• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
مسلک اہل حدیث کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور عورت و مرد دونوں کے لئيے ہے ۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی نفی کرتے ہیں
اب ہم احادیث کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کی بھی امامت کی ، بچوں اور عورتوں کی بھی امامت کی
لیکن جب عورت کی امامت کی بات آتی ہے تو اہل حدیث علماء عورت کو صرف عورتوں کی امامت کرنے کا جواز کا فتوی دیتے ہیں
اس کی کیا وجہ ہے ؟
اگر تو مذکورہ حدیث عورت اور مرد کی نماز میں فرق کے خاتمے کی دلیل ہے تو اہل حدیث علماء نے امامت میں مرد و عورت کے فرق کو کس دلیل کی بنا پر جواز بخشا ۔
جزاکم اللہ خیرا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
عورت و مرد کی نماز میں فرق صرف امامت ہی میں نہیں، بلکہ بعض دیگر چیزوں میں بھی ثابت ہے اور اہلحدیث اس سے انکار نہیں کرتے۔ مثلاً
  • اگر امام بھول جائے تو مرد سبحان اللہ کہیں گے اور خواتین تالی بجائیں گی۔
  • عورت و مرد کے ضروری لباس میں فرق۔
  • مرد کے لئے پہلی اور عورت کے لئے آخری صف کا افضل ہونا۔ وغیرہ۔
صحیح بخاری کی جو حدیث آپ نے پیش کی ہے، اس سے نماز پڑھنے کے طریقے میں فرق کی نفی ہوتی ہے، نا کہ دیگر متعلقات میں۔ لہٰذا تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کی جو نماز ہے وہ مرد و عورت کے لئے یکساں ہے۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، الا یہ کہ کوئی بزور پیدا کر لے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ:

عورت كى نماز كى ہر حالت سجدہ اور بيٹھنے وغيرہ ميں بالكل مرد كى طرح ہى ہے، اس كے دلائل درج ذيل ہيں:

1 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:


" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
رواہ البخارى.
يہ خطاب مرد اور عورت سب كو شامل ہے.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے طريقہ ميں جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس ميں مرد اور عورت برابر ہيں، سنت نبويہ ميں كوئى بھى دليل نہيں ملتى جو يہ تقاضا كرتى ہو كہ اس ميں سے كچھ ميں عورتيں مستثنى ہيں بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان:

" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
عورتوں كو بھى شامل ہے. "
ديكھيں: صفۃ الصلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 189 ).

2 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

" نہيں سوائے اس بات كہ عورتيں مردوں كى شقائق ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 204 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 105 ) دونوں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے اور مسند دارمى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كي ہے حديث نمبر ( 764 ).

عجلونى كہتے ہيں:

ابن قطان كا كہنا ہے: يہ حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے ضعيف ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كى طريق سے صحيح.
ديكھيں: كشف الخفاء ( 1 / 248 ).

خطابى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

اس ميں فقاہت يہ ہے كہ: جب مذكر كے الفاظ سے خطاب كيا جائے تو يہ عورتوں كو بھى خطاب ہو گا، ليكن مخصوص جگہوں ميں جہاں تخصيص كى دليل مل جائے. اھـ

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے:

عورت مرد كى طرح نہيں بيٹھے گى، اس ميں انہوں نے دو ضعيف حديثوں سے استدلال كيا ہے:
امام بيھقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس مسئلہ ميں دو ضعيف حديثيں مروى ہيں اس طرح كى احاديث قابل حجت نہيں، وہ احاديث درج ذيل ہيں:

عطاء بن عجلان كى حديث جو انہوں نے ابو نضرۃ العبدى عن ابى سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مردوں كو اپنے سجدوں ميں كشادگى اور كھل سجدہ كرنے كا حكم ديتے، اور عورتوں كو حكم ديتے كہ وہ اپنے سجدوں ميں نيچى ہوا كريں، اور تشھد ميں مردوں كو باياں پاؤں بچھانے اور داياں كھڑا كرنے اور عورتوں كو چارزانو ہو كر بيٹھنے كا حكم ديتے "
حديث بيان كرنے كے بعد امام بيہقى رحمہ اللہ كہتے ہيں، يہ حديث منكر ہے. اھـ

اور دوسرى حديث درج ذيل ہے:

ابو مطيع الحكم بن عبد اللہ البلخى كى ہے جو انہوں نے عمر بن ذر عن مجاہد عن عبداللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب نماز ميں عورت بيٹھے تو اپنى ايك ران دوسرى پر ركھے، اور جب سجدہ كرے تو اپنا پيٹ اپنى دونوں رانوں سے لگائے تو يہ اس كے ليے زيادہ ستر كا باعث ہے، اور اللہ تعالى اس كى طرف ديكھتا ہے تو فرماتا ہے اے ميرے فرشتو ميں تمہيں گواہ بنا كر كہتا ہوں ميں نے اس عورت كو بخش ديا"
سنن البيھقى الكبرى ( 2 / 222 ).

يہ حديث ضعيف ہے، كيونكہ يہ ابو مطيع البلخى كى روايت ہے، اس كے متعلق ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ابن معين كا كہنا ہے: ليس بشئ، اور مرہ نے اسے ضعيف كہا ہے، اور امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں يہ ضعيف اور صاحب الرائے ہے، اور امام نسائى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ضعيف ہے"
ديكھيں: لسان الميزان ( 2 / 334 ).

اور ابن عدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور ابو مطيع اپنى احاديث ميں بين الضعف ہے، اور عام طور اس كى روايت كى متابعت نہيں كى جائيگى.

ديكھيں: الكامل فى ضعفاء الرجال ( 2 / 214 ).

تيسرى حديث:

يزيد بن ابو حبيب بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز پڑھنے والى دو عورتوں كے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے:

" جب تم سجدہ كرو تو اپنا گوشت زمين كے ساتھ ملا لينا؛ كيونكہ اس ميں عورت مرد كى طرح نہيں ہے "

اسے ابو داود نے مراسيل صفحہ نمبر ( 118 ) ميں اور امام بيہقى نے ( 2 / 223 ) ميں روايت كيا ہے.
اور يہ حديث مرسل ہے، جو كہ ضعيف كى ايك قسم ہے.

اور ابن ابو شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ميں ايك بعض سلف سے ايك اثر بيان كيا ہے جس ميں عورت اور مرد كى نماز ميں فرق بيان ہوا ہے.
ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبہ ( 1 / 242 ).

ليكن دليل اور حجت تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور حديث ميں ہے.

پھر بعض سلف رحمہم اللہ سے نماز ميں مرد و عورت كى برابرى كے متعلق بھى روايات ہيں.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ام درداء رحمہا اللہ نماز ميں مرد كى طرح ہى بيٹھا كرتى تھيں اور يہ فقيہ عورت تھيں.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے " فتح البارى " ميں بيان كيا ہے كہ:

ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ كى دو بيوياں تھيں، ان دونوں كو ام درداء كہا جاتا تھا، بڑى تو صحابيہ ہيں، اور چھوٹى تابعيہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اختيار يہ كيا ہے كہ يہاں امام بخارى كى كلام ميں چھوٹى مراد ہيں.

واللہ اعلم .
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
مسلک اہل حدیث کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور عورت و مرد دونوں کے لئيے ہے ۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی نفی کرتے ہیں
اب ہم احادیث کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کی بھی امامت کی ، بچوں اور عورتوں کی بھی امامت کی
لیکن جب عورت کی امامت کی بات آتی ہے تو اہل حدیث علماء عورت کو صرف عورتوں کی امامت کرنے کا جواز کا فتوی دیتے ہیں
اس کی کیا وجہ ہے ؟
اگر تو مذکورہ حدیث عورت اور مرد کی نماز میں فرق کے خاتمے کی دلیل ہے تو اہل حدیث علماء نے امامت میں مرد و عورت کے فرق کو کس دلیل کی بنا پر جواز بخشا ۔
جزاکم اللہ خیرا
الحمد للہ:

اگر عورت امامت كروائے تو وہ عورتوں كے درميان كھڑى ہوگى اس كى دليل:
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اسى طرح عورتوں كى امامت كروانے والى كے ليے ہر حالت ميں عورتوں كے درميان كھڑا ہونا مسنون ہے، كيونكہ وہ سب كى سب پردہ ہيں.
ديكھيں: المغنى ( 1 / 347 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" سنت يہ ہے كہ عورت كى امام كروانے و الى ان كے وسط اور درميان ميں كھڑى ہو گى، اس كى دليل عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے كہ انہوں نے عورتوں كى امامت كروائى اور وہ ان كے وسط ميں كھڑى ہوئيں "
ديكھيں: المجموع شرح المھذب ( 4 / 192 ).

اور " اگر عورتيں نماز باجماعت ادا كريں تو ان كى امام عورت ان كے وسط ميں كھڑى ہو گى، كيونكہ اس ميں زيادہ ستر اور پردہ ہے، اور پھر عورت سے تو بقدر استطاعت پردہ اور ستر مطلوب ہے، اور يہ معلوم ہے كہ عورت كا عورتوں كے درميان كھڑا ہونا ان كے سامنے كھڑا ہونے سے زيادہ پردہ اور ستر ہے اس كى دليل عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے:

" وہ دونوں جب امامت كرواتيں تو ان كى صف ميں كھڑى ہوتيں "
يہ صحابيہ كا فعل ہے، جب اس كى مخالفت ميں كوئى نص نہيں تو صحيح يہى ہے كہ يہ حجب ہے، اور عورت ايك عورت كے ساتھ ہو تو وہ ايك مرد كے ساتھ كھڑا ہونے كى طرح ہى عورت كے پہلو ميں كھڑى ہو گى "

ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 387 ).

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
مسلک اہل حدیث کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور عورت و مرد دونوں کے لئيے ہے ۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی نفی کرتے ہیں اب ہم احادیث کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کی بھی امامت کی ، بچوں اور عورتوں کی بھی امامت کی لیکن جب عورت کی امامت کی بات آتی ہے تو اہل حدیث علماء عورت کو صرف عورتوں کی امامت کرنے کا جواز کا فتوی دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو استثنائی صورت کو سمجھنا ہوگا ۔
مثلاً ہر میتہ (مردہ) کھانا حرام ہے ۔ مگر مچھلی اس سے مستثناء ہے ۔کیسے ؟ ذیل میں پڑھئیے گا ۔

ارشاد باری ھے :"إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه إن الله غفور رحيم"(سورة البقرة الآية 173)
ترجمہ:تم پر مردہ اور (بہا ھوا) خون اور سور کا گوشت اور ھر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ھو حرام ھے، پھر جو مجبور ھو جاۓ اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ھو اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نھیں، اللہ تعالی بخشش کرنے والا مھربان ھے(آیت 173

صحیح البخاری : کتاب الذبائح والصید: باب : قول اللہ : احل لکم صیدالبحر ، حدیث نمبر 5493 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «غَزَوْنَا جَيْشَ الخَبَطِ، وَأُمِّرَ أَبُوعُبَيْدَةَ، فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا، فَأَلْقَى البَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا لَمْ يُرَ مِثْلُهُ، يُقَالُ لَهُ العَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ، فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ»
یعنی یہ مچھلی مردہ تھی ۔
اورصحیح مسلم: کتاب الصید والذبائح وما یوکل من الحیوان ، باب: اباحۃ میتات البحر ، حدیث نمبر ۱۹۳۵
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا عنوان آیت احل لکم صیدالبحر سے لیا ہے جس سے مراد ہے کہ صیدالبحر میں میت اور زندہ دونوں آ جاتے ہیں ۔ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے باب کا عنوان اباحۃ میتات البحر رکھا ہے یعنی سمندر کا مردار حلال ہے ۔
اس کے علاوہ ایک روایت ہے :أحلَّت لَكُم ميتتانِ ودَمانِ ، فأمَّا الميتَتانِ ، فالحوتُ والجرادُ ، وأمَّا الدَّمانِ ، فالكبِدُ والطِّحالُ اس کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر کا قول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
ایک سوال اور اتنے سارے جواب۔ تلمیذ بھائی کی تو لاٹری نکل گئی۔ ابتسامہ۔
مجھے نہیں لگتا اب کوئی اشکال باقی رہنا چاہیے۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے
صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’ تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو‘، مطلب یہ ہے میرے بھائی کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے، کیسے تکبیر کہی؟ کیسے رفع الیدین کیا؟ ہاتھ کہاں اور کیسے باندھے ؟ کیسے رکوع کیا؟ کیسے سجود کیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تم بھی سیم اسی طرح نماز پڑھو، جیسے میں نے پڑھی ہے۔
مسلک اہل حدیث کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور عورت و مرد دونوں کے لئيے ہے ۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی نفی کرتے ہیں
طریقہ نماز جو مردوں کاہے۔ وہی عورتوں کا ہے۔ کیونکہ دلائل صحیحہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جیسی مرد کی نماز یعنی جس طریقہ پر مرد نماز پڑھے۔ اسی طریقہ پر عورت بھی نماز پڑھے۔۔۔ اور ہمارے علماء بھی اس لیے کہتے ہیں کیونکہ شریعت اسلامیہ سے اسی طرح ہی ثابت ہے۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ ۔

’’ اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ-(الاعراف)‘‘
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو
اس لیے ہمارے مسلک اہل حدیث کے علماء بھی کہتے ہیں۔ کہ جیسے مرد نماز پڑھے، سیم اسی طریقہ کے مطابق عورت بھی نماز پڑھے۔

اب ہم احادیث کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد حضرات کی بھی امامت کی ، بچوں اور عورتوں کی بھی امامت کی
جی بالکل آپ نے درست دیکھا ہے۔ اور ان احادیث پر آج بھی ہمارا عمل ہے الحمدللہ۔ ہماری مساجد میں آپ دیکھ سکتے ہیں(خاص طور جمعہ کی نماز) کہ امام کے پیچھے مرد بھی ہوتے ہیں۔ بچے بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں۔
لیکن جب عورت کی امامت کی بات آتی ہے تو اہل حدیث علماء عورت کو صرف عورتوں کی امامت کرنے کا جواز کا فتوی دیتے ہیں
اس کی کیا وجہ ہے ؟
محترم تلمیذ صاحب آپ نے جو اوپر حدیث کوٹ کی، وہ کچھ اور بتلا رہی ہے۔ اور آپ کی یہ بات اور ہے۔ برائے مہربانی کم از کم وجہ جاننے کےلیے یہ تو دیکھ لیتے کہ حدیث اور وجہ کی مناسبت بھی ہے کہ نہیں ؟
جناب ایک مسئلہ ہے عورت کا طریقہ نماز کیسا ہونا چاہیے؟ دوسرا مسئلہ ہے کہ عورت امامت کروا سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر کرواسکتی ہے تو کس کی ؟ مردوں کی یا عورتوں کی ؟ اگر کروائے گی تو کہاں کھڑی ہوگی ؟ آگے یا صف کے وسط میں ؟
آپ دونوں مسئلوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔ حدیث طریقہ کی پیش کررہے ہیں۔ اور مسئلہ امامت کا چھیڑ رہے ہیں۔ اس لیے خدارا رحم فرمائیں۔ ہم جو مرد اور عورت کی امامت میں فرق بتلاتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ دلائل شرعیہ سے بتلاتے ہیں۔ اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ یہی مسلک آپ کا بھی ہے۔ تسلی کےلیے دیکھیئے کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ جلد1، ص409۔
اگر تو مذکورہ حدیث عورت اور مرد کی نماز میں فرق کے خاتمے کی دلیل ہے تو اہل حدیث علماء نے امامت میں مرد و عورت کے فرق کو کس دلیل کی بنا پر جواز بخشا ۔
جزاکم اللہ خیرا
جناب من مرد اور عورت کی نماز کا طریقہ ایک ہے۔ یعنی جس طریقہ پر مرد نماز پڑھیں گے، اسی طریقہ پر عورت نماز پڑھے گی۔۔۔ جیسا کہ آپ کی ہی عورتیں ہمارے طریقہ پر سینہ پر ہاتھ باندھتی ہیں۔ الحمدللہ۔۔۔ باقی احکام میں مرد اور عورت میں فرق ہے۔ اور آپ کا سوال طریقہ پر نہیں بلکہ احکام کے متعلق ہے۔ کہ عورت امام کرواسکتی ہے تو پھر اہل حدیث علماء مرد اور عورت کی امامت میں فرق کیوں کرتے ہیں ؟

جناب من عورت کی امامت کے حوالے سے یہ بھی یاد رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔ (عبد الرزاق (۵۰۸۶)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۵)، آثار السنن (۵۱۴)، ابن أبی شیبۃ (۲/۸۹) ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن (۴/۲۴۳) میں اس کی سند کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔

اور اسی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صف کے درمیان میں کھڑے ہو کر عصر کی نماز عورتوں کو پڑھائی تھی۔ (عبدالرزاق (۵۰۸۲)، الأوسط لابن المنذر (۴/۲۲۷) ابن أبی شیبۃ (۲/۸۸)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۷)

بعض لوگ عورتوں کی امامت کے قائل نہیں ہیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت پیش کرتے ہیں:
’’ لَا خَیْرَ فیْ جَمَاعَۃِ النِّسَائِ اِلَّا فِیْ مَسْجِدٍ اَوْ فِیْ جَنَازَۃِ قَتِیْلٍ ‘‘ (طبرانی أوسط (۹۳۰۵)، مسند أحمد (۶/۶۶، ح : ۲۴۸۸۰)
''مسجد اور کسی شہید کے جنازہ کے علاوہ عورتوں کی جماعت میں خیر نہیں ہے۔''
اس کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ مختلط و مدلس ہے اور اس کے قدیم شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان نہیں کی۔ یہ روایت الوازع بن نافع کی سند سے طبرانی اوسط (۸/۶۴،ح : ۷۱۲۶) اور طبرانی کبیر (۱۲/۳۱۷) میں بھی موجود ہے لیکن الوازع بن نافع متروک راوی ہے۔

لہٰذا عورت کی جماعت کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ عورت اگر عورتوں کی جماعت کروانا چاہے تو درمیان میں کھڑی ہو کر نماز پڑھا سکتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عورت و مرد کی نماز میں فرق صرف امامت ہی میں نہیں، بلکہ بعض دیگر چیزوں میں بھی ثابت ہے اور اہلحدیث اس سے انکار نہیں کرتے۔ مثلاً
  • اگر امام بھول جائے تو مرد سبحان اللہ کہیں گے اور خواتین تالی بجائیں گی۔
  • عورت و مرد کے ضروری لباس میں فرق۔
  • مرد کے لئے پہلی اور عورت کے لئے آخری صف کا افضل ہونا۔ وغیرہ۔
صحیح بخاری کی جو حدیث آپ نے پیش کی ہے، اس سے نماز پڑھنے کے طریقے میں فرق کی نفی ہوتی ہے، نا کہ دیگر متعلقات میں۔ لہٰذا تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کی جو نماز ہے وہ مرد و عورت کے لئے یکساں ہے۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، الا یہ کہ کوئی بزور پیدا کر لے۔
صحیح بخاری کی حدیث عام ہے ۔ یہ مرد حضرات کے لئیے بھی ہے اور خواتیں کے لئيے بھی ۔ نماز کے متعلقات میں آپ نے مرد و خواتین کے بیچ جو اختلاف کا ذکر کیا ہے وہ حدیث سے ثابت ہے ۔ ان متعلقات میں فرق حدیث سے ثابت ہے اس لئیے اس پر عمل کیا جاتا ہے ، اگر یہ فرق بھی حدیث سے ثابت نہ ہوتا تو یہاں بھی فرق نہ ہوتا
اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ اہل حدیث علماء کے پاس کیا دلیل ہے وہ امامت میں مرد و خواتین کا فرق رکھتے ہیں ، غالبا کوئي قرآن و حدیث سے ثبوت ہوگا ، بس میں وہ قرآن کی آیت یا حدیث جاننا چاہ رہا ہوں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
الحمد للہ:

عورت كى نماز كى ہر حالت سجدہ اور بيٹھنے وغيرہ ميں بالكل مرد كى طرح ہى ہے، اس كے دلائل درج ذيل ہيں:
مرد و عورت کی نماز میں فرق کی نفی آپ حضرات کرتے ہیں وہ موضوع بحث نہیں ، میں اسی دلیل کو جو آپ حضرات مرد و عورت کی نماز میں فرق کرنے کو بیان کرتےہیں کو امامت پر اپلائی کر رہا ہوں ۔ جب عورت ھی اسی طرح نماز پڑھے گي جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تو وہ امامت بھی اسی طرح کرائے گي جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علی وسلم نے کی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کی بھی امامت کی ، بچوں کی بھی اور خواتین کی بھی ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
الحمد للہ:

اگر عورت امامت كروائے تو وہ عورتوں كے درميان كھڑى ہوگى اس كى دليل:
پہلے سوال کو سمجھیں
آپ حضرات جو عورتوں کو مردوں کی امامت سے روکتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے ۔ میں یہ نہیں پوچھا اگر عورت عورتوں کی امامت کرے تو کہاں کھڑی ہو
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ایک طرف تو کہتے ہیں ہم صرف اپنے امام محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے علاوہ کسی امام کی بات نہیں مانتے اور جب کسی موضوع پر بخث کی جائے تو ائمہ کے اقوال آنا شروع ہوجاتے ہیں
 
Top