• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہم نکات من قرآن مجید

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر بارہ: سورہ ھود آیت نمبر 01تا 123 اور سورہ یوسف آیت نمبر 01 تا 52
تعارف سورۃ ھود
یہ سورت مکی ہے سابقہ اقوام کے واقعات سورۃ الاعراف میں بھی تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ سورۂ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔خاص طور پر نوح ، ہود، صالح ، شعیب اور لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور مؤثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔
اللہ تعالی کی نافرمانی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے اورجب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو خواہ وہ کتنے بڑے رسول سے قریبی رشتہ رکھتا ہو اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچاسکتا جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کو نہیں بچاسکا۔اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے مؤثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے مجھے سورۂ ہود او راس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کواپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔
نمبر ایک : قرآن کا جامع تعارف 01
ایک کتاب کی صورت میں ہے، اس کی آیات حکمت والی ہیں، اس کی توضیح و تفسیر بھی اللہ نے کی ہے، یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے
نمبر دو: آسمان و زمین کی پیدائش چھ دن میں ہوئی اور اس سے قبل اللہ تعالی کا عرش پانی پر تھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرش الہی اور پانی آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل موجود تھے اور ایک حدیث کے مطابق عرش الہی ، پانی اور قلم کے بعد آسمان و زمین کی تخلیق ہوئی 07
نمبر تین : قرآن مجید اپنی آیات، معانی، اور مضامین کے اعتبار سے محکم اور منزل من اللہ ہے اور اس میں کوئی فساد اور خلل نہیں داخل ہو سکا اور نہ ہی اس میں کوئی تناقض و تعارض ہےاور اس کی تفسیر چار پہلووں سے ممکن ہے قرآن سے، حدیث سے، اقوال صحابہ سے ، اقوال لغت سے 13
نمبر چار: نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو دعوت دینا اور ان کی قوم کا ردعمل اور پھر عذاب الہی ، آیات 25 تا 49
نمبر پانچ : دین کی طرف دعوت دینے والا معاوضہ طلب نہ کرے کیونکہ یہ اخلاص کے منافی رویہ ہے لہذا دعوت دین میں منافی رویے شہرت، ریاکاری، تعریف ، معاوضہ طلب کرنا ان سب سے اجتناب کرنا اسوہ انبیاء ہے 29،51
نمبر چھ : نافرمان اولاد کو کیسے مخاطب کیا جائے جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے کافر بیٹے کو مخاطب کیا اے میرے پیارے بیٹے، تو تربیت اولاد میں اسے محبت سے پکارنا بہت اہم ہے، اگر اولاد کو گھر سے محبت، احترام ملتا ہے تو وہ گھر سے باہر اسے تلاش نہیں کرتے 42
نمبر سات : دعائے نوح اور دعائے آدم علیہ السلام میں مشابہت ، غلطی ہونے پر فوری طور پر توبہ اور استغفاراور رحم الہی کی طلب47
نمبر آٹھ : قوم عاد کا قصہ آیت نمبر 50 تا 60
نمبر نو : استغفار سے رزق کی فراوانی ہوتی ہے اور قوت حاصل ہوتی ہے یہ قوت اولاد کی صورت میں ہویا مال کی صورت میں 52
نمبر دس: قوم ثمود کا قصہ ، آیت نمبر 61 تا 68
نمبر گیارہ : قصہ ابراہیم و لوط علیہما السلام آیات نمبر 69 تا 83
نمبر بارہ : قصہ قوم شعیب علیہ السلام آیات نمبر 84 تا 95
نمبر تیرہ : عقیدہ آخرت کی وضاحت اور بعض شبہات کا ازالہ آیات نمبر 99 تا 108
نمبر چودہ : آیت اوقات نماز 114
دن کے دونوں سروں سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے ۔ رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نما ز مراد ہے ۔یہ اس اعتبار سے کہ اس وقت نماز پنجگانہ فرض نہیں ہوئی تھی اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ دن کے دونوں سروں پر فجر اور عصر کے اوقات ہیں جبکہ رات میں مغرب اور عشاء شامل ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ پانچ نمازوں کا موجودہ نظام گیارہ نبوی میں معراج کے بعد قائم ہوا ہے۔ اس سے پہلے مکی دور میں تقریباً ساڑھے دس برس تک نمازوں کے بارے میں جو احکام نازل ہوئے وہ اسی نوعیت کے ہیں
نمبر پندرہ : برائیوں کو نیکیوں سے ختم کیا جانا چاہیے114
سورہ یوسف (تعارف )
یہ سورت مکی ہے دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد یعقوب علیہ السلام تھے ان کے بارہ صاحبزادے تھے انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے یعقوب علیہ السلام اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں یوسف علیہ السلام اورانکے بھائی شامل تھے ان کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کرکے یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں ڈال دیا جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھاکر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے لیکن اُس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے اُس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھجوادیا اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا اورانہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا اور بعد میں حکومت کے سارےاختیارات انہی کو سونپ دئے اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوالیا اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔
سورۂ یوسف کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ا س واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اللہ تعالی نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرمادی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھاان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لئے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے لیکن آخر کار اللہ تعالی نے انہی کو عزت شوکت او ر سربلندی عطا فرمائی او رجن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایاتھا ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑرہی ہیں لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے اور حق غالب ہوکر رہے گا اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لئے بہت سے سبق ہیں اور شاید اسی لئے اللہ تعالی نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔
نمبر سولہ : یوسف علیہ السلام کا خواب دیکھنا اور یعقوب علیہ السلام سے بیان کرنا اس مکالمہ میں خواب دیکھنے کے حوالے سے آداب موجود ہیں 04 تا 05
نمبر سترہ : یوسف علیہ السلام کا خواب اور بھائیوں کی سازش 03 تا 20
نمبر اٹھارہ ؛ آزمائش سرزمین مصر اور جیل میں اشاعت توحید اور خزائن مصر کی امانت کا حصول 21 تا 57
نمبر انیس : مومن کو مضبوط کردار کا مالک ہونا چاہیے جب کوئی دعوت گناہ یعنی زنا کی صورت میں سامنے آئے تو اسوہ یوسفی کو اختیار کرے (معاذ اللہ ) اور فرمان رسالت کی بشارت کے حامل اس شخص جیسا بننے کی کوشش کرے جو آخرت میں عرش الہی کے سایہ تلے ہو گا جسے کسی خوبصورت مالدار عورت نے دعوت گناہ دی اور وہ یہ کہے کہ انی اخاف اللہ ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے یعنی اگر کسی عورت کو کوئی مالدار مرد دعوت گناہ دے تو اسے بھی یہی اسوہ اختیار کرنا چاہیے 23
نمبر بیس : کردار پر داغ لگنا گوارا نہ کیا جیل کی قید گوارا کر لی یعنی کردار بے داغ رہے خواہ اس کے لیے کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑے 33
آج کا پیغام : اولاد کو محبت اوراحترام سے پکارنا چاہیے تاکہ یہ اعتماد انہیں اپنے گھر سے مل سکے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 13 سورۃ یوسف آیت نمبر 53 تا 111، سورۃ الرعد، سورۃ ابراہیم
سیرت انبیاء پر مشتمل واقعات کا عمومی تجزیہ جب کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے تمام انبیاء کی دعوتی زندگی کو موضوع بحث بنایا ہے کسی کی پیدائش یا وفات کو قطعا بیان نہیں کیا گیا سوائے سید نا آدم و عیسی علہیما السلام کی پیدائش کے کیو نکہ آدم علیہ السلام کی پیدائش پہلے انسان کی پیدائش کا واقعہ تھا اور عیسی علیہ السلام کی پیدائش خلاف فطرت ہوئی ۔لہذا ہمیں بھی مشاہیر کے یوم پیدائش و وفات منانے سے زیادہ ان کی زندگی کے کارناموں پر توجہ کرنی چاہیے ۔
نمبر ایک : عہدہ طلب کرنے کی ممانعت کے باوجود یوسف علیہ السلام کا عہدہ طلب کرنا 55
یوسف علیہ السلام ملک مصر کی کابینہ میں شامل کر لیے گئے تھے لیکن وزارت کا انتخاب یوسف علیہ السلام نے خود طلب کیا لہذا یہ اس ممانعت کے زمرے میں نہیں آتا، پھر بھی اگر کسی کو اصرار ہے کہ انہوں نے عہدہ مانگا تو اگر وہ یوسف علیہ السلام جیسے اوصاف اپنی شخصیت میں پیدا کرے، سوم یہ سابقہ شرائع سے متعلق ہے اب اس کی ممانعت ہے لہذا اس سے دلیل لینا درست نہیں
نمبر دو : نظربد کا اندیشہ اور سدباب 67
یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو الگ الگ دروازوں سے داخل ہونے کے لیے کہا تاکہ نظر بد سے بچ سکیں یہ ان کی تدبیر تھی لیکن اس تدبیر کے باوجود تقدیر پر ان کا مکمل ایمان تھا کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے آنے والا ہے وہ نہیں روک سکتاچونکہ مومن عالم اسباب میں رہتا ہے لہذا جائز و مشروع اسباب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مومن یہ جانتا ہے کہ یہ اسباب فی ذاتھا کوئی تاثیر نہیں رکھتے الا جب اللہ تعالی کا حکم ہو تو مومن جائز تدبیر اختیار کرتے ہوئے تقدیر پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔ نظر بد سے بچاو کے طریقے معروف ہیں
نمبر تین : انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ 86 و87
اپنے دکھ و تکالیف کا اظہار صرف اللہ رب العزت کے سامنے کیا جائے کیونکہ یہ بے صبری ہے کہ مخلوق کے سامنے خالق کی شکایت کی جائے تو یعقوب علیہ السلام کی دعا ہمیں بتاتی ہے کہ میں تو اسی سے کہتاہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے لہذا جس نے آزمائش دی اسی کی طرف رجوع کیا جائے
اور اس دوران مایوسی نہیں ہونی چاہیے
نمبر چار: یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا اپنی غلطیوں کا اعتراف اور یوسف علیہ السلام کا انہیں معاف کرنا اور ہمارے لیے سبق 92 و93
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا تو یوسف علیہ السلام نے صرف اسی پر اکتفا کرتے ہوئے انہیں معاف کر دیا اور ان سے معافی طلب نہیں کی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی بغیر کسی کی غلطی کے اعتراف کے معاف کر دیتا ہے تو یہ بہتر اور افضل ہے کیونکہ وہ اپنا حق اللہ کے لیے چھور رہا ہے لیکن اگر احساس غلطی کے بعد معاف کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔
نمبر پانچ: انی لاجد ریح یوسف 95
یعقوب علیہ السلام کو چند فرلانگ کے فاصلے پر کنویں میں بیٹے کی خوشبو نہیں آئی لیکن سینکڑوں میل دور بیٹے کی خوشبو آ گئی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کے پاس علم غیب نہیں ہوتا اور ان کے پاس حالات و واقعات کا اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالی کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے
نمبر چھ : دعائے یوسف علیہ السلام
أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
اے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا مددگار ہے مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے
سورۃ الرعد (تعارف)

یہ سورت مکی ہے اس کا بنیادی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید،رسالت اور آخرت کا اثبات اوران پر عائد کئے جانے والے اعتراضات کا جواب ہے
سورۂ یوسف کے آخر(آیت نمبر:۱۰۵) میں اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوراس کی وحدانیت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں لیکن کفار ان کی طرف دھیان دینے کے بجائے ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں اب اس سورت میں کائنات کی ان نشانیوں کی کچھ تفصیل بیان فرمائی گئی ہے پھر نیکی او ربرائی کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے واضح ہدایات بندوں کو دی جائیں ان ہدایات کا ذریعہ اللہ تعالی کے پیغمبر ہیں جو وحی کے ذریعے اللہ تعالی کے احکام معلوم کرکے دنیا والوں تک پہنچاتے ہیں لہذا اسی سے رسالت کا عقیدہ بھی ثابت ہوتا ہے کائنات کی جو نشانیاں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں ان میں بادلوں کی گرج چمک بھی ہے جس کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر۱۳ میں آیا ہے ،عربی میں گرج کو رعد کہاجاتا ہے ،اسی پر اس سورت کا نام رعد رکھا گیا ہے
نمبر سات : دعوت توحید و آخرت حق ہے آیات نمبر 01تا 18
نمبر آٹھ : اللہ تعالی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہیں بدلنا چاہتی 11
عمومی طور پر ہمارا مزاج اس طرح بن گیا ہے کہ ہر مشکل و مصیبت کا حل دعا اور وظائف میں تلاش کیا جاتا ہے دعا مستحب اور محبوب عمل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معاملات کی بہتری کے لیے ہم عمل کو ترک کر دیں اور صرف دعا وں اور وظائف پر تکیہ کر بیٹھے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ پہلے ممکنہ اسباب و اعمال کو اختیار کیا گیا پھر دعا کی طرف رجوع کیا گیا کہ اللہ ان اسباب میں تاثیر پیدا کر
نمبر نو : جو اللہ کی مخلوق کے لیے نفع بخش ہے وہ ہمیشہ کی زندگی پانے میں کامیاب ہو گیا 17
نمبر دس : عقلمندوں کے خوبصورت اوصاف 19 تا 22 اور بے وقوفوںکی پہچان 25
نمبر گیارہ : دلوں کو اطمئنان ذکر الہی سے حاصل ہوتا ہے 28
سورۃ ابراہیم (تعارف)
مکی سورت ہے اس کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کا انکار کرنے کے خوفناک نتائج پر تنبیہ ہے چونکہ مشرکین عرب ابراہیم علیہ السلام کو مانتے تھے اس لئے اس کے آخر سے پہلے رکوع میں ان کی وہ پر اثر دعا نقل فرمائی گئی ہے جس میں انہوں نے شرک اور بت پرستی کی صاف صاف برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی سے درخواست کی ہے کہ انہیں اوران کے بیٹوں کو بت پرستی سے محفوظ رکھا جائے اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۂ ابراہیم ہے۔
نمبر بارہ : اگر نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو یہی نعمتیں اور زیادہ کر دوں گا 07 کیونکہ اللہ کی عطا کردہ نعمتیں بے شمار ہیں ان کی گنتی ممکن ہی نہیں ہے 34
اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کی فہرست بنائی جائے اور دیکھا جائے کہ کن کن نعمتوں پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور کس پر نہیں کچھ نعمتوں کا شکر قولی کچھ کا شکر عملی اعتبار سے کیا جاتا ہے مثال کے طور پر مال اللہ کی ایک نعمت ہے اس کا حق ادا کیا جائے اسے اللہ کی راہ میں بھی خرچ کیا جائے تو یہ اس نعمت کا عملی شکر ہے اور اس کی نعمتوں کا شمار ممکن ہی نہیں ہے
نمبر تیرہ : اہل ایمان کو قول ثابت کے ذریعے دنیا و آخرت میں استقامت ملتی ہے 27
قول ثابت سے مراد کلمہ توحید ہے اور آخرت سے مراد قبر کی زندگی میں سوال جواب ہیں جیسا کہ احادیث میں موجود ہے
نمبر چودہ : دعائے ابراہیمی 35 تا 41
آج کا پیغام :
اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کی فہرست بنانی ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ اللہ تعالی کی ہم پر کیا کیا نعمتیں ہیں تاکہ ان نعمتوں کا حق ادا کرنا اور شکر ادا کرنا ممکن ہو
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 14 سورۃ الحجر مکمل ، سورۃ النحل مکمل
سورۃ الحجر(تعارف)
مکی سورت ہے اس کے موضوعات بھی مکی سورتوں کے موضوعات پر مشتمل ہیں لیکن اس میں قریش کے لیے سابقہ اقوام مین سے قوم لوط، اصحاب الحجر، اصحاب الایکہ کے انجام سے ڈرایا گیا کہ اگر تم باز نہیں آئے تو تمہارا انجام بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالی نے مختلف اشیاء و افراد کی حفاظت کاذمہ لیا جیسا کہ قرآن مجید 09، آسمان 16-17، خزانوں میں موجود رزق 20-21، بارش کا پانی 22، آدم اور ان کی ذریت 39-40 ، انبیاء ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 95
نمبر ایک : ہلاکت اقوام کا اصول 04 و05
نمبر دو: ہم نے ذکر نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں 09ذکر سے مراد کتاب و سنت ہے
نمبر تین : کونی دلائل توحید16تا 27 تخلیق انسان بھی توحید پر کونی دلائل میں سے ہے
نمبر چار : قصہ آدم علیہ السلام و ابلیس 28 تا 42
سورۃ البقرۃ میں آدم علیہ السلام کے قصے میں جو پہلو تشنہ رہ گئے تھے ان کی وضاحت یہاں کر دی گئی ہے ان میں سے اہم ترین یہ پہلو تھا کہ شیطان نے قیامت تک مہلت مانگی اور انسان کو گمراہ کرنے کا چیلنج کیا اور یہ اعتراف کیا کہ اللہ کے مخلص بندوں پر اس کا زور نہیں چل سکتا لہذا ہمیں اپنی زندگی میں ریاکاری ، شہرت، مدح سرائی ،اور فقط دنیاوی طلب سے اجنتاب کرنا چاہیے تاکہ شیطان کے حربوں سے بچ سکیں
نمبر پانچ : اوران کے سینوں میں سے کینہ ہم کھینچ نکالیں گے 47
یعنی نیک لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ کدورتیں پیدا ہوگئی ہوں گی تو جنت میں داخل ہونے کے وقت وہ دور ہو جائیں گی اور ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف کر دیے جائیں گےاس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر خوشیوں سے لطف اندوز ہونا ہے تو دل مکمل طور پر صاف کرنا ہوں گے وگرنہ دلوں میں کدورتیں رکھ کر خوشیوں سے لطف اندوز ہونا ممکن ہی نہیں ہے
نمبر چھ :
اوراپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آ پ کے پاس یقین آ جائے 99
یعنی حق اور دعوت اصلاح کی کوششوں میں جن تکالیف و مصائب سے سابقہ پیش آسکتا ہے ، ان کے مقابلے کی طاقت صرف ذکر الہی اور نماز سے مل سکتی ہے اور یہ عبادت موت تک جاری رہنا چاہیے
سورۃ النحل(تعارف)
مکی ہے۔اس کا مرکزی مضمون شرک کے باطل اور توحید کے برحق ہونے کو واضح کرنا اور اس سلسلہ میں اللہ کی نعمتوں کا احساس دلانا ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی رب اور محسن کو پہچانے۔ البتہ اس وقت کے حالات اور ضرورت کے پیش نظر دوسری باتیں بھی بیان ہوئی ہیں، مثلاً عذاب کیلئے جلدی مچانے پر تنبیہ کی گئی ہے اور ان شبہات کا جواب دیا گیا ہے جو منکرین پیش کر رہے تھے۔
میں اللہ کی ربوبیت کی نشانی کے طور پر نحل، یعنی شہد کی مکھی کا ذکر ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام النحل قرار پایا ہے۔
نمبر سات : دلائل توحید کی بناء پر اللہ تعالی کو معبود تسلیم کرنے کے لیے کہا گیا ہے 03تا21
نمبرآٹھ: قریش کے جرائم اور ان کا انکار آخرت، جنت و جہنم کا ذکر 22تا 34
نمبر نو: ہر کوئی اپنے گناہوں کا مکمل بوجھ تو اٹھائے گا ہی بلکہ جن لوگوں کو گمراہ کیا تھا ان کے گناہوں کا وبال بھی اٹھانا پڑے گا 25
نمبر دس: منکرین ایمانیات یعنی توحید، رسالت و اخرت کے اعتراضات کا رد 35تا 39
نمبر گیارہ : اللہ تعالی بہت غفور و کریم ہے اگر وہ ہمارے گناہوں کی بناء پر ہماری پکڑ کرنا چاہتا تو روئے زمین پر کوئی بھی باقی نہ رہتا 61
نمبر بارہ : شہد کی مکھی کی کہانی اور شہد کا شفا ہونا 68 تا 69
نمبر تیرہ : بڑھاپے کی عمر جس میں انسان محتاج ہو جاتا ہے دعا کی جائے کہ اللہ تعالی اس عمر میں بھی کسی محتاج کا محتاج نہ کرے 70
نمبر چودہ : اہل شرک اور ان کے پیروں کے درمیان بحث مباحثہ اور ایک دوسرے کو الزام تراشی کہ تم قصور وار ہو 86تا 87
نمبر پندرہ : احکام الہیہ جو معاملات سے متعلق ہیں 90 تا 91
نمبر سولہ : ایمان کے اظہار کرنے کے حوالے سے اضطراری کیفیات کا بیان 106
نمبر سترہ : دعوت دین کے آداب و مراحل 125
حکمت و تدبر سے دعوت دی جائے، بات اچھے طریقے سے کی جائے، بوقت ضرورت تلخ کلامی نہ ہو بلکہ حسن سلوک کو اختیار کیا جائے
نمبر اٹھارہ : اگر کسی نے تمہارے ساتھ بر اسلوک کیا ہے تو اس سے اتنی ہی مقدار میں بدلہ لے سکتے ہو لیکن اگر معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے 126
آج کا پیغام :
ہر کوئی اپنا محاسبہ کرے کہ کیا کسی کو تکلیف دی یا کسی کو غلط بات، گمراہی کی طرف رغبت دلوائی ہو اگر ایسا ہے تو پھر اس کا مداوا توبہ و استغفار سے کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ جس کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے اس کے ساتھ بھلائی اختیار کی جائے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 15 سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ الکھف اایت نمبر 01تا 59
سورۃ بنی اسرائیل (تعارف)
اس سورت کی پہلی آیت کا نزول معراج کے بعد ہوا اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے لیکن زیادہ تر روایات کے مطابق نبوت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا اس میں اس غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیاگیا ہے۔
اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایاگیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کاسامنا کرنا پڑا اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیاگیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے باز آجائیں ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے۔مسلمانوں کو ان کے دینی ،معاشرتی او راخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہیں او رمشرکین کے نامعقول او رمعاندانہ طرز عمل کی مذمت کرکے ان کے اعتراضات کا جواب دیاگیا ہے او رمسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔
چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیاگیا ہے ،اس لئے سورت کا نام سورۂ بنی اسرائیل ہے او راس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے، اسراء سفرمعراج کو کہا جاتا ہے
نمبر ایک : معراج کے عظیم واقعہ کی طرف اشارہ 01
اصطلاحی طور پراسراء مکہ سے بیت المقدس سفر کو اور معراج بیت المقدس سے آسمانوں کے سفر کو کہا جا سکتا ہے اور دونوں نام مترادف بھی ہیں
معراج جسمانی ہوئی تھی نہ کہ روحانی جیسا کہ بعض سیرت نگار کو مغالطہ لگا ، معراج مسجد الحرام سے ہوئی نہ کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے اور اس تکلف کی کوئی دلیل نہیں کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے مسجد الحرام لے جایا گیا پھر وہاں سے ۔۔۔۔۔، اس آیت میں لفط بعبدہ سے عبدیت و بشریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات بھی ہے کہ اس لفظ کا اطلاق جسم اور روح کے ملاپ پر ہوتا ہے جس پر دیگر آیات بھی شاہد ہیں ۔
نمبر دو: بنی اسرائیل پر دو ادوار ایسے گزرے جس میں وہ تباہی سے دوچار ہوئے 4تا 7، (720 ق م آشوریوں کے ساتھوں اور پھر 70 ق م ٹائٹس کے ہاتھوں)
نمبر دو: انسان کی کامیابی اور ہلاکت کے اصول 11تا 22
نمبر تین : بعثت رسول بطور اتمام احجت 15
اللہ رب العزت کسی قوم کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں کرتے جب تک اس میں کسی رسول کو بھیج کر ان پر حجت تمام نہ کر دیں یعنی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل حجت تمام کرنا سنت الہیہ ہے
نمبر چار : معاشرے کی بقاء کے لیے بنیادی اصول و ضوابط23تا 39
اللہ کو ایک مانا جائے اور ایک اللہ کی مانی جائے 23 والدین کے ساتھ حسن سلوک خواہ وہ کافر ہوں اور شرک کا حکم دیں 23رشتہ دار، مساکین، اور مسافروں کی مدد کی جائے 26 فضول خرچی نہ کی جائے 26 تا 27 کنجوسی اور بخل نہ کیا جائے 29اولاد کو غربت کے ڈر سے قتل نہ کیا جائے یعنی خاندانی منصوبہ بندی غربت کے اندیشے سے کرنا جائز نہیں 31 زنا تو حرام ہے ہی بلکہ زنا کی طرف جانے والے راستے بھی حرام ہیں 32انسانی جان کو قتل نہ کیا جائے 33یتیم کا مال غصب نہ کیا جائے 34ناپ تول پورا پورا کیا جائے 35وہ بات نہ کی جائے جس کا علم ہی نہ ہو یعنی لاعلمی ، جہالت میں بات کرنا جائز نہیں ہے 36زمین پر اکڑ کر نہ چلو یعنی غرور و تکبر انسان کو زیبا نہیں 37
نمبر پانچ: نمازوں کے اوقات پر قرآن کے دلائل 78
ھود 114روم 18-17طہ 130نور 58 کی طرح اس آیت میں بھی پانچ نمازوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
نمبر چھ : نماز تہجد کی طرف ترغیب و تشویق 79
نمبر سات : ناپسندیدہ جگہ یا ناپسندیدہ کیفیت سے سچائی اور خوبصورتی کے ساتھ اس سے بہتر کیفیت یا جگہ منتقل ہونےکے لیے قرآنی دعا 80
سورۃ الکھف (تعارف)
سورۃ الکھف نبوت کے 5 ویں سال میں نازل ہوئی اور اس میں مومن کو درپیش ہونے والی ممکنہ آزمائشوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ اور مقابلہ کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں : دین (اصحاب کھف) ، مال (دو زمین دار) ، علم (موسی و خضر) ، اقتدار(ذوالقرنین)
قصہ اصحاب کھف کے ذریعے دین کی آزمائش 9 تا 26، اور اس آزمائش میں کیسے کامیاب ہوا جا سکتا ہے 27 و28
تلاوت قرآن مجید(سننا، پڑھنا، سنانا) ، دیندار افراد کی صحبت (مسجد اور مدارس بطور خاص )، گمراہ لوگوں کی بات نہیں سننی اور اور نہ ہی اس پر عمل کرنا
نمبر آٹھ : دو زمین دار وں کے قصے کے ذریعے مال کی آزمائش کا بیان 32 تا 45 اور اس سے مقابلہ کرنا یا حل 46
مال اللہ کی نعمت ہے اگر اس کا حق ادا نہ کیا جائے تو پھر یہ آزمائش بن جاتی ہےاور اس پر پکڑ بھی ہو گی لیکن اگر ’’الباقیات الصالحات ‘‘ کو اختیار کر لیا جائے یعنی مال کا حق ادا کیا جائےاور اللہ کی راہ مین خرچ کیا جائے اور ذکر الہی کثرت کے ساتھ کیا جائے
آج کا پیغام :

وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا
اس دعا کر یاد کیا جائے تاکہ مومن حسی یا معنوی سچائی والی کیفیت میں ہی رہے اور اگر کسی مشکل میں تو اس مشکل سے آسانی سے اور سچائی کے ساتھ نکل سکے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 16 سورہ الکھف 75تا 110 سورۃ مریم 01 تا 98 ، سورۃ طہ 01تا 135
نمبر ایک : آزمائش علم 60تا 82
علم کے حصول میں مشکلات کا سامنا، علم حاصل ہونے کے بعد اس کی نشر واشاعت میں مشکلات، علم نافع پر عمل صالح کرنے کی راہ میں مشکلات
حل : موسی علیہ السلام کا علم کی طلب میں اس بابرکت سفر میں کا سب سے اہم ترین ماحاصل صبر کرنا ہے لہذا مذکورہ بالا تمام مشکلات میں صبر ہی واحد حل ہے جیسا کہ اس قصہ میں سات مرتبہ صبرکا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح رہے کہ صبر بے بسی اور لاچارگی کا نام نہیں بلکہ استقامت اور ثابت قدمی کا نام ہے
نمبر دو : آزمائش اقتدار و ذمہ داری 83تا 99
قصہ ذوالقرنین سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں : اقتدار اور ذمہ داری ایک امانت ہے، اقتدار اور ذمہ داری احساس جوابدہی کا نام ہے، اقتدار اور ذمہ داری میں عوام کی مدد کرناہی اصل ہے، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جانے والے کاموں میں عوام سے معاوضہ نہ لیا جائے
سورۃ مریم (تعارف)
اس سورت کا بنیادی مقصد عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ مریم علیہا السلام کے بارے میں صحیح عقائد کی وضاحت اوران کے بارے میں عیسائیوں کے باطل عقائد کی تردید ہے اگرچہ مکہ مکرمہ میں جہاں یہ سورت نازل ہوئی عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں تھی لیکن مکہ مکرمہ کے بت پرست کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کی تردید کے لئے عیسائیوں سے مدد لیا کرتے تھےاس کے علاوہ بہت سے صحابہ کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے جہاں عیسائی مذہب کی حکمرانی تھی اس لئے ضروری تھا کہ مسلمان عیسی ،مریم ،زکریا اور یحیی علیہم السلام کی صحیح حقیقت سے واقف ہوں چنانچہ اس سورت میں ان حضرات کے واقعات اسی سیاق وسباق میں بیان ہوئے ہیں عیسی علیہ السلام کی معجزانہ ولادت او راس وقت مریم علیہا السلام کی کیفیات سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ ا سی سورت میں بیان ہوئی ہیں اس لئے ا س کا نام سورۂ مریم رکھا گیا ہے۔
نمبر تین : دعائے زکریا علیہ السلام برائے اولاد 4تا6
زکریا علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں دعا مانگی کہ اللہ بوڑھا ہوگیا ہوں لیکن اولاد چاہیے تاکہ وہ توحید کی نشر واشاعت میں میرا وارث بن سکے اور جب بشارت دی گئی تو اس پر بظاہر بے یقینی کا اظہار حیران کن ہے08 لیکن یہ صرف اطمئنان قلب کی طلب محسوس ہوتی ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی طلب کیا تھا
نمبرچار: اولاد حاصل کرنے کے لیے نسخہ کیمیا 11
صبح و شام کے مسنون اوراد و اذکار کا لازم کر لیا جائے
نمبر پانچ : مریم اور عیسی علیہما السلام کی حقیقی سیرت کے کچھ پہلو 16 تا 40، قصہ ابراہیم علیہ السلام 41تا 50
سورۃ طہ (تعارف)
یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں ھجرت حبشہ سے قبل 5 ھجری کے آخر میں نازل ہوئی تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مسلمانوں کے لئے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا کفارِ مکہ نے ان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا، اس لئے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق تعالی کے علم برداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں ؛لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے ،چنانچہ اسی سلسلے میں موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا جس سے ثابت ہوتا ہےکہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورآخری فتح انہی کی ہوتی ہے ،اور یہ کہ تمام انبیاء کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدا ئے واحد پر ایمان لائے او راس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔
نمبر چھ : قصہ موسی علیہ السلام 9 تا 99
نمبر سات : نماز اللہ کو یاد کرنے میں مدد دیتی ہے یا نماز اللہ کو یاد کرنے کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے
نمبر آٹھ : شرح صدر اور معاملات میں آسانی کی سب سے خوبصورت اور منفرد دعا 25تا 26
نمبر نو : جو شخص ہکلاتا ہو یا اس کے بات کرنے میں رکاوٹ ہو یا جو لوگوں کے ساتھ اعتماد سے بات نہ کر سکتا ہو اسے چاہیے یہ دعا مسلسل کرتا رہے 25 تا 28
نمبر دس: نرمی اور خوش کلامی دین میں اتنی اہم ہے کہ دین کے دشمن فرعون سے بھی محبت اور نرمی سے بات کرنے کی تاکید کی گئی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دشمن سے بات کرتے وقت درشت مزاجی ، اور سخت کلامی کی اجازت نہیں اور نہ ہی اسے مستحسن سمجھا گیا ہے تو کسی مسلمان سے نرمی اور محبت سے بات کرنے کی کتنی تاکید ہو گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے 43تا 44
نمبر گیارہ : دعائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برائے اضافہ علم نافع 114
نمبر بارہ : جو اللہ کے ذکر سے تغافل کرے گا اس کی آخرت تو تباہ ہو گی ہی اس کی دنیا بھی اس پر تنگ کر دی جائے گی 124
نمبر تیرہ : مسلمان کے لیے صبر اور نماز دوایسی کیفیات ہیں جن سے مدد مانگنے پر کبھی بھی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹتا 130
نمبر چودہ : اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دینا اور اس پر مداومت اختیار کرنا 132
آج کا پیغام :
مریم علیہ السلام کو ولادت عیسی سے قبل کھجور کھانے کے لیے کہا گیا تھا ،کھجور مکمل غذا ہے جو روزانہ استعمال کرنی چاہیے خواہ ایک ایک دانہ ہی کیوں نہ ہو، بطور خاص بچوں کی خوراک میں اسے شامل کیا جائے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 17 سورۃ الانبیاء آیت نمبر 01 تا 112 اور سورۃ الحج اایت نمبر 01 تا 78
سورۃ الانبیاء مکی سورت ہے، تقریبا 10ھجری میں نازل ہوئی ۔ اس میں 15 انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور حجت قائم کی گئی ۔اور اسی طرح ان انبیاء کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اہل توحید اور اہل شرک کے مابین کہیں کہیں تقابل بھی پیش کیا گیا ہے ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر سابقہ مکی سورتوں میں جو اعتراضات پیش کیے گئے ان کا رد کیا گیا ہے۔
نمبر ایک : حساب کا دن آنے کو ہے اور لوگ اس حساب کے دن سے غافل ہیں اور کھیل کود میں مصروف ہیں 01و02
قرآن مجید میں عمومی طور پر قیامت کے آنے کا ذکر فعل ماضی سے کیا جاتا ہے یعنی قیامت کا آنا اتنا یقینی ہے جتنا کسی کے لیے ماضی کا گزر جانا
نمبر دو: تمام انبیاء بشر تھے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے انہیں بھی موت آئی اور کسی کو ہمیشگی نہیں دی گئی 08و34
نمبر تین : انبیاء کے کردار کا ذکر خیر ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ یہ خوبیاں ہم بھی اختیار کریں جو درج ذیل ہیں : انبیاء اللہ کے حکم سے لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھایا کرتے تھے73، نیکیوں پر مشتمل اعمال خیر انجام دیتے تھے اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے 90، نماز اور زکوۃ پر عامل تھے 73،انبیاء اللہ کے وفادار اور عبادت گذار تھے 73، انبیاء شوق و رغبت اور خوف و رھبت سے دعائیں مانگتے تھے 90، انبیاء اللہ تعالی کا خشوع رکھنے والے تھے 90، انبیاء مشکلات پر صبر و استقامت سے کام لیتے تھے85
نمبر چار: زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے جو ایک دھماکے سے الگ ہوئے 30
جسے آج کی سائنس بگ بینگ تھیوری کا نام دیتی ہے اس پر ہارون یحیی کی کتاب تخلیق کائنات کا مطالعہ مفید رہے گا
نمبر پانچ : ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہو گا اور ہمیشہ کی زندگی کسی کو نہیں ہے 35
نمبر چھ : قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر رائی برابر دانہ بھی ظلم نہ ہو گا47
انصاف کے اس ترازو پر انسانوں کو تولا جائے گا یا اعمال کو مجسم شکل دے کر تولا جائے گا یا اعمال ناموں کو تولا جائے گا یہ سب صورتیں ممکن ہیں
نمبر سات : مختلف انبیاء کا ذکر خیر(ابراہیم ،لوط، اسحاق، یعقوب، نوح، داود، سلیمان، ایوب، اسماعیل، ادریس، ذوالکفل، ذوالنون، زکریا، یحیی) 50تا93
نمبر آٹھ : جسمانی مشکلات سے نکلنے کی دعا ئے ایوب 83
نمبر نو: اولاد کے فرمانبردار اور صالح ہونے کے لیے دعائے زکریا 89
نمبر دس: اہل توحید و اہل شرک کا انجام کا بیان 94تا 106
سورۃ الحج (تعارف)

اس سورت کی ابتدائی آیات مکی ہیں یعنی 1 تا 24اورباقی آیات مدنی ہیں ،حج کی عبادت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں کس طرح شروع ہوئی اور اس کے بنیادی ارکان کیا ہیں اسی وجہ سے اس کا نام سورۂ حج ہے، مکہ مکرمہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا تھا وہاں مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی جاتی تھی ،لیکن مدینہ منورہ آنے کے بعد پہلی بار مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کے مقابلے میں دفاعی جہاد کی اجازت دی گئی اور فرمایا گیا کہ جن کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کرکے انہیں اپنا وطن او رگھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے اب مسلمان ان کے خلاف تلوار اٹھاسکتے ہیں اس طرح جہاد کو ایک عبادت قرار دے کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ نہ صرف اس کا ثواب آخرت میں ملے گا بلکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کو ان شاء اللہ فتح نصیب ہوگی ،اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد بھی بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ سورت کا آغاز آخرت کے بیان سے ہوا ہے ،جس میں قیامت کا ہولناک منظر بڑے مؤثر انداز میں پیش کیاگیا ہے۔
نمبر گیارہ : بحث برائے بحث کی بنیاد عمومی طور پر جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر ہوتی ہے وگرنہ دلیل کے بعد مخالفت اور بحث کا کوئی جواز نہیں اگر دلیل تسلیم بھی نہیں ہے یا دلیل کی دلالت سے اختلاف ہے تو اس پر اہل علم خاموشی اختیار کرتے ہیں اور علمی انداز میں رد کرتے ہیں لیکن لاجواب لوگ دلیل سے نہیں بلکہ الزام تراشی اور تہمتوں کی بنیاد پر لڑتے ہیں۔03،08
نمبر بارہ : تخلیق انسان کے مراحل اور بڑھاپے کی عمر 05
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا وَاَعُوْذُبِکَ اَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ موجودہے
نمبر تیرہ : کچھ لوگوں کے مزاج کا تعارف کہ وہ صرف اپنے مفادات کے اسیر ہوتے ہیں اگر اسلام سے فائدہ ہو رہا ہے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر نقصان ہو جائے تو متنفر ہو جاتے ہیں 11
نمبر چودہ : تمام مخلوقات کائنات اللہ تعالی کو سجدہ ریز ہے انسان سب سجدہ ریز نہیں ہیں 18
سجدہ سے مراد عملی سجدہ بھی ہو سکتا ہے اور فرمانبرداری بھی مراد ہو سکتی ہے
نمبر پندرہ : کچھ آداب حج کا بیان 25تا 34
نمبر سولہ : جو اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے وہی حقیقی تقوی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے 32
نمبر سترہ : قربانی کا گوشت اور خون اللہ تک نہیں پہنچتا بلکہ حقیقی ماحاصل تقوی ہے جو دلوں میں پایا جاتا ہے 37
نمبر اٹھارہ : دفاعی قتال کی اجازت 39
نمبر انیس : اللہ تعالی اہل ایمان کا دفاع کرتا ہے گویا اگر اللہ تعالی کی حفاظت حاصل کرنی ہے تو ایمان یعنی قول و عمل دونوں کو کما حقہ اختیار کرنا ہو گا38
نمبر بیس : اسلامی ریاست کے اولین فرائض یا حقیقی داخلہ پالیسی کے بنیادی خدوخال 41
نماز قائم کرنا اور کروانا ، نظام زکوۃ کا اصل شکل میں قائم کرنا ، ایک وزارت قائم کرنا جس میں علماء کرام کی ذمہ داری ہو کہ وہ عام لوگوں کو نیکی اور برائی کی پہچان دیں اور نیکی کو اختیار کرنے کا طریقہ اور برائی سے بچنے کا طریقہ بتائے
آج کا پیغام :
رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ

اس دعا کو والدین عمومی طور پر اختیار کر لیں تاکہ ان کی اولاد انبیاء کی حقیقی وارث بن سکے اور دین کی خدمت کرنا اور دین کا وارث بننا یہ فریضہ تمام شعبہ حیات میں ممکن ہے ایک ڈاکٹر بھی عالم دین ہو سکتا ہے اور ایک انجنئیر بھی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 18 سورہ المومنون مکمل ، سورۃ النور آیت نمبر 1تا 64
یہ سورت مکی ہے اور اس سورت کا مرکزی خیال یہ ہے کہ دنیوی و اخروی کامیابی کے لیے ایمان اور عمل صالح بنیادی شرط ہیں ، سابقہ اقوام کے انجام سے عبرت لینے کا کہا گیا ہے۔
نمبر ایک : کامیاب مومنین کی صفات 01تا 09
نماز کی حفاظت اور خشوع و خضوع، لغو امور سے اجتناب، زکوۃ کی ادائیگی، شرم گاہ کی حفاظت، امانت کی ادائیگی،
نمبر دو: تخلیق انسان کے مراحل کی تفصیلات 12تا 14
نمبر تین : کسی اجنبی جگہ اترنے اور ٹھہرنے یا قیام کرنے کے بعد برکات حاصل کرنے کے لیے دعائے نوح علیہ السلام 29
نمبر چار: اللہ کسی انسان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا 62
نمبر پانچ: برائیوں کو نیکیوں سے ختم کیا جا سکتا ہے 96
نمبر سات : شیطانی ہفوات سے بچنے کے لیے بہترین دعا 97
نمبر آٹھ : بری صحبت سے اجتناب اور اس سے بچنے کی دعا 98
سورۃ النور(تعارف)

ایک مسلمان کو حسن دنیا وحسن آخرت کی دعا کے نتیجے میں اپنے کردار کو نبوی تعلیمات کے نور سے ضرور مزین کرنا چاہیے اس کا نام اس سورت کے پانچویں رکوع کی پہلی آیت ’’نُورُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرضِ‘‘ سے مأخوذ ہے ۔اس سورت کی وجہ تسمیہ اس کے احکام وآداب اسلامی- جوکہ کسی بھی انسان کی عزت، عفت اور عصمت کے محافظ ہیں - کی شعاعیں جابجا نظر آتی ہیں اور یہ سب اللہ کے نور میں سے ہے جس نے دین اسلام کی تعلیمات سے کائنات کو منور کیا اور اسی بات کو قرآن مجید میں یوں بیان کرتا ہے ۔اس سورت میں زیادہ تر احکام عفت کی حفاظت اور ستر وحجاب سے متعلق ہیں اس لئے عورتوں کو اس سورت کی تعلیم کی خصوصی ہدایات آتیں ہیں ۔ سورۃ نور میں اہل ایمان کو ان أحکام اور آداب اور ہدایات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ جو کسی معاشرے کی تشکیل کے دوران معاشرے کو ایمان کے تقاضوں سے منور کرنے اور ایمان کے منافی مفسد امور سے محفوظ رکھنے کیلئے ضرور ی ہیں ۔اس سورت میں درج ذیل مضامین اہم ہیں
موضوع نمبر ۱:عمومی ہدف سورت کے شروع میں بیان کیا گیا ہے جوکہ آیت نمبر ۱ پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر 2: زنا اور اس کے احکام جوکہ آیت نمبر 2 اور 3 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 3: احکام قذف جوکہ آیت نمبر 4 اور 5 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 4: احکام لعان جوکہ آیت نمبر 6تا 10 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 5: حادثہ افک جوکہ آیت نمبر 11 تا 21 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 6: حادثہ افک کے نتیجے میں نازل ہونے والے آداب واخلاقیات جوکہ آیت نمبر 22 تا 26 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر ۷: آداب استئذان وزیارت جوکہ آیت نمبر 27 تا 29 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 8: آیات حجاب ونظر جوکہ آیت نمبر 30 اور 31 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 9:نکاح پر ترغیب و برائیوں سے تحذیر کابیان جوکہ آیت نمبر 32 تا 34 پر مشتمل ہیں
موضوع نمبر 10 : نور الٰہی کی وضاحت اور اس سے محروم لوگ جو کہ آیت نمبر 35 پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر 11: آداب مسجد جوکہ آیت نمبر 36 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر 12: صفات مؤمنین جوکہ آیت نمبر 37 اور 38 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر13: کفار کے اعمال کی مثال جوکہ آیت نمبر 39 /40 پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر14: توحید ربوبیت کا بیان جوکہ آیت نمبر 41 تا آیت نمبر 46 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر15: منافقین کا بیان جوکہ آیت نمبر 47 تا 54 پر مشتمل ہہیں ۔
موضوع نمبر16:آیت استخلاف جوکہ آیت نمبر 55 پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر17: رحمت الٰہی کے حصول کا طریقہ جوکہ آیت نمبر 57 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر18: اوقات خلوت میں آداب استئذان جوکہ آیت نمبر 58 تا 60 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر19: اقرباء کے گھروں سے احکام طعام جوکہ آیت نمبر 61 پر مشتمل ہے ۔
موضوع نمبر20: صفات مؤمنین اور آداب رسالت جوکہ آیت نمبر 62 اور 63 پر مشتمل ہیں ۔
موضوع نمبر21: سورت کا اختتام توحید الٰہی پر جوکہ آیت نمبر 64 پر مشتمل ہیں ۔
نمبر نو : حدود الہی کے نفاذ میں کسی بھی قسم کی نرمی جائز نہیں ہے بلکہ یہ سزائیں علانیہ لوگوں کی ایک جماعت کے سامنے دی جائیں تاکہ لوگ عبرت پکڑ سکیں اور ان جرائم سے بچ سکیں 02
نمبر دس: مسلمان کے کردار کی اصل اس کا سچا ہونا، پاک ہونا، تاوقتیکہ اس کے خلاف باقاعدہ مطلوبہ مقدار میں گواہی نہ مل سکے اور دوسرے مسلمان کی عزت کو اپنی عزت سمجھا جائے 12
نمبر گیارہ : اہل ایمان میں فحاشی اور بے حیائی کی باتیں پھیلانے والے دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہیں 19
نمبر بارہ : کسی کے گھر میں میں داخل ہونے سے قبل سلام کیا جائے اور اپنا نام بتایا جائے اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک وگرنہ واپس لوٹ جائے 27تا 28
نمبر تیرہ : مسلمان مرد او ر مسلمان عورت اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں تاکہ وہ اپنی حیا کی حفاظت کر سکیں شرم و حیا کی حفاظت کی پہلی دیوار نگاہیں غیر محرم کی طرف نہ دیکھنا ہے 30تا 31
نمبر چودہ : اگر نکاح کرنے کا مقصد اپنی عفت و عزت کی بقا ہے تو اللہ تعالی بے شمار آسانیاں پیدا کر دیتا ہے 32تا 33
نمبر پندرہ : اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے 35
نمبر سولہ : مسلمان کو اپنی دنیا یا دین کے حوالے سے کوئی ایک آیت یا حدیث مل جاتی ہے تو اس کا رویہ ’’سمعنا و اطعنا‘‘ ہوتا ہے یعنی ہم نے سن لیا اور مان لیا51
نمبر سترہ : گھر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جہاں کسی کی کوئی نجی زندگی کو عمل دخل ہے وہاں داخل ہونے کے حوالے سے اجازت لینے کے تین اوقات لازمی ہیں 58
نمبر اٹھارہ : بزرگ خواتین اگر چہرہ کا پردہ ختم بھی کر دیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ حجاب کو برقرار رکھیں تو زیادہ افضل ہے 60
نمبر انیس : خالی گھروں میں داخل ہونے سے قبل بلند آواز سلام کیا جائے 61 کیونکہ فرشتے جواب دیتے ہیں (حدیث)
آج کا پیغام : صحبت بد سے بچنے کی دعا یاد کرنی ہے 98 اور بری صحبت سے عملا بچنے کی کوشش کرنی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 19 سورۃ الفرقان آیت نمبر 1تا 77سورۃ الشعراء آیت نمبر 01تا 227سورۃ النمل آیت نمبر 01تا 59
سورۃ الفرقان (تعارف)
مکی سورت ہے اور 7 نبوت میں نازل ہوئی ، عقائد ثلاثہ پر دلائل اور مشرکین کو تاریخ انبیاء سے عبرت پکڑنے کا کہا گیااس کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اوران کے بارے میں کفارِ مکہ کے مختلف اعتراضات کا جواب دینا ہےنیز اللہ تعالی نے کائنات میں انسان کے لئے جو بیشمار نعتیں پیدا فرمائی ہیں ،انہیں یاد دلاکر اللہ تعالی کی فرماں برداری ،اس کی توحید کے اقرار اور شرک سے علیحد گی کی طرف دعوت دی گئی ہےآخر میں اللہ تعالی کے نیک بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں ،اوران کے صلے میں اللہ تعالی نے ان کے لئے آخرت میں جو اجر وثواب رکھا ہے ا س کا بیان فرمایاگیا ہے۔
نمبر ایک : مشرکین خواہ زمانہ ماضی کے ہوں یا موجودہ زمانہ کے ان سب کے خودساختہ معبود اوراللہ کے ساتھ خود ساختہ شریک سب باطل ہیں کیونکہ (۱)وہ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں اور (۲) نفع و نقصان پر قادر نہیں ہیں (۳)اور نہ ہی کسی کی موت یا زندگی پر قادر ہیں 03
نمبر دو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے پر مشرکین کے اعتراضات جو آج بھی بعض حلقوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں 07تا 08
نمبر تین : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکوہ بابت قرآن مجید 30
(۱)جو لوگ قرآن پر ایمان نہیں رکھتے(۲) جو لوگ صرف قولی ایمان رکھتے ہیں لیکن تلاوت قرآن اور فہم قرآن نہیں حاصل کرتے(۳) قرآن پر سمجھ بوجھ کے باوجود عمل نہیں کرتے (۴) وہ لوگ جن کی ترجیحات میں قرآن کی تعلیم نہیں ہے
نمبر چار : قرآن مجید دلوں کو اطمئنان کے ساتھ ساتھ مضبوط بھی کرتا ہے 32
نمبر پانچ : قرآن مجید حق آزادی اختیار رائے کا اختیار دیتا ہے 57و62
نمبر چھ : رحمن کے بندوں کی صفات جو ہمہ جہتی خوبیوں پر مشتمل ہیں 63تا 77
سورۃ الشعراء (تعارف)
یہ سورۂ واقعہ کے بعد نازل ہوئی مکی سورت ہے وہ زمانہ جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت سے مخالفت کرتے ہوئے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کررہے تھے ،اس سورت ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاکر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہوتو ا سکے لئے اللہ تعالی کی قدرت کی یہ نشانیاں ا سکی توحید کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں، او راسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے ۔اسی ضمن میں سورۃ الاعراف اور سورۃ ھود کی طرح سابقہ انبیاء علیہم السلام او ران کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لئے سنائے گئے ہیں کہ ان قوموں نے جو معجزات مانگے تھے ، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے ،لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا؛ کیونکہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے ،اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے تو حید ورسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کرکے ایمان لائیں او رہلاکت سے بچ جائیں۔کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہتے تھے کبھی جادوگر او رکبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے، سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے ،اور کاہنوں او رشاعروں کی خصوصیات بیان کرکے جتایاگیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھاگیا ہے
نمبر سات : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر غمگین ہونا 03
ہمارے لیے اس میں یہ سبق موجود ہے کہ ہم بھی اپنے اردگرد لوگوں کی گمراہیوں پر اسی طرح غمگین ہوں اور کوشش کریں کہ ان کی ہدایت کا سبب بن سکیں
نمبر آٹھ : سورۃ الفاتحہ آیت نمبر ایک میں موجود ایک لفط ’’رب العالمین ‘‘ کی قرآنی تفسیر 23تا 28
نمبر نو : قصہ ابراہیم کے کچھ پہلو بیان کرتے ہوئے دعائے ابراہیم جو انتہائی خوبصورت کلمات پر مشتمل ہے 78تا 87
اس دعا کا خاتمہ ان کلمات پر ہے کہ اللہ یوم حساب رسوا نہ کرنا
نمبر دس: رشتہ داروں کو دین سکھاو اور اہل ایمان کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک روا رکھو 215
اس میں ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ ہم میں سے ہر ایک جتنا دین جانتا ہے وہ اپنے گھر والوں کو بیان کرے اور حسن سلوک سے اپنی ذات کو مزین کرے
سورۃ النمل (تعارف)
یہ سورت بھی مکی ہے اور سورۂ شعراء کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی ،دوسری مکی سورتوں کی طرح ا س کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات او رکفر کے برے نتائج کا بیان ہے۔ موسی اور صالح علیہما السلام کے واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایاگیا ہے کہ ان کی قوموں نے اس بنا پران کی بات نہیں مانی کہ انہیں اپنی دولت او راپنے سماجی رتبے پر گھمنڈ تھا،اسی طرح کفار مکہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کررہے تھے۔دوسری طرف سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بے نظیر بادشاہت سے نوازا تھا،لیکن یہ بادشاہت ان کے لئے اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہوئی ،اسی طرح سبأ کی ملکہ بلقیس بھی دولت مند تھی؛ لیکن حق واضح ہونے کے بعد اس نے اس کو فوراً قبول کرلیا ،اس سیاق میں سلیمان علیہ السلام او رسبأ کی ملکہ کاواقعہ اس سورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے کیونکہ سابقہ سورتوں میں معاندین اسلام پر عذاب الہی کا ذکر کیا گیا تو اس سورت میں اسلام قبول کرنے پر انعامات کا ذکر کیا گیا جو ملکہ یمن بلقیس کو عطا کیے گئے ۔ کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کو بڑے مؤثر انداز میں ذکر فرمایاگیا ہے، جس سے اللہ تعالی کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔نمل کے معنی چیونٹی کے ہوتے ہیں او رچونکہ اس سورت کی آیت نمبر:۱۸ میں سلیمان علیہ السلام کا یہ واقعہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے گزرے تھے ا س لئے ا س کا نام سورۂ نمل رکھاگیا ہے۔
نمبر گیارہ : قصہ سلیمان علیہ السلام 15تا 44
نمبر بارہ : دعائے سلیمان 19
ایک قیمتی دعا جو اللہ تعالی کی نعمتوں پر اس کا شکر کرنا اور نعمتوں کی بقا کے لیے بندہ مومن کو آداب سکھاتی ہے کہ وہ اللہ سے یہ نعمتیں کیسے مانگے اور باقی رکھے
نمبر تیرہ : جو کوئی شکر ادا کرتا ہے تو اس شکر کا فائدہ اسے ہی ہوتا ہے اور کفران نعمت کا اللہ کوئی نقصان نہیں ہوتا
اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں کی طرف توجہ کی جائے اور کسی بھی قسم کی نعمت کا حق ادا کرنے کا سب سے پہلے مرحلہ یہ ہے کہ اس نعمت کے عطا کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے پھر اس نعمت کا عملی حق ادا کیا جائے
نمبر چودہ : قوم ثمود یعنی صالح علیہ السلام کا قصہ45تا 53
نمبر پندرہ : لوط علیہ السلام کی قوم کی بداعمالیاں اور ان کی ہلاکت کا بیان 54تا 58
آج کا پیغام :
سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں اولیاء اللہ کی صفات بغور پڑھی جائیں اور پھر اپنا آپ اس میں دیکھا جائے کہ ان میں سے کتنی صفات مجھ میں پائی جاتی ہیں
سورۃ الشعراء آیت نمبر 87 میں موجود دعا کو اس رمضان میں اور باقی زندگی میں اپنا معمول بنا لیا جائے کہ اللہ ہمیں آخرت میں رسوا نہ کرنا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 20 سورۃ النمل آیت نمبر 60تا 93، سورۃ القصص آیت نمبر 01تا 88، سورہ العنکبوت آیت نمبر01تا 42
نمبر ایک : توحید الوہیت پر چند دلائل 60تا 69
نمبر دو: اللہ ہی ہے جو بے قرارکی دعاقبول کرتاہے جب بھی وہ اُسے پکارتا ہے؟ اور وہ تکلیف دورکرتاہے62
نمبر تین : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے اور کچھ مناظر قیامت کا ذکر اور مشرک کا انجام 70تا 93
نمبر چار : فوت شدگان کو کوئی بھی اپنی آواز نہیں سنا سکتا کیوں کہ وہ سن ہی نہیں سکتے 80
نمبر پانچ : جو کوئی کسی کے ساتھ اچھائی کرتا ہے درحقیقت وہ اپنے ساتھ اچھائی کر رہا ہوتا ہے اسی طرح کوئی کسی کے ساتھ برائی نہیں کرتا درحقیقت اپنے ساتھ برائی کر رہا ہوتا ہے 92
سورۃ القصص (تعارف)
یہ سورت مکی ہے اورہجرت مدینہ سے قبل آخری سورت ہے ،کیونکہ اس کی آیت نمبر:۸۵ اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوچکے تھے۔ مرکزی موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی دعوت کی سچائی کو ثابت کرنا ہے۔ موسی علیہ السلام کےواقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد آیات ۴۴ تا ۴۷ میں اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان واقعات کو اتنی تفصیل سے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے باوجود جب آپ یہ واقعات بیان فرمارہے ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی آتی ہے ،کفار مکہ کی طرف سے آپ کی نبوت اور رسالت پر جو اعتراضات کئے جاتے تھے ،اُن کا شافی جواب بھی اس سورت میں دیاگیا اور آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں ان کے طرز عمل کی کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی۔کفار مکہ کےخداؤں کی تردید کی گئی ہے،قریش کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت پر غرور کی وجہ سے بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے ،اُن کی عبرت کے لئے آیات ۷۶ تا ۸۲ میں قارون کا واقعہ بیان کیاگیا ہے جو موسی علیہ السلام کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند شخص تھا ،لیکن اس کی دولت اسے تباہی سے نہ بچاسکی جو غرور اور ضد کے نتیجے میں اُس پر آکر رہی۔ سورت کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیاگیا ہے کہ اگرچہ اس وقت آپ بے سروسامانی کی حالت میں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں ،لیکن اللہ تعالی آپ کو فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔
نمبر چھ : موسی علیہ السلام کی ابتدائی زندگی کی وہ تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں جو کسی اور سورت میں بیان نہیں ہوئیں 01تا 42
نمبر سات : خیر اور حیا کی تعریف کہ حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں 25
نمبر آٹھ: تنخواہ لینے یا دینے کی دلیل ، جسے ملازمت دی جائے اس میں دو بنیادی خوبیاں ہونی چاہیں طاقت (علمی اور جسمانی) اور امانت داری 26
نمبر نو : ہدایت دینا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راہ ہدایت دکھانے کی عظیم ذمہ داری پر فائز ہیں 56
نمبر دس: دلائل توحید 61تا 75
نمبر گیارہ : دنیا اور آخرت77
دنیا برائے دنیا مذموم ومعیوب رویہ ہے جبکہ دنیا برائے آخرت محبوب و مطلوب رویہ ہے قرآن مجید میں جب دنیا کو کھیل تماشہ اور دھوکہ بیان کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ مطلب ہوتا ہے کہ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جائے اور آخرت کو بھلا دیا جائے
سورۃ العنکبوت (تعارف)
سورت مکی ہے ، زمانہ مصائب و شدائد میں نازل ہوئی ایسے مواقع پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے اوریہ کہ ساری تکالیف عارضی نوعیت کی ہیں،اور آخر کار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہےگی ،اور غلبہ اسلا م اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا، اس پس منظر میں اللہ تعالی نے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں ،جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن آخر کار اللہ تعالی نے ظالموں کو برباد کیا،اور مظلوم مؤمنوں کو فتح عطا فرمائی۔اس کے علاوہ توحید ،رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، او راس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے ،ان کا جواب بھی دیاگیا ہے
عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر:۴۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کررکھا ہو، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ عنکبوت ہے۔
نمبر بارہ : ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے اوریہ کہ ساری تکالیف عارضی نوعیت کی ہیں 02
نمبر تیرہ : نومسلم مشرکین کے دباو میں نہ آئیں کہ حقیقی جیت انہی کی ہے 08تا 13
نمبر چودہ : مختلف انبیاء کی آزمائشوں کا بیان 14تا 41
آج کا پیغام : حسن دنیا کے تمام پہلووں کا کماحقہ اختیار کیا جائے تاکہ ان کی بنیاد پر آخرت کی کامیابی ممکن بنائی جا سکے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پارہ نمبر 21 سورۃ العنکبوت 45تا 69، سورۃ الروم ، سورۃ لقمان، سورۃ السجدۃ ، سورۃ الاحزاب 01تا 30
نمبر ایک : تلاوت قرآن مجید اور نماز قائم کرنا یہ دو کام ایسے ہیں جو ہر مسلمان کو قلبی طور پر مضبوط کرتے ہیں اور اس کے بعد نماز کا حقیقی ھدف یعنی فحاشی اور برائیوں سے اجتناب کرنا ، حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے 45
نمبر دو: مشرکین کا اللہ تعالی کی ربوبیت پر اقرار 61تا 63
نمبر تین :جو کوئی اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے راستے کھول دیتے ہیں 69
سورۃ الروم (تعارف)
یہ سورت مکی ہے اور ھجرت حبشہ سے قبل نازل ہوئی ۔بوقت بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دو ایران اور روم دو بڑی طاقتیں تھیں ، اس وقت ان دونوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی،او راس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اوراس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلئے تھے ،ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں ،اورجب کبھی ایران کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں،او رایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے ،انہیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے،اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی ،اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں ،لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے ،اوراس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے،اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشنگوئیاں کی گئیں ،ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اوردوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے ،یہ دونوں پیشینگوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشینگوئی نہیں کرسکتا تھا،مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے او رپسے ہوئے تھے، ا س کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں ،دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
نمبر چار : غزوہ بدر کی فتح کی خوش خبری 04
نمبر پانچ : دلائل توحید و آخرت ، تکذیب قرآن اور استھزاء رسول پر تنبیہ اور ہلاکت کے اصول کا بیان 08تا 27
اور ان دلائل کا آغاز عمومی طور پر ’’ومن آیاتہ ‘‘ سے ہورہا ہے
نمبر چھ : اسلام دین فطرت ہے اور اس کے لیے زندگی گزارو اور یہی آسان دین ہے جس پر عمل کرنا بہت آسان ہے 30
نمبر سات : جس جماعت کا یہ خیال ہو کہ صرف وہی حق پر ہیں یا وہی صحیح ہیں تو ایسی جماعت امت میں فرقہ واریت پھیلانے والی ہوتی ہے 32
سورۃ لقمان (تعارف)
یہ سورت مکی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت عروج پر تھی او رکفار پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر واشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے ،اور مسلمانوں کی توجہ ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر وشاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، لقمان دانشور کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے ،یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے،قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان بھی توحید کے قائل تھے ،او رانہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا،او راپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا ،اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید او رنیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے ،او راگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے،اس مناسبت سے لقمان کی نصیحتوں کے درمیان اللہ تعالی نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورۂ عنکبوت میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں،اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اورآخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے۔
نمبر آٹھ : لقمان کا اولاد کو مخاطب کرنے کا اسلوب (محبت ، شفقت اور پیار) 13
نمبر نو: لقمان کی اپنے بیٹے کو قیمتی نصیحتیں، شرک نہ کرنا (یعنی سب سے پہلے اولاد کو توحید کی تعلیم دی جائے )13، مراقبت الہی 16، نماز قائم کرناو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنااور دین کے لیے صبر کرنا 17، لوگوں کے ساتھ غرور و تکبر کے ساتھ پیش نہ آنا 18، اپنی چال میں میانہ روی کو مدنظر رکھو اور اپنی آواز دھیمی رکھو 19
نمبر دس : والدین کے ساتھ حسن سلوک رکھو خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور حسن سلوک کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ان کی غلط باتیں بھی مان لی جائیں 15
نمبرگیارہ: دلائل توحید 20تا 34
نمبر بارہ : پانچ باتیں جن کا علم سوائے اللہ تعالی کے کسی کے پاس نہیں ہے 34
قیامت کب آئے گی ، بارش کب اور کہاں ہو گی، بطن مادر میں کیا ہے ، کوئی کیا کمائے گا ، کوئی کہاں اور کب فوت ہو گا
سورۃ السجدہ (تعارف)

یہ سورت مکی ہے ھجرت حبشہ سے قبل نازل ہوئی ، یہ دور اعتراضات ہے باقاعدہ ظلم و تشدد کا آغاز نہیں ہوا تھا، اس کا مرکزی موضوع اسلام کے بنیادی عقائد ،یعنی توحید ، رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، نیز کفار عرب اعتراضات کا جواب دیاگیا ہے، اوران کا انجام بھی بتایاگیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں بکثرت یہ سورت پڑھا کرتے تھےاور مسند احمد میں ہے کہ آپ رات کو سونے سے پہلے دو سورتوں کی تلاوت ضرور فرماتے تھے ،ایک سورۂ السجدہ اوردوسری سورۂ ملک۔
نمبر تیرہ : اللہ کے ولیوں کی راتیں ایسی کیفیات میں گزرتی ہیں کہ ان کے پہلو ان کے بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب سے دعائیں مانگتے رہتے ہیں اس میں تہجد کی فضیلت کا بیان ہے 16
آج کا پیغام
اولاد کو گھر میں اتنی محبت اور احترام دیں گے کہ انہیں اس کی کمی محسوس نہ ہو اور وہ یہ محبت اور احترام گھر سے باہر تلاش نہ کریں
کوشش کریں گے کہ تہجد کی ادائیگی کو ممکن بنایا جا سکے
 
Top