• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک گھر کی مالکن نے اپنی ملازمہ کی خوبصورتی سے خوفزدہ ہوکر اسے ملازمت سے نکال دیا اور --------------

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ایک گھر کی مالکن نے اپنی ملازمہ کی خوبصورتی سے خوفزدہ ہوکر اسے ملازمت سے نکال دیا اور اسکی دل جوئی کی خاطر الوداعی کلمات ادا کرتے ہوئے بولیں،
صاحب کو تمہارے ہاتھ کا کھانا بہت پسند تھا، اب میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ انکی پسندیدہ ڈشیں کون بنایا کرے گا؟
،
ملازمہ بولی،
،
،
آپ بالکل پریشان نہ ہوں بیگم صاحبہ۔
،
صاحب کی پسندیدہ ڈشیں میں ہی بناؤں گی ،
،
کیونکہ،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
صاحب بھی میرے ساتھ ہی جارہے ہیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عامر صاحب! اگر آپ برا نہ منائیں تو میں ایک بات سچ سچ کہہ دوں۔
مجھے لطیفے اور طنز و مزاح بہت پسند ہے
لیکن
اس کے باوجود مجھے اس “قسم” کے لطیفے (بلکہ کثیفے) ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ سو معزرت قبول کیجئے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ویسے تو لطیفہ، لطیف کی بہن کو بھی کہا جاسکتا ہے، مگر ایسی صورت میں لطیف صاحب کے لئے یہی لطیفہ، کثیفہ بن جاتا ہے۔

لطیفہ ایسی لطیف بات کو کہتے ہیں، جسے سن کر سب لطف اندوز ہوں۔ یعنی کوئی بات اگر سب کے لئے پُر لطف ہو تبھی وہ لطیفہ کہلانے کا مستحق ہوگا۔ لطافت کی ضد کثافت ہے۔ یعنی اگر کسی بات میں لطافت کی بجائے کثافت کی آمیزش ہو تو وہ لطیفہ کی بجائے کثیفہ کہلانے کا زیادہ مستحق ہوگا۔

آج کل جو ”لطیفے“ مارکیٹ میں گردش کر رہے ہوتے ہیں اس میں بالعموم اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ”غیر اخلاقی لطیفے“ کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لطیفے میں “فرضی بات” تو بیان کی جاسکتی ہے، لیکن ایسی بات نہیں بیان کی جانی چاہئے، جس سے کسی بھی قسم کی کثافت، گراوٹ، بد اخلاقی، غیبت، تہمت کی بو آئے، یا جس سے کسی برادری اور قوم (جیسے پٹھانوں کے لطیفے، سرداروں کے لطیفے) کی شہرت داغدار ہونے کا امکان پیدا ہو۔

طنز و مزاح اور لطائف تخلیق (تحریر) کرنا ایک انتہائی سنجیدہ کام ہے۔ اگر اس عمل میں ذرا سی لغزش بھی ہوجائے تو اس سے دنیا و آخرت دونوں میں نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس ضمن میں احتیاط کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
ویسے تو لطیفہ، لطیف کی بہن کو بھی کہا جاسکتا ہے، مگر ایسی صورت میں لطیف صاحب کے لئے یہی لطیفہ، کثیفہ بن جاتا ہے۔

لطیفہ ایسی لطیف بات کو کہتے ہیں، جسے سن کر سب لطف اندوز ہوں۔ یعنی کوئی بات اگر سب کے لئے پُر لطف ہو تبھی وہ لطیفہ کہلانے کا مستحق ہوگا۔ لطافت کی ضد کثافت ہے۔ یعنی اگر کسی بات میں لطافت کی بجائے کثافت کی آمیزش ہو تو وہ لطیفہ کی بجائے کثیفہ کہلانے کا زیادہ مستحق ہوگا۔

آج کل جو ”لطیفے“ مارکیٹ میں گردش کر رہے ہوتے ہیں اس میں بالعموم اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ”غیر اخلاقی لطیفے“ کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لطیفے میں “فرضی بات” تو بیان کی جاسکتی ہے، لیکن ایسی بات نہیں بیان کی جانی چاہئے، جس سے کسی بھی قسم کی کثافت، گراوٹ، بد اخلاقی، غیبت، تہمت کی بو آئے، یا جس سے کسی برادری اور قوم (جیسے پٹھانوں کے لطیفے، سرداروں کے لطیفے) کی شہرت داغدار ہونے کا امکان پیدا ہو۔

طنز و مزاح اور لطائف تخلیق (تحریر) کرنا ایک انتہائی سنجیدہ کام ہے۔ اگر اس عمل میں ذرا سی لغزش بھی ہوجائے تو اس سے دنیا و آخرت دونوں میں نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس ضمن میں احتیاط کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
بجا فرمایا آپ نے بھائی۔۔
لیکن عامر بھائی کی موجودہ بات کا تعلق تو حقیقت سے بھی ہے۔۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بجا فرمایا آپ نے بھائی۔۔
لیکن عامر بھائی کی موجودہ بات کا تعلق تو حقیقت سے بھی ہے۔۔
بھائ میرے بہت سی حقیقتیں غیر اخلاقی بھی تو ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایسی غیر اخلاقی حقیقتوں کی طنز و مزاح کی آڑ میں پروجیکشن قطعاً نامناسب ہے۔ ایسی حقیقتوں کو صرف اور صرف ”وقوعہ کی نیوز رپورٹنگ“ کے لئے ہی استعمال کرنا چاہئے اور وہ بھی ایسی صورت میں جب اس ”گندگی“ کا بیان کرنا ناگزیر ہوجائے۔ تاکہ میڈیا کے ذریعہ یہ گندگی پھیل کر صاف ستھرے ذہنوں کو آلودہ نہ کرسکے۔
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
دیکھیں بھاءی اگر تو یہ سچا واقعہ ہے تو کسی حد تک اس فورم پر قابل قبول ہے ،لیکن اگر دوسروں کو ہنسانے کی خاطر گھڑ لیا گیا ہے تو یاد رکھیں یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔اور ایک مومن بندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولنے سے نبی کریم نے منع فرمایا ہے۔
شریعت میں اس عمل کی قباحت کی وجہ سے جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت وار د ہوئی ہے۔ جھوٹ بولنے والوں کو اللہ کی لعنت کا مستحق ٹھرایا گیا ہے۔ جھوٹ مطلقاََ بولنا حرام ہے اور وہ چاہے مذاقاََ ہو حقیقتاََ ہو۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے:
" یقینا اللہ تعالیٰ ان لوگو کو( تمام معاملات میں) سیدھا راستہ نہیں دکھاتاجو جھوٹا اورحق سے انکارکرنے والا ہو۔"(الزمر:3)
لیکن ہم اپنی زندگیوں میں نظر دوڑائیں ہم اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیئے جھوٹ کاکثرت سے استعمال کرتے ہیں مگر ہمارے معاملات درست ہونے کے بجائے بگڑتے ہی جاتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ کہ حکم کو مان کر جھوٹ کو ترک نہیں کیا۔جھوٹ کو ترک کرنا مومنوں کی صفات میں ایک صفت ہے ۔
جیسا کہ جناب محمد ﷺسے سوال کیا گیا:"کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟"آپﷺنے فرمایا :"ہاں"پھر دریافت کیا گیا :"کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟"فرمایا:"ہاں"پھر پوچھا گیا :"کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟"فرمایا :"نہیں(جھوٹ بولنا مومن کی شایان ِشان نہیں)"(موطا امام مالک)
لیکن ہمارے معاشرے میں جھوٹ بولنا عادت بنا لیا گیا ہے۔اور یہ حقیقتاََیا مزاقاََبولا جا رہا ہے۔جب کسی کو جھوٹ بولنے سے منع کیا جائے تو جواب ملتا کہ "جناب میں تو مزاق کر رہا تھا ۔"لیکن نا جا نے کیوں ہم مزاقاََاپنی آخرت برباد کررہے ہیں ۔جو شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیئے جھوٹ بولے وہ چاہے زبان سے ہو یا SMSکے ذریعے اس کے بارے میں دل تھا م کر فرمان رسول ﷺپڑھ لیجئے۔"ہلاک ہو جائے وہ شخص جو لوگو کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے وہ پھر ہلاک ہو جائے وہ تباہ وبرباد ہو جائے۔"(رواہ ابوداﺅد)
اب کچھ لوگ جھوٹ بولتے تو نہیں مگر دوسروں سے جھوٹے لطیفے ،قصے ،کہانیاں،اسٹیج ڈرامے،ناول وغیرہ پڑھ اور سن کر بہت محفوظ ہوتے ہیں۔بچوں کو نصیحت کرنے کے لیئے جھوٹی کہانیوں کاسہارا لیا جاتا ہے۔یا سب جہالت کی وجہ سے ہے۔تاریخ اِسلام حقیقی روشن کارناموںسے بھری پڑی ہے۔اس میں بہت ہی پندونصاح اوراسباق پوشیدہ ہیں ۔مگر دین سے دوری کی وجہ سے بچوں کو اسلامی واقعات سنانا تو درکنار بڑے بھی ان سے واقف تک نہیں ۔پھر بھی ہم اپنے بچوں کہ بگڑنے سے ناداں ہیں ۔اور انہیں ٹوکتے اور ڈانٹتے رہتے ہیں ۔حالانکہ ہم اس میں برابر کہ قصور وارہیں ۔اس لیئے ہم اپنے بچوں کومسلم حکمرانوںاور نوجوانوں کی بہادری کے حقیقی واقعات سنائیں تاکہ ان میں نصیحت کے حصول کے ساتھ ساتھ ایمان بھی پختہ ہو اور بہادری بھی آئے۔ویسے بھی اب ہمارے لیئے مختلف مکتبا ت مثلاََدا رالسلام ،دارالاندلس اور ان کے علاوہ بھی کئی مکتبات نے بچوں کی سیریز کے نام اسلامی واقعات پر مشتمل کتب ،سی ڈیزوغیرہ متعارف کراکر آسانی پیدا کردی ہے۔لہٰذا جھوٹے ناولوں اور کہانیوں کی بجائے بچوں کو اسلامی سیریز خرید کر دیں۔اور جھوٹ سے کنا رہ کشی اختیار کریں ۔اسلام نے جھوٹ بولنے کہ ساتھ اس کے سننے سے بھی منع کیا ہے
 
Top