lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
باطل سے اتحاد کے لیے حق سے اختلاف!؟
آج ہرچہارجانب سے امت مسلمہ میں اتحاد کے نعرے لگ رہے ہیں اوراس کے لئے ہرممکن ذریعہ کی تلاش اوراس پرعمل کی کوششیں جاری ہیں حالانکہ قران وحدیث میں واضح طورپراختلاف کے اسباب اوراتحاد کے ذرائع کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے،لیکن افسوس کی قرآنی ارشادات ونبوی تصریحات کی روشنی میں اختلاف دورکرنے اوراتحاد قائم کرنے کی کوشش کے بجائے اپنی عقل وتجربہ کی بنیادپراتحاد امت بلکہ اتحاد انسانیت کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔
اورآج مصلحت پرستوں نے اتحاد کاسب سے بہترین فارمولہ یہ اپنا لیا ہے کہ جولوگ ہم سے اختلاف رائے رکھتے ہیں ان کی کچھ باتوں کو قبول کرلیاجائے گرچہ ان کابطلان اظہرمن الشمس ہو۔
اس میں شک نہیں اس فارمولہ سے بھی کسی حدتک اتحاد ممکن ہے مگراتحاد کے خاطرایسے سمجھوتے کی قران وحدیث میں قطعاکوئی گنجائش نہیں ،بلکہ صراحت کے ساتھ اس سے منع دیاگیاہے
اللہ کاارشادہے
{وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ}
[البقرة: 120]
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے
البقرة120ترجمہ مودودی)۔)
اس آیت میں اہل باطل کے ساتھ اتحاد اوران کی رضا کے حصول کے لئے ایک کامیاب ذریعہ بتلایا گیا ، اور وہ ہے اہل باطل کے باتیں قبول کرلینا۔
اللہ تعالی نے یہ کار آمد ذریعہ اس لئے نہیں بتلایا تھا کہ اس پر مکمل نہ سہی تو جزوی طورپرہی عمل کرکے اغیار کی خوشنودی حاصل کی جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ ذریعہ گرچہ کار آمد ہے مگر اس پر عمل ،اغیارکی خواہشات کی پیروی کرنا ہے ، اور علم و حقائق کے واضح ہوجانے کے بعد یہ طرزعمل الہی نصرت وتائید سے محرومی کا ذریعہ بھی ہے ، گرچہ دنیاوی اتحاد اس سے حاصل ہوجائے،فرمایا
{ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ }
[البقرة: 120]
اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے
البقرة120ترجمہ مودودی)۔)
مگرافسوس کہ آج مدعیان اسلام کا ایک پورا گروہ ہے جو جزوی طور پر اس فارمولہ پر عمل پیرا ہے اور اغیار کی نصرت و حمایت کے حصول کی خاطر اللہ کی نصرت تائید کاسودا کررہا ہے،چنانچہ
کوئی سزائے رجم کا انکار رہاہے۔
کوئی بے پردگی کی حمایت کررہاہے۔
کوئی قربانی کے خلاف احتجاج کررہاے۔
کوئی شاتمین رسول کے تحفظ پر کتابیں لکھ رہاہے۔
کوئی شراب نوشی ، حرام خوری اور فحاشیت کو جائز بتلا رہا ہے ۔
کوئی خواتین کو خطبہ جمعہ اور مردوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھنے کی تعلیم دے رہاہے۔
اسی پر بس نہیں بلکہ مفتیان کرام نے توموسیقی اورخواتین اسلام کے لئے اہل کتاب سے شادی تک کی اجازت دے دی،اوراس کے لئے قران وحدیث سے دلائل بھی فراہم کردئے۔
ان تمام گمراہیوں کی وجہ کم علمی نہیں بلکہ اغیارکی رضاجوئی ہے،آج دنیاوی ترقی یافتہ قوم کو خوش کرنے کے لئے اوران کے ساتھ قدم سے قدم ملاکرچلنے کے لئے باطل کے ساتھ سمجھوتہ کیا جارہا۔
یہ طرز عمل عمومامفکرین کا ہوتا ہے لیکن ایسے علمائے دین کی بھی کمی نہیں ہے جو آئے دن اہل بدعت کی تائیدوتصویب کرتے جاتے ہیں تاکہ وہ ان سے خوش رہیں ، اورنتیجتا ہمارے اوران کے بیچ اتحاد وامن ومان قائم ہو،چنانچہ اسی فارمولہ پرعمل کرتے ہوئے
٭کوئی حادث ،عطائی اورمحدودکافلسفہ پیش کرکے انبیاء کے لئے بھی علم غیب کااثبات کررہاہے۔
٭کوئی عقائد میں اشعری فکرکی حمایت میں سرگرم ہے۔
٭کوئی رفع الیدین میں جوازالامرین کاقائل ہے،وغیرہ وغیرہ۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی میں فہم ومعرفت میں تفاوت کی بناپربھی ان امورمیں اختلافات ہوئے ہیں مگرآج قیام اتحادکے پیش نظر ان اختلافی امور میں رائے قائم کی جارہی ۔
مولانامودودی صاحب بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اتحاد امت کے لئے کوششیں کی ہیں اوراس اتحادکی خاطر بہت سارے دینی وشرعی مسائل میں جوازالامرین اورمباح کاتسلسل عام کردیا،خواہ یہ مسائل اوامرومنہیات ہی کے قبیل سے کیوں نہ ہوں ۔
اسی پربس نہیں بلکہ موصوف نے شیعہ حضرات کے ساتھ بھی قدم سے قدم ملانے کی ٹھان لی اورانہیں بھی ساتھ لیکرایک فلیٹ فارم پرمتحدہونے کی کوشش کی ،اوران کے ساتھ اتحادکے لئے اسی فارمولے پرعمل کیا یعنی ان کے بعض گمراہ کن اورباطل افکارکی تائیدوتصویب کردی اور''خلافیت وملوکیت'' کے نام پرخیرالقرون کے مقدس گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم پرسب وشتم تک کوگوراکرلیا تاکہ اسی طرح شیعہ حضرات قریب ہوسکیں اوران کے ساتھ متحدہونے کی راہ ہموارہو۔
الغرض یہ کہ آج ایسے بہت سے لوگ ہیں جوباطل کے ساتھ اس لئے سمجھوتہ کررہے ہیں تاکہ وہ ان سے قریب ہوسکیں اورآج کی بھولی بھالی عوام اسے اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھتی ہے مگردرحقیت یہ '' باطل کے ساتھ اتحادکے لئے حق سے اختلاف '' کافارمولہ ہے،دنیاکی چندعارضی کوڑیوں کے لئے آخرت کی نعمتوں کی قربانی ہے،ضلالت وگمراہی کے لے ہدایت ومغفرت کاسوداہے، حق ان کی نظروں میں روز روشن کی طرح عیاں ہے، مگردنیاپرستی کی خاطرحق پوشی سے کام لے رہے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (174) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (175) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (176)
[البقرة: 174 - 176]
یقینا جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹہرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے
البقرة: 174، 176)۔)
اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا بیان ہواہے جو حق جاننے کے باوجود محض دنیاوی مفاد کی خاطر واضح غلطیوں بلکہ گمراہیوں پربھی سمجھوتہ کرلیتے تھے۔
اللہ ہم سب کو ایسے افکاراورایسے افکارکے حامل افراد کے شرسے بچائے ، آمین۔۔۔
آج ہرچہارجانب سے امت مسلمہ میں اتحاد کے نعرے لگ رہے ہیں اوراس کے لئے ہرممکن ذریعہ کی تلاش اوراس پرعمل کی کوششیں جاری ہیں حالانکہ قران وحدیث میں واضح طورپراختلاف کے اسباب اوراتحاد کے ذرائع کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے،لیکن افسوس کی قرآنی ارشادات ونبوی تصریحات کی روشنی میں اختلاف دورکرنے اوراتحاد قائم کرنے کی کوشش کے بجائے اپنی عقل وتجربہ کی بنیادپراتحاد امت بلکہ اتحاد انسانیت کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔
اورآج مصلحت پرستوں نے اتحاد کاسب سے بہترین فارمولہ یہ اپنا لیا ہے کہ جولوگ ہم سے اختلاف رائے رکھتے ہیں ان کی کچھ باتوں کو قبول کرلیاجائے گرچہ ان کابطلان اظہرمن الشمس ہو۔
اس میں شک نہیں اس فارمولہ سے بھی کسی حدتک اتحاد ممکن ہے مگراتحاد کے خاطرایسے سمجھوتے کی قران وحدیث میں قطعاکوئی گنجائش نہیں ،بلکہ صراحت کے ساتھ اس سے منع دیاگیاہے
اللہ کاارشادہے
{وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ}
[البقرة: 120]
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے
البقرة120ترجمہ مودودی)۔)
اس آیت میں اہل باطل کے ساتھ اتحاد اوران کی رضا کے حصول کے لئے ایک کامیاب ذریعہ بتلایا گیا ، اور وہ ہے اہل باطل کے باتیں قبول کرلینا۔
اللہ تعالی نے یہ کار آمد ذریعہ اس لئے نہیں بتلایا تھا کہ اس پر مکمل نہ سہی تو جزوی طورپرہی عمل کرکے اغیار کی خوشنودی حاصل کی جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ ذریعہ گرچہ کار آمد ہے مگر اس پر عمل ،اغیارکی خواہشات کی پیروی کرنا ہے ، اور علم و حقائق کے واضح ہوجانے کے بعد یہ طرزعمل الہی نصرت وتائید سے محرومی کا ذریعہ بھی ہے ، گرچہ دنیاوی اتحاد اس سے حاصل ہوجائے،فرمایا
{ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ }
[البقرة: 120]
اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے
البقرة120ترجمہ مودودی)۔)
مگرافسوس کہ آج مدعیان اسلام کا ایک پورا گروہ ہے جو جزوی طور پر اس فارمولہ پر عمل پیرا ہے اور اغیار کی نصرت و حمایت کے حصول کی خاطر اللہ کی نصرت تائید کاسودا کررہا ہے،چنانچہ
کوئی سزائے رجم کا انکار رہاہے۔
کوئی بے پردگی کی حمایت کررہاہے۔
کوئی قربانی کے خلاف احتجاج کررہاے۔
کوئی شاتمین رسول کے تحفظ پر کتابیں لکھ رہاہے۔
کوئی شراب نوشی ، حرام خوری اور فحاشیت کو جائز بتلا رہا ہے ۔
کوئی خواتین کو خطبہ جمعہ اور مردوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھنے کی تعلیم دے رہاہے۔
اسی پر بس نہیں بلکہ مفتیان کرام نے توموسیقی اورخواتین اسلام کے لئے اہل کتاب سے شادی تک کی اجازت دے دی،اوراس کے لئے قران وحدیث سے دلائل بھی فراہم کردئے۔
ان تمام گمراہیوں کی وجہ کم علمی نہیں بلکہ اغیارکی رضاجوئی ہے،آج دنیاوی ترقی یافتہ قوم کو خوش کرنے کے لئے اوران کے ساتھ قدم سے قدم ملاکرچلنے کے لئے باطل کے ساتھ سمجھوتہ کیا جارہا۔
یہ طرز عمل عمومامفکرین کا ہوتا ہے لیکن ایسے علمائے دین کی بھی کمی نہیں ہے جو آئے دن اہل بدعت کی تائیدوتصویب کرتے جاتے ہیں تاکہ وہ ان سے خوش رہیں ، اورنتیجتا ہمارے اوران کے بیچ اتحاد وامن ومان قائم ہو،چنانچہ اسی فارمولہ پرعمل کرتے ہوئے
٭کوئی حادث ،عطائی اورمحدودکافلسفہ پیش کرکے انبیاء کے لئے بھی علم غیب کااثبات کررہاہے۔
٭کوئی عقائد میں اشعری فکرکی حمایت میں سرگرم ہے۔
٭کوئی رفع الیدین میں جوازالامرین کاقائل ہے،وغیرہ وغیرہ۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی میں فہم ومعرفت میں تفاوت کی بناپربھی ان امورمیں اختلافات ہوئے ہیں مگرآج قیام اتحادکے پیش نظر ان اختلافی امور میں رائے قائم کی جارہی ۔
مولانامودودی صاحب بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اتحاد امت کے لئے کوششیں کی ہیں اوراس اتحادکی خاطر بہت سارے دینی وشرعی مسائل میں جوازالامرین اورمباح کاتسلسل عام کردیا،خواہ یہ مسائل اوامرومنہیات ہی کے قبیل سے کیوں نہ ہوں ۔
اسی پربس نہیں بلکہ موصوف نے شیعہ حضرات کے ساتھ بھی قدم سے قدم ملانے کی ٹھان لی اورانہیں بھی ساتھ لیکرایک فلیٹ فارم پرمتحدہونے کی کوشش کی ،اوران کے ساتھ اتحادکے لئے اسی فارمولے پرعمل کیا یعنی ان کے بعض گمراہ کن اورباطل افکارکی تائیدوتصویب کردی اور''خلافیت وملوکیت'' کے نام پرخیرالقرون کے مقدس گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم پرسب وشتم تک کوگوراکرلیا تاکہ اسی طرح شیعہ حضرات قریب ہوسکیں اوران کے ساتھ متحدہونے کی راہ ہموارہو۔
الغرض یہ کہ آج ایسے بہت سے لوگ ہیں جوباطل کے ساتھ اس لئے سمجھوتہ کررہے ہیں تاکہ وہ ان سے قریب ہوسکیں اورآج کی بھولی بھالی عوام اسے اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھتی ہے مگردرحقیت یہ '' باطل کے ساتھ اتحادکے لئے حق سے اختلاف '' کافارمولہ ہے،دنیاکی چندعارضی کوڑیوں کے لئے آخرت کی نعمتوں کی قربانی ہے،ضلالت وگمراہی کے لے ہدایت ومغفرت کاسوداہے، حق ان کی نظروں میں روز روشن کی طرح عیاں ہے، مگردنیاپرستی کی خاطرحق پوشی سے کام لے رہے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (174) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (175) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (176)
[البقرة: 174 - 176]
یقینا جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹہرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے
البقرة: 174، 176)۔)
اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا بیان ہواہے جو حق جاننے کے باوجود محض دنیاوی مفاد کی خاطر واضح غلطیوں بلکہ گمراہیوں پربھی سمجھوتہ کرلیتے تھے۔
اللہ ہم سب کو ایسے افکاراورایسے افکارکے حامل افراد کے شرسے بچائے ، آمین۔۔۔