• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہمیت وضرورت حدیث وسنت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح کی بے شمار مثالیں جو ذاتی رائے، اجتہاد یا فتوے کے صورت میں ہوتیں ان کی اصلاح کردی جاتی۔ اور دلیل سنتے ہی ہر ایک اپنی رائے یا فتوی واجتہاد کو واپس لے لیتا۔ اور مخالفت کی صورت میں اپنی خطا تسلیم کرتا۔کہنے والا اصرار کرتا کہ آخر وہ بھی تو خلفاء تھے ؟ تو جواب میں سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: دیکھنا کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہو جائے میں تمہیں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے آپ ﷺ کے مقابلے میں شیخین کے اقوال پیش کرتے ہو۔اس لئے خیر القرون کے اس اجماعی مسئلے پرحدیث کے بغیر شریعت کا تعارف مختلف ازم ونظریات کا تعارف ہوگا نہ کہ اسلام کا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ قرآن فہمی حدیث وسنت کے بغیر ممکن ہی نہیں!!!
٭… قرآن مجید میں اصطلاحات ہیں۔ اس میں قراء ات ہیں۔واقعات ہیں، احکام ہیں، عقائد ہیں۔ایمانیات ہیں۔آیات ہیں۔ سورتیں ہیں۔انہیں سمجھنے کا طریقہ کیا ہے؟ علماء کے ہاں یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ انہیں جاننے کے لئے حدیث، قرآن کے دوش بدوش رہتی ہے اوران سب کی وضاحت تین طریقوں سے کرتی ہے۔

پہلا طریقہ:
وہ احادیث ہیں جو قرآنی احکامات کی مؤید(Supportive) اور اجمال و تفصیل میں ان کے موافق ہوں۔یہ موافقت اس لئے بھی ہے تاکہ حدیث کے احکام مزید پختہ ہو جائیں اور ان کی تاکید بھی۔نیز اہل اسلام کے ہاں یہ منتشر ہو جائیں۔ مثلاً: وہ آیات جن سے نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے مگر ان کے شرائط و ارکان سے بحث نہیں کرتیں۔ یہ احادیث ان آیات کے موافق و مطابق ہیں جن میں ارکان کا حکم دیا گیا ہے ۔جیسے یہ حدیث: اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی شہادت کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا، ماہ رمضان کے روزے اور خانہ کعبہ کا حج ۔(صحیح بخاری: ۸)چنانچہ آپ ﷺ کا ہر عمل اور قول قرآن سے ہم آہنگ ہے۔جس کی شہادت ہر حدیث دیتی ہے۔ جیسے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی شہادت کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا، ماہ رمضان کے روزے اور خانہ کعبہ کا حج ۔

یہ حدیث ان مجمل آیات قرآنیہ کی تفصیل ہے:
{وَأَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَآتُوا الزَّکوٰۃَ} (البقرۃ :83) نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ } (البقرۃ : 183) تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ نیز آیت {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعُ إلَیْہِ سَبِیْلًا} (آل عمران : 97) اور صرف اﷲ کے لئے ان لوگوں پر حج ِبیت اﷲ فرض ہے جو وہاں جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔

اسی طرح آپ ﷺ کا یہ ارشاد:
اِتَّقُوا اللّٰہَ فِی النِّسَائِ فَإِنَّہُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ، أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانَۃِ اللّٰہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فَرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ۔عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ وہ تمہارے ہاں درمیان میں ہیں تم نے انہیں اللہ کی امانت سمجھ کر لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے ہی ان کی شرم گاہیں تم نے اپنے لئے حلال کی ہیں۔

اس حدیث نے قرآن مجید کے حکم {وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} کے حکم کو مزید نکھارا اور تائید کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا طریقہ:
قرآن کریم کے کسی لفظ کے متعدد معانی ہوسکتے ہیں۔جسے احتمال کہتے ہیں۔ منشائے الٰہی یہ بھی تھا کہ آپﷺ ان احتمالات میں حتمی معنی کا تعین کریں۔اور جب کر دیں تو وہی اس کی صحیح تفسیر، فقہ اور مفہوم قرارپائے۔ کسی لغت، رائے یا عقل کا دخل وہاں نہ ہو۔ کیونکہ متعدد عقلیں ایک معنی پر کبھی متفق نہیں ہوسکتیں۔ امام شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لأِنَّ الْکِتَابَ یَکوْنَ مُحْتَمِلاً لِأمْرَیْنِ فَأَکْثَرَ، فَتَأتِی السُّنَّۃُ یَتَعَیَّنُ أَحَدَہُمَا فَیُرْجَعُ إِلَی السُّنَّۃِ وَیُتْرَکُ مُقْتَضَی الْکِتَابِ۔کیونکہ کتاب اللہ کی عبارت میں کبھی دو باتوں کا یا کبھی اس سے بھی زیادہ امور کا احتمال ہوتا ہے اور یہ متعین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی مراد کیا ہے؟ ایسی صورت میں سب احتمالات میں ایک احتمال کا تعین سنت ہی کرتی ہے۔ اس لئے سنت کی طرف پھر پلٹا جاتا ہے اور دیگر احتمالات کو ترک کردیا جاتا ہے۔

یوں آپ ﷺ کے ارشادات سے قرآن مجید کے مجمل احکام کی تفسیر اور عام احکام کی تخصیص ہوتی ہے، مشکل کی توضیح اور مطلق (Obsolute)کی تقیید (Limitation)ہوتی ہے۔ اکثر احادیث اس دوسری قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے بیان وارشاد اور عمل سے متعین کردیا اور ان کے اوقات ومقدار ، صحیح و باطل اور کامل وناقص سب بتادئے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوْا أَنْفُسَکُمْ، إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا}۔ اہل ایمان اپنے مالوں کو اپنے درمیان باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ ہاں اگرباہمی رضامندی سے تجارت ہوتو۔اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بہت رحیم ہے۔

لفظ باطل کی وضاحت آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ دھوکہ دہی، ملاوٹ ، غصب یا چوری اور مناصب میں دئے گئے تحائف وغیرہ سب حرام اور رشوت کے زمرے میں آتے ہیں۔یوں قرآنی لفظ باطل کے مزیدفروعی معانی کا تعین سنت نبویہ سے ہوا۔اسی طرح حکومت ،عوام کے مال کی زبردستی مالک بن سکتی ہے اور نہ چھین سکتی ہے۔ اور نہ ہی عوام وخواص میں سے کوئی حکومت کے مال پر زبردستی قابض ہوسکتا ہے اور نہ اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔یہ سب باطل کے زمرے میں آتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آپ ﷺ کے اس بیان وتعین کی بھی تین صورتیں ہیں:

أ۔ جیسے قرآن میں بے شمار مجملات(summed up laws/rules) ہیں۔ یعنی آیات میں ایسے احکام ہیں جو غیر مفصل ہیں ۔ مثلاً نماز، روزہ، حج وزکاۃ سے متعلق آیات یہ سب مجمل ہیں۔ مگرحدیث نماز کا طریقہ بتاتی ہے۔ زکاۃ کا نصاب متعین کرتی ہے۔ روزے کے احکام دیتی ہے اور حج کے مناسک بتاتی ہے۔ اگر سنت کی یہ تفصیل نہ ہوتی تو ہم کبھی بھی ان احکام کو سمجھ پاتے نہ اللہ کی عبادت کرپاتے۔

ب۔عام کی تخصیص:
یعنی عمومات قرآنی کی تخصیص آپ ﷺنے فرمادیں۔ مثلاً {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ أَوْلَادِکُمْ} میں لفظ أولاد عام ہے حدیث رسول نے مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ فرما کر اپنا ترکہ خاص کردیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أَنَّ فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا أَرْسَلَتْ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تَسْأَلُہُ مِیرَاثَہَا مِنَ النَّبِیِّ ﷺ فِیْمَا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَی رَسُوْلِہِ ﷺ تَطْلُبُ صَدَقَۃَ النَّبِیِّ ﷺ الَّتِیْ بِالْمَدِیْنَۃِ وَفَدَکٍ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ۔ فَقَاَل أَبُوْبَکْرٍ: إِنَّ رَسوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: لاَ نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ۔۔۔(صحیح بخاری: ۳۵۰۸) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ مجھے آپ ﷺ کی وہ میراث عطا کردیجئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے عطا کی تھی۔ مطلب وہ زمینیں جو مدینہ میں تھیں یا فدک کی تھیں اور خیبر کا باقی خمس تھا۔جناب ابوبکر ؓ نے فرمایا: آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ہم انبیاء کے وارث نہیں بنائے جاتے جو کچھ بھی ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوا کرتا ہے۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تو اس فرمان نبوی کو مان گئیں اور جناب سیدنا علی ؓ رضی اللہ عنہ بھی اسے مان گئے ۔ خلیفہ ہونے کے باوجود انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو کسی اور دلیل سے تبدیل نہیں کیا۔ہم اعتراض یا ناراضگی کا اظہار کرکے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے حدیث رسول کو کیوں مانا؟ اور بالفرض اگر وہ حدیث نہ مانتیں تو امت کو کیا سبق دیتیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…قرآن میں کہا گیا ہے۔{ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْدِیَھُمَا} [المائدہ: ۳۸] چور اور چورنی کے ہاتھ کاٹ دو۔

السارق اور السارقۃ عام الفاظ ہیں۔جس کے عموم میں ہر قسم کا چور آجاتا ہے۔لیکن اس عموم سے حدیث رسول نے اس چور کو خارج کردیا جس نے ربع دینار سے کم میں چوری کی ہو۔ آپ نے فرمایا: لاَ یُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ إِلاَّ فِی رُبْعِ دِیْنَارٍ فَصَاعِداً [سنن نسائی۔کتاب قطع السارق] چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری میں۔

اس حدیث میں عام میں تخصیص کر دی گئی ۔ کہ اس سے وہ خاص چور مراد ہے جس نے ایک خاص قد رو قیمت کی چیز چرائی ہو۔نہ کہ ہر قسم کے چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے جیسا کہ آیت السارق کا تقاضا ہے ۔اس کے علا وہ چوری کے ضمن میں کچھ اور تخصیصات بھی احادیث سے ثابت ہیں۔نیز بعض فقہاء نے بھی شروط عائد کر کے اس کے عموم میں مزید تخصیص کی۔ مثلاً چوری محفوظ کئے ہوئے مال سے کی گئی ہو۔چور مجنون نہ ہو۔ اضطرار کا شائبہ نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔اگر ایسی صورتیں ہوئیں تب بھی چور السارق کے عموم میں شامل نہیں ہوگا۔یا چوری اور اس کی سزا کے تعین میں بے شمار احتمالات علماء وفقہاء نے بتائے ہیں۔ مگر حدیث رسول نے اس کا تعین کردیا کہ مال محفوظ کی چور ی دس درہم کی مقدار ہے اور ہاتھ پہنچے تک کاٹا جائے۔ اسی لئے امام اوزاعی رحمہ اللہ کا یہ کہنا ہے:
اَلْکِتَابُ أَحْوَجُ إِلَی السُّنَّۃِ مِنَ السُّنَّۃِ إِلَی الْکِتَابِ۔ کتاب اللہ سنت کی زیادہ محتاج ہے بہ نسبت سنت کے۔

٭… سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے فتح مکہ کے موقع پر پوچھا: اللہ کے رسول ! کل آپ کہاں قیام فرمائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
وَہَلْ تَرَکَ لَنَا عَقِیْلٌ مِنْ مَنْزِلٍ؟۔ ثُمَّ قَالَ: لاَ یَرِثُ الْمُؤمِنُ الْکَافِرَ وَلَا َیرِثُ الْکَافِرُ الْمُؤمِنَ۔ (صحیح بخاری: ۴۰۳۲) تو کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: مومن کافر کا اور کافر مومن کا وارث نہیں بن سکتا۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پہلی دو قسموں کا تعلق أطیعوا اللّٰہ یعنی اللہ کی اطاعت کرو سے ہے کیونکہ ان احادیث پر عمل کرنا قرآن کریم ہی پر عمل کرنا ہے۔ جبکہ تیسری قسم کی احادیث پر عمل کرنا وأطیعوا الرسول کے تحت داخل ہے ۔نیزحدیث ہی یہ بتاتی ہے کہ بیٹا اگر قاتل یا کافر ہو تو وہ میراث سے محروم ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ج۔مطلق کی تقیید:
قرآن کے مطلق کو آپ ﷺ مقید کردیں۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْدِیْہِمَا جَزَائٌ بِّمَا کَسَبًا نِّکَالَا مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} چور مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ بدلہ ہے اس برائی کا جو انہوں نے کمائی اور سزا ہے اللہ کی جناب سے۔ اللہ غالب ہے ، حکمت والا ہے۔
اس آیت میں یَدہاتھ کا لفظ مطلق ہے جو نہ صرف ہتھیلی کو بلکہ پورے بازو کو بھی شامل ہے۔حدیث رسول نے اسے مقید کرکے کلائی wristتک رکھا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے چور کا ہاتھ یہیں سے کاٹا تھا۔

د: مشکل کی وضاحت:
قرآن کی بعض آیات ناقابل فہم ہوتی ہیں کہ اسے کوئی سمجھ سکے کہ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد کیا ہے؟ صورت میں حدیث ہی اس کی توضیح کرتی ہے۔ عدی ؓبن ابی حاتم کہتے ہیں: جب یہ آیت اتری: {کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}۔ تو میں نے ایک کالا اور دوسرا سفید عقال لے کر اپنے سرہانے کے نیچے انہیں رکھا۔ اور رات بھر انہیں دیکھتا رہا پھر جب یہ دونوں اپنے اپنے رنگ میں نمودار ہوئے تو میں نے کھانا بند کردیا۔ صبح آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو جو رات کیا بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ وِسَادَکَ إِذَنْ لَعَرِیْضٌ، إِنَّمَا ذَلِکَ بَیَاضُ النَّہَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّیْلِ۔ تمہارا سرہانہ تو بہت پھیلا ہوا ثابت ہوا بھئی! یہ رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی نکلنا مراد ہے۔ (متفق علیہ)

تیسرا طریقہ:
وہ احادیث ہیں جن سے کسی چیز کا وجوب یا اس کی حرمت ثابت ہوتی ہو۔ یہ قانون اور شریعت پیش کرنے میں اپنی مستقل حیثیت رکھتی ہیں۔ جبکہ قرآن مجید میں اس چیز کے وجوب یا حرمت کی صراحت نہیں ہے۔ یا قرآن خاموش ہے نفیاً یا اثباتًا بھی اس کا ذکر نہیں کرتا۔اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چند مثالیں یہ ہیں: صحیح بخاری میں (۲۷۲۴، ۲۷۲۵) یہ روایت بھی النساء کی آیت نمبر(۱۵):
{ وَالَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَمِنْ نِّسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃَ مِنْکُمْ فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا}
کے اس اشکال کی وضاحت کرتی ہے کہ زانی محصن(Married Fornicator) کے لئے وہ راستہ کون سا ہے؟ حدیث رسول ہی اس راستے کا تعین کرتی ہے اور جسے سیدناابوہریرہ اور زید بن خالد ۔رضی اللہ عنہما۔نے روایت کیا ہے:
أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَعْرَابِ أَتَی َرسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!أَنْشُدُکَ اﷲَ إِلاَّ قَضَیْتَ لِیْ بِکِتَابِ اللّٰہِ، فَقَالَ الْخَصْمُ الآخَرُ، وَہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ: نَعَمْ، فَاقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ، وَائْذَنْ لِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : قُلْ۔ قَالَ: إِنَّ ابْنِیْ کَانَ عَسِیْفًا عَلَی ہَذَا، فَزَنَی بِامْرَأَتِہِ، وَإِنِّی أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَی ابْنِی الرَّجْمُ، فَافْتَدَیْتُ ابْنِیْ مِنْہُ بِمِائَۃِ شَاۃٍ وَوَلِیْدَۃٍ، فَسَأَلْتُ أَہْلَ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُوْنِیْ: أَنَّمَا عَلَی ابْنِیْ جَلْدُمِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَی امْرَأۃِ ہَذَا الرَّجْمُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَابِکِتَابِ اللّٰہِ: اَلْوَلِیْدَۃُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ عَلَیْکَ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَاٍم، أُغْدُ یَا أُنَیْسُ إِلٰی امْرَأَۃِ ہَذَا، فَإنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا۔ قَالَ: فَغَدَا عَلَیْہَا فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِہَا َرسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَرُجِمَتْ۔ایک بدو نے رسول کریم ﷺ کے پاس آکر کہا: اے اللہ کے رسول ! اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیے۔دوسرے خصم نے کہا: جو زیادہ سمجھدار تھا۔ جی ہاں! آپ ہمارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجئے اور مجھے اجازت دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو۔ اس نے کہا: میرا بیٹا اس کا نوکر تھاجو اس کی بیوی کے ساتھ زنا کربیٹھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے پر رجم ہے۔ میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں بطور فدیہ ادا کی ہیں اور ایک لونڈی بھی۔ پھر معلوم ہوا کہ بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سالہ جلاوطنی کی سزا ہے۔ اور اس کی بیوی کو رجم کی سزا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے مابین کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تمہیں واپس ہوں گی اور تمہارے بیٹے کو سوکوڑوں اور ایک سالہ جلاوطنی کی سزا ملے گی۔انیس! تم صبح اس کی بیوی کی پاس جاؤاگر وہ اعتراف کرلے تو اسے رجم کردینا۔انیس صبح سویرے اس کے پاس گئے اس نے اعتراف کیا۔ چنانچہ آپ کے حکم پر اسے رجم کردیا گیا۔

مزید یہ کہ زانی تو دونوں تھے مگر غیر شادی کی سزا شادی شدہ کی سزا یعنی رجم سے مختلف رکھی۔ جو قرآنی حکم{ الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃً} کے عام (Common)حکم کی تخصیص تھی۔ایک کا پہلا تجربہ تھا اس لئے اس کی سزا میں تخفیف رکھی دوسری تجربہ کرچکی تھی مگر اپنے شوہر سے خیانت کی مرتکب ہوئی تھی۔اس لئے اس کی سزا سخت رکھی۔

تفسیر کے یہ طریقے قرآن مجید کے مزید بیان واضافہ ہیں ۔ اختلافی نہیں۔ اس تعین کے بعد کوئی معارضت باقی نہیں رہتی اور تقدیم علی الکتاب کا اصول بھی بے معنی ہوجاتا ہے۔ایسا سوچنا اہانتِ حدیثِ رسول ہے اور {بِمَا أَرَاکَ اللّٰہُ} پر عدم اطمینان ہے۔آپ ﷺ کی تشریعی حیثیت کا انکار بھی ہے۔ آپ ﷺ کے اس تعین کے بعد اگر کسی کی تسلی لغت ونحو یا رائے وقیاس پر ہی ہوتی ہے تو پھروہ سوچے اس آیت کا کیا مفہوم ہے؟

{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ}۔(النساء۸۵) جس نے رسو ل کی اطاعت کی اس نے بلاشبہ اﷲ کی اطاعت کی۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top