• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بھائی دلیل پہلی ہی پوسٹ میں ذکر کردی گئی تھی۔ دوبارہ ریوائز بھی کردیتا ہوں۔

1۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔ (عبد الرزاق (۵۰۸۶)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۵)، آثار السنن (۵۱۴)، ابن أبی شیبۃ (۲/۸۹) ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن (۴/۲۴۳) میں اس کی سند کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔

2۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صف کے درمیان میں کھڑے ہو کر عصر کی نماز عورتوں کو پڑھائی تھی۔ (عبدالرزاق (۵۰۸۲)، الأوسط لابن المنذر (۴/۲۲۷) ابن أبی شیبۃ (۲/۸۸)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۷)

اب آپ کے پاس اس کے مخالف کوئی دلیل ہے، تو ذکر کریں۔ ورنہ اسی کو ہی تسلیم کریں۔اور پھر جب اس مسئلہ میں آپ بھی ہمارےساتھ متفق ہیں۔ تو میرے خیال میں مزید رولا ڈالنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔


کیا عورت اِمامت کروا سکتی ہے؟
کیا حافظہ عورت عورتوں کی امامت کرواسکتی ہے؟
عورت ، خواتین کی امامت کرسکتی ہے اس پر نہ میں نے دلیل مانگی اور نہ اس پر اعتراض کیا ، عورت مردوں کی امامت نہیں کر سکتی ، اس حوالہ سے دلیل مانگي تھی جو ابھی تک نہیں آئی آخر امامت کے معاملہ میں مرد و خواتیں کے طریق میں یہ فرق کیوں رکھا گيا
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ حضرات جو عورتوں کو مردوں کی امامت سے روکتے ہیں اس کی کیا دلیل ہے
نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، كَانَ إِذَا رَأَى النِّسَاءَ قَالَ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ جَعَلَهُنَّ اللَّهُ، وَقَالَ: إِنَّهُنَّ مَعَ بَنِي إِسْرَائِيلَ يَصْفُفْنَ مَعَ الرِّجَالِ، كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَلْبَسُ الْقَالِبَ فَتَطَالُ لِخَلِيلِهَا، فَسُلِّطَتْ عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَةُ، وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِنَّ الْمَسَاجِدُ. وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا رَآهُنَّ قَالَ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ جَعَلَهُنَّ اللَّهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: الْخَبَرُ مَوْقُوفٌ غَيْرُ مُسْنَدٍ
[التعليق] 1700 - قال الألباني: إسناده صحيح موقوف ويبدو أن في المتن سقطا
محترم آپ سے گذارش ہے کہ جب بحث کے دوران کوئی حدیث پیش کیا کریں تو ذرا بتادیا کریں کہ آپ نے کس تناظر میں پیش کی ، ہو سکتا ہے آپ کسی اور تناظر میں پیش کر رہے ہوں اور دوسرا فریق اس کو کسی اور تناظر میں لے کر جواب دے تو بات خلط ملط ہوجاتی ہے

اول

اس میں تو خواتیں و مرد حضرات کی اکٹھی صف بندی کی ممانعت کی دلیل ہے ، مردوں کی امامت معاملہ کہاں سے آگيا
دوم
وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِنَّ الْمَسَاجِدُ تو بتا رہا ہے کہ خواتین پر مساجد حرام کر دیں گئیں ، ایسا تو نہیں آپ حدیث کے ایک ٹکڑے سے تو اپنا موقف ثابت کرنا چاہیں لیکن اسی حدیث کو دوسرے حصے سے آپ کے مسلک پر ہی ضرب پڑ جائے ۔ آپ سے امید ہے آپ اگر استدلال کریں تو مکمل حدیث لیں گے ، اپنے مسلک کو ثابت کرنے لئیے ایک ٹکڑے کا بطور دلیل استعمال نہیں کریں گے
سوم
یہ صحابی کا قول ہے ۔ کیا ایک صحیح حدیث کے مقابلہ میں صحابی کا قول آپ کے ہاں قبول ہے ، جواب دینے سے پہلے یہ بات بھی ذھن میں رکھئیے گا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اگر اللہ تبارک و تعالی نے سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت سے متصف نہیں کیا تو خوامخواہ بیچ میں کودنے سے پرھیز کیا کریں
میرا سوال یہ تھا
نماز کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے

صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ
( البخاری )
تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
اسی حدیث کی وجہ اہل حدیث علماء مرد و خواتیں کی نماز میں فرق کے مخالف ہیں ، کچھ جگہوں پر جو استثناء ہے مثلا مردوں اور عورتوں کی صف کی ترتیب وغیرہ تو وہ حدیث سے ثابت ہیں باقی آپ حضرات کہتے ہیں جس طرح مرد سجدہ کرے عورت بھی کرے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔، جس طرح قیام میں مرد ہاتھ باندھے عورت بھی باندھے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔ و علی ھذا القییاس ، لیکن جب امامت کی بات آتی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں ، بچوں و خواتین کی امامت کی تو عورت کو اس اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اس کو صرف عورتوں کی امامت اجازت دی جاتی ہے ، یہاں پر جو استثنائی صورت ہے اس کی دلیل کیا ہے ، واضح صرف قرآن و حدیث سے پیش کریں

آپ نے جو روایت پیش کی اس میں عورت کا خواتین کی امامت کرنے کی دلیل ہے ، اس میں اس بات کی کوئي دلیل نہیں عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی
اگر عدم ذکر ممانعت کی دلیل ہے تو یہ اصول آپ نے کہاں سے اخذ کیا ذرا تفصیل سے سمجھائیے گا
بھائی اس کو آپ پڑھ لے ان شاءاللہ آپ کے بات سمجھ آ جائے گی -

عورت كا مردوں كى امامت كرانے ميں حكم

نماز جمعہ وغيرہ ميں عورت كا مردوں كى امامت كرانے ميں كيا حكم ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

اللہ سبحانہ وتعالى نے مردوں بعض فضائل اوراحكام كے ساتھ مخصوص كيا ہے، ا ور اسى طرح عورتوں كو كچھ فضائل اور احكام سے خاص كيا ہے، چنانچہ كسى بھى مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس چيز كى تمنا كرے جو عورتوں كے ساتھ خاص ہے، اور كسى بھى عورت كے ليے جائز نہيں كہ جو فضيلت مردوں كو دى گئى ہے اس كى تمنا كرتى پھرے، كيونكہ يہ تمنا اللہ تعالى پر اس كى شريعت اور حكم ميں اعتراض كا موجب ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور اس چيز كى آرزو نہ كرو جس كے باعث اللہ تعالى نے تم ميں سے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے، مردوں كا اس ميں حصہ ہے جو انہوں نے كمايا اور عورتوں كے ليے اس ميں حصہ ہے جو انہوں نے كمايا، اور اللہ تعالى سے اس كا فضل مانگو، يقينا اللہ تعالى ہر چيز كا جاننے والا ہے ﴾النساء ( 32 ).

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اللہ تعالى مومنوں كو ممكن اور غير ممكن امور ميں ايك دوسرے پر دى گئى فضيلت كى آرزو اور تمنا كرنے سے منع كر رہا ہے، چنانچہ عورتيں مردوں كے خصائص جن كى بنا پر انہيں عورتوں پر فضيلت دى گئى ہے كى آرزو مت كريں، اور نہ ہى فقر ونقص والا شخص غنى اور كامل شخص كى حالت كى صرف مجرد تمنا كرے، كيونكہ يہ بعينہ حسد ہے... اور اس ليے كہ يہ اللہ تعالى كى تقدير پر ناراضگى كا متقاضى ہے" انتہى
مرد كو جو خصوصيات اللہ تعالى نے دى ان ميں وہ عبادات شامل ہيں جو قوت و طاقت كى محتاج ہيں، مثلا جھاد، يا پھر ولايت مثلا امامت وغيرہ ... الخ يہ مرد كے ساتھ خاص ہيں، عورتوں كا ان ميں كوئى دخل نہيں.
اس كے بہت سے دلائل ہيں جن ميں سے چند ايك يہ ہيں:

1 - اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ﴾النساء ( 34 ).

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى " الام " ميں كہتے ہيں:

" جب عورت مردوں، عورتوں اور بچوں كو نماز پڑھائے تو عورت كى نماز ادا ہو جائيگى، اور مردوں اور نر بچوں كى نماز ادا نہيں ہو گى؛ كيونكہ اللہ عزوجل نے مردوں كو عورتوں پر حكمران بنايا ہے، اور عورتوں كو ولى بننے سے قاصر ركھا ہے، اور كسى بھى حالت ميں كبھى بھى عورت كا مرد كى امام بننا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: الام ( 1 / 191 ).

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عورتوں پر مردوں كو كئى ايك وجوہات كى بنا پر فضيلت دى گئى ہے:
ولى صرف مردوں كے ساتھ خاص ہے، اور نبوت و رسالت بھى مردوں كے ساتھ خاص ہے، اور مردوں كو بہت عبادات ميں بھى خصوصيت حاصل ہے، مثلا جھاد، عيديں، جمعہ، اور اللہ تعالى نے مردوں كو عقل و دانش اور صبر و تحمل كى خصوصيت سے بھى نوازا ہے جو عورتوں ميں نہيں " انتہى

2 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ، ہاں مردوں كو عورتوں پر فضيلت حاصل ہے ﴾البقرۃ ( 228 ).

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور مردوں كو ان پر فضيلت حاصل ہے "
يعنى رفعت و رياست، اور اس پر زيادہ حق حاصل ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ مرد عورتوں پر حاكم ہيں ﴾.
نبوت و قضاء اور امامت صغرى اور كبرى اور باقى ہر قسم كا ولى ہونا مردوں كے ساتھ ہى مختص ہے" انتھى

3 - امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كي ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ قوم ہرگز كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جو اپنا حكمران عورت كو بنا لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4425 ).

يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ عمومى ولايت اور سربراہى عورت كو نہيں مل سكتى اس كو يہ سونپنا جائز نہيں، اور امامت بھى عمومى ولايت ميں شامل ہوتى ہے.

4 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنى عورتوں كو مسجدوں سے نہ روكو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 576 ) مسند احمد حديث نمبر ( 5445 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
صاحب عون المعبود كہتے ہيں:

" اور ان كے ليے ان كے گھر زيادہ بہتر ہيں "

يعنى ان كا اپنے گھروں ميں نماز ادا كرنا مسجدوں ميں نماز ادا كرنے سے زيادہ بہتر ہے اگر وہ اس كا علم ركھيں، ليكن انہيں علم نہيں اور وہ مسجد ميں جانے كى اجازت مانگتى ہيں، اور يہ اعتقاد ركھتى ہيں كہ ان كا مسجدوں ميں نماز ادا كرنا زيادہ اجروثواب كا باعث ہے.

ان كى گھروں ميں نماز افضل اور بہتر ہونے كى وجہ يہ ہے كہ اس سے فتنہ و فساد سے امن ميں رہتى ہيں، اور اس كى تاكيد اس سے بھى ہوتى جو آج عورتوں نے بے پردگى اور زيبائش كرنا شروع كردى ہے" انتہى

5 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مردوں كى سب سے بہترين صف پہلى صف ہے، اور سب سے برى آخرى، اور عورتوں كى سب سے بہترين صف آخرى اور سب سے برى پہلى صف ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مردوں كى صفوف اپنے عموم پر ہى ہيں كہ اس ميں سب بہتر پہلى صف اور سب سے برى آخرى صف ہے، اور عورتوں كى صفوف كے متعلق جو حديث ميں بيان ہوا ہے اس سے مراد وہ صفيں ہيں جو عورتيں مردوں كے ساتھ نماز ادا كريں، ليكن اگر وہ مردوں سے عليحدہ نماز ادا كريں، نہ كہ مردوں كے ساتھ تو يہ مردوں كى طرح ہى ہو گى، يعنى ان كى پہلى صف سب سے افضل اور آخرى سب سے برى ہے.

مردوں اور عورتوں كى صف برى سے مراد كم از كم اجروثواب اور فضيلت، اور شرعى مطلوب سے زيادہ دور ہے، اور سب سے بہتر صف اس كے برعكس ہے، مردوں كے ساتھ نماز ميں حاضر ہونے والى عورتوں كى سب سے آخرى صف كو اس ليے فضيلت دى گئى ہے كہ وہ مردوں كے ساتھ خلط ملط ہونے اور انہيں ديكھنے، اور ان كى حركات و سكنات ديكھ كراور ان كى كلام سن كر ان سے دل لگانے كے تعلق سے بہت دور ہيں، اور ان كى پہلى صفوں كى مذمت اس كے برعكس ہونے كى بنا پر ہے. واللہ اعلم. انتہى

چنانچہ جب عورت گھر ميں نماز پڑھنے اور مردوں سے دور رہنے كى مامور ہے، اور عورتوں كى سب سے پہلى صف برى ہے، كيونكہ وہ مردوں كے زيادہ قريب تھى، تو پھر شرعى حكمت كے يہ كيسے لائق ہے كہ عورت مردوں كے آگے نماز پڑھتى پھرے، حالانكہ شريعت اسے مردوں سے دور رہنے كا حكم دے رہى ہے ؟ !!

6 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے سھل بن سعد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے نماز ميں كچھ پيش آجائے تو وہ سبحان اللہ كہے، كيونكہ جب سبحان اللہ كہا جائيگا تو اس كى طرف التفات كيا جائيگا، اور تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 684 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 421 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گويا كہ عورتوں كو سبحان اللہ كہنے سے اس ليے منع كيا گيا ہے كہ نماز ميں فتنہ كے خدشہ سے مطلقا آواز پست ركھنے كى مامور ہيں "

انتہى

چنانچہ امام كے بھولنے كى صورت ميں عورت كو بول كر امام كو متنبہ كرنے سے منع كيا گيا ہے، بلكہ وہ تالى بجا كر متنبہ كرے گى، تا كہ مردوں كى موجودگى ميں وہ آواز بلند نہ كرے، تو پھر مردوں كو نماز كيسے پڑھا سكتى ہے اور كيسے نماز جمعہ كا خطبہ دے سكتى ہے ؟!

7 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

انہوں نے اور ان كى نانى اور يتيم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے نماز پڑھى وہ بيان كرتے ہيں:

" چنانچ ميں نے اور يتيم بچے نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے صف بنائى اور بڑھيا نے ہمارے پيچھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 658 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اس حديث ميں ہے كہ عورت مردوں كے ساتھ صف نہيں بنائےگى، اس كى اصل يہ ہے كہ اس سے فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہے " انتہى
چنانچہ جب عورت صف كے پيچھے اكيلى كھڑى ہوگى اور مردوں كے ساتھ ان كى صف ميں كھڑى نہيں ہو سكتى تو پھر وہ آگے بڑھ كر امامت كراتے ہوئے انہيں نماز كيسے پڑھا سكتى ہے ؟!
عون المعبود ميں ہے:

اس ميں دليل ہے كہ عورت كے ليے مردوں كے امامت كرانى جائز نہيں كيونكہ جب اسے مردوں كے برابر صف ميں كھڑا ہونے سے منع كيا گيا ہے تو پھر اس كا آگے ہونا زيادہ ممنوع ہو گا " انتہى بتصرف

8 - چودہ صديوں سے مسلمانوں كا اس پر عمل رہا ہے كہ عورت مردوں كى امامت كے منصب پر فائز نہيں ہوئى.
ديكھيں بدائع الصنائع ( 2 / 289 ).

جس نے اس كى مخالفت كى وہ مسلمانوں كے طريقہ كى مخالفت كر رہا ہے، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان ہے:


﴿ اور جو كوئى بھى ہدايت واضح ہو جانے كے بعد رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرے، اور مومنوں كے طريقہ كے علاوہ كسى اور طريقہ كى پيروى كرے ہم اسے اسى طرف ہى متوجہ كر دينگے جدھر وہ متوجہ ہو اور اسے جہنم ميں ڈاليں گے، اور وہ بہت ہى برى جگہ ہے ﴾النساء ( 115 ).د

ذيل ميں علماء كرام كے چند ايك اقول پيش كيے جاتے ہيں:

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

" مردوں كى امامت كے ليے شرط ہے كہ امام مرد ہو، چنانچہ مردوں كے ليے عورت كا امام بننا صحيح نہيں، فقھاء كرام كے مابين يہ متفقہ مسئلہ ہے" انتھى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 205 ).

ابن حزم رحمہ اللہ " مراتب الاجماع " ميں رقمطراز ہيں:

" اس پر متفق ہيں كہ عورت مردوں كى امامت نہيں كرواسكتى، مردوں كو اس كے عورت ہونے كا علم ہو، اور اگر وہ ايسا كرتے ہيں تو بالاجماع ان كى نماز باطل ہے "
ديكھيں: مراتب الاجماعت صفحہ نمبر ( 27 ).

اور " المحلى " ميں لكھا ہے:

" عورت كسى ايك مرد اور نہ ہى ايك سے زيادہ مردوں كى امامت نہيں كروا سكتى، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور پھر نص ميں يہ بھى بيان ہوا كہ عورت اگر مرد كے آگے سے گزر جائے تو مرد كى نماز توڑ ديتى ہے... اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے كہ وہ مردوں كے پيچھے كھڑى ہو خاص كر نماز ميں.

اور خاص كر نماز ميں امام يا تو مقتديوں سے آگے يا مقتدى كے ساتھ صف ميں كھڑا ہوتا ہے... ان نصوص سے عورت كا مردوں كى امام بننا يقينا باطل ثابت ہوتا ہے" انتہى
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 2 / 167 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:

" ہمارے اصحاب اس پر متفق ہيں كہ عورت كے پيچھے نہ تو بالغ مرد كى اور نہ ہى بچے كى نماز جائز ہے.... چاہے مردوں كى امامت كے ليے عورت كى امامت ميں مانع فرضى نماز ہو يا تراويح اور ہر قسم كے نوافل، ہمارا اور سلف و خلف جمہور علماء كرام كا مسلك يہى ہے، امام بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے فقھاء سبعہ مدينہ كے فقھاء سے يہى بيان كيا ہے، اور امام مالك، امام ابو حنيفہ سفيان، امام احمد، اور داود رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے...

پھر اگر عورت كسى اور مرد يا زيادہ آدميوں كى امامت كروائے تو ان كى نماز باطل ہو جائے گى، ليكن عورت اور اس كے پيچھے نماز ادا كرنے والى عورتوں كى سب نمازوں ميں نماز صحيح ہے، ليكن اگر اس نے انہيں نماز جمعہ پڑھائى تو اس ميں دو وجھيں ہيں:

ان ميں سے زيادہ صحيح يہ ہے كہ: اس كى نماز نہيں ہوتى، اور دوسرى وجہ يہ ہے كہ: اس كى نماز ظھر كى ہو گى، اور كفائت كرے گى، يہ شيخ ابو حامد كا قول ہے، جو كچھ نہيں. اللہ اعلم
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 152 ).

اور " الانصاف" ميں ہے:

قولہ: ( مرد كے ليے عورت كى امامت صحيح نہيں )
يہ مطلق ـ يعنى امام احمد رحمہ اللہ كا ـ مطلق مذہب ہے، المستوعب ميں ان كا كہنا ہے: مذہب ميں يہ صحيح ہے" انتہى.
ديكھيں: الانصاف ( 2 / 265 ).

اور اس مسئلہ ميں سب سے سخت مذہب مالكيہ كا ہے، وہ عورت كى امامت كو ممنوع قرار ديتے ہيں، حتى كہ عورت عورتوں كى امامت بھى نہيں كروا سكتى، اور وہ امامت كے ليے مطلقا مرد ہونے كى شرط لگاتے ہيں.

چنانچہ " الفواكہ الدوانى " ميں ہے:

" يہ علم ميں ركھيں كہ امامت كے ليے كچھ شروط كمال ہيں، اور كچھ شروط صحت ہيں.

امامت صحيح ہونے كى تيرہ شرطيں ہيں: ان ميں سے پہلى ذكورہ محققہ يعنى يقينى مرد ہونا ہے، چنانچہ عورت اور خنثى مشكل ( ہيجڑہ ) كى امامت صحيح نہيں ہو گى، عورت جس نے امامت كرواتے ہوئے نماز ادا كى ہے اس كے علاوہ باقى سب كى نماز باطل ہو جائيگى" انتہى
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 1 / 204 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:


ايك شخص نے عورت كى امامت ميں عصر كى نماز ادا كى اس كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" عورت كے ليے مرد كى امامت كروانا جائز نہيں، اور بہت سے دلائل كى بنا پر اس كے پيچھے مرد كا نماز ادا كرنا صحيح نہيں، مذكورہ شخص كو نماز لوٹانا ہو گى "
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 130 ).

دوم:

اور جس نے ابو داود كى حديث پر اعتماد كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ سلم نے ام ورقہ رضى اللہ تعالى عنہ كو اپنے گھروالوں كى امامت كرانے كى اجازت دى تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 591 ).

ان كا كہنا ہے كہ: وہ اپنے گھر والوں كى امامت كروايا كرتى تھيں جن ميں مرد اور بچے بھى شامل تھے، علماء كرام نے اس كے كئى ايك جواب ديے ہيں:

1 - يہ حديث ضعيف ہے.

حافظ رحمہ اللہ تعالى " التلخيص " ميں كہتے ہيں: اس كى سند ميں عبد الرحمن بن خلاد ہے جس ميں جھالت پائى جاتى ہے" انتہى
ديكھيں: التلخيص صفحہ نمبر ( 121 ).
اور " المنتقى شرح الموطاء " ميں ہے:
" يہ حديث ان ميں سے ہے جس پر اعتماد ضرورى نہيں " انتہى

2 - اگر حديث صحيح بھى ہو تو اس سے مراد يہ ہے كہ: وہ اپنے گھر ميں سے عورتوں كى امامت كروايا كرتى تھيں.

3 - يہ ام رقہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ خاص ہے، ان كے علاوہ كسى اور كے ليے مشروع نہيں.

4 - بعض علماء كرام نے اس سے مرد كے ليے عورت كى امامت كا جواز ليا ہے، ليكن يہ ضرورت كے وقت ہے، اور ضرورت كا معنى يہ ہے كہ كوئى مرد اچھى طرح سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكتا ہو"

ديكھيں: حاشيۃ ابن قاسم ( 2 / 313 ).
مزيد ديكھيں: المغنى ( 3 / 33 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بھائی اس کو آپ پڑھ لے ان شاءاللہ آپ کے بات سمجھ آ جائے گی -

عورت كا مردوں كى امامت كرانے ميں حكم

نماز جمعہ وغيرہ ميں عورت كا مردوں كى امامت كرانے ميں كيا حكم ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

اللہ سبحانہ وتعالى نے مردوں بعض فضائل اوراحكام كے ساتھ مخصوص كيا ہے، ا ور اسى طرح عورتوں كو كچھ فضائل اور احكام سے خاص كيا ہے، چنانچہ كسى بھى مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس چيز كى تمنا كرے جو عورتوں كے ساتھ خاص ہے، اور كسى بھى عورت كے ليے جائز نہيں كہ جو فضيلت مردوں كو دى گئى ہے اس كى تمنا كرتى پھرے، كيونكہ يہ تمنا اللہ تعالى پر اس كى شريعت اور حكم ميں اعتراض كا موجب ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور اس چيز كى آرزو نہ كرو جس كے باعث اللہ تعالى نے تم ميں سے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے، مردوں كا اس ميں حصہ ہے جو انہوں نے كمايا اور عورتوں كے ليے اس ميں حصہ ہے جو انہوں نے كمايا، اور اللہ تعالى سے اس كا فضل مانگو، يقينا اللہ تعالى ہر چيز كا جاننے والا ہے ﴾النساء ( 32 ).

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اللہ تعالى مومنوں كو ممكن اور غير ممكن امور ميں ايك دوسرے پر دى گئى فضيلت كى آرزو اور تمنا كرنے سے منع كر رہا ہے، چنانچہ عورتيں مردوں كے خصائص جن كى بنا پر انہيں عورتوں پر فضيلت دى گئى ہے كى آرزو مت كريں، اور نہ ہى فقر ونقص والا شخص غنى اور كامل شخص كى حالت كى صرف مجرد تمنا كرے، كيونكہ يہ بعينہ حسد ہے... اور اس ليے كہ يہ اللہ تعالى كى تقدير پر ناراضگى كا متقاضى ہے" انتہى
مرد كو جو خصوصيات اللہ تعالى نے دى ان ميں وہ عبادات شامل ہيں جو قوت و طاقت كى محتاج ہيں، مثلا جھاد، يا پھر ولايت مثلا امامت وغيرہ ... الخ يہ مرد كے ساتھ خاص ہيں، عورتوں كا ان ميں كوئى دخل نہيں.
اس كے بہت سے دلائل ہيں جن ميں سے چند ايك يہ ہيں:

1 - اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ﴾النساء ( 34 ).

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى " الام " ميں كہتے ہيں:

" جب عورت مردوں، عورتوں اور بچوں كو نماز پڑھائے تو عورت كى نماز ادا ہو جائيگى، اور مردوں اور نر بچوں كى نماز ادا نہيں ہو گى؛ كيونكہ اللہ عزوجل نے مردوں كو عورتوں پر حكمران بنايا ہے، اور عورتوں كو ولى بننے سے قاصر ركھا ہے، اور كسى بھى حالت ميں كبھى بھى عورت كا مرد كى امام بننا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: الام ( 1 / 191 ).

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عورتوں پر مردوں كو كئى ايك وجوہات كى بنا پر فضيلت دى گئى ہے:
ولى صرف مردوں كے ساتھ خاص ہے، اور نبوت و رسالت بھى مردوں كے ساتھ خاص ہے، اور مردوں كو بہت عبادات ميں بھى خصوصيت حاصل ہے، مثلا جھاد، عيديں، جمعہ، اور اللہ تعالى نے مردوں كو عقل و دانش اور صبر و تحمل كى خصوصيت سے بھى نوازا ہے جو عورتوں ميں نہيں " انتہى

2 - اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ، ہاں مردوں كو عورتوں پر فضيلت حاصل ہے ﴾البقرۃ ( 228 ).

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور مردوں كو ان پر فضيلت حاصل ہے "
يعنى رفعت و رياست، اور اس پر زيادہ حق حاصل ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ مرد عورتوں پر حاكم ہيں ﴾.
نبوت و قضاء اور امامت صغرى اور كبرى اور باقى ہر قسم كا ولى ہونا مردوں كے ساتھ ہى مختص ہے" انتھى

3 - امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كي ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ قوم ہرگز كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جو اپنا حكمران عورت كو بنا لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4425 ).

يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ عمومى ولايت اور سربراہى عورت كو نہيں مل سكتى اس كو يہ سونپنا جائز نہيں، اور امامت بھى عمومى ولايت ميں شامل ہوتى ہے.

4 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنى عورتوں كو مسجدوں سے نہ روكو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 576 ) مسند احمد حديث نمبر ( 5445 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
صاحب عون المعبود كہتے ہيں:

" اور ان كے ليے ان كے گھر زيادہ بہتر ہيں "

يعنى ان كا اپنے گھروں ميں نماز ادا كرنا مسجدوں ميں نماز ادا كرنے سے زيادہ بہتر ہے اگر وہ اس كا علم ركھيں، ليكن انہيں علم نہيں اور وہ مسجد ميں جانے كى اجازت مانگتى ہيں، اور يہ اعتقاد ركھتى ہيں كہ ان كا مسجدوں ميں نماز ادا كرنا زيادہ اجروثواب كا باعث ہے.

ان كى گھروں ميں نماز افضل اور بہتر ہونے كى وجہ يہ ہے كہ اس سے فتنہ و فساد سے امن ميں رہتى ہيں، اور اس كى تاكيد اس سے بھى ہوتى جو آج عورتوں نے بے پردگى اور زيبائش كرنا شروع كردى ہے" انتہى

5 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مردوں كى سب سے بہترين صف پہلى صف ہے، اور سب سے برى آخرى، اور عورتوں كى سب سے بہترين صف آخرى اور سب سے برى پہلى صف ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مردوں كى صفوف اپنے عموم پر ہى ہيں كہ اس ميں سب بہتر پہلى صف اور سب سے برى آخرى صف ہے، اور عورتوں كى صفوف كے متعلق جو حديث ميں بيان ہوا ہے اس سے مراد وہ صفيں ہيں جو عورتيں مردوں كے ساتھ نماز ادا كريں، ليكن اگر وہ مردوں سے عليحدہ نماز ادا كريں، نہ كہ مردوں كے ساتھ تو يہ مردوں كى طرح ہى ہو گى، يعنى ان كى پہلى صف سب سے افضل اور آخرى سب سے برى ہے.

مردوں اور عورتوں كى صف برى سے مراد كم از كم اجروثواب اور فضيلت، اور شرعى مطلوب سے زيادہ دور ہے، اور سب سے بہتر صف اس كے برعكس ہے، مردوں كے ساتھ نماز ميں حاضر ہونے والى عورتوں كى سب سے آخرى صف كو اس ليے فضيلت دى گئى ہے كہ وہ مردوں كے ساتھ خلط ملط ہونے اور انہيں ديكھنے، اور ان كى حركات و سكنات ديكھ كراور ان كى كلام سن كر ان سے دل لگانے كے تعلق سے بہت دور ہيں، اور ان كى پہلى صفوں كى مذمت اس كے برعكس ہونے كى بنا پر ہے. واللہ اعلم. انتہى

چنانچہ جب عورت گھر ميں نماز پڑھنے اور مردوں سے دور رہنے كى مامور ہے، اور عورتوں كى سب سے پہلى صف برى ہے، كيونكہ وہ مردوں كے زيادہ قريب تھى، تو پھر شرعى حكمت كے يہ كيسے لائق ہے كہ عورت مردوں كے آگے نماز پڑھتى پھرے، حالانكہ شريعت اسے مردوں سے دور رہنے كا حكم دے رہى ہے ؟ !!

6 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے سھل بن سعد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے نماز ميں كچھ پيش آجائے تو وہ سبحان اللہ كہے، كيونكہ جب سبحان اللہ كہا جائيگا تو اس كى طرف التفات كيا جائيگا، اور تالى بجانا عورتوں كے ليے ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 684 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 421 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" گويا كہ عورتوں كو سبحان اللہ كہنے سے اس ليے منع كيا گيا ہے كہ نماز ميں فتنہ كے خدشہ سے مطلقا آواز پست ركھنے كى مامور ہيں "

انتہى

چنانچہ امام كے بھولنے كى صورت ميں عورت كو بول كر امام كو متنبہ كرنے سے منع كيا گيا ہے، بلكہ وہ تالى بجا كر متنبہ كرے گى، تا كہ مردوں كى موجودگى ميں وہ آواز بلند نہ كرے، تو پھر مردوں كو نماز كيسے پڑھا سكتى ہے اور كيسے نماز جمعہ كا خطبہ دے سكتى ہے ؟!

7 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

انہوں نے اور ان كى نانى اور يتيم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے نماز پڑھى وہ بيان كرتے ہيں:

" چنانچ ميں نے اور يتيم بچے نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے صف بنائى اور بڑھيا نے ہمارے پيچھے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 658 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اس حديث ميں ہے كہ عورت مردوں كے ساتھ صف نہيں بنائےگى، اس كى اصل يہ ہے كہ اس سے فتنہ ميں پڑنے كا خدشہ ہے " انتہى
چنانچہ جب عورت صف كے پيچھے اكيلى كھڑى ہوگى اور مردوں كے ساتھ ان كى صف ميں كھڑى نہيں ہو سكتى تو پھر وہ آگے بڑھ كر امامت كراتے ہوئے انہيں نماز كيسے پڑھا سكتى ہے ؟!
عون المعبود ميں ہے:

اس ميں دليل ہے كہ عورت كے ليے مردوں كے امامت كرانى جائز نہيں كيونكہ جب اسے مردوں كے برابر صف ميں كھڑا ہونے سے منع كيا گيا ہے تو پھر اس كا آگے ہونا زيادہ ممنوع ہو گا " انتہى بتصرف

8 - چودہ صديوں سے مسلمانوں كا اس پر عمل رہا ہے كہ عورت مردوں كى امامت كے منصب پر فائز نہيں ہوئى.
ديكھيں بدائع الصنائع ( 2 / 289 ).

جس نے اس كى مخالفت كى وہ مسلمانوں كے طريقہ كى مخالفت كر رہا ہے، اور پھر اللہ تعالى كا فرمان ہے:


﴿ اور جو كوئى بھى ہدايت واضح ہو جانے كے بعد رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرے، اور مومنوں كے طريقہ كے علاوہ كسى اور طريقہ كى پيروى كرے ہم اسے اسى طرف ہى متوجہ كر دينگے جدھر وہ متوجہ ہو اور اسے جہنم ميں ڈاليں گے، اور وہ بہت ہى برى جگہ ہے ﴾النساء ( 115 ).د

ذيل ميں علماء كرام كے چند ايك اقول پيش كيے جاتے ہيں:

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

" مردوں كى امامت كے ليے شرط ہے كہ امام مرد ہو، چنانچہ مردوں كے ليے عورت كا امام بننا صحيح نہيں، فقھاء كرام كے مابين يہ متفقہ مسئلہ ہے" انتھى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 205 ).

ابن حزم رحمہ اللہ " مراتب الاجماع " ميں رقمطراز ہيں:

" اس پر متفق ہيں كہ عورت مردوں كى امامت نہيں كرواسكتى، مردوں كو اس كے عورت ہونے كا علم ہو، اور اگر وہ ايسا كرتے ہيں تو بالاجماع ان كى نماز باطل ہے "
ديكھيں: مراتب الاجماعت صفحہ نمبر ( 27 ).

اور " المحلى " ميں لكھا ہے:

" عورت كسى ايك مرد اور نہ ہى ايك سے زيادہ مردوں كى امامت نہيں كروا سكتى، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور پھر نص ميں يہ بھى بيان ہوا كہ عورت اگر مرد كے آگے سے گزر جائے تو مرد كى نماز توڑ ديتى ہے... اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے كہ وہ مردوں كے پيچھے كھڑى ہو خاص كر نماز ميں.

اور خاص كر نماز ميں امام يا تو مقتديوں سے آگے يا مقتدى كے ساتھ صف ميں كھڑا ہوتا ہے... ان نصوص سے عورت كا مردوں كى امام بننا يقينا باطل ثابت ہوتا ہے" انتہى
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 2 / 167 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:

" ہمارے اصحاب اس پر متفق ہيں كہ عورت كے پيچھے نہ تو بالغ مرد كى اور نہ ہى بچے كى نماز جائز ہے.... چاہے مردوں كى امامت كے ليے عورت كى امامت ميں مانع فرضى نماز ہو يا تراويح اور ہر قسم كے نوافل، ہمارا اور سلف و خلف جمہور علماء كرام كا مسلك يہى ہے، امام بيھقى رحمہ اللہ تعالى نے فقھاء سبعہ مدينہ كے فقھاء سے يہى بيان كيا ہے، اور امام مالك، امام ابو حنيفہ سفيان، امام احمد، اور داود رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے...

پھر اگر عورت كسى اور مرد يا زيادہ آدميوں كى امامت كروائے تو ان كى نماز باطل ہو جائے گى، ليكن عورت اور اس كے پيچھے نماز ادا كرنے والى عورتوں كى سب نمازوں ميں نماز صحيح ہے، ليكن اگر اس نے انہيں نماز جمعہ پڑھائى تو اس ميں دو وجھيں ہيں:

ان ميں سے زيادہ صحيح يہ ہے كہ: اس كى نماز نہيں ہوتى، اور دوسرى وجہ يہ ہے كہ: اس كى نماز ظھر كى ہو گى، اور كفائت كرے گى، يہ شيخ ابو حامد كا قول ہے، جو كچھ نہيں. اللہ اعلم
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 152 ).

اور " الانصاف" ميں ہے:

قولہ: ( مرد كے ليے عورت كى امامت صحيح نہيں )
يہ مطلق ـ يعنى امام احمد رحمہ اللہ كا ـ مطلق مذہب ہے، المستوعب ميں ان كا كہنا ہے: مذہب ميں يہ صحيح ہے" انتہى.
ديكھيں: الانصاف ( 2 / 265 ).

اور اس مسئلہ ميں سب سے سخت مذہب مالكيہ كا ہے، وہ عورت كى امامت كو ممنوع قرار ديتے ہيں، حتى كہ عورت عورتوں كى امامت بھى نہيں كروا سكتى، اور وہ امامت كے ليے مطلقا مرد ہونے كى شرط لگاتے ہيں.

چنانچہ " الفواكہ الدوانى " ميں ہے:

" يہ علم ميں ركھيں كہ امامت كے ليے كچھ شروط كمال ہيں، اور كچھ شروط صحت ہيں.

امامت صحيح ہونے كى تيرہ شرطيں ہيں: ان ميں سے پہلى ذكورہ محققہ يعنى يقينى مرد ہونا ہے، چنانچہ عورت اور خنثى مشكل ( ہيجڑہ ) كى امامت صحيح نہيں ہو گى، عورت جس نے امامت كرواتے ہوئے نماز ادا كى ہے اس كے علاوہ باقى سب كى نماز باطل ہو جائيگى" انتہى
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 1 / 204 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:


ايك شخص نے عورت كى امامت ميں عصر كى نماز ادا كى اس كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" عورت كے ليے مرد كى امامت كروانا جائز نہيں، اور بہت سے دلائل كى بنا پر اس كے پيچھے مرد كا نماز ادا كرنا صحيح نہيں، مذكورہ شخص كو نماز لوٹانا ہو گى "
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 12 / 130 ).

دوم:

اور جس نے ابو داود كى حديث پر اعتماد كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ سلم نے ام ورقہ رضى اللہ تعالى عنہ كو اپنے گھروالوں كى امامت كرانے كى اجازت دى تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 591 ).

ان كا كہنا ہے كہ: وہ اپنے گھر والوں كى امامت كروايا كرتى تھيں جن ميں مرد اور بچے بھى شامل تھے، علماء كرام نے اس كے كئى ايك جواب ديے ہيں:

1 - يہ حديث ضعيف ہے.

حافظ رحمہ اللہ تعالى " التلخيص " ميں كہتے ہيں: اس كى سند ميں عبد الرحمن بن خلاد ہے جس ميں جھالت پائى جاتى ہے" انتہى
ديكھيں: التلخيص صفحہ نمبر ( 121 ).
اور " المنتقى شرح الموطاء " ميں ہے:
" يہ حديث ان ميں سے ہے جس پر اعتماد ضرورى نہيں " انتہى

2 - اگر حديث صحيح بھى ہو تو اس سے مراد يہ ہے كہ: وہ اپنے گھر ميں سے عورتوں كى امامت كروايا كرتى تھيں.

3 - يہ ام رقہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ خاص ہے، ان كے علاوہ كسى اور كے ليے مشروع نہيں.

4 - بعض علماء كرام نے اس سے مرد كے ليے عورت كى امامت كا جواز ليا ہے، ليكن يہ ضرورت كے وقت ہے، اور ضرورت كا معنى يہ ہے كہ كوئى مرد اچھى طرح سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكتا ہو"

ديكھيں: حاشيۃ ابن قاسم ( 2 / 313 ).
مزيد ديكھيں: المغنى ( 3 / 33 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
محترم آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
سوم فقہاء کے اقوال کے حوالہ سے آپ نے جو بات کی ہے اس سے آپ حضرات کے لئيے خود مشاکل کھڑیں ہوجائیں گی مثلا آپ نے امام شافعی کے کتاب الام کا حوالہ دیا تو اس کتاب میں امام شافعی رحہمہ اللہ نے مرد و عورت کے سجدہ کی کیفیت میں فرق بیان کیا ہے ، کیا آپ وہ قول نظر نہیں آتا بس کسی فقیہ کا قول اپنی مرضی کے مطابق نظر آیا تو نقل کردیا اور جو مرضی کے خلاف ہے اس کو نہ مانا ۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
سوم فقہاء کے اقوال کے حوالہ سے آپ نے جو بات کی ہے اس سے آپ حضرات کے لئيے خود مشاکل کھڑیں ہوجائیں گی مثلا آپ نے امام شافعی کے کتاب الام کا حوالہ دیا تو اس کتاب میں امام شافعی رحہمہ اللہ نے مرد و عورت کے سجدہ کی کیفیت میں فرق بیان کیا ہے ، کیا آپ وہ قول نظر نہیں آتا بس کسی فقیہ کا قول اپنی مرضی کے مطابق نظر آیا تو نقل کردیا اور جو مرضی کے خلاف ہے اس کو نہ مانا ۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو


بھائی پہلے آپ اھل حدیث کے بارے میں جانے پھر بات کریں تو اچھا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
سوم فقہاء کے اقوال کے حوالہ سے آپ نے جو بات کی ہے اس سے آپ حضرات کے لئيے خود مشاکل کھڑیں ہوجائیں گی مثلا آپ نے امام شافعی کے کتاب الام کا حوالہ دیا تو اس کتاب میں امام شافعی رحہمہ اللہ نے مرد و عورت کے سجدہ کی کیفیت میں فرق بیان کیا ہے ، کیا آپ وہ قول نظر نہیں آتا بس کسی فقیہ کا قول اپنی مرضی کے مطابق نظر آیا تو نقل کردیا اور جو مرضی کے خلاف ہے اس کو نہ مانا ۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
أخبرنا سفيان الثوري عن الأعمش عن إبراهيم عن أبي معمر عن ابن مسعود قال: كان الرجال والنساء في بني إسرائيل يصلون جميعا، فكانت المرأة (لها الخليل) تلبس القالبين فتقوم عليهما، تقول بهما لخليلها، فألقي عليهن الحيض، فكان ابن مسعود يقول: أخروهن من حيث أخرهن الله. قيل: فما القالبان؟ قال: أرجل من خشب يتخذها النساء يتشرفن الرجال في المساج(الطبرانی فی الکبیر:۳۔۳۶۔۲
اس حدیث کو تقلید کی پٹی اتار کر پڈھنا تاکہ سمجھ آجاے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
سوم فقہاء کے اقوال کے حوالہ سے آپ نے جو بات کی ہے اس سے آپ حضرات کے لئيے خود مشاکل کھڑیں ہوجائیں گی مثلا آپ نے امام شافعی کے کتاب الام کا حوالہ دیا تو اس کتاب میں امام شافعی رحہمہ اللہ نے مرد و عورت کے سجدہ کی کیفیت میں فرق بیان کیا ہے ، کیا آپ وہ قول نظر نہیں آتا بس کسی فقیہ کا قول اپنی مرضی کے مطابق نظر آیا تو نقل کردیا اور جو مرضی کے خلاف ہے اس کو نہ مانا ۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو

http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-حدیث-کون-ہیں-اوران-کے-امتیازات-وصفات-کیا-ہیں-؟.15609/
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
أخبرنا سفيان الثوري عن الأعمش عن إبراهيم عن أبي معمر عن ابن مسعود قال: كان الرجال والنساء في بني إسرائيل يصلون جميعا، فكانت المرأة (لها الخليل) تلبس القالبين فتقوم عليهما، تقول بهما لخليلها، فألقي عليهن الحيض، فكان ابن مسعود يقول: أخروهن من حيث أخرهن الله. قيل: فما القالبان؟ قال: أرجل من خشب يتخذها النساء يتشرفن الرجال في المساج(الطبرانی فی الکبیر:۳۔۳۶۔۲
اس حدیث کو تقلید کی پٹی اتار کر پڈھنا تاکہ سمجھ آجاے
وَكَذَلِكَ إنْ قَدَّمَ الْإِمَامُ الْمُحْدِثُ امْرَأَةً فَصَلَاتُهُ وَصَلَاتُهَا وَصَلَاةُ الْقَوْمِ كُلُّهُمْ فَاسِدَةٌ؛ لِأَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَصْلُحُ لِإِمَامَةِ الرِّجَالِ قَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «أَخِّرُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّهُ» فَاشْتِغَالُهُ بِاسْتِخْلَافِ مَنْ لَا يَصْلُحُ خَلِيفَةً لَهُ إعْرَاضٌ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ: «أَخِّرُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّهُ» عَقِيبَ قَوْلِهِ «خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا وَشَرُّهَا آخِرُهَا وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا»
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنا موقف صرف قرآن و ست سے پیش کریں ، بیچ میں علماء و فقہاء کو اقوال کو شامل نہ کریں ۔ ایک تو یہ آپ کے نعرہ کے خلاف ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث سے بات کرتے ہیں دوسرا ابھی تصوف کے حوالہ سے بھی ایک شکایت پر یہی کہا جارہا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے ثبوت پیش کریں ، علماء کے اقوال نہ پیش کریں تو آپ سے بھی گذارش ہے کہ صرف قرآن و سنت سے حوالہ پیش کریں
سوم فقہاء کے اقوال کے حوالہ سے آپ نے جو بات کی ہے اس سے آپ حضرات کے لئيے خود مشاکل کھڑیں ہوجائیں گی مثلا آپ نے امام شافعی کے کتاب الام کا حوالہ دیا تو اس کتاب میں امام شافعی رحہمہ اللہ نے مرد و عورت کے سجدہ کی کیفیت میں فرق بیان کیا ہے ، کیا آپ وہ قول نظر نہیں آتا بس کسی فقیہ کا قول اپنی مرضی کے مطابق نظر آیا تو نقل کردیا اور جو مرضی کے خلاف ہے اس کو نہ مانا ۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو
جناب من آپ مجھے یہ بتائیں کہ جو قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو تو ؟
ہم کہتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث کے خلاف کسی کی بات کو نہیں مانتے۔ گویا ہم قرآن وحدیث پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اب چاہے قرآن وحدیث کے مطابق کسی کی بھی بات ہو، ہم ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن کسی کی بھی بات قرآن وحدیث سے ٹکرائے گی۔ ہم وہ نہیں مانیں گے۔

آپ نے کتاب الام کے حوالے سے بات کی، تو گزارش ہے کہ ایک ہی کتاب میں اگر ایک بات قرآن وحدیث کے مطابق ہے۔ اور دوسری قرآن وحدیث کے خلاف۔ تو موافق قرآن وحدیث قول لیا جائے گا۔ مخالف چھوڑا جائے گا۔۔ باقی یہ تو بچگانہ سے بھی بچگانہ حرکت وبات ہے کہ ایک کتاب سے اگر قرآن وحدیث سے مطابق بات مل جائے، وہ لے کر اسی کتاب کا حوالہ دے دیا جائے۔ تو پھر کہنے والا یہ کہہ دے کہ آپ نے یہ بات تو اس کتاب سے لی ہے۔ تو یہ بات بھی لیں۔۔۔ یہ اس کا فعل صحیح نہیں۔۔۔ کیونکہ ہم موافق قرآن وحدیث لیتے ہیں۔ مخالف قرآن وحدیث نہیں۔

اب آپ ہمت کریں اور یہ ثابت کرکے دے دیں کہ امام شافعی علیہ الرحمہ کی کتاب الام میں جو یہ بات ہے کہ
كسى بھى حالت ميں كبھى بھى عورت كا مرد كى امام بننا جائز نہيں " انتہى ديكھيں: الام ( 1 / 191 ).
کو قرآن وحدیث کے خلاف ثابت کردیں، ہم ایک منٹ سے پہلے چھوڑ دیں گے۔۔۔ اور اسی طرح آپ نے جس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسی کتاب الام میں مرد اور عورت کے سجدہ کے طریقہ میں فرق ہے۔۔ تو اس کو کتاب وسنت سے ثابت کردیں، ہم فوراً سے پہلے مان جائیں گے۔ ان شاءاللہ

کریں ہمت اگر کرسکتے ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top