محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
جو قطع رحمی کرے گا یعنی جو رحم کے رشتے کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ بھی اسے کاٹ دے گا، یعنی اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔ جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں آیا ہے: ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوالرداد لیثی بیمار ہو گئے، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرداد نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمٰن بن عوف) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : ’’میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے «رحم» (یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے، اور اس کا نام اپنے نام سے (مشتق کر کے) رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا‘‘۔ (سنن ترمذي: 1908)
ایک اور حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم (رشتہ داری) نے عرض کیا کہ اس شخص کا کیا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’(اے رحم) کیا تم اس سے راضی نہیں ہو کہ میں اس سے ملوں گا جو تم سے ملیں گے اور ان سے تعلق نہ رکھوں گا جو تم سے تعلق نہ رکھے گا‘‘۔ صلہ رحمی نے عرض کی :’’ میں اس پر راضی ہوں‘‘، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ میں نے یہ مقام تجھ کو دے دیا‘‘۔ نبی ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں پڑھ لو : فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ --- ’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘(22) سورة محمد ۔ (صحیح البخاری: 5987)
پھر زمین میں فساد برپا کرنے اور رشتے ناتے توڑنے کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ (٢٣) سورة محمد
’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت کی ہے پھرانہیں بہرا اور اندھا بھی کر دیا ہے‘‘
یعنی رشتے ناتے توڑنے والے پر اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتاہے اور اسے ایسا کر دیتا ہے کہ نہ ہی وہ حق کی آواز سن سکتا ہے اور نہ ہی حق کو دیکھ اور قبول کر سکتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی لعنت سے بچنے کے لیے صلہ رحمی ضروری ہے، اور صلہ رحمی حقوق کی ادائیگی سے مشروط ہے، اس لیے فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (٢٦) سورة الإسراء
''اور رشتے داروں کو ان کا حق دو اور مسکینوں اور مسافروں کو بھی اور (خبردار) فضول خرچی نہ کرو "
صلہ رحمی حق کی ادائیگی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بھی صحیح ہوں، سلام کلام میں بھی فرق نہیں آیا ہو، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا ملنا ملانا بھی دستور کے مطابق ہو رہا ہو لیکن اگر کوئی اپنے کسی رشتہ دار کا حق یا حقوق کا غاصب ہو تو رشتہ چونکہ برقرار ہے وہ قطع رحمی کرنے والا نہیں کہلائے گا لیکن حق کے غصب کرنے کا وبال اس کے سر ہوگا، اور اس کی اسے سزا ملے گی۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت اپنی بیٹیوں / بہنوں کے حقوق کے غاصب ہیں کیونکہ اکثریت انہیں وراثت میں حصہ نہیں دیتی تو اندیشہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی ساری عمر عبادت میں گزارنے کے باوجود جہنم میں ڈال دیئے جائیں۔ ( اس کی تفصیل ہبہ، عطیہ و تحفہ دینے میں ناانصافی، کے زیر عنوان بیان ہو چکی ہے)۔
۔
ایک اور حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب اس سے فراغت ہوئی تو رحم (رشتہ داری) نے عرض کیا کہ اس شخص کا کیا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’(اے رحم) کیا تم اس سے راضی نہیں ہو کہ میں اس سے ملوں گا جو تم سے ملیں گے اور ان سے تعلق نہ رکھوں گا جو تم سے تعلق نہ رکھے گا‘‘۔ صلہ رحمی نے عرض کی :’’ میں اس پر راضی ہوں‘‘، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ میں نے یہ مقام تجھ کو دے دیا‘‘۔ نبی ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں پڑھ لو : فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ --- ’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘(22) سورة محمد ۔ (صحیح البخاری: 5987)
پھر زمین میں فساد برپا کرنے اور رشتے ناتے توڑنے کی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ (٢٣) سورة محمد
’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر الله نے لعنت کی ہے پھرانہیں بہرا اور اندھا بھی کر دیا ہے‘‘
یعنی رشتے ناتے توڑنے والے پر اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتاہے اور اسے ایسا کر دیتا ہے کہ نہ ہی وہ حق کی آواز سن سکتا ہے اور نہ ہی حق کو دیکھ اور قبول کر سکتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی لعنت سے بچنے کے لیے صلہ رحمی ضروری ہے، اور صلہ رحمی حقوق کی ادائیگی سے مشروط ہے، اس لیے فرمایا:
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (٢٦) سورة الإسراء
''اور رشتے داروں کو ان کا حق دو اور مسکینوں اور مسافروں کو بھی اور (خبردار) فضول خرچی نہ کرو "
صلہ رحمی حق کی ادائیگی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بھی صحیح ہوں، سلام کلام میں بھی فرق نہیں آیا ہو، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا ملنا ملانا بھی دستور کے مطابق ہو رہا ہو لیکن اگر کوئی اپنے کسی رشتہ دار کا حق یا حقوق کا غاصب ہو تو رشتہ چونکہ برقرار ہے وہ قطع رحمی کرنے والا نہیں کہلائے گا لیکن حق کے غصب کرنے کا وبال اس کے سر ہوگا، اور اس کی اسے سزا ملے گی۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت اپنی بیٹیوں / بہنوں کے حقوق کے غاصب ہیں کیونکہ اکثریت انہیں وراثت میں حصہ نہیں دیتی تو اندیشہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی ساری عمر عبادت میں گزارنے کے باوجود جہنم میں ڈال دیئے جائیں۔ ( اس کی تفصیل ہبہ، عطیہ و تحفہ دینے میں ناانصافی، کے زیر عنوان بیان ہو چکی ہے)۔
۔