۔۔یہاں پر جو نقطہ قابل غور ہے وہ یہ کہ جب ابدی قانون زندگی کا مجموعہ امام ابوحنیفہؒ اور اُن کے تلامذہ نے مرتب کیا تو پھر اُسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے امام شافعؒی، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ امام لیثؒ اور امام اورزیؒ کو کیا ضرورت پیش آگئی۔۔۔ یہ ہی سوال آپ کی خواہش پر رد کے جواب میں واضح دلیل ہے۔۔۔ اس طرح! بقول علامہ شامیؒ!۔ کہ احناف نے ١٧ مسائل میں امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین ؒکے اقوال کو چھوڑ کر امام زفر ؒکے قول پر فتوٰی نہیں دیا (شامی جلد ١ صفحہ ٧١) کیا کہنا چاہیں گے؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
تسلسل!۔۔۔


اب آپ اپنے جس عقیدے کی طرف ہماری توجہ مبزول کروانا چاہ رہے ہیں کچھ اس طرح سے ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے گا تو یہاں پر ایک سوال ہے؟؟؟۔۔۔ جس کو پوچھنے کی اجازت چاہوں گا۔۔۔یہاں پر جو نقطہ قابل غور ہے وہ یہ کہ جب ابدی قانون زندگی کا مجموعہ امام ابوحنیفہؒ اور اُن کے تلامذہ نے مرتب کیا تو پھر اُسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے امام شافعؒی، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ امام لیثؒ اور امام اورزیؒ کو کیا ضرورت پیش آگئی۔۔۔ یہ ہی سوال آپ کی خواہش پر رد کے جواب میں واضح دلیل ہے۔۔۔ اس طرح! بقول علامہ شامیؒ!۔ کہ احناف نے ١٧ مسائل میں امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین ؒکے اقوال کو چھوڑ کر امام زفر ؒکے قول پر فتوٰی نہیں دیا (شامی جلد ١ صفحہ ٧١) کیا کہنا چاہیں گے؟؟؟۔۔۔
وہی حال ہورہا ہے یہاں پر ۲+۲ چار روٹی (ابتسامۃ)

میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ چار مناہج کا اعتبار ہوا پھر آپ فرمارہے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے ابدی زندگی کے قوانین وضع فرمادئے !! گویا آپ ہمیں بھی ان جہال کی صفوں میں شامل کرنا چارہے ہیں جنکی نزدیک امام ابو حنیفہؒ ہی دین کا دوسرا نام ہیں۔
بہر کیف میں نے آپکے سامنے کچھ شرائط ذکر کردی ہیں اور اگر اسکا جواب ندارد تو اسکا مطلب یہ ہیکہ ان چار مذاہب پر علماء اہل سنت والجماعت کا اجماع ہوچکا تھا۔ پھر اس اجماع کی مخالفت کرنا آپکے نزدیک کتنی درست ہے؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ان چار مذاہب پر علماء اہل سنت والجماعت کا اجماع ہوچکا تھا۔ پھر اس اجماع کی مخالفت کرنا آپکے نزدیک کتنی درست ہے؟
یہ اجماع کن لوگوں نے کیا اور ان کے تعلق کس مسلک سے تھا؟؟؟۔۔۔
اجماع کی مخالف کرنا آپکے نزدیک کتنی درست ہے
اجماع کی مخالفت دکھائی دے رہی لیکن!َ
جامع ازہر کے استاد شیخ محمود عبدالوہاب کا بیان ہے کہ میں نے اریاف کی جامع مسجد میں مغرب کی نماز پڑھی ان صلاتکم بالطۃ کہ تمہاری نماز باطل ہے نماز دوبارہ پڑھو چنانچہ دوبارہ تکبیر ہوئی پہلے امام نے اس آواز دینے والے کے پیچھے نماز دوبارہ پڑھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے پوچھا جناب مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی تھی؟؟؟۔۔۔ تو اس نے کہا تم نے بسم اللہ فاتحہ کے ساتھ نہیں ُڑھی اسی طرح شیخ عبدالجلیل عیٰسی نے ذکر کیا کہ میں نے شافعیوں کو حنفی یا مالکی کے پیچھے جمعہ کے روز صبح کی نماز پڑھتے دیکھا حنفی امام نے سورہ السجدہ صبح کی نماز میں نہ پڑھی تو شافعیوں نے نماز دہرائی (الفرقان صفحہ ٥٥ عدد ٤٨ اپریل ١٩٩٤ء)۔۔۔
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لایبقی وراثہ شیء فقد حادعن الصواب۔۔۔
ایک سوال چھوڑے جارہا ہوں۔۔۔
کیا آئمہ فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لئے کافی ہے؟؟؟۔۔۔
کیونکہ اوپر آپ نے کچھ اس طرح بیان فرمایا۔۔۔
چنانچہ قرن رابع کے شروع ہوتی ہی اہل سنت والجماعت کے صرف چار مناہج بچ گئے۔۔۔
۴۰۰ صدی ہجری صدی کے بعد سے سن ۱۲۵۰ صدی ہجری تک دنیا کا ہر عالم (اہل سنت والجماعت) ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے لگا اس زمانہ ہمیں صرف حنفی شافعی مالکی اور حنبلی عالم ہی ملتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
یہ اجماع کن لوگوں نے کیا اور ان کے تعلق کس مسلک سے تھا؟؟؟۔۔۔
اجماع کی مخالفت دکھائی دے رہی لیکن!َ
جامع ازہر کے استاد شیخ محمود عبدالوہاب کا بیان ہے کہ میں نے اریاف کی جامع مسجد میں مغرب کی نماز پڑھی ان صلاتکم بالطۃ کہ تمہاری نماز باطل ہے نماز دوبارہ پڑھو چنانچہ دوبارہ تکبیر ہوئی پہلے امام نے اس آواز دینے والے کے پیچھے نماز دوبارہ پڑھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے پوچھا جناب مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی تھی؟؟؟۔۔۔ تو اس نے کہا تم نے بسم اللہ فاتحہ کے ساتھ نہیں ُڑھی اسی طرح شیخ عبدالجلیل عیٰسی نے ذکر کیا کہ میں نے شافعیوں کو حنفی یا مالکی کے پیچھے جمعہ کے روز صبح کی نماز پڑھتے دیکھا حنفی امام نے سورہ السجدہ صبح کی نماز میں نہ پڑھی تو شافعیوں نے نماز دہرائی (الفرقان صفحہ ٥٥ عدد ٤٨ اپریل ١٩٩٤ء)۔۔۔
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لایبقی وراثہ شیء فقد حادعن الصواب۔۔۔
ایک سوال چھوڑے جارہا ہوں۔۔۔
کیا آئمہ فقہاء کا اجتہاد قیامت تک کے لئے کافی ہے؟؟؟۔۔۔
کیونکہ اوپر آپ نے کچھ اس طرح بیان فرمایا۔۔۔
حرب بن شداد صاحب میرا خیال ہیکہ آپ اچھی طرح میری باتیں سمجھ چکے ہیں اس لئے میں آپکے سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کرونگا۔
در اصل مذاہب اربعہ صرف ان علماء مجتہدین کے فتاووں کے مجموعہ کا نام ہی نہیں’ بلکہ قرآن وحدیث سے استنباط کرنے کا طریقہ جسکو بعد میں اصول فقہ کے نام سے پہچانا جانے لگا ان اصولوں کا نام منہج حنفی شافعی مالکی اور حنبلی رکھا گیا
مثال کے طور پر امام مالکؒ کا اصول یہ ہیکہ اگر اہل مدینہ کا تعامل حدیث صحیح کے مخالف ہو تو فتوی اہل مدینہ کے تعامل پر معتبر ہوگا جیسے اوزان نبوی کے اندر احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے مگر امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ اس زمانہ کے اہل مدینہ عام طور پر صحابہ کرام کی اولاد میں سے تھے اور اوزان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم انکے پاس برتنوں کی صورت میں موجود تھے جیسے مد کسی برتن میں سموجانے والے برتن کے برابر کی مقدار چاول’ چنانچہ ایسی جگہوں پر وہ حدیث مروی کی مخالفت کرتے ہوئے سنت متوارث کو ترجیح دیا کرتے تھے اور یہ انکا ایک اصول تھا جسکو باقی ائمۃ ثلاثۃ نہیں مانتے۔
اسی طرح امام احمدؒ کا اصول یہ تھا کہ اگر کسی ایک مسئلہ کے اندر تو طرح کی احادیثیں آجائیں تو وہاں دونوں پر عمل کرو کیونکہ دونوں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جبکہ ائمہ ثلاثۃ اس اصل کو نہیں مانتے انکی رائے یہ ہیکہ ایک عمل متقدم اور دوسرا متاخر ہے ۔ اور متاخر کو لینا ضروری ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کا اصول یہ تھا کہ اگر کسی مسئلہ میں صرف حدیث ضعیف ہی پائی جاتی ہو (یعنی اس مسئلہ میں حدیث صحیح نہ ہو) تو قیاس چھوڑ کر حدیث ضعیف پر عمل کرنا افضل ہے (حدیث ضعیف پر عمل کرنے کی کچھ شرائط ہیں اسکا لحاظ رکھتے ہوئے) جیسے ایک حدیث ضعیف کے اندر آیا ہیکہ جس شخص نے نماز میں قہقہہ لگاکر ہنسا تو وہ دوبارہ وضوء کرکے نماز پڑھے’ ظاہر ہیکہ اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں اسی طرح عقل بھی یہ ماننے پر راضی نہیں کہ ہنسی سے وضوء ٹوٹے مگر حدیث ضعیف کو عقل پر ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے قہقہہ کی صورت میں نماز اور وضوء دونوں کا اعادہ واجب قرار دے دیا۔ ظاہر ائمہ ثلاثۃ اس اصول کو نہیں مانتے کیونکہ نہ صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے نہ عقل کے موافق۔
امام شافعیؒ کا اصول یہ تھاکہ مرسل حدیث ناقابل حجت ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ بکثرت مراسیل وبلاغات سے استدلال کیا ہے جیساکہ موطا امام مالک کے وہ عام طور پر فرماتے ہیں وبلغنا عن فلان اور اسکی سند ذکر نہیں کرتے۔ جبکہ امام شافعیؒ نے مراسیل کو ناقابل قبول قرار دے کر اس سے استدلال کو رد کیا۔

اس مقدمہ سے آپکو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ مناہج اربعہ (مذاہب اربعہ) در اصل کن چیزوں کا نام ہے۔
چنانچہ مسائل عصریہ کے اندر چونکہ فقہاء مجتہدین کے کلام کا تصور ہی نہیں اس لئے ہم انکے مقرر کردہ اصولوں کی بنیاد پر اجتہاد کرتے ہیں اور ان اصولوں کے مجموعہ کو (اصول فقہ) کا نام دیا جاتا ہے۔
رہی یہ بات کہ کن کا اجماع تھا؟؟
تو میں نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ اہلسنت کا اس بات پر اجماع تھا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
قرآن وحدیث سے استنباط کرنے کا طریقہ جسکو بعد میں اصول فقہ کے نام سے پہچانا جانے لگا ان اصولوں کا نام منہج حنفی شافعی مالکی اور حنبلی رکھا گیا
بقول آپ کے اہلسنت والجماعت نے ان اُصولوں کا نام منہج رکھا جو خود آئمہ کے مقلد تھے۔۔۔ دوسری بات قرآن وحدیث سے اسنتباط کا طریقہ۔۔۔ کس اُصول کی بنیاد پر پہچانا گیا۔۔۔ کیا امام ابوحنیفہؒ نے بہت سے مسائل میں توقف نہیں کیا؟؟؟۔۔۔ امام مالکؒ نے بہت سے مسائل کے بارے میں کہا ہے کہ میں نہیں جانتا۔۔۔ امام شافعیؒ سے کئی مسائل میں دو قول منقول ہیں اور کئی مسائل میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس میں حدیث صحیح ہے تو میرا قول اس کے مطابق ہے۔۔۔ یہ سب باتیں اُمت کے نزدیک ان کے انفرادی منہج کے منافی نہیں۔۔۔ کیونکہ کسی بھی امام کے پاس دین کا پورا پورا علم نہیں ہے انسان کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جس کے بارے میں اسے علم نہ ہو، اس کے بارے میں خاموش رہے۔۔۔

پھر یہاں یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے اصول وفروع میں آئمہ اربعہ کی آخر کتنی کتابیں ہیں؟؟؟۔۔۔ امام مالک ؒکی موطا حدیث کی کتاب ہے یا فقہ کی؟؟؟۔۔۔ امام احمد ؒنے کونسا فقہی مجموعہ مرتب کیا ہے اور اس کا نام کیا ہے؟؟؟ِ۔۔۔ المسائل کے نام پر ان کے تلامذہ کی مرتبہ فقہی سوالات پر مشتمل ہیں کیا ان مجموعہ ہائے کتب میں زندگی کے سارے مسائل آگئے ہیں؟؟؟۔۔۔

علامہ یاقوت الحمودیؒ "الری" کے حالات وواقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے حنفیوں اور شافعیوں نے مل کر یہاں کے شیعوں کو تہس نہس کر ڈالا۔۔۔
اس کے بعد!۔
حنفیوں اور شافعیوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔۔۔ شافعی تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہر بار غالب آئے"الرستاق" کے حنفی بھی اپنے ہمنواؤں کی امداد کے لئے آتے مگر کوئی پیش نہ جاتی۔۔۔ یہاں تک کہ شافعیوں اور حنفیوں میں وہی بچ سکا جس نے اپنے مسلک کو چھپائے رکھا یا اپنے چھپنے کے لئے گھروں کو تہ خانوں میں منتقل کر لیا اور وہ ایسا نہ کرتے تو ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکتا (معجم البلدان جلد ٣ صفحہ ١١٧)۔۔۔

اب آتے ہیں آپ کی اپنی بات کی طرف ملاحظہ کیجئے۔۔۔
بعد میں اصول فقہ کے نام سے پہچانا جانے لگا ان اصولوں کا نام منہج حنفی شافعی مالکی اور حنبلی رکھا گیا
اس بارے میں کیا وضاحت پیش کرنا چاہیں گے۔۔۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
تاریخ اسلام کے شاندار ماضی میں اگر آپکو اکا دکا واقعات اسطرح کے مل گئے جسکی سند کا تجزیہ آپ نے بھی نہیں کیا ہوگا تو کیا اتنی سی بات اجماع کو توڑنے کا جواز بن سکتی ہے شریعت کی نظر میں!!
آپکا کیا خیال ہے اس بارے میں!!
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
جبکہ ہم اگر علماء مذاہب اربعہ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں اسطرح کی باتیں نہیں ملتیں بلکہ باہمی احترام کی صورت میں وہ ایک دوسرے كے دلائل پر نظر ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
چنانچہ میں اپنا سوال دوبارہ دہرارہا ہوں کہ ساڑھے آٹھ سو سال کے عرصہ میں تمام علماء اہل سنت والجماعت نے مذاہب اربعہ پر کیوں اکتفاء کیا؟؟
کیا اسے اجماع امت کہنا درست نہیں؟؟
کیا آپکے نزدیک اجماعت امت کی مخالفت جائز ہے؟؟
اگر اس صدی میں مذاہب اربعہ کے علاوہ کوئی دوسرا وجود بھی تھا تو انکا وجود کہاں؟؟ اور کس جگہ؟؟ انکی تعداد؟؟ اور کیا جمہور کی مخالفت کی وجہ انکا اعتبار کرنا درست ہے؟؟
امید ہے کہ حق متلاشی حضرات حقیقت پسندی سے ان سوالوں کا حقیقی جواب تلاش کرینگے۔
محترم آپکو اپنا سوال دہرانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ آپ کا دعویٰ کمزور بنیادوں پر قائم ہے، پہلے دعویٰ ثابت ہوجائے تو پھر اس پر آپکے سوال بھی اچھے لگیں گے اور جب دعویٰ ہی ثابت نہ ہو تو اس پر بحث بھی فضول اور بے معنی ہے۔آپ کا دعویٰ ہے کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی پر اجماع ہوگیا تھا۔

آپکے دعویٰ کی پہلی کمزوری یہ ہے کہ ٤٠٠ ہجری سے قبل ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی کے خلاف اجماع تھا۔

تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121)

یہ تقلید مطلق بقول مقلدین صحابہ کرام بھی کرتے تھے جیسا کہ تقی عثمانی صاحب ہی اسکی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: مذکورہ مثالیں تو تقلید مطلق کی تھیں یعنیٰ ان مثالوں میں صحابہ و تابعین نے کسی فرد واحد کو معین کرکے اس کی تقلید نہیں کی بلکہ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اور کبھی کسی اور سے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 43)

جب بقول مقلدین خیر القرون کے بہترین لوگ تقلید مطلق پر اجماع کرچکے تھے تو کس نے یہ ناپاک جسارت کی، پاک ہستیوں کے اجماع کو رد کرکے اسکے خلاف ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی پر اجماع کرنے کی؟؟؟ اور کیا پہلے سے موجود صحابہ کرام کے اجماع کو توڑ کر اسکے خلاف اجماع کرلینے سے اجماع ہوجاتا ہے؟ دلیل؟ اور پھر تقلید کی اس قسم پر اجماع جس پر صحابہ تھے وہ بہتر تھی یا اسکے بعد شرالقرون کے لوگوں نے جس قسم کی تقلید (ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی شخصی تقلید) پر ایک نیا اجماع قائم کرلیا وہ بہتر تھی؟ ایک بہتر اور افضل اجماع صحابہ کو چھوڑ کر شرالقرون کے لوگوں کےغیر افضل اور کسی قدر برے اجماع کو کیوں اختیار کیا گیا؟ اور صرف اختیار ہی نہیں کیا گیا بلکہ صحابہ کے اجماع یعنی تقلید مطلق کو بعد میں مقلدین نے عین گمراہی قرار دیا اور اپنے خود ساختہ اجماع کو عین ہدایت بتایا۔

آپکے اجماع کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ یہ بلادلیل ہے۔

اجماع ایک شرعی چیز ہے جو شریعت یعنی قرآن و حدیث کے تابع ہے اس لئے اجماع کے پیچھے قرآن و حدیث کی دلیل کا ہونا لازم اور اجماع کی صحت کے لئے ناگزیر ہے۔ مولانا مفتی حماد اللہ دیوبندی لکھتے ہیں: یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اجماع کے حجت ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اجماع کرنے والوں کو شرعی احکام میں نعوذ باللہ رب کی طرف سے اختیار مل گئے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے آزاد ہوکر جس چیز کو چاہیں حرام اور جس کو چاہیں حلال کردیں بلکہ جس مسئلہ پر بھی اجماع منعقد ہوتا ہے وہ یا تو قرآن پاک کی کسی آیت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت سے یا اس قیاس سے جس کی اصل قرآن یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہو۔غرض ہر اجماعی فیصلہ کسی نہ کسی دلیل شرعی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے اجماعی مسائل کا ماخذ کتاب اللہ ہوگا یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر قیاس تو اجماع منعقد بھی دلیل شرعی پر ہوتا ہے۔ (حجیت اجماع، صفحہ ٢٠٦)

اگر ائمہ اربعہ کی شخصی تقلید پر اجماع کی کوئی قرآن و حدیث سے دلیل ہے تو پیش کریں اور اگر کوئی دلیل نہیں تو یہ اجماع باطل اور مردود ہے۔

تنبیہ: کوئی مقلد قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کرتے ہوئے یہ دعویٰ نہ کرکے کہ دیکھئے قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیث سے تقلید کا اثبات ہورہا ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں تقلید کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا جن معنوں میں مقلدین اسے استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ کوشش انہیں چنداں مفید نہیں ہوگی۔ اگر بالفرض ہم مان بھی لیں کہ قرآن و حدیث میں تقلید کا حکم موجود ہے تو بھی یہ مقلدین کی دلیل نہیں بنے گی کیونکہ ٤٠٠ ہجری کے بعد مطلق تقلید پر نہیں بلکہ بقول مقلدین ائمہ اربعہ (ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی شخصی تقلید پر اجماع ہوا ہے۔ لہٰذا اس اجماع کے دعویٰ کے ثبوت میں ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی شخصی تقلید کے دلائل قرآن و حدیث سے نقل کئے جائیں۔ غیر متعلق دلائل بے فائدہ ہونگے۔

آپکے اجماع کے دعویٰ کی تیسری کمزوری یہ ہے کہ یہ مبہم، غیر واضح اور وضاحت طلب ہے۔

آپ نے اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد جن لوگوں نے ائمہ اربعہ کے مذہب کی پابندی پر اجماع کر لیا تھا ان کا ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب کا انتخاب بطور مقلد تھا یا ان میں سے بعض کو محض شاگردانہ نسبتوں کی وجہ سے حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی کہا جانے لگا اسکے علاوہ بعض کا طریقہ استدلال کسی امام کے موافق ہونے کی وجہ سے بھی اسے اس امام سے منسوب کرکے حنفی، شافعی وغیرہ کہا جانے لگا جبکہ وہ کسی مخصوص امام کے مقلد ہر گز نہیں تھے۔ شاہ ولی اللہ حنفی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: صرف طریقہ اجتہاد کی موافقت کی بنا پر کسی کو کسی امام کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔ حقیقتا وہ مقلد نہیں ہوتا۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ ١١١)

اگر ٤٠٠ ہجری کے بعد بھی سب مقلد نہیں تھے جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت سے بھی واضح ہے تو آپکا خود ساختہ اجماع کا دعویٰ باطل ہوگیا کیونکہ جب تمام لوگوں نے ائمہ اربعہ کی تقلید کی ہی نہیں تو انکی تقلید پر اجماع کیسے ہوگیا؟؟؟

آپکے اجماع کے دعویٰ کی چوتھی کمزوری یہ ہے کہ آپ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو کبھی واقع ہی نہیں ہوئی۔

مفتی حماد اللہ وحید دیوبندی لکھتے ہیں: لہٰذا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اجماع کے لئے کسی ایک زمانے کے مسلمانوں کا متفق ہونا کافی ہے۔ (حجیت اجماع، صفحہ ١٠٥)
یہ طے شدہ بات ہے کہ اہل حدیث ہر زمانہ میں موجود رہے ہیں چاہے قلیل ہوں یا کثیر اور اور سب جانتے ہیں کہ اہل حدیث عملا اور قولا تقلید ائمہ اربعہ کی مخالفت کرتے ہیں۔لہٰذا اہل حدیث کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ائمہ اربعہ کی تقلید پر اجماع کے امکان کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ چونکہ بقول مفتی حماد اللہ اجماع کے لئے کسی ایک زمانے کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ضروری ہے لہذا اہل حدیث کے ہوتے ہوئے نہ تو یہ اتفاق کبھی پایا گیا اور نہ ہی ایسے کسی اجماع کے وقوع کے لئے ایک زمانے کے تمام مسلمانوں کے اتفاق کی یہ شرط پوری ہوئی، تو پھر کونسا اجماع؟ کیسا اجماع؟ کہاں کا اجماع؟

اسی لئے اشرف علی تھانوی صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے: اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصرا ن چار میں ہے ۔ مگراس پر بھی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں ۔ وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔ (تذکرۃ الرشید 1/131)

محمد یعقوب صاحب محض یہ دعویٰ کردینے سے کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد تمام لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید پر جمع ہوگئے تھے کام نہیں چلے گا بلکہ آپکو کم از کم اپنے مذہبی اصولوں پر اس اجماع کو ثابت کرنا پڑے گا۔ پھر جو من گھڑت اجماع آپ ہی کے اصولوں پر پورا نہ اترے اسے ہم ماننے کے پابند کیسے ہوسکتے ہیں؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
تاریخ اسلام کے شاندار ماضی میں اگر آپکو اکا دکا واقعات اسطرح کے مل گئے جسکی سند کا تجزیہ آپ نے بھی نہیں کیا ہوگا تو کیا اتنی سی بات اجماع کو توڑنے کا جواز بن سکتی ہے شریعت کی نظر میں!!
آپکا کیا خیال ہے اس بارے میں!!
ابتسامۃ
سوچ لیں کے بات کیا کرنی ہے۔۔۔
جبکہ ہم اگر علماء مذاہب اربعہ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں اسطرح کی باتیں نہیں ملتیں بلکہ باہمی احترام کی صورت میں وہ ایک دوسرے كے دلائل پر نظر ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
میں یہاں تک تو آپ کی بات سے متفق ہوں کے آئمہ فقہاء کے مابین تفسیق وتضلیل اور باہم لڑائی جھگڑا نہ تھا وہ مسائل سے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے مگر آپس میں کوئی مخالفت اور لڑائی نہ تھی لیکن افسوس کہ بعد کے دور میں ان کے مقلدین میں یہ وسعت ختم ہوگئی باہم جنگ وجدال، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور تذلیل کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں حتٰی کے بعض حضرات نے ایک دوسرے کی تکفیر سے بھی اجتناب نہیں کیا۔۔۔

محمد بن موسٰی الحنفی المتوفی ٥٠٢ھ جو دمشق کے منصب قضاء پر فائز تھے کہا کرتے کہ
لو کان لی امر لاخذت الجزیۃ من الشافعیۃ
اگر میری حکومت ہوتی تو میں شافعیوں سے جزیہ وصول کرتا۔(الجواہر المضئیۃ جلد ٢ صفحہ ١٣٦، میزان الاعتدال جلد ٤ صفحہ ٥٢)۔۔۔

فتاویٰ البزازیہ
میں ہے کہ
وقال الامام السفکر دری لاینبغی للحنفی ان یزوج بنتہ من شافعی المذھب ولکن یتزوج منھم
امام السفکردری نے کہا ہے کہ حنفی کیلئے مناسب کہ اپنی بیٹی کا رشتہ کسی شافعی سے کرے لیکن حنفی مرد شافعی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے۔ (بزازیہ علی ھامش الھندیہ، جلد ٢ صفحہ ١١٢، نیز البحر الرائق جلد ٢ صفحہ ٥١)۔

عیسی بن ابی بکر بن ایوب المتوفی ٦٢٤ھ جو بڑے فقہ وادیب شمار ہوتے ہیں اور ٨ سال دمشق کے حاکم رہے ہیں۔۔۔ علامہ علی قاری نے انہیں۔۔۔
الفقیہ الفاضل البارع شرف الدین کے القاب سے یاد کیا یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے خطیب بغدادی کے رد میں السھم المصیب فی الرد علی الخطیب کتاب لکھی اور سبط ابن الجوزی کو حنفی بنایا ان کے تعصب کے یہ عالم تھا کہ ان کے باپ نے ایک دن انہیں کہا۔۔۔
کیف اخترت مذھب ابی حنیفہ واھلک کلھم شافعیہ فقال اترغبون عن ان یکون فیکم رجل واحد مسلم
تم نے امام ابوحنیفہ کا مذہب کیسے اختیار کیا جب کہ تمہارا سارا قبیلہ شافعی مسلک پر ہے تو اس نے کہا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم میں ایک آدمی مسلمان ہو (الفوائد البھیہ صفحہ ١٥٢)۔۔۔نعوذ باللہ! گویا شافعی مسلمان ہی نہیں سارے شافعی خاندان میں اکیلے وہی مسلمان ہیں (سبحان اللہ)۔۔۔

اسی قسم کے اکا دُکا واقعات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔۔۔ جو اسلام کی تاریخ کے بدنما داغ ہیں۔۔۔
جن کتب سے ہم اکا دُکا واقعات پیش کررہے ہیں تو اُن کی سند پر آپ ہم سے تجزیہ کی بات کرتے ہیں۔۔۔
اگر ہم اس طرح سے اسناد پر تجزیہ کی بات کریں تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔۔۔
اس حقیقت کو تسلیم کیجئے۔۔۔
اصول میں احناف عموما ماتریدی ہیں بلکہ بعض معتزلی، جہمی اور شیعہ بھی ہیں اور شافعی اشعری ہیں کتنی حیرت کی بات ہے کہ فروع میں جس امام کی تقلید کا دعوٰی کیا جاتا ہے اصول میں اسے امام تسلیم کرنے سے ان کے مقلدین حضرات کی طبعیت انکار کرتی ہے پھر اس اصول میں اسی اختلاف کی بنیاد پر اپس کی لڑائیاں اور ایک دوسرے کی تذلیل اس پر مستزاد ہے۔۔

مگر افسوس کے آنکھیں بند کرکے کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ فرقہ نہ تھے ان چاروں کو جانے دیجئے برصغیر میں حنفی کہلانے والوں کے مابین کیا عقائد واعمال میں یگانگت پائی جاتی ہے؟؟؟۔۔۔ دونوں حنفی گروہ مقلد، مگر دونوں کے مسجد جدا ایک دوسرے کی تضلیل وتفسیق حتی کے نامزد طور پر اکابرین دیوبند کو کافر قرار دیا گیا۔۔۔
کیا کہتے ہیں۔۔۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
محترم آپکو اپنا سوال دہرانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ آپ کا دعویٰ کمزور بنیادوں پر قائم ہے، پہلے دعویٰ ثابت ہوجائے تو پھر اس پر آپکے سوال بھی اچھے لگیں گے اور جب دعویٰ ہی ثابت نہ ہو تو اس پر بحث بھی فضول اور بے معنی ہے۔آپ کا دعویٰ ہے کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی پر اجماع ہوگیا تھا۔

آپکے دعویٰ کی پہلی کمزوری یہ ہے کہ ٤٠٠ ہجری سے قبل ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی کے خلاف اجماع تھا۔

تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121)

یہ تقلید مطلق بقول مقلدین صحابہ کرام بھی کرتے تھے جیسا کہ تقی عثمانی صاحب ہی اسکی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: مذکورہ مثالیں تو تقلید مطلق کی تھیں یعنیٰ ان مثالوں میں صحابہ و تابعین نے کسی فرد واحد کو معین کرکے اس کی تقلید نہیں کی بلکہ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اور کبھی کسی اور سے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 43)

جب بقول مقلدین خیر القرون کے بہترین لوگ تقلید مطلق پر اجماع کرچکے تھے تو کس نے یہ ناپاک جسارت کی، پاک ہستیوں کے اجماع کو رد کرکے اسکے خلاف ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی پر اجماع کرنے کی؟؟؟ اور کیا پہلے سے موجود صحابہ کرام کے اجماع کو توڑ کر اسکے خلاف اجماع کرلینے سے اجماع ہوجاتا ہے؟ دلیل؟ اور پھر تقلید کی اس قسم پر اجماع جس پر صحابہ تھے وہ بہتر تھی یا اسکے بعد شرالقرون کے لوگوں نے جس قسم کی تقلید (ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی شخصی تقلید) پر ایک نیا اجماع قائم کرلیا وہ بہتر تھی؟ ایک بہتر اور افضل اجماع صحابہ کو چھوڑ کر شرالقرون کے لوگوں کےغیر افضل اور کسی قدر برے اجماع کو کیوں اختیار کیا گیا؟ اور صرف اختیار ہی نہیں کیا گیا بلکہ صحابہ کے اجماع یعنی تقلید مطلق کو بعد میں مقلدین نے عین گمراہی قرار دیا اور اپنے خود ساختہ اجماع کو عین ہدایت بتایا۔
آپکی یہ بات سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی ہے اور اجماع کا ثبوت ہوجانے کے بعد آپ بلاوجہ بات گھمانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اور اگر آپکے مطابق تقلید مطلق پر اجماع قائم ہوگیا تھا تو پھر آپ بھی تقلید مطلق تو کم از کم کرتے ہی ہونگے دوسرے اپنے اجماع کا دماغ سیدھا کرنے کیلئے ملاحظہ فرمائیں
امام اللیث بن سعد المالکی ۱۷۵ ہجری
امام ابو یوسف الحنفی ۱۸۲ ہجری
امام محمد بن الحسن الشیبانی الحنفی ۱۸۹ ہجری
امام زفر الحنفی
امام طحاوی حنفی ۳۲۱ ہجری
ابو بکر محمد بن عبد اللہ الشافعی ۳۵۴ ہجری
ابو بکر جصاص رازی حنفی ۳۷۰ ہجری
ابو اللیث السمرقندی الحنفی ۳۷۳ ہجری
ملاحظہ کیجئے طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی اسکے اندر تقریبا ۴۰۰ علماء شافعیہ کا تذکرہ ہے جو چار سو صدی ہجری سے قبل شافعیت اختیار کرچکے تھے
طبقات الشافعیۃ لابن قاضی شہبۃ ۱۳۱ علماء شافعیہ کا تذکرہ جو چار سو صدی ہجری سے قبل شافعیت اختیار کرچکے تھے
فہرست طویل ہوتی جارہی ہے مگر ساتھ ساتھ مجھے آپکی علمی صلاحیتوں کا اندازہ بھی ہوتا جارہا ہے۔

آپکے اجماع کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ یہ بلادلیل ہے۔ [/U][/H2]

اجماع ایک شرعی چیز ہے جو شریعت یعنی قرآن و حدیث کے تابع ہے اس لئے اجماع کے پیچھے قرآن و حدیث کی دلیل کا ہونا لازم اور اجماع کی صحت کے لئے ناگزیر ہے۔ مولانا مفتی حماد اللہ دیوبندی لکھتے ہیں: یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اجماع کے حجت ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اجماع کرنے والوں کو شرعی احکام میں نعوذ باللہ رب کی طرف سے اختیار مل گئے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے آزاد ہوکر جس چیز کو چاہیں حرام اور جس کو چاہیں حلال کردیں بلکہ جس مسئلہ پر بھی اجماع منعقد ہوتا ہے وہ یا تو قرآن پاک کی کسی آیت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت سے یا اس قیاس سے جس کی اصل قرآن یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہو۔غرض ہر اجماعی فیصلہ کسی نہ کسی دلیل شرعی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے اجماعی مسائل کا ماخذ کتاب اللہ ہوگا یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر قیاس تو اجماع منعقد بھی دلیل شرعی پر ہوتا ہے۔ (حجیت اجماع، صفحہ ٢٠٦)

اگر ائمہ اربعہ کی شخصی تقلید پر اجماع کی کوئی قرآن و حدیث سے دلیل ہے تو پیش کریں اور اگر کوئی دلیل نہیں تو یہ اجماع باطل اور مردود ہے۔
معاذ اللہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان تمام علماء امت کا اجماع گمراہی پر تھا ظاہر وہ لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے جو اپنے بزرگان دین کو ہمیشہ برا بھلا کہتے ہیں


آپکے اجماع کے دعویٰ کی تیسری کمزوری یہ ہے کہ یہ مبہم، غیر واضح اور وضاحت طلب ہے۔[/U][/H2]

آپ نے اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد جن لوگوں نے ائمہ اربعہ کے مذہب کی پابندی پر اجماع کر لیا تھا ان کا ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب کا انتخاب بطور مقلد تھا یا ان میں سے بعض کو محض شاگردانہ نسبتوں کی وجہ سے حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی کہا جانے لگا اسکے علاوہ بعض کا طریقہ استدلال کسی امام کے موافق ہونے کی وجہ سے بھی اسے اس امام سے منسوب کرکے حنفی، شافعی وغیرہ کہا جانے لگا جبکہ وہ کسی مخصوص امام کے مقلد ہر گز نہیں تھے۔ شاہ ولی اللہ حنفی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: صرف طریقہ اجتہاد کی موافقت کی بنا پر کسی کو کسی امام کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔ حقیقتا وہ مقلد نہیں ہوتا۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ ١١١)

اگر ٤٠٠ ہجری کے بعد بھی سب مقلد نہیں تھے جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت سے بھی واضح ہے تو آپکا خود ساختہ اجماع کا دعویٰ باطل ہوگیا کیونکہ جب تمام لوگوں نے ائمہ اربعہ کی تقلید کی ہی نہیں تو انکی تقلید پر اجماع کیسے ہوگیا؟؟؟
یہ بھی ایک بیکار سی دلیل ہے کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ حنفی کس معنی میں کہلارہے ہیں بہت خوب صاحب اپنی اڑ کو ثابت کرنے کیلئے علماء کو بیوقوف بے ٹھرادو تاکہ تمہارا دین کامیاب ہوجائے اور اللہ کا دین تہس نہس ہوجائے

آپکے اجماع کے دعویٰ کی چوتھی کمزوری یہ ہے کہ آپ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو کبھی واقع ہی نہیں ہوئی۔[/U][/H2]

مفتی حماد اللہ وحید دیوبندی لکھتے ہیں: لہٰذا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اجماع کے لئے کسی ایک زمانے کے مسلمانوں کا متفق ہونا کافی ہے۔ (حجیت اجماع، صفحہ ١٠٥)
یہ طے شدہ بات ہے کہ اہل حدیث ہر زمانہ میں موجود رہے ہیں چاہے قلیل ہوں یا کثیر اور اور سب جانتے ہیں کہ اہل حدیث عملا اور قولا تقلید ائمہ اربعہ کی مخالفت کرتے ہیں۔لہٰذا اہل حدیث کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ائمہ اربعہ کی تقلید پر اجماع کے امکان کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ چونکہ بقول مفتی حماد اللہ اجماع کے لئے کسی ایک زمانے کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ضروری ہے لہذا اہل حدیث کے ہوتے ہوئے نہ تو یہ اتفاق کبھی پایا گیا اور نہ ہی ایسے کسی اجماع کے وقوع کے لئے ایک زمانے کے تمام مسلمانوں کے اتفاق کی یہ شرط پوری ہوئی، تو پھر کونسا اجماع؟ کیسا اجماع؟ کہاں کا اجماع؟

اسی لئے اشرف علی تھانوی صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے: اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصرا ن چار میں ہے ۔ مگراس پر بھی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں ۔ وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔ (تذکرۃ الرشید 1/131)

محمد یعقوب صاحب محض یہ دعویٰ کردینے سے کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد تمام لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید پر جمع ہوگئے تھے کام نہیں چلے گا بلکہ آپکو کم از کم اپنے مذہبی اصولوں پر اس اجماع کو ثابت کرنا پڑے گا۔ پھر جو من گھڑت اجماع آپ ہی کے اصولوں پر پورا نہ اترے اسے ہم ماننے کے پابند کیسے ہوسکتے ہیں؟؟؟
میں آپ سے اتنی دیر سے ان اہلحدیثوں کا پتہ پوچھ رہا ہوں جنکا ذکر چار سو صدی ہجری کے بعد کتابوں میں ملتا ہی نہیں اور اگر انکا وجود شاذ ونادر ثابت کربھی دیں تو اجماع امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے انکی علمی حیثیت کہاں اور کتنی رہ جاتی ہے۔
 
Top