چنانچہ میں اپنا سوال دوبارہ دہرارہا ہوں کہ ساڑھے آٹھ سو سال کے عرصہ میں تمام علماء اہل سنت والجماعت نے مذاہب اربعہ پر کیوں اکتفاء کیا؟؟
کیا اسے اجماع امت کہنا درست نہیں؟؟
کیا آپکے نزدیک اجماعت امت کی مخالفت جائز ہے؟؟
اگر اس صدی میں مذاہب اربعہ کے علاوہ کوئی دوسرا وجود بھی تھا تو انکا وجود کہاں؟؟ اور کس جگہ؟؟ انکی تعداد؟؟ اور کیا جمہور کی مخالفت کی وجہ انکا اعتبار کرنا درست ہے؟؟
امید ہے کہ حق متلاشی حضرات حقیقت پسندی سے ان سوالوں کا حقیقی جواب تلاش کرینگے۔
محترم آپکو اپنا سوال دہرانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ آپ کا دعویٰ کمزور بنیادوں پر قائم ہے، پہلے دعویٰ ثابت ہوجائے تو پھر اس پر آپکے سوال بھی اچھے لگیں گے اور جب دعویٰ ہی ثابت نہ ہو تو اس پر بحث بھی فضول اور بے معنی ہے۔آپ کا دعویٰ ہے کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی پر اجماع ہوگیا تھا۔
آپکے دعویٰ کی پہلی کمزوری یہ ہے کہ ٤٠٠ ہجری سے قبل ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی کے خلاف اجماع تھا۔
تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121)
یہ تقلید مطلق بقول مقلدین صحابہ کرام بھی کرتے تھے جیسا کہ تقی عثمانی صاحب ہی اسکی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
مذکورہ مثالیں تو تقلید مطلق کی تھیں یعنیٰ ان مثالوں میں صحابہ و تابعین نے کسی فرد واحد کو معین کرکے اس کی تقلید نہیں کی بلکہ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اور کبھی کسی اور سے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 43)
جب بقول مقلدین خیر القرون کے بہترین لوگ تقلید مطلق پر اجماع کرچکے تھے تو کس نے یہ ناپاک جسارت کی، پاک ہستیوں کے اجماع کو رد کرکے اسکے خلاف ائمہ اربعہ کی تقلید شخصی پر اجماع کرنے کی؟؟؟ اور کیا پہلے سے موجود صحابہ کرام کے اجماع کو توڑ کر اسکے خلاف اجماع کرلینے سے اجماع ہوجاتا ہے؟ دلیل؟ اور پھر تقلید کی اس قسم پر اجماع جس پر صحابہ تھے وہ بہتر تھی یا اسکے بعد شرالقرون کے لوگوں نے جس قسم کی تقلید (ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی شخصی تقلید) پر ایک نیا اجماع قائم کرلیا وہ بہتر تھی؟ ایک بہتر اور افضل اجماع صحابہ کو چھوڑ کر شرالقرون کے لوگوں کےغیر افضل اور کسی قدر برے اجماع کو کیوں اختیار کیا گیا؟ اور صرف اختیار ہی نہیں کیا گیا بلکہ صحابہ کے اجماع یعنی تقلید مطلق کو بعد میں مقلدین نے عین گمراہی قرار دیا اور اپنے خود ساختہ اجماع کو عین ہدایت بتایا۔
آپکے اجماع کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ یہ بلادلیل ہے۔
اجماع ایک شرعی چیز ہے جو شریعت یعنی قرآن و حدیث کے تابع ہے اس لئے اجماع کے پیچھے قرآن و حدیث کی دلیل کا ہونا لازم اور اجماع کی صحت کے لئے ناگزیر ہے۔ مولانا مفتی حماد اللہ دیوبندی لکھتے ہیں:
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اجماع کے حجت ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اجماع کرنے والوں کو شرعی احکام میں نعوذ باللہ رب کی طرف سے اختیار مل گئے ہیں کہ وہ قرآن و سنت سے آزاد ہوکر جس چیز کو چاہیں حرام اور جس کو چاہیں حلال کردیں بلکہ جس مسئلہ پر بھی اجماع منعقد ہوتا ہے وہ یا تو قرآن پاک کی کسی آیت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سنت سے یا اس قیاس سے جس کی اصل قرآن یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہو۔غرض ہر اجماعی فیصلہ کسی نہ کسی دلیل شرعی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے اجماعی مسائل کا ماخذ کتاب اللہ ہوگا یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا پھر قیاس تو اجماع منعقد بھی دلیل شرعی پر ہوتا ہے۔ (حجیت اجماع، صفحہ ٢٠٦)
اگر ائمہ اربعہ کی شخصی تقلید پر اجماع کی کوئی قرآن و حدیث سے دلیل ہے تو پیش کریں اور اگر کوئی دلیل نہیں تو یہ اجماع باطل اور مردود ہے۔
تنبیہ: کوئی مقلد قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کرتے ہوئے یہ دعویٰ نہ کرکے کہ دیکھئے قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیث سے تقلید کا اثبات ہورہا ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں تقلید کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوا جن معنوں میں مقلدین اسے استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ کوشش انہیں چنداں مفید نہیں ہوگی۔ اگر بالفرض ہم مان بھی لیں کہ قرآن و حدیث میں تقلید کا حکم موجود ہے تو بھی یہ مقلدین کی دلیل نہیں بنے گی کیونکہ ٤٠٠ ہجری کے بعد مطلق تقلید پر نہیں بلکہ بقول مقلدین ائمہ اربعہ (ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی شخصی تقلید پر اجماع ہوا ہے۔ لہٰذا اس اجماع کے دعویٰ کے ثبوت میں ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی شخصی تقلید کے دلائل قرآن و حدیث سے نقل کئے جائیں۔ غیر متعلق دلائل بے فائدہ ہونگے۔
آپکے اجماع کے دعویٰ کی تیسری کمزوری یہ ہے کہ یہ مبہم، غیر واضح اور وضاحت طلب ہے۔
آپ نے اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد جن لوگوں نے ائمہ اربعہ کے مذہب کی پابندی پر اجماع کر لیا تھا ان کا ان چاروں میں سے کسی ایک مذہب کا انتخاب بطور مقلد تھا یا ان میں سے بعض کو محض شاگردانہ نسبتوں کی وجہ سے حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی کہا جانے لگا اسکے علاوہ بعض کا طریقہ استدلال کسی امام کے موافق ہونے کی وجہ سے بھی اسے اس امام سے منسوب کرکے حنفی، شافعی وغیرہ کہا جانے لگا جبکہ وہ کسی مخصوص امام کے مقلد ہر گز نہیں تھے۔ شاہ ولی اللہ حنفی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
صرف طریقہ اجتہاد کی موافقت کی بنا پر کسی کو کسی امام کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔ حقیقتا وہ مقلد نہیں ہوتا۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ ١١١)
اگر ٤٠٠ ہجری کے بعد بھی سب مقلد نہیں تھے جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت سے بھی واضح ہے تو آپکا خود ساختہ اجماع کا دعویٰ باطل ہوگیا کیونکہ جب تمام لوگوں نے ائمہ اربعہ کی تقلید کی ہی نہیں تو انکی تقلید پر اجماع کیسے ہوگیا؟؟؟
آپکے اجماع کے دعویٰ کی چوتھی کمزوری یہ ہے کہ آپ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو کبھی واقع ہی نہیں ہوئی۔
مفتی حماد اللہ وحید دیوبندی لکھتے ہیں:
لہٰذا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اجماع کے لئے کسی ایک زمانے کے مسلمانوں کا متفق ہونا کافی ہے۔ (حجیت اجماع، صفحہ ١٠٥)
یہ طے شدہ بات ہے کہ اہل حدیث ہر زمانہ میں موجود رہے ہیں چاہے قلیل ہوں یا کثیر اور اور سب جانتے ہیں کہ اہل حدیث عملا اور قولا تقلید ائمہ اربعہ کی مخالفت کرتے ہیں۔لہٰذا اہل حدیث کا ہر زمانہ میں موجود رہنا ائمہ اربعہ کی تقلید پر اجماع کے امکان کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ چونکہ بقول مفتی حماد اللہ اجماع کے لئے کسی ایک زمانے کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ضروری ہے لہذا اہل حدیث کے ہوتے ہوئے نہ تو یہ اتفاق کبھی پایا گیا اور نہ ہی ایسے کسی اجماع کے وقوع کے لئے ایک زمانے کے تمام مسلمانوں کے اتفاق کی یہ شرط پوری ہوئی، تو پھر کونسا اجماع؟ کیسا اجماع؟ کہاں کا اجماع؟
اسی لئے اشرف علی تھانوی صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:
اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل جائز نہیں کہ حق دائر و منحصرا ن چار میں ہے ۔ مگراس پر بھی کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہویٰ ہوں ۔ وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔ دوسرے اگر اجماع ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔ (تذکرۃ الرشید 1/131)
محمد یعقوب صاحب محض یہ دعویٰ کردینے سے کہ ٤٠٠ ہجری کے بعد تمام لوگ ائمہ اربعہ کی تقلید پر جمع ہوگئے تھے کام نہیں چلے گا بلکہ آپکو کم از کم اپنے مذہبی اصولوں پر اس اجماع کو ثابت کرنا پڑے گا۔ پھر جو من گھڑت اجماع آپ ہی کے اصولوں پر پورا نہ اترے اسے ہم ماننے کے پابند کیسے ہوسکتے ہیں؟؟؟