- شمولیت
- مارچ 01، 2015
- پیغامات
- 31
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 57
یہ کچھ اور اعتراض احناف میڈیا ڈیجیٹل ویب سائٹ پر مولوی الیاس گھمن کے نام سے تھے وہ بھی حاظر ہے
یہ روایت بھی قابل احتجاج نہیں۔
اولاً…… اس کی سند میں ایک راوی ”محمد بن اسحاق“ ہے جس پر ائمہ محدثین و وغیرہ نے سخت جرح کر رکھی ہے۔
(1)
امام نسائی: ليس بالقوي.
(2)
(الضعفاء و المتروکین للنسائی: ص201 رقم الترجمۃ513)
(2) امام دارقطنی:لا يحتج به.
(3) امام سلیمان التیمى: كذاب.
(4) امام ہشام بن عروة:كذاب.
(5) امام یحیىٰ القطان: أشهد أن محمد بن إسحاق كذاب.
(6) امام مالك: دجال من الدجاجلة.
(میزان الاعتدال: ج4 ص47، 48 )
وقال ایضاً: محمد بن إسحاق كذاب.
(تاریخ بغداد: ج1 ص174)
(7) خطیب ابو بکر بغدادی:
أما كلام مالك في بن إسحاق فمشهور غير خاف على أحد من أهل العلم بالحديث.
(تاریخ بغداد: ج1 ص174)
(8) علامہ شمس الدین ذہبی:
أنه ليس بحجة في الحلال والحرام.
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص130)
(9) حافظ ابن حجر عسقلانی:
وابن إسحاق لا يحتج بما ينفرد به من الأحكام فضلا عما إذا خالفه من هو أثبت منه.
(الدرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ لابن حجر العسقلانی: ج1 ص265 باب الاحرام)
٭ نواب صدیق حسن خانؒ ایک سند کے بارے میں کہ جس میں محمد بن اسحاق واقع ہے، لکھتے ہیں:
در سندش ہمان محمد بن اسحاق است، و محمد بن اسحاق حجت نیست۔
(دلیل الطالب: ص239)
محمد بن اسحاق کا ضعیف، متکلم فیہ اور کذاب ہونا تو اپنی جگہ، مزید براں کہ اسے خطیب بغدادی، امام ذہبی اور امام ابن حجر رحمہم اللہ نے شیعہ بھی قرار دیا ہے۔
(تاریخ بغداد ج 1ص174، سیر اعلام النبلاء: ج 7ص23 ، تقریب : ص498 رقم 5725)
کتب شیعہ میں بھی اس کو شیعہ کہا گیا ہے۔
( رجال کشی : ص280، رجال طوسی ص281)
اوراصول حدیث کا قاعدہ ہے :
ان روی ما یقوی بدعتہ فیرد علی المختار.
(شرح نخبۃ الفکر مع شرح ملا علی القاری ص159)
کہ بدعتی راوی کی روایت اگر اس کی بدعت کی تائید کرتی ہو تو نا قابل قبول ہوتی ہے۔
چونکہ شیعہ حضرات کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے (جیسا کہ باحوالہ گزرا) اور یہ روایت ان کے اس عمل کی تائید کرتی ہے۔ لہذا اصول مذکور کے تحت یہ روایت ناقالِ قبول ہو گی۔
ثانیاً…… اس کی سند میں ایک دوسرا راوی ”داؤد بن حصین“ ہے۔ یہ بھی سخت مجروح اور متکلم فیہ راوی ہے۔
(1) امام ابو زرعہ: لين.
(2) امام سفيان ابن عیینہ: كنا نتقى حديثه.
(3) محدث عباس الدوري:
كان داود بن الحصين عندي ضعيفا.
(میزان الاعتدال: ج2 ص7 )
(4) امام ابو حاتم ا لرازی: ليس بالقوي.
(5) امام ساجی: منكر الحديث.
(6) امام جوزجانی: لا يحمد الناس حديثه.
(تہذیب التہذیب: ج2 ص349، 350 )
(7، 8) امام ابو داؤد و امام علی بن المدینی:
أحاديثه عن عكرمة مناكير.
(میزان الاعتدال: ج2 ص 7)
اور زیر بحث روایت بھی عکرمہ ہی سے مروی ہے۔
اس روایت میں تنہا محمد بن اسحاق ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقابلِ احتجاج ہونے کے لیے کافی تھا لیکن داؤد بن حصین نے اس کے ضعف کو مزید بڑھا کر اسے ناقابلِ حجت بنا دیا ہے۔
ثالثاً…… اصل بات یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو ”طلاق بتہ“ دی تھی نہ کہ تین طلاق اور نیت بھی صرف ایک طلاق کی تھی، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے رجوع کی اجازت عطا فرمائی تھی۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں:
وأن حديث ابن إسحاق وهم وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا.
(بدایۃ المجتہد: ج2 ص61)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أن أبا داود رجح أن ركانة إنما طلق امرأته البتة كما أخرجه هو من طريق آل بيت ركانة وهو تعليل قوي
(فتح الباری:ج9 ص450 باب من جوز الطلاق الثلاث)
الحاصل فریق مخالف کی یہ روایت ضعیف و کذاب راویوں سے مروی ہے جو کہ صحیح، صریح روایات اور اجماعِ امت کے مقابلہ میں حجت نہیں ہے۔
Last edited by a moderator: