• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا منہج تعامل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
طالبان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی شرعی حیثیت
طالبان کا تعارف
فضیلۃ الشیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ سے مجلۃ البیان (سعودی عرب) کی گفتگو اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
شیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ کا تعارف خود ان کی اپنی زبانی:
میرا نام غلام اللہ رحمتی ہے، میرا تعلق افغانستان کے علاقے قندوز سے ہے۔ میں نے دیوبندی مدارس سے سند فراغت حاصل کی اور اس کے بعد شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، ابن قیم رحمہ اللہ اور محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتب کا مطالعہ کیا اور اس طرح اہل سنت کے مسلک کو اختیار کیا۔ اس سچے عقیدے کو قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ تو فیق دی کہ میں نے اپنے علاقے قندوز میں اس عقیدہِ حقہ کی تبلیغ شروع کی، جس کے نتیجے میں مجھے مسلسل دس سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ یہ ظاہر شاہ کے دور حکومت کی بات ہے۔ مجھ پر یہ الزام لگایا گیا کہ میں وہابی اور غیر مقلد ہوں اور صوفیت کے سلسلوں کا منکر ہوں۔ قندوز میں میرا مدرسہ بھی تھا جہاں میں دعوت و تدریس کا کام کیا کرتا تھا۔ آخرکار دس سال بعد مجھے جیل سے آزادی ملی۔ تب میں نے پاکستان کی طرف رختِ سفر باندھا اور یہاں کوئٹہ میں قیام کیا۔ پاکستان کے شہر پشاور میں میرا ایک سلفی العقیدہ شاگرد تھا جس نے مجھ سے افغانستان میں تعلیم حاصل کی تھی اس کا نام شمس الدین تھا۔ اس نے پشاور میں ایک مدرسہ الجامعۃ الاثریۃ کی بنیاد ڈالی تھی۔ اسے جب میرے پاکستان آنے کا علم ہوا تو اس نے مجھ سے اپنے مدرسے میں تعلیم و تدریس کا فریضہ نبھانے کو کہا جسے میں نے قبول کیا اور اس طرح میں یہاں پشاور آگیا اور اس مدرسہ میں کئی سال تک میں تدریس کا فریضہ نبھاتا رہا، یہاں تک کہ افغانستان میں جماعۃ الدعوۃ الی القرآن والسنۃ کے نام سے جماعت وجود میں آئی۔ اس جماعت کی تاسیس کے بعد میں اس کا رکن بن گیا اور شیخ جمیل الرحمن کی شہادت تک ان کے نائب کی حیثیت سے ان کے ساتھ رہا۔ اسی دوران میں روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں، روس کی شکست کے بعد میں پھر واپس پشاور آگیا اور یہاں میں نے دارالقرآن والحدیث السلفیۃ کے نام سے مدرسے کی بنیاد رکھی۔ اس وقت سے لے کر اب تک میں اسی مدرسہ میں تدریس کا فریضہ انجام دے رہا ہوں۔ والحمدللہ
البیان : … طالبان کے کابل داخل ہونے کے بعد کے حالات پر ذرا روشنی ڈالیے۔
شیخ : … کابل پر قبضے کے کچھ عرصے بعد طالبان نے درباروں اور مزاروں پر ہونے والے شرک کا خاتمہ کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا ان مقامات پر کیے جانے والے اعمال شریعت کی رو سے حرام ہیں۔ مزار شریف کے علاقے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک قبر ہے جس کا نام "سخی" ہے۔ اسے سخی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے وہ سب کچھ ملتا ہے کہ جس کا سوال کیا جائے۔ طالبان کے قبضے سے پہلے اس دربار پر آدمی، عورتیں، معذور، نابینے غرض ہر طرح کے حاجت مند اور مریض حاضری دیا کرتے تھے ان کا یہ عقیدہ تھا کہ یہاں حاجات پوری ہوتی ہیں اور شفا ملتی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں ایک رسم تھی جو میری ولادت سے بھی پہلے سے چلی آرہی تھی اس کا بھی طالبان نے خاتمہ کیا۔ ملک کا ہر بادشاہ برج حمل کے پہلے دن (جو کہ نیروز کے ایام کا بھی پہلا دن ہے) سخی دربار کے نام کا جھنڈا بلند کیا کرتا تھا۔ ان کا یہ یقین تھا کہ اگر جھنڈا بلند ہونے کے بعد نہ گرے تو یہ حکومت کے دوام اور اس کے قائم رہنے کی علامت ہے اور اگر وہ گر جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس کی حکومت گرنے والی ہے۔ ان دنوں میں تین چھٹیاں کی جاتی تھیں، جن میں لوگ مزار کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ ان دنوں وہاں اتنا رش ہوتاتھا کہ جیسے حج کے دنوں میں مکہ المکرمہ میں ہوتا ہے۔ طالبان کے عہد میں جب یہ دن قریب آئے تو طالبان نے یہ اعلان کر دیا کہ اس رسم کو منانا حرام اور ناجائز ہے۔ یہ چونکہ اسلام کے مخالف ہے اس لیے آج کے بعد ان تین دنوں میں کوئی بھی مزار میں داخل نہیں ہو گا نہ ان دنوں میں چھٹی کی جائے گی، اور جو کوئی اپنی ڈیوٹی سے غائب پایا گیا تو اُسے اس کی نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ اس طرح طالبان نے اس شرکیہ رسم کا خاتمہ کیا اور ایسا صرف کابل تک ہی محدود نہ تھا بلکہ طالبان نے پورے ملک میں شرک کو ختم کیا۔
طالبان سے پہلے پورے ملک میں ایسی قبریں ہر جگہ نظر آتی تھیں جن کی لوگ عبادت کرتے تھے۔ لیکن جب طالبان آئے تو انہوں نے اس شرک سے لوگوں کو منع کر دیا۔ چنانچہ قبروں کی شرعی زیارت کی صرف جمعرات کے دن ظہر تا عصر اجازت دی گئی باقی اوقات میں قبروں کی زیارت کی اجازت نہ تھی۔ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ جو کوئی ان قبروں کی زیارت اس مقصد کے لیے کرے گا کہ وہ ان سے مدد طلب کرے اور انہیں مشکلات کے حل کے لیے پکارے یا انہیں سفارشی بنائے یا پھر ان کا وسیلہ پکڑے تو یہ تمام امور حرام ہیں۔ ان کے مرتکب کی سزا یہ ہے کہ اسے جیل میں بند کیا جائے گا اور اسے مارا بھی جا سکتا ہے۔ اور اگر وہ تنبیہ کے باوجود اس شرک سے باز نہ آیا تو اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔
البیان: … کیا یہ حالات دیکھنے کا آپ کو کوئی ذاتی تجربہ بھی ہوا یا آپ نے یہ حالات صرف لوگوں سے ہی سنے ہیں؟
شیخ: … جی ہاں، مجھے خود بھی یہ حالات دیکھنے کا تجربہ ہوا ہے۔ کابل میں "شاھد شامشیراہ" نام کا ایک مزار ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے "دو تلواروں والے بادشاہ"۔ اس بادشاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے دشمنوں سے دو تلواروں کے ساتھ لڑا کرتا تھا ایک جنگ میں اس کی تلواریں ٹوٹ گئیں اور اسے شہید کر دیا گیا۔ یہ ایک مشہور و معروف دربار ہے جہاں لوگ ہر قسم کی عبادت غیر اللہ کے لیے بجا لاتے ہیں۔ ربانی کے دور حکومت میں مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا، میں نے وہاں دیواروں اور پتھروں پر شرکیہ اقوال اور کفریہ اشعار لکھے ہوئے پائے، ان میں ایک عبارت یہ بھی تھی "آپ کے سوا ہماری کوئی پناہ گاہ، ٹھکانہ اور بچانے والا نہیں"۔ تب میں ربانی کو ملا تھا اُس وقت وہاں شیخ سمیع اللہ بھی موجود تھے۔ میں نے اسے کہا: "تم نے یہاں اسلامی حکومت کا اعلان کیا ہوا ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ ملک ہے، تو تم یہاں شرک کے ان مراکز کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے؟ ربانی ہنستے ہوئے کہنے لگا: شیخ کیا تم آٹومیٹک اسلامی حکومت چاہتے ہو؟ تمہیں صبر کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: اس مقصد کے لیے کم از کم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک ادارہ ہونا چاہیے جو لوگوں کو اس شرک کی حقیقت سے آگاہی دے ورنہ لوگ شرک پر ہی مرتے جائیں گے۔ لیکن میری بات کا ربانی نے یہی جواب دیا: اسلامی حکومت آٹو میٹک نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس جب طالبان آئے تو انہوں نے اس قسم کے ہر شرک کا خاتمہ کر دیا۔ درباروں سے تمام شرکیات کو نکال باہر کیا، مزارات کے دروازے بند کیے لوگوں کو سوائے شرعی زیارت کے ہر قسم کی زیارت سے روک دیا، اسی طرح انہوں نے عورتوں کی درباروں کی زیارت پر مکمل پابندی عائد کی۔ اُس وقت پشاور میں یہ مشہور تھا کہ طالبان امریکی ایجنٹ ہیں۔ افغانستان آنے سے قبل میں بھی یہی سوچا کرتا تھا کہ طالبان پاکستان اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ طالبان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ یہ قبر پرست، مشرک اور بدعتی قسم کے اشعری اور ماتریدی ہیں۔ یہ سب باتیں افغانستان آنے سے قبل میرے ذہن میں تھیں۔ اسی لیے میں افغانستان چھپتے چھپاتے آیا کیونکہ میں ڈرتا تھا کہیں یہ قبر پوج مجھے قتل ہی نہ کر دیں۔ اس لیے میں چوری چوری اپنے ملک میں داخل ہوا۔ اتفاق سے میں جس گاڑی میں آرہا تھا اس میں میرے ساتھ ایک آدمی، اس کی بیوی، دو بچے اور ایک تکیہ کی طرح کا تھیلا تھا۔ جب ہم کابل پہنچے تو اس آدمی نے اپنا تھیلا ہوٹل کے دروازے کے سامنے رکھا اور اپنے بیوی بچوں کو اتارا اور چلا گیا، میں بھی اس گاڑی سے اترا اور ایک ہوٹل میں رہائش رکھ لی۔ اگلے دن جب میں اس ہوٹل کے سامنے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ اس آدمی کا وہ تھیلا ابھی تک وہیں پڑا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کیا یہ وہی تھیلا نہیں ہے جو کل اس آدمی نے یہاں چھوڑا تھا۔ میں نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا اور سوچا شاید یہ کوئی اور ہو۔ پھر تین دن کے بعد میں دوبارہ وہاں سے گزرا تو میں نے اُس تھیلے کو وہیں پڑا ہوا پایا۔ میں نے "شاھد شامشیراہ" دربار کی سیر کرنے کا پروگرام بنایا میرا خیال تھا کہ طالبان نے وہاں شرک و کفر کو مزید بڑھا دیا ہو گا اُسے دیکھنا چاہیے۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دربار کے دروازے کو بند پایا میرے ساتھ چار دوست بھی تھے یہ سب کے سب طالب علم تھے۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک داڑھی والے بابے نے دروازہ کھولا، اس کا چہرہ نہایت غمگین اور اداس تھا۔
البیان: عفواً ۔۔۔ شیخ آپ نے تھیلے والی بات پوری نہیں کی؟
شیخ: میں اُسی طرف آرہا ہوں، میں اُسے بھولا نہیں ہوں۔ میں دربار میں جوتوں سمیت اندر داخل ہو گیا جب کہ طالبان سے پہلے جوتوں سمیت دربار میں داخل ہونا ممنوع تھا۔ بابا ہمیں طالبان کے آدمی سمجھ کر خاموش ہو گیا۔ میں مزار میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا وہاں کوئی شرکیہ تختی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شرکیہ چیز موجود ہے، سوائے ایک تختی کے جس پر یہ حدیث نبوی لکھی تھی "میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اس کی زیارت کرو یہ تمہیں آخرت یاد دلاتی ہے۔" ساتھ ہی ایک اور تختی پر لکھا تھا:
"من جاء الی ھذا متوسلًا بہ أو مستشفعًا بہ أو مستمدًا بہ فجزاؤہ القتل"
’’جو کوئی یہاں اس لیے آیا کہ قبر والے سے مدد طلب کرے یا اسے وسیلہ بنائے یا اسے سفارشی بنائے تو اس کی جزاء قتل ہے۔‘‘
یہ دیکھ کر میں بے حد خوش ہوا۔ اسی بات کا تو ہم پہلے مطالبہ کرتے تھے۔ میں نے اس درباری بابے سے پوچھا: زائرین کہاں ہیں؟ یہاں جو تختیاں اور نذر کے صندوق تھے وہ کہاں گئے؟ بابا سمجھا میں بھی کوئی قبر پرست ہوں جسے دربار کا یہ حال دیکھ کر دکھ پہنچا ہے۔ کہنے لگا : خاموش ہو جاؤ اگر ان طالبان نے تیری باتیں سن لیں تو وہ تجھے قتل کر دیں گے، ان وہابی کافروں نے ان تمام چیزوں سے منع کیا ہوا ہے۔ یہ سن کر میں بے حد خوش ہوا، پھر میں نے اُسے نصیحت کی اور دربار سے نکل کر بازار کی طرف چل پڑا۔ میں نے وہاں کسی ایک عورت کو بھی بے پرد ہ نہ پایا جبکہ اس سے پہلے جس کابل کو میں جانتا تھا اس میں بے پردگی عام تھی۔ مگر جب طالبان آئے تو انہوں نے ان تمام برائیوں سے معاشرے کو پاک کر دیا۔ عورتوں کا حکومتی اداروں میں نوکری کرنا ممنوع کیا اور یہ اعلان کیا جو عورت کام کرنا چاہتی ہے اُسے اپنے گھر کی چار دیواری میں کام کرنا ہو گا اور حکومت اُسے اس کی تنخواہ دے گی۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے گانے بجانے کو بھی ممنوع کیا۔
کابل میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد میں نے واپس جانے کا پروگرام بنایا۔ میں اس جگہ پر آیا جہاں میں نے وہ تھیلا دیکھا تھا، اب کی بار وہاں تھیلا موجود نہیں تھا۔ میں نے اس ہوٹل کے مالک سے پوچھا : یہاں کافی عرصے سے ایک تھیلا پڑا ہوا تھا اب وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا شیخ اس تھیلے کا بھی عجیب قصہ ہے۔ میں نے کہا کیسے؟ کہنے لگا یہ تھیلا ایک آدمی کا تھا جو پشاور سے یہاں آیا تھا، اس کا گھر ہرات میں تھا۔ جب وہ یہاں اترا تو وہ اپنا تھیلا بھول گیا اور اپنے گھر چلا گیا، گزشتہ روز وہ اپنے گھر سے آیا اور اس نے اپنا تھیلا اٹھایا۔ اُس کا یہ تھیلا رسی کے ساتھ باندھا ہوا تھا جب اس نے اسے کھولا تو ہم نے دیکھا وہ پیسوں سے بھرا ہوا تھیلا تھا۔ میں نے اس ہوٹل والے سے مذاق کرتے ہوئے کہا: تو اتنے عرصے کہاں رہا تو نے یہ تھیلا کیوں نہ اٹھایا؟ وہ کہنے لگا شیخ طالبان ایسے بندے کو پکڑ لیتے ہیں، اب چوری کی کوئی جرأت نہیں کرتا۔ کیونکہ طالبان خود سامان رکھ دیتے ہیں پھر جو کوئی چوری کرے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔
جب میں پشاور واپس آیا تو میں نے خطبہ جمعہ میں کہا: "طالبان اپنے پہلے حالات سے اب بہت بہتر ہیں"۔ میرے بعض دوستوں کو اس بات کی اطلاع پہنچی تو وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ کس طرح طالبان کی تعریف کرتے ہیں جب کہ وہ مشرک ہیں۔ میں نے کہا: واللہ شيء عجیب! تم انہیں کس طرح مشرک کہتے ہو جب کہ انہوں نے شرک کے مراکز کو بند کیا ۔…… طالبان حکومت میں آتے ہی شرک سے منع کرتے ہیں پھر وہ کس طرح مشرک ہوئے؟ میں نے انہیں کہا: دنیا میں انسان کو دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
۱۔ رہنے کے لیے امن و امان
۲۔ آخرت کے لیے ایمان
طالبان کے ایمان میں تو کوئی کمزوری تلاش کی جا سکتی ہے لیکن اللہ کی قسم انہوں نے امن و امان قائم کر دیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ایمان کو بھی صحیح طور پر قائم کریں گے۔
البیان: کیا آپ نے تحریک طالبان کے ارکان میں سے کسی سے ملاقات بھی کی؟
شیخ: جی ہاں! میں دوبارہ افغانستان گیا تو وہاں طالبان کے بعض بھائیوں سے ملاقات کی۔ میں نے انہیں عقیدہ و عمل کے اعتبار سے صالح پایا۔ میں طالبان کے وزیر اعظم محمد ربانی رحمہ اللہ سے ملا جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ میں نے اس سے عجیب ایمانی باتیں سنیں، وہ افغانستان میں ۱۰۰ فیصد اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے، اسی لیے انہوں نے شرک، فسق و فجور کا خاتمہ کیا۔ اس کا آغاز انہوں نے قندھار سے کیا۔ قندھار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک خرقہ تھا جسے احمد شاہ ابدالی بخاریٰ سے یہاں لایا تھا، اس خرقہ کی قولی، مالی اور بدنی ہمہ قسم کی عبادت کی جاتی تھی۔ یہ خرقہ ایک مشجب محفوظ پر رکھا گیا تھا جس کے نیچے خالی جگہ تھی۔ لوگ اس کے نیچے اترتے، اس کے گرداگرد طواف کرتے اور اسے تبرک کے لیے چھوتے۔ جب طالبان نے قندھار پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس خرقہ کو وہاں سے نکال دیا اور کہا کہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس میں احتمال تھا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہو اس لیے انہوں نے کہا یہ ہمارے پاس محفوظ ہے اور تمہارے لیے اس کا طواف کرنا، برکت کے لیے چھونا اور اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
بھائی میں نے انہیں صالحین میں سے پایا۔ اللہ کی قسم میں نے نہ تو طالبان کے ہاتھوں بیعت کی، نہ ان کے ساتھ کام کیا، نہ ان میں سے کوئی یہاں میرے پاس آیا لیکن میں حق بات کہوں گا کیونکہ مسلمان کو حق بات ہی کہنی چاہیے۔ لوگ ان کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض نے کہا وہ سارے کے سارے ہی خالص سلفی ہیں جبکہ یہ بات غلط ہے۔ بعض نے کہا وہ سب کے سب ہی مشرک ہیں، اللہ کی قسم یہ جھوٹ ہے۔ میری نگاہ میں طالبان کی تین اصناف ہیں۔
پہلا طبقہ: ان کی اکثریت حنفی اور دیوبندی مدارس سے فارغ شدہ ہیں۔ وہ توحید ربوبیت اور توحید الوہیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں البتہ اسماء وصفات میں وہ "اشعری" ہیں مگر متعصب نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
دوسرا طبقہ: اللہ کی قسم وہ سلفیوں کا طبقہ ہے۔ ان میں میں عبدالوکیل متوکل کو جانتا ہوں جو کہ طالبان کا وزیر خارجہ ہے ۔ یہ شیخ عبد الغفار کا بیٹا ہے جسے وہابی ہونے کے جرم میں افغانستان کی کیمونسٹ حکومت نے اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ حج کر کے ہوائی اڈے پر پہنچے تھے۔ عبدالوکیل کا خاندان سلفی خاندان ہے میں انہیں ۴۰ سال سے جانتا ہوں۔ اسی طرح طالبان میں اور بھی سلفی پائے جاتے ہیں۔ اُن میں ایک عبد الرقیب تھا جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ شدہ تھا، وہ طالبان حکومت میں مہاجرین کا وزیر تھا۔
تیسرا طبقہ: ان میں صوفی بھی پائے جاتے ہیں۔ میں ان کا نام لے کر اختلاف کا سبب نہیں بننا چاہتا مگر وہ انتہائی قلیل ہیں۔ میرے علم کے مطابق۔ یہی میں طالبان کے بارے میں جانتا ہوں اور اسی کا میں اعتقاد رکھتا ہوں۔
البیان: کیا آپ ’دیوبندیت‘ کی اصطلاح پر روشنی ڈالیں گے؟
شیخ: انڈیا میں ایک علاقہ ہے جس کا نام دیوبند ہے۔ اس علاقے میں ایک مدرسہ ہے جو کوئی بھی اس مدرسہ سے فارغ ہوتا وہ دیوبندی کے نام سے جانا جاتا۔ یہ لوگ احناف ہیں لیکن ان میں اور بریلویوں میں فرق ہے۔ دیوبندی بریلویوں کے شدید مخالف ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کی تکفیر کی حد تک جا پہنچتے ہیں، یہ لوگ توحید الوہیت پر خاص توجہ دیتے ہیں اور قبر پرستی کی مخالفت کرتے ہیں، ان کی اکثریت ماتریدی ہے۔ دیوبندیوں کا ایک بہت بڑا عالم تھا عبدالحق۔ اس کا پشاور میں مدرسہ تھا، اسی مدرسہ سے طالبان کی اکثریت نے سند فراغت حاصل کی۔ رہے ملا عمر نہ تو وہ دیوبندی ہیں نہ حنفی بلکہ وہ ایک عام مسلمان ہیں۔ ممکن ہے وہ جانتے بھی نہ ہوں کہ اشعریت اور ماتریدیت کیا ہے؟ وہ کہا کرتے تھے "میں وہ حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں جو نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں قائم کی تھی۔ اس حکومت کی بنیاد کتاب و سنت پر ہو گی۔" ملا عمر خود عالم نہیں ہیں بلکہ وہ علماء کے فتاویٰ پر عمل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’علماء کا کام فتویٰ دینا ہے اور میرا کام تطبیق کرنا ہے۔‘‘ وہ نہ صوفی ہے نہ دیوبندی بلکہ وہ سلفیت سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔
البیان: کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ’’ملا عمر‘‘ اپنی باتوں میں سچا ہے؟
شیخ: اللہ کی قسم وہ سچا، عابد اور زاہد انسان ہے۔ اس نے نہ میرے پاس تعلیم حاصل کی نہ میں نے اس سے علم حاصل کیا، نہ وہ میرے رشتہ داروں اور خاندان میں سے ہے، نہ میرے گاؤں سے ہے ‘وہ زورجان کا ہے‘ اور میں قندوز سے تعلق رکھتا ہوں۔ اللہ کی قسم جب میں نے اُسے دیکھا مجھے یقین ہو گیا کہ میں ایک ایسے آدمی کو مل رہا ہوں جو اسلام پر عمل کرتے ہوئے مسلمان ہے، زہد کو اپناتے ہوئے زاہد ہے۔ اگر اس کا زہد و تقویٰ میرے جیسے بہت ساروں پر تقسیم کیا جائے تو وہ سب کو کافی ہو گا۔ میں نے اسے اکثر اللہ کا ذکر کرتے، اللہ سے مدد طلب کرتے پایا۔ جب اسے کوئی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے۔ (البیان، ص:۸۶، شھادہ علی تجربۃ طالبان ۔۔ حوار مع فضیلۃ الشیخ غلام اللہ رحمتی (نائب الشیخ جمیل الرحمن رحمہ اللہ۔))
طالبان کی قیادت میں جہاد کے واجب ہونے پر علمائے کرام کے فتاویٰ
علمائے عرب جنہوں نے طالبان کی قیادت میں جہاد افغانستان کے وجوب کے فتاویٰ دیے فضیلہ الشیخ طارق الطواری نے ان کے یہ نام بیان کیے ہیں:
۱۔ علامہ حمود بن عقلاء الشعیبی رحمہ اللہ
۲۔ عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ
۳۔ ناصر بن حمد الفہد حفظہ اللہ ڈین کلیہ اصول الدین جامعہ امام بن سعود
۴۔ علامہ المحدث عبداللہ السعد حفظہ اللہ
۵۔ علامہ المحدث سلیمان بن ناصر العلوان حفظہ اللہ
۶۔ فضیلۃ الشیخ علی بن خضیر الخضیر حفظہ اللہ
۷۔ ڈاکٹر ناصر العمر حفظہ اللہ
۸۔ ڈاکٹر سفر الحوالی حفظہ اللہ
۹۔ ڈاکٹر سلمان العودہ حفظہ اللہ
۱۰۔ شیخ شریف الفعر حفظہ اللہ
۱۱۔ شیخ عبداللہ بن محمد العثمان حفظہ اللہ
۱۲۔ ڈاکٹر مہدی القاضی حفظہ اللہ
۱۳۔ بشیر بن فہد آل بشرحفظہ اللہ
۱۴۔ عبداللہ بن عمر الدمیجی حفظہ اللہ
۱۵۔ ڈاکٹر ریاض المسیر میری حفظہ اللہ
۱۶۔ شیخ عبدالرحمن الغریان حفظہ اللہ
۱۷۔ علمائے سوڈان
۱۸۔ علمائے لبنان
۱۹۔ علمائے یمن
حق پر قائم ان علماء نے جہاد افغانستان کے وجوب کا فتویٰ دیا ہے۔ (صحیفۃ الرأی العام الکویتیہ :2001/11/15)
ان علماء میں ہم یہاں علامہ حمود بن عقلاء کے فتویٰ سے چند اقتباسات قارئین کی نذر کررہے ہیں:
طالبان کے دور میں شیخ حمود عقلاء رحمہ اللہ کے الفاظ یہ تھے :
فھي دولۃ الوحیدۃ في العالم التي لایوجد فیھا محاکم قانونیۃ وانما حکمھا قائم علی شرع اللہ ورسولہ في المحاکم القضائیۃ وفي الوزارات وفي الدوائر وفي المؤسسات۔ أما ما عداھا من الدول الاسلامیۃ فمنھا من تحکم بالقوانین الوضعیۃ الصرفۃ ومنھا من تدعي تطبیق حکم اللہ ورسولہ مع ما یوجد فیھا من محاکم قانونیۃ صرفۃ، وحتی المحاکم الشرعیۃ في مثل ھذہ الدول یکون معظم
أحکامھا قائماً علی التنظیمات والتعلیمات التي من وضع البشر، فلا فرق بینھما وبین القوانین الوضعیۃ الابالاسم ……وحیث قد عُلم أن حکومۃ الطالبان حکومۃ شرعیۃ قدتوفرت لھا مقومات الاسلامیۃ ……فاذا کان الامر کذلک فانہ یجب دعم دولۃ طالبان والجھاد معھا من باب نصرۃ الاسلام…… (موقع الشیخ حمود عقلاء)
’’یہ دنیا میں واحد حکومت ہے جہاں بشری قوانین سے فیصلے کرنے والی عدالتیں نہیں پائی جاتیں بلکہ اس مملکت کی عدالتوں، وزارتوں، کمپنیوں کا نظام اور قانون اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کی بنیاد پر قائم ہے۔ امارت اسلامی کے علاوہ جتنے بھی مسلم ممالک ہیں اُن میں اکثر تو وضعی قوانین سے فیصلے کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو شریعت کو نافذ کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اُن میں انسانی قوانین سے فیصلے کرنے والی عدالتیں بھی پائی جاتی ہیں، حتی کہ اُن ممالک میں شرعی عدالتوں تک کے قوانین و دساتیر بشر کے وضع کردہ ہوتے ہیں۔ ان شرعی عدالتوں اور غیر شرعی عدالتوں میں نام کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہوتا … ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ طالبان کی حکومت ایک شرعی حکومت ہے جو اسلامی بنیادوں پر قائم ہے، اس لیے اس کی مدد و نصرت کرنا واجب ہے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا اسلام کی نصرت کرنا ہے۔‘‘ 9/11 کے بعد شیخ رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ دیا:
انہ یجب علی الشعوب المسلمۃ نصرۃ دولۃ الطالبان فکذلک یجب علی الدول الاسلامیۃ خصوصاً الدول المجاورۃ لھا والقریبۃ منھا مساعدۃ طالبان واعانتھا ضد الغرب الکافر۔ ولیعلم أولئک أن خذلان ھذہ الدولۃ المسلمۃ المحاربۃ لأجل دینھا ونصرتھا للمجاھدین ونصرۃ الکفار علیھا نوع من الموالاۃ والتولي والمظاھرۃ علی المسلمین ۔(حکم ما جری في أمریکا من أحداث:۱)
"مسلم عوام پر طالبان کی نصرت کرنا فرض ہے اسی طرح افغانستان کے اردگرد پائے جانے والے اسلامی ممالک پر خاص کرکے کافر مغرب کے مقابلے میں طالبان کی مدد کرنا واجب ہے۔ حکومتوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اس مسلم ملک کے ساتھ غداری کرنا کہ جو دین کی بنیاد پر مصروف جنگ ہے اور مجاہدین کے مقابلے پر کفار کا ساتھ دینا کفار سے دوستی کی وہ صورت ہے کہ جو آدمی کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہے۔"
حاصل کلام یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے مابین جاری اس معرکہ میں طالبان کی نصرت و اعانت کرنا فرض ہے۔ مجموعی طور پر طالبان کے اہل حق ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے اس جہاد کی قیادت کی۔ شیخ سلفی مجاہد تھے وہ جہاد کے ساتھ ساتھ عقیدہ کی اہمیت بھی بیان فرماتے تھے عقیدہ توحید کو سیکھنے اور اللہ کے دین پر استقامت کے لیے شیخ رحمہ اللہ نے جن تین کتابوں کے مطالعہ کی وصیت کی ان کے نام ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’الایمان‘‘
(۲) شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ کی کتاب ’’فتح المجید‘‘ جو امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب توحید کی شرح ہے۔
(۳) شیخ محمد قطب حفظہ اللہ مدرس جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کی کتاب ’’مفاہیم ینبغی ان تصحح‘‘۔ یقینا یہ کتب سلفی عقیدہ کو سمجھنے کے لیے نہایت اساسی اور بنیادی کتب ہیں جن کی تعلیم و تعلم سے طالبان اور مجاہدین کے عقائد درست ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
البتہ اگر کوئی طالبان کو بدعتی سمجھتا ہو تب بھی اُس کے لیے کفر کے مقابلے میں بدعتی مسلمانوں کا ساتھ دینا فرض ہے۔ جہاد اہل بدعت کی قیادت میں بھی کیا جائے گا جیسا کہ صحابہ اور تابعین بدعتی خلفاء کی قیادت میں جنگیں لڑتے رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خلاصہ کلام
خلاصۃ کلام یہ ہے کہ اہلسنت کی طرف نسبت کرنے والے وہ گروہ جن میں شرک اکبر نہیں ہے وہ مسلمان ہیں اور اُن کے ساتھ کفر و شرک کے خلاف کھڑا ہونا واجب ہے۔ البتہ ہماری اس گفتگو کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ان گروہوں میں عقیدہ و عمل کی خامیاں نہیں پائی جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس امت کے زوال کا بنیادی سبب دین دار طبقہ میں انحراف کا در آنا ہے۔ جس کی اصلاح کیے بغیر کبھی عزت و کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ان گروہوں سے بہتر معاملہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی غلطیوں کو غلطی نہ کہا جائے اور دردِ دل سے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی جائے۔ ایسا کرنا یقینا ان کے ساتھ بدترین سلوک و معاملہ کرنا ہے۔ مجموعی طور پر یہاں جو غلطیاں پائی جاتی ہیں ان کا اجمالاً ذکر کیا جاتا ہے۔

تصوف و بدعات کا وجود
بر صغیر کا یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر طبقے کے بزرگوں کے ہاں تصوف کی شرکیہ بدعات تک پائی گئی ہیں۔ جس سے برات کرنا ایمان لانے کے لئے نہایت اہم ہے۔ استاد محترم پروفیسر حافظ محمد عبد اللہ بہاولپوری رحمہ اللہ نے ایک خطبہ جمعہ میں یوں فرمایا:
"شاید ہی ہندوستان میں کوئی عالم ایسا ہو کیا اہلحدیث کیا دیوبندی اور کیا بریلوی! جن علماء کو اس تصوف کی تاثیر نہ لگی ہو۔ تھوڑا بہت اس تصوف کا رنگ ضرور ہوتا ہے۔ حالانکہ تصوف اس قدر خطرناک چیز ہے جنتا نقصان اسلام کو ان صوفیوں سے پہنچا ہے۔ اس تصوف کے چکر میں جتنے مسلمان برباد ہوئے ہیں۔ جتنا اسلام کے اندر اس کے ذریعے پلیدی شامل ہوئی اتنا کسی چیز نے بھی اسلام کو برباد نہیں کیا۔"
رد شرک و مشرکین کا نہ پایا جانا
لا الہ الا اللہ میں جس طرح معبودان باطلہ اور ان کے پجاریوں کا انکار کیا گیا ہے آج وہ یہاں خال خال ہی پایا جاتا ہے۔ کلمہ کا یہ ترجمہ ’’اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین‘‘ ایک ناقص ترجمہ ہے۔ یہ بات کہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے ربوبیت ہے نہ کہ الوہیت، اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اُسے رب ماننا ہے جو بلاشبہ حد درجہ مطلوب ہے البتہ اسے الہ ماننا اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔
’’اللہ کے علاوہ کوئی کچھ کرنے والا نہیں‘‘… یہ توحید ربوبیت ہے۔ توحید الوہیت یہ ہے کہ رب العالمین کے علاوہ کوئی پوجا، پرستش، بندگی اور انقیاد کے لائق نہیں اور یہ کہ پرستش اور بندگی کا کوئی فعل اگر کسی اور کے لیے روا رکھا جاتا ہے تو وہ سراسر باطل ہے اور یہ کہ بندے کی عبادت مثلا دعا و التجا، ذبیحہ و طواف، نیاز و انقیاد، اور اطاعت قانون صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے لائق اور لازم ہے۔ یہ کلمہ تو اللہ کے سوا پوجے جانے والے ہر بزرگ، پیر، قبر، دربار، قانون، نظام، وطن کی عبادت کا انکار کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کلمہ کے صحیح مفہوم کو زندہ کیا جائے اور شرک کے ساتھ ساتھ مشرکین کا بھی رد کیا جائے۔
لا دین سیاست میں شرکت
جمہوری نظام ایک کافرانہ نظام ہے کیونکہ اس میں سب اختیارات کا سر چشمہ عوام ہیں۔ اس کے ذریعے نفاذ شریعت کی بہت سے حضرات خود بھی امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور قوم کو بھی ان سے نتھی کیے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں اسلامی جماعتوں کو سیکولر پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اس طرح ملحدین اور مشرکین سے نہ صرف اظہار قرب و محبت کی جاتی ہے بلکہ انہیں قوم کے سامنے موحد بنا کر پیش کرنے جیسے گھنائو نے جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم دعوت و جہاد کے ذریعہ تبدیلی کے نبوی منہج کو اپنائیں۔
وطن پرستی کا شرک
وطنیت انسانی اجتماعیت کی وہ بنیاد ہے جو مغرب نے ایجاد کی پھر اس کو چلانے کا نظام بھی مغرب سے لیا گیا البتہ اس میں بعض جگہوں پر اسلام کے پیوند لگائے گئے۔ اس نظام میں اللہ کو حاکم اعلیٰ کہنے کے باوجود غیر اللہ کے قانون کو واجب الاطاعت مانا جاتا ہے اور اسے قانون کا تقدس دیا جاتا ہے جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں اجتماعیت کی بنیاد دین یعنی اللہ کی بندگی ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت کی روشنی میں حق و باطل کا فرق جانیں اور اسی سے دوستی و دشمنی کا معیار قائم کریں مگر افسوس یہاں وطنیت کا جس طرح سے انکار ہونا چاہیے تھا وہ انکار نہیں پایا جاتا۔ جس کے سبب ولاء و براء کا اسلامی عقیدہ کمزور ہو چکا ہے اور جاہلیت مضبوط ہو چکی ہے۔ اسلامی خلافت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ توحید کی بنیاد پر انسانوں کی اجتماعیت قائم کی جائے اور حقیقی اسلام کو قومیت اور جاہلیت کے کیمپ سے ممیز کیا جائے اور حق و باطل کے کسی بھی ملغوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جائے۔
تقلید جامد
یہاں اپنے اپنے فقہی مذاہب، جماعتوں، تنظیموں اور قیادتوں کی اندھی تقلید کا بھی دور دورا ہے۔ اس اندھی تقلید کا قرآن و سنت میں خوب رد کیا گیا ہے۔ تحقیق اور اہل علم سے رہنمائی لے کر منہج سلف کو اپنانے سے ہی ہم اس مصیبت سے نجات پا سکتے ہیں۔
اسلامی تحریکوں میں اسی طرح کئی اور خامیاں بھی پائی ہیں جن کی اصلاح کرنا اہل علم و فضل کا بنیادی فرض ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری غلطیوں کو دور فرمائے اور ہمیں اپنی عبادت کی توفیق عطاء فرمائے۔
ہمارے لیے درست طرز عمل:
ہم أئمہ کو معصوم نہیں جانتے۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام کے اجتہادات میں اس بات کا یکساں احتمال ہے کہ انہوں نے صحیح اجتہاد کیا یا اجتہاد کرتے ہوئے خطاء کی، لیکن وہ خطاء کے باوجود ایک اجر کے مستحق ہیں۔ البتہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اتباع کرنی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ (النساء: ۵۹)
’’اور کسی بھی بات میں تم میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو ۔‘‘
لہٰذا جب کوئی بات قرآن اور حدیث صحیح سے ثابت ہو جائے تو ہمیں اس بات کو قبول کرنا ہو گا جب کہ اہل علم کی ایک جماعت اس کی تائید بھی کرتی ہو کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ صحیح حدیث پر عمل اس لیے چھوڑ دے کہ فلاں عالم کا قول اس کے خلاف ہے خواہ وہ عالم کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔
محمد بن عبد اللہ بن نوفل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس سال معاویہ حج کو آئے تو انہوں نے سعد بن مالک سے پوچھا کہ تم حج تمتع کے بارے میں کہتے ہو انہوں نے کہا کہ بہت اچھی نیکی ہے معاویہ کہنے لگے سیدنا عمر تو اس سے منع کرتے تھے کیا تم عمر سے بہتر ہو ؟ سعد نے جواب دیا عمر مجھ سے بہتر ہیں لیکن تمتع تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا جو عمر سے بہتر تھے۔
(سنن دارمی کتاب المناسک، باب فی التمتع ۱۸۵۵)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی شخص نے مسئلہ پوچھا آپ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس کا جواب دیا تو اس شخص نے کہا کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما تو یوں کہتے ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’کچھ بعید نہیں کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا اور تم کہتے ہو کہ فلاں اور فلاں نے یوں کہا‘‘ (مسند احمد:۳۳۷/1)
اگر ہم کسی عالم کی رائے کی بنا پر قرآن حکیم یا صحیح حدیث کو ترک کرنا شروع کر دیں تو ہمارے پاس کوئی بھی شرعی دلیل باقی نہیں رہے گی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑنے کا ان علماء کے پاس کوئی عذر ہو گا مگر ان کے کسی قول کی بنا پر حدیث کو چھوڑنے کا ہمارے پاس کوئی عذر نہیں۔ البتہ ہمیں ان مسائل میں حسنِ ظن سے کام لینا چاہیے۔ اپنے بھائیوں پر تنقید کرتے ہوئے بے جا شدت سے بچنا چاہیے۔
جارحانہ کلمات، عیب جوئی، طعنہ زنی اور جاہلانہ و احمقانہ انداز گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے، مخالف کو غلطی پر سمجھتے ہوئے بھی وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے لیے اختیار کیا۔
﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ ۖ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾ (الاعراف:۱۵۱)
’’موسی نے دعا کی اے میرے رب مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا أو أخطأنا
آمین یا رب العالمین

نوٹ: الحمد اللہ کتاب مکمل ہوئی۔ اللہ تعالی محترم سید شفیق الرحمن کی حفاظت فرمائے اور جزائے خیر و کثیر عطا فرمائے۔۔ آمین!
 
Top