• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق سے متعلق حدیث رکانہ (مسند احمد) پر بحث

2 difa-e- hadis

مبتدی
شمولیت
اگست 05، 2019
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی جبکہ وہ حیض سے تھیں رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اس سے رجوع کرے، پھر اسے اپنے پاس رکھے حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے۔ پھر اسے دوبارہ حیض آئے تو اسے مہلت دے حتیٰ کہ حیض سے پاک ہوجائے، اگر اس وقت اسے طلاق دینے کا ارادہ ہوتو جس وقت وہ پاک ہوجائے نیز جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

محترم بھائی جان،
اس حدیث سے نہ تو اکٹھی تین طلاق کا استدلال درست ہے اور نہ ہی حلالہ ملعونہ کا کوئی جواز نکلتا ہے کیونکہ اس میں ان دونوں کا کہیں بھی کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہے پھر آپ کا اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصد کیا ہے۔



 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جب کسی فعل کی ذات یا صفت سے متعلق کسی امر کی نھی آجائے تو النھی یقتضی الفساد.
تو نکاح یہاں پر فاسد ہے
نہی حلالہ کی نہیں بلکہ طلاق کی شرط پر نکاح کی نہی ہے۔
طلاق کی شرط پر نکاح کرنا ناجائز و مبغوض مگر کوئی نافرمانی کرتے ہوئے نکاح کر لیتا ہے تو اس کی ممانعت پر دلیل نص سے یا کسی صحابی یا فقیہ سے کہ انہوں نے ایسے مشروط نکاح کو باطل قرار دیا ہو؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اس حدیث سے نہ تو اکٹھی تین طلاق کا استدلال درست ہے اور نہ ہی حلالہ ملعونہ کا کوئی جواز نکلتا ہے کیونکہ اس میں ان دونوں کا کہیں بھی کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہے پھر آپ کا اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصد کیا ہے۔
مذکورہ حدیث سے دونوں احتمال ممکن ہیں۔
وجہ اس کی یہ کہ ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک مجلس میں تین طلاق دی گئ ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62

کفایت اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ اس سے ایک مجلس کی تین طلاق پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔
یہاں یہ بات صاف واضح ہے کہ اس صحابی نے لعان کے فیصلہ سے پہلے ہی ایک مجلس میں تین طلاق دے دیں۔
اگر یہ طلاق ناتھی تو اس صحابی کا عمل بے جا اور مہمل کہلائے گا۔
صحابی کے عمل کو کسی نے مہمل یا بے کار، کسی صحابی یا فقیہ نے قرار دیا ہو تو اس کا اتہ پتہ دیا جائے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جب کسی فعل فعل کی ذات یا صفت سے متعلق کسی بات میں نھی آجائے تو النھی یقتضی الفساد کا معروف قاعدہ ہے.
لہذا یہ بات درست نہیں کہ حلالہ سے حلال تو ہوجاتی ہے جہاں ملعون ہی سہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باقاعدہ رجوع کرایا اس طلاق بدعی سے جو انہوں نے حالت حیض میں دی۔
حالتِ حیض میں طلاق دینا ممنوع ٹھہرا۔
ابن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا حیض میں دی گئی طلاق گنی گئی؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
حالت حیض میں طلاق دینا ممنوع ہؤا مگر ایسا کرنے سے ایک طلاق گنی گئی۔
ممنوع طریق سے طلاق جائز ہوئی تو ممنوع شرط کے ساتھ نکاح کیوں کر فاسد ہؤا؟
 

2 difa-e- hadis

مبتدی
شمولیت
اگست 05، 2019
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
محترم بھائی جان،
اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ یہ اپ کا استدلال ہے اس میں صرف طلاق کا ذکر موجود ہے اکٹھی تین کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ حلالہ معلونہ کا استدلال ہی باطل ہے کیونکہ وہ تو احادیث صحیحہ کی رو سے فعل ملعون ہے
 

2 difa-e- hadis

مبتدی
شمولیت
اگست 05، 2019
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
4
محترم بھائی جان،
شیخ کفایت اللہ کا موقف بالکل درست ہے کیونکہ اس میں بھی اکٹھی ایک مجلس میں تین طلاق کا کوئی تذکرہ نہیں ہے دوسری بات کہ اس میں جدائی لعان کی وجہ سے ہوئی ہے نہ کہ طلاق کی وجہ سے ہوئی اور رہی بات کہ یہ ان صحابی کی اس وقت لا علمی تھی کہ جب لعان ہو جائے تو طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح جس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حیض میں طلاق دے دی تھی جو ان کو بعد میں معلوم ہوا کہ حیض میں طلاق نہیں دی جاتی ہے
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
محترم بھائی جان،
اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ یہ اپ کا استدلال ہے اس میں صرف طلاق کا ذکر موجود ہے اکٹھی تین کا کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ حلالہ معلونہ کا استدلال ہی باطل ہے کیونکہ وہ تو احادیث صحیحہ کی رو سے فعل ملعون ہے
مذکورہ حدیث میں تین طلاق کا ذکر ہے۔
ایک مجلس میں یا الگ الگ دونوں احتمال بھی موجود۔
وہوا مقصود
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
محترم بھائی جان،
شیخ کفایت اللہ کا موقف بالکل درست ہے کیونکہ اس میں بھی اکٹھی ایک مجلس میں تین طلاق کا کوئی تذکرہ نہیں ہے دوسری بات کہ اس میں جدائی لعان کی وجہ سے ہوئی ہے نہ کہ طلاق کی وجہ سے ہوئی اور رہی بات کہ یہ ان صحابی کی اس وقت لا علمی تھی کہ جب لعان ہو جائے تو طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی اسی طرح جس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حیض میں طلاق دے دی تھی جو ان کو بعد میں معلوم ہوا کہ حیض میں طلاق نہیں دی جاتی ہے
اس پر کیا دلیل کہ جدائی لعان کے سبب ہوئی ؟
صحابی نے فیصلہ سے قبل تین طلاق دی۔
صاف ظاہر ہے کہ لعان میں اس عورت نے بھی اپنی پاکدامنی پر قسم کھا لی ہوگی تبھی تو یہ نوبت آئی۔
اان دونوں میں گو جدائی کرا دی جاتی مگر دونوں میں سے کسی کے بھی جھوٹا ہونے کا امکان رہتا۔
لعان میں دونوں میں جدائی لازم ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ دونوں میں سے اگر کوئی فریق قسم نا کھائے تو اس پر فرد جرم عائد ہوگی۔
صحابی نے خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے اس کو ایک مجلس میں تین طلاق دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ نا کہا۔

دونوں میں سے کسی کو بھی سزا نہیں دی جاسکتی لعان کی صورت میں۔
واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ایک مجلس کی تین کو تین ہی شمار کیا جائے گا بشرطیکہ اس کی نیت تین طلاق دینے ہی کی ہو۔
خیر القرون میں ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے سے نیت پوچھی جاتی تھی کہ مقصد تین طلاق ہے یا تقویت کے لئے تین دفعہ دہرایا۔
سنن النسائي: کتاب الطلاق: بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَحْمَسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ وَإِنَّ زَوْجِي فُلَانًا أَرْسَلَ إِلَيَّ بِطَلَاقِي وَإِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَيَّ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ

سنن ابن ماجه: كِتَاب الطَّلَاقِ: بَاب مَنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ قَالَ قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ قَالَتْ طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ادوار تک اس کا اہتمام کی جاتا کہ جو ایک مجلس میں تین طلاق دیتا اس سے اس کی نیت پوچھی جاتی کہ اس کا مقصد تین طلاق دینا ہے یا ایک۔
اس کے بیان کے مطابق ان کو ایک یا تین قرار دیا جاتا۔
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کثرت طلاق کے سبب اس اہتمام کو ترک کر دیا اور اعلان کردیا کہ آئندہ ہم کسی سے اس کی نیت پوچھنے کے مکلف نہیں۔
جس نے ایک مجلس میں تین دفعہ طلاق دی اس کو تین ہی شمار کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top