محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
تمہارے بڑوں اس کو مرفوع کے حکم لیا ہے اور اسی سے مندرجہ بالا مسئلہ کو ثابت بھی کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :محترم آپ سے گذارش ہے کہ جب بحث کے دوران کوئی حدیث پیش کیا کریں تو ذرا بتادیا کریں کہ آپ نے کس تناظر میں پیش کی ، ہو سکتا ہے آپ کسی اور تناظر میں پیش کر رہے ہوں اور دوسرا فریق اس کو کسی اور تناظر میں لے کر جواب دے تو بات خلط ملط ہوجاتی ہے
اول
اس میں تو خواتیں و مرد حضرات کی اکٹھی صف بندی کی ممانعت کی دلیل ہے ، مردوں کی امامت معاملہ کہاں سے آگيا
دوم
وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِنَّ الْمَسَاجِدُ تو بتا رہا ہے کہ خواتین پر مساجد حرام کر دیں گئیں ، ایسا تو نہیں آپ حدیث کے ایک ٹکڑے سے تو اپنا موقف ثابت کرنا چاہیں لیکن اسی حدیث کو دوسرے حصے سے آپ کے مسلک پر ہی ضرب پڑ جائے ۔ آپ سے امید ہے آپ اگر استدلال کریں تو مکمل حدیث لیں گے ، اپنے مسلک کو ثابت کرنے لئیے ایک ٹکڑے کا بطور دلیل استعمال نہیں کریں گے
سوم
یہ صحابی کا قول ہے ۔ کیا ایک صحیح حدیث کے مقابلہ میں صحابی کا قول آپ کے ہاں قبول ہے ، جواب دینے سے پہلے یہ بات بھی ذھن میں رکھئیے گا
میں مے آپ جیسا جاہل نہیں دیکھا جو اپنی فقہ سے بھی واقف نہ ہو مقلد غبیتمہارے بڑوں اس کو مرفوع کے حکم لیا ہے اور اسی سے مندرجہ بالا مسئلہ کو ثابت بھی کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
(وَلَا يَجُوزُ لِلرِّجَالِ أَنْ يَقْتَدُوا بِامْرَأَةٍ وَصَبِيٍّ) أَمَّا الْمَرْأَةُ فَلِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَخِّرُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّهُ فَلَا يَجُوزُ تَقْدِيمُهَا» (العنایہ فی شرح الہدایہ:ج۱۔ص۳۵۷)
أَنَّ الْمَرْأَةَ تَصْلُحُ لِإِمَامَةِ النِّسَاءِ فِي الْجُمْلَةِ وَإِنَّمَا لَا تَصْلُحُ لِإِمَامَةِ الرِّجَالِ كَمَا فِي الِابْتِدَاءِ، وَلَنَا أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَصْلُحُ لِإِمَامَةِ الرِّجَالِ قَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَخِّرُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللَّهُ»
أما المرأة فلقوله عليه الصلاة والسلام " أخروهن من حيث أخرهن الله " فلا يجوز تقديمها(الھدایہ فی شرح بدایہ المبتدی(۱۔۵۷
بھائی ایسے طرز کلام سے گریز کریں۔ اپنی بات احسن انداز میں رکھیں اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ شکریہ۔میں مے آپ جیسا جاہل نہیں دیکھا جو اپنی فقہ سے بھی واقف نہ ہو مقلد غبی
بھائی ایسے طرز کلام سے گریز کریں۔ اپنی بات احسن انداز میں رکھیں اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ شکریہبھائی ایسے طرز کلام سے گریز کریں۔ اپنی بات احسن انداز میں رکھیں اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ شکریہ۔
1۔عورت ، خواتین کی امامت کرسکتی ہے اس پر نہ میں نے دلیل مانگی اور نہ اس پر اعتراض کیا ، عورت مردوں کی امامت نہیں کر سکتی ، اس حوالہ سے دلیل مانگي تھی(1) جو ابھی تک نہیں آئی آخر امامت کے معاملہ میں مرد و خواتیں کے طریق میں یہ فرق کیوں رکھا گيا(2)
میں نے ان کی کتاب سے یہ ثابت کیا ہے کہ اور مرفوع حدیث بھی بیا ن کی ہے جسے ان کے بڑوں نے اسی مسئلے کی دلیل بنایا ہے لیکن یہ شخص پھر بھی کہتا ہے کہ کوئی حدیث مجھے بتائی نہیں گئی تو یہ سفید جھوٹ ہے ۔ اور مقلد صرف امام کے قول کو مانتا ہے حدیث کو نہیں مانتا مین دعوے سے کہتا ہوں یہ لوگ تو اپنے امام کے قول کے سامنے حدیث کو رد کر دیتے ہیں انکو حدیث دکھا کر کیا کرنا ہے؟1۔
عورت مردوں کی جماعت نہیں کروا سکتی کیونکہ
پہلی بات : اس پر سنت سے کوئی دلیل موجود نہیں ۔
اس مسئلہ پر سنت فعلی کا ہونا تو عقلا محال ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی صحابیہ کو حکم نہیں دیا کہ تم مردوں کو نماز پڑھاؤ ۔ لہذا اس پر سنت قولی بھی نہیں ہے ۔
کسی بھی صحابیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ( اور بعد میں بھی ) مردوں کی امامت نہیں کروائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو ۔ لہذا سنت تقریری بھی موجود نہیں ۔
گویا اس مسئلہ ’’ عورت کی مردوں کی امامت ‘‘ پر سنت کی کوئی بھی قسم (قولی ، فعلی ، تقریری ) دلالت نہیں کرتی ۔
اور عبادات سے متعلقہ ہر وہ چیز پر جس پر قرآن وسنت سے اثبات کی دلیل نہ ہو یہ اس کے منع ہونے کی دلیل ہے ۔ اصطلاحی زبان میں اس کو یوں کہا جاتا ہے :
الأصل فی العبادۃ التحریم
یعنی عبادات میں اصل ممانعت ہے ۔
اور اس قاعدہ کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے :
من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو رد (رواہ مسلم )
جس نے کوئی بھی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم ( سنت ) موجود نہیں وہ مردود ہے ۔
آخر میں بالکل واضح الفاظ میں گزارش ہے کہ اس پر ’’ ثبوت ‘‘ کی دلیل چاہیے نہ کہ منع کی ۔
دوسری بات :عورت مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی ۔۔۔۔ اس پر امت کا اجماع ہے ۔ اور اجماع امت اہل حدیث کے نزدیک حجت ہے ۔ کیونکہ اس کی حجیت قرآن وسنت سے ثابت ہے ۔
2۔
فرق اس لیے ہے کہ مردوں کا عورتوں کی امامت کروانا سنت سے ثابت ہے ۔
جبکہ عورت کا مردوں کی امامت کروانا سنت سے کسی بھی طرح ثابت نہیں ہے ۔ کماتقدم ۔
اور اس فرق پر اوپر والی مشارکات میں اجماع امت کا بھی ذکر گزر چکا ہے ۔
گزارش : سب بھائیوں سے التماس ہے کہ جب کسی مسئلہ پر علمی انداز میں گفتگو ہورہی ہو تو اس کو علمی انداز میں ہی رہنے دینا چاہیے ۔ جذبات پر علم کے آداب و اخلاق کے ذریعے قابو رکھنا چاہیے ۔
اس کے بارے مین آپ کیا خیال ہے؟ کیا یہ دلیل نہیں ہے؟اور اس کو تو ان کےبڑوں نے بھی مانا ہے اور مندرجہ بالا مسئلہ بھی اسی سے ثابت کیا ہے1۔
عورت مردوں کی جماعت نہیں کروا سکتی کیونکہ
پہلی بات : اس پر سنت سے کوئی دلیل موجود نہیں ۔
اس مسئلہ پر سنت فعلی کا ہونا تو عقلا محال ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی صحابیہ کو حکم نہیں دیا کہ تم مردوں کو نماز پڑھاؤ ۔ لہذا اس پر سنت قولی بھی نہیں ہے ۔
کسی بھی صحابیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ( اور بعد میں بھی ) مردوں کی امامت نہیں کروائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو ۔ لہذا سنت تقریری بھی موجود نہیں ۔
گویا اس مسئلہ ’’ عورت کی مردوں کی امامت ‘‘ پر سنت کی کوئی بھی قسم (قولی ، فعلی ، تقریری ) دلالت نہیں کرتی ۔
اور عبادات سے متعلقہ ہر وہ چیز پر جس پر قرآن وسنت سے اثبات کی دلیل نہ ہو یہ اس کے منع ہونے کی دلیل ہے ۔ اصطلاحی زبان میں اس کو یوں کہا جاتا ہے :
الأصل فی العبادۃ التحریم
یعنی عبادات میں اصل ممانعت ہے ۔
اور اس قاعدہ کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے :
من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو رد (رواہ مسلم )
جس نے کوئی بھی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم ( سنت ) موجود نہیں وہ مردود ہے ۔
آخر میں بالکل واضح الفاظ میں گزارش ہے کہ اس پر ’’ ثبوت ‘‘ کی دلیل چاہیے نہ کہ منع کی ۔
دوسری بات :عورت مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی ۔۔۔۔ اس پر امت کا اجماع ہے ۔ اور اجماع امت اہل حدیث کے نزدیک حجت ہے ۔ کیونکہ اس کی حجیت قرآن وسنت سے ثابت ہے ۔
2۔
فرق اس لیے ہے کہ مردوں کا عورتوں کی امامت کروانا سنت سے ثابت ہے ۔
جبکہ عورت کا مردوں کی امامت کروانا سنت سے کسی بھی طرح ثابت نہیں ہے ۔ کماتقدم ۔
اور اس فرق پر اوپر والی مشارکات میں اجماع امت کا بھی ذکر گزر چکا ہے ۔
گزارش : سب بھائیوں سے التماس ہے کہ جب کسی مسئلہ پر علمی انداز میں گفتگو ہورہی ہو تو اس کو علمی انداز میں ہی رہنے دینا چاہیے ۔ جذبات پر علم کے آداب و اخلاق کے ذریعے قابو رکھنا چاہیے ۔
آپ بار بار چلا کر یہ اعلان کرتے ہیں ہم صرف ان علماء کے اقوال کو مانتے ہیں جو قرآن و حدیث کے مطابق ہوں اور جو بات ان کی کتاب و سنت کے موافق نہیں ہم اس کو نہیں مانتے ، باکل صحیح بات ہے اس سے میں بھی متفق ہوں کہ ایسا ہی ہونا چاہئیےجناب من آپ مجھے یہ بتائیں کہ جو قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو تو ؟
ہم کہتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث کے خلاف کسی کی بات کو نہیں مانتے۔ گویا ہم قرآن وحدیث پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اب چاہے قرآن وحدیث کے مطابق کسی کی بھی بات ہو، ہم ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن کسی کی بھی بات قرآن وحدیث سے ٹکرائے گی۔ ہم وہ نہیں مانیں گے۔
آپ نے کتاب الام کے حوالے سے بات کی، تو گزارش ہے کہ ایک ہی کتاب میں اگر ایک بات قرآن وحدیث کے مطابق ہے۔ اور دوسری قرآن وحدیث کے خلاف۔ تو موافق قرآن وحدیث قول لیا جائے گا۔ مخالف چھوڑا جائے گا۔۔ باقی یہ تو بچگانہ سے بھی بچگانہ حرکت وبات ہے کہ ایک کتاب سے اگر قرآن وحدیث سے مطابق بات مل جائے، وہ لے کر اسی کتاب کا حوالہ دے دیا جائے۔ تو پھر کہنے والا یہ کہہ دے کہ آپ نے یہ بات تو اس کتاب سے لی ہے۔ تو یہ بات بھی لیں۔۔۔ یہ اس کا فعل صحیح نہیں۔۔۔ کیونکہ ہم موافق قرآن وحدیث لیتے ہیں۔ مخالف قرآن وحدیث نہیں۔
اب آپہمت کریں اور یہ ثابت کرکے دے دیں کہ امام شافعی علیہ الرحمہ کی کتاب الام میں جو یہ بات ہے کہ
کو قرآن وحدیث کے خلاف ثابت کردیں، ہم ایک منٹ سے پہلے چھوڑ دیں گے۔۔۔ اور اسی طرح آپ نے جس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسی کتاب الام میں مرد اور عورت کے سجدہ کے طریقہ میں فرق ہے۔۔ تو اس کو کتاب وسنت سے ثابت کردیں، ہم فوراً سے پہلے مان جائیں گے۔ ان شاءاللہ
کریںہمت اگر کرسکتے ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔