- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
سعودی عرب میں جمہوریت نہیں بلکہ ملوکیت ہے ـ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو بیان کرنے کے لیے حکمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ انہیں سرعام بیان نہ کیا جائے ، ورنہ جس طرح پاکستان میں دھرنے کرواکر نقصان پاکستان کا ہورہا ہے اور دشمن فائدہ اٹھارہے ہیں یہی صورت حال سعودیہ میں ہوجائےگی ۔الحمدللہ، میں قائم ہوں، خضر بھائی آپ کہتے ہیں کہ علماء بولیں ہیں، آپ مجھے آل سعود کی کافروں سے دوستی، ان کی مسلمانوں کے خلاف لاجسٹک سپورٹ اور مسلمان علماء پر تشدد کے خلاف فتویٰ دکھا دیں میں ان شاءاللہ اس کے بعد تہیہ کر لوں گا اور آئندہ سے حسن ظن رکھوں گا، تو آپ دکھائیں ان تین پوائنٹس کے خلاف فتویٰ۔
اس لیے علماء سب کچھ کرتے ہیں ، اپنا فرض پورا کرتے ہیں ، اگرچہ سرعام اخباروں ، اشتہاروں میں یہ باتیں نہیں لائی جاتیں ۔
لہذا علماء کو ’’ درباری ‘‘ جیسے طعنوں سے نوازتے ہوئے یہ ذہن میں رکھا کریں کہ ہر بات کا آپ کے علم میں ہونا ضروری نہیں ، اگر مفتی مملکۃ کا بیان آپ تک نہیں پہنچا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک عبداللہ کو بھی یہ بات نہیں پہنچائی گئی ۔
یہاں کئی علماء کے بارے میں جامعہ اسلامیہ کے طالب علم تک جانتے ہیں کہ وہ سعودی حکمرانوں کو خط لکھ کر ، فون کے ذریعے ، بلکہ بعض دفعہ خود محل میں جاکر نصیحت اور حق بیان کرکے آتے ہیں ، شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ جن کا سعودیہ کے بڑے علماء میں شمار ہوتا ہے ان کے بارے میں مجھے یاد ہے کہ جب مجلس شوری میں عورتوں کو شامل کرنے کا مسئلہ شروع ہوا تھا تو وہ خود ملک عبد اللہ کے پاس جاکر اس کو اس سے منع کرکے آئے تھے ۔
اور یہ ایک ویڈیو بھی سن لیں جس میں اپنے وقت کے مفتی المملکۃ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ تمام امراء و وزراء کی حاضری میں ان پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ عوام تو ٹھیک ہے ،اصل مسئلہ حکمرانوں میں ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علماء حالات کا خیال رکھتے ہوئے جس طرح مناسب سمجھتے ہیں اپنا فرض پورا کرتے ہیں ۔