میرب فاطمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 195
- ری ایکشن اسکور
- 218
- پوائنٹ
- 107
الحمداللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔ اما بعد!
اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{الرحمن علی العرش الستوی } [ طٰہٰ :۵]
’’رحمن عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے،
جیسا کہ بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔‘‘
بخاری میں ھی استوی کا مطلب یہ نیان کیا گیا ھے کہ۔۔۔'ای علا وارتفع'یعنی چڑھا اور بلند ھوا۔(بحاری۔ کتاب
التوحید۔۔۔۔باب وکان عرشہ علی الماء فی ترجمۃ الباب)
مشہور مفسر قرآن امام مجاہر (تابعی) رحمہ اللہ نے استوی کی تعریف میں فرمایا۔۔۔۔
"علا علی العرش"عرش پر بلند ہوا۔۔۔
(صحیح البخاری مع فتح الباری13/403 قبل ح 7418، تفسیر الفریابی بحوالہ تغلیق التعلیق 5/345)
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ“وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میںپیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میںداخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “سورہ الحدید :4،الکتاب - ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324
اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھجری )فرماتے ہیں کہ :وھوشاھد علیکم ایھاالناس اینما کنتم یعلمکم و یعلم اعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع “اور ائے لوگو ! وہ (اللہ ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ،، وہ تمہارے اعمال ، پھرنااور ٹھکانا جانتاہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے “(تفسیرطبری ج 27 ص 125)
اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کےبارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106 ھجری ) فرماتے ہیںھوفوق العرش وعلمہ معھم اینما کانوا“ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں ) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیںبھی ہوں “(تفسیرطبری ج 28 ص 10 و سندہ حسن )
امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429 ھجری ) فرماتےہیںکہ “اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان ذلک علمہ وان اللہ فوق السمٰوات بذاتہ ، مستوعلی عرشہ کیف شاء “ بے شک اس سے اللہ کا علم مراد ہے ، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جیسے وہ چاہتا ہے “(شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص 144، 145)
اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ“ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود یے “ غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :“ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر مکان میںہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میںعرش پر ہے “(غنیتہ الطالبین ج ا ص 100 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الامام العارف معمر بن احمد الاصبہانی رحنہ اللہ سے نقل کیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اور بے شک اللہ اپنے عرش پر مستوی ہوا، بغیر کیفیت، تشبیہ اور تاویل کے۔۔۔استواء معقول ھے اور کیفیت مجہول ھے اور بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا۔۔عزوجل اپنی مخلوقات سے جدا ھے اور مخلوق اس سے جدا ھے، بغیر حلول کے۔(الاستقامہ لابن تیمیہ۔۔۔جلد1 ص167)
لیکن اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے، ہماری عقلیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ میں موجود ہے، کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے، البتہ اس کا علم اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی معیت ہر کسی کو حاصل ہے، جیسا کہ یہ بات عقائد کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔ بالخصوص امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’العلو للعلی الغفار‘‘ مفید مطالعہ ہے۔
وما علینا الا البلاغ
اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{الرحمن علی العرش الستوی } [ طٰہٰ :۵]
’’رحمن عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے،
جیسا کہ بخاری میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا… فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہُ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالٰی : { بل ھو قرآن مجید ¡ فی لوح محفوظ} (۷۵۵۴)]
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے … جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔‘‘
بخاری میں ھی استوی کا مطلب یہ نیان کیا گیا ھے کہ۔۔۔'ای علا وارتفع'یعنی چڑھا اور بلند ھوا۔(بحاری۔ کتاب
التوحید۔۔۔۔باب وکان عرشہ علی الماء فی ترجمۃ الباب)
مشہور مفسر قرآن امام مجاہر (تابعی) رحمہ اللہ نے استوی کی تعریف میں فرمایا۔۔۔۔
"علا علی العرش"عرش پر بلند ہوا۔۔۔
(صحیح البخاری مع فتح الباری13/403 قبل ح 7418، تفسیر الفریابی بحوالہ تغلیق التعلیق 5/345)
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ“وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میںپیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میںداخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “سورہ الحدید :4،الکتاب - ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324
اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی 310 ھجری )فرماتے ہیں کہ :وھوشاھد علیکم ایھاالناس اینما کنتم یعلمکم و یعلم اعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع “اور ائے لوگو ! وہ (اللہ ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ،، وہ تمہارے اعمال ، پھرنااور ٹھکانا جانتاہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے “(تفسیرطبری ج 27 ص 125)
اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کےبارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106 ھجری ) فرماتے ہیںھوفوق العرش وعلمہ معھم اینما کانوا“ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں ) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیںبھی ہوں “(تفسیرطبری ج 28 ص 10 و سندہ حسن )
امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429 ھجری ) فرماتےہیںکہ “اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان ذلک علمہ وان اللہ فوق السمٰوات بذاتہ ، مستوعلی عرشہ کیف شاء “ بے شک اس سے اللہ کا علم مراد ہے ، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جیسے وہ چاہتا ہے “(شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص 144، 145)
اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ“ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود یے “ غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :“ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر مکان میںہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میںعرش پر ہے “(غنیتہ الطالبین ج ا ص 100 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الامام العارف معمر بن احمد الاصبہانی رحنہ اللہ سے نقل کیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اور بے شک اللہ اپنے عرش پر مستوی ہوا، بغیر کیفیت، تشبیہ اور تاویل کے۔۔۔استواء معقول ھے اور کیفیت مجہول ھے اور بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا۔۔عزوجل اپنی مخلوقات سے جدا ھے اور مخلوق اس سے جدا ھے، بغیر حلول کے۔(الاستقامہ لابن تیمیہ۔۔۔جلد1 ص167)
لیکن اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے، ہماری عقلیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ میں موجود ہے، کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے، البتہ اس کا علم اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی معیت ہر کسی کو حاصل ہے، جیسا کہ یہ بات عقائد کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔ بالخصوص امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’العلو للعلی الغفار‘‘ مفید مطالعہ ہے۔
وما علینا الا البلاغ