چلو ٹھیک ہے آپ نہ مانیں، میں نے تو اس کو مانا بھی ہے اور عمل بھی کیا ہے اور الحمد اللہ مطمن بھی ہوں۔ دو بیٹے ہیں دو کا ہی انشااللہ ارادہ تھا اب تو ماشااللہ جوان ہیں۔
مگر مجھے پرابلم پیش آتی ہے جب ارد گرد ماحول میں بے تحاشہ بے لگام بچے ننگ دھڑنگ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور اب تو سب ہی بھکاری بن چکے ہیں چاہے وہ کسی بھکاری خاندان کی بجائے کسی اچھے بھلے گھرانے سے ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بارہا بہبود آبادی کا اشارہ دے دیا ہے وہ آپ بنی اسرائیل کی طرح کیڑے نکال رہے ہیں کہ اللہ پاک نے یہ کیوں نہیں کردیا؟ بھائی جان، اللہ پاک نے جو بھی فرما دیا ہے اس سے بہتر "آیت" یا "آیات" ناممکن ہے۔ اب اگر ہم لوگ ہی "صم بکم عمی فھم لا یرجعون" بن چکے ہیں تو پھر اللہ پاک کو تو قصوروار نہ ٹھہرائیں؟ اگر نظام میں خرابی نظر آرہی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ لوگوں کا ہی قصور ہے نہ کہ اللہ پاک کا۔ جب انسان اللہ پاک کے بتائے ہوئے طریقے سے روگردانی کریں گے تو پھر نظام تو خراب ہوگا۔ نظام کی خرابی کی ایک بنیادی اور بڑی وجہ بہبود آبادی کے قرآنی اور سرکاری حکم پر عمل در آمد نہ کرنا ہے۔ جب حکومت پاکستان یعنی ملک کے حاکم یا سربراہ یا امیر خود یہ نظام یا پیغام بنا چکے ہیں کہ " بچے دو ہی اچھے" تو پھر ہم کون ہوتے ہیں اس حکم سے رو گردانی کرنے والے؟ اب کیا ٹریفک کے اشارے ہر ریڈ بتی پر ہم تب ہی رکیں گے جب یہ حکم قرآن پاک میں انہی الفاظ میں آئے گا کہ آپ نے فلاں سگنل پر ریڈ بتی جلے تو رکنا ہے؟ آپ لکیر کے فقیر مت بنیں اور غور کریں کہ رب الکائنات کا واضح پیغام کیا بہبود آبادی نہیں ہے؟ آپ جیسے لوگ چاہتے ہی نہیں کہ کسی ملک و قوم کی حالت بہتر ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اکثریت ہم اور آپ میں سے یعنی 98 فی صد ہمارے ہی لوگ بہبود آبادی پر عمل کرتے ہیں مگر اپنے اپنے ذاتی طریقے سے۔ ہر کسی نے اپنی ایک ذاتی حد مقرر کر رکھی ہے اکثریت چار یا پانچ پر محدود ہے۔ کئی اکا دکا ہیں جو انیس یا اکیس پر رکتے ہیں۔ مگر سب کے سب کسی قرآنی یا سرکاری قاعدے قانون کو نہیں مانتے؟ اپنے اپنے قاعدے قانون ذہنوں میں بنا رکھے ہیں۔ پھر آپ جیسے لوگ ہیں جو انہیں کسی قانون کے ماتحت ہونے بھی نہیں دیتے؟
Sent from my SM-A605FN using Tapatalk
آپ خود جو مرضی کریں، لیکن اپنی ’مرضی‘ کو قرآن وحدیث کا نام دیں۔
غربت کا خاتمہ لوگ کم کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ لوگوں کے لیے وسائل فراہم کرنے سے ہوتا ہے۔
رزق کے ڈر سے بچوں کو قتل کرنے سے قرآن نے منع کیا ہے، اور بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد لفافے غبارے لگا کر پیدائش روکنا بھی ہوسکتا ہے۔
بنی اسرائیل والے کیڑے ہم نہیں نکال رہے، آپ واضح قرآنی تعلیمات سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے بنی اسرائیلی عقل آرائی کر رہے ہیں۔
آپ قرآن کی آیت یا حدیث پیش کردیں، پھر ہم اس پر حجتیں اور تاویلیں کریں، تو آپ کا کہنا بر حق ہوگا۔
یہ حدیث سے تو نہیں ہے یہ تو قرآن پاک میں ہے۔
اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَہُمَا جَزَائً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمo وَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللہِ یَتُوْبُ عَلَیْہِ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (مائدہ۔ع:6)
قرآن پاک تو واضح ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹو، آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں نشان لگانا مراد ہے، کاٹنا مراد نہیں، تو نشان لگانا اس آیت میں کدھرہے؟
کسی بھی قوم کو مقدر اور نصیب پر چھوڑ کر گند، گٹر ، کچرا، گندگی، مفلسی، لاچاری، عوام کو گندا پانی پلا کر، کینسر کے مریض بنا کر ۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔
Planning, Development and Management
کے بغیر کیسے اللہ اپنے بندوں کو چھوڑ سکتا ہے؟ جب دنیا کا کوئی بھی کام بغیر پلاننگ کے سرے نہیں چڑھ سکتا؟ تو پھر population management کیوں نہیں؟؟؟ مگر آپ جیسے لوگوں نے عوام کو گمراہی پر لگانے کا ٹھیکہ جو لے رکھا ہے؟
Sent from my SM-A605FN using Tapatalk
آپ کو غریب و مفلس لوگوں سے نفرت ہے، تو اس کا اظہار قرآن و حدیث کی آڑ میں نہ کریں، سیدھی سیدھی بات کریں، جامے سے باہر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
بچے اللہ کی دین ہیں، یہ اللہ کا پلان ہے، آپ اس سے راضی نہیں، تو دوسروں کے ساتھ بدتمیزی نہ کریں، اپنی عقل کا علاج کروائیں۔