• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک بہت بڑا شبہہ ہے تصویر کے حوالے سے اسکا حل بھی سمجھ لیں. شیخ محترم رفیق طاہر صاحب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
ایک بہت بڑا شبہہ ہے تصویر کے حوالے سے اسکا حل بھی سمجھ لیں.

کہ آج کوئی بھی شص ایسا نہیں جسکی تصویر نہ بنتی ہو. شناختی کارڈ ، پاسپورٹ اور امتحانات کے داخلہ فارمز کے علاوہ دفاتر، اداروں اور بسوں کے اندر بھی اور باہر بھی بلکہ اب تو تمام تر بڑی چھوٹی مارکیٹوں اور دکانوں کے ساتھ ساتھ کئی ایک مساجد میں بھی سیکیورٹی کیمراز مسلسل تصویر کشی میں مصروف رہتے ہیں.
یوں ہر شخص کی ویڈیو تیار ہوتی رہتی ہے اور کسی کو علم بھی نہیں ہوتا.
اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ
لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا.
مجرم تصویر بنانے والا ہے یا بخوشی کھنچوانے والا.
مضطر پر حالت اضطرار میں کوئی الزام نہیں ہوتا.
اور ہم نہ تو تصویر بناتے ہیں نہ بنواتے ہیں. اور نہ ہی ان سیکیورٹی کیمروں کو بند کروا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے بچ سکتے ہیں
اسکا گناہ ان لوگوں پر ہے جو یہ کام کرتے ہیں.


https://www.facebook.com/rafiqtahir1436/posts/322055171335252?fref=nf&pnref=story

ان کے پیج سے شیئر کیا ہے

شیخ محترم @رفیق طاھر حفظہ اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
ضرورت كى خاطر تصوير جائز ہے !!!
كيا كچھ حالات ايسے بھى ہيں جن ميں تصوير اور نقش كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

ذى روح كى تصوير يا كريد كر شكل بنانى ہر وقت اور مطلقا حرام ہے، ليكن جس كى ضرورت و حاجت پيش آ جائے مثلا پاسپورٹ يا شناختى كارڈ بنانے كے ليے، يا پھر مشبوہ قسم كے افراد كى پہچان كے ليے، يا پھر امتحان، يا ملازمت كى تعيين وغيرہ جس سے دھوكہ اور فراڈ ختم كرنا مقصود ہو، يا جس سے امن و امان كى حفاظت ہو تو اس ميں بھى بقدر ضرورت ہى اجازت دى جائيگى " انتہى.


ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 478 ).

http://islamqa.info/ur/34904
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
أبو عبد الرحمن الطاهر

لیکن ایک مرتبہ پھر دنیا طوعا نہ سہی کرھا ہی سہی فطرت کی لوٹ رہی ہے
اور یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکی ہے کہ تصویر پہچان کے لیے معیار نہیں. بلکہ شناخت کا معیار فنگر پرنٹ ہی ہیں. جیسے دنیا بھر کے دیگر ممالک میں بائیومیٹرک شناخت کا طریقہ رائج ہے اب الحمد للہ پاکستان میں بھی یہ طریقہ شروع ہے.
اللہ کرے کہ ہمارے حکام کو مزید عقل آئے اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھی اس فتنہء تصویر سے آزاد ہو جائیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
أبو عبد الرحمن الطاهر
ویسے اب یہ بات تو اہل علم پر عیاں ہو ہی چکی ہوگی کہ شناخت کے لیے بھی تصویر "اضطرار" نہیں ہے !
کیونکہ نہ تو تصویر سے صحیح شناخت ہو پاتی ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ تصویر کے بغیر شناخت ممکن نہ ہو ۔
بلکہ شناخت کا بہترین طریقہ فنگر پرنٹس ہیں ۔ جبکہ تصویر میں دھوکہ اور مغالطہ عام ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
انسانی شناخت کا ایڈوانس سرویلینس سسٹم !

دنیا کی بدلتی صورتحال کے سبب سیکیورٹی کے حوالے سے بہت زیادہ نئی مصنوعات اور ایجادات سامنے آتی رہی ہیں۔ اسی حوالے سے CeBit 2010 میں لوگوں کی شناخت کے لئے ایک انتہائی جدید 'ایڈوانس سرویلینس نظام' متعارف کرایا گیا۔

لوگوں کی شناخت کے لئے یہ جدید کمپیوٹر پروگرام ایک آسٹریلوی کمپنی NICTA کی جانب سے متعارف کرایا گیا، جسے ایڈوانس سرویلینس سسٹم کا نام دیا گیا ہے۔

اس نظام کے بارے میں NICTA کمپنی کے مینیجر برائے آئی پی رائٹس پال ہوف نے بتایا :"یہ دراصل چہرہ پہچاننے کا نظام ہے، جو کیمرے کے ذریعے حاصل کردہ کسی بھی تصویرکا ڈیٹا بیس میں موجود تصاویر سے موازنہ کرتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیمرے کے ذریعے حاصل کردہ جو بھی چہرے اسکرین پرنظرآرہے ہیں ان کے گرد ایک باکس بن جاتا ہے اوراس کے نیچے ڈیٹا بیس میں موجود کسی شکل سے اس کی مشابہت کی تفصیلات لکھی آرہی ہیں۔"

یہ پروگرام بیس لاکھ افراد کی ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی شکل کو پہچاننے یا اس کی مشابہت تلاش کرنے کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لیتا ہے

یہ پروگرام بیس لاکھ افراد کی ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی شکل کو پہچاننے یا اس کی مشابہت تلاش کرنے کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لیتا ہے

اس مقصد کے لئے کمپیوٹراسکرین کے اوپرایک ویڈیو کیمرہ نصب تھا، جو سامنے آنے والے افراد کی ویڈیو کو ایک کمپیوٹر پر منتقل کررہا تھا۔ اگراس فرد کا نام ڈیٹا بیس میں موجود ہوتا تو باکس کے نیچے اس کا نام لکھا آجاتا ہے ورنہ نام کی جگہ Unknown یعنی نامعلوم لکھا آجاتا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اگر کوئی شخص اپنا نام بتاتا تو اسے فوری طور تصویر کے ساتھ درج کردیا جاتا اور پھر وہ شکل اور نام ڈیٹا بیس کا حصہ بن جاتا۔ اس کے بعد جب بھی وہ شخص دوبارہ اسکرین پر نمودار ہوتا بھلے کتنے ہی مجمے میں کیوں نہ ہو اسکے چہرے کے گرد بنے باکس کے نیچے اس کا نام درج ہوتا۔ اس کمپیوٹر پروگرام کا ایک اور دلچسپ فیچر یہ ہے کہ کوئی ایسا چہرہ جس کے بارے میں تفیصلات ڈیٹا بیس میں موجود نہ ہوں مگراس کی مشابہت کسی دوسرے فرد سے ہوتو کمپیوٹر اسکرین پر لکھا آجاتا ہے کہ وہ چہرہ کسی خاص فرد سے کس حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب کیمرے کے سامنے آئے تو دلچسپ طور پر ان کی چہرے کے نیچے درج تفصیلات سے پتا چلا کہ وہ سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل سے 60 فیصد مشابہت رکھتے ہیں اور یہ بالکل درست تھا کیونکہ وہ کچھ ویسے ہی دکھائی دیتے تھے۔

اس کمپیوٹر سوفٹ ویئر کے ممکنہ استعمال کے بارے میں نکٹا کمپنی کے پال ہوف نے کچھ یوں بتایا: " اس کا کام کسی چہرے کو دیکھ کر اس فرد کی شناخت کرنا ہے، لہذا اگرآپ نے کچھ ایسے لوگوں کی فہرست بنا رکھی ہو، جن کے بارے میں آپ چاہتے ہوں کہ وہ کسی خاص علاقے میں داخل نہ ہوں، تو آپ اس نظام کوایک الارم کے ساتھ منسلک کرسکتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی ایسا فرد اس کے سامنے آئے گا تو خودکار طریقے سے الارم بج اٹھے گا۔ دوسری طرف اس کا ایک اوراستعمال بھی ہوسکتا ہے جیسے کچھ بڑے ہوٹل ہم سے رابطے میں ہیں اور جو اس نظام کو اپنے اہم مہمانوں کو پہچاننے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے ہی کوئی مہمان دروازے پر نمودار ہوگا تو مہماندار فورا اسے نام سے مخاطب کرکے اسے خوش آمدید کہے گا جس سے ظاہر ہے کہ مہمان خود کو بہت اہم اور اچھا محسوس کرے گا۔"

پال ہوف نے اس کمپیوٹر پروگرام کا ایک اور ممکنہ استعمال پولیس کی جانب سے تفتیش کے لئے بھی بتایا۔ مثلا کہیں کوئی فرد جرم کرتا ہے اور کسی ذریعے سے اس کی تصویر حاصل کرلی جاتی ہے تو اس نظام کے ذریعے پہلے سے موجود مجرموں یا مشتبہ افراد کی لسٹ میں سے اسے فوری طور پر تلاش کیا جاسکتا ہے۔"

ایڈوانس سرویلنس نظام کی ایک بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ یہ بیس لاکھ افراد کی ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی شکل کو پہچاننے یا اس کی مشابہت تلاش کرنے کے لئے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لیتا ہے۔

چونکہ کسی بھی فرد کی ڈیٹا بیس میں تلاش کے لئے تصویر یا ویڈیو کا ہونا ضروری ہے، تو اس کے لئے ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس تصویر یا ویڈیو کی کوالٹی کیسی ہونی چاہیے کہ یہ نظام بالکل درست طور پر کام کرسکے؟ یہی سوال جب ہم نے پال ہوف کے سامنے رکھا تو انہوں نے بتایا، " اس سے قبل جو اس طرح کے نظام تھے ان کے لئے بہت بہتر کوالٹی یعنی ہائی ریزولیوشن کی تصاویر یا وڈیو کا ہونا ضروری تھا مگر ہمارا یہ جدید نظام بہت ہی کم روزولیوشن کی تصاویراوروڈیو کی صورت میں بھی بالکل درست نتائج دیتا ہے۔"

رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : کشور مصطفیٰ

http://www.dw.de/انسانی-شناخت-کا-ایڈوانس-سرویلینس-سسٹم/a-5434247
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
شیخ محترم @رفیق طاھر کا موقف اس معاملے میں بہت سخت ہے -

شیخ محترم @کفایت اللہ بھی آپ کیا کہے گے اس بارے میں

@خضر حیات بھائی آپ کیا کہے گے اس بارے میں جب ہر شخص بلکے علماء کی ایک کثیر تعداد اپنی تقاریر کی ویڈیو بناتی ہے اور پوری دنیا میں اس کی اشاعت کرتی ہے -
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
اصل مقصود شناخت ہے جب یہ مقصد ایک حلال ذریعہ ( فنگر پرنٹ ریڈنگ) سے ممکن ہے بلکہ اب تو مشین کے ذریعہ نہایت آسان بھی تو پھر ایک حرام طریقہ (سرویلنس سسٹم) اپنانے کی کیا حاجت ہے؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

شناخت کے لئے تصویر کا ہونا ضروری ھے، صرف فنگر پرنٹ سے شناخت ممکن نہیں، مزید تصویر اور فنگر پرنٹ میں تبدیلی کی جا سکتی ھے جس پر ایک زمانہ سے آنکھیں بھی سکین کی جا رہی ہیں جو شائد آپ کے علم میں نہیں، آنکھ سکین پر کوئی تبدیلی ابھی تک ممکن نہیں۔

تصویر، فنگر پرنٹس، آئی سکین

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
موبائل ميں تصاوير محفوظ كرنا !!!

ميں نے يادگيرى تصاوير كے حكم كے بارہ ميں آپ كا جواب پڑھا ہے، اور اس كے بعد جو تصاوير بھى ميرے پاس تھيں انہيں جلا ديا ليكن ميرى كچھ تصاوير ميرى بہنوں اور پھوپھيوں كے پاس ہيں ميں ان كا كيا كروں ؟
اور اگر وہ مجھے تصاوير دينے سے انكار كر ديں تو مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
اور موبائل ميں تصاوير محفوظ كرنے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

ياد گيرى كے ليے ذى روح كى تصاوير محفوظ ركھنا جائز نہيں اس كى تفصيل سوال نمبر ( 10668 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

ان تصاوير كا آپ كى بہنوں اور پھوپھيوں كے پاس ہونے ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں، ليكن آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ انہيں اس كے متعلق شرعى حكم بتا ديں، اور انہيں ان تصاوير سے چھٹكارا حاصل كرنے كى نصيحت كريں، اور جو تصاوير آپ كى ہيں وہ ان سے مانگيں اور اگر وہ دينے سے انكار كر ديں تو آپ كے پر كچھ نہيں.

دوم:

جو تصاوير موبائل اور كمپيوٹر يا پھر ويڈيو كى تصاوير ہيں وہ فوٹو گرافى كے حكم ميں نہيں آتيں، كيونكہ وہ ثابت نہيں اور نہ ہى باقى رہتى ہيں، ليكن جب انہيں نكال كر پرنٹ كيا جائے تو پھر نہيں اس بنا پر موبائل ميں محفوظ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، جب تك كہ وہ كسى حرام چيز پر مشتمل ن ہيں، مثلا عورتوں كى تصاوير.

مزيد آپ سوال نمبر ( 10326 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/91356

شیخ محترم @رفیق طاھر صاحب بائی لائٹ کی ہوئی کی وضاحت کر دے - کیونکہ ھم میں سے اکثر اپنی فیملی کی تصاویر موبائل میں سیف رکھتے ہیں
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
اسکی وضاحت میرے اس فتوی میں موجود ہے:

عام سادہ کيمرے يا ويڈيو کيمرے سے لي جانيوالي تصاوير کا کيا حکم ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب وإليہ المرجع والمآب
تصوير کشي اللہ رب العالمين نے حرام کر رکھي ہے , رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ اللہ تعالى نے فرمايا : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا حَبَّةً وَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً [ صحيح بخاري كتاب اللباس باب نقض الصور (5953)]
اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو ميري مخلوق جيسي تخليق کرنا چاہتا ہے , يہ کوئي دانہ يا ذرہ بنا کر دکھائيں ۔
نيز فرمايا :إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ [ صحيح بخاري كتاب اللباس باب عذاب المصورين يوم القيامة (5950)]
الله کے ہاں قيامت کے دن سب سے سخت عذاب تصويريں بنانے والوں کو ہوگا۔
مزيد فرمايا : أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ [ صحيح بخاري كتاب اللباس باب ما وطئ من التصاوير (5954)]
قيامت کے دن سب سے زيادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کي تخليق کي نقالي کرتے ہيں ۔
مندرجہ بالا احاديث اور ديگر بہت سے دلائل تصوير کي حرمت پر دلالت کرتے ہيں , اور يہ ايسا مسئلہ ہے کہ جس پر امت کا اتفاق ہے ۔
اور جو اختلاف ہے وہ اس بات ميں واقع ہوا ہے کہ تصوير بنانے کے جديد ذرائع فوٹوگرافي , مووي ميکنگ وغيرہ کيا حکم رکھتي ہے ؟
کچھ اہل علم کي رائے يہ ہے کہ يہ تصاوير نہيں ہيں بلکہ يہ عکس ہے , اور عکس کے جواز ميں کوئي شک نہيں ہے , لہذا فوٹو گرافي اور مووي بنانا جائز اور مشروع عمل ہے ۔
جبکہ اہل علم کا دوسرا گروہ اسے بھي تصوير ہي سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ يہ تصوير کي جديد شکل ہے , چونکہ تصوير کي حرمت ميں کوئي شبہہ نہيں ہے , لہذا فوٹو گرافي اور ويڈيو ناجائز اور حرام ہے ۔
اہل علم کا ايک تيسرا گروہ يہ رائے رکھتا ہےکہ يہ تصوير ہي ہے , ليکن بامر مجبوري ہم دين کي دعوت و تبليغ کي غرض سے ويڈيو کو استعمال کرسکتے ہيں ۔ يہ رائے اکثر اہل علم کي ہے جن ميں عرب وعجم کے بہت سے علماء شامل ہيں ۔
يعني اس تيسري رائے کے حاملين نے ويڈيو کو اصلا مباح اور حلال قرار نہيں ديا ہے , ليکن ديني اصول " اضطرار" کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہيہ " الضرورات تبيح المحظورات " (کہ ضرورتيں ناجائز کاموں کو جائز بنا ديتي ہيں ) پر عمل پيرا ہوتے ہوئے اليکٹرانک ميڈيا کے اس تيز ترين دور ميں ويڈيو کو تبليغ دين کے مقاصد ميں بامر مجبوري استعمال کرنا مباح قرار ديا ہے , يعني دعوت و تبليغ کے علاوہ , يہ گروہ بھي اسے ناجائز ہي سمجھتا ہے , اور بلا امر مجبوري اسے جائز قرار نہيں ديتا ہے ۔ اس اعتبار سے اس گروہ کي رائے مقدم الذکر دونوں گروہوں کي رائے کے مابين ہے ۔
ليکن مسئلہ چونکہ اجتہادي ہے اس ميں خطأ کا امکان بھي بہر حا ل موجود ہي ہے , لہذا ديکھنا يہ ہے کہ ان تينوں فريقوں کے کيا دلائل ہيں اور ان تينوں ميں سے مضبوط دلائل کس گروہ کے پاس ہيں کيونکہ اجتہادي مسئلہ ميں بھي جب مجتہدين کي آراء مختلف ہو جائيں تو حق اور صواب کسي ايک ہي گروہ کے پاس ہوتا ہے۔
اور ہماري تحقيق کے مطابق دوسرے گروہ کي بات مبني برحق ہے ۔
اور پہلا گروہ اسے عکس قرار ديکر غلطي پر ہے اور تيسرا گروہ " اضطرار" کا لفظ بول کر "حيلہ" کا مرتکب ہے۔


اس اجما ل کي تفصيل ہم ذيل ميں پيش کرتے ہيں :

سب سے پہلے تو يہ بات سمجھ ليں کہ عکس اور تصوير ميں کيا فرق ہے ؟
عکس اسوقت تک باقي رہتا ہے جب تک معکوس سامنے موجود ہو , اور جونہي معکوس سامنے سے غائب ہو جائے عکس بھي غائب ہو جاتا ہے ۔ اور پھر جس پاني يا آئينہ پر عکس ديکھا گيا ہے دوبارہ اس آئينہ پر وہ عکس کبھي نہيں ديکھا جاسکتا جبتک معکوس کو دوبارہ آئينہ کے روبرو نہ کيا جائے ۔ اور تصوير در اصل اسي عکس کو محفوظ کرلينے سے بنتي ہے ۔!!!
کيونکہ مصور کسي بھي چيز کو ديکھتا ہے تو اس چيز کا عکس اسکي آنکھيں اسکے دماغ ميں دکھاتي ہيں پھر اسکے ہاتھ اس عکس کو کسي کاغذ , چمڑے , لکڑي يا پتھر , وغيرہ پر محفوظ کر ديتے ہيں تو اسکا نام تصوير ہو جاتا ہے جسکي حرمت پر احاديث دلالت کرتي ہيں اور تمام امت جنکي حرمت پر متفق ہے ۔

اختلاف صرف واقع ہوا ہے تو جديد آلات سے بنائي جانے والي تصاوير پر , ليکن اگر بنظر غائر ديکھا جائے تو يہي بات سمجھ آتي ہے کہ ان آلات يعني کيمرہ وغيرہ سے بنائي جانے والي تصاوير بھي تصاوير ہي ہيں عکس نہيں ہيں !!! , کيونکہ اس دور جديد جسطرح اور بہت سے کام مشينوں سے ليے جانے لگے ہيں اسي طرح تصوير کشي کا کام بھي جديد آلات کے سپرد ہوگيا ہے ۔ ان کيمروں سے تصوير کھينچنے والا اپنے ہاتھ سے صرف اس مشين کا بٹن دباتا ہے جسکے بعد وہ سارا کام جو پہلے پہلے ہاتھ سے ہوتا تھا اس سے کہيں بہتر انداز ميں وہ مشين سر انجام دے ديتي ہے ۔
اور ويڈيو کيمرے کے بارہ ميں يہ غلط فہمي بھي پائي جاتي ہے کہ يہ متحرک تصوير بناتا ہے , حالانکہ امر واقع يہ ہے کہ ويڈيو کميرہ بھي متحرک تصوير نہيں بناتا بلکہ ساکن تصاوير ہي بناتا ہے ليکن اسکي تصوير کشي کي رفتار بہت تيز ترين ہوتي ہے , ايک ويڈيو کيمرہ ايک سيکنڈ ميں تقريبا نو صد (900) سے زائد تصاوير کھينچتا ہے , اور پھر جب اس ويڈيو کو چلايا جاتا ہے تو اسي تيزي کے ساتھ انکي سلائيڈ شو کرتاہے ۔ جسے اس فن سے نا آشنا لوگ متحرک تصوير سمجھ ليتے ہيں حالانکہ وہ متحرک نہيں ہوتي بلکہ ساکن تصاوير کا ہي ايک تسلسل ہوتا ہے کہ انساني آنکھ جسکا ادراک نہيں کرسکتي ۔ آپ ديکھتے ہيں جب پنکھا اپني پوري رفتا ر سے چل رہا ہو تو اسکي جانب ديکھنے والے کو پنکھے کے پر نظر نہيں آتے بلکہ اسے پنکھے کي موٹر کے گرد ايک ہالہ سا بنا دکھائي ديتا ہے اور يوں محسوس ہوتا ہے کہ شايد اسکے پر نہيں ہيں بلکہ ايک شيشہ سا ہے جو اسکے گرد تنا ہوا ہے ۔ جبکہ ذي شعور اور صاحب علم افراد يہ سب اپني آنکھوں سے ديکھنے کے بعد يقين رکھتے ہيں کہ يہ ہماري آنکھوں کا دھوکہ ہے , پنکھے کے پر يقينا موجود ہيں اور وہي گھوم کر ہميں ہوا دے رہے ہيں , ليکن جس شخص نے پنکھے کو ساکن حالت ميں نہ ديکھا ہو گا شايد وہ اس بات پر يقين نہ کرسکے ۔ يہ تو ايک پنکھے کي مثال ہے جسکي رفتار ويڈيو کيمرے سے کم ازکم پانچ گنا کم ہوتي ہے ۔ہماري اس بات کو وہ لوگ بخوبي سمجھتے ہيں جو" مووي ميکنگ اور ايڈيٹنگ" کے فن سے آشنا ہيں يا "کمپيوٹر کے سافٹ وير " ايڈوب فوٹو شاپ" کو اچھي طرح سے سمجھتے ہيں ۔
الغرض ويڈيو کيمرہ بھي متحرک تصوير نہيں بناتا ہے بلکہ وہ بھي ساکن تصاوير ہي کھينچتا ہے اور انہي کي " سلائيڈ " "شو" کرتا ہے ۔

اور ان کيمروں سے لي جانے والي تصاوير ميں عکس کا پہلو ہر گز نہيں پايا جاتا ہے کيونکہ يہ تصاوير عکس کے بر عکس کسي بھي وقت ديکھي جاسکتي ہيں , خواہ وہ شخص جسکي تصاوير لي گئي ہيں دنيا سے ہي کيوں نہ چل بسا ہو۔
رہي تيسرے گروہ کي اضطرار والي بات تووہ بھي بلکل غلط ہے !!!
کيونکہ اضطرار ميں ممنوعہ کاموں کو سرانجام دينے کي جو رخصت اللہ نے دي ہے اس ميں بھي قيد لگا ئي ہے کہ "غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ "[البقرة : 173] نيز فرمايا "غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ" [المائدة : 3] , يعني بوقت اضطرار , بقدر اضطرار ممنوع وحرام کي رخصت ہے , وقت اضطرار کے بعد يا قدر اضطرار سے زائد نہيں !!!
اور پھر شريعت نے لفظ " ضرورۃ " نہيں بلکہ " اضطرار" بولا ہے۔ اور فقہي قاعدہ " الضرورات تبيح المحظورات" انہي آيات سے مستفاد ہے اور اس ميں بھي لفظ ضرورت کا معنى اضطرار ہي ہے ۔


اضطرا ہوتا کيا ہے ؟

يہ سمجھنے کے ليے ہم انہي آيات پر غور کريں جن ميں يہ لفظ استعمال ہوا ہے تو بات بہت واضح ہو جاتي ہے ۔
اللہ تعالى فرماتے ہيں : " إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ " [البقرة : 173] يقينا تم پر صرف اور صرف مردار , خون , خنزير کا گوشت اور غير اللہ کے ليے پکارا گيا (ذبيحہ وغيرہ) حرام کيا گيا ہے , تو جو شخص مجبور ہو جائے ,حدسے بڑھنے والا اور دوبارہ ايسا کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئي گنا ہ نہيں ہے يقينا اللہ تعالى بہت زياد ہ مغفرت کرنيوالا اور نہايت رحم کرنيوالا ہے ۔

اس آيت سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ بھوک کي وجہ سے اگر کوئي شخص مجبور ہو جائے اور اسکي دسترس ميں کوئي حلال چيز نہ ہو , اور بھوک کي بناء پر اسکي زندگي کو خطرہ لاحق ہو اور حرام کھانے سے اسکي جان بچ سکتي ہو تو اسکے ليے رخصت ہے کہ جسقدر حرام کھانے سے اسکي جان بچ سکتي ہے صرف اسقدر حرام کھالے اس سے زائد نہ کھائے , پيٹ بھرنا شروع نہ کردے اور پھر دوبارہ اس حرام کي طرف نگا ہ اٹھا کر بھي نہ ديکھے ۔
جبکہ دين کي دعوت و تبليغ کے ليے يہ کوئي مجبوري نہيں ہے کہ ويڈيو بنائي جائے , اور دعوت دين ويڈيو کے ذريعہ نہيں آڈيو کے ذريعہ ہي ہوتي ہے حتى کہ ويڈيو ميں نظر آنے والے عالم دين کي تصوير لوگوں کو راہ ہدايت پرلانے کا باعث نہيں بني ہے بلکہ اسکي آواز ميں جو دلائل کتاب وسنت کے مذکور ہوتے ہيں وہ کسي بھي شخص کے راہ ہدايت اختيار کرنے يا حق بات پر عمل کرنے کا باعث بنتے ہيں ۔
يادر ہے کہ ہم مطلقا ويڈيو يا تصاوير کے خلاف نہيں ہيں اور نہ ہي کوئي صاحب علم مطلقا تصوير يا ويڈيو کو ناجائز کہہ سکتا ہے , کيونکہ ممنوع صرف ذي روح جانداروں کي تصاوير ہيں , بس ويڈيو ميں ذي روح کي تصاوير نہ ہوں تو اسکي حلت ميں کسي قسم کا کوئي اشکال باقي نہيں رہتا ہے ۔
مذکورہ بالا دلائل کي رو سےيہ بات روز روشن کي طرح عياں ہوجاتي ہے کہ تصوير کي جديد ترين تمام تر صورتيں ناجائز ہيں ان صورتوں ميں سے کسي کوبھي اپنا کر ذي روح کي تصوير کشي نہيں جاسکتي ہے اور يہ تصا وير ہي ہيں عکس نہيں , اور دعوت دين کے بہانے انہيں اضطرار قرار دينا فہم کا سہو ہے ۔
ھذا , واللہ تعالى أعلم , وعلمہ أکمل وأتم , ورد العلم إليہ أسلم , والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم
 
Top