• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا منہج تعامل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
[2] المسائل الخفیہ
وہ کفریہ بدعت جو شہادتین کے مدلول سے صریح متصادم نہ ہو مگر کسی ایسے امر سے متصادم ہو جو دین میں قطعی مانا گیا ہو۔ کفریہ بدعت کی اس قسم میں جہالت، لاعلمی یا خطاء کا عذر دیا جا تا ہے اور ایسے عذر رکھنے والوں پر حجت قائم ہو جانے کے بعد اہل علم ان کی تکفیر کر سکتے ہیں۔ ان مسائل کو اہل علم نے مسائل خفیہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔
اس میں مرتکبین کی دو حالتیں ہیں:
پہلی حالت: یہ معلوم ہو جائے کہ اس بدعت سے اس کا مقصد دین کے اصول و قواعد کو ختم کرنا اور اہل اسلام میں ان کے دین کے بارے میں شک پیدا کرنا ہے تو یہ شخص قطعی طور پر کافر ہو گا، بلکہ وہ شخص دین سے اجنبی ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا دشمن ہے۔
دوسری حالت: اس سے اس بدعت کا ارتکاب کسی شبہ کی بنا پر ہو اور اس پر وہ معاملہ خلط ملط ہو تو ایسے شخص کو دلائل و براہین دے کر حجت پوری کرنے کے بعد کافر قرار دیا جائے گا۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی دلیل تک رسائی پانے کے لیے عقل، فہم اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخفی ہونے کی وجہ سے یہ مسائل معلوم من الدین بالضرورۃ کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان امور میں غلطی کھانے والا سمجھتا ہے کہ اس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے یہ وہی مسائل میں جن میں اہل سنت اور اس کے مخالف فرقوں میں بحثیں ہوتی رہیں۔ مثلاً :۔
اللہ کے اسماء و صفات:
جیسے اللہ کا عرش پر مستوی ہونے یا قیامت کے دن اللہ کے دیدار کا انکار کرنا یا قرآن مجید کو کلام اللہ کی بجائے مخلوق کہنا۔ ان مسائل خفیہ میں غلطی کھانے والوں کو خطا کار تو سمجھا جائے گا مگر ان کی اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک حجت پوری نہ ہو جائے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فان خالف ذلک بعد ثبوت الحجۃ فھو کافر فأما قبل ثبوت الحجۃ علیہ فمعذور بالجھل لأن علم ذلک لا یدرک بالعقل ولا بالرویۃ والفکر ولا یکفر بالجھل بھا احد الا بعد انتھاء الخبر الیہ بہ ‘‘
’’اگر کوئی شخص صفات باری تعالیٰ کا حجت قائم ہو جانے کے بعد انکار کرے تو وہ کافر ہے البتہ حجت قائم ہونے سے پہلے اُسے جہالت کا عذر دیا جائے گا کیونکہ صفات کا ادراک عقل، فکر و تدبر سے ممکن نہیں، اس لیے ان سے جاہل کوئی شخص اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک اُسے اس کی خبر نہ پہنچ جائے۔‘‘ (اثبات صفۃ العلو للشیخ لامام عبداللہ بن أحمد بن قدامۃ المقدسی :124)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من جھل بعض الصفات وآمن بسائرھا لم یکن بجھل البعض کافرا لأن الکافر من عاند لا من جھل، وھذا قول المتقدمین من العلماء ومن سلک سبیلھم من المتاخرین۔
’’جو کوئی تمام صفات پر ایمان رکھتا ہے البتہ بعض سے جاہل رہتا ہے وہ اپنی اس جہالت کی بنا پر کافر شمار نہ ہو گا کیونکہ (اس باب میں) کافر وہ ہوتا ہے جو معاند (حق جان کر کفر پر اڑنے والا) ہو نہ کہ جاہل۔ یہ علمائے متقدمین اور ان کی اتباع کرنے والے متاخرین کا مسلک ہے۔‘‘ (التمھید 42/18)
ان امور میں تکفیر معین کے لیے ضروری ہے کہ متکلم جب کفر کی بات کرے تو اس کلمے سے جو کفر لازم آتا ہے وہ اس کا قصد بھی کرتا ہو بعض اوقات الفاظ ذو معنی ہوتے ہیں اور اہل بدعت فرقے انہیں استعمال کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جائے گا کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسماء و صفات میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ہمارے مخالفین ایسی بات کرتے ہیں کہ اس سے کفر لازم آتا ہے لیکن یہ کفریہ معنی ثابت کرنا ان کا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسے شخص کی ہم بھی تکفیر نہیں کرتے جب تک وہ خود اس لازمی معنی کو تسلیم نہ کر ے جو ہمارے نزدیک ان الفاظ سے نکلتا ہے (مجموعہ فتاوی جلد ۵ صفحہ ۳۰۶)
مثلا: ’’خلق قرآن‘‘ کی مثال اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اوراق پر لکھے ہوئے اور چھپے ہوئے لفظوں کا مجموعہ کلام اللہ نہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ، اس کے رسول اور تمام صحابہ کے فہم کی تکذیب ہو گی مگر کہنے والا اللہ، اس کے رسول اور صحابہ کی تکذیب نہیں کرنا چاہتا۔ تو اس پر فتوے سے پہلے حجت پوری کرنا واجب ہے۔ جب کوئی مسلم اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیر خواہی چاہتا ہو اور نیک جذبات رکھتا ہو لیکن الفاظ کے معنی پوری طرح نہ سمجھے اور اس کے الفاظ سے غلط معنی نکلتے ہوں تو اس کی تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس کو دلائل نہ سمجھا دیئے جائیں اور اس کے شبہات دور نہ کر دیئے جائیں۔
شیخ عبد اللہ ابابطین رحمہ اللہ اس شخص کی بات پر تبصرہ کرتے ہیں جو ابن تیمیہ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ مشرک کو کافر نہیں کہتے تھے۔ شیخ ابابطین اپنے تبصرے میں کہتے ہیں:کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ان شرکیہ امور کا مرتکب کافر نہیں کہلائے گا تو امام ابن تیمیہ نے یہ بات شرک اکبر (غیر اللہ کی عبادت وغیرہ) امور ظاہرہ کے بارے میں نہیں کی بلکہ امور خفیہ کے بارے میں کی ہے۔ امور خفیہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ ورنہ شرک اکبر کے مرتکب کے عدم کفر کی بات کسی نے نہیں کی۔ اس لیے کہ اس طرح کی باتوں کے بارے میں تو ہر خاص و عام بلکہ یہود و نصاریٰ تک کو معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہی باتیں لے کر آئے تھے اور ان کے مخالفت کرنے والے کو کافر کہا جائے گا یعنی ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شریک نہ کرنا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کرنا یہ تو شعائر اسلام میں سب سے زیادہ واضح شعائر ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر حجت قائم نہیں ہوئی اس لیے اسے کافر نہ کہا جائے۔ (مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ: ج۴/۴۵۴)
علامہ ابو محمد المقدسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عذر اُس بندے کو دیا جا ئے گا جو توحید کی اصل اور بنیاد پر تو قائم ہو لیکن اس سے بعض مسائل مخفی رہ جائیں، جس کا سمجھنا اس کے لیے مشکل ہو یا مخفی ہو یا اس کو سمجھنے اور وضاحت کی حاجت ہو اس قسم میں سے اسماء و صفات کا باب ہے، کتاب و سنت کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کا اقرار کرنے والا اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مسئلہ میں غلطی کا شکار ہو جائے تو اس کی اُس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس پر حجت قائم نہ کر دی جائے۔‘‘ (رسالۃ ثلاثینیۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کفریہ بدعات کے حاملین کا حکم
امور ظاہرہ میں کفر کے مرتکب کی تکفیر کے لیے اس تک قرآن و سنت کے دلائل کا پہنچنا شرط ہے جبکہ امور خفیہ کے مرتکب پر حق کا واضح ہونا شرط ہے یہاں تک کہ اس کے شبہات کا ازلہ کرتے ہوئے اس پر حجت قائم کر دی جائے۔ پس جس کسی پر حجت قائم ہو گئی وہ کافر و مرتد ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرۃ: ۲۱۷)
’’تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے پھر (اس حالت میں) مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو گئے اور یہی لوگ اہل جہنم ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
ان سے ایسی دائمی دشمنی اور بغض رکھنا ضروری ہے جس میں محبت و دوستی کا شائبہ نہ ہو۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل ترین لوگ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿١٩﴾ إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ أُولَـٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ﴾ (المجادلۃ :۱۹،۲۰)
’’ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے۔ یہ شیطانی لشکر ہیں، کوئی شک نہیں شیطانی لشکر ہی خسارے والا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہی لوگ سب سے زیادہ ذلیلوں میں سے ہیں۔‘‘
فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امت میں اختلاف کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق فقہی اختلافات کے علاوہ عقائد و نظریات سے ہے۔ اس پہلو سے بھی ہمیں سنجیدگی سے غور و فکر کر کے دیکھنا ہے کہ فکری و اعتقادی اختلافات کی نوعیت کیا ہے؟ اور اس کا حکم کیا ہے؟ بلکہ کسی فرقہ یا گروہ کو نشانہ بنانے کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ ان اعتقادی اختلافات میں صحیح پہلو کون سا ہے؟ چنانچہ اس بارے میں تین آراء پائی جاتی ہیں:
ایک رائے یہ کہ: باطل اور فاسد عقائد رکھنے والے کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
دوسری رائے: یہ ہے کہ کسی کو کافر نہیں کہنا چاہیے، بلکہ سب اہل قبلہ مسلمان ہیں۔ اہل بدعت گناہ گار ہیں جیسے کسی گناہ پر کافر نہیں کہنا چاہیے اسی طرح اہل بدعت کو بھی کافر نہیں کہنا چاہیے۔
تیسری رائے: یہ ہے کہ اہل بدعت اپنے عقائد و افکار میں ایک جیسے نہیں، بعض ایسے ہیں جو کفریہ عقائد کے حامل ہیں۔ مثلا: وہ عقائد جن کا تعلق ضروریات دین سے ہے، اور ثبوت و دلالت کے اعتبار سے قطعی اور یقینی ہیں، ان کا انکار کرنا، جیسے انبیاء کرام ملائکہ، منزل من اللہ کتابوں اور قیامت کا انکار کرنا بلکہ کسی ایک کتاب اور ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے۔ قرآن مجید کے کلام الٰہی نہ ہونے اور اس کے غیر محفوظ ہونے کا عقیدہ، نماز روزہ، حج، زکوٰۃ اور اذان کا انکار یا محرمات قطعیہ کو حلال سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر کسی کو کافر کہا جائیگا۔ البتہ وہ محرمات جو یقینی نہیں، یا ان کی حرمت حدِ شہرت کو نہیں پہنچی، ان کا اگر کوئی بے خبری سے ارتکاب کرتا ہے تو وہ کافر نہیں۔ البتہ خبردار کرنے اور حجت قائم کرنے کے باوجود بھی کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے۔ عموماً اہل سنت کا یہی قول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (مجموع الفتاویٰ: ج۳ص ۳۵۱،۳۵۲۔ شرح العقیدۃ الطحاویہ ص۳۱۶،۳۱۹۔)
یہی رائے قرین انصاف ہے اور نہایت درجہ متوازن ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات سے بھی اس کی رہنمائی ملتی ہے کہ عدل و انصاف کا سر رشتہ کسی قیمت پر ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ﴾ (المائدۃ:۲)
’’ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم زیادتیاں کرنے لگو۔ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں سب سے تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کام میں کسی سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔‘‘ (مقالات تربیت ص:۱۸۶)
اہل بدعت مکفرہ کو اہل قبلہ میں شامل کرنا درست نہیں :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا۔ سیدنا ابو بکر خلیفہ بنے اور عرب کے کچھ قبائل مرتد ہو گئے، تو سیدنا عمر نے ابوبکر سے کہا: آپ کس طرح لوگوں سے قتال کریں گے جب کہ رسول اللہ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہوا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اسلام کے حق کے علاوہ مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچا لیا، اور اس کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔‘‘
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ جس نے نماز اور زکوٰۃ کے مابین فرق کیا میں اس سے ضرور لڑوں گا۔ اگر وہ مجھے ایک رسی کا ٹکڑا دینے سے انکار کر دیں گے جو وہ رسول اللہ کو دیتے تھے، تو میں اس کے انکار پر بھی ان سے لڑوں گا۔ عمر کہتے ہیں: اس سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر کا سینہ قتال کے لیے کھول دیا ہے، اور یہی حق ہے۔‘‘ (صحیح بخاری :۶۹۲۵،۶۹۲۴)
اس حدیث سے ثابت ہوا کلمہ پڑھ کر کفر اکبر کرنے والے اہل قبلہ میں سے نہیں بلکہ وہ مرتد شمار ہوں گے۔ اسی لیے امام بخاری اس حدیث کو کتاب ﴿استتابۃِ المرتدین والمعاندین وقتالھم﴾ اور باب ﴿قتل من ابی قبول الفرائض، وما نسبوا الی الردۃ﴾ کے تحت لائے ہیں:
اسی طرح پہلی اور دوسری صدی ہجری کے امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ (جو بڑے بڑے ائمہ کے شاگرد ہیں جیسے سفیان بن عیینۃ، یزید بن ھارون، یحیی بن سعید القطان وغیرہم) اپنی کتاب ’’کتاب الایمان ومعالمہ، وسننہ، واستکمالہ، ودرجاتہ‘‘ (جس کی تحقیق و تخریج علامہ ناصر الدین البانی نے کی ہے) میں لکھتے ہیں کہ اُن کے خلاف جہاد مشرکین مکہ کے خلاف جہاد جیسا تھا کیونکہ خون بہانے، اُن کی اولاد کو غلام اور لونڈی بنانے اور اُن کے مال کو مال غنیمت قرار دینے میں فرق نہیں کیا گیا:
’’فلو أنھم ممتنعون من الزکاۃ عند الاقرار وأعطوہ ذلک بالألسنۃ، وأقامو الصلاۃ غیر أنھم ممتنعون من الزکاۃ کان ذلک مزیلاً لما قبلہ، ونا قضاً لأقرار والصلاۃ کما کان اِباء الصلاۃ ِقبل ذلک ناقضاً لما تقدم من الأقرار، والمصدق لھذا جھاد ابي بکر بالمھاجرین والأنصار علی منع العرب الزکاۃ، کجھاد رسول اللہ صلي الله عليه وسلم أھل الشرک سواء، لا فرق بینھما في سفک الدماء وسبي الذریۃ واغتنام المال، فانما کانوا مانعین لھا غیر جاحدین بہا‘‘ (کتاب لایمان ومعالمہ، وسننہ، واستکمالہ، ودرجاتہ :ص:۱۲)
فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آگے بڑھنے سے پہلے یہ دیکھیے کہ یہ جو بعض حضرات نے فرمایا ہے، یعنی دوسری رائے، کہ سب اہل قبلہ مسلمان ہیں کسی کو کافر نہیں کہنا چاہیے۔ یہ حضرات عموماً امام ابو حنیفہ رحمه الله کا ایک معروف قول پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہے: ’’لا نکفر اہل القبلۃ‘‘ اس کے متعلق سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی سہارا لیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک مسلم‘‘ (بخاری:۳۹۱)
’’کہ جو ہمارے طریقے پر نماز پڑھتا ہے، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتا ہے، اور ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے، وہ مسلمان ہے۔‘‘
حالانکہ شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے صرف یہ تین عمل نہیں بلکہ تمام شعائر اسلام مراد ہیں اور تین کا ذکر اس لیے ہے کہ یہ شعائر اسلام میں پیش پیش اور عام ہیں اور آسان طریقے کے ساتھ دوسرے ادیان سے امتیاز کا باعث ہیں۔ کہ اہل اسلام کے علاوہ کوئی بھی نہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں نہ ہمارا قبلہ مانتے ہیں، نہ ہمارا ذبیحہ قبول کرتے ہیں۔ اس کا یہ مقصد تو قطعاً نہیں کہ جو ان تین باتوں پر عمل پیرا ہو وہ مسلمان ہے اگرچہ وہ کسی نبی کا انکار کر دے، اسے سب و شتم کا نشانہ بنائے، قرآن پاک کی آیات کا انکار کرے، زکوٰۃ دینے سے انکار کر دے، یا دعویٰ نبوت ہی کر دے، یا قرآن پاک میں تحریف کا قائل ہو یا ایمان کے لیے تیسری شہادت کو بھی لازمی اور ضروری قرار دے۔ سیدنا ابو بکر صدیق کا مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کا فیصلہ اس پر برہان ہے۔ صرف زکاۃ کا انکار تھا جبکہ نہ انہوں نے نماز کا انکار کیا نہ ہی کسی اور قبلہ کو انہوں نے اپنا قبلہ بنایا، اور نہ ہی مسلمانوں کے ذبیحہ سے انحراف کیا۔ اس لیے اس حدیث سے یہ سمجھنا کہ جو ان تین باتوں کا معترف ہے، وہ مسلمان ہے کافر نہیں ہو سکتا قطعاً غلط ہے۔
اہل قبلہ ایک خالص دینی اور علمی اصطلاح ہے جس کی تفصیل عقائد اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
چنانچہ علامہ ملا علی قاری لکھتے ہیں ’’اعلم ان المراد باھل القبلۃ الذین اتفقوا علی ما ھو من ضروریات الدین۔‘‘
’’کہ تمہیں یہ بات خو ب جان لینی چاہیے کہ اہل قبلہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو تمام ضروریات دین پر متفق ہیں۔‘‘ (شرح الفقہ الاکبر،ص ۱۵۴)
اسی طرح علامہ طحاوی کہتے ہیں: ونسمی اھل قبلتنا مسلمین مومنین ما داموا بما جاء بہ النبی معترفین ولہ بکل ما قالہ وأخبر مصدقین‘‘
’’ہم اہل قبلہ کو مسلمان و مومن کہیں گے جب وہ ہر اس چیز کا اعتراف کریں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اور جو آپ نے خبر دی ہے اس کی تصدیق کریں۔ گویا آپ کی کامل تصدیق اور تعمیل کا نام ایمان و اسلام ہے اور یہی اہل قبلہ سے مراد ہے ۔(عقیدہ طحاویہ مع شرح،ص:۳۱۳)
علامہ ملا علی قاری مزید لکھتے ہیں:
’’ولا یکفی ان المراد بقول علمائنا: ’’لانجوّز تکفیر اھل القبلۃ بذنب‘‘ لیس مجرد التوجہ الی القبلۃ، فان الغلاۃ من الروافض الذین یدّعون أن جبریل ؈ غلط فی الوحی فان اللہ تعالیٰ أرسلہ الی علی وبعضہم قالوا: ’’انہ الٰہ‘‘ وان صلو الی القبلۃ لیسوا بمؤمنین ھذا ھو المراد بقولہ من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا …‘‘
ہمارے علماء کے قول ’’ہم اہل قبلہ کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں سمجھتے‘‘ سے صرف قبلہ کی طرف منہ کرنا، مراد لینا کافی نہیں۔ روافض میں ایسے غالی بھی ہیں جو اس بات کے مدعی ہیں کہ جبرائیل امین نے وحی لانے میں غلطی کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں رسالت کے لیے سیدنا علی کی طرف بھیجا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ سیدنا علی معبود ہیں، یہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں تب بھی مومن نہیں۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا سے یہ مراد نہیں ہے۔ لہٰذا مطلقا اہل قبلہ سے تکفیر کی نفی قطعا صحیح نہیں۔ (شرح الفقہ الاکبر، ص:۱۶۲)
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں: ’’الاتفاق علی ان ما کان من اصول الدین وضروریاتہ یکفر المخالف فیہ‘‘
’’اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اصول دین اور ضروریات دین کی مخالفت کرتا ہے اس کی تکفیر کی جائے گی۔‘‘ (مسائرہ،ج:۲،ص:۲۱۲).....
علامہ ابن دقیق العید رقم طراز ہیں:
’’والحق انہ لا یکفر احد من اہل القبلۃ الا بانکار متواتر من الشریعۃ عن صاحبھا فانہ حینئذ یکون مکذبا للشرع……الخ۔‘‘
حق بات یہ ہے کہ کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جا سکتی تاوقتیکہ وہ کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو تواتر کے ساتھ صاحب شریعت (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہو، کیونکہ اس صورت میں وہ شرع کی تکذیب کرنے والا ہو گا۔ (احکام الاحکام ج۲،ص،۸۲)
اسی قسم کی وضاحت دیگر علماء کرام نے بھی کی ہے مگر یہاں استیعاب مقصود نہیں۔ صرف ضرورۃً مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے کہ اہل قبلہ سے کیا اور کون مراد ہیں۔‘‘ (مقالات تربیت،ص:۱۸۷ تا ۱۸۹)
اہل بدعت مکفرہ کو اہل کتاب پر قیاس کرنا درست نہیں:
سیدنا علی کا مرتدین کو آگ میں جلانا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اہل کتاب کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ ملاحظہ فرمائیں:
عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیق لائے گئے پس آپ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ (بخاری :۶۹۲۲)
فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں:
’’میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی سے دریافت کیا گیا کہ عمرو اہل بدعت کا ذبیحہ اور ان کی عورتوں سے نکاح اہل کتاب کی طرح جائز کہتا ہے جبکہ زید کہتا ہے کہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ ضروریات دین کا منکر مرتد ہے اور مرتد کا حکم اہل کتاب کو دینا سراسر انکار ضروریات دین ہے ان دونوں میں مصیب کون ہے؟ انہوں نے جواباً فرمایا: زید مصیب (سچا) ہے، اہل بدعت جن کی بدعت کفر کو پہنچی ہوئی ہے کسی صورت سے اہل کتاب کا حکم نہیں پا سکتے بلکہ مرتد کہلائیں گے اور ان کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ (فتاویہ نذیریہ ،ج:۳،ص۳۴۳)
اور اس کی تائید عبدالرحمن محدث مبارکپوری نے بھی کی ہے۔
ظاہر ہے کہ ضروریات دین کا منکر کافر ہے اور صحیح یہی ہے کہ وہ مرتد ہے جیسے قادیانیوں کے بارے میں عموما اہل علم کی رائے ہے اس لیے ضروریات دین کا منکر مرتد ہے تو اسے اہل کتاب پر قیاس کرنا قطعاً درست نہیں۔ البتہ ان کے کفر و ارتداد کا خصوصی حکم (تکفیر معین) حجت قائم ہونے اور ان کے شبہات کا ازالہ ہونے کے بعد لگایا جائے گا۔ اسی بنا پر تو ایسی صورت میں اہل علم لکھتے ہیں’’یستتاب ولا یقتل‘‘ کہ اسے توبہ کروائی جائے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اس پر حجت قائم ہو۔ اگر وہ توبہ کر لے تو فبھا ورنہ ارتداد کی وجہ سے اس کی سزا قتل ہے۔ (مقالات تربیت، ص:۲۰۲،۲۰۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کفریہ بدعات کے حاملین سے تعامل
اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ کفار و مشرکین سے برأت کا اظہار کریں وہ کفّار یہود و نصاریٰ، ہندو اور دھریہ ہوں یا اسلام کے دعویدار یعنی کلمہ پڑھ کر اسلام کے منافی امور (نواقض اِسلام ) کے مرتکب ہو کر یا دین کے قطعی امور میں اختلاف کر کے کافر و مرتد ہوئے ہوں ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ایک اصلی کافر سے کیا جاتا ہے۔
ذیل میں ہم کفریہ بدعات کے حاملین سے تعامل کی چند اہم صورتوں کا ذکر کریں گے۔

دشمنی و قطع تعلقی کرنا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ (المجادلۃ: ۲۲)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے بھائی یا خاندان ہی کے لوگ (کیوں نہ) ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی طرف سے روح (جبریل) کے ساتھ ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، داخل کرے گا۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش ہیں یہی گروہ حزب اللہ ہے (اور) سن رکھو کہ حزب اللہ ہی کامیابی حاصل کرنے والا ہے۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے قدریہ سے عداوت کرنے، ان کی صحبت ترک کرنے پر استدلال کیا ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے ﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ﴾ قدریہ کے ساتھ مت بیٹھ اور ان سے اللہ کی خاطر دشمنی کر۔ میں کہتا ہوں: ’’یہاں قدریہ جیسے تمام اہل ظلم و عدوان (اس حکم میں) داخل ہیں۔‘‘ (تفسیر قرطبی: ۱۷/۳۰۸)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚإِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾ (النساء: ۱۴۰)
’’اللہ اپنی کتاب میں تمہارے لیے یہ حکم پہلے نازل کر چکا ہے کہ جب تم سنو کہ آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ مت بیٹھو حتیٰ کہ یہ لوگ کسی دوسری بات میں لگ جائیں، ورنہ تم بھی اس وقت انہیں جیسے ہو جاؤ گے بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ سے بھی ائمہ نے اہل بدعت کی صحبت اپنانے سے منع کرنے پر استدلال کیا ہے۔ (دیکھیے تفسیر قرطبی: ۵/۴۱۸)

اہل بدعت (مکفرہ) کی اقتداء میں نماز ادا نہ کرنا
اہل بدعت میں سے جن کی بدعت کفر کی حد تک پہنچتی ہے ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز باطل ہے اور پڑھی گئی نماز کو دہرانا واجب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّـهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ﴿١٧﴾ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ ۖفَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾ (التوبۃ:۱۷،۱۸)
’’مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں وہ تو خود اپنے اوپر کفر کی شہادت دے رہے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے سب اعمال ضائع ہو گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اللہ کی مساجد کو آباد کرنا ان کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، نماز قائم کی، زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے‘ امید ہے ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے۔‘‘
اسی لیے ائمہ سلف نے غالی جہمیہ، رافضہ اور قدریہ کی اقتداء میں نماز کے باطل ہونے کا فتوی دیا ہے۔
1۔ واثلۃ بن السقع سے قدری کے پیچھے نماز کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا: ’’اس کے پیچھے نماز ادا نہیں کی جائے گی اور اگر (انجانے میں) اس کے پیچھے پڑھ لوں تو میں دہراؤں گا ۔‘‘ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ ولجماعۃ ‘ج :۲‘ص:۷۳۱)
2۔ امام بربہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر جمعہ کے دن تیرا امام جہمی ہو اور وہ وقت کا سلطان ہو (یعنی تو اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور ہو) تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھ لے اور پھر اسے دہرا۔‘‘ (شرح السنۃ:۴۹)
3۔ امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اصل یہ ہے کہ اہل اہواء کی اقتداء جائز ہے سوائے جہمیہ، قدریہ، غالی روافض، خلق قرآن کے قائل، خطابیہ، مشبہ اور اس بدعتی کے جو اپنی بدعت میں غلو کرتا ہوا کفر کے درجہ کو جا پہنچے۔ باقی ماندہ لوگوں کی اقتداء میں نماز جائز مگر ناپسندیدہ ہے۔‘‘ (بحرالرائق شرح کنز الدقائق ،ج:۱ص:۳۷۰)
4۔ سلام بن أبی مطیع رحمہ اللہ سے جہمیہ کے متعلق سوال کیا گیا‘ تو آپ نے فرمایا ’’وہ کفار ہیں ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘ (السنۃ لعبداللہ بن أحمد ۱/۱۰۵)
5۔ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جو کوئی قبر والوں سے استغاثہ کرتا ہے یعنی اپنی مشکلات میں اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے یا ان کی نذر و نیاز دیتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں کیونکہ وہ مشرک ہے اور مشرک کی نہ امامت درست ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز اور کسی مسلم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے۔" (فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش فتوی نمبر [9336]
6۔ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ اور ان کی لجنۃ سے بریلوی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دریافت کیا گیا جن کا عقیدہ یہ ذکر کیا گیا کہ:
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔
(۲) آپ حاضر و ناظر ہیں۔
(۳) یہ لوگ قبر والوں سے حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں
(۴) قبروں پر گنبد بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں۔
(۵) یا رسول اللہ یا محمد کہتے ہیں۔
(۶) رفع الیدین کرنے والے اور آمین بالجہر کرنے والے سے ناراض ہوتے اور اسے وہابی کہتے ہیں.
(۷) وضو اور اذان میں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انگوٹھے چومتے ہیںِ۔ ایسے عقائد کے حاملین کے پیچھے نماز کے متعلق شیخ صاحب فرماتے ہیں: ’’جس شخص کے یہی حالات ہوں اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے اور اگر کوئی نمازی اس کی اس حالت سے واقف ہونے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح نہیں کیونکہ سوال میں مذکورہ امور میں سے اکثر کفریہ اور بدعیہ ہیں جو اس توحید کے خلاف ہے جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور جو اس نے اپنی کتابوں میں بیان فرمائی۔ [فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب: 256/2]

سلام کا جواب نہ دینا:
بدعت کبریٰ والے بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے۔
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر کہا فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے تو انہوں نے فرمایا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ بدعتی ہو گیا ہے پس اگر وہ بدعتی ہو گیا ہے تو اسے میرا سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے میری امت یا اس امت میں خسف (زمین میں دھنس جانا) یا مسخ (شکلوں کا مسخ ہونا) یا قذف (پتھروں کا برسنا) ہو گا اور یہ سب باتیں قدریہ کے بارے میں ہوں گی۔ (ترمذی :۲۱۵۲، ابن ماجہ: ۴۰۶۱)
امام احمد رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا میرا ہمسایہ رافضی ہے کیا میں اسے سلام کہہ سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اگر وہ سلام کہے اسے جواب نہ دیا جائے۔‘‘ (السنۃ للخلال: ج۱:ص:۴۹۴)

وراثت میں حقدار نہ بنانا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کافر کا وارث نہیں اور نہ ہی کافر مومن کا وارث بن سکتا ہے‘‘۔ [بخاری:۶۷۶۴، مسلم:۱۶۱۴]

نکاح نہ کرنا:
﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ﴾ [البقرۃ: ۲۲۱]
’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی آزاد مشرکہ سے بہتر ہے اگر چہ وہ تمہیں اچھی لگے۔ اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں اچھا لگے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء کے علماء کرام فرماتے ہیں:
’’آیت مبارکہ میں جس شرک کا ذکر ہے، اس میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو اللہ کے سوا کسی جن، یا فوت شدہ انسان، یا دور دراز مقام پر موجود شخصیت سے فریاد کرتے ہیں اور جو غیر قرآنی تعویذ پہن کر امید رکھتے ہیں کہ ان سے فائدہ ہو گا اور ان پر شفا کا دار و مدار سمجھتے ہیں اور اس میں غلو کرتے ہیں۔ اسی طرح اس میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جن میں بت پرستوں والے طور طریقے پائے جاتے ہیں۔ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگ غیر اللہ کے لئے نذر مانتے تھے، ان کے لئے جانور ذبح کرتے اور دوسری قربانیوں کے ذریعے ان کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان سے گڑگڑا کر اپنی حاجتیں مانگتے تھے۔ (حصول برکت کے لئے) ان (بتوں، درختوں، قبروں وغیرہ) کو ہاتھ لگاتے تھے اور قبروں کا طواف کرتے تھے اور ان حرکتوں کے ذریعے وہ کسی فائدہ کے حصول کی، یا مصیبت رفع ہو جانے کی امید رکھتے تھے۔ (اب بھی) جو شخص یہ (مشرکانہ) کام کرے وہ آیت میں ذکر کردہ مشرکوں میں شامل ہے۔ ایسے افراد کو مومن خواتین کا رشتہ دینا جائز نہیں حتیٰ کہ وہ خالص ایمان قبول کریں اور مذکورہ بالا مشرکانہ بدعات اور ایمان کے منافی دیگر اعمال سے توبہ کریں۔ مومن مرد کے لئے بھی جائز نہیں کہ ایسی مشرکانہ بدعات کی حامل عورتوں سے نکاح کریں حتیٰ کہ وہ توبہ کر کے ان اعمال سے باز آجائیں۔‘‘ (فتویٰ نمبر:۶۴۶۰)
امام مالک رحمہ اللہ کے دور میں مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہو چکے تھے، اس وقت ’’قدریہ‘‘ جو تقدیر کے منکر تھے جب ان سے شادی کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا توانہوں نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی
﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ﴾ (البقرۃ :۲۲۱)
’’مومن غلام مشرک سے بہتر ہے‘‘ (کتاب السنہ لابن ابی عاصم رقم: 198،شیخ البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے)
طلحہ بن مصرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :((الرافضۃ لا تنکح نسائھم ولا تؤکل ذبائحھم لأنھم اھل الردۃ))
’’رافضہ کی عورتوں سے نکاح نہیں کیا جاتا نہ اُن کا ذبیحہ کھایا جاتا ہے کیونکہ وہ مرتد ہیں۔‘‘ (الابانۃ الصغریٰ لابن بطۃ :۱۶۱)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مشرکین کی عورتوں سے نکاح کے حرام ہونے پر اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(أما المشرکون فاتفقت الأمۃ علی تحریم نکاح نسائھم)
’’امت مسلمہ مشرکین کی عورتوں سے نکاح کے حرام ہونے پر متفق ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ : ۸/۱۰۰ )

اتحاد نہ کرنا:
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اتحاد کا مطلب ہے طرفین میں کچھ ایسے امور پر اتفاق ہونا جس کی بابت دونوں ایک دوسرے کی نصرت اور پشت پناہی کریں، یہ اتحاد اسلام میں حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کی طرف صرف جھکنے پر ہی جہنم کی وعید دی۔ فرمایا:
﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ﴾ (ھود :۱۱۳)
’’اور جو لوگ ظالم ہیں ان کی طرف مائل نہ ہونا۔ نہیں تو تمہیں دوزخ کی آگ آلپٹے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی کار ساز نہ ہو گا پھر تم مدد نہیں کئے جائو گے۔‘‘
مزید برآں یہ کہ اس اتحاد کے لوازم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ ایک دوسرے سے اظہار قربت و مودت کریں جبکہ یہ امر اسلامی عقیدہ الولا والبرا میں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ الولاء (اللہ کے دوستوں سے دوستی) اور البراء (اللہ کے دشمنوں سے برأت) ایمان کی زنجیر کے مضبوط ترین جوڑ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ (المائدۃ: ۵۱)
’’اور تم میں جو شخص ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہو گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’المرء مع من احب‘‘ (بخاری، مسلم)
’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرے۔‘‘ (سیاست شرعیہ کے متعلق دور حاضر کے کچھ مسائل، ص:۸)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اس جھکاؤ کی تفسیریوں بیان کرتے ہیں :
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (لَا تَرْکَنُوا) سے مراد ہے میلان بھی نہ رکھو۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مراد ہے کہ تم ان کی بات نہ مانو ان سے محبت اور لگاؤ نہ رکھو، نہ انہیں (مسلمانوں کے) امور سونپو، مثلاً کسی فاسق، فاجر کو کوئی عہدہ سونپ دیا جائے۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو ظالموں کے ظلم کے لیے دوات بنائے یا قلم تراش دے یا انہیں کاغذ پکڑا دے وہ بھی اس آیت کی وعید میں آتا ہے۔‘‘ (مجموعۃ التوحید :۱۱۸-۱۱۹)

جلسوں اور دینی تقریبات میں ان کو تشریف آوری کی دعوت نہ دینا:
مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بدقسمتی سے یہ برائی بہت عام ہوتی جا رہی ہے۔ خصوصا ایسی جگہیں جہاں مسلمان اقلیت یا حالت ضعف میں ہیں ۔حالانکہ از روئے شرع یہ کام ناجائز اور حرام ہی نہیں بلکہ اسلام کے منافی امور کے قریب ہے۔ کیونکہ اگر کسی خالص دنیاوی معاملے میں بھی کسی کافر کو مسلمانوں پر فوقیت دی گئی تو شریعت میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ تو کسی خالص اسلامی تقریب اور اجتماع کے موقع پر تقریر کرنے یا اس مجلس کی صدارت کرنے یا مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دینے کو کیسے جائز کہا جا سکتا ہے‘‘؟
سعودی عرب کی مجلس تحقیق وفتویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء کے پاس آسٹریلیا کے مسلمانوں کی جانب سے ایک سوال نامہ پہنچا جس کا ماحصل یہ تھا کہ:۔
’’ہمارے ملکوں میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے۔ کیا ہم اپنے اجتماعات اور جلسوں کے موقع پر انہیں تقریر کرنے کا موقع دے سکتے ہیں؟‘‘
مجلس تحقیق وفتویٰ کا جواب تھا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس عمل سے دو برائیاں پیدا ہو سکتی ہیں:
1- بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی تقریر میں کوئی ایسی بات کہہ جائیں جسے سن کر مسلمان اپنے دین کے متعلق شبہات میں مبتلاء ہو جائیں۔
2- اس سے حاضرین کی نظر میں غیر مسلموں کی ایک اہمیت ہو گی اور ان کی محبت کا شکار ہو کر لوگ فتنے میں پڑ سکتے ہیں (کم از کم لوگوں کی نظر میں وہ محترم اور معظم شخصیت بن جائیں گے)۔ [فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ،66 -64/2]

احترام و تعظیم نہ کرنا:
﴿وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ [المنٰفقون: ۸]
’’عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن یہ منافق نہیں جانتے۔‘‘
﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٣٨﴾ الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا﴾ [النساء: ۱۳۸،۱۳۹]
’’ان منافقوں کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ کے لیے ہے‘‘۔
عزت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اس لیے احترام اور تعظیم کے حق دار اللہ، اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں اللہ کے باغیوں کے لیے کوئی عزت و احترام نہیں جو شخص کسی کافر و مشرک کی اس لیے عزت کرتا ہے کہ وہ عیسائیوں کا پادری ہے یا شرک کی طرف دعوت دینے والوں کا عالم ہے تو وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ أُولَـٰئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ﴾ [المجادلۃ : 20]
’’جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ ذلیل لوگ ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من وقر صاحب بدعۃ فقد أعان علیٰ ھدم الاسلام))
’’جس نے کسی بدعتی کی عزت و تکریم کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔‘‘ (الشریعہ للآجری ص ۹۶۲ح ۲۰۴۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کو سلام میں پہل کرنے سے منع فرمایا:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہود و نصاریٰ سے سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور اگر ان میں سے کسی سے راستے میں ملو تو اسے تنگ راستے سے گزرنے پر مجبور کر دو‘‘۔ [مسلم: ۲۱۶۷]
مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایسے کلمات کا استعمال جن سے ان کی تعظیم اور بڑائی کا اظہار ہو جائز نہیں ہے۔ جیسے لفظ سر، سید، سردار، عالی جناب، عزت مآب اور دیگر الفاظ تعظیم و احترام وغیرہ کیونکہ اس سے اس کی فوقیت اور افضلیت ظاہر ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کو سیدنا (میرا سردار) نہ کہو کیونکہ اگر تم نے منافق کو اپنا سردار بنایا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا‘‘۔ [ابو داؤو: ۴۹۷۷] قال الشيخ الألباني: صحيح
بات صرف تعظیم اور تعظیمی کلمات کے استعمال تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دیکھیں کہ صرف ظاہر میں بغیر کسی خاص ضرورت کے کسی کافر کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیا جائے گا جس سے کسی مسلمان کے مقابلے میں اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہو……حتیٰ کہ صرف نام لینے میں بھی کسی مسلمان سے پہلے کسی کافر کا نام نہ لیا جائے گا۔
عائذ بن عمر و المزنی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’فتح مکہ کے موقع پر میں ابو سفیان کے ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوا ابھی تک ابو سفیان مسلمان نہیں ہوئے تھے آپ کے گرد موجود صحابہ میں سے کسی نے کہا کہ ابو سفیان اور عائذ بن عمرو آ رہے ہیں آپ نے فرمایا یوں کہو کہ عائذ بن عمرو اور ابو سفیان آ رہے ہیں اسلام اس سے قوی ہے، اسلام بلند ہے اس پر کوئی دوسرا مذہب بلند نہیں ہو سکتا ۔[السنن الکبری للبہقی حسنہ البانی ارواء الغلیل ۱۲۶۸] (وفاداری یا بیزاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کفریہ بدعات کے حاملین سے تعامل
مدح سرائی نہ کرنا:
فضیلہ الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’کفار کے باطل عقائد اور فاسد دین میں غور کئے بغیر ان کی مدح سرائی کرنا ان کی تہذیب و تمدن کی تعریف کرنا اور ان کے ظاہری اخلاق اور مہارت سے متاثر ہونا کفار سے دوستی کے مظاہر میں سے ہے۔ کفار کی معاونت کرنا، مسلمانوں کے خلاف کفار کو اپنی مکمل حمایت فراہم کرنا، کفار کی مدح سرائی اور تعریفیں کرنا اور کفار کی مدافعت اور وکالت کرنا کفار سے دوستی کے مظاہر اور علامتیں ہیں دوستی کے یہ مظاہر ایک بندہ مسلم کے اسلام کو ختم کر دینے والے اور ارتداد کے اسباب میں سے ہیں۔ [الولاء والبرا فی الاسلام لصالح الفوزان ص13)

استغفار، رحمت کی دعا اور تعزیت نہ کرنا:
اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ (التوبۃ:113)
’’نبی کیلئے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں‘‘۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لیے دعا کرتے ہوئے سنا تو میں نے اسے کہا کیا تو اپنے والدین کے لیے دعا کر رہا ہے جبکہ وہ مشرک تھے؟ اس نے جواب دیا: ’’کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے (مشرک) باپ کے لیے دعا نہیں کی تھی؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس بات کا ذکر کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیات نازل فرمائیں:
﴿وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴾ (التوبۃ:114)
’’ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کی تھی وہ تو صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے باپ سے اس بات کا وعدہ کیا ہوا تھا پھر جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے‘‘ [سنن النسائی :۲۰۳۶] قال الشيخ الألباني: حسن
اللہ تعالیٰ نے جہاں ابراہیم علیہ السلام کو ہمارے لیے اسوہ قرار دیا ہے وہاں ارشاد فرمایا کہ کوئی ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لیے دعا مغفرت کرنے کو دلیل نہ بنائے:
﴿إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ﴾ (الممتحنۃ: ۴)
’’(یہ بات نمونہ نہیں ہے جو) ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ میں تیرے لیے مغفرت کی دعا کروں گا حالانکہ میں تیرے لیے اللہ کے سامنے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ’’قدریہ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’أولئک شرار ھذہ الأمۃ لا تعودوا مرضاھم، ولا تصلوا علی موتاھم‘‘
’’وہ اس امت کے شریر ترین لوگ ہیں، تم ان کے مریضوں کی عیادت نہ کرو اور اُن کے مرنے والوں کا جنازہ نہ پڑھو۔‘‘ (شرح أصول اعتقادأھل السنۃ :۲/۶۴۳)
اسی بات کو مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
((القدریۃ مجوس ھذہ الامۃ ویھودھا فان مرضوا فلا تعودوھم، وان ماتو فلا تشھدوھم)) (الشریعۃ:۲۲۵)
بشر بن حارث رحمہ اللہ ’’جہمیہ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
((لا تجالسوھم ولا تکلموھم وان مرضوا فلا تعودوھم وان ماتوا فلا تشھدوھم))
’’ان کو اپنے ساتھ مت بٹھائو ِ ان سے کلام نہ کرو، اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت مت کرو اور اگر وہ مر جائیں ان کے جنازوں میں مت شریک ہو۔‘‘ (السنۃ لعبداللہ بن أحمد :۱/۱۲۶)
ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
القرآن کلام اللہ غیر مخلوق فمن قال غیر ھذا فان مرض فلا تعودوہ وان مات فلا تشھدوا جنازتہ وھو کافر باللہ العظیم (شرح أصول اعتقادأھل السنۃ :۱/۳۲۲)
’’قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔ جس کسی نے اس کے سوا کچھ اور کہا اگر وہ مریض ہو اُس کی عیادت مت کرو اور اگر وہ مر جائے اس کے جنازے میں مت شریک ہو کیونکہ وہ کافر ہے۔‘‘
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے استغفار اور رحمت کی دعا کرنا حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان کے لئے استغفار اور رحمت کی دعا کرنے میں ان کی محبت اور ان کے دین کی صحت کا اعتراف شامل ہے۔ (دوستی اور دشمنی کا معیار، ص23)
سلف کے ان اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعت مکفرہ میں واقع ہونے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ مگر جہاں تک ان کی عیادت کرنے کا تعلق ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کافر کی عیادت کے لیے جانا ثابت ہے۔ اس لیے اگر ایسا کرنے میں کوئی مصلحت پائی جاتی ہو تو عیادت کرنا جائز ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بدعت مکفرہ کے مرتکب دشمنی اور بغض کے مستحق ہیں سلف صالحین کے ان اقوال سے اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

کفار کے ساتھ حسن سلوک
ان تمام امور کے باوجود اسلام ہمیں اُن کفار کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی اجازت دیتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں کرتے۔ البتہ ان سے دلی محبت حرام ہے۔ موالات (دلی محبت) کا تعلق دل سے ہے اور حسن سلوک ایک خارجی عمل ہے۔ یعنی جس کے ساتھ حسن سلوک کیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے موالات بھی کی جا رہی ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"البر والصلۃ والاحسان لا یستلزم التحابب والتواد دالمنھي عنہ"
"کفار کے ساتھ اچھا سلوک، صلہ رحمی اور نیکی کرنا ان سے اُس محبت اور دوستی کو مستلزم نہیں کرتا ہے کہ جس سے منع کیا گیا ہے" [فتح الباری ۵/۲۳۳]
کفار کے ساتھ حسنِ سلوک نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات مستحب اور تاکیدی ہو جاتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جب یہ امید ہو کہ ایسا کرنے سے کافر دین اسلام کی طرف مائل ہو گا۔ اور اگر کفار و مشرکین عزیز و اقارب میں سے ہوں تو اس چیز کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩﴾ [الممتحنۃ :۸،۹]
’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور نہ ہی تمہیں جلا وطن کیا ان کے ساتھ حسن سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑی ہیں اور تمہیں جلا وطن کیا اور جلا وطن کرنے والوں کی مدد کی۔ جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ واقعی ظالم ہیں‘‘۔
پہلی صورت:
عیادت کرنا
کسی کافر کی عیادت کے لئے جایا جا سکتا ہے، خصوصاً جبکہ اس عیادت کے پیچھے کوئی مقصد پوشیدہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی لڑکے کی عیادت کے لئے گئے جب وہ بیمار پڑ گیا اور وہ آپ کی خدمت بھی کیا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اسلام لے آئو‘ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لی اور اسلام لے آیا۔ [بخاری :۵۶۵۷]
اللجنۃ الدائمہ نے کافر کی تعزیت کے بارے میں فتویٰ دیا ہے کہ:
’’اگر کافر کی تعزیت سے مقصد ان کو اسلام کی طرف راغب کرنا ہے تو یہ جائز ہے اور یہ شریعت کے مقاصد میں سے ہے اور اسی طرح اپنے آپ کو یا مسلمانوں کو ان کے شر سے بچانا مقصود ہو تو یہ جائز ہے کیونکہ عام مسلمانوں کی مصلحتیں جزئی نقصان پر حاوی ہوتی ہیں۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء ۹/۱۳۲)
دوسری صورت:
ہدیہ و صدقہ دینا
﴿لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚوَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّـهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٢﴾ (البقرۃ: ۲۷۲)
’’لوگوں کو راہ راست پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو تم خرچ کرتے ہو وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتے ہو۔ اور جو بھی مال و دولت تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی۔‘‘
عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا نا پسند کرتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا اور یہ آیت اتری اور انہیں رخصت دی گئی۔ (تفسیر ابن کثیر)
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے مال غنیمت میں سے صفوان بن امیہ کو سو بکریاں دیں پھر سو بکریاں دیں پھر سو بکریاں دیں حالانکہ وہ مشرک تھا کہتا ہے کہ آپ مجھے دیتے رہے۔ حتیٰ کہ آپ میری نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔ جب کہ آپ سے مجھے سخت نفرت تھی۔ (مسلم: ۲۳۱۳، ترمذی: ۶۶۶)
شیخ محمد بن صالح عثیمین فرماتے ہیں:
’’کافروں کو ہدیہ و تحفہ دینا جائز ہے اور اگر اس کا مقصد انہیں دین اسلام کے قریب کرنا ہے یا ان کا ہدیہ قبول کر کے انہیں اپنے سے مانوس کر کے مذہبی باتیں ان تک پہنچانا ہے تو یہ چیز مستحب ہو گی۔ البتہ کسی مذہبی تہوار کے موقع پر ان کا ہدیہ قبول کرنے سے دل میں ان کی محبت پیدا ہوتی ہو یا ان کے مذہبی تہوار کی تعظیم ہو تو ایسا کرن اقطعاً حرام ہے۔‘‘ [مجموع الفتاویٰ الشیخ ابن عثمین ۳/۳۳]
تیسری صورت:
زیارت کرنا
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کسی مسلمان کا کوئی قریبی رشتہ دار کافر ہے اور اس کے ہاں آمد و رفت کا سلسلہ رکھنے میں دین کا کوئی نقصان نہیں ہے تو یہ جائز ہے، ورنہ ناجائز۔ لیکن اگر کافر رشتہ دار نہیں تو اس کے یہاں بے مقصد آمد و رفت کا سلسلہ رکھنا، خصوصاً وقت گزارنے اور گپ شپ کے لئے جانا جائز نہ ہو گا۔ [مجموع الفتاویٰ شیخ ابن باز ۳/۱۰۵۱]
چوتھی صورت:
دعوت قبول کرنا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ کی دعوت قبول فرمایا کرتے تھے۔ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا۔
پانچویں صورت:
خرید و فروخت کرنا
نصوصِ کتاب و سنت اور سلف کے معمول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی کافر کی دکان سے خرید و فروخت کرنا اور ان کے پاس دعوت کی نیت سے بیٹھنا جائز ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہود و مشرکین آکر بیٹھا کرتے تھے اور آپ ان سے خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔
چھٹی صورت:
اچھے اخلاق سے پیش آنا
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک شخص نے خدمت نبوی میں باریابی کی اجازت چاہی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((بئس اخو العشیرۃ او ابن العشیرۃ))
’’یہ اپنے قبیلہ کا بہت برا آدمی ہے‘‘۔
اتنا کہنے کے بعد آپ نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی اور اس سے بڑی نرمی سے بات کی۔ پھر جب وہ چلا گیا تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس کے بارے میں یہ کچھ فرمایا تھا پھر اس سے اس طرح نرمی سے کیوں پیش آئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: [اے عائشہ! انَّ شرَّ النَّاس منزلۃً عند اللہ یوم القیامۃ من ودعہ النَّاس اتِّقاء فحشہ]
’’سب سے برا آدمی وہ ہے کہ لوگ اس کی فحش گوئی سے بچنے کے لیے اس کو چھوڑ دیں۔‘‘ [صحیح البخاری :۶۰۵۶]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تکفیر کے اصول و ضوابط
تکفیر ناحق جرم عظیم ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے کسی آدمی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا۔ اگر وہ ایسا نہ ہوا تو بات کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گی‘‘ (بخاری: 6104، مسلم: 60)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف گرتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں چکر لگاتی ہے۔ پھر جب اس کو کوئی راستہ کسی طرف نہیں ملتا تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اس کا مستحق ہو تو ٹھیک ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے‘‘۔ (ابو داود: 4905)
تکفیر معین اور مطلق کا فرق
تکفیر مطلق: فعل کا کفر ہونا مطلقاً (بغیر کسی فرد معین پر حکم لگائے) بیان کرنا جیسے کہا جائے کہ جس نے یہ اور یہ کام کیا اس نے کفر کیا۔ اس میں ایک چیز کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ جس قول، فعل یا اعتقاد کا جرم بیان کیا جا رہا ہے اس کا کفر ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہو۔
تکفیر معین: فرد معین پر کفر کا حکم لگانا جیسے کہا جائے کہ فلاں شخص کافر ہے۔ اس میں دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
(۱) فعل کا کفر ہونا۔
(۲) اس فعل کے مرتکب کے احوال کو مدنظر رکھنا (شروط کے پائے جانے اور موانع کے ختم ہو جانے کے لحاظ سے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
"اللہ تعالیٰ نے شراب پینے اور پلانے والے پر لعنت کی ہے"۔ (ابو داؤد :۳۶۷۴)
مگر جب ایک صحابی نے دوسرے صحابی کو شراب پینے کی وجہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرے کہ بار بار شراب پیتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اس طرح مت کہو اس کے خلاف شیطان کی مدد مت کرو۔ اس پر لعنت نہ بھیجو اللہ کی قسم وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے"۔ (بخاری: ۶۷۸۰)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔
’’شراب پینے والے پر لعنت کے باوجود اس صحابی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے صحابی پر اس کے شراب پینے پر اصرار کے باوجود لعنت کرنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مطلق لعنت سے معیّن لعنت لازم نہیں آتی کیونکہ بعض اوقات کوئی مانع اس مطلق لعنت کے کسی معین پر لاگو ہونے میں حائل ہو جاتا ہے۔ تاہم جہاں تک کسی شخص کو متعین یا اس کی نشان دہی کر کے اس پر کافر یا پکا جہنمی ہونے کا حکم لگانے کا تعلق ہے تو اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا مطلوبہ شروط پوری ہوتی ہیں اور موانع زائل ہوتے ہیں یا نہیں] (مجموع الفتاویٰ ،ج ۱۰ص۳۲۹)
مزید فرماتے ہیں :
[یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ ان بدعات میں سے بعض بعض سے کہیں بڑھ کر شدید اور گھناؤنی ہوتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض بدعتی بعض دوسرے بدعتیوں سے کہیں بڑھ کر ایمان سے کورے اور تہی دامن ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی کے لئے یہ روا نہیں کہ مسلمانوں میں کسی کی تکفیر کرے اگرچہ وہ غلطی اور کج روی پر ہی کیوں نہ ہو، تا آنکہ اس پر اقامت حجت نہ ہو جائے اور دلیل واضح نہ کر دی جائے۔ جس شخص کا ایک بار قطعی طور پر مسلمان ہونا ثابت ہو جائے اس کا یہ حکم شک کی بنا پر زائل نہیں ہو سکتا، بلکہ جب تک اقامت حجت اور ازالہ شبہ نہ ہو جائے اس وقت تک زائل نہیں ہو سکتا] (مجموع الفتاویٰ ،ج ۱۲ص۵۰۰)

تکفیر کے قواعد و ضوابط:
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آج کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت شرک و کفر میں ملوّث ہے۔ دعوت کے میدان میں کام کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان کی تفصیلات بیان کریں۔ جن باتوں سے آدمی کافر ہو جاتا ہے یعنی نواقض اسلام صاف صاف لوگوں کو سنائیں تاکہ لوگ اپنے شرک و کفر سے باز آ جائیں۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ کفر و شرک میں واقع ہونے والے سب لوگ کافر و مشرک قرار پائیں۔ گویا ہم نے کفر مطلق کو بیان کرنا ہے کہ فلاں بات کہنے یا فلاں کام کرنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے البتہ کفر معیّن یعنی کسی خاص شخص (محمد علی ولد عبدالقادر) کو کافر و مشرک کہنا اس وقت تک درست نہیں جب تک کہ متعین شخص کے حق میں کچھ شروط پوری اورکچھ موانع ختم نہ ہوجائیں۔ کیونکہ کفر مطلق سے کفر معیّن لازم نہیں آتا۔
ہمارا فرض منصبی لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو یہ شرک و کفر ہے اور اس شرک کی سزا مستقل جہنم ہے تاکہ لوگ اسلام کی حقیقت کو جان لیں اور شرک و کفر سے توبہ کر لیں۔ شرک و کفر کے افعال کرنے والوں پر ان کے جرم کے مطابق حکم لگایا جاتا ہے۔ مگر ان افعال کے کرنے والوں پر حکم لگانے کی چند شروط اور موانع ہیں ان شروط کا پورا ہونا اور موانع کا دور کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر کفر کرنے والا کافر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر شرک کرنے والا مشرک ہوتا ہے۔

تکفیر کی شرائط:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے قلم اٹھا لیا ہے (۱) سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ (۲) بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔ (۳) مجنون جب تک اس کی عقل بحال نہ ہو جائے۔ (ابن ماجہ: ۲۰۴۱)

تکفیرکے موانع:
1۔ بلا قصد:
بعض اوقات انتہائی خوشی کے موقعہ پر ایک مسلمان کی زبان سے ایسے کفریہ کلمات نکل جاتے ہیں جو اس کا عقیدہ نہیں ہوتا۔ ایسے بلا قصد الفاظ کی بنا پر آدمی کافر و مشرک نہیں ہوتا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے بڑھ کر خوش ہوتا ہے جس کی صحراء میں سواری گم ہو جائے جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہے۔ وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے اچانک وہ سواری واپس آ جاتی ہے اور وہ اس کی نکیل پکڑ لیتا ہے اور وہ خوشی کی شدت میں پکار اٹھتا ہے۔ اللھم انت عبدی وانا ربک
اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب‘‘۔ (مسلم ۲۷۴۷)
عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کھیت میں پانی لگانے پر زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری میں جھگڑا ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر اپنا کھیت سینچ کر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو۔ انصاری نے کہا: زبیر آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے نا؟ (یعنی آپ نے فیصلہ میں پھوپھی زاد بھائی کی رعایت کی اور انصاف نہیں کیا) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل گیا۔ (کیونکہ انصاری کا یہ آپ پر الزام تھا حالانکہ آپ نے اپنے فیصلہ میں انصاری کی رعایت کی تھی۔ زبیر؄ کو ان کا پورا حق نہیں دیا تھا) پھر آپ نے فرمایا: زبیر کھیت کو بھر پور پانی دے کر چھوڑنا۔ اس فیصلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو اس کا پورا حق دلایا جب کہ انصاری نے آپ کو غصہ دلایا۔ پہلے آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا تھا جس میں دونوں کا کام نکلتا تھا۔ (بخاری:۴۵۸۵)
سید مسعود احمد امیر جماعت المسلمین اپنی کتاب ’’تاریخ الاسلام والمسلمین‘‘ میں اس انصاری صحابی کو منافق قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بدری صحابی ہیں جیسا کہ روایت کے الفاظ سے واضح ہے: ’’انہ خاصم رجلا من الانصار قد شھد بدرًا‘‘ (بخاری :۲۷۰۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ پر ان کا اعتراض یقینا بلا قصد تھا کیونکہ بدری صحابی نے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر کے اپنے اخلاص کا ثبوت دے دیا تھا لہٰذا بلا قصد جملہ کی بنا پر ان کو منافق قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ آپ نے صرف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زبیر کو اس کا پورا حق دلوا دیا اور اس کے بعد اس انصاری صحابی کی خاموشی ہی کو اس کی توبہ سمجھی گئی لہٰذا اگر کسی مسلم کی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی گواہی دے رہی ہو اور کوئی ایسی بات مل جائے جو ظاہراً کفر ہو اور اس کی زندگی میں اس کفر کا رد موجود ہے تو ہم اس کو منافق کہنے کے بجائے اس کی بات کی تاویل کریں گے۔

2۔ جہالت:
بعض اوقات آدمی شرکیہ یا کفریہ کام کرتا ہے اور اسے علم نہیں ہوتا کہ یہ شرکیہ کام ہے۔ اور وہ اس کا علم حاصل کرنے سے عاجز بھی ہوتا ہے۔ جب اسے بتایا جاتا ہے تو وہ توبہ کر لیتا ہے۔ تو شرکیہ کام کرنے کی بنا پر اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے بچوں سے کہا کہ میں نے اللہ کی درگاہ میں کوئی نیکی نہیں بھیجی۔ اگر اللہ نے مجھے پکڑ لیا تو سخت عذاب دے گا۔ تم میرے مرنے کے بعد میری لاش جلا دینا۔ جب جل کر کوئلہ ہو جائے تو اسے خوب باریک پیسنا اور جس دن زور کی آندھی ہو اس دن یہ راکھ آندھی میں اڑا دینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نےکن کہا وہ شخص سامنے کھڑا ہو گیا۔ اللہ نے پوچھا میرے بندے تو نے کیا کیا؟ اس نے عرض کیا اے اللہ تیرے خوف سے اور تو جانتا ہے۔ اللہ نے اس پر رحم کیا اور اس کو بخش دیا۔ (بخاری ۷۵۰۶)
سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے، جب ہم اس درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ سے عرض کیا جیسے ان مشرکوں کے لیے ’’ذات انواط‘‘ ہے، آپ ہمارے لیے بھی ایک ’’ذات انواط‘‘ مقرر فرما دیجئے آپ نے اللّٰہ أکبر کہا اور فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑے جاہل ہو، پھر نبی اکرم نے فرمایا تم بھی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔ [ترمذی: 2180]
جہالت کے سبب بدعت میں واقع ہونے والے
بدعت میں جہالت سے واقع ہونے والا جو اس عمل و اعتقاد کے بدعت ہونے سے جاہل ہو جس میں وہ واقع ہو رہا ہے یا وہ کسی کی تقلید کرتے ہوئے اس بدعت کا ارتکاب کرے۔ اس پر حکم کا دار و مدار دو باتوں پر ہے:
۱۔ اس بدعت کی نوعیت جس میں وہ واقع ہوا ہے:۔
اگر وہ ایسے مسئلہ میں بدعت کا شکار ہوا جو لوگوں کے مابین معروف ہے تب اسے عذر نہیں دیا جائے گا۔ اور اگر وہ کوئی دقیق مسئلہ ہے تو پھر اُسے عذر دیا جائے گا
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کو پیچیدہ علمی امور میں خطا (غلطی لگ جانا) معاف ہے، بے شک وہ علمی مسائل (اعتقادی) ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بیشتر بزرگان امت ہلاک ہو جاتے جب ایک ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے جو اس سے لا علم ہے کہ شراب حرام ہے کیونکہ وہ لا علمی اورجہالت کے ماحول اور علاقے میں پروان چڑھتا ہے، جبکہ اس نے علم بھی حاصل نہیں کیا تو پھر ایک عالم فاضل جو اپنے زمان و مکان کے لحاظ سے جو میسر ہے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے طلب علم میں اجتہاد و محنت کرتا ہے جبکہ اس کا مقصد بھی حسب امکان رسول اکرم کی پیروی ہے تو وہ اس سے بھی اولیٰ اور زیادہ مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں قبول کرے، اس کے اجتہادات کا ثواب عطا کرے اور جو اس سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان سے درگزر فرمائے کہ اس نے فرمارکھا ہے:
﴿رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶)
’’اے اللہ اگر ہم سے بھول ہو جائے یا ہمیں غلطی لگ جائے تو ہماری پکڑ نہ فرما۔‘‘
اہلسنت ہر اس شخص کی نجات کے پر عزم طور پر قائل ہیں جو اللہ کا تقوی اختیار کرتا ہے، جیسا کہ قرآن نے کہہ رکھا ہے تاہم جہاں تک کسی شخص کو متعین کیے جانے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں اس بنا پر توقف کرتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں آیا وہ تقوی اختیار کرنے والوں میں شامل ہے یا نہیں۔ (مجموع الفتاویٰ،ج۲۰ ص ۱۶۵)
۲۔ اس کی جہالت کی نوعیت:
اگر وہ ایسے معاشرے میں رہتا ہے جہاں کتاب و سنت کا علم عام ہے، حق کو جاننا کچھ مشکل نہیں اور وہ اپنے آپ سے جہالت دور کرنے پر قادر ہے تو ایسی حالت میں بدعت کے مرتکب کو عذر نہیں دیا جائے گا۔ اور اگر وہ ایسے علاقے میں بستا ہے جہاں علمائے حقہ کے نہ پائے جانے کے سبب بدعات کا زور اور سنت کمزور ہے یا اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ علم حاصل کر سکے تو تب اُسے جہالت کا عذر دیا جائے گا۔
شیخ سعید بن ناصر الغامدی حفظہ اللہ ایسے بدعتی کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں جو اپنی جہالت دور کرنے پر قادر ہونے کے باوجود جہالت دور نہیں کرتا:
((ترک العلم وھو قادر علیہ فھذا یسمی جاھل اذ الأصل في الجھل خلو النفس من العلم، وجھلہ ھذا غیر معذور بہ لکونہ أعرض عن طلب العلم الواجب علیہ، مع تمکنہ منہ وقدرتہ علیٰ نیلہ، فلا عذر لہ عنداللہ في الآخرۃ۔ أما حکمہ الدنیاوي، فبحسب بدعتہ، ان کانت مکفرۃ فھو کافر وان کانت مفسقۃ فھو فاسق)) (حقیقۃ البدعۃ وأحکامھا:۲۲۵)
’’علم پر قدرت رکھنے کے باوجود اسے حاصل نہ کرنے والے کو جاہل کہا جاتا ہے کیونکہ جہل اصل میں نفس کے علم سے خالی ہونے کو کہتے ہیں۔ یہ جہالت قابل عذر نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے واجب علم سے اعراض کیا جب کہ وہ اس کے سیکھنے پر قدرت رکھتا تھا۔ ایسے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی عذر نہیں۔ جہا ں تک دنیوی حکم کا تعلق ہے تو وہ اس کی بدعت کے مطابق ہو گا اگر اس کی بدعت مکفرہ ہے تو وہ کافراور اگر مفسقہ ہے تو فاسق ہے۔‘‘
یہی معاملہ مقلد کا ہے، اگر اس کے لیے حق کا جاننا ممکن ہو اور اس تک دعوت پہنچ چکی ہو اس کے باوجود اگر وہ علم حاصل نہیں کرتا تب وہ مجرم ہے۔
امام ابن قیم مقلدین پر حکم لگانے کے بارے میں فرماتے ہیں:
(نعم لابد في ھذا المقام من تفصیل بہ یزول الاِشکال، وھو الفرق بین مقلد تمکن من العلم ومعرفۃ الحق فأعرض عنہ، ومقلد لم یتمکن من ذلک بوجہ والقسمان واقعان في الوجود، فالمتمکن المعرض مفرط تارک للواجب لا عذر لہ عنداللہ……) (طریق الھجرتین:۱/۴۱۲)
’’اس بارے میں تفصیل میں جانا ضروری ہے، اسی سے اشکال ختم ہو گا۔ تفصیل یہ ہے کہ وہ مقلد جو علم حاصل کرتا ہے اور حق کو جان کر اس سے اعراض کرتا ہے اور وہ جو علم اور حق کو نہیں جان پاتا میں فرق ہے ۔ حق جان کر واجب کو ترک کرنے والا زیادتی کا مرتکب ہے اور اس کے لیے اللہ کے ہاں کوئی عذر نہیں ہے۔‘‘

3۔ تاویل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک دستہ مشرکوں کی طرف بھیجا۔ ان کا باہم مقابلہ ہوا۔ ایک مشرک جب کسی مسلمان کو قتل کرنا چاہتا موقع پاکر اسے قتل کر دیتا۔ اسامہ بن زید؄رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اسامہ نے جب اسے مارنے کے لئے تلوار اٹھائی تو اس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسامہ کا قصہ بیان ہوا۔ آپ نے انہیں بلایا اور پوچھا تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ اس نے مسلمانوں کو بڑی تکلیف دی۔ اس نے فلاں اور فلاں کو شہید کیا (یہ صورت حال دیکھ کر) میں نے اس شخص پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو اس نے (جان بچانے کے لئے) لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ دیا۔ آپ نے پوچھا پھر کیا تم نے اسے قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں اس نے ہتھیار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ نے فرمایا تم نے اس کا دل چیرا تھا کہ تمہیں علم ہو گیا کہ اس نے کلمہ دل سے نہیں کہا تھا۔ جب قیامت کے دن وہ لا الہ الا اللّٰہ لائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ اسامہ نے کہا یا رسول اللہ میرے لئے مغفرت کی دعا فرمائیے آپ نے پھر فرمایا جب قیامت کے دن وہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ لائے گا تم کیا کرو گے؟ آپ یہی کلمہ دہراتے رہے یہاں تک کہ اسامہ نے آرزو کی کہ میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ (بخاری :۴۲۶۹۔مسلم :۹۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہنے کے باوجود کہ تو نے کلمہ پڑھنے کے بعد اس کو قتل کیوں کیا قصاص میں اسامہ کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی ان سے دیت وصول کی۔ گویا تاویل کی بنا پر اسامہ رضی اللہ عنہ ان سزاؤں سے بچ گئے۔
تاویل کے سبب کفر یا بدعت میں واقع ہونے والے
ان سب کا بھی ایک حکم نہیں ہے۔ تاویل کرتے ہوئے بدعت میں واقع ہونے والے شخص پر حکم لگانے کا دار و مدار دو باتوں پر ہے۔

۱۔ تاویل کی نوعیت
تاویل سائغ:۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((قال العلماء: کل متأول معذور بتأویلہ لیس بآثم اذا کان تأویلہ سائغًا في لسان العرب، وکان لہ وجہ في العلم )) (فتح الباري:۲/۳۰۴)
’’علماء فرماتے ہیں: ہر اس تاویل کرنے والے کو عذر دیا جائے گا اور گنہگار نہیں گردانا جائے گا جس کی تاویل کی عربی زبان اور علم (شرعی) میں گنجائش پائی جاتی ہو۔‘‘
امام ابن العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(والقول قد یکون مخالفًا للنص، و قائلہ معذور، فان المخالفۃ بتأویل لم یسلم منھا أحد من أھل العلم ، وذلک التأویل اِنْ کان فاسداً فصاحبہ مغفور لہ لحصولہ عن اجتھادہ……فمخالفۃ النص ان کانت عن قصد فھي کفر، وان کانت عن اجتھاد فھي من الخطأ المغفور……)
’’بسا اوقات قول نص کے مخالف ہوتا ہے اور اس کا قائل معذور ہوتا ہے۔ کیونکہ تاویل کرتے ہوئے نص کی مخالفت میں واقع ہونے سے اہل علم میں سے کوئی نہیں بچ پایا۔ تاویل فاسد ہونے کے باوجود تاویل کرنے والے کے بارے میں امید ہے کہ اللہ بخش دے گا، کیونکہ یہ تاویل اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہوتی ہے …پس نص کی مخالفت اگر ارادۃً اور قصداً کی جائے تو یہ کفر ہے اور اگر یہ اجتہاد کے سبب ہو یہ خطا قابل معافی ہے۔‘‘ (الاتباع :۲۹)
تاویل غیر سائغ:
وہ تاویل جس کا عربی زبان اور شرعی علم میں اعتبار نہ کیا جاتا ہو۔ اس قسم کی تاویل کرنے والوں کو عذر نہیں دیا جائے گا۔ بشرطیکہ جب یہ تاویل دین کے اُن بنیادی امور میں کی جائے جو لوگوں کے مابین معروف ہوتے ہیں جیسے اسماعیلیوں، دروزیوں، نصیریوں اور ملاحدہ کی تاویلات۔
امام ابن الوزیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(وکذلک لا خلاف في کفر من جحد ذلک المعلوم بالضرورۃ للجمیع وتستر باسم التأویل فیما لا یمکن تأویلہ)
’’اسی طرح اس کے کفر میں بھی کوئی اختلاف نہیں جو تاویل کے نام پر، معلوم بالضرورہ امور کا انکار کرتا ہے۔‘‘ (ایثار الحق علی الخلق:۴۱۵ )

۲۔ تاویل کرنے والے کی شخصیت:
اگر ان امور ظاہرہ کے علاوہ کسی ایسے امر میں بدعت میں واقع ہوتا ہے، جو ہو تو کفریہ مگر اس کا کفریہ ہونا لوگوں میں معروف نہیں، یعنی مسائل خفیہ سے تعلق ہو تو ایسے بدعتی کی شخصیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر تو وہ دین سے اعراض اور عناد و دشمنی کے سبب بدعت کا ارتکاب کر رہا ہے تب اس پر اس کی گمراہی کے بقدر حکم لگایا جائے گا اور اگر وہ کوئی نیک شخص ہے اور غلطی لگنے کی بنا پر اس بدعت میں واقع ہوا ہے تو پھر اُسے عذر دیا جائے گا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (حقیقۃ البدعۃ أحکامھا لشیخ سعید بن ناصر الغامدی :280/2)

4۔ اکراہ:
اگر کوئی شخص کفر کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو اُس کے لیے جائز ہے کہ وہ زبان سے مشرکوں کی موافقت کرے بشرطیکہ اس کے دل میں ایمان کا نور ہو اور دل ایمان و یقین سے مطمئن ہو تو ایسا شخص بھی کافر نہیں ہو گا۔
﴿ مَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (النحل: ۱۰۶)
’’جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا الّا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو یہ معاف ہے) مگر جس نے برضا و رغبت کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی لوگوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔
مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت عمّار بن یاسر؄ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جنہیں مشرکوں نے ایذائیں دیں تو مجبوراً آپ نے اپنی زبان سے ان کی ہاں میں ہاں ملا دی مشرکوں نے آپ کو چھوڑ دیا۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اپنا قصہ بیان کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر )

5۔ خطا اور نسیان:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے خطا، بھول چوک اور وہ کام جس کے لیے انہیں مجبور کر دیا جائے معاف کر دیا ہے۔ (ابن ماجہ ۲۰۴۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تکفیر معین:
تکفیر معین میں جلد بازی نہ کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سلف کے ہاں سرے سے تکفیر معین نہیں ہے اور یہ کہ ہمارے سلف نے متعین اشخاص کی تکفیر ہی نہیں کی۔ اہلسنت کا باقاعدہ اصول ہے کہ وہ شروط پوری ہونے اور موانع دور ہونے کے بعد تکفیر معین کرتے ہیں تاکہ اہل اسلام کو فتنوں سے بچایا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلا دیا اور محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن الخضیری نے اپنے والد (شیخ الخضیری جو احناف کے بڑے ائمہ میں سے ہیں) سے روایت کی ہے کہ شہر بخارا کے فقہا ابن سینا کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ کافر تھا مگر بلا کا ذہین تھا۔ اس پر محمد بن عبدالوہاب یہ اضافہ کرتے ہیں کہ بخارا کے تمام فقہا نے متعین طور پر ابن سینا کی تکفیر کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے دین میں متعین طور پر تکفیر کرنا روا ہے۔ (مفید المستفید)
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق کو باطل بنا کر پیش کیا جاتا رہے جس سے عامتہ المسلمین گمراہ ہو سکے تو علماء حق کا خاموش رہنا جرم بن جاتا ہے اسلام میں اس مداہنت کی کوئی گنجائش نہیں موجودہ دور میں بھی علماء کرام نے اور خصوصاً سعودیہ عرب کے دار الافتاء الجنۃ الدائمۃ نے قادیانیوں کی مجموعی طور پر اور مرزا غلام احمد کی متعین طور پر تکفیر کی۔
علامہ ابن باز اور الجنۃ الدائمۃ کے دیگر علماء کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
سوال: کیا علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو کافر کہہ دیں اور اس پر کفر کا الزام لگا دیں؟
جواب: ’’کسی کی تعیین کئے بغیر (کسی کفریہ حرکت کی بنا پر ) کافر قرار دینا شرعاً درست ہے۔ مثلاً یہ کہنا ’’جس مصیبت کا ٹالنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی شخص اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے غیر اللہ سے فریاد کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘ مثلاً کوئی شخص کسی نبی یا ولی سے یہ درخواست کرے کہ وہ اسے یا اس کے بیٹے کو شفا دے دے۔
کسی معین شخص کو اس صورت میں کافر کہا جا سکتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کا انکار کرے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص و عام کو معلوم ہو۔ مثلاً نماز، زکوٰۃ یا روزہ وغیرہ۔ جو شخص اس کا علم ہونے کے بعد بھی انکار کرتا ہے اسے کافر کہنا واجب ہے۔ لیکن اسے نصیحت کرنی چاہیے اگر توبہ کر لے تو بہتر ہے ورنہ اسلامی حکمران اسے سزائے موت دیں۔ اگر کفریہ اعمال کے ارتکاب کے بعد بھی کسی خاص شخص کو کافر کہنا درست نہ سمجھا جائے تو پھر کسی مرتد پر بھی حد نافذ نہیں ہو سکتی۔ (فتاویٰ دارالافتاء سعودی عر ب: فتوی نمبر:۶۱۰۹، جلد دوم، ص:۹۷)

غیر مکفرہ بدعات
حافظ الحکمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ایسی بدعات جن سے کتاب اللہ کی تکذیب لازم نہ آتی ہو اور نہ ہی اللہ کے رسولوں کے لائے ہوئے دین کی تکذیب لازم آتی ہو غیر مکفرہ بدعات کہلاتی ہیں۔ مثلاً: مروان بن حکم کی بدعات۔ جسے کبار صحابہ کرام نے برا بھلا کہا اور اُسے ان بدعات سے روکا اور ان کا رد کیا لیکن ان بدعات کے پائے جانے کے باوجود انہوں نے مروان کی بیعت سے ہاتھ نہ کھینچا۔ اُس کی بدعات میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں: کچھ نمازوں میں تاخیر کر کے آخر وقت میں نماز ادا کرنا، نماز عید سے قبل خطبہ عید دینا اور جمعہ وغیرہ کا خطبہ بیٹھ کر دینا۔‘‘ (معارج القبول :۲/۵۰۳۔۵۰۴)
سیدن اابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عید گاہ میں منبر کا اہتمام مروان بن حکم کے عہد میں کیا گیا۔ (بخاری: ۹۵۶، مسلم: ۸۸۹۔)
ایک شخص نے مروان کے اس فعل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’تم نے عید کے روز منبر لا کر سنت کی مخالفت کی کیونکہ اس روز اسے نہیں لایا جاتا تھا، اور تم نے خطبہ کو نماز سے پہلے پڑھ کر (سنت کی مخالفت کی) (ابوداود،: ۱۱۴۰۔ ابن ماجہ۱۲۷۵)۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور عبدالرحمن بن ام الحکم بیٹھے ہوئے خطبہ دے رہے تھے۔ سیّدنا کعب نے کہا: اس خبیث کی طرف دیکھو، بیٹھے ہوئے خطبہ دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا﴾ (الجمعۃ:۱۱)
’’اور جب یہ لوگ کوئی سودا بکتا دیکھتے ہیں یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ اٹھتے ہیں اور آپ کو (خطبے میں) کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ (مسلم: ۸۶۴)۔
صحابی رسول نے آیت سے خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر دینے پر استدلال کیا۔
سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ نے بشیر بن مروان کو جمعہ کے دن منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو ہلاک کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں صرف ایک ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ (مسلم: ۸۷۴)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ بدعت غیر مکفرہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بعض بدعتیں وسائل شرک ہیں جیسے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا اور وہاں نمازیں پڑھنا اور اللہ سے دعائیں مانگنا۔ بعض بدعتیں فسق اعتقادی ہیں جیسے خوارج، قدریہ (جو علم الٰہی کا اقرار کرتے ہوں) اور مرجئہ کے اقوال اور شرعی دلیلوں کے مخالف ان کے اعتقادات۔ اور بعض بدعتیں معصیت و نافرمانی کی ہیں جیسے شادی بیاہ سے کنارہ کشی اور دھوپ میں کھڑے ہو کر روزہ رکھنے کی بدعت اور شہوت جماع ختم کرنے کی غرض سے خصی ہونے کی بدعت۔‘‘ (بدعت، تعریف، اقسام اور احکام:7,8)
فتویٰ کمیٹی اللجنۃ الدائمۃ سعودی عرب بدعت مکفرہ اور غیر مکفرہ کی وضاحت میں لکھتی ہے:
سوال: اس بدعتی کا کیا حکم ہے جو اپنی بدعت پر باقاعدگی سے عمل کرتا ہے، مثلاً فوت ہونے والے پر دفن سے پہلے اور بعد میں قرآن پڑھنا، جنازہ میں آنے والوں کے لیے بکری ذبح کرنا، توسل قادریہ پڑھانا جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ (وسھل مرادنا بجاہ احمد) ’’اے اللہ! بجاہ احمد ہماری مراد آسان فرما۔‘‘ اپنے حلقہ میں خوشبو لگانا، میت کو قبرستان جاتے ہوئے لا الہ الا اللہ پڑھتے ہوئے قبرستان جانا اور قبر کے پاس ٹھہر کر میت کو تلقین کرنا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعتوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے، یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ یہ گناہ گار مسلمان ہیں۔
جواب: الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ وآلہ وصحبہ وبعد: تمام بدعتیں ایک جیسی بری نہیں ۔ بعض تو (اتنی بری ہیں کہ) کفر بن جاتی ہیں، بعض گناہ تو ہیں کفر نہیں ۔ چنانچہ دفن سے پہلے یا بعد میت پر قرآن پڑھنا، جنازہ میں شریک ہونے والوں کے کھانے کے لیے بکری وغیرہ ذبح کرنا، میت کو قبرستان لے جاتے ہوئے لا الہ الا اللہ پڑھتے جانا، قبر کے پاس رک کر میت کو تلقین کرنا، اجتماعی ذکر کا حلقہ قائم کرنا اور اس میں خوشبو سلگانا یہ سب بدعتیں ہیں جو لوگوں نے خود بنا لی ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعمال قولی، عملی یا تقریری طور پر ثابت نہیں۔ نہ صحابہ کرام اور ائمہ سلف سے ثابت ہیں۔ یہ سب گناہ ہیں جن پر اصرار کرنے سے وہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہو جاتے ہیں، لیکن کفر نہیں۔ مگر جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ یہ بدعت ہے، پھر اس پر اصرار کرے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مقابلے میں خود ساختہ شریعت رائج کر کے عوام کو دھوکہ دے اور سیدھی راہ سے گمراہ کرنا چاہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے جان بوجھ کر ایسی شریعت بنانا چاہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اس نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت کو جائز سمجھا ہے۔
باقی فوت شدہ افراد مثلاً عبد القادر جیلانی، احمد تیجانی وغیرہ کو پکارنا اور ان سے کسی نفع کے حصول یا نقصان سے بچنے کے لیے یا مصیبت ٹالنے کے لیے فریاد کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک بھی ہے اور کفر بھی۔ وہ اہل جاہلیت جن کو نبی رحمت نے توحید کی دعوت دی تھی اور جن میں سے اپنے شرک پر اڑے رہنے والوں سے جنگ کی تھی، ان کا شرک و کفر بھی اسی قسم کا تھا…بسا اوقات ایک بدعت شرک کا قریبی ذریعہ ہوتی ہے جیسے کسی صوفی کا یہ قول ’’احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ کے طفیل ہماری مشکل آسان کر دے۔‘‘ یا اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے قبر کا طواف کرنا۔ اسی طرح اولیاء کی قبروں کی زیارت کیلئے اہتمام سے سفر کر کے جانا بھی شرک کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے اگر طواف کرنے والے کی نیت مدفون ولی کا قرب حاصل کرنا ہو تو وہ شرک اکبر بن جائے گا۔ وباللہ التوفیق وصلیٰ اللہ علیٰ نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔ (اللجنۃ الدائمہ، فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب، جلد2، ص:288)
بدعت غیر مکفرہ کا مرتکب اسلام سے خارج نہیں ہوتا البتہ وہ اہل سنت سے خارج ہوتا ہے.

اُمت کے تہتر فرقے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہو گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما انا علیہ واصحابی۔’’ یہ وہ جماعت ہو گی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘ (ترمذی: ۲۵۶۵)
سلف صالحین نے ۷۲ فرقوں سے وہ گروہ مراد لیے ہیں جو ایسی بدعات کا ارتکاب کرنے والے ہیں جو آدمی کو گمراہ کرتی ہیں کافر نہیں بناتی۔ اس حدیث میں جن گمراہ گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ کفر اکبر اور شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والے نہیں ہیں کیونکہ ایسے لوگ تو دائرہ اسلام ہی سے خارج ہیں جبکہ اس حدیث میں ان لوگوں کا بیان ہے جو امت یعنی دائرہ اسلام میں داخل ہیں کافر نہیں۔
۷۲ گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دینا غلط ہے.
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن قال اِن الثنتین وسبعین فرقۃ کل واحد منھم یکفر کفرًا ینقل عن الملۃ فقد خالف الکتاب والسنۃ واجماع الأئمۃ الاربعۃ وغیرالاربعۃ، فلیس فیھم من کفَّر کل واحد من الثنتین وسبعین فرقۃ‘‘ (مجموع الفتاویٰ: جلد۷ص۲۱۸)
’’جس شخص نے یہ کہا کہ ۷۲ گروہوں میں سے ہر ایک کافر ہے اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے تو اس نے کتاب و سنت اور اجماع ائمہ کی مخالفت کی، ان میں سے کوئی بھی ۷۲ گروہوں میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا تھا۔‘‘
فتویٰ کمیٹی ’’اللجنۃ الدائمہ‘‘ سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں فرمایا: [کلھم فی النار الا واحدۃ] ’’سب فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔‘‘ اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ وہ ایک فرقہ کون سا ہے؟ کیا بہتر فرقے سب کے سب مشرکوں کی طرح دائمی جہنمی ہیں یا نہیں؟ تو اللجنۃ الدائمۃ نے یہ فتویٰ دیا:
’’اس حدیث میں امت سے مراد امت اجابت ہے۔ وہ تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ان میں سے 72 فرقے راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اور ایسی بدعتوں کے مرتکب ہیں جو اسلام سے خارج نہیں کرتیں۔ ان کو ان کی بدعتوں اور گمراہیوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔ اللہ چاہے تو کسی شخص کو معاف بھی کر سکتا ہے اور اس کی مغفرت (بغیر عذاب کے) ہو سکتی ہے۔ اور اس کا انجام جنت ہے۔ ایک نجات یافتہ جماعت ہے اور وہ اہل سنت والجماعت ہے۔ اہل سنت وہ لوگ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہیں اور اس طریقہ پر قائم رہتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا طریقہ ہے۔ انہی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں سے ایک جماعت حق پر قائم اور غالب رہے گی جو ان کی مخالفت کرے گا یا ان کی مدد نہیں کرے گا وہ انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ کا حکم آجائے۔" (بخاری: ۳۶۳۹، مسلم: ۱۹۲) لیکن جس کی بدعت اس قسم کی ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہو جائے تو وہ امتِ دعوت میں داخل ہے، امتِ اجابت میں شامل نہیں۔ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔‘‘ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء: فتویٰ نمبر: ۴۳۶۰)
فضیلۃ الشیخ ڈاکڑ ناصر بن عبدالکریم العقل حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان گمراہ فرقوں میں بعض ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج ہونے کے سبب ان ۷۲ گروہوں سے بھی خارج ہوتے ہیں۔ اُن کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوتا جیسے غالی جہمیہ، غالی رافضہ، باطنیہ، خالص فلاسفہ، اہل حلول و اتحاد، وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے اور اہل بدعت میں سے وہ مشرکین جو شرک اکبر میں واقع ہوتے ہیں … پھر یہ حوالہ نقل کرتے ہیں:
((قال حفص بن حمید: قلت لعبداللہ بن المبارک: علی کم افترقت ھذہ الامۃ؟ فقال: الأصل أربع فرق: ھم الشیعۃ، والحروریۃ، والقدریۃ، والمرجئۃ، فافترقت الشیعۃ علی اثنتین وعشرین فرقۃ وافترقت الحروریۃ علی احدی وعشرین فرقۃ، وافترقت القدریۃ علی ست عشرۃ فرقۃ، وافترقت المرجئۃ علی ثلاث عشرۃ فرقۃ۔ قال: قلت: یا أبا عبدالرحمن لم أسمعک تذکر الجھمیۃ، قال: انما سألتني عن فرق المسلمین)) (الابانۃ لابن بطۃ: ۱/۳۷۹)
’’حفض بن حمید رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے سوال کیا: یہ امت کتنے فرقوں میں تقسیم ہوئی؟ آپ نے فرمایا: ان فرقوں کی اصل چار ہیں: شیعہ، خوارج، قدریہ اور مرجئہ۔ پھر شیعہ ۲۲ فرقوں میں بٹے، خوارج ۲۱ گروہوں میں، قدریہ ۱۶ گروہوں میں اور مرجئہ ۱۳ گروہوں میں۔ حفض بن حمید کہتے ہیں میں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن میں نے آپ سے جہمیہ کا تذکرہ نہیں سنا؟ آپ نے جواب دیا: تو نے مجھ سے مسلمانوں کے گروہوں کے بارے میں سوال کیا ہے (یعنی جہمیہ کافر ہیں مسلمان نہیں)
(دراسات في الاھواء والفرق والبدع وموقف السلف منھا :۹۰)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ جھمیۃ کفار ہیں اور وہ ان گمراہ 72 فرقوں میں شامل نہیں ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے منافقین جو کہ اسلام ظاہر کرتے ہیں اور کفر چھپاتے ہیں وہ بھی ان 72 فرقوں میں داخل نہیں ہیں۔ بلکہ وہ تو زندیق ہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ: جلد۳ص۳۵۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
غیر مکفرہ بدعت کے حاملین کے ساتھ اہلسنّت والجماعت کا رویہ وسلوک

بعض وجوہ کی بنا پر محبت کی جائے گی اور بعض کی بنا پر نفرت:
شیخ صالح فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"ان کے بارے میں محبت اور دشمنی دونوں پائی جائے گی، اور وہ گنہگار مسلمانوں کی جماعت ہے، لہذا ان کے ایمان کی وجہ سے ان سے محبت کی جائے اور ان کے اندر جو کفر و شرک سے کمتر بدعات یا کبیرہ گناہ ہیں ان کی وجہ سے نفرت بھی کی جائے گی۔ ان کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو نصیحت کی جائے اور ان کے برے اعمال پر نکیر کی جائے، ان کے گناہوں پر خاموشی جائز نہیں ہے، بلکہ ان پر نکیر کی جائے گی، انہیں معروف کا حکم دیا جائے گا، منکر سے روکا جائے گا، اور ان پر اسلامی حدود و تعزیرات نافذ کی جائیں گی، حتی کہ وہ معصیت کے کاموں سے باز آجائیں اور گناہوں سے توبہ کر لیں۔ ان سے نہ تو پختہ بغض و کینہ رکھا جائے گا اور نہ ان سے برات ظاہر کی جائے گی، جیسا کہ شرک سے کمتر کبیرہ گناہ کے مرتکب کے بارے میں خوارج کا خیال ہے، اور نہ ہی ان سے خالص محبت اور دوستی رکھی جائے گی، جیسا کہ مرجئہ کا خیال ہے، بلکہ ان کے بارے میں مذکورہ تفصیل کے مطابق معتدل موقف اپنایا جائے گا، جیسا کہ اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے"۔ (دوستی اور دشمنی کا معیار اسلام کی نظر میں)
اہل سنت کے ہاں ایک ہی شخص میں سنت اور بدعت، نیکی اور فسق، خیر اور شر بیک وقت جمع ہو سکتے ہیں ایسے شخص کے خیر کی وجہ سے وہ دوستی اور موالات کا مستحق ہو گا اور اپنی بدعت اور شر کی بنا پر قابل مذمت اور مخاصمت کا مستحق ہو گا۔ یعنی کوئی شخص یا گروہ کسی ایک پہلو سے محبت اور دوستی کا مستحق اور دوسرے پہلو سے دشمنی اور مذمت کا مستحق ہو سکتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ایک آدمی میں جب خیر و شر، اطاعت و معصیت اور سنت و بدعت دونوں جمع ہوں تو اس سے اس میں پائے جانے والی خیر کے بقدر موالات (محبت) اور اس میں پائے جانے والی شر کے بقدر معادات (دشمنی) اختیار کرنی چاہیے"۔ (مجموع فتویٰ :ج۲۸ ص۲۰۹)
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ نے فرمایا:
"اہل بدعت سے محبت اور بغض ان میں بقدر خیر اور شر ہونا چاہیے، کیونکہ ایک آدمی میں موالات کا سبب اور عداوت کا سبب، اور محبت و نفرت کا سبب دونوں جمع ہوتے ہیں۔ یوں وہ ایک اعتبار سے محبوب اور دوسری وجہ سے مبغوض ہوتا ہے اور فیصلہ غالب حالت کے مطابق ہو گا"۔ (شرح العقیدۃ الطحاویہ: ص۴۳۴)
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
"بدعت صغریٰ اور اس کا ارتکاب کرنے والے اہلِ بدعت کا حکم مختلف ہے۔…یہ لوگ فاسق و فاجر اور اہل معاصی مسلمانوں کی طرح ہیں۔ ان سے محبت و بغض ان کے ایمان و اتباع کے مطابق ہو گا۔ انہیں خارج عن الملۃ کافر قرار دینا، ان سے قطع تعلقی کرنا، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے فتوے دینا اہل السنۃ والجماعۃ کا طریقہ نہیں ہے۔ اہلِ علم نے ہمیشہ ان کے ساتھ افہام و تفہیم، مکالمہ بالدلیل، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کی نصیحت اور خیر خواہی کو اپنا فرض سمجھا ہے، فقہی مذاہب اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اور مدارسِ فقہ کے مجتہدین کی اجتہادی غلطیاں، ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بدعاتِ صغری کا یہی حکم ہے کلمہ اخلاص پر اجتماع اور وحدت امت کا یہی تقاضا ہے۔ (مقالات تربیت: ص:۱۰۹)

غیر مکفرہ بدعت کی وجہ سے تکفیر کرنا درست نہیں ہے چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[پہلے پہل کی بدعات (خوارج کی بدعت) دراصل ان کے قرآن کو غلط سمجھ لینے کی بناء پر ظہور ہوئیں۔ مقصد ان کا قرآن سے تعارض نہ تھا بلکہ انہوں نے اس سے وہ مطلب لیا جو اصل میں نکلتا نہ تھا۔ وہ یہ سمجھے کہ قرآن مجید سے گناہ کے مرتکب افراد کی تکفیر ثابت ہوتی ہے کیونکہ مومن تو (بقول قرآن) نیکو کار، پرہیزگار و پارسا ہوتا ہے۔ اس بنا پر انہوں نے یہ مطلب نکال لیا کہ جو شخص نیکو کار اور پارسا نہیں ہے تو وہ کافر ہے اور مستقل جہنمی ہے۔ پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ کے سبھی لوگ مومن نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے شریعت کے برخلاف حکم و فیصلہ کیا ہے، ان لوگوں کی بدعت دو مقدمات پر مبنی تھی:
ایک یہ کہ جس نے بھی قرآن کی خلاف ورزی کی، چاہے وہ عمل میں ہو یا رائے میں کافر ہے، اور دوسرا یہ کہ سیدنا عثمان، سیدنا علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھ کے لوگ ایسا ارتکاب کرچکے ہیں۔ [مجموع الفتاویٰ ج۱۳ ص ۲۰]

غیر کفریہ بدعت کے مرتکب اہل بدعت کی تکفیر کرنے کو امام ابن تیمیہ نے بدعت کہا۔
’’بدعات منکرہ میں ایک بدعت مسلمانوں کے گروہوں کی تکفیر کرنا ہے اور ان کے خون و مال حلال قرار دینا ہے۔ جیسے (بدعتی کے بارے میں) یہ کہا جاتا ہے: یہ تو بدعتی کی کھیتی ہے (یعنی اسے لوٹنے کا گناہ نہیں) اور اس قسم کی دوسری باتیں …(مجموع الفتاویٰ جلد۷ ص۶۸۴)

اہل بدعت کے ساتھ عدل و انصاف کرنا
دین اسلام کا مقصد تمام لوگوں کو حق اور عدل پر قائم کرنا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (الحدید:۲۵)
"بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں"۔
اس لیے اس زمین پر مسلمان ہی سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہیں اور مسلمانوں میں اہلسنت سب گروہوں سے بڑھ کر عادل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ عدل کرنا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ﴾ (الانعام:۱۵۲)
"اور جب تم بات کہو تو انصاف سے کہو چاہے وہ رشتہ دار ہی (کے خلاف) ہو۔"
عدل کی اس قدر اہمیت ہے کہ مسلمان کو اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھی عدل سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ﴾ (النساء: ۱۳۵)
"اے ایمان والو اللہ کی خاطر انصاف پر رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا قریبی عزیزوں کے خلاف ہی ہو"۔
پھر اپنی جماعت اور گروہ کے حق میں کسی پر ظلم کرنا اور عدل سے تجاوز کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقینا اس امت میں اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جو پورا حق دینے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں۔ (السلسلۃ الصحیحۃ ۲۸۴۸)
ارشاد ربانی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (المائدۃ: ۸)
"اے ایمان والو اللہ کی خاطر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مشتعل نہ کر دے کہ تم عدل کو چھوڑ دو، عدل کیا کرو یہی بات تقویٰ کے قریب تر ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً اللہ اس سے خوب با خبر ہے"۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(فنھی أن یحمل المؤمنین بغضھم للکفار علی ألا یعدلوا، فکیف اذا کان البغض لفاسق أو مبتدع متأول من أھل الایمان؟ فھو أولی أن یجب علیہ ألا یحملہ ذلک ألا یعدل علی مؤمن وان کان ظالماً لہ)
"اس آیت کریمہ میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ مؤمنین کو کفار سے بغض کہیں عدل سے نہ پھیر دے۔ (جب کافروں کے بارے میں یہ تعلیم ہے کہ ان کے ساتھ ظلم نہیں کرنا) تو پھر اہل ایمان میں سے فاسق و فاجر اور اُس بدعتی سے بغض (کی وجہ سے ان پر ظلم کرنا) کس قدر برا ہو گا جو تاویل کرنے والا ہے۔ یقینا یہ کافر سے کہیں زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ مؤمن ان کے حق میں ظلم کا ارتکاب نہ کریں چاہے یہ خود مومنین پر ظلم کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (الاستقامہ :38/1)
مزید فرماتے ہیں:
(ولما کان أتباع الأنبیاء ھم اھل العلم والعدل کان کلام أھل الاسلام والسنۃ مع الکفار وأھل البدع بالعلم والعدل لا بالظنِّ وما تھوی الأنفس ولھذا قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم :((القضاۃ ثلاثۃ: قاضیان في النار وقاض في الجنۃ، رجل علم الحق وقضی بہ فھو في الجنۃ، ورجل علم الحق وقضی بخلافہ فھو في النار)) فاذا کان من یقضي بین الناس في الأموال والدماء و الأعراض اذا لم یکن عالماً عادلا کان في النار، فکیف بمن یحکم في الملل و الأدیان وأصول الایمان والمعارف الالھیۃ والمعالم العلیۃ بلا علم ولاعدل؟) (مجموع الفتاویٰ، ج۳ص۴۲۳)
"جب انبیاء کے پیروکار علم و عدل والے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ کفار اور اہل بدعت کے ساتھ علم و عدل کے ساتھ بات کی جائے نہ کہ ظن اور نفس کی پیروی کرتے ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنتی اور دو جہنمی ہیں۔ جنتی تو وہ ہے جو حق کو معلوم کرے پھر اسکے مطابق فیصلہ صادر کرے۔ دوسرا وہ شخص جو حق کو پہچان کر بھی اس سے انحراف کرتا ہے ایسا شخص جہنمی ہے اور تیسرا وہ شخص جو جہالت کے باوجود فیصلہ صادر کرتا ہے وہ بھی دوزخ میں جائے گا ‘‘ (ابو داود: ۳۵۷۳، ۔ابن ماجہ)
جب لوگوں کے مابین علم و عدل کے بغیر اُن کے خون، مال اور عزتوں کے بارے میں فیصلے کرنے والا شخص آگ کا مستحق ہے تو پھر اس کے جرم کا کیا حال ہو گا جو ملتوں، ادیان اور ایمان، معارف الالٰہیۃ اور معالم العلیۃ کے بارے میں بلا علم و عدل فیصلے کرتا ہے۔"
فضیلہ الشیخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"عہد نبوی میں تو چونکہ صرف مومن اور کفار و مشرکین اور منافقین ہی تھے، اس لیے اس مسئلہ (یعنی بدعت کے ساتھ ولاء اور براء) کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں کوئی خاص پیچیدگی نہیں تھی۔ جبکہ بعد میں مسلمانوں کے اندر متعدد بدعتی فرقے معرض وجود میں آگئے، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ خاص اہمیت اختیار کر گیا اور اس کی تطبیق بھی کافی مشکل ہو گئی۔ بالخصوص عصر حاضر میں ولاء اور براء کے حدودِ اطلاق اور عملاً تطبیق میں خاصی افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف کچھ لوگوں نے اس میں کافی شدت اختیار کر رکھی ہے، اور وہ معمولی فقہی اختلاف کو بنیاد بنا کر براءت کا اظہار کرنے میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں، اور اپنے مسلک سے فقہی اختلاف رکھنے والے شخص کو اس کی کوئی نہ کوئی غلطی تلاش کر کے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اس کے پیچھے نماز ادا کرنے کو منع قرار دیتے ہیں جو سلف امت کے طرز عمل کے سراسر منافی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کی وسعت ظرفی کا دائرہ شرعی حدود و قیود سے تجاوز کر گیا ہے، وہ کلمہ گو مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے لیے اہل ایمان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں اور بین المذاہب مکالمے کی آڑ میں کفار و مشرکین اور اعداء اسلام کے لیے ولاء کا راستہ ہموار کرنے میں شعوری یا لاشعوری طور پر مصروف ہیں، اس طرح مخصوص اغراض یا قلت ادراک کی وجہ سے وحدت ادیان کا ملحدانہ فلسفہ نشر کیا جا رہا ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے خلاف بین الاقوامی یہودی سازش کا حصہ ہے، اور جدید افلاطونیت اور مغرب کی "روشن خیالی" کو مسلمانوں میں قابل قبول بنانے کی سعی نامشکور ہے۔" (مقالات تربیت ص ۱۷۴،۱۷۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بدعات میں واقع ہونے والے علماء کے محاسن کا تذکرہ اور اعتراف
﴿وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴾ (البقرۃ:۲۳۷)
’’اور اگر تم درگزر کرو تو یہ تقوی سے قریب تر ہے، باہمی معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو اور جو کچھ تم کرتے ہو یقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
(ا) امام ابو امامہ مالک رحمہ اللہ ابو ذر ہروی کے بارے میں کہتے ہیں:
’’اللہ ابو ذر ہروی پر لعنت کرے اسی نے سر زمینِ حرم میں سب سے پہلے علم کلام کو متعارف کروایا تھا …‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کلمات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(ابو ذر فیہ من العلم و الدین والمعرفۃ بالحدیث والسنۃ، وانتصابہ لروایۃ البخاري عن شیوخہ الثلاثہ، وغیر ذلک من المحاسن والفضائل ما ھو معروف بہ)
’’ابو ذر میں علم اور دین پایا جاتا تھا اور وہ حدیث اور سنت کی معرفت بھی رکھتا تھا اور ابو ذر کی بخاری والی روایت کا انحصار شیوخ ثلاثہ پر ہے, اور اس کے علاوہ محاسن و فضائل ہیں جن کے ساتھ وہ معروف ہیں۔‘‘
آپ ابو ذر اور ان جیسے دیگر ائمہ متکلمین جیسے ابو ولید الباجی اور ابو جعفر السمناني کے بارے میں لکھتے ہیں:
ثم انہ ما من ھؤلاء الا من لہ في الاسلام مساع مشکورۃ، وحسنات مبرورۃ، ولہ في الرد علی کثیر من أھل الالحاد والبدع، والانتصار لکثیر من أھل السنۃ والدین مالا یخفی علی من عرف احوالھم، وتکلم فیھم بعلم وصدق وعدل وانصاف، لکن لمَّا التبس علیھم ھذا الأصل المأخوذ ابتداء عن المعتزلۃ وھم فضلاء عقلاء احتاجوا الی طردہ اوالتزام لوازمہ، فلزمھم بسبب ذلک ما أنکرہ المسلمون من أھل العلم والدین، وصار الناس بسبب ذلک منھم من یعظمھم لما لھم من المحاسن والفضائل، ومنھم من یذمھم لما وقع في کلامھم من البدع والباطل، وخیار أمور اوسطھا (درء تعارض العقل والنقل :101,102/2)
’’ان میں سے ہر ایک کی اسلام کی خاطر ایسی کاوشیں ہیں کہ جن پر اُن کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے اور ان کی حسنات مبرورہ ہیں، انہوں نے اہل الحاد اور بدعت پر بے حد رد کیا اور اہل سنت اور دین کی مدد کی۔ یہ حقیقت اس بندہ پر مخفی نہیں ہے جو ان کے حالات جانتا ہے اور ان کے بارے میں سچائی عدل اور انصاف کے ساتھ گفتگو کرتا ہے۔ لیکن ان پر (صفات باری تعالیٰ کے باب میں) معاملہ خلط ملط ہوا تو انہوں نے غلطی کھائی جس کی وجہ معتزلہ تھے… ان حضرات کی بابت لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے ایک ان کے محاسن اور فضائل کی وجہ سے ان کی تعظیم کرنے لگا اور دوسرا ان کے کلام میں پائی جانے والی بدعت اور باطل کے سبب ان کی مذمت کرنے لگا لیکن بہترین امور تو وہ ہیں جو وسط میں ہوں (یعنی درمیانی راہ ہی بہتر ہے)۔
(ب) ابو بکر باقلانی کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا عدل
ابو بکر باقلانی قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل تھا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسکے بارے میں ابو حامد سفرائینی کا یہ کلام نقل کرتے ہیں۔ وہ اپنے شاگرد کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یا بني، قد بلغني أنک تدخل علی ھذا الرجل، یعني الباقلاني، فایاک وایاہ فانہ مبتدع یدعو الناس الی الضلالۃ، والا فلا تحضر مجلسي۔
’’اے بیٹے مجھے خبر ملی ہے کہ تو باقلانی کے پاس آتا جاتا ہے۔ تو اس سے بچ کر رہ۔ وہ بدعتی ہے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ (اگر تو اس کے پاس جانے سے نہیں رک سکتا) تو پھر میری مجلس میں نہ آیا کر۔‘‘
اسے ذکر کرنے کے بعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذا الذي نقلوہ من انکار أبي حامد وغیرہ علی القاضي أبي بکر الباقلاني ھو بسبب ھذا الأصل ۔۔ مع ما کان فیہ من الفضائل العظیمۃ والمحاسن الکثیرۃ والرد علی الزنادقۃ والملحدین وأھل البدع،
’’ابو حامد اور دیگر اہل علم نے قاضی ابو بکر باقلانی پر جو رد کیا ہے اس کا سبب گمراہی کی یہ بنیاد ہے (جس کا ذکر کیا گیا ہے)… اس (بدعت کے باوجود) باقلانی کے عظیم فضائل اور کثیر محاسن ہیں۔ انہوں نے زنادقہ، ملحدین اور اہل بدعت پر رد کیا …‘‘ ((درء تعارض العقل والنقل :100-92/2)
چونکہ یہ بدعت ایسے مسئلہ میں تھی کہ جس میں اہل علم تاویل پر عذر دیتے ہیں اسی لیے اتنی بڑی بدعت کے پائے جانے کے باوجود انہیں عذر دیا گیا۔

اہل بدعت غیر مکفرہ سے احادیث صحیحہ لینا:
اہل بدعت کی روایت مقبول ہوتی ہے اگر وہ ثقہ و صدوق ہو۔ چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری رحمہ اللہ ایوب بن عائذ سے روایت لائے ہیں جبکہ اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ ارجاء کے قائل تھے اور وہ صدوق (بہت سچے) تھے (الضعفاء ۲۴) جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ایوب بن عائذ صدوق یعنی حسن الحدیث یا صحیح الحدیث تھے لہٰذا ارجاء کی وجہ سے ان کی روایت کو ضعیف قرار دینا امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی غلط ہے۔

نرمی سے پیش آنا:
اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
﴿وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (الشعراء: ۲۱۵)
’’اپنے پیروکار مومنوں سے نرمی سے پیش آؤ۔‘‘
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ آپس میں عاجزی اختیار کرو۔ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔‘‘ (مسلم: ۲۸۶۵)

خیر خواہی کرنا:
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے, زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر بیعت کی۔ (بخاری: ۵۷، مسلم: ۵۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ سوال کیا گیا ’’کس کی؟‘‘ فرمایا: ’’اللہ کی، اسکی کتاب کی، اسکے رسول کی، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی۔‘‘ (بخاری:۵۵)

شفقت کرنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہ چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے۔ (بخاری :۱۳۔ مسلم:۴۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ (بخاری:۱۰۔ مسلم: ۴۰)

پریشانی کو دور کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر زیادتی کرتا ہے، نہ اسے (بے یار و مددگار چھوڑ کر) دشمن کے سپرد کرتا ہے۔ جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔ جو کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی بڑی پریشانی دور فرمائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (بخاری:۲۴۴۲۔ مسلم:۲۵۸۰)

حقیر نہ سمجھنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی مومن سے دنیا کی کوئی سختی دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا۔ جو شخص مفلس کو (قرض کے لئے) مہلت دے گا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا۔ اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ جو شخص علم دین حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے جب لوگ اللہ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے اللہ کے گھر میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے جو ان کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے (مسلم:۲۶۹۹)

سلام کہنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جائو گے جب تک ایمان نہیں لاؤ گے۔ اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت نہیں کرو گے۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اختیار کرو تو باہم محبت کرنے لگ جاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم :۵۴)
ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’اسلام کی کونسی بات زیادہ بہتر ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم (بھوکے کو) کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو چاہے تم اسے جانتے ہو یا نہیں۔‘‘ (بخاری:۱۲، مسلم :۳۹)

مسکرا کر ملنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کسی بھی نیکی کو ہرگز حقیر نہ جاننا اگرچہ تیرا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم:۲۶۲۶)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھی گفتگو نیکی ہے۔" (بخاری ۲۷۰۷۔ مسلم: ۱۰۰۹)
معلوم ہوا کہ مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا اور اچھی گفتگو کرنا بھی نیکی ہے۔

مریض کی تیمار داری کرنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی تیمار پرسی کرنے، جنازے کے ساتھ چلنے، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینے (اگر وہ الحمدللہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہنے) قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے، کمزور کی مدد کرنے اور سلام کے پھیلانے اور عام کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری:۶۲۳۵ ‘۱۲۳۹)

جنازے کے ساتھ جانا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں، سلام کا جواب دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا، اور چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا۔‘‘ (بخاری:۱۲۴۰، مسلم ۲۱۶۲ )
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واذا قال المؤمن: ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ﴾ ، یقصد کل من سبقہ من قرون الأمۃ بالایمان، وان کان قد اخطأ في تأویل تأوَّلہ فخالف السنۃ، أو اذنب ذنباً، فانہ من اخوانہ الذین سبقوہ بالایمان، فیدخل في العموم، وان کان من الثنتین والسبعین فرقۃ، فانہ ما من فرقۃ الا وفیھا خلق کثیر لیسوا کفاراً، بل مؤمنون فیھم ضلال وذنب یستحقون بہ الوعید، کما یستحقہ عصاۃ المؤمنین۔ والنبي صلی اللہ علیہ وسلم لم یخرجھم من الاسلام، بل جعلھم من أمتہ، ولم یقل: انھم یخلدون في النار۔ فھذا أصل عظیم ینبغی مراعاتہ۔ (منھاج السنۃ :۲۴۱)
’’جب ایک مومن یہ دعا کرتا ہے ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ﴾ کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے معاف فرما دے۔ تو اس سے اس کی مراد امت کے وہ تمام اہل ایمان ہوتے ہیں جو اس سے پہلے ایمان لا چکے اگرچہ ان میں سے کوئی تاویل میں خطاء کر کے سنت کی مخالفت یا کوئی گناہ کر بیٹھا ہو تو وہ یقینا اس آیت کے عموم میں داخل ہے اور ان وہ بھائیوں میں سے ہے جو اس سے پہلے ایمان لا چکے اگرچہ وہ ۷۲ فرقوں میں سے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر فرقے میں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو کافر نہیں ہیں بلکہ مومن ہیں اگرچہ ان میں گمراہی اور گناہ پایا جاتا ہو جس کی وجہ سے وہ وعید کے مستحق ہوں۔ جس طرح گناہ گار اہل ایمان وعید کے مستحق ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام سے خارج نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی اصل ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی یعنی اللجنۃ والدائمۃ للافتاء والارشاد سے بدعتیوں کے جنازوں میں حاضری اور ان کے مردوں کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے یوں فتویٰ دیا۔
’’وہ بدعتی جن کی بدعت اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک تک پہنچ جاتی ہے مثلاً جو مردوں، غائب انسانوں، جنوں، فرشتوں یا دیگر مخلوقات سے مدد مانگتے اور فریاد کرتے ہیں تو وہ کافر ہیں۔ انکے مردوں کی نماز جنازہ پڑھنا اور ان کے جنازوں میں حاضر ہونا جائز نہیں ہے اور وہ بدعتی جن کی بدعت شرک تک نہیں پہنچتی مثلاً جو میلاد اور معراج کی محفلیں منعقد کرتے ہیں تو یہ لوگ گناہگار ہیں۔ انکی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ ان کے جنازوں میں حاضری دی جائے گی۔ اور ان کے لیے مغفرت کی اسی طرح امید ہے جس طرح موحد گناہگاروں کے لیے امید ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ جلد دوم ص ۵۵)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(اگر کسی کے ایمان کے بارے میں شک کیا گیا ہو تب بھی اس کا نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ اسلام ظاہر کرنے والا ہو (یعنی اصلی کافر نہ ہو)۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی جن میں نفاق پایا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے نفاق کو نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾ (التوبۃ: ۱۰۱)
’’تمہارے اردگرد بسنے والے دیہاتیوں میں اور خود مدینے میں بھی کچھ منافق موجود ہیں جو اپنے نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ انہیں تم نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:جلد۲۴ص۲۸۷ )
البتہ اگر کسی گناہ میں ملوث یا بدعت کے مرتکب کا جنازہ کسی بزرگ، عالم دین کے نہ پڑھانے سے لوگوں کو سبق ملتا ہو اور وہ اُس بدعت سے باز آتے ہوں تب اُس عالم کا جنازہ نہ پڑھانا درست ہے، ایسی صورت میں باقی لوگ اُس کا جنازہ پڑھیں گے۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا۔ ایسا کرتے وقت ضروری ہے کہ اس میت پر مسلمانوں میں کوئی جنازہ پڑھنے والا اور اسے دفنانے والا موجود ہو، اگر کوئی موجود نہ پایا گیا تب اُس کا جنازہ نہ پڑھانا، یا اُسے نہ دفنانا جائز نہیں (تفصیل کے لیے دیکھیں: موقف اھل السنۃ والجماعۃ من اھل الاھواء والبدع :۲/۴۳۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
رحمت و بخشش کی دعا کرنا:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((والصلاۃ لاتجوز علیٰ من عُلِم نفاقُہ بنص القرآن، نعلم أن ذلک بناء علیٰ الایمان الظاھر واللہ یتولیٰ السرائر، وقد کان البني صلی اللہ علیہ وسلم یصلیی علیھم ویستغفر لھم حتیٰ نھي عن ذلک، وعُلِّل ذلک بالکفر، فکان ذلک دلیلاً علیٰ أن کل من لم یُعلم أنہ کافر بالباطن۔ جازت الصلاۃ علیہ والاستغفار لہ وان کانت فیہ بدعۃ وان کان لہ ذنوب۔
واذا ترک الامام أو أھل العلم والدین الصلاۃ علیٰ بعض المتظاھرین ببدعۃ أو فجور زجرًا عنھا۔ لم یکن ذلک مُحرَّماً للصلاۃ علیہ والاستغفار لہ۔ بل قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم فیمن کان یمتنع عن الصلاۃ علیہ وھو: الغال وقاتل نفسہ والمدین الذي لا وفاء لہ: (صَلُّوا علی صاحبکم)۔ روی أنہ کان یستغفر للرجل في الباطن وان کان في الظاھر یدع ذلک زجرًا عن مثل مذھبہ۔ (فان الامام أحمد مثلاً قد باشر الجھمیۃ الذین دعوہ ألیٰ خلق القرآن۔ ونفي الصفات، وامتحنوہ وسائر علماء وقتہ، وفتنو المؤمنین والمؤمنات الذین لم یوافقوھم علیٰ التجھم بالضرب والحبس، والقتل والعزل عن الولایات، وقطع الارزاق، ورد الشھادۃ، وترک تخلیصھم من أیدي العدو، بحیث کان کثیر من أولي الأمر اذ ذاک من الجھمیۃ من الولاۃ والقضاۃ وغیرہھم: یکفّرون کل من لم یکن جھمیًّا موافقاً لھم علیٰ نفي الصفات مثل القول بخلق القراَن، ویحکمون فیہ بحکمھم في الکافر……ومعلوم أن ھذا من أغلظ التجھم۔ فان الدعاء الی المقالۃ أعظم من قولھا ۔ واثابۃ قائلھا وعقوبۃ تارکھا أعظم من مجرد الدعاء الیھا۔ والعقوبۃ بالقتل لقائلھا أعظم من العقوبۃ بالضرب۔
ثم ان الامام أحمد دعا للخلیفۃ وغیرہ۔ ممن ضربہ وحبسہ، و استغفرلھم، وحلَّلھم مما فعلوہ بہ من الظلم والدعاء الیٰ القول الذي ھو کفر، ولو کانوا مرتدین عن الاسلام لم یجز الاستغفار لھم، فان الاستغفار للکفار لا یجوز بالکتاب والسنۃ والاجماع)
[ہر وہ شخص جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ وہ باطن میں کافر ہے (مطلب یہ ہے کہ کفر کو چھپا کر رکھے اور سوائے اپنے خاص لوگوں کے کسی کے سامنے ظاہر نہ کرتا ہو۔ وگرنہ دلوں کے بھید اور باطن کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) تو اس کی نماز جنازہ اور اس کے لئے استغفار اور دعائے مغفرت جائز ہے اگرچہ اس میں کوئی بدعت ہی کیوں نہ پائی جاتی ہو یا کچھ گناہ بھی کیوں نہ کرتا ہو۔ اور اگر امام، اہل علم اور دیندار لوگ کسی بدعت یا فسق و فجور سر عام کرنے والے کا جنازہ اس مقصد کی خاطر چھوڑ دیں کہ لوگ اس سے سبق سیکھیں اور برائیوں سے باز رہیں تو اس کامطلب یہ نہیں کہ اس کا جنازہ اور اس کے لئے دعائے مغفرت حرام ہے۔ بلکہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جس نے مال غنیمت ہتھیایا تھا، یا جس نے خود کشی کی تھی یا جو مقروض فوت ہو گیا تھا فرمایا: صلوا علی صاحبکم کہ تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے آپ خود بھی باطن میں اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے تھے کہ بظاہر سبق آموزی کے لئے اس کو ترک کئے ہوئے تھے] (مجموع الفتاویٰ، ج۷ص۲۱۶-۲۱۷)
[بطور مثال امام احمد رحمہ اللہ ہی کو لے لیں جن کا واسطہ ان’’جہمیوں‘‘ سے پڑا تھا جو انہیں ’’خلق قرآن‘‘ کے مذہب پر آمادہ کرتے تھے، صفات الٰہی کے منکر تھے اور اس بنا پر ان کو اور دیگر علماء وقت کو سزا و ابتلاء سے دو چار کرتے تھے ان مومنین اور مومنات کو تازیانہ و زنداں کی اذیت دیتے جو جہمیت کو قبول کرنے میں ان کی آواز ملانے سے گریز کرتے تھے بلکہ پھانسیاں بھی دیتے، معزولیاں بھی کرتے، دانا پانی بھی بند کرتے، گواہی بھی رد کرتے اور ان کو دشمن کے ہاتھ سے چھڑانے کی بھی ضرورت محسوس نہ کرتے، جیسا کہ اس دور میں ’’جہمیہ‘‘ سے تعلق رکھنے والے بہت سے والی اور قاضی ہر اس شخص کو کافر کہتے تھے جو ’’جہمی‘‘ مذہب اختیار نہیں کرتا اور ’’خلق قرآن‘‘ کا قائل ہو کر نفی صفات میں ان کا ہم مذہب نہیں ہوتا تھا، جو حکم کافروں پر لگاتے وہی ان پر لگاتے تھے … جبکہ یہ تو معلوم ہے کہ یہ جہمیت کی غلیظ ترین شکل ہے کیونکہ اس مذہب کی طرف دعوت دینا اس کا اپنی حد تک قائل ہونے سے کہیں سنگین ہے اور اس مذہب کا قائل ہونے والوں کو انعام و اکرام سے نوازنا اور انکار کرنے والے کا سزا دینا، صرف اس کی دعوت سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور پھر اس کے مخالف کو قتل کرنا خالی زد و کوب کرنے سے کہیں سنگین اور شدید تر ہے۔
تاہم امام احمد رحمہ اللہ خلیفہ اور دیگر ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے ان پر کوڑے برسائے تھے اور قید کئے رکھا تھا دعا بھی کرتے تھے اور استغفار بھی۔ ان پر جو ظلم روا رکھا تھا اور کفریہ مذہب ٹھونسنے کے لئے جو تشدد کرتے رہے اس سے بھی ان کو بری کر دیا۔ اگر وہ اسلام سے مرتد ہو چکے ہوتے تو انکے لئے استغفار جائز نہ ہوتا کیونکہ قرآن و سنت اور اجماع کی رو سے کفار کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے] (مجموع الفتاویٰ، ج ۱۲ ص ۴۸۸-۴۸۹)

دعوت قبو ل کرنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے تو دعوت قبول کرو۔ اگر روزہ دار ہو تو دعوت دینے والے کو دعا دو اور اگر روزہ دار نہیں تو کھانا کھا لو۔ (مسلم۱۴۳۱)

شہادت قبول کرنا:
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اصحاب بدعت کی شہادت قبول کرنا ائمہ سلف کا عام مذہب ہے۔ اسی مذہب کے ابو لیلیٰ، ابن شبرمہ، ابو حنیفہ، شافعی اور ان کے تلامذہ قائل ہیں۔ اسی طرح امام ثوری، حسن بن یحییٰ، عثمان بتی، داود، طبری اور تمام وہ فقہاء جن کا مذہب کہیں نہ کہیں رائج رہا ہے، اس مذہب کے قائل ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ جب وہ جھوٹ کی گواہی نہ دیتے ہوں اور فسق کے کام نہ کرتے ہوں یعنی عادل ہوں (الاستذکار لابن عبدالبر :۲۶/۱۰۴)
البتہ علماء کرام نے اس کی دو شرائط مقرر کی ہیں:
۱۔ ان کی بدعت مکفرہ نہ ہو
۲۔ وہ بدعت کے داعی نہ ہوں

میل جول رکھنا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے۔ اور ان سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے اس مومن سے افضل ہے جو لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتا اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔ (ترمذی:4032)
معلوم ہوا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں بلکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ انسانوں میں رہ کر اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کیے جائیں اور حق کی سر بلندی اور باطل کی سرکوبی کے لیے محنت کی جائے اور اس راہ کی صبر آزما مشکلات خوشی کے ساتھ برداشت کی جائیں۔

نصیحت کرنا:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن یہ بتائیے اگر وہ ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو تم ظلم کرنے سے روک دو۔ یہی اس کی مدد کرنا ہے۔‘‘ (بخاری :۲۴۴۳)
معاشرے سے ظلم و فساد روکنے کے لیے کتنا جامع ارشاد ہے کہ اخلاقی جرات سے کام لے کر ظالم کو بھی ظلم کرنے سے روکو۔

ایثار و قربانی کرنا:
ایک انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کو گھر لے گیا۔ بیوی نے بتایا کہ ’’گھر میں صرف بچوں کی خوراک ہے۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور چراغ بجھا دینا اور ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھانا کھا رہے ہیں۔‘‘ چنانچہ مہمان نے کھانا کھایا اور ان دونوں نے بھوکے رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے آج کی رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر بڑا خوش ہوا ہے۔ (بخاری:۳۷۹۸۔ مسلم: ۲۰۵۴)
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (الحشر:۹)
’’اور وہ اپنے آپ پر (دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے خود محتاج ہوں اور جو نفس کی کنجوسی سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہیں۔‘‘
امام المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
(سألت أبا عبداللہ عن قوم من أھل البدع یتعرضون ویُکَفِّرُون؟ قال: لا تتعرضوا لھم قلت: وأي شيء تکرہ من ان یحبسوا؟ قال: لھم والدات وأخوات) (الآداب الشرعیۃ لابن المفلح:۱/۲۵۷)
میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا: آپ اہل بدعت کے ایسے برے معاملے سے کس طرح پیش آنے کی تلقین کرتے ہیں جو اہل سنت کو ستانے میں بسا اوقات ان کی تکفیر تک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: تم ہرگز انہیں نہ ستانا (یعنی اہل سنت کو اُن جیسا طرز عمل نہیں اختیار کرنا چاہیے) المروزی کہتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا کہ آپ اہل بدعت کو قید میں رکھنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جواب دیا: مجھے اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی مائیں اور بہنیں تنہا ہو جائیں گی۔‘‘

مسکینوں کی امدا د کرنا:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے ساتھ تھے آپ نے فرمایا: جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اس کو دے دے جسکے پاس سواری نہ ہو۔ جس کے پاس فاضل زاد راہ ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس زادِ راہ نہ ہو۔ پھر آپ نے چند اور چیزوں کا ذکر کیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ فاضل اشیاء میں ہمارا کوئی حق نہیں۔ (مسلم:۱۷۲۸)
حاصل کلام یہ ہے کہ وہ تمام حقوق جو اللہ رب العزت نے ایک مسلمان کو عطا کیے ہیں ان میں وہ بدعتی بھی داخل ہیں جن کی بدعت کفر و شرک کو نہیں پہنچتی۔

اہل بدعت کے ساتھ سختی کرنا:
سلف نے کچھ بدعتیوں کے ساتھ سختی کی۔ اس کے دو پہلو ہیں:
۱۔ اس کا اطلاق بدعت مکفرہ کے مرتکب گروہوں پر ہوتا ہے۔
۲۔ اگر بدعت غیر مکفرہ کا مرتکب ہے تو اُس سے مقصد اہل بدعت کو ڈرانا، لوگوں کو ان کی بدعت سے روکنا ہے۔ جسے اہل علم نے بدعتی سے قطع تعلقی کے باب میں ذکر کیا ہے۔ پھر یہ اُسی صورت جائز ہے کہ جب اس سے شرعی مصلحت حاصل ہوتی ہو اور دین کے واجبات نہ چھوٹتے ہوں۔ شرعی مصلحت کا طے کرنا اپنے دل کی خواہشات اور مخالفین سے انتقام لینے پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ قرآن و سنت کے واضح دلائل اور شرعی قواعد و ضوابط پر موقوف ہے۔ ہر دور کے وہ علمائے حقہ جو اللہ کی توحید کے معاملے میں مداہنت نہیں کرتے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں وہی اس بارے میں رہنمائی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
ذیل میں قطع تعلقی کے بارے میں اصول و قواعد کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
قطع تعلقی کرنا
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (الانعام:۶۸)
’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں تو ان سے اعراض کیجیے تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیے۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت مبارکہ ہر اس شخص پر رد کرتی ہے جو یہ گمان کرتا ہے کہ دین کے ائمہ اور انکی متبعین کو فاسقوں کے ساتھ گھلنا ملنا چاہیے۔ اس آیت کے ضمن میں محمد بن علی رحمہ اللہ کہتے ہیں: (لا تجالسو أھل الخصومات، فانھم الذین یخوضون في آیات اللہ) اہل بدعت کے ساتھ مت بیٹھو کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔‘‘
ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (وھذا دلیل علی أن مجالسۃ أھل الکبائر لا تحل) ’’یہ آیت اہل کبائر کی صحبت کے حرام ہونے کی دلیل ہے (جب وہ گناہ کے کام میں مشغول ہوں)۔‘‘ (تفسیر قرطبی :۷/۱۳،۱۲)
احادیث نبوی اور صحابہ کرام کے بہت سے آثار اس مسئلہ پر دلالت کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾

(آل عمران :۷)
’’وہی تو ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی جس کی کچھ آیات محکم ہیں اور یہی (محکمات) کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ہیں اب جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ انگیزی کی خاطر متشابہات کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں اور انہیں حسب منشاء معنی پہناتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان متشابہات پر ایمان لاتے ہیں ساری آیات ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور سبق تو عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن کے متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، پس ان سے بچو۔‘‘ (بخاری :۴۵۴۷، مسلم :۲۶۶۵)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے بلند گنبد دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کیا فلاں انصاری صحابی کا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور دل میں یہ بات رکھی یہاں تک کہ اس گنبد کا مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے درمیان سلام کیا آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اس طرح کئی بار کیا حتیٰ کہ انہیں پتا چل گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہیں۔ انہوں نے صحابہ سے اس کی شکایت کی اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدلا ہوا دیکھ رہا ہوں (صحابہ نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے ناراضگی کا سبب بتلایا) پھر وہ صحابی واپس گئے اور اپنے گنبد کو گرا کر بالکل زمین کے برابر کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن پھر اس گنبد کی طرف نکلے تو اسے نہ دیکھ کر صحابہ سے فرمایا کہ گنبد کے ساتھ کیا کیا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم سے گنبد کے مالک نے آپکے اعراض کی شکایت کی تھی تو ہم نے اسے بتلا دیا تھا، چنانچہ اس نے اسے منہدم کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو ہر عمارت اپنے مالک کے لیے وبال ہے سوائے اس کے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ (ابو داود: ۵۲۳۷)
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا تو میرے دونوں ہاتھ پھٹ گئے تھے گھر والوں نے میرے ہاتھوں پر زعفران کا خلوق لگا دیا اگلی صبح کو جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: جائو اسے دھو کر اپنے سے دور کرو۔‘‘ (ابو داود:۴۶۰۱) قال الشيخ الألباني: حسن
اسی طرح صحابہ کرام بھی گناہوں اور بدعات کے ارتکاب پر قطع تعلقی کرتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو جنازہ میں ہنستے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "اللہ کی قسم میں تجھ سے کبھی بات نہیں کروں گا۔" (الزھد لأحمد بن حنبل :۱/۱۶۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بدعت مکفرہ اور غیر مکفرہ کے مرتکبین کے ساتھ قطع تعلقی کے مابین فرق:
۱۔ اسلام سے خارج ہونے والے اصلاً دشمنی کے مستحق ہیں جبکہ غیر مکفرہ کے مرتکب اصلاً محبت اور دوستی کے مستحق ہیں۔
۲۔ اسلام میں داخل افراد سے قطع تعلقی اُسی صورت جائز ہے جب اس سے کوئی شرعی مصلحت حاصل ہو اور کوئی مفسدت پیدا نہ ہو جبکہ مرتدین سے کسی صورت محبت نہیں کی جا سکتی۔
ہمارے ائمہ نے سلف کے ہر ایسے قول کی وضاحت کی ہے جس سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ تمام اہل بدعت کو قطع تعلقی میں برابر کی حیثیت حاصل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
قدریہ کی دو اصناف ہیں۔
(۱) علم الٰہی کا انکار کرنے والے یہ اسلام سے خارج ہیں۔
(۲) جو علم الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ ’’قدریہ‘‘ کی اس دوسری صنف کے بارے میں فرماتے ہیں:
(لا یصلیٰ علیھم، ولا یُسلم علی اھل القدر، ولا علی اھل الاھواء جمیعھم، ولا یصلیٰ خلفھم، ولا تقبل شھادتھم)
’’اُن کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے، انہیں سلام نہ کیا جائے۔ یہی حکم تمام اہل اھواء (بدعتیوں) کا ہے۔ قدریہ کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اُن کی گواہیوں کا اعتبار کیا جائے‘‘
امام ابو عمر بن عبدالبر رحمہ اللہ اس قول کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کی امامت کا حقدار وہ ہے جو دین میں کامل ہو، قرآن کی تلاوت، اُس کے معانی اور مفہوم کو سمجھنے والا ہو اور دین میں تفقہ رکھتا ہو۔ یہ تب ہے جب وہ امام راتب (جسے خلیفہ یا اس کے نائب نے مقرر کیا ہو یا وہ اہل خیر کا مستقل امام) ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کا مخاطب کہ اُن کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے، اہلسنت کی ممتاز اور اعلیٰ شخصیات ہیں جنہیں ائمۃ المسلمین کہا جاتا ہے۔ ائمہ اہل سنت کا ان کی نماز جنازہ نہ پڑھانا اس غرض سے ہے کہ لوگ متنبہ ہو جائیں (جو کہ ایک شرعی مصلحت ہے) امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول [لا یصلی علیھم] ان کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے] سے یہ مراد نہیں کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی شخص ان کی نماز جنازہ نہ پڑھے کیونکہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے شہادتین کی گواہی دی ہو گی، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی خواہ وہ بدعتی ہو یا کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو۔ فقہاء اسلام اور ائمہ عظام میں سے کسی ایک کا بھی مجھے یہ قول نہیں ملا کہ جو بظاہر امام مالک کے الفاظ سے نکلتا ہے۔ (الاستذکار لابن عبدالبر:۲۶/۱۰۴،۱۰۳)
ائمہ سلف کے باقی تمام اقوال جو غیر مکفرہ بدعتیوں کے رد میں بیان ہوئے ہیں اُن کا یہی معنیٰ و مفہوم ہے جیسے امام ابن عبدالبر نے بیان فرمایا ہے۔ اسی لیے سلف اہل بدعت کو مسلمانوں والے حقوق دیا کرتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں:
امام نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم یکونوا (یعنی اصحاب النبي) یحجبون الصلاۃ علی أحد من أھل القبلۃ (شرح أصول الاعتقاد أھل السنۃ :۳/۱۰۶۰)
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اذا قال لا الہ الا اللہ صُلِّي علیہ (شرح أصول الاعتقاد أھل السنۃ :۳/۱۰۶۰)
’’جب وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہو، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں:
ان أصوب ذلک، وأعدلہ عندي، اذا قال لا الہ الا اللہ ثم ھلک أن یغسل ویصلی علیہ (شرح أصول الاعتقاد أھل السنۃ:۳/۱۰۶۰)
’’میرے نزدیک صحیح اور عدل پر مبنی بات یہی ہے کہ جو لا الہ الا اللہ کے عقیدے پر فوت ہوا۔ اُس کو غسل دیا جائے گا اور اُس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‘‘

قطع تعلقی کے مقاصد اور شرعی ضوابط
قطع تعلقی دیگر عبادات کی طرح ایک عبادت ہے، جس طرح شریعت نے گناہوں کی مختلف شرعی سزائیں مقرر کی ہیں اسی طرح یہ بھی ایک شرعی سزا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد گناہ کو معاشرے میں پھیلنے سے روکنا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الھجر الشرعي نوعان: أحدھما: بمعنیٰ الترک للمنکرات۔ والثاني:بمعنیٰ العقوبۃ علیھا۔
فالأول: یرادبہ أنہ لا یشھد المنکرات لغیر حاجۃ…… بخلاف من حضر عندھم للانکار علیھم أوحضر بغیر اختیارہ …وھذا الھجر من جنس ھجر الانسان نفسہ عن فعل المنکرات ومن ھذا الباب الھجرۃ من دارلکفر والفسوق الیٰ دارالاسلام والایمان، فانہ ھجر للمقام بین الکافرین والنافقین الذین لایمکَّنونہ من فعل ما أمراللہ بہ۔
والنوع الثانیی: الھجر علیٰ وجہ التأدیب، وھو ھجر من یظھر المنکرات یھجرحتیٰ یتوب منھا، کما ھجر النبي صلی اللہ علیہ وسلم و المسلمین: الثلائۃ الذین خُلِّفوا حتیٰ أنزل اللہ توبتھم، حین ظھر منھم ترک الجھاد المتعین علیھم بغیر عذر، ولم یھجر من أظھر الخیر وان کان منافقاً۔ فھنا الھجر بمنزلۃ التعزیر۔
والتعزیر یکون لمن ظھر منہ ترک الواجبات وفعل المحرمات، کتارک الصلوۃ والزکاۃ۔ والتظاھر بالمظالم والفواحش، والداعي الیٰ البدع المخالفۃ للکتاب والسنۃ واجماع سلف الأمۃ التي ظھر أنھا بدع۔
وھذا حقیقۃ قول من قال من السلف والأئمۃ: أن الدعاۃ الیٰ البدع لا تقبل شھادتھم، ولا یصلیٰ خلفھم، ولا یؤخذ عنھم العلم، ولا یناکحون، فھذہ عقوبۃ لھم حتیٰ ینتھوا، ولھذا یفرقون بین الداعیۃ وغیر الداعیۃ لأن الداعیۃ أظھر المنکرات فاستحق العقوبۃ، بخلاف الکاتم فانہ لیس شرًّا من المنافقین الذین کان النبیی صلی اللہ علیہ وسلم یقبل علانیتھم ویکل سرائرھم الی اللہ مع علمہ بحال کثیر منھم……فالمنکرات الظاھرۃ یجب انکارھا بخلاف الباطنۃ فان عقوبتھا علیٰ صاحبہا خاصۃ) (مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸ص ۲۰۳)
[ہجر شرعی (کنارہ کشی اور دوری) دو طرح کی ہوتی ہے:
ایک وہ جو ترک منکرات کی صورت میں ہوتی ہو۔ اور دوسری وہ جو اس بنا پر سزا یا عقاب کی صورت میں ہو۔
جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ بلا ضرورت مسلمان برائی یا منکرات کی جگہ نہ جائے …سوائے اس شخص کے جو ان کے پاس ان کا رد کرنے کے لئے جاتا ہے۔
ہجر و کنارہ کشی کی دوسری قسم بطور سزا ہوتی ہے۔ اس کے تحت انسان ایک ایسے شخص سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے جس سے منکرات اور برائیاں ظاہر ہوتی ہوں اور یہ اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے ان تین صحابیوں سے ہجر اختیار کیا تھا جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کی آیات نازل فرمائیں۔ آپ نے ان سے یہ رویہ اس وقت اختیار کیا جب ان سے فرض عین جہاد سے کوتاہی سرزد ہوئی تھی، جبکہ جس شخص نے جہاد میں نہ جانے کا کوئی عذر بیان کیا وہ چاہے منافق ہی ہوتا آپ اس سے ہجر و کنارہ کشی کا رویہ اختیار نہ فرماتے تھے۔ چنانچہ یہ ہجر بطور تعزیر ہے اور تعزیر کا حکم اسی شخص پر ہوتا ہے جس سے ترک واجبات یا ارتکاب محرمات ظاہر ہوں مثلاً ایسی بدعات کی دعوت دے جو کتاب و سنت اور اجماع سلف کے خلاف ہوں اور یہ بھی واضح اور ظاہر ہو کہ وہ بدعات ہیں۔
بزرگان سلف اور ائمہ کے اس قول کی بھی یہی حقیقت و مطلب ہے کہ داعیان بدعت کی شہادت قابل قبول نہیں، ان کے پیچھے نہ نماز پڑھنی چاہیے نہ ان سے علم لینا چاہیے اور نہ بیاہ شادی کرنی چاہیے کیونکہ یہ ان کی سزا ہے تاآنکہ وہ اس سے باز آجائیں۔ اسی بنا پر یہ بزرگ بدعت کے داعی و مبلغ اور غیر داعی میں فرق کرتے ہیں کیونکہ داعی و مبلغ منکرات کا ظاہر و برسر عام ارتکاب کرتا ہے اس لئے سزا کا مستوجب ہے۔ بخلاف ایسے شخص کے جو چھپ کے کرتا ہے، اب یہ شخص بہرحال ان منافقین سے بدتر نہیں ہے جن کے ظاہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبول کر لیا کرتے تھے اور ان کے پوشیدہ امور کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتے تھے، حالانکہ آپ کو ان کے بیشتر لوگوں کے حال کی خبر بھی تھی …چنانچہ منکرات باطنہ (چھپی ہوئی) کے برعکس منکرات ظاہرہ کا رد و انکار فرض ہے کیونکہ چھپی بدعت اس کے حاملین تک محدود رہتی ہے]
دیگر عبادات کی طرح ہجر شرعی کی قبولیت کی بھی دو شرائط ہیں:
۱۔ اخلاص:۔ یہ تمام اعمال کی قبولیت کا باطنی ترازو ہے۔ ضروری ہے کہ قطع تعلقی کرنے والے کی نیت خالص ہو وہ اللہ کی رضا کے سوا اس عمل سے کچھ اور نہ چاہتا ہو۔ اس کا مقصد بدعت کو پھیلنے سے روکنا اور بدعتی کی اصلاح کرنا ہو۔ تب اس کا عمل اللہ کے ہاں شرف قبولیت پائے گا۔
ارشاد ربانی ہے :
﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾ (البینۃ ۵)
’’اور انہیں حکم تو یہی دیا گیا تھا کہ خالص اللہ کی عبادت کریں پوری طرح یکسو ہو کر۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’یہ سب کچھ نصح و خیر خواہی اور رضائے الٰہی کی خاطر ہونا چاہیے۔ انسان کی کسی شخص کے ساتھ ذاتی پرخاش نہیں ہونی چاہیے مثلاً دونوں کے درمیان کوئی دنیوی عداوت ہو، باہمی حسد و بغض ہو یا قیادت کا جھگڑا ہو اور انسان اس بنا پر اس کی برائیاں بظاہر نصح و خیر خواہی کے لئے بیان کرتا پھرے جبکہ دل میں مقصد انتقام یا بدلہ چکانا ہو تو یہ شیطانی حرکت ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما الاعمال بالنیات وانما لکل امریٔ ما نوی ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوئی ہوتی ہے‘‘ نصیحت کرنے والے کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی اصلاح کر دے اور مسلمانوں کو دین و دنیا میں اس کے ضرر سے بچائے اور کفایت کرے۔ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اس نیک مقصد کو سر انجام دینے کے لئے آسان اور ممکنہ طریق اختیار کرے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ، ج۲۸ص۲۲۱)
۲۔ شرعی اصولوں کی پیروی:
شریعت میں قطع تعلقی کے کچھ اصول و ضوابط طے کئے گئے ہیں جن کی پیروی کرنے سے ہی یہ عمل اللہ کے ہاں شرف قبولیت پاتا ہے۔ جس سے قطع تعلقی کی جا رہی ہو اس کی بابت ان شروط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ ذیل میں ان قواعد کو ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ اس کے بارے میں انسان کو یقین ہو کہ اس میں بدعت پائی جاتی ہے۔ لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی وجہ سے کسی سے قطع تعلقی کرنا جائز نہیں۔ جب تک کہ انسان کسی کی زبان، تحریر یا کسی اور باوثوق ذریعے سے اس بات کا یقین نہ کر لے کہ یہ بدعت اس میں پائی جاتی ہے تب تک اس سے قطع تعلقی درست نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ﴾ (الحجرات:۶)
’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔‘‘
۲۔ اُس عمل کے بدعت ہونے پر ائمہ کے مابین اتفاق ہو۔ ایسے مسائل میں بدعتی سے قطع تعلقی نہیں کی جائے گی جن کے بدعت ہونے میں علماء کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔
۳۔ بدعتی پر اس مسئلہ میں حجت تمام کی جا چکی ہو، اُس کے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہو اور اُسکے سامنے درست موقف پیش کیا گیا ہو۔ دیکھیے: (البدعۃ واحکامھا لشیخ سعید الغامدی
:۲/۳۴۰)
قطع تعلقی کیے جانے والے شخص میں اگر یہ تین باتیں پائی جائیں تو وہ شرعی طور پر قطع تعلقی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لیکن قطع تعلقی کی کچھ شرائط اور اصول و ضوابط ہیں جن کے پورا کیے جانے پر یہ عبادت موقوف ہے۔
۱۔ مصلحت و مفسدت کا قاعدہ
۲۔ جتنا جرم ہو اُس قدر سزا دینا
1۔ قطع تعلقی تب کی جائے گی جب اس سے شرعی مصلحت حاصل ہوتی ہو۔
اگر قطع تعلقی سے مقاصد حاصل ہوتے ہوں تو قطع تعلقی کرنی چاہئے وگرنہ نہیں۔ اسی طرح اگر قطع تعلقی کرنے سے جس شر کو ہٹایا جا رہا ہے اس سے کوئی بڑا شر لازم آتا ہو تب بھی یہ عبادت ساقط ہوجائے گی۔ مصلحت و مفسدت کے حوالے سے درج ذیل عوامل نہایت اہمیت رکھتے ہیں:
۱۔ قطع تعلقی کرنے والے کا طاقتور یا کمزور ہونا :۔
اگر وہ طاقتور ہے تو اس عمل میں مصلحت ہے وگرنہ نہیں۔
۲۔ جس سے قطع تعلقی کی جا رہی ہے اس پر مرتب ہونے والے اثرات:۔
اگر اُس میں بہتری آتی ہے یا اس کو سزا دینے سے دوسروں کو عبرت ہوتی ہے تو یہ عمل درست ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو تب تالیف قلوب کرنا بہتر ہے۔
۳۔ جس علاقے میں سنت غالب ہے وہاں اہل بدعت کو دبایا جائے گا اور ان کے ساتھ سختی کی جائے گی جیسے صحابہ نے اہل بدعت کے ساتھ سختی کی جب بدعات نئی نئی اسلامی معاشرے میں داخل ہو رہی تھیں۔
مجاہد بن جبر ابو الحجاج رحمہ اللہ ثقہ تابعی فرماتے ہیں: ’’میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا، ہم اس مسجد میں نماز پڑھنا چاہتے تھے تو مؤذن نے اذان میں تثویب (الصلوٰۃ خیر من النوم) کہہ دیا (جب کہ وہ اذان ظہر یا عصر تھی) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’أخرج بنا من عند ھذہ المبتدع ‘‘ہمیں اس بدعتی کے پاس سے نکال لے جاؤ‘‘ اور آپ نے وہاں نماذ ادا نہ کی۔‘‘ (ترمذی، ابو داود:۵۳۸)
مگر جب بعض علاقوں میں بدعات عام ہو گئیں تو پھر اُن سے تالیف قلوب کا طرز عمل اپنایا گیا۔
امام ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: قلت لأحمد لنا أقارب بخراسان یرون الارجاء فنکتب الی خراسان نقرئھم السلام قال: سبحان اللہ لم لا تقرئھم (مسائل الامام احمد تالیف أبي داود السجستاني:۲۷۶)
’’میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کہا: ہمارے رشتہ دار ارض خراسان میں رہتے ہیں اور فتنہ ’’ارجاء‘‘ میں مبتلاء ہیں، ہم ان سے مراسلت کرتے ہوئے انہیں السلام علیکم کہتے ہیں (آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سبحان اللہ: آخر انہیں’’السلام علیکم‘‘ نہ کہنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
۴۔ قطع تعلقی سے اگر واجبات دین چھوٹتی ہوں جیسے جہاد، امر بالمعروف نہی عن المنکر تب یہ عمل درست نہیں۔ سلف میں ایسی کئی مثالیں ہیں جب انہوں نے بدعتی حکمرانوں کی اطاعت میں جہاد کیا جیسے احمد بن حنبل کا اپنے وقت کے جہمی حکمرانوں کے ساتھ طرز عمل۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ہجرالمبتدع لشیخ بکر ابی زید رحمہ اللہ)
ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اہل بدعت و فسق سے ولاء و براء کے حوالے سے شیخ الاسلام رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں یہ بھی فرماتے ہیں: ’’یہ ہجر و ترک اہل سنت کی قوت و ضعف اور قلت و کثرت کے لحاظ سے مختلف ہے کیونکہ مقصد تو مہجورین کی تأدیب (بدعتیوں کو سزا دینا) ہے اور عوام الناس کو اس (بدعت وفسق) سے بچانا ہے۔ لہٰذا اگر مصلحت اس میں ہے کہ ہجر و ترک شر و فساد کے ضعف کا باعث ہے تو وہاں ہجر مشروع ہے۔ لیکن اگر ہاجر کمزور ہے اور ہجر و ترک شر کے اضافے کا باعث ہے تو مصلحت یہی ہے کہ وہاں ہجر مشروع نہیں۔ بلکہ بعض لوگوں کے لیے تالیف، ہجر سے زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے اور بعض کیلیے ہجر، تألیف سے زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کبھی دشمن سے قتال بہتر ہوتا ہے اور کبھی جزیہ لینا بہتر ہوتا ہے، یہ سب مختلف احوال اور مصالح کے اعتبار سے ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ج۲۸ص۲۰۶)
اسی لیے اہل بدعت یا اہل فسق سے ولاء و براء کا معاملہ انہی دینی مصالح کے اعتبار سے ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ انکار منکر میں کوئی اور منکر یا فتنہ و فساد کھڑا ہو جائے۔ ہمارا یہ مقصد بھی قطعاً نہیں کہ ولاء و براء کے اصول میں سرد مہری کا مظاہرہ کیا جائے۔ بلکہ عامۃ الناس جو اس کی نزاکت سے بے خبر ہیں انہیں بہر نوع اس سے خبردار کرنا چاہیے کہ وہ بدعتیوں کی مجلس کی زینت نہ بنیں تاکہ ’’من کثر سواد قوم فھو منھم‘‘ کا مصداق نہ بن جائیں۔‘‘ (مقالات تربیت، ص:۲۰۱)
2۔ قطع تعلقی میں ظلم و عدوان کا ارتکاب نہ کرے
جس کا جتنا جرم ہو اسی قدر اسے سزا دینی چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴾ (المائدۃ:۱۰۵)
’’اے ایمان والو! تمہیں اپنی فکر کرنا لازم ہے جب تم خود ہدایت پر ہو گے تو کسی دوسرے کی گمراہی تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔‘‘
اس آیت کے ضمن میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’شریعت نے گنہگاروں کے ساتھ قطع تعلقی ‘مذمت‘ بغض اور سزا دینے کو جس قدر مشروع کیا ہے اُس میں زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ جو کوئی سزا دینے میں شدت کرے اُسے کہنا چاہیے کہ تم اپنے آپ کے ذمہ دار ہو، اگر تم ہدایت پر ہو تو دوسروں کی گمراہی تمہیں کچھ نقصان نہیں دے گی۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ﴾ (المائدۃ:۸)
’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مشتعل نہ کر دے کہ تم عدل چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو یہی بات تقویٰ کے قریب تر ہے۔‘‘
﴿وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ (البقرۃ:۱۹۰)
’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں مگر زیادتی نہ کرنا اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
﴿فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ﴾ (البقرۃ:۱۹۴)
’’اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہو جتنی اس نے تم پر کی ہے اور اللہ سے ڈرتے ہو۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ:۱۴/۴۸۱،۴۸۲)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذا لأن الھجر من (باب العقو بات الشرعیۃ) فھو من جنس الجھاد في سبیل اللہ۔ وھذا یفعل لأن تکون کلمۃ اللہ ھي العلیا ویکون الدین کلہ للہ۔ والمؤمن علیہ أن یعادي في اللہ ویواليفي اللہ، فان کان ھناک مؤمن فعلیہ أن یوالیہ وان ظلمہ، فان الظلم لا یقطع الموالاۃ الایمانیۃ۔ قال تعالیٰ: ﴿وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَہُمَا……﴾ الی قولہ: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ﴾ (الحجرات: ۹،۱۰) فجعلھم اخوۃ مع وجود القتال والبغي والأمر بالاء صلاح بینھم۔
فلیتدبر المؤمن الفرق بین ھذین النوعین۔ فما أکثر ما یلتبس أحدھما بالآخر
ولیعلم أن المؤمن تجب موالاتہ وان ظلمک واعتدیٰ علیک، والکافر تجب معاداتہ وان أعطاک وأحسن الیک ،فان اللہ سبحانہ وتعالیٰ بعث الرسل وأنزل الکتب لیکون الدین کلہ للہ۔ فیکون الحب لأولیائہ والبغض لأعدائہ۔ والاکرام لأولیائہ والاھانۃ لاعدائہ۔ والثواب لأولیائہ والعقاب لأ عدائہ۔
[ہجر، عقوبات شرعیہ کے باب میں سے ہے اور اس لئے وہ جہاد فی سبیل اللہ کی جنس سے ہے۔ یہ اس لئے روا رکھا جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ سربلند ہو اور دین سارے کا سارا اللہ رب العزت کے لئے ہو جائے، بنا بریں مومن کا فرض ہے کہ اللہ کے لئے دشمنی کرے اور اللہ ہی کے لئے دوستی۔ اس لئے اگر کہیں ایک بھی مومن ہو تو اس کا فرض بنتا ہے کہ اس کے ساتھ دوستی اور وفاداری کا رشتہ قائم رکھے چاہے وہ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کرتا ہو کیونکہ ظلم و زیادتی سے ایمانی دوستی، ہمدردی اور موالات کے رشتے نہیں کٹ جاتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ (الحجرات:۹،۱۰)
’’اور اگر مسلمانوں میں سے دو گروہ باہم لڑ پڑیں تو ان میں عدل کے ساتھ صلاح و اصلاح کرا دیا کرو اور انصاف کرو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ بے شک مومن لوگ تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے باہم سرکشی کے باوجود ان کی باہم صلح و اصلاح کروانے کا حکم دیا اور مسلمانوں کو بھائی بھائی ہی رکھا ہے۔ بنا بریں مومن کو سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ (ہجر کی) ان دو اقسام میں کس قدر فرق ہے کیونکہ بسا اوقات اور اکثر و بیشتر انسان کے ذہن میں یہ فرق باقی نہیں رہتا، یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ مومن سے محبت، دوستی اور وفاداری کا رشتہ استوار رہنا چاہیے، چاہے اس سے اس پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ ہوا ہو، اور کافر سے دشمنی رکھنا فرض ہے چاہے وہ اس پر کتنا بھی احسان کیوں نہ کرتا ہو اور انعام و اکرام ہی سے کیوں نہ نواز تا ہو (مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸ص ۲۰۸-۲۰۹)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’شیطان انسان سے ہر معاملے میں اسراف چاہتا ہے۔ جب وہ کسی کو نرمی اور رحمت کی طرف مائل دیکھتا ہے تو اُس کے لیے نرمی اور رحمدلی کو مزین کر دیتا ہے یہاں تک کہ انسان اس سے بھی بغض و دشمنی نہیں کرتا جس سے اللہ دشمنی کرتا ہے، اسے اُس بات پر بھی غیرت نہیں آتی کہ جس بات پر اللہ کو غیرت آتی ہے۔ اسی طرح جب شیطان کسی کو شدت کی طرف مائل دیکھتا ہے تو وہ اُس کے لیے شدت اور سختی کو مزین کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ ذات الٰہی کی رضا مندی کے علاوہ (اپنی ذات، جماعت) کے لیے سختی کرنے لگتا ہے اور وہ احسان، نرمی اور صلہ رحمی جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے ترک کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ شدت میں زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ شخص رحمت و احسان کے حکم الٰہی کو ترک کرنے کی وجہ سے گنہگار ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے جس شدت کا حکم دیا اُس میں زیادتی کرنے کی وجہ سے مذموم ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾ (الاعراف:۳۱)
’’اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
زیادتی میں شدت کرنے والے اور رحمدلی میں زیادتی کرنے والے دونوں کو کہنا چاہیے:
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ (آل عمران :۱۴۷)
’’اے ہمارے رب! ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمارے کام میں اگر زیادتی ہو گئی ہو تو اسے معاف فرما۔ ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔‘‘
اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا وہ عمل کرتا ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ اس کام سے بغض رکھتا ہے جسے اللہ اور اس کا رسول ناپسند جانتے ہیں۔ رہا وہ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہی نہیں لاتا، وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے۔ اس لیے بعض اوقات اس پر رحم کے جذبات غالب ہوتے ہیں اور کبھی شدت پسندی کی خواہش، وہ اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کے پیچھے بھاگتا ہے۔
﴿فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّـهِ﴾ (القصص:۵۰)
’’پھر اگر وہ جواب نہ دے سکیں تو جان لیجئے کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ: ،۱۵/۲۹۳،۲۹۲)
آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آدمی سے سزا اور تعزیر کے لیے دوری اختیار کی جاتی ہے۔ جس کا مقصد اُسے اور اُس جیسوں کو اس بدعت سے باز رکھنا ہوتا ہے۔ یہ اُن پر رحمت اور احسان کے طور پر کیا جاتا ہے نہ کہ اُن سے انتقام اور اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے‘‘ (المنھاج: ۵/۲۳۹)
’’اس لیے جو کوئی لوگوں کو اُن کے گناہوں کی وجہ سے سزا دے اُسے چاہیے کہ اُن کے ساتھ رحمت اور احسان کرنے کی نیت رکھے جیسے والد اپنے بیٹے اور معالج مریض کے ساتھ کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا اور جسے میں نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے جسے میں دیتا ہوں، لیکن میں اُن لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی دیکھتا ہوں اور جنہیں میں نہیں دیتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں غنیٰ اور بھلائی پائی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری :۹۲۳)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایک شخص کو اس خوف سے دیتا ہوں کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اسے نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں منہ کے بل نہ پھینک دے‘‘ (بخاری: ۲۷، مسلم: ۱۵۰)
جبکہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض مومنین کے ساتھ قطع تعلقی کرتے ہیں … کیونکہ مقصود اللہ کی مخلوق کو بہتر طریقے کے ساتھ اطاعت الٰہی کی دعوت دینا ہے۔ جہاں محبت و نرمی فائدہ دے وہاں نرمی اپنانی چاہیے اور جہاں ڈراوا فائدہ دے وہاں ڈرانا چاہیے۔‘‘ (منہاج السنۃ :۱/۶۵،۶۳)
بدعت اور اہل بدعت کے مختلف مراتب ہونے کے اعتبار سے دوستی اور دشمنی، قربت اور دوری، قطع تعلقی اور تعلق داری پر بھی اثر پڑتا ہے۔
 
Top