• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آخری کی پوسٹ تو انتہائی لغو ہے، اس طرح کے مکالے اور ڈرامے بازیاں ہرفریق کرسکتاہے،لیکن ہوگاکیا،قرآن وحدیث ایک مذاق کا موضوع بن جائیں گے۔
اولاتو طلاق ثلاثہ کے موضوع پر ایک پورا کتب خانہ تیار ہوگیاہے، اب بیکار میں اس بحث کو چھیڑنے سے کیافائدہ ؟ بالخصوص جب کہ اہل حدیث حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ جن کو اہل حدیث کہتے ہیں یعنی امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل وہ بھی اس مسئلہ میں ان کے موافق نہیں ہیں، دوسرے لفظوں میں کہیں تو خوداہل حدیث کا ایک بڑاطبقہ تین کو ایک نہیں مانتا۔
تبصرہ کرنے سے پہلے کسی پوسٹ کو مکمل پڑھ لینا چاہیے ۔ یہ صاحب نہ اہل حدیث ہیں ، نہ دیوبندی ، نہ بریلوی ، اور بدعوی خود نہ ہی اہل قرآن و منکر حدیث ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
آپ کو یہ ڈرامائی مکالمہ محض اس لئے پسند آرہاہے کہ آپ کے موقف کی تائید کی جارہی ہے، اگرایساہی ڈرامائی موقف کوئی حنفی پیش کرتا توابھی تک شاید اس طرح کی باتیں شروع ہوجاتیں کہ یہ غیر شرعی ہے،خدا اوربندے کا مکالمہ اسلام کے خلاف ہے وغیرذلک،اسی چیز کو قرآن میں کہاگیاہے۔
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
تین طلاق
کیا قرآن میں تین طلاق کا ذکر ہے؟ اگر نہیں تو ہم نے تین طلاق کا بھوت کیوں اپنے اوپر سوار کیا ہوا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں جس طلاق کا ذکر ہے وہ خلع بالمال کی طلاق کا ہے۔یعنی جو عورت مال دے کر طلاق حاصل کرتی ہے وہ سابق شوہر پر حرام ہوتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے۔اگر مرد طلاق دیتا ہے تو نکاح کو فسخ کرنے کے لئے ایک ہی طلاق کافی ہوتی ہے۔ الطلاق مرٰتان کا مطلب دو طلاقیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی طلاق کو دو بار کہنے کا نام ہے۔ پہلی دفعہ کو نوٹس کہا جاسکتا ہے اور دوسری دفعہ کو فیصلہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ اس لئے تاکہ میاں بیوی کے درمیاں صلح کے لئے تھوڑا وقت میسر آسکے۔

طلاق 2 + طلاق= 3 طلاق

طلاق 2، نوٹس اور پھر طلاق، فیصلہ
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کے دیے ہوئے رجوع کے حق کو ختم نہیں کیا ، اگر ختم کیا ہوتا تو ایک مجلس میں ایک طلاق دینے والے کو بھی رجوع کاحق نہ ہوتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی صورت میں یہ اجتہاد فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو رجوع کا حق دینے میں ایک مانع موجود ہے اور وہ مانع شریعت کا مذاق اڑانا ہے۔پس شریعت نے ایک طلاق کی صورت میں آسانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق دینے والے شخص کو رجوع کا جو حق دیا تھ، اسی حق رجوع میں اس شرعی حکم کا مذاق اڑانا ایک مانع بن گیا۔دوسرے الفاظ میں ایک رحمت یا آسانی والے قانون سے کیا اس شخص کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے جس نے اسی قانون کو کھیل تماشا بنا لیا ہو تو اس بارے صحابہ کرام اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ جاری ہوا کہ کسی شرعی حکم یا قانون کا مذاق اڑانا اس شرعی حکم یا قانون کی نرمیوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک مانع ہے۔یہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ کی توجیہ ہے۔
جب ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی ہے تو یہ شرعی حکم کا مذاق کیسے ہے؟
اگر یہ مذاق بھی ہو تو بھی اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے حق کو کیسے سلب کیا جاسکتا ہے؟ اس پر حاکمِ وقت نے تعزیر کیوں نہیں دی؟
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
حضرت عمر کے حکم (جس کی دہائی اکثر احناف دیتے ہیں) کہ ایک مجلس میں تین طلاق، تین ہی تصور کی جائیں گی-یہ ایک تعزیری حکم تھا -ایسا کرنے والے کو کوڑے بھی مارے جاتے تھے - کیا احناف کے علماء نے تین طلاقوں کا فتویٰ دیتے ہوے، اکھٹی تین طلاقیں دینے والے کو کوڑے مارنے کا بھی کبھی فتویٰ دیا ہے ؟؟
ایک مجلس کی تین ط،اق کو تین ہی گننا چاہیئے کیوں کہ تین کو ایک تو نہی کہا جاسکتا۔ ہاں یہ ایک غلط قدم تھا کہ جو کام ایک طلاق سے ممکن تھا اس نے تعدی کی اور صلح کی گنجائش نہ چھوڑی۔ اسی پر تعزیراً کوڑے لگائے گئے اور یاد رہے تعزیر نص نہیں کہ اس پر فتویٰ دیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ناروا عمل پر شدید غصے ہوئے حالاں کہ طلاق کے ایک جائز معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غصے نہیں ہوئے اور ہو بھی کیسے سکتے تھے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جائز رکھا۔
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64

طلاق پر حدیث مسلم کا حقیقی مفہوم

عن ابن عباس، قال: " كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم "۔ مسلم

اس حدیث میں تین باتیں سمجھنی اہم ہیں۔
۱۔ “کان الطلاق علی عہد ۔۔۔ طلاق الثلاث واحدہ”
دور عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تین طلاق ایک ہوتی تھی (ایک سمجھی جاتی تھی، یا ایک شمار کی جاتی تھی)
کس کے نزدیک ایک ہوتی تھی؟ طلاق دینے والے کے نزدیک یا قانون شریعت میں؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔

اہلحدیث بھائی یہاں قانون شریعت مراد لیتے ہیں جبکہ امام نووی رحمة اللہ علیہ جو مشہور شارح مسلم ہیں وہ یہاں طلاق دینے والے کو مراد لیتے ہیں۔ کہ طلاق دینے والا تین دے کر ایک مراد لیتا تھا۔
جب کلام ذومعنی ہو یا اس میں ابہام ہو یعنی ایک سے زیادہ معنی کا احتمال ہو تو شارحین حدیث کو دیکھا جانا زیادہ معقول ہے بہ نسبت اپنی عقل لڑانے کے

۲۔ ان الناس قداستعجلوہ
یہ تعجیل یعنی جلدی کیا تھی؟
جب بقول آپکے قانون میں لکھا ہے کہ آپ یک مشت تین طلاق دو یا سو ایک ہی مانی جائیگی اور اس میں طلاق دینے والے کا کوئی اختیار نہیں تو لوگوں نے کیا جلدی کی اور اس جلدی سے کیا فرق پڑا؟ زیادہ سے زیادہ ایک مہمل کام ہوا جس سے نا کوئی فائدہ ہوا نا نقصان۔
امام نووی کہتے ہیں کہ اصل میں قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی بلکہ لوگوں کی نیت کا اعتبار تھا۔ جب تین ایک کی نیت سے دیتے تو ایک مانی گئی اور جب لوگوں نے جلدی کر کے تین کو تین کی نیت سے دینا شروع کردیا تو قانون شریعت کے تحت بکراہت ان کی تین کو تین ہی مانا گیا۔ امام نووی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ “اس حدیث میں لوگوں کی عادت بدلنے کی خبر ہے نا کہ مسئلہ بدلنے کی”
۳۔ “فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم”
عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر تین ہی نافذ کر دیں- کیوں؟
اہلحدیث بھائی کہتے ہیں کہ اس کا مقصد تعزیر یعنی انہیں سزا دینا تھا۔ لیکن یہ معنی غیر منطقی اور خلاف عقل و خلاف شرح شارحین حدیث ہیں۔
اگر آپ کی شرح مان لی جائے تو اس کی مثال یوں بنے گی۔
“کوئی حکومت ایک قانون بناتی ہے کہ تیسرے یعنی سرخ اشارے کو کراس نہیں کرنا۔ پہلے اکا دکا لوگ کراس کرتے تو اسے پہلا اشارہ ہی سمجھا جاتا کوئی گرفت نا کی جاتی۔ لیکن جب لوگوں نے کثرت سے ایسا کرنا شروع کردیا تو حکومت نے تیسرے اشارہ کراس کرنے کو ہی قانون بنا دیا تاکہ جب لوگوں کا خوب جانی و مالی نقصان ہو تو وہ تجربے سے سیکھیں اور ایسا کرنے سے باز آجائیں”
کوئی بھی ذی شعور معاشرہ ایسا قانون نہیں بنا سکتا۔ اگر تیسرے یعنی سرخ اشارے کو کاٹنا منع تھا اور لوگوں نے کثرت سے کاتنا شروع کر دیا تو ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جائیگی ناکہ تیسرے اشارہ کاٹنے کو ہی قانونی شکل دے دی جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون تھا ہی نہیں۔ بلکہ قانون میں یہ تھا کہ تین طہر میں طلاق دینی ہے لیکن اگر ایسا نہیں کرو گے اور احمق، عاجز یعنی بیوقوف و ناقص العلم ہو جاو گے تو تین اکٹھی بھی قبول کر لی جائیںگی۔اور خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے بنو گے۔ اسی مطلب کو امام نووی رحمة اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے۔
اس حدیث کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک اور مثال عرض ہے۔
دو آدمیوں نے دو علیحدہ جگہ یا مواقع پر سانپ دیکھے۔ ایک آدمی نے ایک سانپ دیکھا مگر خوف کی کیفیت کی بنا پر اس نے زور سے پکارا “سانپ، سانپ، سانپ” تو کیا یہ تین سانپ ہیں یا ایک سانپ؟
دوسرے شخص نے تین سانپ دیکھے اور اس نے کہا تین سانپ۔ یا جیسے جیسے اسے سانپ دکھتے گئے اس نے سانپ سانپ سانپ کے الفاظ بولے تو اب ان کو کتنے سانپ سمجھا جائیگا؟
ظاہر ہے کہ پہلے والے شخص کے معاملے میں ایک ہی سمجھا جائیگا اگرچہ اس نے تین دفعہ سانپ کا لفظ بولا۔
اور دوسرے کیس میں تین ہی سمجھے جائینگے کیونکہ اس نے تین کا لفظ بولا یا تین دفعہ سانپ کا لفظ بولنے میں تین سانپ ہی مراد لئے۔
یہی حقیقت امام نووی رحمة اللہ علیہ سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ کہ دور عمر سے پہلے اگرچہ بعض لوگ طلاق طلاق طلاق کہتے تھے لیکن وہ اس سے تاکید مراد لیتے تھے ناکہ استیناف یعنی قطعیت۔ اور دور عمر رضی اللہ عنہ میں جب کہتے کہ تین طلاق یا طلاق طلاق طلاق قطعیت کی نیت سے تو ان پر ویسے ہی نافذ کیا گیا جیسا ان کی نیت تھی۔
امام نووی رحمة اللہ علیہ کے موقف کی تائید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے۔
‏‏‏”۔۔ وَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً ؟ فَقَالَ رُكَانَةُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏”
ترجمہ:
(۲۲۰۶) رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ( قطعی طلاق ) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟ رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔ابوداود۔

متن و ترجمہ شرح امام نووی رحمة اللہ علیہ
فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيدا ولا استئنافا يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد فلما كان في زمن عمر رضي الله عنه وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستئناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق إلى الفهم منها في ذلك العصر.
( شرح مسلم للنووی: ج۱ص۴۷۸)
کہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہہ کر طلاق دیتا تو دوسری اور تیسری طلاق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ کہ استیناف (قطعیت) کی، تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔

مزید فرماتے ہیں۔
المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره
( شرح مسلم للنووی: ج۱ص۴۷۸)
ترجمہ: مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا (تین بول کر بھی ایک ہی کی نیت ہوتی تھی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں (تین ہی کی نیت سے) بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ویسے ہی) انہیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔
امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا، -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے
وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
 
شمولیت
اکتوبر 03، 2016
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
محمد رمضان سلفی
(2) طلاقِ ثلاثہ کو ’تین‘ ثابت کرنیوالوں کے دلائل کا جائزہ

حنفیہ کے ہاں طلاق کی اقسام : ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے دلائل کا جائزہ لینے سے قبل حنفی مذہب میں طلاق کی اقسام کو سمجھ لینا مناسب ہے، تاکہ آنے والے دلائل کی مراد سمجھنے میں آسانی رہے۔ حنفیہ کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں :
(1) احسن
(2) حسن
(3) بدعی

(1) احسن طلاق سے مراد یہ ہے کہ شوہر ایسے طہر میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے جس میں اس نے بیوی سے مقاربت نہ کی ہو۔ اور طلاق دینے کے بعد عدت ختم ہونے تک اس کو چھوڑے رکھے، طلاق کی یہ احسن صورت ہے۔
(2) حسن طلاق سے مراد یہ ہے کہ مدخول بہا عورت کو تین طہروں میں وقفے وقفے سے طلاق دے، یعنی ایک طہر میں پہلی طلاق دے، دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔یہ طلاق کی حسن صورت ہے۔
(3) طلاقِ بدعت یہ ہے کہ یکبار اسے تین طلاق دے دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے دے۔ طلاق کی یہ صورت بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔1

اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جو طلاقِ ثلاثہ کے واقع ہونے پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ ہماری رائے میں طلاقِ ثلاثہ کی روایات کو طلاقِ بدعت پر محمول کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے جسے خود حنفی مذہب میں بھی بدعت کہا گیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ان روایات کو طلاق حسن پر محمول کیا جائے تو کوئی اختلاف باقی نہ رہے۔

ایک مجلس کیطلاقِ ثلاثہ کو تین قرار دینے والوں کے دلائل کی حقیقت
(1) سب سے پہلے قرآن کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ...﴿٢٣٠﴾...سورۃ البقرۃ

اور اس سے استدلال یوں کیا جاتاہے کہ یہاں حرف 'فا' ہے جو اکثر تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے۔ جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو کے بعد اگر کسی نادان نے تیسری طلاق بھی فی الفور دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مجلس اور ایک ہی جگہ میں تین طلاقیں دی جائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کی تفسیر میں دفعتہً تین طلاقیں دینا بھی داخل ہے۔ 2

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت سے قبل آنے والی آیت ِکریمہ {ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌۢ بِإِحْسَـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾...سورۃ البقرۃ}میں دو طلاقوں سے مراد کون سی طلاق ہے؟ جب ان دو طلاقوں سے مراد رجعی طلاقیں ہیں جو وقفے وقفے سے دی جاتی ہیں ، یکبارگی نہیں تو اس پر مرتب ہونے والی تیسری طلاق جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہے: {فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ...﴿٢٣٠﴾...سورۃ البقرۃ}سے بھی وہ تیسری طلاق مراد ہوگی جو دوسری طلاق کے بعد فی الفور نہیں بلکہ وقفہ کے بعد تیسرے طہر میں دی گئی ہو۔ جب یہ آیاتِ کریمہ وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جانے والی طلاقوں کے حکم کو بیان کرنے کے لئے ہیں تو اس میں دفعتہً ؍ یکبار تین طلاقیں دینا داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک ہی آیت ِکریمہ دو متضاد مفاہیم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ باقی رہا یہ کہنا کہ یہاں حرف 'فا' ہے جو تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے تو اس کا جواب مضمون کے سابقہ حصہ میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔

(2) ایک مجلس میں طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے قائلین دوسری دلیل کے طور پر حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں : ''حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، سو اس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور اس نے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا: کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ کرلے اور لطف اندوز نہ ہوجائے۔'' 3

مضمون نگار لکھتے ہیں : ''اس حدیث میں ''طلَّق امرأته ثلاثًا'' کے جملہ کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ ظاہراً اسی کو چاہتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً دی گئی تھیں ۔'' 4
یہ حدیث دراصل رفاعہ قرظیؓ کی حدیث کا اختصار ہے۔ اسی لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے رفاعہ قرظیؓ کی مفصل حدیث کے بعد ذکر کیاہے اور حضرت رفاعہؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً نہیں دی تھیں بلکہ متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں اور اسی کے لئے اس حدیث میں ثلاثًا کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب اللباس میں جب اس حدیث کو لائے ہیں تو وہاں وضاحت موجود ہے کہ حضرت رفاعہؓ نے یکے بعد دیگرے وقفہ کے ساتھ تین طلاقیں دی تھیں ، حدیث کے الفاظ یوں ہیں :
عن عائشة أن رفاعة القرظي طلَّق امرأته فبَتَّ طلاقھا فتزوجھا بعدہ عبدالرحمٰن بن الزبیر فجاء ت النبي ! فقالت: یا رسول اﷲ! إنھا کانت عند رفاعة فطلَّقھا آخرثلث تطلیقات۔۔۔ 5

یہاں ''فطلقھا آخر ثلث تطلیقات'' کے الفاظ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رفاعہؓ نے تین طلاقیں وقفے وقفے سے دی تھیں ، پہلے دو طلاقیں دی جاچکی تھیں اور اب تیسری طلاق بھی دے دی جو آخری ہے اور اسی کو بتة طلاق کہا گیا ہے اور آخرثلث تطلیقات کے یہ الفاظ صحیح مسلم (حدیث 14،3513) اور سنن کبریٰ از بیہقی (جلد 7؍ ص 374) پربھی اس حدیث میں موجود ہیں جو تین طلاق کے متفرق طور پر دئیے جانے کی واضح دلیل ہیں اور اگر اس حدیث کو رفاعہؓ کی حدیث کا اختصار نہ بھی ماناجائے تب بھی اس میں آنے والے ثلاثًا کے لفظ کوطلاقِ بدعت پر نہیں بلکہ طلاقِ حسن پر محمول کرناچاہئے، کیونکہ جداجدا دی ہوئی تین طلاقوں کے لئے لفظ ثلاثا کا استعمال قرآن و سنت اور لغت و عرف ہر اعتبار سے درست ہے اور اس حدیث میں اکٹھی تین طلاقیں دینے کا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے۔ امام ابن قیم جوزیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''لیس فیه أنه طلَّقھا ثلاثا بفم واحد فلا تدخلوا فیه ما لیس فیه''
'''حدیث ِعائشہؓ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اس نے یکبار اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں ، لہٰذا جس چیز کا حدیث میں ذکر نہیں ، اسے اس میں داخل نہیں کرنا چاہئے۔ '' 6

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کو باطل قرار دیا ہے۔ 7

(3) ان حضرات کی تیسری دلیل یہ حدیث ہے کہ ''حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو تین طلاقیں دے دیتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اس شخص کے لئے حلال نہیں ہے، جب تک کہ دوسراخاوند اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح کہ پہلا خاوند اس سے لطف اُٹھا چکا ہے۔ 8
اس حدیث میں بھی لفظ ثلاثا بظاہر اسی کا مقتضی ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دفعتہً دی گئی ہوں ۔'' 9

میں کہتا ہوں کہ اگر اس حدیث میں ثلاثًاکے لفظ سے تین طلاقیں اکٹھی دینامراد ہوتا تو حدیث ِمذکور میں اس کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوتا، جیساکہ محمود بن لبید کی حدیث میں جمیعًا کا لفظ ذکر کرکے تین طلاق کے اکٹھی اور دفعتہً ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
''عن محمود بن لبید قال: أخبر رسول اﷲ ﷺ عن رجل طلَّق امرأته ثلاث تطلیقات جمیعًا فقام غضبانًا،ثم قال أیُلعب بکتاب اﷲ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال:یا رسول اﷲ،ألا أقتله10
''حضرت محمود بن لبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپتہ چلا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپؐ غصہ کی حالت میں اُٹھے اور فرمایا: کیامیرے ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے، یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ۔''

دیکھئے، جس آدمی نے تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں ، اسے ذکر کرتے ہوئے ثلاث کے لفظ کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوا ہے۔ جبکہ حضرت عائشہؓ کی حدیث ِمذکور میں ایسا کوئی لفظ نہیں ۔ لہٰذا اس میں لفظ ثلاثا کو دفعتہً اکٹھی تین طلاق پر محمول کرنا تحکم اور سینہ زوری کے سوا کچھ نہیں ۔ بنا بریں اس میں ثلاثا کے لفظ سے وہی طلاق مراد ہے جو مباح اور حسن ہے اور جو وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جاتی ہے۔

(4) تین طلاق کو تین قرار دینے والوں کی طرف سے محمود بن لبید کی وہی حدیث پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ بمع ترجمہ ابھی ذکر ہوئے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
''اس صحیح روایت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ دفعتاً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ورنہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اس پر سخت ناراض ہوتے اور نہ ہی یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔ البتہ آپؐ نے باوجود ناراضگی کے ان تینوں کو اس پر نافذ کردیا۔''11

یہ بالکل غلط بات ہے کہ ایک کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوں حتیٰ کہ ایک آدمی ایسے طلاق دہندہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگے اور پھر وہ تین طلاقیں نافذ بھی کردی جائیں ، یہ نہیں ہوسکتا، ورنہ اس پر آپؐ کا ناراض ہونا بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔ یہ کبھی نہیں ہواکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام پر سخت ناراض ہوئے ہوں اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ مذاق قرار دیا ہو اور پھر اسے نافذ بھی کردیا ہو، امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''وکیف یظن برسول اﷲ! أنه أجاز عمل من استھزأ بکتاب اﷲ وصححه و اعتبرہ في شرعه وحکمه ونفذہ وقد جعله مستھزء ا بکتاب اﷲ تعالیٰ'' 12
''رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ آپؐ کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والے شخص کے کام کو جائز اور صحیح بنا دیں یا شریعت میں اس کا اعتبار کرتے ہوئے اسے نافذ کردیں جبکہ آپؐ نے اسے کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والا کہا ہے تو اب اس کی دی ہوئی طلاقوں کا اعتبار کیونکر ہوسکتاہے؟''

(5) ان کی پانچویں دلیل حضرت سہل بن سعدؓ کی یہ روایت ہے کہ حضرت عویمرؓ نے آپؐ کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ ؐ نے ان کونافذ کردیا۔(سنن ابوداؤد) ''اگر دفعتہً تین طلاقیں حرام ہوتیں اور تین کا شرعاً اعتبار نہ ہوتا اور تین طلاقیں ایک تصور کی جاتیں تو آپؐ ضرور اس کا حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہ فرماتے۔'' 13

حضرت عویمرؓ کا یہ واقعہ طلاق ثلاثہ کی بجائے دراصل لعان کا واقعہ ہے اورحدیث ِلعان سے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کرناانتہائی کمزور دلیل ہے کیونکہ لعان کرنے سے میاں اور بیوی کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی اور علیحدگی واقع ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد وہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ حدیث نبویؐ کے الفاظ: ثم لا یجتمعان أبدا (لعان کے بعد وہ کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے) اسی کی تائید کرتے ہیں ، لہٰذا لعان کے بعد حضرت عویمرؓ کا اس عورت کو طلاق دینا ایسے ہی لغو (رائیگاں ) تھا جیسے راہ چلتی کسی اجنبی عورت کو تین طلاقیں دے دینا عبث ہے۔ کیونکہ لعان کے بعد وہ عورت طلاق کا محل ہی نہیں رہتی۔اور لعان سے ہونے والی جدائی ایک یا ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی قطعاً محتاج نہیں ہے۔

رہا یہ سوال کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عویمرؓ کے اس فعل پرخاموش رہے ہیں ، اگر دفعتہً تین طلاقیں دینا حرام ہوتا تو آپؐ کبھی خاموشی اختیار نہ کرتے۔ تو اس کا جواب حنفی مذہب کے ممتاز عالم شمس الائمہ سرخسی نے اپنی تالیف المبسوط میں دیا ہے کہ
''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہِ شفقت عویمر عجلانیؓ کی بات پر انکار نہ فرمایا، اس لئے کہ آپؐ کو معلوم تھا کہ وہ غصے میں ہے اور اگر غصہ کی بنا پر اس نے آپؐ کی بات نہ مانی تو کافر ہوجائے گا۔ لہٰذا آپؐ نے اس پر انکار کو مؤخر فرما دیا اور ''فلا سبیل لك علیها'' (تجھے اب اس پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا) کہہ کر اس فعل کی تردید کردی۔ نیز یہ کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اس لئے ناجائز ہے کہ اس سے تلافی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور لعان کی صورت میں تو تلافی کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔''14

اوراگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو یہاں رضا پر محمول کرلیاجائے، جیسا کہ مضمون نگار کا خیال ہے، پھر تو تین طلاقیں اکٹھی دینا بدعت بھی نہیں رہے گا۔ جبکہ حنفی مذہب میں بھی تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ حضرت عویمرؓ کے اس فعل پر آپؐ کی خاموشی رضا کے اظہار کے لئے نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ اس کا یہ فعل بے محل ہونے کی وجہ سے عبث تھا۔ اگر حضرت عویمرؓ کا لعان کے بعد اس عورت کو تین طلاقیں دینے کاعمل برمحل اور مؤثر ہوتا تو آپؐ اس پر اسی طرح ناراضگی اور غصے کا اظہار فرماتے جس طرح محمود بن لبید کی حدیث کے مطابق ایک آدمی کے تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے پر آپؐنے غصے کا اظہار فرمایاتھا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ؟ لہٰذا لعان والی حدیث سے دفعتہً تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا انتہائی ضعیف موقف ہے۔

(6) ان حضرات کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض یاطہر کے وقت دے دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے حضرت ابن عمرؓ سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا، تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے۔ چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھر آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بناکر رکھ لینا، اس پر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتلائیں ، اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔ 15

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔'' 16

اگر فقہی جمود کو چھوڑ کر طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ پر تحقیق کی جاتی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر ہرگز استدلال نہ کیا جاتا، کیونکہ اکٹھی تین طلاقوں کے موقف کی تردید اسی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی تھی اور دیگر دو طلاقوں کو بھی وہ متفرق طور پر دو حیض یا دو طہر میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے، حدیث ِمذکور کے آغاز میں اس طریقہ طلاق کی صراحت موجودہے، جیسا کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
''حدثنا عبد اﷲ بن عمر أنه طلق امرأته تطلیقة وھي حائض ثم أراد أن یتبعھا تطلیقتین أخراوین عند القرئین الباقیین فبلغ ذلك رسول اﷲ ﷺ ۔۔۔ الخ'' 17
'' عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی دو مختلف حیضوں یا طہروں میں دے دیں ۔۔۔ الخ۔''

جب عبداللہ بن عمرؓ خود باقی دو طلاقیں دو مختلف حیضوں یا دو مختلف طہروں میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے تواسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کیسے کیاجاسکتاہے؟ لہٰذا عبداللہ بن عمرؓ نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اگر میں اسے تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ اس سے متفرق طور پر دو مختلف حیضوں میں طلاق دینا ہی مراد تھا جس کا ارادہ حضرت ابن عمرؓ اس سے پہلے کرچکے تھے، اور اس سے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں مراد لے کر ایک ہی حدیث کے اوّل اور آخر حصے کو آپس میں ٹکرا دینا حدیث نافہمی کی دلیل ہے۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کام کو معصیت کہنا تو اس کا تعلق دراصل حالت ِحیض میں تین طلاقیں دینے سے ہے یا متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنے کو معصیت کہا گیا ہے۔

اس حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنن بیہقی کی یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شعیب بن رزیق راوی ہے جسے محدثین نے مجروح قرا ردیا ہے۔ دوسرا راوی عطاء خراسانی ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ضعیف ہے اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔ 18

(7) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت نافع بن عجیر فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی) طلاق دی۔ اس کے بعد اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور کہا: بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیاہے؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم! تو نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے؟ رکانہ نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بی بی اسے واپس دلوا دی۔'' 19

اس پر صاحب ِمضمون کہتے ہیں :
''اگر لفظ بتہ سے دفعتہً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت نہ ہوتا تو جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہؓ کو کیوں قسم دیتے؟ چونکہ کنایہ کی طلاق میں نیت کا دخل بھی ہوتا ہے اور لفظ بتہ تین کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس لئے آپ نے ان کو قسم دی، اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپؐ ان کو قسم نہ دیتے۔'' 20

حنفیہ کا اس حدیث سے دفعتہً تین طلاقیں واقع ہونے پر استدلال کرنا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ روایت ہی ضعیف ہے دوسرا یہ روایت حنفیہ کے مذہب کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ہے، حنفیہ کے مذہب کے مطابق بتہ کے لفظ سے جب ایک طلاق مراد لی جاتی ہے تو وہ ایک بائنہ ہوتی ہے جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا اور بیوی واپس نہیں دلوائی جاسکتی، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''طلاق البتة عند الشافعي واحدة رجعیة وعند أبي حنیفة واحدة بائنة'' 21
''یعنی طلاق بتہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طلاقِ بائنہ پڑے گی۔''

حضرت رکانہ رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ حدیث کے مطابق لفظ بتہ سے ایک طلاق کو رجعی بنایا گیا ہے اور بیوی اسے واپس دلوائی گئی ہے تو اس حدیث سے حنفی حضرات استدلال کیسے کرسکتے ہیں ؟

اور رکانہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت جو بتہ کے لفظ کے ساتھ آئی ہے اور جس سے حنفیہ تین طلاق کے واقع ہونے پر استدلال کرتے ہیں ، زبیر بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ''فیه زبیر بن سعید بن سلیمان نزیل المدائن لین الحدیث من السابعة'' 22

نیز اس میں عبداللہ بن علی بن یزید راوی بھی ضعیف (لین الحدیث) ہے اور نافع بن عجیر مجہول ہے۔ دیکھئے :زاد المعاد: ج4 ؍ص59

عون المعبود میں ہے: ''إن الحدیث ضعیف ومع ضعفه مضطرب ومع اضطرابه معارض بحدیث ابن عباس أن الطلاق کان علی عھد رسول اﷲ واحدة، فالإستدلال بھذا الحدیث لیس بصحیح'' 23
''حضرت رکانہؓ کی بتہ والی حدیث ضعیف ہے ، اور ضعیف ہونے کے ساتھ یہ مضطرب بھی ہے اور مضطرب ہونے کے باوجود یہ عبداللہ بن عباسؓ کی صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور ابوبکر صدیقؓ کے دور اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے دو، تین سال تک ایک ہی شمار ہوتی تھیں ...

اس کے برعکس حضرت رکانہؓ کی وہ حدیث جس میں ثلاثا کالفظ وارد ہے اور وہ تین طلاق کے ایک ہونے کی دلالت کرتی ہے، سند کے اعتبار سے صحیح ثابت ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے
''عن ابن عباس قال طلّق رکانة بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا۔قال: فسأله رسول اﷲ ﷺ )کیف طلقتھا؟( قال:طلقتھا ثلاثا،قال: فقال: )في مجلس واحد؟( قال: نعم۔قال )فإنما تلك واحدة، فارجعھا إن شئت( قال: فرجعھا فکان ابن عباس یریٰ أنما الطلاق عند کل طھر'' 24
'' رکانہ بن عبد ِیزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور پھر اسے اس پر سخت پریشانی ہوئی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے کیسے طلاق دی ہے؟ کہا:تین طلاقیں دے بیٹھاہوں ۔ فرمایا: کیا ایک ہی مجلس میں ؟ کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تو ایک ہی طلاق ہوئی۔ اگر چاہے تو اس سے رجوع کرلے تو رکانہؓ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی رائے میں طلاق ہر طہر میں دینی چاہئے۔''

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا ہے اور اس کے خلاف جوروایات پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف اور مجروح ہیں اور اگر صحیح ہیں تو ان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

(8) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ تو نے پروردگار کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ سے بالکل الگ ہوگئی۔ اس شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ پیش آیاتھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو رجوع کا حق دیاتھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا کہ ''بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلے مگر اس لئے کہ اس کی طلاق باقی تھی اور تیرے لئے اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں ۔''25

کسی حدیث میں ثلاثا یعنی تین کالفظ آجائے تو علماے حنفیہ جھٹ اسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کرکے میاں ، بیوی میں جدائی ڈالنے کا فتویٰ دے دیتے ہیں ۔ اور پھر پریشان حال طلاق دہندہ کو حلالہ کے نام پر بدکاری اور بے غیرتی کا راستہ دکھاتے ہیں ، حالانکہ احناف کے حلالہ اور روافض کے متعہ میں صرف نام کا فرق ہے، درحقیقت دونوں ہی اسلام کی پیشانی پر بدنما دھبہ ہیں ، بلکہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف إغاثة اللھفان میں بارہ وجوہات سے ثابت کیا ہے کہ حلالہ رافضیوں کے متعہ سے بھی زیادہ قبیح اور بُرا ہے۔

اگر احادیث میں وارد ثلاثا(تین) کے لفظ کو طلاقِ حسن یعنی متفرق طور پر طلاق دینے پر محمول کیا جائے اور اسے طلاقِ حسن بنایا جائے تو حلالہ جیسی لعنت سے بچا جا سکتا ہے۔ بنا بریں حدیث ِمذکور میں بھی بتہ کے لفظ سے متفرق طور پر تین طلاقیں دینا مراد ہے کیونکہ اس طرح تیسری طلاق اَزدواجی تعلق کو قطع کردیتی ہے۔ حدیث ِمذکور میں سائل کی اپنی بیوی کو دی ہوئی طلاق کو عبداللہ بن عمرؓ کی طلاق کے ساتھ تشبیہ دینے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس نے تین طلاقیں متفرق طور پر دی تھیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی باقی دو طلاقیں باقی دو حیض میں دینے کا ارادہ کیاتھا، جیسا کہ حدیث نمبر6 کے تحت ذکر ہوچکا ہے اور حدیث میں آنے والے لفظ معصیت اور نافرمانی کا تعلق حیض کی حالت میں طلاق دینے سے ہے، اس حدیث سے تین طلاقیں واقع کرنے والوں کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ اُنہیں چاہئے کہ اس موقف پر کوئی صحیح اور صریح دلیل پیش کریں ۔

(9) ان حضرات کی نویں دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جب اسی قسم کے مسئلہ کے بارہ میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔'' 26

اَحناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں جیسے ''تجھ کو تین طلاق ہے۔'' یا متعدد الفاظ سے ہوں ، جیسے ''تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔''یہ دونوں صورتیں تین طلاق کے حکم میں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مذکورہ فیصلہ ان کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ان کا یہ جملہ کہ ''تم نے ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی'' اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ اکٹھی تین طلاقوں کے بارے میں نہیں بلکہ متفرق طور پر طلاقیں دینے کے بارے میں ہے۔ یہ قرینہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: ''فإن النبي! أمرني بھذا'' کہ'' رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم دیاتھا۔'' ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم نہیں دیا تھاجو کہ بدعت ہے بلکہ متفرق طور پر طلاق دینے کا حکم دیاتھا۔ (جو کہ جائز بلکہ حسن طلاق ہے)27

(10) ان کی ایک دلیل حضرت زید بن وہب کی یہ روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں ۔ جب ان کا یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے ہاں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تو محض دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں ، یعنی میرا قصد و اِرادہ نہ تھا تو حضرت عمرؓ نے دُرّہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا کہ ''تجھے تو تین طلاقیں ہی کافی تھیں ۔'' 28

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ بھی ایک کلمہ یا ایک ہی مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے۔ 29

سوچنے کا مقام ہے کہ مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق مسلسل دے کر اسلام کا تمسخر اُڑایا جو درست نہ تھا۔ لیکن تین طلاقوں کو تین بنانے والے حضرات دفعتہً تین طلاقوں کو تین ہی بنا کر کیوں اسلام کا مذاق اُڑا رہے ہیں ۔ اگر مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی کافعل اسلام کا مذاق اُڑانے کے مترادف تھا تو آج بھی دفعتہً دی ہوئی تین طلاقوں کو تین قرار دینا طلاق کے مشروع طریقے کا مذاق اُڑانے سے کم نہیں ہے، اور اس کے بعد حلالہ نکالنے کا حکم دینے سے تو اس مذاق کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے اس فرمان میں کہ ''تجھے تین ہی کافی تھیں ۔'' تین طلاقیں متفرق طور پر دینے کا احتمال بھی موجود ہے اور اگر حضرت عمرؓ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین قرار دیا بھی ہے جیسا کہ مضمون نگار کی رائے ہے، تو یہ آپ کا ذاتی فیصلہ تھا جو اُنہوں نے اپنی خلافت کے دو تین سال بعد غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔آخر زندگی میں آپؓ نے ندامت کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا تھا۔

(11) ان کی ایک دلیل حضرت انسؓ بن مالک کی یہ روایت ہے کہ'' حضرت عمرؓ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دیں ، فرمایا کہ تین ہی طلاقیں متصور ہوں گی اور وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے اور حضرت عمرؓ کے پاس جب ایساشخص لایاجاتا تو آپؐ اس کو سزا دیا کرتے تھے۔ ''30

اس حدیث سے علماے احناف کا تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا کئی طرح سے درست نہیں ہے۔ ایک تو اس لئے کہ غیرمدخول بہا عورت کو تین طلاقیں دے دی جائیں تو احناف کے نزدیک بھی وہ پہلی طلاق سے جدا ہو جائے گی، دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہدایہ میں ہے:
''فإن فرق الطلاق بانت بالأولی ولم تقع الثانیة والثالثة '' 31

اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِانسؓ سے غیر مدخول بہا کے لئے تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہونے پر استدلال کرنا فقہ حنفی کے ہی خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ حدیث ِانسؓ میں تین طلاق کے دفعتہً دینے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اس میں متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے۔ رہا حضرت عمرؓ کا ایسے شخص کوسزا دینا تو یہ سزا غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دینے پر دی جاتی تھی کیونکہ غیر مدخولہ جب ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے تو اسے تین طلاقیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین شمار کیا بھی ہے تو یہ ان کی خلافت کے دو، تین سال گزرنے کے بعد ان کے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع سے متعلق مشہور فیصلے کی وجہ سے تھا جس کے ذریعے وہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والوں کو اس کارِ معصیت سے روکنا چاہتے تھے۔

(12) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔'' 32

اس حدیث سے استدلال بھی حنفی مذہب کے خلاف ہے جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے، اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ تین طلاقوں سے متفرق طور پر طلاق دینا مراد ہو۔

(13) ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ''ایک روایت میں یوں آیاہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں ، اُنہوں نے فرمایاکہ تین طلاقیں تو اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں اور باقی ماندہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں پرتقسیم کردے۔ 33

معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے ہیں ۔ ''34

اس اثر کی سند میں حبیب بن ابی ثابت اور حضرت علیؓ کے درمیان ''بعض أصحابہ'' یعنی اس کے بعض ساتھیوں کا واسطہ ہے۔ جس کاپتہ ہی نہیں کہ یہ کون شخص ہے اور کیسا ہے؟ لہٰذا اس مجہول راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔35

اور ایسے ضعیف آثار سے استدلال کرنا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔

(14) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ وہ شخص بولاکہ کیا حلالہ کی صورت مںح بھی جواز کی شکل نہیں پیدا ہوسکتی؟ اس پرابن عباسؓ نے فرمایا: جوشخص اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کواس کا بدلہ دے گا۔ '' 36

صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ عہد ِرسالتؐ، خلافت ِصدیقیؓ، اور دوسال خلافت ِفاروقی ؓتک ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی رہی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے ایسے موقع پر عجلت سے کام لیا ہے جس میں ان کے لئے تاخیر چاہئے تھی۔ کاش! ہم اس امر کو ان پر جاری کردیں ۔لہٰذا اُنہوں نے اس امر (تین طلاق...) کو جاری کردیا۔

یہ حدیث حضرت ابن عباسؓ کی روایت کردہ ہے۔ اس کی روشنی میں تین طلاق کو تین قرار دینا ان کی طرف سے بطورِ تعزیر تھا جیسے حضرت عمرؓ نے کیا تھا جوطلاق دہندہ کی سزا کے طور پر اُنہوں نے صادر کیا تھا۔ لیکن یہ فیصلہ عارضی اور وقتی تھا جس سے خود حضرت عمرؓ نے رجوع کرلیاتھا۔ لہٰذا اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔نیز اس حدیث میں 'حلالہ' کے متعلق خداع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو محرّم بنانے کے بعد طلاق دہندہ کوحلالہ کے نام سے بدکاری کا راستہ دکھانا، حلالہ کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے جس کا اللہ تعالیٰ عذاب اور سزا کی صورت میں بدلہ دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّـهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾...سورۃ البقرۃ}

(15) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ''ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیارکیا، ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو اسے واپس دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو: ''اے ابن عباسؓ! اے ابن عباسؓ بات یہ ہے کہ جوشخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لئے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں ۔ تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علیحدہ ہوچکی ہے۔''37

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا ایک فتویٰ تو وہ ہے جو سنن ابوداؤد میں منقول ہے اور جو تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :''إذا قال أنت طالق ثلاثا بفم واحد فھي واحدة'' 38

اور یہی فتویٰ حضرت طاؤس کے واسطے سے بھی عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے اور یہ اس حدیث کے مطابق بھی ہے جو صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور دوسرا فتویٰ ان کا تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے جسے اُنہوں نے حضرت عمرؓ کی طرف سے بطورِ تعزیر کے اختیار کیا تھا یہاں یہی مراد ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ فتویٰ اُنہوں نے طلاق دہندہ کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا جو عارضی اوروقتی تھا اور اسے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔

(16) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمرو کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیر تشریف لائے اورپوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار آدمی نے اپنی غیر مدخول بہا عورت کو دخول سے قبل تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ کہا: جا کر ابن عباسؓ اور ابوہریرہؓ سے پوچھو۔ جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کربتانا کہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کے لئے کافی تھی۔ اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہوگئی ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ 39

یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے لئے کئی طرح سے مفید نہیں :

ایک تو اس لئے کہ اس حدیث میں غیر مدخول بہا کوتین طلاق دینے کاذکر ہے اور غیرمدخول بہا کو تین طلاقیں دی جائیں تو احناف کے نزدیک وہ ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے۔ باقی دو طلاقیں واقع ہی نہیں ہوتیں تو علماے حنفیہ اس حدیث سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کیسے کرسکتے ہیں جبکہ یہ ان کے مذہب کے ہی خلاف ہے۔

دوسرا اس لئے کہ اس حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی گئی تھیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے تین طلاقیں مختلف مجالس میں دی ہوں : إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال !

تیسرا یہ کہ ایسے موقعے پر ایک اُصولی بات کو عام طور پر نظر انداز کردیا جاتاہے وہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت مرفوع حدیث اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت شدہ آثار میں تضاد اور اختلاف پایا جائے تو اس وقت نبی علیہ السلام سے ثابت مرفوع حدیث مقدم ہوتی ہے۔ اور آثار صحابہؓ کو چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ مرفوع حدیث کی نسبت اس مقدس ہستی کی طرف ہوتی ہے جو معصوم ہے جس پر ہر وقت وحی الٰہی کا پہرہ موجود رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص بھی خطا و نسیان سے پاک نہیں ہے۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور کے شروع میں جب کوئی آدمی اکٹھی تین طلاق دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک بنایا جاتا تھا تو اس مرفوع حدیث پر عمل ہونا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں موقوف کو نظر انداز کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم کی رو سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع اور پیروی کا حکم ہے۔

(17) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ''ایک شخص نے حضرت ابن مسعودؓ سے سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو سو طلاق دے دی ہیں ، اب کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے فرمایا تجھے کیا فتویٰ دیا گیا ہے؟ اُس نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت اب مجھ سے بالکل الگ اور جدا ہوگئی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے سچ کہا ہے۔''40

ایسی روایات جن میں بیوی کو دو سو یا ہزار طلاقیں دے ڈالنے کا ذکر آتا ہے اُنہیں پڑھنے والا حیران ہوتا ہے کہ آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اتنی کثرت سے طلاقیں نہیں دیتا کہ وہ دو سو یا ہزار تک پہنچا کر ہی دم لے، لیکن اُس دور میں اتنی کثرت سے طلاقیں کیوں دی جاتی تھیں ؟ درحقیقت وہ لوگ زمانۂ جاہلیت سے ہی کثرت سے طلاقیں دینے کے عادی تھے، ان میں سے کوئی شخص اگر بیوی کو تنگ کرنا چاہتا تو وہ اسے طلاق دے دیتا، اور جب اس کی مطلقہ کی عدت ختم ہونے کے قریب آتی تو پھر اس سے رجوع کرلیتا، اس کے بعد پھر طلاق دے دیتا، اور اس طرح بار بار طلاق دینے اور اس کے بعد رجوع کرلینے سے ان کی تعداد سو تک یا ہزار طلاقوں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ جیسا کہ حضرت عروہ سے مروی ہے :
''کان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعھا قبل أن تنقضي عدتھا کان ذلك له وإن طلقھا ألف مرة فعمد رجل إلی امرأته فطلقھا حتی إذا ما دنا وقت انقضاء عدتھا ارتجعھا ثم طلقھا ثم قال: واﷲ لا آویك إلي ولا، تحلین أبدا'' أخرجه مالك والشافعي والترمذي والبیهقي في سننه 41
''جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتا اور یہ اس کے لئے جائز سمجھا جاتا تھا، اگرچہ نوبت ہزار طلاقوں تک پہنچ جائے۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب آئی تو اس نے رجوع کرلیا۔ اس کے بعد پھر طلاق دے دی اور مطلقہ عورت سے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو میں تجھے بساؤں گا اور نہ ہی تجھے چھوڑوں گا کہ توآگے کسی سے نکاح کرسکے۔''

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ سو یا ہزار طلاقیں کیسے دیتے تھے اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے والے حضرات جو ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں کسی شخص کے اپنی بیوی کو سو یا ہزار طلاقیں دینے کاذکر آتا ہے تو اس سے دفعتہً اکٹھی طلاقیں دینا مراد نہیں ، جیسا کہ عام طور پرسمجھا جاتا ہے۔ بلکہ حضرت عروہ کی حدیث ِمذکور کے مطابق ہر مہینے بعد وقفے سے طلاقیں دینا مراد ہے اور ایسا وہ عورتوں کو ستانے کے لئے کرتے تھے۔ اسلام نے بے شمار طلاقیں دینے کا خاتمہ کردیا، اور تیسری طلاق کو مرد و عورت میں جدائی ڈالنے والی طلاق بنا دیا جس کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن مسعودؓ کی حدیث سے یہی طریقہ طلاق مراد ہے جو حدیث ِعروہ میں ذکر ہوا ہے کہ متفرق طور پر دی ہوئی طلاقوں سے تیسری طلاق سے عورت اس سے جدا ہوجائے گی اور باقی طلاقیں لغو قرار پائیں گی۔

(18) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عمران بن حصینؓ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب وہ کیا کرے؟ حضرت عمران ؓ نے فرمایا کہ اس نے ربّ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے۔'' 42

پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ بصرہ میں حضرت عمر ؓ کی طرف سے لوگوں کو شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مامور تھے۔43

اور اُنہوں نے یہ فتویٰ حضرت عمر ؓ کی طرف سے بطورِ تعزیر اختیار کیا تھا۔دوسرا یہاں بھی ہمیں شریعت کے اس اُصول کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں جب کہ کسی مسئلہ میں نزاع اور اختلاف ظاہر ہوجائے تو قرآنِ کریم نے ہمیں اسے حل کرنے کے لئے ایک اُصول دیا ہے، تاکہ اس پر عمل کرکے اس نزاع کو حل کرلیا جائے، ارشادِباری تعالیٰ ہے: {إِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّـهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّـهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ...﴿٥٩﴾...سورۃ النساء} ''یعنی جب تمہارا کسی چیز میں نزاع اور اختلاف ہوجائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر ت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ۔''اوریہاں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، اور حدیث ِنبویؐ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک طلاق شمار کیاجاتاتھا، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے جبکہ حضرت عمران بن حصینؓ کا فتویٰ حدیث ِمرفوع کے خلاف ہے۔ تو ایسے موقع پر ایک سچے مسلمان کا ضمیر اس بات کو گوارا نہیں کرتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ کر اُمتیوں کی آرا کے پیچھے چلے کیونکہ کوئی بھی اُمتی معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس لئے آثارِ صحابہؓ کے مقابلہ میں مرفوع حدیث پر عمل کرنا ہی قرآنی اُصول کے مطابق ہے جو اوپر بیان کردیا گیا ہے۔

(19) ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے ہم بستری سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، وہ کیاکرے؟ اس پر حضرت عطا بن یسار نے فرمایا کہ کنواری کی طلاق تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ''تم قصہ گو ہو۔ ایک طلاق ایسی عورت کو جدا کردیتی ہے اور تین اس کو حرام کردیتی ہیں ۔'' 44

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا یہ فتویٰ حنفیہ کے خلاف ہے کیونکہ ان کا قول تو یہ ہے کہ باکرہ عورت کو خلوت سے پہلے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی جائیں تو ایک طلاق واقع ہوگی جس سے وہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔ باقی دو طلاقیں لغو اور بے کار ہوجائیں گی، لہٰذا اَحناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا یہ فتویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حدیث ِمرفوع پر عمل کرنا چاہئے۔

(20) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس کا خیال ہوا کہ وہ اس سے نکاح کرلے، اس نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے فتویٰ طلب کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے، اس نے کہا کہ اس کے لئے میری طرف سے ایک ہی طلاق ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم نے اپنا اختیار کھو دیا ہے جو تمہارے ہاتھ میں تھا۔'' 45

اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے قبل ذکر ہوچکا ہے کہ احناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک غیر مدخول بہا کو دی گئی تین طلاقوں میں سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، باقی دو لغو اور بے کار جاتی ہیں ۔ ویسے بھی یہ اثر مرفوع حدیث کے خلاف ہے،لہٰذا قابل عمل نہیں ہے۔ قابل عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی ہے۔

(21) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ '' حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب کیا صورت ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تو نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی ہے اور تجھ پر تمہاری بیوی حرام ہوگئی ہے حتیٰ کہ وہ تمہارے بغیر کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ '' 46

حضرت ابن عباسؓ سے دو فتوے مروی ہیں ، ان میں سے ان کا وہی فتویٰ قبول کیا جائے گا جو انہی سے مروی حدیث کے موافق ہے کہ عہد ِرسالتؐ سے لے کر خلافت عمرؓ کے ابتدائی دوسال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی صحابی کا قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث کے مخالف ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو عمل کے اعتبار سے صحابی کے قول و فعل پر مقدم کیاجاتا ہے اور صحابی کے قول و فعل کی وجہ سے حدیث ِنبوی کومجروح بناکر چھوڑ نہیں دیا جائے گا۔ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ حنفی فرماتے ہیں :
''والحق في ھذاالمقام أن قول النبي ! وفعله أحق بالاتباع وقول غیرہ أو فعله لایساویه في الاتباع فإذا وجد من الصحابي ما یخالف الحدیث النبوي یؤخذ بخبر الرسول ﷺ '' 47
یعنی ''ایسے مقام میں حق اور سچ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور آپ کا فعل ہی اتباع اور پیروی کے لائق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کاقول و فعل اتباع اور پیروی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مساوی اور برابر نہیں ہوسکتا۔لہٰذا جب صحابیؓ کاقول وفعل حدیث ِنبویؐ کے خلاف آجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ہی قبول کیاجائے گا۔''

طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں بحث کا خلاصہ اوراُصولی موقف
طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک اُصولی بات پیش نظر رکھی جائے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا، جیسا کہ حضرت رکانہ بن عبد ِیزیدؓ نے جب اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ایک طلاقِ رجعی قرار دیا تھا۔ یہ بات طے شدہ ہے اور جو دلائل اس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں ، اُنہیں بنظر غائر دیکھا جائے تو ان کی دو صورتیں ہیں یا تو وہ دلائل صحیح ثابت ہوں گے اور صحت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں گے یا پھر وہ دلائل ضعیف اور غیر ثابت ہوں گے۔ اگر وہ دلائل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر پیش کئے جاتے ہیں ، پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں تو اُنہیں دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت علیؓ سے مروی آثار کاحال ہے۔

لیکن اگر وہ دلائل صحیح ثابت ہیں تو دو حال سے خالی نہیں ہیں ۔ یا وہ دلیل مرفوع حدیث ہوگی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے یا پھر اس کا تعلق آثارِ صحابہؓ سے ہوگا۔ اگر وہ دلیل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے، مرفوع حدیث ہے تو اس سے اس موقف پر استدلال کرنا ہی صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جاتا تھا، تو اس کے خلاف تین طلاقوں کو تین ہی بنانے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کلام نبوت میں تضاد کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت عویمرؓ کی حدیث ِلعان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے، جبکہ اُنہوں نے لعان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ملاعنہ عورت کو از خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر تین طلاقیں دے دی تھیں ، حالانکہ لعان کے بعد ان کا یہ طلاقیں دینا بے فائدہ اور بے محل تھا۔ اس لئے کہ لعان کی صورت میں عورت، مرد سے نفس لعان سے ہی جدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ایک یا تین طلاقیں دینا غیر مؤثر اور بے فائدہ ہے، اسی لئے حضرت ہلال بن اُمیہ نے جب اپنی بیوی سے لعان کیا تھا تو اس کے بعد طلاقیں دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہاں صرف لعان کو ہی جدائی کے لئے کافی سمجھا گیاہے۔ 48

دوسرے فریق کی طرف سے جن آثارِ صحابہؓ کو طلاقِ ثلاثہ کے و قوع پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کی بھی دو صورتیں ہیں ۔بعض آثار تو وہ ہیں جو دونوں معنوں کااحتمال رکھتے ہیں ، ان میں جہاں اکٹھی تین طلاق دینے کا احتمال پایا جاتا ہے، وہاں متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے تو کیوں نہ ایسے آثار کو متفرق طور پر تین طلاق دینے پر محمول کیا جائے۔ جو طلاق دینے کا حسن طریقہ بھی ہے اور اس طرح احادیث اور آثار کے درمیان تطبیق بھی ہو جائے گی اور تین طلاقیں اکٹھی دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی اور دفعتہً تین طلاقیں دینے کی بدعت سے بھی بچا جاسکے گا۔

اور اگر وہ آثار متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال نہیں رکھتے بلکہ اکٹھی تین طلاقیں دینے پر ہی دلالت کرتے ہیں تو ان میں ذکر ہونے والی اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کو اس تعزیر پر محمول کیا جائے گا جو حضرت عمر ؓ کی طرف سے غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی جیسا کہ یہ بات حضرت عمرفاروقؓ کے عمل سے بھی ظاہر ہے۔ لیکن اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جائے گا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقہ طلاق سے اس عمل کا تعارض لازم نہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقۂ طلاق کو اختیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق اتباع کو بھی ادا کیا جائے۔ وما علینا إلا البلاغ
حوالہ جات
1. الھدایة: ص373
2. ماہنامہ 'الشریعہ' جولائی 2006ئ، ص28
3. بخاری :2؍791، مسلم:1؍463، السنن الکبریٰ:7؍334
4. ماہنامہ الشریعہ، جولائی 2006ئ، ص 28
5. صحیح بخاری: جلد2؍ ص899
6. إغاثة اللھفان: 1؍313
7. فتح الباری: 9؍468
8. مسلم:1؍463
9. 'الشریعہ' جولائی 2006ء : ص28
10. سنن نسائی:ج2؍ ص468
11. ماہنامہ الشریعہ: جولائی 2006ئ
12. إغاثة اللھفان : 1؍315
13. ماہنامہ 'الشریعہ': جولائی 2006ئ
14. بحوالہ 'تین طلاقیں ' از مولانا محمد قاسم خواجہ: ص116
15. السنن الکبریٰ:7؍334، سنن دارقطنی :2؍438
16. ماہنامہ الشریعہ :2006ء ، ص29
17. سنن کبریٰ بیہقی :7؍334
18. بحوالہ 'تین طلاقیں ' ص 122
19. سنن ابوداؤد، سنن دارقطنی وغیرہ
20. ماہنامہ 'الشریعہ' جولائی 2006ئ،ص 29
21. عون المعبود: ج6؍ ص208
22. تقریب التهذیب: ج1؍ ص258
23. ج6؍ ص208
24. مسند احمد:3؍91، بہ تحقیق احمد شاکر
25. السنن الکبریٰ:7؍334) (ماہنامہ الشریعہ: جولائی 2006ئ
26. بخاری ،مسلم بحوالہ ماہنامہ الشریعہ:جولائی 2006ء ، ص30
27. الطلاق الثلث في مجلس واحد از ابوالسلام مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ : ص54
28. السنن الکبریٰ:7؍334
29. ماہنامہ 'الشریعہ'، جولائی 2006ء ، ص30
30. السنن الکبریٰ:7؍334) (ماہنامہ الشریعہ، جولائی 2006ئ
31. ہدایہ،ص388
32. السنن الکبریٰ:7؍334
33. السنن الکبریٰ:7؍335
34. ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ئ، ص30
35. الطلاق الثلث في مجلس واحد ص53
36. السنن الکبریٰ :7؍337) (ماہنامہ 'الشریعہ': ص30
37. السنن الکبریٰ: ج7؍ص 331) (ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء، ص30
38. ابوداؤد مع عون المعبود: ج6؍ ص194
39. موطأ امام مالک: ص208، الطحاوی، السنن الکبریٰ:7؍335) (ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء
40. موطا امام مالک:199) (ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء
41. بحوالہ تفسیر فتح القدیر للشوکاني: ج1؍ ص239
42. السنن الکبریٰ:7؍732
43. الاصابہ:4؍585
44. ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء،ص 32
45. ماہنامہ الشریعہ:جولائی 2006ء ، ص32
46. ماہنامہ الشریعہ :جولائی 2006ء ،ص32
47. الأجوبة الفاضلة: ص225
48. صحیح بخاری ، کتاب الطّلاق
 
شمولیت
اکتوبر 03، 2016
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
اگر آپ کے قول کو دیکھا جائے کہ حضر ت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاق دی تھی اور اسکو ایک ہی شمار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مطلق تین کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا اور تین کو ایک شمار کرنے پر اجماع تھا تو یہ بتائیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ سے قسم کیوں لی نیت کی؟
وَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً ؟ فَقَالَ رُكَانَةُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏"
ترجمہ:
(۲۲۰۶) رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ( قطعی طلاق ) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟ رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔ابوداود۔
فضلوا و اضلو کا مصداق نہ بنیں بے سرو پا باتیں کرکے لوگوں کو زنا پر نا ابھاریں، کوئی ایک روایت آپ صریح پیش نہیں کرسکتے جس میں تین کو بغیر نیت کے مانے ہی ایک تسلیم کرلیا گیا ہو جبکہ کتب حدیث میں لاتعداد روایت موجود ہے تین کو تین تسلیم کرنے کی، آپ نے جو روایت پیش کی کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بیک وقت تین طلاق دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ کی کتاب کو کھیل بنالیا ہے جبکہ میں تم میں موجود ہوں، اب ذرا یہ ثابت کردیں کہ اس تین طلاق کو ایک شمار کرکے بیوی واپس لوٹادی گئی ہو
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
2۔ حدیث میں ہے کہ أخبرنا سليمان بن داود عن بن وهب قال أخبرني مخرمة عن أبيه قال سمعت محمود بن لبيد قال : أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله

ترجمہ: حضرت محموم بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔

(سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعہ ومافیہ من التغلیظ)
اکٹھی تین طلاق اگر ایک ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غضبناک کیوں ہوئے؟
اکٹھی تین طلاق اگر ایک ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قرآن کے ساتھ کھیلنا کیوں فرمایا؟
 
Top