محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سلطان کو قتل کرنے والے محارب ہوں گے جن پر حد جاری کی جائے گی یا ان کا معاملہ مقتول کے ورثاء کے اختیار میں ہو گا؟ جب سلطان {حاکمِ وقت} یا اُس کا نائب حد جاری کرنے کے لیے قاتل کو طلب کرے اور اس کے قبیلہ اور خاندان کے لوگ اس کی حمایت کریں اور لڑنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ عام مسلمانوں کافرض ہوگا کہ ان سے قتال و جنگ کریں یہاں تک کہ مسلمان اس پر قابو پالیں ۔
یہ تمام باتیں اس وقت ہیں جبکہ ان پر قدرت و قابو پاسکیں۔ جب سلطان یانائب سلطان اور حاکم بغیر کسی قسم کی زیادتی کے قاتلینِ سلطان پر حد جاری کرنا چاہیں اور اُنہیں حاضر ہونے کا حکم دیں اور دوسرے لوگ ان کی حمایت و طرفداری کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو عام مسلمانوں پر واجب و فرض ہے کہ ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال اور جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یہاں تکہ کہ مسلمان ان سب پر قابو پالیں {اور} تمام علماء امت کااس پر اتفاق ہے۔
اور اگر قتل کے بغیر وہ اطاعت قبول نہیں کرتے اور اس کی نوبت ہی آجائے تو یہ بھی کر گذریں اور پورا پورا مقابلہ کریں، ان کوقتل کریں {اور اُن} سب کو قتل کیا جائے اور جیسے بھی ممکن ہو اُن کی گردنیں اُڑا دیں اور جو بھی اُن کی حمایت اور اعانت و امداد کریں اُنہیں {بھی} قتل کر ناشروع کردیں۔ یہ قتال و جنگ ہے اور وہ حد جاری کرنے کا مسئلہ ہے۔ شرائع اسلام کا مقابلہ کرنے والوں کا مسئلہ زیادہ اہم اور زیادہ مؤکد {ضروری} ہے۔ یہ لوگ گروہ بندی اورجتھہ سازی میں اس لیے مشغول ہوگئے ہیں کہ لوگوں کو خراب کریں، لوگوں کا مال لوٹیں، زراعت اور نسل انسانی کو ہلاک کریں۔ ان کا مقصود یہ نہیں کہ دین کو قائم کریں اور ملک و ملت کی خدمت کریں۔ ان لوگوں کاوہی حکم ہے جو محاربین کا ہے، جو کسی قلعے یا کسی غار یا کسی پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی وغیرہ میں پناہ لے کر گذرنے والوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، راہزنی کرتے ہیں۔ جب انہیں ولی الامر اور حاکم کی فوج کہتی ہے کہ اطاعت کرلو اور توبہ کرو، معافی مانگو اور مسلمانوں کی جماعت میں داخل ہوجاؤ، حد قائم و جاری کرنے میں سلطان، ولی الامر اور حاکم کی اطاعت کرو، تویہ لوگ قتل و جنگ شروع کردیتے ہیں اور مدافعت پر اُتر آتے ہیں۔ ان لوگوں کا حال ایسا ہی ہے جو حاجیوں وغیرہ کو راستوں میں لوٹتے ہیں اور ان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، راہزنی کرتے ہیں۔ یا اُن لوگوں کاسا ہے جو پہاڑوں وغیرہ میں چھپے رہتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں یا غاروں میں راہزنی ڈکیتی کی غرض سے چھپ کر بیٹھتے ہیں۔ جیسے وہ گروہ جو قطع طریق اور راہزنی کی غرض سے شام و عراق کے درمیان چھپے بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی ان لوگوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال ایسا نہیں ہے جیسا کفار کے مقابلہ میں جنگ و قتال ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ کفار نہیں ہیں، ان کا مال نہ لوٹا جائے جب تک کہ وہ ناحق نہ لوٹیں۔ اگر وہ لوگ لوٹیں تو ان پر ضمان لازم آئے گا اور اسی قدر ان کا مال لیاجائے گا جس قدر انہوں نے لوٹا ہے، اگرچہ معین طور پر لوٹنے والے ہاتھ نہ آئیں۔ اگر لوٹنے والے متعین طور پر معلوم ہوجائیں کہ فلاں شخص نے لوٹا ہے تو اصل لوٹنے والا اور اُس کی مدد کرنے والے، اُس کے حامی سب برابر ہیں جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں۔ لیکن جب متعین طور پر ثابت ہوجائے کہ فلاں شخص ہی نے مال لوٹا ہے تو اس پر ضمان لازم ہوگا اور جو کچھ لوٹا گیا ہے اُن کے مالداروں پر لادا جائے گا۔ اگر مال وغیرہ اُن سے حاصل کرنا مشکل و دشوار ہے تو مصالح مسلمین کے لیے جو گروہ قتل و جنگ میں مصروف ہے ان کا رزق اور روزینہ مقرر کر دیاجائے کیونکہ یہ مقابلہ اور جنگ اقامتِ حدود، حد جاری کرنے اور زمین میں فساد روکنے کی غرض سے ہے۔ اگر ان لوگوں میں سے کوئی سخت مجروح {زخمی} ہوجائے تو اُس کا علاج کیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ اگر وہ لوگ بھاگ جائیں اور عوام الناس اُن کے شر سے محفوظ ہو جائیں تو ان کا تعاقب اور پیچھا نہ کیا جائے۔ ہاں اگر کسی پر حد جاری کرنا واجب ہے یا یہ کہ اُس کے بھاگنے سے خطرہ ہے تو تعاقب اور پیچھا کرنا لازمی و ضروری ہے۔