بنتِ تسنيم
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2017
- پیغامات
- 269
- ری ایکشن اسکور
- 40
- پوائنٹ
- 66
[عن عبدالله بن مسعود:] إنَّ المرأةَ عورةٌ، فإذا خَرَجَتْ استَشْرَفَها الشيطانُ، وأَقْرَبُ ما تكونُ من وجهِ ربِّها وهي في قَعْرِ بيتِها .
الألباني (١٤٢٠ هـ)، صحيح ابن خزيمة ١٦٨٥ • إسناده صحيح
''عورت تو چھپانے کی چیز ہے ۔جب یہ (گھر سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔اور عورت اپنے رب کی رضا سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہی گوشہ نشین ہو جائے۔''
اے اللہ کی بندی!
ابن ابی حاتم نے اللہ تعالی کے فرمان( تمشی علی استحیاء) ( القصص:25) کی تفسیر میں امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے: وہ عورت ( جو موسیٰ علیہ السلام کو اپنے والد کے کہنے پر بلانے آئی۔ تھی اور بڑی حیاء کے ساتھ چل رہی تھی،اس حیا کی تفسیر یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا چہرے پر لپیٹے ہوئی تھی، انتہائی باوقار تھی، ایسی بے باک نہ تھی جو بار بار گھر سے نکلے اور واپس لوٹے۔
امِ خلاد رضی اللہ تعالی عنہما چہرے پر نقاب کئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اپنے مقتول بیٹے کی بابت سوال کرنے کیلئے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تم اپنے بیٹے کے متعلق پوچھنے آئی ہو اور چہرے پر نقاب کیا ہوا ہے؟ امِ خلاد نے جواب دیا: اگر میں نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے تو اپنی حیاء ہرگز نہیں کھوؤں گی۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے دور کی خواتین کے پردے کے ان مظاہر کو، صدیوں بعد تک خواتین نے اپنائے رکھا، لیکن پھر ایسی ناخلف عورتیں پیدا ہوئیں، جنہوں نے شرعی حجاب اور اس کے تشخص کو ضائع کر کے رکھ دیا۔
اے زیورِ توحید سے آراستہ بہن! جب ہرن اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آتا ہے تو اسے شکاری کی دست درازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. جب موتی اپنے سیپ سے باہر نکل آتا ہے تو اسے ٹوٹ پھوٹ اور تراش خراش کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
میری مسلمان بہن! تجھے اہل مغرب کی طرف سے اور کچھ ان اپنوں کی طرف سے جنہیں مغربیت کا لبادہ اوڑھنے کا شوق ہے، مختلف طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ لوگ اپنی تمام تر توانائیاں، اپنے گمراہ کن مقاصد کےلیے صرف کر رہے ہیں، ہمارےدین نے جن چیزوں کو رذیل قرار دیا ہے، انہیں سجا سجا کر پیش کرنے اور جن چیزوں کو دین نے فضیلت قرار دیا ہے، ان کی شکل بگاڑنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، اس مقصد کے لیے چمک دمک سے بھرپور خوبصورت نعروں اور کشش و جاذبیت پر مبنی تحریروں، جن کے درپردہ ان کے خبیث عزائم پوشیدہ ہیں، سے کام لیا جا رہا ہے۔اگر تو اس رو میں بہہ نکلی تو یہ لوگ تیرے اندر دورِ جاہلیت کی بے پردہ خاتون کے اثرات منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گ، بلکہ اس سے بھی بدتر برہنگی اور بے حیائی کے سمندر میں دھکیل دیں گے۔
اے میری بہن،جو انتہائی مہنگا جوہر ہے! پردے کے معاملہ میں اپنے دین کی تعلیمات کومضبوطی سے تھام لے جو تجھے ایک قیمتی اور محفوظ موتی اور یاقوت بنا دے گا، تو اپنے گھر کے قیمتی سامان ک طرح،جس گھر میں محفوظ رکھا جاتا ہے،ٹھکانہ کیے رہ۔
اور اگر کسی انتہائی اہم ضرورت کے پیش نظر،گھر سے نکلنا پڑےتو اپنی چادر اور نقاب کے ساتھ،پورے جسم کو ڈھانپ کر نکل،بلاشبہ باحیا اور باوقار عورتوں کی یہی علامت ہے کہ ان کے چہروں پر نقاب اور پورے جسم پر اوڑھنی لپٹی ہوتی ہے۔
لہذا اے دنیا کے سب سے خوبصورت پھول!
اچھی طرح جان لےجب عورت اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپے رکھے گی تو حریص قسم کے ( شیطان خصلت) مردوں پر اس کی ہیبت قائم ہو جائے گی۔
تو ایسی احمق نہ بن، جو اپنے حسن وجمال کو ہر فاسق و فاجر مرد کیلئے کھول کر پھرتی رہے، اور نہ اتنی سَستی بن کہ زیورِ حسن و جمال کو سَستے سودے کی طرح پھیلا دے۔
الألباني (١٤٢٠ هـ)، صحيح ابن خزيمة ١٦٨٥ • إسناده صحيح
''عورت تو چھپانے کی چیز ہے ۔جب یہ (گھر سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔اور عورت اپنے رب کی رضا سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہی گوشہ نشین ہو جائے۔''
اے اللہ کی بندی!
ابن ابی حاتم نے اللہ تعالی کے فرمان( تمشی علی استحیاء) ( القصص:25) کی تفسیر میں امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول نقل فرمایا ہے: وہ عورت ( جو موسیٰ علیہ السلام کو اپنے والد کے کہنے پر بلانے آئی۔ تھی اور بڑی حیاء کے ساتھ چل رہی تھی،اس حیا کی تفسیر یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا چہرے پر لپیٹے ہوئی تھی، انتہائی باوقار تھی، ایسی بے باک نہ تھی جو بار بار گھر سے نکلے اور واپس لوٹے۔
امِ خلاد رضی اللہ تعالی عنہما چہرے پر نقاب کئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اپنے مقتول بیٹے کی بابت سوال کرنے کیلئے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تم اپنے بیٹے کے متعلق پوچھنے آئی ہو اور چہرے پر نقاب کیا ہوا ہے؟ امِ خلاد نے جواب دیا: اگر میں نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے تو اپنی حیاء ہرگز نہیں کھوؤں گی۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے دور کی خواتین کے پردے کے ان مظاہر کو، صدیوں بعد تک خواتین نے اپنائے رکھا، لیکن پھر ایسی ناخلف عورتیں پیدا ہوئیں، جنہوں نے شرعی حجاب اور اس کے تشخص کو ضائع کر کے رکھ دیا۔
اے زیورِ توحید سے آراستہ بہن! جب ہرن اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آتا ہے تو اسے شکاری کی دست درازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. جب موتی اپنے سیپ سے باہر نکل آتا ہے تو اسے ٹوٹ پھوٹ اور تراش خراش کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
میری مسلمان بہن! تجھے اہل مغرب کی طرف سے اور کچھ ان اپنوں کی طرف سے جنہیں مغربیت کا لبادہ اوڑھنے کا شوق ہے، مختلف طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ لوگ اپنی تمام تر توانائیاں، اپنے گمراہ کن مقاصد کےلیے صرف کر رہے ہیں، ہمارےدین نے جن چیزوں کو رذیل قرار دیا ہے، انہیں سجا سجا کر پیش کرنے اور جن چیزوں کو دین نے فضیلت قرار دیا ہے، ان کی شکل بگاڑنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، اس مقصد کے لیے چمک دمک سے بھرپور خوبصورت نعروں اور کشش و جاذبیت پر مبنی تحریروں، جن کے درپردہ ان کے خبیث عزائم پوشیدہ ہیں، سے کام لیا جا رہا ہے۔اگر تو اس رو میں بہہ نکلی تو یہ لوگ تیرے اندر دورِ جاہلیت کی بے پردہ خاتون کے اثرات منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گ، بلکہ اس سے بھی بدتر برہنگی اور بے حیائی کے سمندر میں دھکیل دیں گے۔
اے میری بہن،جو انتہائی مہنگا جوہر ہے! پردے کے معاملہ میں اپنے دین کی تعلیمات کومضبوطی سے تھام لے جو تجھے ایک قیمتی اور محفوظ موتی اور یاقوت بنا دے گا، تو اپنے گھر کے قیمتی سامان ک طرح،جس گھر میں محفوظ رکھا جاتا ہے،ٹھکانہ کیے رہ۔
اور اگر کسی انتہائی اہم ضرورت کے پیش نظر،گھر سے نکلنا پڑےتو اپنی چادر اور نقاب کے ساتھ،پورے جسم کو ڈھانپ کر نکل،بلاشبہ باحیا اور باوقار عورتوں کی یہی علامت ہے کہ ان کے چہروں پر نقاب اور پورے جسم پر اوڑھنی لپٹی ہوتی ہے۔
لہذا اے دنیا کے سب سے خوبصورت پھول!
اچھی طرح جان لےجب عورت اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپے رکھے گی تو حریص قسم کے ( شیطان خصلت) مردوں پر اس کی ہیبت قائم ہو جائے گی۔
تو ایسی احمق نہ بن، جو اپنے حسن وجمال کو ہر فاسق و فاجر مرد کیلئے کھول کر پھرتی رہے، اور نہ اتنی سَستی بن کہ زیورِ حسن و جمال کو سَستے سودے کی طرح پھیلا دے۔