لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم
کسی بھی جملہ یا نعرے کو سیاق و سباق کے ساتھ اور اسی مفہوم میں سمجھنا چاہئے، جس میں اسے تخلیق یا ادا کیا گیا ہو۔ “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” خدا نخواستہ کوئی نیا دینی کلمہ نہیں تھا، جیسا کہ آپ کے مراسلہ سے گمان ہورہا ہے۔
پاکستان کے بنانے والوں نے اس نعرہ کے ذریعہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو “لا الہ الا اللہ” کی بنیاد پر “قیام پاکستان کی جد جہد” کے لئے دعوت دی تھی۔ کیونکہ متحدہ ہندوستان میں اگنی، دریا، بت وغیرہ ہی “الہ” نہیں بنے ہوئے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ “علاقائی و لسانی شناخت” بھی عملاً "الہ" بن بیٹھے تھے۔ “وطنیت” کے اسی “بت” کو پہلے “مصور پاکستان” علامہ اقبال نے پاش پاش کیا پھر بانی پاکستان اور ان کے ساتھیوں نے اسی کلمہ توحید کی بنیاد پر ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو تحریک پاکستان کی جد و جہدمیں شامل کیا۔ حالانکہ بہت سے علاقوں کے مسلمانوں کو تو یہ بخوبی معلوم تھا کہ ان کا علاقہ مجوزہ پاکستان میں کبھی شامل نہیں ہوسکتا۔
یہ ٹھیک ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں علمائے کرام کی اکثریت بوجوہ شامل نہیں تھی، لیکن پاکستان بننے کے بعد بھارت میں رہ جانے والے علمائے کرام نے بھی بحیثیت مجموعی “پاکستان مخالف رویہ” نہیں اپنایا۔ آئینی طور پر ایک اسلامی مملکت پاکستان میں رہنے والے یہ ہم جیسے نادان ہی ہیں جو قیام پاکستان کے نصف صدی بعد اسی مملکت کی “بنیادوں” کو متنازعہ بنانے چلے ہیں۔ بانیان پاکستان تو ہمیں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت بناکر دے گئے، جو آج ایک ایٹمی قوت کے طور پر دنیا کی سات بڑی قوتوں میں شامل ہے۔ یہ “پاکستانی عوام و خواص ” کا قصور ہے کہ ہم اسے ابھی تک “ایک مکمل اسلامی ریاست” نہیں بنا سکے، پاکستان بنا کر دے جانے والوں کا نہیں۔
پاکستان اور بانیان پاکستان پر اس طرح کیچڑ اچھالنے والے ذرا اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر تو دیکھیں کہ انہوں نے ایک (اسلامی نہ سہی) مسلم ملک پر ایک قادیانی حکمران کو برسہا برس تک کس طرح “ٹھنڈے پیٹوں برداشت” کیا اور ایک غیر مسلم حکمران کے خلاف جہاد کرنے کے لئے پاکستانی عوام کو کیوں نہیں اکٹھا کیا؟ (اس کا جواب روز حشر بھی دینا ہوگا، اگر اللہ نے پوچھا تو)۔اورجو لوگ اس قادیانی آرمی چیف اور صدر مملکت کے خلاف جہاد کر رہے تھے، ان کے ساتھ آپ نےکیا رویہ اختیار کیا۔ دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ ع