- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
قطع تعلقی میں داعی بدعتی اور غیر داعی بدعتی میں فرق
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[جو شخص مسلمانوں کو اللہ کے دین کی اقامت سے نہیں روکتا اس کے کفر کی زد بھی دوسروں پر نہیں پڑتی بلکہ اپنی حد تک ہی رہتی ہے (وہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا)۔ فقہاء اسلام نے اس لئے کہا ہے کہ خلاف کتاب و سنت بدعات کا داعی و مبلغ ایسی سزا کا حق دار ہے جس کا مستوجب ایک خاموش رہنے والا (بدعتی) نہیں ہوتا] (مجموع الفتاویٰ،ج ۲۸ص ۳۵۵)
’’شریعت کا نہایت قیمتی اصول ہے جسے توجہ دینی چاہیے: جس کسی کے گناہ سے دوسروں کے دین یا دنیا کو نقصان پہنچتا ہو اسے دنیا میں سخت سزا دی جائے گی اور جس کا گناہ اُسی کی حد تک رہتا ہے یعنی اس کا نقصان اسی کی اپنی ذات کو ہوتا ہے، اُسے دنیا میں سزا نہیں دی جائے گی اگرچہ آخرت میں اس کی سزا پہلے والے سے زیادہ شدید ہو سکتی ہے۔ جیسے منافق کو دنیا میں مسلمانوں والے حقوق حاصل ہوتے ہیں جبکہ آخرت میں وہ جہنم کے آخری گڑھے میں ہو گا۔ دوسری طرف وہ شخص جو بدعت کا داعی ہے ممکن ہے وہ اجتہاد یا تقلید کی وجہ سے معذور ہو مگر چونکہ اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے اس لیے اُسے سزا دی جائے گی۔ داعی الی البدعۃ اور خاموشی اختیار کرنے والے کے مابین فرق کی یہی بنیاد ہے۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ :۳۷۷ ۔ ۳۷۳)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[اگر کوئی شخص نمازیں چھوڑ لیتا ہو یا منکرات کا ارتکاب کرتا ہو اور آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا شخص اٹھتا بیٹھتا اور صحبت رکھتا ہے جس کی اپنی دینداری بھی اس کی وجہ سے خراب ہو سکتی ہو تو اس کے سامنے اس کا حال بیان کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کی صحبت چھوڑ دے اور اگر وہ شخص بدعتی ہو اور خلاف کتاب و سنت عقائد کا پرچار بھی کرتا ہو یا خلاف کتاب و سنت راستے یا طریقے پر گامزن ہو، اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ وہ شخص اس طرح سے لوگوں کو گمراہ کرے گا، تو لوگوں کے سامنے اس کی حقیقت بیان کرنی چاہیے تاکہ وہ اسکی گمراہی سے بچے رہیں اور حقیقت حال سے آگاہ رہیں۔] (مجموع الفتاویٰ، جلد ۲۸ ص ۲۲۱)
أن یکون الرجل مظھرً اللفجور، مثل الظلم والفواحش والبدع المخالفۃ للسنۃ، فاذا أظھر المنکر وجب الانکار علیہ بحسب القدرہ۔۔۔وأن یھجر ویذم علیٰ ذلک۔۔بخلاف من کان مستترًا بذنبہ متسخفیاً، فان ھذا یستر علیہ، لکن ینصح سرًّا۔ ویھجرہ من عرف حالہ لیتوب، ویذکر أمرہ علیٰ وجہ النصیحۃ (مجموع الفتاویٰ ج۲۸ ص۲۱۹-۲۲۰)
[اگر آدمی ظاہراً ایسے منکرات کا ارتکاب کرے تو حسب قدرت اس کا رد و انکار واجب ہے…اس سے کنارہ کشی و روگردانی بھی کرنی چاہیے اور مذمت بھی …جبکہ گناہ کو چھپانے اور خفیہ انداز سے کرنے والے کی صورتحال اس سے برعکس ہو گی۔ ایسے شخص کی پردہ پوشی فرض ہے، تاہم نصیحت اسے بھی کی جائے گی بلکہ جب اس کا حال معلوم ہو جائے تو اس سے ہجر یعنی علیحدگی کی جا سکتی ہے تاکہ توبہ کر لے اور برسبیل نصیحت اس کا ذکر بھی جائز ہے۔]
فأما من کان مسترًا بمعصیۃ او مسرًّ البدعۃ غیر مکفرۃ، فان ھذا لا یھجر، وانما یھجر الداعي الی البدعۃ، اذ الھجر نوع من العقوبۃ، وانما یعاقب من أظھر المعصیۃ قولًا أو عملًا۔
وأما من أظھر لنا خیرًا فانا نقبل علانیتہ ونکل سریرتہ الی اللہ تعالٰی فان غایتہ أن یکون بمنزلۃ المنافقین الذین کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقبل علانیتھم، ویکل سرائرھم الیٰ اللہ۔۔ ولھذا کان الامام أحمد وأکثر من قبلہ وبعدہ من الأئمۃ کمالک وغیرہ لا یقبلون روایۃ الداعي الیٰ بدعۃ، ولا یجالسونہ، بخلاف الساکت، وقد أخرج أصحاب ’’الصحیح‘‘ عن جماعات ممن رمي ببدعۃ من الساکتین، ولم یخُرِّجواعن الدعاۃ الی البدع۔ (مجموع الفتاویٰ،ج۲۴ص ۱۷۵)
[تاہم وہ شخص جو ایک معصیت خفیہ کرتا ہے یا کسی بدعت غیر مکفرہ (جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا) کو چھپائے رکھتا ہے تو ایسے شخص سے ہجر (کنارہ کشی اور دوری) اختیار نہیں کی جائے گی بلکہ اس کا مستوجب صرف داعی بدعت ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ ہجر ایک قسم کی سزا ہے اور سزا صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو قولی یا فعلی لحاظ سے معصیت ظاہر کرتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ہمارے سامنے خیر ظاہر کرتا ہے تو ہم ظاہر پر ہی اس سے معاملہ کریں گے اور اس کے پوشیدہ امور اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں گے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ منافقین کے درجے میں ہو جن کے ظاہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبول کیا کرتے تھے اور اندر کی باتیں اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرتے تھے …
یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ داعی بدعت کی نہ روایت قبول کیا کرتے تھے اور نہ ہی ہم نشینی پسند کیا کرتے تھے، بخلاف ایسے شخص کے جو خاموش رہتا ہے۔ حدیث کے أئمہ نے بہت سے ایسے لوگوں سے روایت کی ہے جن پر بدعت کا الزام لگا ہے مگر وہ خاموش انداز سے اس کے قائل ہوتے تھے جبکہ داعیان بدعت سے روایت قبول نہیں کی۔
اہل بدعات کی بدعت پر رد کرنا
اہلسنّت والجماعت کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل بدعت کی گمراہی کو واضح کر کے بیان کیا جائے، امت کو ان سے خبردار کیا جائے، مذہب سنت کو غالب اور ظاہر کیا جائے، اور مسلمانوں کو اس کی تعلیم و تبلیغ کی جائے، بدعات کو مٹایا جائے اور ان کے حاملین کے بغی و عدوان سے بچا اور بچایا جائے، مگر یہ سب کچھ عدل و انصاف کے ترازو کے پابند رہتے ہوئے اور کتاب و سنت کی نصوص کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران:۱۰۴)
’’اور تم میں ایک گروہ ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہ ہو تو زبان سے (اس کی برائی واضح کرے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم۔ح۔۴۹)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام جس طرح اجنبی حالت میں شروع ہوا تھا اسی طرح اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا۔ اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہو۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب لوگوں میں فساد برپا ہو گا تو وہ ان کی اصلاح کریں گے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ للالبانی:1273)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھیجے۔ اس کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے جو اس کے حکم کی پیروی اور اس کی سنت پر عمل کرتے پھر ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی بات کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ کام کرتے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے زبان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے دل سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ اور اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔" (مسلم:۵۰)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومثل أئمۃ البدع من اھل المقالات المخالفۃ للکتاب والسنۃ، أوالعبادات المخالفۃ للکتاب والسنۃ، فان بیان حالھم وتحذیر الأُمۃ منھم واجب باتفاق المسلمین……حتیٰ قیل لأحمد بن حنبل: الرجل یصوم ویصلیی ویعتکف أحبٌّ الیک، أو یتکلم في أھل البدع؟ فقال: اذا قام وصلیٰ واعتکف فانما ھو لنفسہ، واذا تکلم في أھل البدع فانما ھو للمسلین، ھذا أفضل۔
فبین أن نفع ھذا عام للمسلیمن في دینھم، من جنس الجھاد في سبیل اللہ اذتطھیر سبیل اللہ ودینہ ومنھاجہ وشرعتہ ودفع بغي ھؤلاء وعدوانھم علیٰ ذلک واجب علیٰ الکفایۃ باتفاق المسلمین، ولولا من یقیمہ اللہ لدفع ضرر ھؤلاء لفسد الدین، وکان فسادہ أعظم من فساد استیلاء العدو من أھل الحرب، فان ھؤلاء اذا استولوا لم یفسدو القلوب ومافیھا من الدین الا تبعًا ،،وأما أولئک فھم یفسدون القلوب ابتداء‘‘
[خلاف کتاب و سنت عقائد یا عبادات کے حاملین ائمہ بدعات کے متعلق یہی ہے کہ ان کے بارے میں لوگوں کو آگاہ اور خبردار کرنا واجب ہے اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے حتیٰ کہ جب امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نماز روزہ اور اعتکاف بکثرت کرتا ہے دوسرا اہل بدعات کا رد کرتا ہے، آپ کے نزدیک کون سا بہتر ہے؟ تو کہنے لگے: ’’اگر کوئی شخص نماز، روزہ اور اعتکاف کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لئے ہے اور اگر اہل بدعات کا رد کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے ہے اور یہی افضل ہے‘‘۔ امام صاحب نے یہاں یہ بات واضح کی ہے کہ موخر الذکر کا نفع و فائدہ تمام مسلمانوں کے لئے ان کے دین کی خاطر ہے جو کہ جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اللہ کے دین اور منہج و شریعت کو پاک کرنا اور اس پر یہ لوگ جس ظلم و عدوان کے مرتکب ہوتے ہیں اس کا رد کرنا فرض کفایہ ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اہل بدعت کے پھیلائے ہوئے ضرر اور شر کو رد کرنے کے لئے علمائے حقہ کو کھڑا نہ کرتا تو آج دین برباد ہو چکا ہوتا، اور دین کا فساد اہل حرب جیسے دشمن کے غلبے کے فساد سے کہیں بڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ اہل حرب لوگ اگر غلبہ حاصل کر لیں تو دلوں میں فساد پیدا نہیں کریں گے، الا یہ کہ شکست کے نتیجے میں بعد میں ایسا ہو، لیکن اہل بدعت کے فساد کی بنیاد اور ابتداء دلوں سے ہوتی ہے‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸ ص۲۳۱-۲۳۲)
رد کرنے میں حکمت اختیار کرنا:
حق کا اظہار اور باطل بات کا رد انتہائی ضروری ہے۔ مگر اس میں حکمت کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ایک غلط بات کو سنا تو فوراً حج کے موقع پر منیٰ کے مقام پر رد کرنا چاہا لیکن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس کا رد مدینہ جا کر ہونا چاہیے، تاکہ سمجھدار لوگ بات کو صحیح طور پر سمجھ سکیں تو انہوں نے قبول کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آخری حج کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ اگر امیر المومنین انتقال کر جائیں تو ہم فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج شام کو کھڑے ہو کر لوگوں کو ڈرائوں گا جو مسلمانوں کے حق کو غضب کرنا چاہتے ہیں۔ سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا آپ ایسا نہ کریں اس لیے کہ حج کا موسم ہے۔ آپ کی مجلس میں زیادہ تر عام لوگ ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ اس کو سن کر صحیح مقام پر نہیں رکھیں گے اور ہر طرف لے اڑئیں گے اس لیے آپ انتظار کریں دار الہجرۃ، دار السنۃ یعنی مدینہ پہنچ کر صرف اصحاب رسول مہاجرین و انصار کو جمع کریں۔ وہ لوگ آپ کی گفتگو کو یاد رکھیں گے اور صحیح مقام پر رکھیں گے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ کی قسم میں مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلے یہی کہوں گا۔" (بخاری:۷۳۲۳)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں ایک بدعت ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور انہیں اس سے منع کرنے کی بجائے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی طرف جاتے ہیں۔ گھر کے باہر بیٹھ کر ان کا انتظار کرتے ہیں۔ جب وہ باہر آتے ہیں تو انہیں بتا کر ان سے رد کرواتے ہیں تاکہ بڑے عالم کے رد سے بدعت کے رد میں زور پیدا ہو۔ ملاحظہ فرمائیں:
عمر بن یحییٰ کے دادا فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھتے تھے، جب آپ باہر آتے تو ہم آپ کے ساتھ مسجد کی طرف جاتے۔ ہمارے پاس ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا: ’’ابو عبدالرحمن (ابن مسعود) ابھی باہر نہیں آئے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ پھر وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ حتی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر آئے۔ جب وہ باہر آئے تو ہم سب ان کی طرف کھڑے ہوئے، ان سے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! میں نے مسجد میں ابھی ایک کام دیکھا ہے، وہ مجھے برا معلوم ہوا ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اگر آپ زندہ رہے تو اسے دیکھ لیں گے۔ میں نے ایک جماعت کو حلقوں کی شکل میں مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ نماز کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں۔ ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے جو کہتا ہے: سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھو تو وہ سو بار "لا الہ الا اللہ" پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے: سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہو تو وہ سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’پھر تو نے ان سے کیا کہا؟‘‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے، ان سے کچھ نہیں کہا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’کیا تم نے انہیں حکم نہیں دیا کہ وہ اپنی برائیوں کو شمار کریں؟‘‘ اور ان کو ضمانت دینا تھی اس طرح سے گننے سے ان کی نیکیاں ضائع ہوں گی۔‘‘ پھر وہ چلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چلے۔ حتی کہ آپ ان حلقوں میں سے ایک کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’یہ کیا ہے، جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبداللہ! ہم ان کنکریوں کے ساتھ اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کو شمار کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’اپنی برائیوں کو شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ نہ گننے سے تمہاری نیکیوں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہو گی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاک ہو رہے ہو۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثرت سے موجود ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور ان کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے۔ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم ایسے (بدعت والے) طریقے پر ہو جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے زیادہ ہدایت ہے یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! اللہ کی قسم! ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ کرتے ہیں مگر انہیں نیکی حاصل نہیں ہوتی۔ (سنن دارمی:۲۱۰)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[جو شخص مسلمانوں کو اللہ کے دین کی اقامت سے نہیں روکتا اس کے کفر کی زد بھی دوسروں پر نہیں پڑتی بلکہ اپنی حد تک ہی رہتی ہے (وہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا)۔ فقہاء اسلام نے اس لئے کہا ہے کہ خلاف کتاب و سنت بدعات کا داعی و مبلغ ایسی سزا کا حق دار ہے جس کا مستوجب ایک خاموش رہنے والا (بدعتی) نہیں ہوتا] (مجموع الفتاویٰ،ج ۲۸ص ۳۵۵)
’’شریعت کا نہایت قیمتی اصول ہے جسے توجہ دینی چاہیے: جس کسی کے گناہ سے دوسروں کے دین یا دنیا کو نقصان پہنچتا ہو اسے دنیا میں سخت سزا دی جائے گی اور جس کا گناہ اُسی کی حد تک رہتا ہے یعنی اس کا نقصان اسی کی اپنی ذات کو ہوتا ہے، اُسے دنیا میں سزا نہیں دی جائے گی اگرچہ آخرت میں اس کی سزا پہلے والے سے زیادہ شدید ہو سکتی ہے۔ جیسے منافق کو دنیا میں مسلمانوں والے حقوق حاصل ہوتے ہیں جبکہ آخرت میں وہ جہنم کے آخری گڑھے میں ہو گا۔ دوسری طرف وہ شخص جو بدعت کا داعی ہے ممکن ہے وہ اجتہاد یا تقلید کی وجہ سے معذور ہو مگر چونکہ اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے اس لیے اُسے سزا دی جائے گی۔ داعی الی البدعۃ اور خاموشی اختیار کرنے والے کے مابین فرق کی یہی بنیاد ہے۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ :۳۷۷ ۔ ۳۷۳)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[اگر کوئی شخص نمازیں چھوڑ لیتا ہو یا منکرات کا ارتکاب کرتا ہو اور آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسا شخص اٹھتا بیٹھتا اور صحبت رکھتا ہے جس کی اپنی دینداری بھی اس کی وجہ سے خراب ہو سکتی ہو تو اس کے سامنے اس کا حال بیان کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کی صحبت چھوڑ دے اور اگر وہ شخص بدعتی ہو اور خلاف کتاب و سنت عقائد کا پرچار بھی کرتا ہو یا خلاف کتاب و سنت راستے یا طریقے پر گامزن ہو، اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ وہ شخص اس طرح سے لوگوں کو گمراہ کرے گا، تو لوگوں کے سامنے اس کی حقیقت بیان کرنی چاہیے تاکہ وہ اسکی گمراہی سے بچے رہیں اور حقیقت حال سے آگاہ رہیں۔] (مجموع الفتاویٰ، جلد ۲۸ ص ۲۲۱)
أن یکون الرجل مظھرً اللفجور، مثل الظلم والفواحش والبدع المخالفۃ للسنۃ، فاذا أظھر المنکر وجب الانکار علیہ بحسب القدرہ۔۔۔وأن یھجر ویذم علیٰ ذلک۔۔بخلاف من کان مستترًا بذنبہ متسخفیاً، فان ھذا یستر علیہ، لکن ینصح سرًّا۔ ویھجرہ من عرف حالہ لیتوب، ویذکر أمرہ علیٰ وجہ النصیحۃ (مجموع الفتاویٰ ج۲۸ ص۲۱۹-۲۲۰)
[اگر آدمی ظاہراً ایسے منکرات کا ارتکاب کرے تو حسب قدرت اس کا رد و انکار واجب ہے…اس سے کنارہ کشی و روگردانی بھی کرنی چاہیے اور مذمت بھی …جبکہ گناہ کو چھپانے اور خفیہ انداز سے کرنے والے کی صورتحال اس سے برعکس ہو گی۔ ایسے شخص کی پردہ پوشی فرض ہے، تاہم نصیحت اسے بھی کی جائے گی بلکہ جب اس کا حال معلوم ہو جائے تو اس سے ہجر یعنی علیحدگی کی جا سکتی ہے تاکہ توبہ کر لے اور برسبیل نصیحت اس کا ذکر بھی جائز ہے۔]
فأما من کان مسترًا بمعصیۃ او مسرًّ البدعۃ غیر مکفرۃ، فان ھذا لا یھجر، وانما یھجر الداعي الی البدعۃ، اذ الھجر نوع من العقوبۃ، وانما یعاقب من أظھر المعصیۃ قولًا أو عملًا۔
وأما من أظھر لنا خیرًا فانا نقبل علانیتہ ونکل سریرتہ الی اللہ تعالٰی فان غایتہ أن یکون بمنزلۃ المنافقین الذین کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقبل علانیتھم، ویکل سرائرھم الیٰ اللہ۔۔ ولھذا کان الامام أحمد وأکثر من قبلہ وبعدہ من الأئمۃ کمالک وغیرہ لا یقبلون روایۃ الداعي الیٰ بدعۃ، ولا یجالسونہ، بخلاف الساکت، وقد أخرج أصحاب ’’الصحیح‘‘ عن جماعات ممن رمي ببدعۃ من الساکتین، ولم یخُرِّجواعن الدعاۃ الی البدع۔ (مجموع الفتاویٰ،ج۲۴ص ۱۷۵)
[تاہم وہ شخص جو ایک معصیت خفیہ کرتا ہے یا کسی بدعت غیر مکفرہ (جس سے آدمی کافر نہیں ہوتا) کو چھپائے رکھتا ہے تو ایسے شخص سے ہجر (کنارہ کشی اور دوری) اختیار نہیں کی جائے گی بلکہ اس کا مستوجب صرف داعی بدعت ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ ہجر ایک قسم کی سزا ہے اور سزا صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو قولی یا فعلی لحاظ سے معصیت ظاہر کرتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ہمارے سامنے خیر ظاہر کرتا ہے تو ہم ظاہر پر ہی اس سے معاملہ کریں گے اور اس کے پوشیدہ امور اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں گے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ منافقین کے درجے میں ہو جن کے ظاہر کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبول کیا کرتے تھے اور اندر کی باتیں اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرتے تھے …
یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ داعی بدعت کی نہ روایت قبول کیا کرتے تھے اور نہ ہی ہم نشینی پسند کیا کرتے تھے، بخلاف ایسے شخص کے جو خاموش رہتا ہے۔ حدیث کے أئمہ نے بہت سے ایسے لوگوں سے روایت کی ہے جن پر بدعت کا الزام لگا ہے مگر وہ خاموش انداز سے اس کے قائل ہوتے تھے جبکہ داعیان بدعت سے روایت قبول نہیں کی۔
اہل بدعات کی بدعت پر رد کرنا
اہلسنّت والجماعت کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل بدعت کی گمراہی کو واضح کر کے بیان کیا جائے، امت کو ان سے خبردار کیا جائے، مذہب سنت کو غالب اور ظاہر کیا جائے، اور مسلمانوں کو اس کی تعلیم و تبلیغ کی جائے، بدعات کو مٹایا جائے اور ان کے حاملین کے بغی و عدوان سے بچا اور بچایا جائے، مگر یہ سب کچھ عدل و انصاف کے ترازو کے پابند رہتے ہوئے اور کتاب و سنت کی نصوص کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران:۱۰۴)
’’اور تم میں ایک گروہ ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہ ہو تو زبان سے (اس کی برائی واضح کرے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم۔ح۔۴۹)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام جس طرح اجنبی حالت میں شروع ہوا تھا اسی طرح اجنبی حالت میں لوٹ جائے گا۔ اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہو۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب لوگوں میں فساد برپا ہو گا تو وہ ان کی اصلاح کریں گے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ للالبانی:1273)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھیجے۔ اس کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے جو اس کے حکم کی پیروی اور اس کی سنت پر عمل کرتے پھر ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی بات کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ کام کرتے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے زبان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے دل سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ اور اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔" (مسلم:۵۰)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومثل أئمۃ البدع من اھل المقالات المخالفۃ للکتاب والسنۃ، أوالعبادات المخالفۃ للکتاب والسنۃ، فان بیان حالھم وتحذیر الأُمۃ منھم واجب باتفاق المسلمین……حتیٰ قیل لأحمد بن حنبل: الرجل یصوم ویصلیی ویعتکف أحبٌّ الیک، أو یتکلم في أھل البدع؟ فقال: اذا قام وصلیٰ واعتکف فانما ھو لنفسہ، واذا تکلم في أھل البدع فانما ھو للمسلین، ھذا أفضل۔
فبین أن نفع ھذا عام للمسلیمن في دینھم، من جنس الجھاد في سبیل اللہ اذتطھیر سبیل اللہ ودینہ ومنھاجہ وشرعتہ ودفع بغي ھؤلاء وعدوانھم علیٰ ذلک واجب علیٰ الکفایۃ باتفاق المسلمین، ولولا من یقیمہ اللہ لدفع ضرر ھؤلاء لفسد الدین، وکان فسادہ أعظم من فساد استیلاء العدو من أھل الحرب، فان ھؤلاء اذا استولوا لم یفسدو القلوب ومافیھا من الدین الا تبعًا ،،وأما أولئک فھم یفسدون القلوب ابتداء‘‘
[خلاف کتاب و سنت عقائد یا عبادات کے حاملین ائمہ بدعات کے متعلق یہی ہے کہ ان کے بارے میں لوگوں کو آگاہ اور خبردار کرنا واجب ہے اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے حتیٰ کہ جب امام احمد سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نماز روزہ اور اعتکاف بکثرت کرتا ہے دوسرا اہل بدعات کا رد کرتا ہے، آپ کے نزدیک کون سا بہتر ہے؟ تو کہنے لگے: ’’اگر کوئی شخص نماز، روزہ اور اعتکاف کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لئے ہے اور اگر اہل بدعات کا رد کرتا ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے ہے اور یہی افضل ہے‘‘۔ امام صاحب نے یہاں یہ بات واضح کی ہے کہ موخر الذکر کا نفع و فائدہ تمام مسلمانوں کے لئے ان کے دین کی خاطر ہے جو کہ جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اللہ کے دین اور منہج و شریعت کو پاک کرنا اور اس پر یہ لوگ جس ظلم و عدوان کے مرتکب ہوتے ہیں اس کا رد کرنا فرض کفایہ ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اہل بدعت کے پھیلائے ہوئے ضرر اور شر کو رد کرنے کے لئے علمائے حقہ کو کھڑا نہ کرتا تو آج دین برباد ہو چکا ہوتا، اور دین کا فساد اہل حرب جیسے دشمن کے غلبے کے فساد سے کہیں بڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ اہل حرب لوگ اگر غلبہ حاصل کر لیں تو دلوں میں فساد پیدا نہیں کریں گے، الا یہ کہ شکست کے نتیجے میں بعد میں ایسا ہو، لیکن اہل بدعت کے فساد کی بنیاد اور ابتداء دلوں سے ہوتی ہے‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸ ص۲۳۱-۲۳۲)
رد کرنے میں حکمت اختیار کرنا:
حق کا اظہار اور باطل بات کا رد انتہائی ضروری ہے۔ مگر اس میں حکمت کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ایک غلط بات کو سنا تو فوراً حج کے موقع پر منیٰ کے مقام پر رد کرنا چاہا لیکن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس کا رد مدینہ جا کر ہونا چاہیے، تاکہ سمجھدار لوگ بات کو صحیح طور پر سمجھ سکیں تو انہوں نے قبول کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آخری حج کیا تو ایک آدمی نے کہا کہ اگر امیر المومنین انتقال کر جائیں تو ہم فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج شام کو کھڑے ہو کر لوگوں کو ڈرائوں گا جو مسلمانوں کے حق کو غضب کرنا چاہتے ہیں۔ سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا آپ ایسا نہ کریں اس لیے کہ حج کا موسم ہے۔ آپ کی مجلس میں زیادہ تر عام لوگ ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ اس کو سن کر صحیح مقام پر نہیں رکھیں گے اور ہر طرف لے اڑئیں گے اس لیے آپ انتظار کریں دار الہجرۃ، دار السنۃ یعنی مدینہ پہنچ کر صرف اصحاب رسول مہاجرین و انصار کو جمع کریں۔ وہ لوگ آپ کی گفتگو کو یاد رکھیں گے اور صحیح مقام پر رکھیں گے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اللہ کی قسم میں مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلے یہی کہوں گا۔" (بخاری:۷۳۲۳)
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں ایک بدعت ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور انہیں اس سے منع کرنے کی بجائے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی طرف جاتے ہیں۔ گھر کے باہر بیٹھ کر ان کا انتظار کرتے ہیں۔ جب وہ باہر آتے ہیں تو انہیں بتا کر ان سے رد کرواتے ہیں تاکہ بڑے عالم کے رد سے بدعت کے رد میں زور پیدا ہو۔ ملاحظہ فرمائیں:
عمر بن یحییٰ کے دادا فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھتے تھے، جب آپ باہر آتے تو ہم آپ کے ساتھ مسجد کی طرف جاتے۔ ہمارے پاس ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے کہا: ’’ابو عبدالرحمن (ابن مسعود) ابھی باہر نہیں آئے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ پھر وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ حتی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر آئے۔ جب وہ باہر آئے تو ہم سب ان کی طرف کھڑے ہوئے، ان سے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! میں نے مسجد میں ابھی ایک کام دیکھا ہے، وہ مجھے برا معلوم ہوا ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اگر آپ زندہ رہے تو اسے دیکھ لیں گے۔ میں نے ایک جماعت کو حلقوں کی شکل میں مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ نماز کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں۔ ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے جو کہتا ہے: سو بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھو تو وہ سو بار "لا الہ الا اللہ" پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے: سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہو تو وہ سو بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’پھر تو نے ان سے کیا کہا؟‘‘ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے، ان سے کچھ نہیں کہا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’کیا تم نے انہیں حکم نہیں دیا کہ وہ اپنی برائیوں کو شمار کریں؟‘‘ اور ان کو ضمانت دینا تھی اس طرح سے گننے سے ان کی نیکیاں ضائع ہوں گی۔‘‘ پھر وہ چلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چلے۔ حتی کہ آپ ان حلقوں میں سے ایک کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’یہ کیا ہے، جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبداللہ! ہم ان کنکریوں کے ساتھ اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کو شمار کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’اپنی برائیوں کو شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ نہ گننے سے تمہاری نیکیوں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہو گی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاک ہو رہے ہو۔ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثرت سے موجود ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور ان کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے۔ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم ایسے (بدعت والے) طریقے پر ہو جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے زیادہ ہدایت ہے یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبدالرحمن! اللہ کی قسم! ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ کرتے ہیں مگر انہیں نیکی حاصل نہیں ہوتی۔ (سنن دارمی:۲۱۰)