• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بخاری صرف حدیث کے نہیں فقہ کے بھی امام ہیں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہی بات تواتنی دیر سے ہم کہنے کی بلکہ عرض کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ دیگرفقہاء جن کانام حضرت والانے لیاہے وہ مجتہد نہیں مسائل کے ناقل ہیں،اگرتقابل کرناہی ہے توامام ابویوسف اورامام محمد کی کتاب الآثارسے تقابل کیاجائے،امام محمد کی الحجہ علی اہل المدینہ اور امام طحاوی کی معانی آلاثار اوردیگرتالیفات سے تقابل کیاجائے تواسے تقابل کہیں گے اوراسے منصفانہ تقابل بھی کہاجائےگا۔
ورنہ ایک جانب حدیث کی کتاب کو رکھنا جس کااصل مقصدصحیح احادیث کی جمع وترتیب ہواورذیلی مقصد مسائل کا استنباط ہو اس کاتقابل ایسی کتاب سے کرنا جس میں محض ایک مجتہد کے مسائل نقل کردیئے گئے ہوں، درست نہیں ہے،لیکن اگرآپ کو اصرار ہے کہ حافظ شریف صاحب نے جوکیابہت خوب کیاہےتوبہت اچھی بات ہے ،ہرانسان کو اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے پسند کرے،اس سلسلے میں آپ پر کوئی حرف گیری نہیں کی جاسکتی لیکن جسے علمی معیار کہتے ہیں اس لحاظ سے دیکھے جائے تو یہ تقابل درست نہیں ہے۔ وماتوفیقی الاباللہ
حافظ صاحب کا ان کتابوں کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کیونکہ عوام یہی مشہور ہیں ، ہدایہ ، قدوری وغیرہ ، جن کتابوں کا آپ نے ذکر کی ، عوام ان کے بارے معلومات نہیں رکھتے ۔ واللہ اعلم ۔
حافظ صاحب کو چونکہ میں ذاتی طور جانتا ہوں ،اس لیے کہہ سکتا ہوں کہ وہ متعصب نہیں بلکہ معتدل مزاج اور منصف عالم دین ہیں ۔ باوجودیکہ وہ اہل حدیث عالم ہیں ، لیکن دیگر مسالک کے لوگ بھی ان کو اپنے مساجد میں دعوت دیتے ہیں ، بریلوی اور دیوبندی دونوں مسجدوں میں جمعے میں نے ان کی اقتداء میں ادا کیے ہیں ۔
انہوں نے اپنے انداز میں تقابل کیا ، اگر کسی کو صحیح لگا تو اس سے سبق سیکھے گا ،آپ اپنے انداز میں پیش کرسکتے ہیں ، جو درست سمجھیں گے ، اس سے استفادہ کرسکیں گے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حفظ حدیث الگ چیز ہے اور فقاہت الگ شے ہے، دونوں میں کوئی لزوم کا قاعدہ جاری وساری نہیں ہے اورنہ منطق کی آگ اوردھوئیں والی بات ہے کہ جہاں دھواں ہوگاوہاں آگ ضرور موجود ہوگی۔
یہ عین ممکن ہے اورممکن نہیں بلکہ واقع ہے کہ ایک شخص محدث بھی ہو اورفقیہہ ہو اوریہ بھی واقع ہے کہ ایک شخص فقیہہ ہو اورساتھ ہی محدث بھی ہو ،لیکن یہ کہناکہ تمام محدثین فقیہہ ہیں یاتمام فقیہہ محدث ہیں، ایک بے بنیاد بات ہے جس کیلئے نہ البانی صاحب نے کوئی دلیل پیش کی اورنہ ہی اس موقف کی تائید وحمایت کرنے والے کسی فرد نے اس موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش کیاہے۔
میں اس موضوع پر زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا ، کیونکہ یہ معاملہ نظری ہونے کی بجائے حس و مشاہدہ سے زیادہ تعلق رکھتا ہے ، جو بطور محدثین مشہور ہیں ان کی تصنیفات بھی موجود ہیں اور بطور فقہاء شہرت پانے والوں کی کتب بھی میسر ہیں ، ان کو براہ راست دیکھنے سے یہ معاملہ حل ہوجاتا ہے ۔
ویسے اس موضوع پر پہلے بھی ایک جگہ گفتگو ہو چکی ہے ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میں نے ماقبل میں بھی عرض کیاتھا کہ امام بخاری کی فقاہت کے اثبات کیلئے فقہ حنفی پر طعن وتشنیع ضروری نہیں ہے اورایسابھی نہیں ہے کہ فقہ حنفی پر ایک دوریمارک کردینے سے
ابام بخاری رحمہ اللہ کم از کم مسائل تو صحیح اخذ کرتے تھے۔
حدثنا ربیع بن سلیمان المرادی قال سمعت الشافعی یقول ابو حنیفۃ یضع اول المسالۃ خطاثم یقیس الکتاب کلہ علیھا (اسنادہ صحیح) ( آداب و مناقب الشافعی ص 171 اخرجہ خطیب فی تاریخ بغداد جلد 13 ص 437)

ترجمہ: امام شافعیؒ نے کہا ابو حنیفہ پہلے ایک غلط مسئلہ گھڑتا تھا پھر ساری کتاب کو اس پر قیاس کرتا تھا (تو ساری کتاب غلط ہوجاتی)
ثنا محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم قال قال لی محمد بن ادریس الشافعی نطرت فی کتب لاصحاب ابی حنیفۃ ، فاذا فیھا مائۃ وثلاثون ورقۃ، فعددت منھا ثمانین ورقۃ خلاف الکتاب والسنۃ قال ابو محمد لان الاصل کان خطاء فصارت الفروع ماضیۃ علی الخطاء (اسنادہ صحیح) (آداب و مناقب الشافعی ص 171،172) اخرجہ الخطیب فی تاریخ بغداد جلد 13 ص 436،437)

ترجمہ: امام شافعیؒ نے کہا کہ میں نے اصحاب ابو حنیفہ کی کتابوں میں ایک کتاب دیکھی جس کے 130 اوراق تھے تو ان میں سے میں نے 80 اوراق ایسے شمار کیے جو کہ کتاب و سنت کے خلاف تھے امام ابو محمد ؒ(ابن ابی حاتم ) نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی ہی غلط تھی تو جو مسائل ان سے نکالے گئے تو وہ بھی غلط ہی رہے۔
حدثنی ابو الٖفضل نا یحیی بن ایوب نا علی بن عاصم قال حدثت ابا حنفۃ بحدیث فی النکاح اوفی الطلاق، قال ھذا قضاء الشیطان (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلدا ول ص226)

ترجمہ: امام علی بن عاصمؒ نے کہا میں نے ابو حنیفہ سے نکاح یا طلاق کے بارے میں حدیث بیان کی تو ابو حنیفہ نے کہا یہ شیطان کا فیصلا ہے۔ (معاذاللہ )
اخبرنا محمد بن عبداللہ الحنائی اخبرنا محمد بن عبداللہ الشافعی حدثنا محمد بن اسماعیل السلمی حدثنا ابو توبۃ الربیع بن نافع حدثنا عبداللہ بن مبارک قال من نطر فی کتاب الحیل لابی حنیفۃ احل ماحرم اللہ وحرم ما اجل اللہ (اسنادہ صحیح) (الخطیب فی تاریخ بغدادی جلد 13 ص 426)

ترجمہ: امام عبداللہ بن مبارکؒ نے کہا ابو حنیفہ کی کتاب الحیل کو جو بھی دیکھےگا۔ (وہ پائےگا) کے حلال قرار دیا ہے (ابو حنیفہ نے) اس چیز کو جس کو اللہ نے حرام کہا ہے اور حرام قرار دیا ہے (ابو حنیفہ نے ) اس چیز کو جس کو اللہ نے حلال کہا ہے
حدثنی منصور بن ابی مزاحم سمعت مالک بن انس زکر ابا حنیفۃ فذکرہ بکلام سوء وقال کا دالدین وقال من کا دالدین فلیس من الدین (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول ص 199) امام العقیلی فی کتاب الضعفاء الکبیر ج 4 ص 281)

ترجمہ: امام منصور بن ابی مزاحم ؒ نے کہا میں نے امام مالک بن انس ؒ کو ابو حنیفہ کاذکر برے کلام کے ساتھ کرتے سنا اور امام مالک بن انسؒ نے کہا کہ ابو حنیفہ نے دیں کو نقصان پہنچایا اور کہا جو دین کو نقصان پہنچائے اس کا کوئی دین نہیں۔
حدثنی ابو الفضل الخراسانی نا ابو الا حوص محمد بن حیان قال سال رجل ھشیما یوما عن سالۃ فحدثہ فیھا بحدیث فقال الرجل ان ابا حنیفۃ و محمد بن الحسن و اصحابہ یقولون بخلاف ھذا فقال ھشیم یا عبداللہ ان العلم لا یو خذ من السفل (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول ص 227،228)

ترجمہ: امام محمد بن حیانؒ نے کہا ایک آدمی نے امام ہشیم ؒ سے ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھا امام ہیشم نے اس آدمی سے اس مسئلےکے بارے میں ایک حدیث بیان کی اس آدمی نے کہا کہ ابو حنیفہ اور محمد بن حسن اور ان کے اصحاب اس کے الٹ کہتے ہیں (یعنی حدیث کہ خلاف ) امام ہشیم ؒ نے کہا اے عبداللہ بے شک جاہلوں سے علم حاصل نہیں کیا جاتا۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن قدامہ صاحب!
اللہ آپ کو خوش رکھے،میں اس طرح کی بحث میں پڑنانہیں چاہتا،اگرمیں چاہوں تو محدثین کے فضائل ومناقب میں صحیح اورحسن سند سے اقوال یہاں پیش کرسکتاہوں لیکن بظاہر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتاکیونکہ افہام وتفہیم کی نیت نہیں ہوتی،بلکہ مقصد عمومی طورپر’’مراء وجدال‘‘ہوتاہے میں ماقبل کے مراسلے میں عرض کرچکاہوں کہ کچھ لوگ ایسےبھی ہیں جودوچارحدیثیں پڑھ کر ائمہ اجتہاد کو اجتہاد کی باریکیاں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں،جومشغلہ اپنایاہے اسے جاری رکھئے،اوردیکھئے کہ اس کے کیافوائد وثمرات آنجناب کو ملتے ہیں۔وماتوفیقی الاباللہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ابن قدامہ صاحب!
کہ کچھ لوگ ایسےبھی ہیں جودوچارحدیثیں پڑھ کر ائمہ اجتہاد کو اجتہاد کی باریکیاں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں،جومشغلہ اپنایاہے اسے جاری رکھئے،اوردیکھئے کہ اس کے کیافوائد وثمرات آنجناب کو ملتے ہیں۔وماتوفیقی الاباللہ
امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ۔
اور وہ بھی صحیح طرح یاد نہ تھیں ۔

امام صاحب کی اپنی مروی احادیث و فقہ کے متعلق پہلی گواہی:
کئی صحیح اسانید سے مروی ہے کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا:مارائیت افضل من عطائ و عامۃ ما احدثکم خطا۔میں نے امام عطائ بن ابی رباح سے افصل کسی و نہیں دیکھا اور میری بیان کردا عام احادیث و علوم بشمول فقہ مجموعہ اغلاط ہیںً ۔(الکامل لابن عدی :ج٧ص٢٤٧٣،تاریخ بغداد ج١٣ص٤٢٥،کتاب الکنی لابی احمد حاکم :ج٥ص١٧٥)

امام صاحب کی اپنی مروی احادیث و فقہ کے متعلق دوسری گواہی:
ابو عبدالرحمن المقری کہتے ہیں :کان ابوحنیفۃ یحدثنا فاذا فرغ من الحدیث قال:ہذا الذی سمعتم کلہ ریاح و اباطیل۔‘‘‘امام ابو حنیفہ اپنی درس گاہ میں احادیث بیان کرکے فارغ ہوتے تھے تو ہم سے فارغ ہو کر کہتے تھے کہ تم ہماری درسگاہ میں جوبھی سنتے ہو وہ مجموعہ اغلاط و ریاح اور مجموعہ اباطیل ہیں۔(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم :ج٨
ص٤٥٠،وسندہ صحیح )


ثانیا : امام ربانی محمد بن علی الشوکانی اس نقطہ پر بحث کرتے ھوئے فرماتے ھیں:۔
’’ ومن اسباب الوضع ما یقع ممن لا دین لہ عند المناظرۃ فی المجامع استدلالاًعلی ما یقولہ بما یطابق ھواہ تنفیقالجدالہ وتقویما بمقالہ واستطالۃ علی خصمہ ومحبۃ للقلب وطلبا للریاسۃ وفراراً من الفضیحۃ‘‘(الفوائد المجموعۃ ص۴۲۷)
’’وضع کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ھے کہ مجمع عام میں مناظرے کے وقت جس کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ھوتی جس سے وہ اپنے مذھب کے درست ھونے پر استدلال کر سکے تو وہ اپنے جھگڑے اور مقالے کو تقویت دینے اور مخالف پر غلبہ پانے اور دل کی چاھت اور طلب ریاست اور رسوائی سے بچنے کی خاطر روایتیں وضع کرتے ھیں اگر امام شوکانیؒ کے اس حقیقت خیز بیان کی تصدیق مطلوب ھو تو فقہ کی کتابوں کی ورق گردانی کیجئے آپ پر ساری حقیقت کھل جائے گی دور نہ جایئے صرف ھدایہ کی کتابوں پر ایک نظر دوڑایئے تو اس میں آپ کو متعدد مقامات ایسے ملیں گے جھاں مخالف کے قول کو رد کرنے کے لئے کسی غیر کے قول کو قولہ علیہ السلام سے تعبیر کیا گیا ھے ۔
امام قرطبی نے فقھاء کے اصول پر بحث کرتے ھوئے فرمایا :۔
’’استجاز بعض فقھاء أھل الرای نسبۃ الحکم الذی دل علیہ القیاس الجلی الی رسول اللہ نسبۃ قولیۃ فیقولون قال رسول اللہ کذا ولھذا تری کثبھم مشحونۃ ۔ تشھد متونھا بانھا موضوعۃ تشبہ فتاوی وفقھاء ولانھم لایقیمون لھا سنداً لبعض فقھاء اھل الرأی۔‘‘
اھل رائے (احناف) نے اس حکم کی نسبت جس پر قیاس جلی دلالت کرے کو رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرنے کو جائز قرار دیا ھے وہ کہتے ھیں :۔
’’وہ رسول اللہ نے ایسے فرمایا ھے اگر آپ اپنی فقہ کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ھو گا کہ وہ ایسی روایات سے بھری ھوئی ھیں جن کے متن من گھڑت ھونے پر گواھی دیتے ھیں وہ متن اس لئے ان کتابوں میں درج ھیں کہ وہ فقھاء کے فتووں کے موافق مشابھت رکھتے ھیں حالانکہ وہ ان کی سند بھی نہیں پاتے۔‘‘(الباعث الحثیث ص۸۵)
امام قرطبی کے اس پر مغز تبصرہ کی تائید معروف حنفی محقق مولانا عبدالحی لکھنوی نے بھی کی ھے فرماتے ھیں :۔
’’قوم حملھم وعلی الوضع التعصب المذہبی والتجمد التقلیدی کما وضع مامون الھروی حدیث من رفع یدیہ فلا صلوۃ لہ ووضع حدیث من قراء خلف الامام فلا صلوۃ لہ۔‘‘
’’حدیث ان لوگوں نے بھی وضع کی ھے جن کو مذھبی تعصب اور تقلیدی جمود نے وضع پر ابھارا ھے جیسا کہ مامون ھروی نے یہ روایتیں جو رفع یدین کرے اسکی نماز نہیں ۔ اور جو امام کے پیچھے قرأت کرے اس کی نماز نہیں وضع کی ہیں۔(الآثار المرفوعۃ :ص۱۲)
(رفع یدین اور قرأۃ فاتحہ خلف الامام کی متواتر احادیث کے مقابلہ میں روایتیں وضع کرنا اللہ کے دین میں کمال درجہ جرأت ھے)۔ (ضعیف اور موضوع روایات ص۴۸۔۴۹)
اس میں دشمنی کی کیا بات ہے جو روایات خود بنا کر دین اسلام می داخل کر کیا اس سے دوستی ہونی چاہئے ۔!!؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اگرکوئی شخص غیرجانبداری سے کتب احادیث بالخصوص ان کتب کا مطالعہ کرے جس میں موضوع احادیث کے تعلق سے بات کی گئی ہے توپتہ چلے گاکہ وضع حدیث کے حمام میں بشمول اہل حدیث سب کے سب ننگے ہیں یاوضع حدیث کے کوئلوں کی تجارت میں سب کے ہاتھ کالے ہیں،کیامختلف افراد نے اہل حدیث کے فضائل ومناقب اورخاص فقہی رائے میں احادیث وضع نہیں کی ہیں؟لیکن جب حمیت جاہلیہ اورتعصب باردہ کا جادو سرچڑھ کربولتاہے توانسان ایمان، عقل اورانصاف سب کو درکنارکردیتاہے(خداہمیں اس طرح کی حرکتوں سے بچائے)
جہاں تک بات امام ابوحنیفہ کو سترہ یااٹھارہ حدیثوں کے یاد ہونے کاہے تو اس میں بھی امام ابوحنیفہ کی فضیلت چھپی ہوئی ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک مسئلہ اپنی رائے سے بتایااورپھر انہیں اس سلسلے کی حدیث ملی تواتنے خوش ہوئے کہ اسلام کے بعد کبھی اتنی خوشی نہیں ملی تھی ،امام ابوحنیفہ کو بقول آپ کے سترہ احادیث یاد تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی سینکڑوں آراء ایسی ہیں جس کے سلسلے میں ہمیں کتب احادیث میں ایسی حدیثیں ملتی ہیں جو امام ابوحنیفہ کی رائے کی تائید کرتی ہیں تویہ ان کی کتنی بڑی فضیلت اورمنقبت ہے!اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔

"یہ نصیب اللہ اکبرلوٹنے کی جائے ہے"

علم انسان کو تواضع سکھاہے ہاں وہ علم جس کےبارے میں حدیث نبوی میں کہاگیاہے لیماری بہ السفہاء وہ ضرور تکبر اورفخروغرور اور دوسروں کو نیچادکھانے کی ترغیب دیتاہے۔ہدایہ کی احادیث کی تخریج حافظ زیلعی نے کی ہے، حافظ ابن حجر نے کی ہے لیکن ان کی تخریج کی پوری کتابیں پڑھ جائیے ،کبھی اس طرح کی زبان استعمال کی گئی جو دورحاضر میں آپ حضرت کا مخصوص "ٹریڈمارک"بن چکاہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مرتبہ گریبان میں جھانکاجائے کہ کہیں اس طرح کا لب ولہجہ "خالی برتن صدادیتاہے"کی مثال تونہیں ہے۔
اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے اور دین کے بےلوث اورسچے خادموں سے محبت کرنے اوررکھنے کی توفیق ارزانی کرے۔وماتوفیقی الاباللہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
علم انسان کو تواضع سکھاہے ہاں وہ علم جس کےبارے میں حدیث نبوی میں کہاگیاہے لیماری بہ السفہاء وہ ضرور تکبر اورفخروغرور اور دوسروں کو نیچادکھانے کی ترغیب دیتاہے۔ہدایہ کی احادیث کی تخریج حافظ زیلعی نے کی ہے، حافظ ابن حجر نے کی ہے لیکن ان کی تخریج کی پوری کتابیں پڑھ جائیے ،کبھی اس طرح کی زبان استعمال کی گئی جو دورحاضر میں آپ حضرت کا مخصوص "ٹریڈمارک"بن چکاہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مرتبہ گریبان میں جھانکاجائے کہ کہیں اس طرح کا لب ولہجہ "خالی برتن صدادیتاہے"کی مثال تونہیں ہے۔
حنفیوں کی معتبر کتاب "ہدایہ" کی احادیث مخالف تعلیمات

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
2: (عن جابر ان النبي صلي الله عليه وسلم قال زكوٰة الجنين زكوٰة امة.)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مادہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی ذبح ہو جاتا ہے۔"(تخريج: ابوداود' كتاب الضهايا' باب ما جاء في زكوٰة الجنين' رقم الحديث: 2868' ترمذي ' ابواب الصيد' باب زكوٰة الجنين عن ابي سعيد' رقم الحديث: 1476)
فقہ حنفی:
ومن نحر ناقة او ذبح بقرة فوجد في بطنها جنينا ميتا لم يوكل اشعر او لم يشعر.
"یعنی جس نے اونٹنی نحر کی یا گائےذبح کی اور اس کے پیٹ میں مرا ہوا بچہ پایا تو وہ بچہ کھانے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔" (هداية اخرين كتاب الذبائح' ص: 440 ج4)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
3: (عن جابر ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي يوم خيبر عن لحوم الحمر الاهلية واذن في لحول الخيل)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روک دیا اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب المغازي' باب غزوة خيبر' كتاب الذبائح' والصيد' باب لحوم الخيل' رقم الحديث: 4219'552'5524.صحيح المسلم' كتاب الصيد والذبائح وما يوكل من الحيوان' باب اباحة اكل لحم الخيل' رقم الحديث: 1941 واللفظ لمسلم.
فقہ حنفی:
ويكره لحم الفرس عند ابي حنيفة.
"یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت مکروہ ہے۔" (هداية آخرين ج4 الذبائح ص441)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
4: (عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من مات وعليه صيام صان عنه وليه)
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والے پر اگر روزوں کی قضا ہو تو وہ قضا اس کے وارث اس کی طرف سے پوری کریں گے۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب الصوم' باب من مار وعليه صوم' رقم الحديث: 1147. صحيح مسلم' كتاب الصيام' باب فضاء الصوم عن البيت. رقم الحديث: 1952)
فقہ حنفی:
من مات وعليه قضائ رمضان فاوصي به اطعم عنه وليه لكل يوم نصف صاع من برا ومن تمر او شعير ولا يصوم عنه الولي.
"یعنی مرنے والے پر اگر رمضان کے روزوں کی قضا ہو اور وہ ان کے بارے میں وصیت کت جائے تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے تو نہیں رکھ سکتے البتہ ہر دن گندم یا کھجور یا جو کا آدھا صاع میت کی طرف سے (مسکینوں کو) کھلا سکتے ہیں۔"(هدايه اولين ج1 كتاب الصوم باب ما يوجب القضاء والكفارة صفحه: 23-222)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
5: (عن ام الفضل قالت ان النبي صلي الله عليه وسلم وقال لا تحرم الرضعة او الرضعتان)
"سیدہ اُم فضل رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دودھ کی ایک چسکی یا دو چسکیوں سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔"
تخريج: مسلم' كتاب الرضاع' باب المصة والمصتان' رقم الحديث: 3593
فقہ حنفی:
قليل الرضاع وكثيره سواء اذا حصل في مدة الرضاع يتعلق به التحريم.
"دودھ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ، جب رضاعت کی مدت ہو تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔"
هدايه اولين ج٢' كتاب الرضاع صفحه: 350
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
6: (عن عائشة رضي الله عنها عن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال لا تقطع يد السارق الا في ربع دينار فصاعدا)
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چور کا ہاتھ دینار کے چوتھے حصے (تین درہم) کے برابر چوری کرنے یا اس سے زیادہ کی چوری کرنے پر کاٹا جائے گا۔"
تخريج: بخاري' كتاب الحدود' باب قول الله " وَٱلسَّارِ‌قُ وَٱلسَّارِ‌قَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟ أَيْدِيَهُمَا " رقم الحديث: 6790' مسلم' كتاب الحدود' باب حد السارق و نصابها. واللفظ لمسلم رقم الحديث: 4400.
فقہ حنفی:
واذا سرق العاقل البالغ عشرة دراهم او ما يبلغ قيمه عشرة دراهم مضروبة من حرز لا شبهة فيه وجب عليه القطع.
"جب عاقل اور بالغ دس درہموں کی چوری کرے گا یا ایسی چیز کی چوری کرے گا جس کی قیمت دس درہم ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔" (هداية اولين ج2' كتاب السرقة صفحه: 537)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
7: (عن جابر رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال من اعطي في صداق امراته ملا كفيه سويقا او تمرا فقد استحل)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیوی کو حق مہر میں ستو یا کھجور کی دونوں ہتھیلیاں بھر کے دیں تو اس نے اس کو حلال کر لیا۔"
تخريج: ابوداود' كتاب النكاح' باب قلة المهر' رقم الحديث: 2110.
فقہ حنفی:
واقل المهر عشرة دراهم....ولو سمي اقل من عشرة فلها العشر عندنا.
"حق مہر کم سے کم دس درہم ہے... اور اگر کسی نے دس درہم سے کم حق مہر مقرر کیا تو ہمارے مذہب کے مطابق وہ حق مہر دس درہم ہی ہو گا۔"(هداية اولين ج٢' كتاب النكاح' باب المهر صفحه: 324)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
8: (عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يرجع احد في هبته الا والد عن والده)
"سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص ہبہ کی ہوئی چیز واپس نہیں لے سکتا، مگر والد اپنے بیٹے سے (واپس لے سکتا ہے)۔"
تخريج: نسائي' كتاب الهبة' باب رجوع الوالد فيما يعطي ولده' ابن ماجه' ابواب الحكام' باب من اعطي ولده ثم رجع فيه' رقم الحديث: 2378
فقہ حنفی:
اذا وهب الهبة لاجنبي فله الرجوع منها... بخلاف هبة الوالد لولده.
"جب ایک آدمی کوئی چیز کسی کو ہبہ کرتا ہے تو وہ واپس لے سکتا ہے مگر والد بیٹے سے نہیں لے سکتا۔"(هدايه آخرين 3' كتاب الهبة' باب ما يصح رجوعه وما لا يصح صفحه" 289)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
9: (عن زيد بن خالد رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم (في صالة الابل) مالك ولها معها سقاءها وحذائها ترد الماء وتاكل الشجر حتي يلقاها ربها)
"سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گم شدہ اونٹ) کے بارے میں فرمایا کہ وہ پانی پیتا رہے گا، گھاس کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ مالک اسے پا لے گا۔"
تخريج: بخاري' كتاب القطة' باب اذا لم يوجد صاهب القطة بعد سنة فهي لمن جدها' رقم الحديث: 2429. مسلم' كتاب القطة' رقم الحديث: 1822.
فقہ حنفی:
ويجوز التقاط في الشاة وانبقرة والبعير.
"یعنی گم شدہ بکری گائے اور اونٹ لے لینا جائز ہے۔" (هداية اولين' كتاب اللقطة' ج٢' ص615)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاجزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان کو غسل دینے کے ذکر میں ہے:
10: (فضفرنا شعرها ثلاثة قرون فالقينا خلفا)
"ہم اس نے اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر پیچھے کی طرف ڈال دیں۔"
تخريج: بخاري' كتاب الجنائز' باب يلقي شعر المراة خلفها ثلاثة قرون. رقم الحديث: 1263' واللفظ له' مسلم' كتاب الجنائز' باب في مشط شعر النساء ثلاثة قرون.
فقہ حنفی:
يجعل شعرها ضفرتين علي صدرها.
"عورت (میت) کے بالوں کی دو چوٹیاں بنا کر سینے کی طرف ڈال دی جائیں گی۔"(هدايه اولين' ج1' كتاب الصلوة' باب الجنائز فصل التكفين صفحه 179.)
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
11: (عن عبدالله بن زيد قال خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم بالناس الي المصلي ليستقي فصلي بهم ركعتين جهر فيهما بالقراءة واستقبل والقبلة يدعوا ورفع يديه وحول رداءه حين استقبل القبلة)
"سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء کے لیے لوگوں کے ساتھ عید گاہ کی طرف نکلے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی، جس میں جہری قراءت فرمائی پھر قبلے کی طرف رخ کیا اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور چادر کو پلٹا۔"
تخريج: صحيح البخاري' كتاب الاستسقاء' باب كيف حول النبي صلي الله عليه وسلم ظهره الي الناس رقم الحديث: 980 باختلاف يسير' مسند احمد: ج6' ص39' رقم 16484. جامع ترمذي' رقم الحديث: 556.
فقہ حنفی:
قال ابوحنيفة ليس في الاستسقاء صلاة مسنونة في جماعة فان صلي الناس وحدانا جاز.
"ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استسقاء میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مسنون نہیں ہے، ہاں اگر لوگ اکیلے نماز پڑھ لیں تو جائز ہے۔" (هدايه اولين ج1' كتاب الصلاة' باب الاستسقاء صفحه : 176)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
12: (عن جابر قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو يخطب اذا جاء احدكم يوم الجمعة والامام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما)
"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تم میں سے کوئی ایک آئے تو اس کو چاہیے کہ دو رکعتیں مختصرا پڑھ لے۔"
تخريج: مسلم' كتاب الجمعة' باب من دخل المسجد والامام يخطب او خرج....رقم الحديث: 2024.
فقہ حنفی:
اذا خرج الامام يوم الجمعة ترك الناس الصلاة والكلام حتي يفرغ من خطبة.
"جمعہ کے دن جب امام نماز جمعہ کے لیے نکلے تو لوگوں کو نماز اور کلام ترک کر دینا چاہیے۔"(هدايه اولين' ج1' كتاب الصلاة' باب الجمعة صفحه: 171)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
13: (عن ابن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم صلوٰة الليل مثني مثني فاذا خشي احدكم الصبح صلي ركعة واحدة توتر له ما قد صلي.)
"سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت نماز پڑھ لے (یہ ایک رکعت) اس کی پوری نماز کے لیے وتر ہو جائے گی۔"
تخريج: بخاري' ابواب الوتر' باب ما جاء في الوتر صفحه: 135' رقم الحديث: 990.
فقہ حنفی:
الوتر ثلاث ركعات.
"وتر تین رکعتیں ہی ہے۔" (هدايه اولين ج1' كتاب الصلوة الوتر صفحه: 144)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
14: (عن عائشه رضي الله عنها قالت ان الشمس خسفت علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم فبعث مناديا الصلاة جامعة فتقدم وصلي اربع ركعات في ركعتين و اربع سجدات)
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب سورج گرہن ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرا کے دو رکعتیں نماز پڑھائی۔ ہر ایک رکعت میں دو دو رکوع کیے۔"
تخريج: بخاري' ابواب الكسوف' باب الجهر بالقراءة في الكسوف' رقم الحديث: 1066. مسلم' كتاب الكسوف' فصل صلوة الكسوف ركعتان باربع ركعات' رقم الحديث: 2089 واللفظ للبخاري.
فقہ حنفی:
اذا تكسف الشمس صلي الامام بالناس ركعتين كهئية النافله في كل ركعةركوع واحد.
"جب سورج گرہن ہو جائے تو امام لوگوں کو عام نفلی نماز کی طرح دو رکعتیں پڑھائے، وہ ہر رکعت میں ایک رکوع کرے۔" (هدايه اولين ج1' كتاب الصلوة' باب صلوة الكسوف ص: 175)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
15: (عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال ليس في حب وال تمر صدقة حتي يبلغ خمسة او سق)
"سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانے اور کھجور جب تک پانچ وسق تک نہیں پہنچ جاتے تب تک ان میں زکوٰة نہیں۔"
تخريج: نسائي' كتاب الزكوة' باب زكوة لحبوب' رقم الحديث: 2487.
فقہ حنفی:
قال ابوحنيفة في قليل ما اخرجته الارض وكثيره العشر سواء سقي سيحا او سقته السماء الا القصب والحطب والحشيش.
"امام ابو حنیفہ نے فرمایا سر کنڈے اور گھاس کے علاوہ زمین کی ہر پیداوار پر وہ کم ہو یا زیادہ زکوٰة ہے۔" (هدايه اولين ج1' كتاب الزكاة' باب زكوة الزروع والثمار صفحه: 201.)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
16: (عن مالك بن الحويرث الليثي انه راي النبي صلي الله عليه وسلم يصلي فاذا كان في وتر من صلوته لم ينهض حتي يستوي قاعدا)
"سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاق رکعت میں ہوتے تو سیدھے بیٹھ جانے کے بعد کھڑے ہوتے، یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے بعد سیدھے ہو کر بیٹھتے، پھر دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہوتے۔"
تخريج: بخاري' كتاب الاذان' باب من استوي قاعدا في وتر من صلوته ثم نهض' رقم الحديث: 823.
فقہ حنفی:
واستوي قائما علي صدر قدميه ولا يقعد ولا يعتمد بيده علي الارض.
"اور اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑا ہو جائے نہ بیٹھے اور نہ اپنے ہاتھ زمین پر ٹپکے۔"(هدايه اولين' ج1' كتاب الصلوة' باب صفة الصلوٰة صفحه: 110)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
17: (عن ابي محذورة رضي الله عنه قال القي علي رسول الله صلي الله عليه وسلم التاذين هو بنفسه (وفيه) ثم تعود فتقول الخ)
"سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ترجیع والی (دوہری) اذان سکھلائی۔"
نوٹ... اذان میں شھادتین کے کلمات پہلے دو دو مرتبہ دھیمی (آہستہ) آواز سے کہنا پھر دوبارہ دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہنا ترجیع کہلاتا ہے۔
تخريج: سنن ابي داود' كتاب الصلوة' باب كيف الاذان' رقم الحديث: 503 وسنن نسائي ' كتاب الاذان' باب كيف الاذان' رقم الحديث: 633' وسنن ابن ماجه' باب الترجيح في الاذان' رقم الحديث: 708.
فقہ حنفی:
الاذان سنة للصلوة الخمس والجمعة لا سواها ولا ترجيع فيه.
"اذان پانچ نمازوں اور جمعہ کے لیے سنت ہے اور اس میں ترجیح (دوہری اذان) نہیں ہے۔" (هدايه اولين ج1' كتاب الصلاة' باب الاذان صفحه: 87)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
18: (عن مغيرة بن شعبة رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم توضا فسمح بناصيته وعلي العمامة والخفين)
"سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے وقت اپنی پیشانی، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔"
تخريج: مسلم' كتاب الطهارة' باب مسح علي الخفين' رقم الحديث: 626.
فقہ حنفی
ولا يجوز المسح علي العمامة.
"پگڑی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔" (هدايه اولين' كتاب الطهارة' باب المسح علي الخفين صفحه: 61)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
19: (عن عمر رضي الله عنه في حديثه ضرب النبي صلي الله عليه وسلم بكفيه الارض ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه)
"سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا پھر ان دونوں میں پھونک ماری، پھر ان دونوں کے ذریعے سے اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا۔"
تخريج: بخاري' كتاب التيمم' باب هل يفخ في يديه بعدما يضرب بهما الصعيد للتيمم' رقم الحديث: 338. مسلم' كتاب الحيض' باب التيمم' رقم الحديث: 368. واللفظ للبخاري
فقہ حنفی:
(والتيمم صربتان يمسح باحداهما وجهه وبالاخري يديه الي المرفقين)
"تیمم کے لیے دو ضربیں ہیں (یعنی اپنے ہاتھوں کو زمین پر دو بار مارنا) ایک بار چہرے پر مسح کرنے کے لیے اور دوسری بار دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک کے لیے۔" (هدايه ج1' اولين' كتاب الطهارة' باب التيمم' صفحه: 50)
۔۔۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
20: (عن عبدالله بن المغفل رضي الله عنه قال قال النبي صلي الله عليه وسلم صلوا قبل المغرب ركعتين صلوا قبل المغرب ركعتين ثم قال في الثالثة لمن شاء كراهية ان يتخذها الناس سنة.)
"سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: "مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرو، تیسری بار فرمایا: "جس کا دل چاہے"، یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت (موکدہ) نہ بنا لیں۔"
تخريج: صحيح بخاري' كتاب التهجد' باب الصلاة قبل المغرب' رقم الحديث نمبر 1183. صحيح مسلم ' كتاب فضائل القرآن. باب بين كل اذانين صلاة حديث نمبر: 838.
فقہ حنفی
ولا يتنفل بعد الحروب قبل الفرض.
"سورج کے غروب ہو جانے کے بعد فرض نماز سے پہلے نفلی نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔"(هدايه اولين ج1' كتاب الصلوة' باب المواقيت فضل في الاوقات التي تكره فيها الصلاة صفحه: 86)
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
گھر کی گوائی


پہلی مثال:

ملا مرغینانی صاحب لکھتے ہیں : ''والمفروض فی مسح الراس مقدار الناصیۃ ،وہو ربع الراس ،لما روی المغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ:''ان النبی ؐ اتی سباطۃ قوم فبال وتوضا ،ومسح علی ناصیتہ و خفیہ
''سر کے مسح میں پیشانی کی مقدار فرض ہے اور وہ سر کا چوتھائی حصہ ہے ،اس لے جو مغیرہ بن شعبہ نے روایت بیان کی ہے بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قوم کی روڑی کے پاس آئے آپ نے پیشاب کیا اور وضو کیا ،اپنی پیشانی اور موزوں پر مسح کیا ۔
اقول:ملا مرغینانی صاحب نے ایک غلط مسئلہ ثابت کرنے کے لئے (کہ پیشانی پر مسح کرنا )جب کوئی صحیح حدیث نہ ملی تو انھوں نے قدوری صاحب کی پیروی کرتے ہوئے دو حدیثوں کو توڑ مروڑ کرایک کر دیا اور کچھ الفاظ حدیث نقل ہی نہ کئے اس کا اعتراف علماء احناف نے بھی کیا ہے ۔مثلا
١:حافظ زیلعی حنفی (نصب الرایۃ :ج١ص٤٠،ط مکتبہ حقانیہ پشاور )
٢:ابن ابی العز الحنفی (التنبیہ علی مشکلات الہدایہ :ج١ص٢٤٦)
٣:سروجی حنفی (الغایہ :بحوالہ التنبیہ علی مشکلات الہدایہ :ج١ص٢٤٥)
کیا یہ فقہ حنفی ہے ہدایہ کی اہمیت کس قدر ہے احناف کے ہاں لیکن علمائے احناف خود اس میں وارد احادیث کی نقاب کشائی کر رہے ہیں والحمد للہ ۔

مرغینانی صاحب نے جن دو حدیثوں کو ایک کر دیا ان کی اصل حقیقت درج ذیل ہے
۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
’’ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم توضا ومسح بناصیتہ وعلی العمامۃ وعلی الخفین ۔‘‘بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا ،اپنی پیشانی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا
۔(صحیح مسلم :٢٤٧)

اس حدیث میں پیشانی کے ساتھ پگڑی پر مسح کرنے کا ذکر بھی ہے جس کو ملامرغینانی صاحب نے ذکر نہیں کیا ۔علامہ ابن ابی العز الحنفی نے تفصیلی بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ صرف پیشانی پر مسح کرنا ثابت نہیں ہے(التنبییہ علی مشکلات الہدایہ :ج١ص٢٤٥۔٢٥٣)
اور دوسری روایت اس طرح ہے

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان رسول اللہ ؐ اتی سباطۃ قوم فبال قائما ۔''بے شک رسول اللہ ؐ قوم کی روڑی کے پاس آئے اور آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا (سنن ابن ماجہ :٣٠٦)
ان دو احادیث کو ایک کر کے فقہ حنفی میں صرف پیشانی پر مسئلہ کو اخذ کیا گیا حالانکہ ان دونوں احادیث میں دور دور بھی احناف کا مسئلہ وضو میں صرف پیشانی پر مسح ثابت نہیں ہوتا ۔

تنبیہ :احناف صر ف پیشانی پر مسح کے جواز کے لئے ایک روایت سنن ابی داود ست پیش کرتے ہیں اس روایت متعلق علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نےء کہا :لیس اسنادہ بالقوی (التنبیہ :ج١ص٢٥٢)کیونکہ اس کی سند میں ابو معقل راوی ہے جس کے متعلق امام ذہبی لکھتے ہیں : ((ابو معقل عن انس فی المسح علی العمامۃ لا یعر ف ۔(میزان الاعتدال ج٤ص٥٧٦)

راقم نے اپنی کتاب شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا میں اس مسئلہ پر مفصل گفتگو کی ہے اور سر پر مسح کی تمام صورتوں کی وضاحت کی ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اگرکوئی شخص غیرجانبداری سے کتب احادیث بالخصوص ان کتب کا مطالعہ کرے جس میں موضوع احادیث کے تعلق سے بات کی گئی ہے توپتہ چلے گاکہ وضع حدیث کے حمام میں بشمول اہل حدیث سب کے سب ننگے ہیں یاوضع حدیث کے کوئلوں کی تجارت میں سب کے ہاتھ کالے ہیں،کیامختلف افراد نے اہل حدیث کے فضائل ومناقب اورخاص فقہی رائے میں احادیث وضع نہیں کی ہیں؟
پہلےآپ اپنی بات کی کوئی دلیل لائیں


فل حال گھر کی گوائی قبول کریں

مولانا عبدالحی لکھنوی کا اعتراف

upload_2015-10-29_16-24-2.png
 
Top