• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس کے بارے مین آپ کیا خیال ہے؟ کیا یہ دلیل نہیں ہے؟اور اس کو تو ان کےبڑوں نے بھی مانا ہے اور مندرجہ بالا مسئلہ بھی اسی سے ثابت کیا ہے
آپ بار بار فقہ حنفی کی بات کر رہے ہیں ، فقہ حنفی میں مسئلہ يوں ہے تم مان کیوں نہیں رہے اور ثبوت کے طور فقہی کی کتب سے حوالہ پیش کر رہے ہیں
محترم میں نے اعتراض اہل حدیث کے مسئلے پر کیا ہے ، مجھے معلوم ہے کہ فقہ حنفی میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی اور اس پر کیا دلائل فقہ حنفی میں موجود ہیں وہ بھی مجھے معلوم ہیں
اصل اعتراض اہل حدیث پر ہے ، اس بات پر تو آپ حضرات بھی متفق ہیں کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ، لیکن میری نظر میں یہاں اہل حدیث کا یہ کہنا کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی خود ان کے اصول کی بنیاد پرنہییں
اہل حدیث کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے عورتوں کی مردوں کی امامت کی ممانعت نظر نہیں آرہی وہی دلیل آپ حضرات سے چاہئیے
آپ حضرات خود کہتے ہیں اگر ہم پر کچھ ثابت کرنا ہے تو صرف قرآن و حدیث کے حوالہ سے بات کریں ۔ میں آج وہی کر رہا ہوں تو آپ بار بار فقہ حنفی کا حوالہ دے رہے ہیں
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ محترم جو احادیث آپ پیش کر رہے ہیں اس میں ساتھ کچھ وضآحت کردیا کریں کہ کس تناظر میں پیش کی ، بعض احادیث میں تو آپ نے حوالہ بھی نہیں دیا کہ حدیث کہاں سے لی۔ایک حدیث میں عبد اللہ بن مسعود کا قول پیش کیا اور ایک حدیث میں خواتین اور مردوں کی باہمی صف بندی کی ممانعت ہے ۔ آپ صرف موضوع سے متعلق حدیث پیس کریں اور وہ حدیث آپ کا موقف کس طرح ثابت کرتی ہے ذرا سی وضاحت کردیں
مذید اس حدیث کی حيثیت آپ کے ہاں صحیح حدیث کی ہونی چاءہئے ،
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ صلوا کما رایتمونی اصلی تو جس طرح نبی نے نماز پڑھی امتی بھی ویسے نماز پڑھے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے ، جس طرح نبی نے تکبیر تحریمہ کہی اسی طرح امتی بھی تکبیر تحریمہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے جس طرح نبی نے رکوع کیا امتی بھی ویسے ہی رکوع کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے جس طرح نبی نے امامت کی (اور ہم نے ان کی امامت کی کیفیفت احادیث کی روشنی میں دیکھی ) اسی طرح امتی بھی امامت کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے اب ہم دیکھتے ہیں نبی نے مردوں کی بھی امامت کی بچون کی بھی اور خواتین کی بھی لیکن جب خواتین کی امامت کا معاملہ آجاتا ہےتو خواتین کو مردوں کی امامت سے روکا جاتا ہے بس اسی استثناء کی دلیل چاءہئیے
آب آتے ہیں آپ کے دلائل کی طرف

عورت مردوں کی جماعت نہیں کروا سکتی کیونکہ
پہلی بات : اس پر سنت سے کوئی دلیل موجود نہیں ۔
اس مسئلہ پر سنت فعلی کا ہونا تو عقلا محال ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی صحابیہ کو حکم نہیں دیا کہ تم مردوں کو نماز پڑھاؤ ۔ لہذا اس پر سنت قولی بھی نہیں ہے ۔
کسی بھی صحابیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ( اور بعد میں بھی ) مردوں کی امامت نہیں کروائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو ۔ لہذا سنت تقریری بھی موجود نہیں ۔
گویا اس مسئلہ ’’ عورت کی مردوں کی امامت ‘‘ پر سنت کی کوئی بھی قسم (قولی ، فعلی ، تقریری ) دلالت نہیں کرتی ۔
اور عبادات سے متعلقہ ہر وہ چیز پر جس پر قرآن وسنت سے اثبات کی دلیل نہ ہو یہ اس کے منع ہونے کی دلیل ہے ۔ اصطلاحی زبان میں اس کو یوں کہا جاتا ہے :
الأصل فی العبادۃ التحریم
یعنی عبادات میں اصل ممانعت ہے ۔
اور اس قاعدہ کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے :
من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو رد (رواہ مسلم )
جس نے کوئی بھی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم ( سنت ) موجود نہیں وہ مردود ہے ۔
آخر میں بالکل واضح الفاظ میں گزارش ہے کہ اس پر ’’ ثبوت ‘‘ کی دلیل چاہیے نہ کہ منع کی ۔

۔
اگر یہی مطالبہ ہم کریں کہ ثابت کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابیہ کو کہا کہ مردوں کی طرح سجدہ کرو اور ان ہی کی طرح نماز پڑہو
تو آپ حضرات کی طرح سے فورا یہ جواب آئے گا مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے صلوا کما رایتمونی اصلی ۔ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو احادیث کی روشنی میں قیام و رکوع کرتے ہو دیکھا جاسکتا ہے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مردوں و عورتوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے تو امامت میں کیوں فرق رکھا گيا ہے ۔ اور حدیث کے الفاظ عام ہیں اس میں طریقہ نماز بھی شامل ہے خواہ وہ مقتدی کا طریقہ نماز ہو یا امام کا اور نماز کی کیفیت بھی اس میں شامل ہیں خواہ مقتتدی کی ہوں یا امام کی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا یہ حکم صرف طریقہ نماز کے لئیے ہے اور باقی کیفیت میں یہ حکم نہیں
ثبوت کی دلیل میں نے دے دی ہے اب استثناء کی دلیل آپ نے دینی ہے
دوسری بات :عورت مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی ۔۔۔۔ اس پر امت کا اجماع ہے ۔ اور اجماع امت اہل حدیث کے نزدیک حجت ہے ۔ کیونکہ اس کی حجیت قرآن وسنت سے ثابت ہے ۔
کیا ایک حدیث کا حکم اجماع سے منسوخ ہو سکتا ہے ؟ ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ بات آپ کے اصول کے خلاف ہے
حدیث صلوا کما رایتمونی اصلی جو مردوں و عورتوں کے لئیے بھی ہے اور امام اور مقتدی کے لئيے بھی ہے ۔ کیا اجماع سے آپ یہ حدیث منسوخ سمجھ رہے ہیں ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اور حدیث کے الفاظ عام ہیں اس میں طریقہ نماز بھی شامل ہے خواہ وہ مقتدی کا طریقہ نماز ہو یا امام کا اور نماز کی کیفیت بھی اس میں شامل ہیں خواہ مقتتدی کی ہوں یا امام کی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا یہ حکم صرف طریقہ نماز کے لئیے ہے اور باقی کیفیت میں یہ حکم نہیں
آپ کے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ حدیث طریقہ نماز کے علاوہ کو بھی عام ہے۔ آپ اہلحدیث کے اصول کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں تو ہمارے نزدیک یہ حدیث فقط "طریقہ نماز" کے بارے میں ہے جیسا کہ خود حدیث کے الفاظ میں ہی صراحت ہے۔ آپ اس حدیث کو اذان، وضو، صف، امامت وغیرہ کے احکامات کے لئے عام تسلیم کرتے ہیں تو اس کی دلیل دیجئے، فقط آپ کا کہہ دینا کوئی دلیل نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ صلوا کما رایتمونی اصلی تو جس طرح نبی نے نماز پڑھی امتی بھی ویسے نماز پڑھے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے ، جس طرح نبی نے تکبیر تحریمہ کہی اسی طرح امتی بھی تکبیر تحریمہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے جس طرح نبی نے رکوع کیا امتی بھی ویسے ہی رکوع کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے جس طرح نبی نے امامت کی (اور ہم نے ان کی امامت کی کیفیفت احادیث کی روشنی میں دیکھی ) اسی طرح امتی بھی امامت کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے اب ہم دیکھتے ہیں نبی نے مردوں کی بھی امامت کی بچون کی بھی اور خواتین کی بھی لیکن جب خواتین کی امامت کا معاملہ آجاتا ہےتو خواتین کو مردوں کی امامت سے روکا جاتا ہے بس اسی استثناء کی دلیل چاءہئیے (1)
۔۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا یہ حکم صرف طریقہ نماز کے لئیے ہے اور باقی کیفیت میں یہ حکم نہیں
ثبوت کی دلیل میں نے دے دی ہے (2) اب استثناء کی دلیل آپ نے دینی ہے

کیا ایک حدیث کا حکم اجماع سے منسوخ ہو سکتا ہے ؟(3) ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ بات آپ کے اصول کے خلاف ہے
حدیث صلوا کما رایتمونی اصلی جو مردوں و عورتوں کے لئیے بھی ہے اور امام اور مقتدی کے لئيے بھی ہے ۔ کیا اجماع سے آپ یہ حدیث منسوخ سمجھ رہے ہیں ؟

اجماع امت ۔ ویسے آپ کے نزدیک اس استثناء کی دلیل کیا ہے ؟

ثبوت کی جو دلیل آپ نے دی ہے وہ دلیل تو بالکل ٹھیک ہے یعنی حدیث میں کوئی کلام نہیں ۔ لیکن اس سے آپ نے جو معنی اخذ کیا ہے وہ درست نہیں ہے ۔ اپنے اخذ کردہ معنی کی تائید میں کسی صحابی ، تابعی ، حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی کا کوئی قول پیش کرسکتے ہیں ؟ اس حدیث کا جو معنی آپ نے بیان کیا ہے پوری امت کا اس کے خلاف اجماع ہے ۔

بھائی اجماع ناسخ نہیں ہوتا بلکہ مظہرِ دلیلِ ناسخ ہوتا ہے ۔ جس طرح کوئی ایک شخص شرعی حکم کو تبدیل نہیں کرسکتا اسی طرح ساری دنیا مل کر بھی ایسا نہیں کرسکتی ۔
ہم اجماع سے اس حدیث کو منسوخ نہیں سمجھ رہے بلکہ ہم اجماع سے آپ کو یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ حدیث کا جو معنی آپ نے سمجھا ہے وہ اجماع امت کے خلاف ہے ۔
یعنی پوری امت نے اس سے اور معنی سمجھا ہے اور آپ اس سے کچھ اور سمجھ رہے ہیں ۔
اگر حدیث ’’ صلوا کما رأیتمونی أصلی ‘‘ دلیل ہوتی اس مسئلہ کے جواز پر’’ عورتوں کا مردوں کی امامت کروانا ‘‘ تو پوری امت اس ’’ منع ‘‘ پر متفق نہ ہوتی ۔
بالفاظ دیگر
پوری امت کا اس بات پر جمع ہونا کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرواسکتی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث ’’ صلوا کما رأیتمونی أصلی ‘‘ میں اس مسئلہ کے جواز پر دلالت نہیں ہے ۔
اگر اس حدیث میں اس مسئلہ کے جواز کی دلیل ہوتی تو پوری امت اس کے خلاف متفق نہ ہوتی کیونکہ پوری امت بحیثیت جماعت غلطی نہیں کرسکتی ۔

تنبیہ : اس مسئلے پر اور بھی دلائل ہیں جیساکہ پہلی مشارکات میں گزر بھی چکے ہیں لیکن بات لمبی نہ ہو اس غرض سے میں نے اختصار کو ترجیح دی ہے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم جناب حضرت تلمیذ صاحب

لگتا ہے میری پوسٹ یا تو مکمل پڑھنے کی توفیق نہیں ہوئی، یا مکمل پڑھنے کی تکلیف نہیں کی۔ یا پھر مکمل پوسٹ پڑھنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ یا اگر جرات کرکے پڑھ بھی لی ہے تو میٹھا ہپ اور کڑوا تھو پہ چل پڑے ہیں۔
جناب میں نے آپ سے کچھ باتوں کا مطالبہ کیا تھا۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر ہمت ہے تو ہمت کریں۔ وہ باتیں یہ تھیں

1۔ اگر کسی کی بات قرآن وحدیث کے خلاف نہ ہو تو کیا کیا جائے گا ؟
2۔ کتاب الام کی یہ بات ’’كسى بھى حالت ميں كبھى بھى عورت كا مرد كى امام بننا جائز نہيں " انتہى ديكھيں: الام ( 1 / 191 ) ‘‘ قرآن وحدیث یا اقوال صحابہ یا اجماع امت یا قیاس وغیرہ کے خلاف ثابت کریں۔
3۔ کتاب الام کے حوالے سے مرد اور عورت کے سجدہ کے طریقہ میں فرق کی جو بات آپ نے کی ہے۔ اس کو کسی الگ تھریڈ میں ثابت کریں کہ جو بات امام شافعی علیہ الرحمۃ نے کی ہے۔ وہ قرآن وحدیث کے ان دلائل سے ثابت ہے۔
آپ نے ان تین باتوں کو تو ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔ بلکہ آگے بڑھنے میں ہی عافیت سمجھی، کیونکہ آپ سمجھ رہے تھے کہ اسی میں ہی عافیت ہے۔۔۔چلو خیر
آپ بار بار چلا کر یہ اعلان کرتے ہیں ہم صرف ان علماء کے اقوال کو مانتے ہیں جو قرآن و حدیث کے مطابق ہوں اور جو بات ان کی کتاب و سنت کے موافق نہیں ہم اس کو نہیں مانتے ، باکل صحیح بات ہے اس سے میں بھی متفق ہوں کہ ایسا ہی ہونا چاہئیے
واہ تلمیذ صاحب واہ ۔۔۔ ایک بات صحیح بھی ہے اور خود بھی تسلیم کیے جارہے ہیں۔۔ اور پھر کہہ بھی رہے ہیں کہ آپ بار بار چلا کر یہ اعلان کرتے ہیں۔۔۔ تو جناب اس چلاتی اعلان کو تو آپ بھی مان رہے ہیں۔۔۔ تو آپ بتائیں آپ اس کا اعلان کیسے کرتے ہیں؟۔۔ چلّا مِلّا کر یا ڈھولکی بجانے والوں کے دائرہ میں؟
لیکن آپ کا حضرات کا طرز عمل کچھ اور ہے ۔ جب ایک عالم کی بات کی دلیل قرآن و حدیث سے مل گئی تو صرف قران و حدیث کی وہ دلیل ہی پیش کی جانی چاہئیے نہ کہ عالم کی بات دھرانی چاہئیے
ابتسامہ
مثلا زید کہتا ہے کہ عبداللہ نے کہا کہ اس کے پاس سونے کی گھڑی ہے ۔ جب تک آپ کو یقین نہیں کہ واقعی عبداللہ کے پاس سونے کی گھڑی ہے تو آپ زید کا حوالہ دیں گے کہ اس نے یوں کہا ہے جب آپ خود تصدیق کرلیں گے واقعی عبداللہ کے پاس سونے کی گھڑی ہے تو زید کے حوالہ کی کوئي وقعت نہیں رہتے آپ خود کہ سکتے ہیں کہ عبد اللہ کے پاس سونے کی گھڑی ہے
ابتسامہ
بعینہ اسی طرح جب امام شافعی کی بات کی دلیل آپ کتاب و سنت سے مل گئی ہے تو امام شاقعی کے قول کی ضرورت نہیں رہی اب آپ حضرات کو خود قرآن و سنت سے بات پیش کرنی چاءہئیے کیوں کہ آپ اب قرآن و سنت اک دلیل تک پہنچ گئے ہیں۔
ابتسامہ
Muhammad Aamir Younusکی پوسٹ میں جابجا فقہاء کے اقوال کے حوالہ تھے ۔ میں نے یہی کہا تھا کہ اگر فقہاء کے اقوال آپ کے ہاں دلیل ہیں تو کتاب الام میں امام شافعی کے دوسرے مسائل میں بھی اقوال ہیں ان کو بھی تسلیم کرلیں اور اگر آپ امام شافعی کے صرف ان اقوال کو مانتے ہیں جن کی دلیل آپ کتاب و سنت سے مل جائے تو جب آپ ان کے قول کی دلیل قران و سنت میں مل گئی ہے تو قرآن و سنت سے جواب دیں بیچ میں کتاب الام سے امام شافعی کے قول گھسیڑنے کیا ضرورت
ابتسامہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تلاش کرتے ہوئے ادارہ محدث نے بھی اس موضوع پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا تھا۔۔ جون 2005۔ جن کے کچھ مضامین پیش ہیں

1۔ عورت كى امامت احاديث كى روشنى ميں
2۔ نماز ميں عورت كى امامت؟
3۔ كيا عورت مردوں كى امامت كراسكتى ہے؟
4۔ عورت كى امامت كى شرعى حيثيت
5۔ امامت ِ نسواں كا جواز؟حديث ِ اُمّ ورقہ كى روشنى ميں

قوی امید ہے کہ اب طبیعت میں کچھ فرق پڑے گا۔ ان شاءاللہ



حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , ثنا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ , ثنا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ , ثنا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيعٍ , حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي , عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ وَكَانَتْ تَؤُمُّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَذِنَ لَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا»
( سنن الدار قطني- باب صلاة النساء جماعة وموقف امامهن- جزء2-ص261)

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْبَغَوِيُّ , ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، نا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ , نا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيعٍ , عَنْ أُمِّهِ , عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَذِنَ لَهَا أَنْ يُؤَذَّنَ لَهَا وَيُقَامَ وَتَؤُمَّ نِسَاءَهَا»
( سنن الدار قطني- باب في ذكر الجماعة وأهلها وصفة الامام- جزء2-ص21)
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191

ثبوت کی جو دلیل آپ نے دی ہے وہ دلیل تو بالکل ٹھیک ہے یعنی حدیث میں کوئی کلام نہیں ۔ لیکن اس سے آپ نے جو معنی اخذ کیا ہے وہ درست نہیں ہے ۔ اپنے اخذ کردہ معنی کی تائید میں کسی صحابی ، تابعی ، حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی کا کوئی قول پیش کرسکتے ہیں ؟ اس حدیث کا جو معنی آپ نے بیان کیا ہے پوری امت کا اس کے خلاف اجماع ہے ۔

بھائی اجماع ناسخ نہیں ہوتا بلکہ مظہرِ دلیلِ ناسخ ہوتا ہے ۔ جس طرح کوئی ایک شخص شرعی حکم کو تبدیل نہیں کرسکتا اسی طرح ساری دنیا مل کر بھی ایسا نہیں کرسکتی ۔

ہم اجماع سے اس حدیث کو منسوخ نہیں سمجھ رہے بلکہ ہم اجماع سے آپ کو یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ حدیث کا جو معنی آپ نے سمجھا ہے وہ اجماع امت کے خلاف ہے ۔

یعنی پوری امت نے اس سے اور معنی سمجھا ہے اور آپ اس سے کچھ اور سمجھ رہے ہیں ۔

اگر حدیث ’’ صلوا کما رأیتمونی أصلی ‘‘ دلیل ہوتی اس مسئلہ کے جواز پر’’ عورتوں کا مردوں کی امامت کروانا ‘‘ تو پوری امت اس ’’ منع ‘‘ پر متفق نہ ہوتی ۔
بالفاظ دیگر

پوری امت کا اس بات پر جمع ہونا کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرواسکتی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث ’’ صلوا کما رأیتمونی أصلی ‘‘ میں اس مسئلہ کے جواز پر دلالت نہیں ہے ۔

اگر اس حدیث میں اس مسئلہ کے جواز کی دلیل ہوتی تو پوری امت اس کے خلاف متفق نہ ہوتی کیونکہ پوری امت بحیثیت جماعت غلطی نہیں کرسکتی ۔

تنبیہ : اس مسئلے پر اور بھی دلائل ہیں جیساکہ پہلی مشارکات میں گزر بھی چکے ہیں لیکن بات لمبی نہ ہو اس غرض سے میں نے اختصار کو ترجیح دی ہے ۔
جزاک اللہ خیرا
یعنی اگر کوئي حدیث پیش کرکے ایسا مطلب نکالے جو اجماع امت کے خلاف ہو تو اس شخص کو حدیث پر عامل نہیں گے بالکہ چوں کہ امت کے فقہاء نے جو مسئلہ بتایا ہے وہ حدیث کے اس معنی سے ٹکرا رہا ہے جو یہ شخص لے رہا ہے تو اس شخص کے فہم حدیث کو رد کیا جائے گا ۔
اس سے دو بات عیاں ہیں
1-
کسی حدیث کو سمجھنے کے لئيے فقہاء کے اقوال کا معلوم ہونا ضروری ہے کہیں ہم وہ مطلب نہ لے لیں جو فقہاء امت کے اجتھادات کے خلاف ہو
2-
اگر کوئی حدیث کا ایسا مطلب لیتا ہے جو جمہور فقہاء کے اجتھادات کے خلاف ہے تو کہا جائے گا
مذکورہ شخص نے حدیث کا مطلب جمہور امت کے خلاف لیا ہے

میں مذید کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہیں آپ نے کی بورڈ کی روانی میں تو مندرجہ بالا تحریر نذر قرطاس (میرا مطلب ہے نذر کمپیوٹر) تو نہیں کردی ، کیا آپ اپنے موقف پر قائم ہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاک اللہ خیرا
یعنی اگر کوئي حدیث پیش کرکے ایسا مطلب نکالے جو اجماع امت کے خلاف ہو تو اس شخص کو حدیث پر عامل نہیں گے بالکہ چوں کہ امت کے فقہاء نے جو مسئلہ بتایا ہے وہ حدیث کے اس معنی سے ٹکرا رہا ہے جو یہ شخص لے رہا ہے تو اس شخص کے فہم حدیث کو رد کیا جائے گا ۔
اس سے دو بات عیاں ہیں
1-
کسی حدیث کو سمجھنے کے لئيے فقہاء کے اقوال کا معلوم ہونا ضروری ہے کہیں ہم وہ مطلب نہ لے لیں جو فقہاء امت کے اجتھادات کے خلاف ہو
2-
اگر کوئی حدیث کا ایسا مطلب لیتا ہے جو جمہور فقہاء کے اجتھادات کے خلاف ہے تو کہا جائے گا
مذکورہ شخص نے حدیث کا مطلب جمہور امت کے خلاف لیا ہے

میں مذید کچھ لکھنا چاہ رہا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہیں آپ نے کی بورڈ کی روانی میں تو مندرجہ بالا تحریر نذر قرطاس (میرا مطلب ہے نذر کمپیوٹر) تو نہیں کردی ، کیا آپ اپنے موقف پر قائم ہیں ؟
آپ کی پہلی بات سے اتفاق ہے جبکہ دوسری بات سے بھی اتفاق ہی ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ پوری امت غلطی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی البتہ بعض لوگ یا اکثریت غلط ہو سکتے ہیں ۔
بالفاظ دیگر
امت کا اجماعی فہم غلط نہیں ہوسکتا جبکہ جمہور کا فہم غلط ہوسکتا ہے ۔
آپ کا شکریہ کہ آپ نے میری خیرخواہی کی اور مجھ سے پوچھ لیا کہ میں اپنی ہی لکھی ہوئی تحریر سے متفق ہوں کہ نہیں ؟ تو جناب میں نے جو لکھا ہے میں نے الحمد للہ علی وجہ البصیرۃ لکھا ہے اور مجھے یہ بھی نہیں یاد پڑتا کہ کسی نے کبھی میری آئی ڈی کے واسطے سے لکھا ہو کہ اس سلسلے میں کسی بھائی کو بار بار تصدیق کی ضرورت پڑے کہ میں اپنے ہی لکھے ہوئے سے متفق ہوں کہ نہیں ۔
خیر آپ کی ہمدردی کے لیے شکریہ ۔ لیکن اس طرح کی ہمدردی ہم ایک دوسرے سے شروع کریں تو مشارکات و مباحثے اور مناظرے مزید طویل ہو جائیں گے ۔
پہلی مشارکت میں اپنا مافی الضمیر بیان کریں پھر اس کے بعد اگلے دن اس پر مہر تصدیق ثبت کریں اور پھر دوسرا فریق جواب دینے کے لیے انہیں مراحل سے گزرے ۔
امید ہے اب آپ میری ماقبل مشارکت کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے موضوع سے متعلق اپنی نگارشات سے نوازیں گے ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ کی پہلی بات سے اتفاق ہے جبکہ دوسری بات سے بھی اتفاق ہی ہے لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ پوری امت غلطی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی البتہ بعض لوگ یا اکثریت غلط ہو سکتے ہیں ۔
بالفاظ دیگر
امت کا اجماعی فہم غلط نہیں ہوسکتا جبکہ جمہور کا فہم غلط ہوسکتا ہے ۔
آپ کا شکریہ کہ آپ نے میری خیرخواہی کی اور مجھ سے پوچھ لیا کہ میں اپنی ہی لکھی ہوئی تحریر سے متفق ہوں کہ نہیں ؟ تو جناب میں نے جو لکھا ہے میں نے الحمد للہ علی وجہ البصیرۃ لکھا ہے اور مجھے یہ بھی نہیں یاد پڑتا کہ کسی نے کبھی میری آئی ڈی کے واسطے سے لکھا ہو کہ اس سلسلے میں کسی بھائی کو بار بار تصدیق کی ضرورت پڑے کہ میں اپنے ہی لکھے ہوئے سے متفق ہوں کہ نہیں ۔
خیر آپ کی ہمدردی کے لیے شکریہ ۔ لیکن اس طرح کی ہمدردی ہم ایک دوسرے سے شروع کریں تو مشارکات و مباحثے اور مناظرے مزید طویل ہو جائیں گے ۔
پہلی مشارکت میں اپنا مافی الضمیر بیان کریں پھر اس کے بعد اگلے دن اس پر مہر تصدیق ثبت کریں اور پھر دوسرا فریق جواب دینے کے لیے انہیں مراحل سے گزرے ۔
امید ہے اب آپ میری ماقبل مشارکت کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے موضوع سے متعلق اپنی نگارشات سے نوازیں گے ۔
میری پوسٹ کو بعض اہل حدیث مسلک کے ممبران نے غیر متفق قرار دیا ہے تو گویا جو میں نے کہا اس پر تمام اہل حدیث متفق نہیں ۔ بہر حال آپ متفق ہیں تو آپ سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں
آپ نے جو صرف اجماع کی بات کی اور جمھور علماء کی رائے کے متعلق کہا کہ یہ غلط بھی ہوسکتا ہے تو پہلی بات یہ جن آیات و احادیث سے ہم اجماع کا مطلب لیتے ہیں تو وہاں جمھور علماء کے اقوال کی روشنی میں لیتے ہیں ، وہاں بھی اجماع نہیں ، یعنی اجماع کے ثبوت میں بھی جو قرآنی آیات پیش کی جاتیں ہیں یا احادیث پیش کی جاتیں ہیں ان سے استنباط میں بذات خود اجماع نہیں بلکہ وہاں اجماع کا ثبوت بذات خود جمہور علماء کے اقوال کی روشنی میں کیا جاتا ہے

موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے

آپ نے جو یہ کہا حدیث صلوا کما رایتمونی اصلی سے عورت کی مردوں کی امامت کا جواز نہیں نکل سکتا کیوں کہ یہ اجماع امت کے خلاف ہے ۔ تو محترم عورت کی جو مردوں کی امامت ہے تو یہ جمھور علماء کے اقوال ہے اجماع امت نہیں
ملاخطہ ہو کچھ فقہاء کے اقوال
امام الطبری اور امام ابو ثور نے عورت کی مردوں کی امامت کی مطلق اجازت دی ہے خواہ فرق ہو یا نفل نماز (حوالہ بدایہ المجتھد لابن راشد)
بعض نےعورت کی محارم مردوں کی امامت کا جواز دیا ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل اور اس صورت میں وہ مردوں کی پیچھے کھڑے ہو کر امامت کروائے گي
کتاب الانصاف للمرداوي
بعض نے فرض میں تو عورت کی مردوں کی امامت کا جواز نہیں دیا لیکن نفل میں جائز کہا ہے جیسا کہ تراویح میں امامت کے متعلق بعض حنابلہ کا قول ہے
(کتاب الانصاف )
تو عورت کی مردوں کی امامت کی نفی کرنے میں آپ کا اجماع امت کی دلیل تو غلط ہے کیوں اس نفی پر جمھور علماء کے اقوال تو ہیں اجماع نہیں
تو اب آپ کیا دلیل دیتے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ حدیث سے امامہ المرأه للرجال کے معنی نکلنے کی نفی ثابت ہوجائے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ صلوا کما رایتمونی اصلی تو جس طرح نبی نے نماز پڑھی امتی بھی ویسے نماز پڑھے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے ، جس طرح نبی نے تکبیر تحریمہ کہی اسی طرح امتی بھی تکبیر تحریمہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے جس طرح نبی نے رکوع کیا امتی بھی ویسے ہی رکوع کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے جس طرح نبی نے امامت کی (اور ہم نے ان کی امامت کی کیفیفت احادیث کی روشنی میں دیکھی ) اسی طرح امتی بھی امامت کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اگر کوئی استثناء کی حدیث ہو تو الگ بات ہے اب ہم دیکھتے ہیں نبی نے مردوں کی بھی امامت کی بچون کی بھی اور خواتین کی بھی لیکن جب خواتین کی امامت کا معاملہ آجاتا ہےتو خواتین کو مردوں کی امامت سے روکا جاتا ہے بس اسی استثناء کی دلیل چاءہئیے
آب آتے ہیں آپ کے دلائل کی طرف

اگر یہی مطالبہ ہم کریں کہ ثابت کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابیہ کو کہا کہ مردوں کی طرح سجدہ کرو اور ان ہی کی طرح نماز پڑہو
تو آپ حضرات کی طرح سے فورا یہ جواب آئے گا مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے صلوا کما رایتمونی اصلی ۔ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو احادیث کی روشنی میں قیام و رکوع کرتے ہو دیکھا جاسکتا ہے اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مردوں و عورتوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے تو امامت میں کیوں فرق رکھا گيا ہے ۔ اور حدیث کے الفاظ عام ہیں اس میں طریقہ نماز بھی شامل ہے خواہ وہ مقتدی کا طریقہ نماز ہو یا امام کا اور نماز کی کیفیت بھی اس میں شامل ہیں خواہ مقتتدی کی ہوں یا امام کی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا یہ حکم صرف طریقہ نماز کے لئیے ہے اور باقی کیفیت میں یہ حکم نہیں
ثبوت کی دلیل میں نے دے دی ہے اب استثناء کی دلیل آپ نے دینی ہے

کیا ایک حدیث کا حکم اجماع سے منسوخ ہو سکتا ہے ؟ ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ بات آپ کے اصول کے خلاف ہے
حدیث صلوا کما رایتمونی اصلی جو مردوں و عورتوں کے لئیے بھی ہے اور امام اور مقتدی کے لئيے بھی ہے ۔ کیا اجماع سے آپ یہ حدیث منسوخ سمجھ رہے ہیں ؟

نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی حدیث: صلوا کما رایتمونی اصلی (نماز اسی طرز پر پڑھو جس طرز پر مجھے پڑھتے ہوے دیکھتے ہو) سے مراد نماز پرھنے کی کیفیت ہے - جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی نماز کی کیفیت میں کوئی فرق نہیں - ورنہ اگر امامت کی بات ہوتی تو عورتوں پر تو نماز باجماعت واجب ہی نہیں - پھرآپ اس حدیث کو لے کر عورتوں کی امامت کا مسلہ کیوں اٹھا رہے ہیں ؟؟؟

ہو سکتا ہے کہ کل کو آپ یہ اعتراض بھی کریں کہ اس حدیث میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ "جس طرز پر مجھے پڑھتے ہوے دیکھتے ہو" - تو اس مراد آپ صل الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں نہ کہ ہم لوگ - کیوں کہ انہوں نے ہی نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا - جب کہ ہم نہیں دیکھا - کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
 
Top