آپ نے جو صرف اجماع کی بات کی اور جمھور علماء کی رائے کے متعلق کہا کہ یہ غلط بھی ہوسکتا ہے تو پہلی بات یہ جن آیات و احادیث سے ہم اجماع کا مطلب لیتے ہیں تو وہاں جمھور علماء کے اقوال کی روشنی میں لیتے ہیں ، وہاں بھی اجماع نہیں ، یعنی اجماع کے ثبوت میں بھی جو قرآنی آیات پیش کی جاتیں ہیں یا احادیث پیش کی جاتیں ہیں ان سے استنباط میں بذات خود اجماع نہیں بلکہ وہاں اجماع کا ثبوت بذات خود جمہور علماء کے اقوال کی روشنی میں کیا جاتا ہے (1)
موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے
آپ نے جو یہ کہا حدیث صلوا کما رایتمونی اصلی سے عورت کی مردوں کی امامت کا جواز نہیں نکل سکتا کیوں کہ یہ اجماع امت کے خلاف ہے ۔ تو محترم عورت کی جو مردوں کی امامت ہے تو یہ جمھور علماء کے اقوال ہے اجماع امت نہیں (2)
ملاخطہ ہو کچھ فقہاء کے اقوال
امام الطبری اور امام ابو ثور نے عورت کی مردوں کی امامت کی مطلق اجازت دی ہے خواہ فرق ہو یا نفل نماز (حوالہ بدایہ المجتھد لابن راشد)
بعض نےعورت کی محارم مردوں کی امامت کا جواز دیا ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل اور اس صورت میں وہ مردوں کی پیچھے کھڑے ہو کر امامت کروائے گي
کتاب الانصاف للمرداوي
بعض نے فرض میں تو عورت کی مردوں کی امامت کا جواز نہیں دیا لیکن نفل میں جائز کہا ہے جیسا کہ تراویح میں امامت کے متعلق بعض حنابلہ کا قول ہے
(کتاب الانصاف )
تو عورت کی مردوں کی امامت کی نفی کرنے میں آپ کا اجماع امت کی دلیل تو غلط ہے کیوں اس نفی پر جمھور علماء کے اقوال تو ہیں اجماع نہیں
تو اب آپ کیا دلیل دیتے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ حدیث سے امامہ المرأه للرجال کے معنی نکلنے کی نفی ثابت ہوجائے (3)