- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
[2] المسائل الخفیہ
وہ کفریہ بدعت جو شہادتین کے مدلول سے صریح متصادم نہ ہو مگر کسی ایسے امر سے متصادم ہو جو دین میں قطعی مانا گیا ہو۔ کفریہ بدعت کی اس قسم میں جہالت، لاعلمی یا خطاء کا عذر دیا جا تا ہے اور ایسے عذر رکھنے والوں پر حجت قائم ہو جانے کے بعد اہل علم ان کی تکفیر کر سکتے ہیں۔ ان مسائل کو اہل علم نے مسائل خفیہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔
اس میں مرتکبین کی دو حالتیں ہیں:
پہلی حالت: یہ معلوم ہو جائے کہ اس بدعت سے اس کا مقصد دین کے اصول و قواعد کو ختم کرنا اور اہل اسلام میں ان کے دین کے بارے میں شک پیدا کرنا ہے تو یہ شخص قطعی طور پر کافر ہو گا، بلکہ وہ شخص دین سے اجنبی ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا دشمن ہے۔
دوسری حالت: اس سے اس بدعت کا ارتکاب کسی شبہ کی بنا پر ہو اور اس پر وہ معاملہ خلط ملط ہو تو ایسے شخص کو دلائل و براہین دے کر حجت پوری کرنے کے بعد کافر قرار دیا جائے گا۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی دلیل تک رسائی پانے کے لیے عقل، فہم اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخفی ہونے کی وجہ سے یہ مسائل معلوم من الدین بالضرورۃ کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان امور میں غلطی کھانے والا سمجھتا ہے کہ اس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے یہ وہی مسائل میں جن میں اہل سنت اور اس کے مخالف فرقوں میں بحثیں ہوتی رہیں۔ مثلاً :۔
اللہ کے اسماء و صفات:
جیسے اللہ کا عرش پر مستوی ہونے یا قیامت کے دن اللہ کے دیدار کا انکار کرنا یا قرآن مجید کو کلام اللہ کی بجائے مخلوق کہنا۔ ان مسائل خفیہ میں غلطی کھانے والوں کو خطا کار تو سمجھا جائے گا مگر ان کی اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک حجت پوری نہ ہو جائے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فان خالف ذلک بعد ثبوت الحجۃ فھو کافر فأما قبل ثبوت الحجۃ علیہ فمعذور بالجھل لأن علم ذلک لا یدرک بالعقل ولا بالرویۃ والفکر ولا یکفر بالجھل بھا احد الا بعد انتھاء الخبر الیہ بہ ‘‘
’’اگر کوئی شخص صفات باری تعالیٰ کا حجت قائم ہو جانے کے بعد انکار کرے تو وہ کافر ہے البتہ حجت قائم ہونے سے پہلے اُسے جہالت کا عذر دیا جائے گا کیونکہ صفات کا ادراک عقل، فکر و تدبر سے ممکن نہیں، اس لیے ان سے جاہل کوئی شخص اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک اُسے اس کی خبر نہ پہنچ جائے۔‘‘ (اثبات صفۃ العلو للشیخ لامام عبداللہ بن أحمد بن قدامۃ المقدسی :124)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من جھل بعض الصفات وآمن بسائرھا لم یکن بجھل البعض کافرا لأن الکافر من عاند لا من جھل، وھذا قول المتقدمین من العلماء ومن سلک سبیلھم من المتاخرین۔
’’جو کوئی تمام صفات پر ایمان رکھتا ہے البتہ بعض سے جاہل رہتا ہے وہ اپنی اس جہالت کی بنا پر کافر شمار نہ ہو گا کیونکہ (اس باب میں) کافر وہ ہوتا ہے جو معاند (حق جان کر کفر پر اڑنے والا) ہو نہ کہ جاہل۔ یہ علمائے متقدمین اور ان کی اتباع کرنے والے متاخرین کا مسلک ہے۔‘‘ (التمھید 42/18)
ان امور میں تکفیر معین کے لیے ضروری ہے کہ متکلم جب کفر کی بات کرے تو اس کلمے سے جو کفر لازم آتا ہے وہ اس کا قصد بھی کرتا ہو بعض اوقات الفاظ ذو معنی ہوتے ہیں اور اہل بدعت فرقے انہیں استعمال کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جائے گا کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسماء و صفات میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ہمارے مخالفین ایسی بات کرتے ہیں کہ اس سے کفر لازم آتا ہے لیکن یہ کفریہ معنی ثابت کرنا ان کا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسے شخص کی ہم بھی تکفیر نہیں کرتے جب تک وہ خود اس لازمی معنی کو تسلیم نہ کر ے جو ہمارے نزدیک ان الفاظ سے نکلتا ہے (مجموعہ فتاوی جلد ۵ صفحہ ۳۰۶)
مثلا: ’’خلق قرآن‘‘ کی مثال اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اوراق پر لکھے ہوئے اور چھپے ہوئے لفظوں کا مجموعہ کلام اللہ نہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ، اس کے رسول اور تمام صحابہ کے فہم کی تکذیب ہو گی مگر کہنے والا اللہ، اس کے رسول اور صحابہ کی تکذیب نہیں کرنا چاہتا۔ تو اس پر فتوے سے پہلے حجت پوری کرنا واجب ہے۔ جب کوئی مسلم اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیر خواہی چاہتا ہو اور نیک جذبات رکھتا ہو لیکن الفاظ کے معنی پوری طرح نہ سمجھے اور اس کے الفاظ سے غلط معنی نکلتے ہوں تو اس کی تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس کو دلائل نہ سمجھا دیئے جائیں اور اس کے شبہات دور نہ کر دیئے جائیں۔
شیخ عبد اللہ ابابطین رحمہ اللہ اس شخص کی بات پر تبصرہ کرتے ہیں جو ابن تیمیہ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ مشرک کو کافر نہیں کہتے تھے۔ شیخ ابابطین اپنے تبصرے میں کہتے ہیں:کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ان شرکیہ امور کا مرتکب کافر نہیں کہلائے گا تو امام ابن تیمیہ نے یہ بات شرک اکبر (غیر اللہ کی عبادت وغیرہ) امور ظاہرہ کے بارے میں نہیں کی بلکہ امور خفیہ کے بارے میں کی ہے۔ امور خفیہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ ورنہ شرک اکبر کے مرتکب کے عدم کفر کی بات کسی نے نہیں کی۔ اس لیے کہ اس طرح کی باتوں کے بارے میں تو ہر خاص و عام بلکہ یہود و نصاریٰ تک کو معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہی باتیں لے کر آئے تھے اور ان کے مخالفت کرنے والے کو کافر کہا جائے گا یعنی ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شریک نہ کرنا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کرنا یہ تو شعائر اسلام میں سب سے زیادہ واضح شعائر ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر حجت قائم نہیں ہوئی اس لیے اسے کافر نہ کہا جائے۔ (مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ: ج۴/۴۵۴)
علامہ ابو محمد المقدسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عذر اُس بندے کو دیا جا ئے گا جو توحید کی اصل اور بنیاد پر تو قائم ہو لیکن اس سے بعض مسائل مخفی رہ جائیں، جس کا سمجھنا اس کے لیے مشکل ہو یا مخفی ہو یا اس کو سمجھنے اور وضاحت کی حاجت ہو اس قسم میں سے اسماء و صفات کا باب ہے، کتاب و سنت کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کا اقرار کرنے والا اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مسئلہ میں غلطی کا شکار ہو جائے تو اس کی اُس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس پر حجت قائم نہ کر دی جائے۔‘‘ (رسالۃ ثلاثینیۃ)
وہ کفریہ بدعت جو شہادتین کے مدلول سے صریح متصادم نہ ہو مگر کسی ایسے امر سے متصادم ہو جو دین میں قطعی مانا گیا ہو۔ کفریہ بدعت کی اس قسم میں جہالت، لاعلمی یا خطاء کا عذر دیا جا تا ہے اور ایسے عذر رکھنے والوں پر حجت قائم ہو جانے کے بعد اہل علم ان کی تکفیر کر سکتے ہیں۔ ان مسائل کو اہل علم نے مسائل خفیہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔
اس میں مرتکبین کی دو حالتیں ہیں:
پہلی حالت: یہ معلوم ہو جائے کہ اس بدعت سے اس کا مقصد دین کے اصول و قواعد کو ختم کرنا اور اہل اسلام میں ان کے دین کے بارے میں شک پیدا کرنا ہے تو یہ شخص قطعی طور پر کافر ہو گا، بلکہ وہ شخص دین سے اجنبی ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا دشمن ہے۔
دوسری حالت: اس سے اس بدعت کا ارتکاب کسی شبہ کی بنا پر ہو اور اس پر وہ معاملہ خلط ملط ہو تو ایسے شخص کو دلائل و براہین دے کر حجت پوری کرنے کے بعد کافر قرار دیا جائے گا۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی دلیل تک رسائی پانے کے لیے عقل، فہم اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخفی ہونے کی وجہ سے یہ مسائل معلوم من الدین بالضرورۃ کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان امور میں غلطی کھانے والا سمجھتا ہے کہ اس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے یہ وہی مسائل میں جن میں اہل سنت اور اس کے مخالف فرقوں میں بحثیں ہوتی رہیں۔ مثلاً :۔
اللہ کے اسماء و صفات:
جیسے اللہ کا عرش پر مستوی ہونے یا قیامت کے دن اللہ کے دیدار کا انکار کرنا یا قرآن مجید کو کلام اللہ کی بجائے مخلوق کہنا۔ ان مسائل خفیہ میں غلطی کھانے والوں کو خطا کار تو سمجھا جائے گا مگر ان کی اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک حجت پوری نہ ہو جائے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فان خالف ذلک بعد ثبوت الحجۃ فھو کافر فأما قبل ثبوت الحجۃ علیہ فمعذور بالجھل لأن علم ذلک لا یدرک بالعقل ولا بالرویۃ والفکر ولا یکفر بالجھل بھا احد الا بعد انتھاء الخبر الیہ بہ ‘‘
’’اگر کوئی شخص صفات باری تعالیٰ کا حجت قائم ہو جانے کے بعد انکار کرے تو وہ کافر ہے البتہ حجت قائم ہونے سے پہلے اُسے جہالت کا عذر دیا جائے گا کیونکہ صفات کا ادراک عقل، فکر و تدبر سے ممکن نہیں، اس لیے ان سے جاہل کوئی شخص اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک اُسے اس کی خبر نہ پہنچ جائے۔‘‘ (اثبات صفۃ العلو للشیخ لامام عبداللہ بن أحمد بن قدامۃ المقدسی :124)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من جھل بعض الصفات وآمن بسائرھا لم یکن بجھل البعض کافرا لأن الکافر من عاند لا من جھل، وھذا قول المتقدمین من العلماء ومن سلک سبیلھم من المتاخرین۔
’’جو کوئی تمام صفات پر ایمان رکھتا ہے البتہ بعض سے جاہل رہتا ہے وہ اپنی اس جہالت کی بنا پر کافر شمار نہ ہو گا کیونکہ (اس باب میں) کافر وہ ہوتا ہے جو معاند (حق جان کر کفر پر اڑنے والا) ہو نہ کہ جاہل۔ یہ علمائے متقدمین اور ان کی اتباع کرنے والے متاخرین کا مسلک ہے۔‘‘ (التمھید 42/18)
ان امور میں تکفیر معین کے لیے ضروری ہے کہ متکلم جب کفر کی بات کرے تو اس کلمے سے جو کفر لازم آتا ہے وہ اس کا قصد بھی کرتا ہو بعض اوقات الفاظ ذو معنی ہوتے ہیں اور اہل بدعت فرقے انہیں استعمال کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جائے گا کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسماء و صفات میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ہمارے مخالفین ایسی بات کرتے ہیں کہ اس سے کفر لازم آتا ہے لیکن یہ کفریہ معنی ثابت کرنا ان کا مقصود نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسے شخص کی ہم بھی تکفیر نہیں کرتے جب تک وہ خود اس لازمی معنی کو تسلیم نہ کر ے جو ہمارے نزدیک ان الفاظ سے نکلتا ہے (مجموعہ فتاوی جلد ۵ صفحہ ۳۰۶)
مثلا: ’’خلق قرآن‘‘ کی مثال اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اوراق پر لکھے ہوئے اور چھپے ہوئے لفظوں کا مجموعہ کلام اللہ نہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ، اس کے رسول اور تمام صحابہ کے فہم کی تکذیب ہو گی مگر کہنے والا اللہ، اس کے رسول اور صحابہ کی تکذیب نہیں کرنا چاہتا۔ تو اس پر فتوے سے پہلے حجت پوری کرنا واجب ہے۔ جب کوئی مسلم اللہ اور اس کے رسول کے حق میں خیر خواہی چاہتا ہو اور نیک جذبات رکھتا ہو لیکن الفاظ کے معنی پوری طرح نہ سمجھے اور اس کے الفاظ سے غلط معنی نکلتے ہوں تو اس کی تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس کو دلائل نہ سمجھا دیئے جائیں اور اس کے شبہات دور نہ کر دیئے جائیں۔
شیخ عبد اللہ ابابطین رحمہ اللہ اس شخص کی بات پر تبصرہ کرتے ہیں جو ابن تیمیہ کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ مشرک کو کافر نہیں کہتے تھے۔ شیخ ابابطین اپنے تبصرے میں کہتے ہیں:کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ان شرکیہ امور کا مرتکب کافر نہیں کہلائے گا تو امام ابن تیمیہ نے یہ بات شرک اکبر (غیر اللہ کی عبادت وغیرہ) امور ظاہرہ کے بارے میں نہیں کی بلکہ امور خفیہ کے بارے میں کی ہے۔ امور خفیہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ ورنہ شرک اکبر کے مرتکب کے عدم کفر کی بات کسی نے نہیں کی۔ اس لیے کہ اس طرح کی باتوں کے بارے میں تو ہر خاص و عام بلکہ یہود و نصاریٰ تک کو معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہی باتیں لے کر آئے تھے اور ان کے مخالفت کرنے والے کو کافر کہا جائے گا یعنی ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شریک نہ کرنا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کرنا یہ تو شعائر اسلام میں سب سے زیادہ واضح شعائر ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر حجت قائم نہیں ہوئی اس لیے اسے کافر نہ کہا جائے۔ (مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ: ج۴/۴۵۴)
علامہ ابو محمد المقدسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عذر اُس بندے کو دیا جا ئے گا جو توحید کی اصل اور بنیاد پر تو قائم ہو لیکن اس سے بعض مسائل مخفی رہ جائیں، جس کا سمجھنا اس کے لیے مشکل ہو یا مخفی ہو یا اس کو سمجھنے اور وضاحت کی حاجت ہو اس قسم میں سے اسماء و صفات کا باب ہے، کتاب و سنت کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کا اقرار کرنے والا اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مسئلہ میں غلطی کا شکار ہو جائے تو اس کی اُس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس پر حجت قائم نہ کر دی جائے۔‘‘ (رسالۃ ثلاثینیۃ)