نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’ تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو‘، مطلب یہ ہے میرے بھائی کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے، کیسے تکبیر کہی؟ کیسے رفع الیدین کیا؟ ہاتھ کہاں اور کیسے باندھے ؟ کیسے رکوع کیا؟ کیسے سجود کیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تم بھی سیم اسی طرح نماز پڑھو، جیسے میں نے پڑھی ہے۔
مسلک اہل حدیث کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور عورت و مرد دونوں کے لئيے ہے ۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی نفی کرتے ہیں
طریقہ نماز جو مردوں کاہے۔ وہی عورتوں کا ہے۔ کیونکہ دلائل صحیحہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جیسی مرد کی نماز یعنی جس طریقہ پر مرد نماز پڑھے۔ اسی طریقہ پر عورت بھی نماز پڑھے۔۔۔ اور ہمارے علماء بھی اس لیے کہتے ہیں کیونکہ شریعت اسلامیہ سے اسی طرح ہی ثابت ہے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ ۔
’’ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ-(الاعراف)‘‘
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو
اس لیے ہمارے مسلک اہل حدیث کے علماء بھی کہتے ہیں۔ کہ جیسے مرد نماز پڑھے، سیم اسی طریقہ کے مطابق عورت بھی نماز پڑھے۔
اب ہم احادیث کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کی بھی امامت کی ، بچوں اور عورتوں کی بھی امامت کی
جی بالکل آپ نے درست دیکھا ہے۔ اور ان احادیث پر آج بھی ہمارا عمل ہے الحمدللہ۔ ہماری مساجد میں آپ دیکھ سکتے ہیں(خاص طور جمعہ کی نماز) کہ امام کے پیچھے مرد بھی ہوتے ہیں۔ بچے بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں۔
لیکن جب عورت کی امامت کی بات آتی ہے تو اہل حدیث علماء عورت کو صرف عورتوں کی امامت کرنے کا جواز کا فتوی دیتے ہیں
اس کی کیا وجہ ہے ؟
محترم تلمیذ صاحب آپ نے جو اوپر حدیث کوٹ کی، وہ کچھ اور بتلا رہی ہے۔ اور آپ کی یہ بات اور ہے۔ برائے مہربانی کم از کم وجہ جاننے کےلیے یہ تو دیکھ لیتے کہ حدیث اور وجہ کی مناسبت بھی ہے کہ نہیں ؟
جناب ایک مسئلہ ہے عورت کا طریقہ نماز کیسا ہونا چاہیے؟ دوسرا مسئلہ ہے کہ عورت امامت کروا سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر کرواسکتی ہے تو کس کی ؟ مردوں کی یا عورتوں کی ؟ اگر کروائے گی تو کہاں کھڑی ہوگی ؟ آگے یا صف کے وسط میں ؟
آپ دونوں مسئلوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔ حدیث طریقہ کی پیش کررہے ہیں۔ اور مسئلہ امامت کا چھیڑ رہے ہیں۔ اس لیے خدارا رحم فرمائیں۔ ہم جو مرد اور عورت کی امامت میں فرق بتلاتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ دلائل شرعیہ سے بتلاتے ہیں۔
اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ یہی مسلک آپ کا بھی ہے۔ تسلی کےلیے دیکھیئے کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ جلد1، ص409۔
اگر تو مذکورہ حدیث عورت اور مرد کی نماز میں فرق کے خاتمے کی دلیل ہے تو اہل حدیث علماء نے امامت میں مرد و عورت کے فرق کو کس دلیل کی بنا پر جواز بخشا ۔
جزاکم اللہ خیرا
جناب من مرد اور عورت کی نماز کا طریقہ ایک ہے۔ یعنی جس طریقہ پر مرد نماز پڑھیں گے، اسی طریقہ پر عورت نماز پڑھے گی۔۔۔ جیسا کہ آپ کی ہی عورتیں ہمارے طریقہ پر سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں۔ الحمدللہ۔۔۔ باقی احکام میں مرد اور عورت میں فرق ہے۔ اور آپ کا سوال طریقہ پر نہیں بلکہ احکام کے متعلق ہے۔ کہ عورت امام کرواسکتی ہے تو پھر اہل حدیث علماء مرد اور عورت کی امامت میں فرق کیوں کرتے ہیں ؟
جناب من عورت کی امامت کے حوالے سے یہ بھی یاد رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔ (عبد الرزاق (۵۰۸۶)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۵)، آثار السنن (۵۱۴)، ابن أبی شیبۃ (۲/۸۹) ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن (۴/۲۴۳) میں اس کی سند کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
اور اسی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صف کے درمیان میں کھڑے ہو کر عصر کی نماز عورتوں کو پڑھائی تھی۔ (عبدالرزاق (۵۰۸۲)، الأوسط لابن المنذر (۴/۲۲۷) ابن أبی شیبۃ (۲/۸۸)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۷)
بعض لوگ عورتوں کی امامت کے قائل نہیں ہیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت پیش کرتے ہیں:
’’ لَا خَیْرَ فیْ جَمَاعَۃِ النِّسَائِ اِلَّا فِیْ مَسْجِدٍ اَوْ فِیْ جَنَازَۃِ قَتِیْلٍ ‘‘ (طبرانی أوسط (۹۳۰۵)، مسند أحمد (۶/۶۶، ح : ۲۴۸۸۰)
''مسجد اور کسی شہید کے جنازہ کے علاوہ عورتوں کی جماعت میں خیر نہیں ہے۔''
اس کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ مختلط و مدلس ہے اور اس کے قدیم شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان نہیں کی۔ یہ روایت الوازع بن نافع کی سند سے طبرانی اوسط (۸/۶۴،ح : ۷۱۲۶) اور طبرانی کبیر (۱۲/۳۱۷) میں بھی موجود ہے لیکن الوازع بن نافع متروک راوی ہے۔
لہٰذا عورت کی جماعت کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ عورت اگر عورتوں کی جماعت کروانا چاہے تو درمیان میں کھڑی ہو کر نماز پڑھا سکتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔