• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
روایت میں تو اس پر کوئی دلالت نہیں ہے؟
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
یہ مراد کیسے معلوم ہو رہی ہے؟
ابن عمر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اُس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے حالت حیض میں طلاق دی ہو ,تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث میں مذکورہ جواب دیا۔
اسی سوال سے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی مراد کا علم ہوتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ابن عمر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اُس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے حالت حیض میں طلاق دی ہو ,تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث میں مذکورہ جواب دیا۔
اسی سوال سے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی مراد کا علم ہوتا ہے۔
نہیں سمجھ سکا۔ معذرت خواہ ہوں۔ تھوڑی وضاحت کر دیجیے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بعض اوقات ایک شرعی حکم کا اطلاق کسی ’مانع‘ کی وجہ سے نہیں کیا جاتا ہے جیسا کہ وراثت کا منتقل ہونا ایک شرعی حکم ہے لیکن ”قتل‘ اس میں مانع ہے اور اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو قتل کر دے تو وہ اپنے باپ کا وارث نہیں بنے گا اگرچہ وہ اس کا وارث ہے۔ یہاں وراثت کے شرعی حکم کے اطلاق اور ایپلیکیشن میں ایک مانع کی وجہ سے اس حکم کا اطلاق نہ ہوا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں انہوں نے چوری کی حد ساقط کر دی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حد کے نفاذ میں ایک مانع موجود تھااور وہ مانع قحط سالی تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قطع ید کے قرآنی حکم کی تطبیق نہ کی اور چور کے ہاتھ نہ کاٹے ۔ اور اس قسم کے مسائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت ہیں کہ جن میں بظاہر نصوص کی خلاف ورزی ہے ۔ انہیں اہل علم ”اولیات عمر“ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
قاتل کا وراثت سے محروم ہونا: جہاں تک مجھے علم ہے کہ قاتل کو وراثت سے محروم کیا جانا حکم نبوی سے ہے لہٰذا یہ یہاں دلیل نہیں بن سکتا۔
چور کے ہاتھ نہ کاٹنا: قحط سالی میں ایسا ممکن تھا کہ کوئی ”مضطر“ ہوتا اور اس کو چوری کی سزا ہوجاتی جو کہ فرمانِ باری تعالیٰ کے خلاف ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں ”مضطر“ کو چوری کا حق دیا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سزا کو موقوف کیا ختم نہیں کیا۔

پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کے دیے ہوئے رجوع کے حق کو ختم نہیں کیا ، اگر ختم کیا ہوتا تو ایک مجلس میں ایک طلاق دینے والے کو بھی رجوع کاحق نہ ہوتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی صورت میں یہ اجتہاد فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو رجوع کا حق دینے میں ایک مانع موجود ہے اور وہ مانع شریعت کا مذاق اڑانا ہے۔پس شریعت نے ایک طلاق کی صورت میں آسانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق دینے والے شخص کو رجوع کا جو حق دیا تھ، اسی حق رجوع میں اس شرعی حکم کا مذاق اڑانا ایک مانع بن گیا۔دوسرے الفاظ میں ایک رحمت یا آسانی والے قانون سے کیا اس شخص کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے جس نے اسی قانون کو کھیل تماشا بنا لیا ہو تو اس بارے صحابہ کرام اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ جاری ہوا کہ کسی شرعی حکم یا قانون کا مذاق اڑانا اس شرعی حکم یا قانون کی نرمیوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک مانع ہے۔یہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ کی توجیہ ہے۔
جب ایک مجلس کی تین طلاق آپ کے بقول ایک ہی ہے تو اس کو تین ہی شمار کرنے کا حکم فاروقی آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے رجوع کا حق دینے کے خلاف کیوں نہیں؟ وضاحت فرمادیجئے گا۔
کسی شرعی حکم کا مذاق اڑانے والاسزا کا مستحق ہوتا ہے یا موافقت کا؟
 
شمولیت
اکتوبر 03، 2016
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
مسئلہ طلاق میں ابن عباس رض کا فتوی
”ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسنادہ صحیح (تعلیق المغنی ص۴۳۰

+



مسئلہ طلاق ثلاثہ حدیث رکانہ کا جائزہ
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور آنحضرت
نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرت نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کر لو۔ (ابو داؤد جلد ۱ ص۲۹۷ و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں بعض بن ابی رافع مجہول راوی ہیں۔ (شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)

علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ (محلی جلد ۱۰ص۱۶۸)
 
شمولیت
اکتوبر 03، 2016
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
قرآن کی آیت میں مرتا کا ترجمہ آپنے کس طرح ایک کے بعد دوسرا کا لیا جبکہ لفظ مرتان تثینہ ہے جو کے مطلق دو کیلیے آتا ہے نا کہ ترتیب کیلیے، ترتیب کے لیے ثم آتا ہے، آپ پہلے عربی قواعد سیکھیں پھر اس طرح کی پوسٹ کریں
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
تین طلاق
کیا قرآن میں تین طلاق کا ذکر ہے؟ اگر نہیں تو ہم نے تین طلاق کا بھوت کیوں اپنے اوپر سوار کیا ہوا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں جس طلاق کا ذکر ہے وہ خلع بالمال کی طلاق کا ہے۔یعنی جو عورت مال دے کر طلاق حاصل کرتی ہے وہ سابق شوہر پر حرام ہوتی ہے جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے۔اگر مرد طلاق دیتا ہے تو نکاح کو فسخ کرنے کے لئے ایک ہی طلاق کافی ہوتی ہے۔ الطلاق مرٰتان کا مطلب دو طلاقیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی طلاق کو دو بار کہنے کا نام ہے۔ پہلی دفعہ کو نوٹس کہا جاسکتا ہے اور دوسری دفعہ کو فیصلہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ اس لئے تاکہ میاں بیوی کے درمیاں صلح کے لئے تھوڑا وقت میسر آسکے۔
 
شمولیت
مئی 09، 2017
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
مظلوم عورت کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور
1۔مظلوم عورت
عورت :میرے خاوند نے مجھے ماں کہ دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے اب تم اس پر حرام ہو گئی ہو۔اب میں کیا کروں؟
اللہ تعالیٰ: خاوند کےبیوی کو ماں کہہ دینے سے بیوی ماں نہیں ہوجاتی۔ ماں وہ ہے جس نے اسےجنا ہے۔یہ اس نے ایک غلط بات کہی ہےاگر تمہا را خاوند تمہیں رکھنا چاہتا ہے تو غلط بات کہنے کا کفارہ دے کر رجوع کرلےتمہارا نکاح ختم نہیں ہوا۔ میراکلام پڑھیں بات واضح ہوجائے گی۔
”قَد سَمِعَ اللّٰہُ قَولَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوجِھَاوَ تَشتَکِی اَلَی اللّٰہِ، وَاللّٰہُ یَسمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا، اِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ “ (المجادلہ:1)۔ ترجمہ: یقینًا اللہ نے سن لی بات اس عورت کی جو جھگڑ رہی تھی تم سے اپنے شوہر کے بارے میں اور فریاد کئے جارہی تھی اللہ سے، اور اللہ سن رہا تھا تم دونوں کی گفتگو، بلا شبہ اللہ ہر بات سننے والا اور ہر بات کا جاننے والا ہے۔
”اَلَّذِینَ یُظٰھِرُونَ مِنکُم مِّن نِّسَآئِھِم مَّا ھُنَّ اُمَّھٰتِہِم، اِن اُمَّھٰتُھُم اِ لَّا الّٰئِی وَلَدنَھُم، وَاِنَّھُم لَیَقُولُونَ مُنکَرًامِّنَ القَولِ وَزُورًا “ (المجادلہ:2)۔ ترجمہ: جو لوگ ظہار کرتے ہیں تم میں سے اپنی بیویوں کے ساتھ،نہیں ہوجاتیں ان کی بیویاں ان کی مائیں۔نہیں ہیں ان کی مائیں مگر وہی جنہوں نے جنا ہے انہیں۔اور بلا شبہ وہ کہہ رہے ہیں ایک بے تکی اور جھوٹی بات۔
”وَالَّذِینَ یُظٰھِرُونَ مِن نِّسَآئِھِم ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَاقَالُوا فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبلِ اَن یَّتَمَآسَّا ذٰلِکُم تُوعَظُونَ بِہ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِیر “ (المجادلہ:3)۔ ترجمہ: اور جو لوگ ظہار کریں اپنی بیویوں سے ا ور پھر رجوع کریںاپنی اس (بات) سے جو انہوں نے کہی تھی تو اس پر آزاد کرنا ہے ایک غلام کا ہ اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ یہ ہے نصیحت جو تمہیں کی جارہی ہے، اور اللہ ان اعمال سے جو تم کرتے ہو پوری طرح واقف ہے۔
”فَمَن لَّم یَجِد فَصِیَامُ شَھرَینِ مُتَتَابِعَینِ مِن قَبلِ اَن یَّتَمَآ سَّا، فَمَن لَّم یَستَطِیع فَاِطعَامُ سِتِّنَ مِسکِینًا، ذٰلِکَ َلِتُو¿مِنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولَہ، وَ تِلکَ حُدُودُاللّٰہِ، وَ لِلکٰفِرِینَ عَذَابٌ اَلِیمٌ" (المجادلہ:4)۔ ترجمہ:تو پھراگر کوئی نہ پائے (غلام) تو (اس پر ) روزے رکھنا ہے دو مہینے کے لگا تار، اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ پھر جو شخص نہ طاقت رکھتا ہو (روزوں کی) تو (اس پر) کھانا کھلانا ہے ساٹھ مسکینوں کو، یہ ہے اس لئے کہ راسخ ہو تمہارا ایمان اللہ پر اور اس کے رسو لوں پر، اور نہ ماننے والوں کے لئے ہے درد ناک عذاب۔تو اللہ تعالیٰ نے ظہار کو طلاق ہی قرار نہیں دیا۔
2۔مظلوم عورت
عورت :میرے خاوند نے مجھے طلاق نہیں دی ہے بلکہ اس نے میرے پاس نہ آنے کی قسم کھالی ہے۔ اب میں کہاں جاؤں؟
اللہ تعالیٰ: اپنے خاوند کوبتاؤ کہ وہ رجوع کرلے اللہ ایسی لغو قسموں کا مواخذہ نہیں کرتا۔ لیکن اگر وہ رجوع نہیں کرتا اور اس نے طلاق کا ہی ارادہ کرلیا ہے توپھرتم چار مہینے تک انتظار کرو اگر وہ (خاوند) اس دوران ازدواجی تعلق بحال کرلے تو ٹھیک ورنہ اللہ تجھے اجازت دیتا ہے کہ تو آزاد ہے جہاں مرضی نکاح کر۔ میرا کلام پڑھو جو بڑا واضح ہے۔
”وَلَا یُؤَاخِذُوکُمُ اللّٰہُ بِا للِّغوِ فِی اَیمَانِکُم وَلٰکِن یُؤَاخِذُو کُم بِمَا کَسَبَت قُلُوبُکُم وَا للّٰہُ غَفُورٌ حَلِیمٌ“ (البقرہ :225) ۔ ترجمہ: نہیں مواخذہ کرتا اللہ تمہاری لغو قسموں پرلیکن مواخذہ کرتا ہے تمہارا ان (قسموں)پر جو تم نے دل سے کھائی ہیں اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔
”لِلَّذِینَ یُؤلُوْنَ مِن نِّسَآئِھِم تَرَبُّصُ اَربَعَةِ اَشھُرٍفَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌرَّحِیمٌ“ (البقرہ :226) ۔ ترجمہ:ان لوگوں کے لئے جو قسم کھالیتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس نہ جانے کی مہلت ہے چار مہینے کی،پھر اگر رجوع کرلیں تو بےشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
3۔مظلوم عورت
عورت :میرے خاوند نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ اب تو اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی ہے۔حلالے کے بغیر اب تو اس پر حلال نہیں ہوسکتی۔اب میں کہاں جاؤں؟
اللہ تعالیٰ: اللہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے بندوں کی پکڑ نہیں کرتا۔میرا عدل اس بات کی اجازت کیسے دے سکتاہے کہ غلطی خاوند کرے اور اس کی سزا میں عورت کو دوں۔اپنے خاوندسے کہو کہ اپنی غلطی کی معافی مانگے اور رجوع کرلے۔ کیونکہ میں نےتین طلاق کی اجازت ہی نہیں دی تو اس نے ایسا کیوں کیا؟
عورت:وہ معافی تو مانگ رہا ہے کہ غصے میں غلطی ہوگئی۔
اللہ تعالی:پھر مسئلہ کیا ہے؟
عورت:مولوی صاحب بضد ہیں کہ تین طلاق سےنکاح ختم ہو گیا اور بغیر حلالے کے میں اس پر حلال نہیں ہوسکتی۔
اللہ تعالی:پھر وہی تین طلاق ،میں نے جب سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 229 کے آغاز میں کہہ دیا ہےکہ طلاق دو بار ہے (الطلاق مرّٰتان) پھر یہ تیسری طلاق کہاں سے آگئی؟
عورت:مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں تیسری طلاق کا ذکر ہے؟
اللہ تعالی:وہاں کہاں تیسری طلاق کا ذکر ہے؟
عورت: مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ آیت نمبر 230 کے شروع میں لکھا ہوا ہے کہ (فَاِنْ طَلَّقَھَا) کا مطلب تیسری طلاق ہی ہوتاہے۔
اللہ تعالی:کیا (فَاِنْ طَلَّقَھَا) کا مطلب تیسری طلاق ہوتاہے؟ اگر مجھے تیسری طلاق کہنا ہوتا تو کیا میں (فَاِنْ طَلَّقَھَا) کی بجائے (فَاِنْ طَلَّقَھَا ثِلٰثٰہ مَرّٰت) یعنی پھر اگر اس نے تیسری بار طلاق دی نہیں کہہ سکتا تھا؟ کیا میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے؟
عورت:پھر(فَاِنْ طَلَّقَھَا) کا کیا مطلب ہوا؟
اللہ تعالی:ذرا اس سے پہلے والی آیت نمبر 229 کا آخری جملہ پڑھیے۔
عورت: "فَاِن خِفتُم اَلَّا یُقِیمَاحُدُودَ َاللّٰہِ، فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَافِیمَا افتَدَت بِہ، تِلکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَعتَدُو ھَا وَمَن یَّتَعَدَّحُدُودَاللّٰہِ فَاُلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ“۔ ترجمہ: پھر اگر ڈر ہو تم لوگوں کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس (معاوضہ) میں جو بطور فدیہ دے عورت، یہ ہیں اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی( مقرر کردہ )حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔
اللہ تعالی:اب ذرا غور کرو فَاِنْ طَلَّقَھَا کس کے لئے ہے؟
عورت:ہاں میں سمجھ گئی ہوں کہ یہ اس عورت کے لئے ہے جو فدیہ دے کر طلاق خریدے،ہم پر تو اس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ لیکن مولوی صاحب بضد ہیں کہ فَاِنْ طَلَّقَھَا کا تعلق آیت نمبر 229 کے پہلے حصہ ہی سے ہے جہاں دو بار طلاق کا ذکر ہے۔
اللہ تعالی:اچھا تو پھر آیت نمبر 229 کا پہلا حصہ تلاوت کریں۔
عورت: "الطّلاقُ مرّتٰن، فَاِمساکٌ بَاالمَعرُوفِ اَو تَسرِیحٌ بِاِحسَان، وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَاْخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ شَیئًا اِلَّا اَن یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ" ۔ترجمہ: طلاق دو بار ہے، پھر یا تو روک لینا ہے اچھے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو انہیں کچھ بھی مگر یہ کہ (میاں بیوی) دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ۔
اللہ تعالی:اب غور کریں کہ یہاں پر خطاب کس سے ہے ۔
عورت: "وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَاْخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ" ظاہر کررہا ہے کہ خطاب جمع حاضر میں ہے اور جن کے بارے میں خطاب ہے ان کا صیغہ جمع غائب کا ہے۔
اللہ تعالی: آیت نمبر 230 کا صیغہ کونسا ہے ؟
عورت: یہاں صیغہ واحد غائب کا ہے۔
اللہ تعالی: تو کیا تیرا رب صیغوں کا صحیح انتخاب کرنا بھی نہیں جانتا؟
عورت:توبہ !توبہ! یہ میں یہ اپنے رب کے بارے میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔ لیکن اسی حصہ میں واحد غائب کے صیغے بھی تو ہیں جیسے "اِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ"
اللہ تعالی: اسی کا تو دوسرے حصہ میں ذکر ہےجہاں فدیہ دیکر طلاق خریدی جارہی ہے۔
عورت:اب بات مجھے تو سمجھ میں آگئی ہے لیکن لوگ اس بات کو نہیں مانتے اور نہ مولوی صاحب مانتے ہیں۔
اللہ تعالی: ان کو بھی میری آئتیں پڑھ سناؤ وہ ضرور مان جائیں گے۔جو اس کے باوجود بھی اپنی ہٹ پر قائم رہیں گے ان کا معاملہ مجھ پر چھوڑدیں آپ کا اس بارے میں کوئی ذمہ نہیں ہے۔
عورت: آپ نے میری مشکل حل کردی،میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں ؟
اللہ تعالی: میرا ذکر کرتی رہ اور بس میرا ہی حکم مان اور میرے سوا کسی کا حکم نہ مان۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
آخری کی پوسٹ تو انتہائی لغو ہے، اس طرح کے مکالے اور ڈرامے بازیاں ہرفریق کرسکتاہے،لیکن ہوگاکیا،قرآن وحدیث ایک مذاق کا موضوع بن جائیں گے۔
اولاتو طلاق ثلاثہ کے موضوع پر ایک پورا کتب خانہ تیار ہوگیاہے، اب بیکار میں اس بحث کو چھیڑنے سے کیافائدہ ؟ بالخصوص جب کہ اہل حدیث حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ جن کو اہل حدیث کہتے ہیں یعنی امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل وہ بھی اس مسئلہ میں ان کے موافق نہیں ہیں، دوسرے لفظوں میں کہیں تو خوداہل حدیث کا ایک بڑاطبقہ تین کو ایک نہیں مانتا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آخری کی پوسٹ تو انتہائی لغو ہے، اس طرح کے مکالے اور ڈرامے بازیاں ہرفریق کرسکتاہے،لیکن ہوگا کیا،قرآن وحدیث ایک مذاق کا موضوع بن جائیں گے۔
اولاتو طلاق ثلاثہ کے موضوع پر ایک پورا کتب خانہ تیار ہوگیاہے، اب بیکار میں اس بحث کو چھیڑنے سے کیافائدہ ؟ بالخصوص جب کہ اہل حدیث حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ جن کو اہل حدیث کہتے ہیں یعنی امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل وہ بھی اس مسئلہ میں ان کے موافق نہیں ہیں، دوسرے لفظوں میں کہیں تو خوداہل حدیث کا ایک بڑاطبقہ تین کو ایک نہیں مانتا۔
احناف جو قرآن و حدیث کا مذاق بناتے ہیں "حلالہ" کے ذریے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟؟- کیا وہ کام شرعی لحاظ سے صحیح ہے؟؟

حضرت عمر کے حکم (جس کی دہائی اکثر احناف دیتے ہیں) کہ ایک مجلس میں تین طلاق، تین ہی تصور کی جائیں گی-یہ ایک تعزیری حکم تھا -ایسا کرنے والے کو کوڑے بھی مارے جاتے تھے - کیا احناف کے علماء نے تین طلاقوں کا فتویٰ دیتے ہوے، اکھٹی تین طلاقیں دینے والے کو کوڑے مارنے کا بھی کبھی فتویٰ دیا ہے ؟؟
 
Top