• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں۔
{قال شیخنا فی شرح الترمذی فیہ کراھیۃ تقبیل مالم یرِدبہ الشرع بتقبیلہ اما قول الشافعی:ومھما قبَّل من البیت فحسن فلم یرد بہ الاستحباب لان ا لمباح من جملۃ الحسن عند الاصولیین}
ہمارے استاذ شرح ترمذی میں فرماتے ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کے چومنے کا شرع میں ذکر نہیںاس کا چومنا مکروہ ہے۔لیکن امام شافعی ؒ نے جو یہ فرمایاہے کہ بیت اللہ کا جو حصہ بھی چوما جائے اچھاہے ان کا یہ مطلب نہیں کہ بیت اللہ کا ہر حصہ چومنامستحب ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ مباح ہے کیونکہ مباح بھی اہل اصول کے نزدیک حسن میں داخل ہے۔
مگر مباح بھی اس صورت میں ہے جب ثواب کی غرض سے نہ ہو،اب اسی عبارت میں جوکہ کراہت اور اباحت کو جمع کیا گیا ہے۔وہ ان ہی دو حیثیتوں کو ملحوظ رکھ کر کیا گیا ہے، دین اور دنیا۔دونوں کے نیچے مختلف حیثیتوں سے داخل ہونا ایک اہم مسئلہ ہے۔
سید رشیدرضاؒ تفسیر المنارمیں لکھتے ہیں{ انمایامرکم بالسوء والفحشاء وان تقولوا علٰی اللّٰہ مالاتعلمون} الآیۃ شیطان تمہیں برائی وبے حیائی کے علاوہ یہ بھی حکم دیتاہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جو تم نہیں جانتے۔
یعنی وہ حکم دیتاہے کہ تم اللہ کے دین جسے اس نے اپنے بندوں کیلئے طریقہ بندگی فرمایا ہے اس کے ذمہ وہ لگاؤجس کا اس کی طر ف سے ہونے کا یقین نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ اعتقادات اعمال واورادتعبدیہ اور شعائردین سے ان کے لیے مشروع فرمائے ہیں ان میں وہ اعمال بھی ہیںجن میں اصل تحریم ہے اور ان کو حلال کرنااور وہ اعمال جن میں اصل اباحت ہے،ان کا حرام کرناہے کیونکہ ان میںکوئی چیز رائے اجتھاد اور قیاس واستحسان سے ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ظَنْ وتخمین ہوگی۔لہذاوہ علم نہ کہلائے گی ۔پس یہ اللہ پر بغیر علم کے الزام لگانا اللہ تعالیٰ کے حق ربوبیت پر شریعت سازی کرتے ہوئے اعتداء اور ظلم وزیادتی ہے اوریہ صریح شرک ہے اور ان باتوں سے بھی قبیح و بدتر ہے جن کا شیطان حکم دیتاہے کیونکہ یہی عقائد کے خراب کرنے اور شریعتوں کی تحریف وتبدیلی کی اصل ہے اوریہ گھٹیا اور رذیل کو اس خیر کے بدلے میں لینے کے مترادف ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔ظن وتخمین سے دین میں اضافہ أمر شیطان کی اتباع ہے اور یہ بدعت ایسے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
{قَالَ فَاذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الحَیاَۃِ اَنْ تَقُولَ لَامِسَاس}الآیۃ:۹۷سورۃ طٰہٰ
اللہ تعالیٰ نے سامری کو فرمایا۔پس جاؤ زندگی میں تمہاری سزا یہی ہے کہ تو کہے کہ مجھے ہاتھ لگانا ممکن نہیں( یعنی میں اچھوت ہوں)
آخرت میں بھی ساقی ِحوض کوثر اہل بدعت کو فرمائیں گے {سُحْقاً سُحْقاًلِمَنْ غَیَّرَبَعْدِی دِیْناً} دوری اور پھٹکار ہے اس کیلئے جس نے میر ے بعد دین کو بدل دیا۔العیاذباللہ
ثواب کیلئے یہ شرط ہے کہ عمل سنت کے مطابق ہو:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے{ومن اراد الآخرۃ وسعیٰ لھا سعیھا وھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا} ( سورۃبنی اسرائیل)
جو اپنے عمل میں آخرت کا ارادہ کرے(دنیا کیلئے عمل نہ کرے)بلکہ آخرت کیلئے اس کی مقرر کی ہوئی کوشش کو عمل میں لائے اور ایمان دار ہوتو ایسے لوگوںکی کوشش کی اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر ہوگی ۔
یعنی ان کی کوشش مقبول ہوگی۔اس آیت میں لفظسَعْیَھَا سے معین کردہ عمل مراد ہے کیونکہ مصدر کی اضافت تعیین کیلئے ہوتی ہے یعنی وہی عمل مقبو ل ہو گا جو سنت سے ثابت ہواور جو چیز ثابت نہ ہو وہی بدعت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خلیفہ ثانی عمر ؓ اور حجراسود کا بوسہ:
صحیح بخاری میں ہے کہ خلیفہ ثانی عمر ابن الخطاب ؓ حجر اسود کے پاس آئے پس اس کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ ''میں جانتاہوں کہ تو پتھر ہے تیر ے ہاتھ میں نفع ہے نہ نقصان
وَلو أنّی رأیْتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ قَبَّلَکَ مَاقبَّلْتُکَ
اور اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھاہوتا تو میںتجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔''
شیخ المحدّث گوندلوی ؒ لکھتے ہیں ۔
''خلیفہ ثانی عمرفاروقؓ کے اس قول سے صاف معلوم ہوتاہے کہ بعض جگہ رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کو نہ کرنا عدم ثبوت شرعی کاحکم رکھتاہے۔''
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے براء بن عازب ؓ کو ایک دعا سکھائی جو سوتے وقت پڑھی جاتی ہے براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ'' میںنے وہ دعا دوبارہ آپ ﷺ کو سنائی تو ایک لفظ ونبیک کی جگہ ورسولک کہہ دیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''ایسانہ کہو ۔ بلکہ جو لفظ میںنے کہا ہے وہی کہو۔''
حالانکہ رسول اورنبی دونوں صفات آپ ﷺ میں موجود ہیں اور دونوں آپ ﷺ کی ایسی صفات ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے لیکن یہاں اتباع سنت مطلوب ہے۔
بدعت ہمیشہ سنت ترکیہ کے خلاف ہوتی ہے،اس خلاف ہونے کی تائیدمندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
بشر بن مروان خطبہ کی حالت میں دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا۔ عمارۃ بنت ردیبہ نے دیکھ کر فرمایا:''اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو خراب کرے ''
میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا
ما یزید ان یقول بیدہ ھٰکذا واشارباصبعہ المسبحۃ
اپنی مسبحۃ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا آپ ﷺ اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے۔
اب دیکھو ایک صحابی ایک فعل کی ممانعت کیلئے صرف یہ وجہ بیان کرتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا۔
امام حافظ بن القیم الجوزیؒ اِعلام الموقعین میں فرماتے ہیں ۔''(اِسی کو سنت ترکیہ کہتے ہیں)رسول اللہ ﷺ کے چھوڑے ہوئے کام کو چھوڑنا بھی سنت (ثواب)ہے''
صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا آپ ﷺ کے ترک کو نقل کرنادو طرح سے ہے اور وہ دونوں قسمیں سنت ہیں۔
پہلی قسم :۔ایک تو ان کا صراحت سے یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ترک کردیا،اسے نہیں کیا جیسے شھداء احد کے بارے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ انہیں غسل دیانہ ان کی نماز جنازہ ادا کی۔
اورنماز عید کے بارے مروی ہے کہ اس کے لیے نہ اذان ہوتی نہ اقامت ہوتی تھی نہ منادی ہوتی تھی۔
دوسری قسم: آپﷺ کے کسی عمل کو ترک کرنے کی یہ ہے،کسی فعل کی نقل نہ ہوباوجودیکہ اس کے اسباب ایسے موجود ہوں کہ آپ اگراسے کرتے تو بعض لوگ ضرور اسے روایت کرتے یا سب کرتے یا اکثر کرتے یاکم از کم کوئی تو اسے ضرور بیان کرتا۔صحابہ ایسے نہ تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی فعل وعمل کو امت تک نہ پہنچائیں۔یہ بالکل ہی ناممکن ہے کہ کوئی بھی کسی وقت کہیں بھی اسے روایت نہ کرے ۔
اس کی مثال ملاحظہ کریں:
۱۔ نماز کو شروع کرتے وقت نیت کے الفاظ کا زبان سے کہنا ۔
۲۔ ہمیشگی اور پابندی کے ساتھ صبح یا عصر کی نماز کے بعدیا پانجوں نمازوںکے بعدمقتدیوں کی طرف منہ کرکے آپ کا دعا مانگنا اور مقتدیوں کا آمین آمین کہنا۔
۳۔ صبح کی نماز کی آخری رکعت میں بعد ازرکوع ہر روز آپ کا دعا قنوت اللّٰھم اغفرلنا کے ساتھ دعا مانگنا اور مقتد یوں کا سب کا آمین آمین کہنا ۔
یہ بالکل محال ہے کہ روزانہ دائماً یہ کام نبی اکرمﷺ کرتے ہوں اور کوئی چھوٹابڑامرد عورت نقل ہی نہ کرے۔لہذا جیسے آپ ﷺ کا فعل سنت ہے ایسے آپ ﷺ کا ترکِ فعل بھی سنت ہے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سنتِ ترک کی دلیل:
رسول اللہ ﷺ کے عدم ِفعل سے کسی نیک کام عمل کے عبث اور بدعت اور حرام ہونے پر دلیل،
ایک شخص نے عید سے پہلے(عید گاہ میں)نماز پڑھنے کا ارادہ کیا۔توخلیفہ رابع علی ؓ اسے منع کیا ،بولا ''یا امیرالمومنین میں جانتا ہوں کہ اللہ نماز پر عذاب نہیں کرے گا'' علی ؓ نے فرمایا'' میں جانتا ہوں اللہ تعالیٰ ایسے فعل پر ثواب نہیں دے گا۔ جس کا ثبوت رسول اللہ ﷺ سے قولی یا فعلی طور پر نہ ہو۔پس تیری نماز عبث ہوگی اور عبث کا کرنا حرام ہوتا ہے۔پس شاید اللہ تعالیٰ تجھے رسول اللہ ﷺ کی مخالفت پر عذاب کرے'' (مجمع البحرین)
یہ اثر صاف طور پر دلالت کرتاہے کہ جو دینی کام رسول اللہ ﷺ نے نہ کیاہواور اس پر ترغیب بھی نہ دی ہو،اس کا کرنارسول اللہ ﷺ کی سنت ِترک کی مخالفت ہے۔
فائدہ: اس اثر سے یہ بھی ثابت ہواکہ بدعت پر عام ادلّہ سے استدلال کرنا درست نہیں۔ورنہ سائل کہہ سکتا تھا کہ نماز پڑھنے کی عام اجازت ہے۔پس علی ؓ نے اس وقت نماز پڑھنے کو رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کہاہے تو اس کی صرف وجہ یہی ہے کہ یہ سنت ترکیہ کے خلاف ہے اور یہ اثر اہل بدعت کے خلاف ہے ،جو بدعت شرعی میںمخصوص نہی وارد ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور نہی وارد نہ ہونے کی صورت میں اباحت کے قائل ہیں جبکہ یہاں علی ؓ صرف رسول اللہ ﷺ کی سنت نہ ہونے اور آپ کے ترک فعل سے عبث اور حرام ہونے کا فتوی ہی صادر نہیں فرما رہے بلکہ آپ نمازی کو نماز سے روک رہے ہیںجب کہ وہ عید کی نماز سے پہلے نماز پڑھنے لگاتھا۔
سنت ترک کی ایک اور دلیل:
ابووائل بیان کرتے ہیں،
''جلست الی شیبۃ فی ھذا المسجد قال جلس الیَّ عمرؓفی مجلسک ھذافقال ھممت ان لاادع فیھا صفراء ولا بیضاء الَّا قسمتھا بین المسلمین قلت ماانت بفاعل قال لِمَ، قلت لم یفعلہ صاحباک ،قال ھما المرأان یقتدی بھما'' (صحیح بخاری)
میں شیبہ کے پاس اس مسجد میںبیٹھاہواتھااس نے کہا ایک دفعہ عمرفاروق ؓتیر ی جگہ میرے پاس بیٹھے اور فرمایا کہ'' میں چاہتا ہوں کہ یہاں کعبہ میںجو سونا چاندی ہے مسلمانوں میں بانٹ دوں'' میں نے کہا '' آپ ایسا نہیں کرسکتے'' آپ نے فرمایا ''کیوں؟ '' میں نے کہا ''کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیقؓ نے ایسا نہیں کیا'' توعمرؓنے فرمایا ''یہ دونوں حضرات مقتدٰی اور پیشوا ہیں ''
الاستاذ المحدث محمدگوندلوی ؒ فرماتے ہیں اس اثر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کو رسول اللہ ﷺ نے باوجود داعی یعنی تقاضا اور عدم مانع کے نہیں کیا اور بعد میں کوئی سبب بھی پیدا نہیں ہوا نہ کوئی سابق معارض اٹھا ایسی صورت میں اس کااحداث منع ہے اور اسی کا نام بدعت ہے۔ الاصلاح حصہ دوم ص۲۱
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
فقہ سے عدم فعل کی دلیل:
فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدا یۃ جلد:۱ ص:۷۰ میں ہے
'' ویکرہ ان یتنفل بعد طلوع الفجر باکثرمن رکعتی الفجرلانہ علیہ السلام لم یزد علیھما مع حرصہ علی الصلوۃ ''
کہ طلوع فجر کے بعد فجر کی دو سنتوں سے زیادہ نفل پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ آپ نبی کریمﷺ نے صبح کی دو سنتوں سے زیادہ نہیں پڑھے حالانکہ آپ نمازپڑھنے پر نہایت حریص تھے۔
اس سے صاف معلوم ہوا کہ وہ عبادت جس کا وجود خیرالقرون یعنی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ وتابعین سے منقول نہ ہواور نہ ان کے زمانے میں پایا جائے وہ مکروہ اور بدعت ہے۔
اہل بدعت کا طرز استدلال
بدعت اور عام یامطلق دلیل :
اہل بدعت اپنی بدعات کو ثابت کرنے کیلئے عام یا مطلق ادلّہ سے استدلال کرتے ہیں ان کے خیال میں بدعات عا م یا مطلق ادلّہ کے نیچے درج ہوتی ہیں۔حالانکہ سلف نے بدعات پر انکارکیاہے اور وہاںعام یا مطلق ادلّہ موجود تھیں مثلاً عیدین کی اذان، اس آیت ذیل کے نیچے بظاہر درج ہو سکتی ہے۔
{ ومن احسن قولا ممن دعا الی اللّٰہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین }الآیۃ
اس شخص سے اور کس شخص کاقول بہتر ہے جو اللہ کی طرف بلاتا ہے اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں اللہ کے فرمانبرداروں سے ہوں۔
اسی طرح اس آیت ولذکراللّٰہ اکبر الآیۃ (اللہ کا ذکر سب سے بڑاہے) کے نیچے بھی بظاہر داخل ہو سکتی ہے مگر سلف کا انکار بتاتاہے کہ یاتو اذانِ عیدین اِن آیات کے نیچے داخل نہیں یا مستثنیٰ ہے، یہی حال باقی بدعات کا ہے۔
بدعات کیوں عام یا مطلق کے نیچے داخل نہیں یا کس طرح مستثنٰی ہیں؟
عیدین کی اذان پر سلف کے انکار سے یہ بات تو پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جس نئے کام کی مصلحت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بدون معارض موجود ہو وہ کام عام یا مطلق ادلّہ کے نیچے تو سرے سے داخل ہی نہیں ہو تا یا مستثنٰی ہوتاہے مگر عام یا مطلق ادلّہ کے نیچے داخل نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعتی ایک مباح کام کو سنت ،فرض یاواجب قرار دیتاہے اگر مباح کو مباح سمجھ کر کیا جائے تو وہ اباحت کی عام یامطلق ادلّہ کے نیچے درج ہوجاتاہے اگر اس کو سنت یا واجب یا فرض کی طرح اہتمام سے کیاجائے تو اس صورت میں وہ اباحت کی عام یا مطلق ادلّہ سے خارج ہو جاتاہے۔
اب اس کے ثابت کرنے کیلئے ایسی دلیل ہونی چاہیے جو اباحت سے بالا تر درجہ پر دلالت کرے، اسی طرح بدعتی اگر کسی بدعت کو صرف مباح سمجھ کر کرتاہے مگرعملاً اس کے ساتھ سنت یا واجب کا سا معاملہ کرتا ہے ،اس کے ترک میں حرج خیال کرتاہے ،اس کو چھوڑنے میں تنگی محسوس کرتا ہے تو اس صورت میں اس نے اس کام کادرجہ اس کی حد سے بڑھا دیا پس اس صورت میں بھی اس پر عام یامطلق ادلّہ سے استدلال درست نہیں، جن میں اس بڑھے ہوئے درجہ کا ذکر نہ ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اگر ان عام یا مطلق ادلّہ کے متعلق یہ تسلیم کر لیاجائے کہ وہ بدعات کو بھی شامل ہیں پس اس صورت میں یہ بدعات بوجہ منع بدعت کی ادلّہ کے مستثنٰی ہوکرخارج ہوجائیں گی،پس دعوت الیٰ اللہ اگرچہ عید ین کی اذان کو بھی شامل ہے مگر عیدین کی اذان چونکہ بدعت ہے اس لیے یہ دعوت اِلی اللہ سے خارج سمجھی جائے گی۔
لہذامطلق کی مشروعیت سے مقید کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی،جیسے مطلق صلوٰۃ کی مشروعیت سے صلوٰۃ ظہر یا وتر کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی ۔ الاصلاح ص:۱۰۱، جلد:۲
اعمال کی اقسام:
اعمال بلحاظ اجمال اور تفصیل تین قسم پر ہیں۔
۱ :۔جن کا مجمل اورمفصل شریعت نے سب بیان کردیا ہے جیسے فرض نمازیںاور نوافل موکدۃ وغیرموکدۃ ان کے متعلق ترغیب وترہیب میں ضعیف احادیث بیان ہو سکتی ہیںبشرطیکہ سخت ضعیف اور موضوع نہ ہوں۔
۲:۔وہ اعمال جن کے اجمال و تفصیل میں کوئی نقل وارد نہیں ہوئی ان میں ترغیب وترھیب میں ضعیف احادیث بیان نہیں ہو سکتیں کیونکہ یہ اعمال بدعت ہیں۔
۳:۔ جس میں اجمالاً نقل وارد ہو مگر اس کی تفصیل خاص ثابت نہیں تو اس صورت میں کسی جزئی میں حدیث ِضعیف ترغیب وترہیب کے بارہ میں بیان نہیں کی جاسکتی کیونکہ مطلق کی مشروعیت سے مقید کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی جیسے مطلق صلوٰۃ کی مشروعیت سے صلوٰۃ ظہر یاوتر کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی۔
حافظ ابن قیمؒ اور بدعت
امر دین اورا مر دنیا میں فرق:
آپ فرماتے ہیں (ترجمہ لکھا جاتاہے)اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے کرنی چاہیے جو اس نے اپنے پیغمبروں کی زبان پر متعین فرمایاہے کیونکہ عبادت اس کا حق ہے اور اس کا حق وہی بن سکتاہے جواس نے ثابت کیاہواوراس پر اپنی رضامندی کا اظہارکیاہواور اس کو مشروع کیاہو لیکن خریدوفروخت شرطیں معاملات ان میں انسان کو معانی ہے جب تک کسی امر کی حرمت وارد نہ ہو۔
امام ابن رجب ؒ کا بیان:
امام ابن رجب حنبلیؒ نے بھی بدعت کے بارہ میں عبادات اور معاملات کا فرق بیان کیاہے چنانچہ شرح خمسین میں فرماتے ہیں۔(ترجمہ لکھاجاتاہے)اعمال دو قسم پر ہیںعبادات ،معاملات۔
جو عبادت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے بالکل باہر ہو وہ عامل پر ہی رد کر دی جاتی ہے(یعنی اللہ کے ہاں وہ مقبول نہیں)ایسا عامل قرآن کی آیت مبارکہ کے حکم میںآجاتا ہے۔
آیت مبارکہ:۔ ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین مالم یاذن بہ اللّٰہ الشوریٰ
کیا ان کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کے ایسے کام مقرر کیے ہیںجن کااللہ تعالیٰ نے اذن نہیں دیا۔
پس جو اللہ کا قرب اپنے ایسے عمل سے تلاش کرے جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے قرب کا ذریعہ نہیں بتایا۔اس کا عمل باطل اور مردود ہے۔
یہاں عبادت میں بدعت اصلیہ کا ذکر تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعت وصفیہ کا ذکر :
جس عمل کا اصل مشروع اور قربت ہو پھر اس میں عمل کرنے والاغیر مشروع امر کو داخل کرے یا اس میں مشروع کا کچھ حصہ چھوڑ دے تو یہ عمل بقدرزیادتی اور نقصان کے شریعت کے مخالف ہو جاتاہے۔
معاملات کے بارے میں لکھتے ہیں۔
لیکن معاملات جیسے عقود(خریدوفروخت مزدوری وغیرہ) اورفسوخ وطلاق نکاح توڑنا اور بیع کی واپسی وغیرہ)جو ان سے شریعت کی وضع بدل ہے جیسے زنا کی حد کو مالی سزا میں تبدیل کردیناوہ بالکل مردودہے۔اس سے مالک کا مِلک زائل نہیں ہوتا۔
الاستاذ محدث گوندلوی ؒ فرماتے ہیں:
یعنی معاملات میں نئے کام کے منع ہونے کیلئے ضروری ہے کہ شریعت کی مقرر کردہ صورت کو بدل دے کیونکہ شریعت کی مقرر کردہ وضع کو بدلنا ممنوع ہے اور امور دنیا میں منع کا مدارنہی پر ہے اور عبادات میں عدم ثبوت سے بھی ممانعت ہو جاتی ہے۔
علامہ ابن رجبؒ لکھتے ہیں:
ماسبق سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جو کام ایک جگہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث ہو اس کا ہر جگہ قرب کا باعث ہوناضروری نہیںبلکہ ہر جگہ شریعت کے ورودکا لحاظ رکھاجائے گا۔
رسول اللّٰہ ﷺ کا ایک بیان:
الاستاذمحدث گوندلویؒ رسول اللہ ﷺ کا ایک بیان نقل فرماتے ہیں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے ایک آدمی کو کھڑا دیکھ کر اس کے متعلق دریافت کیا،لوگوں نے کہا اس شخص کا نام اسرائیل ہے یہ اس لیے کھڑا ہے کہ اس نے اسی طرح رہنے کی نذر مانی ہے آپ نے فرمایا اس کو کہو۔
فَلیَتَکَلَّم وَلیَسْتَظِلْ ولْیَقْعُدْوَلیُتِمّ صَوْمَہُ اَلْحدیث
اس کو کہوکلام کرے سایہ پکڑے بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مزید وضاحت:
الاستاذالمحدث گوندلوی ؒ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اگر ایک شئی ایک مقام میں باعث قرب ہے تو ضروری نہیںکہ دوسرے مقام میں باعث قرب ہو جیسے قیام کہ بہت جگہ پرنماز اذان اور عرفات کی دعا میں اور بعض علماء کے نزدیک عرفات کے میدان میں دھوپ میں رہنا عبادت ہے مگر آپ نے یہاں اس کو بیٹھنے کا حکم دے کر گویا دھوپ میں رہنے سے منع کیا اور سایہ کا حکم دے کرگویا دھوپ میں رہنے سے روکا کیونکہ عبادت میں موارد شرع کا لحاظ کرنا پڑتاہے۔ جو باتیں عبادت نہیں ان کو کسی مصلحت کیلئے کرناجائز ہے بشرطیکہ ان سے نہی وارد نہ ہو مثلاً سن ہجری کا مقرر کرنا جنگ کے دستور اور مقدمات کیلئے خاص خاص ہدایات مرتب کرنا۔شہروں کی حفاظت کیلئے کوتوال بیت المال کے لیے باضابطہ رجسٹر ،وغیرہ یہ سب باتیںمن وجہ امور دنیا سے ہیں۔اسی وجہ سے ان میں مصلحت حاضرہ کو ملحوظ رکھ کر ترمیم وتنسیخ اور ردوبدل جائز ہے۔
اگر یہ شرعی امور ہوتے تو ان میں تقریر کے بعد ردوبدل جائز نہ ہوتا بعض اہل بدعت جو ان امور کے جائز ہونے سے ہر قسم کے نئے کام کانکا لنا جائز سمجھتے ہیں ۔یہ ان کی کم علمی ہے وہ نہیںجانتے کہ دینی امور اور دنیاوی امور میں فرق ہوتاہے۔دنیاوی امور میں اصل یہی ہے کہ ان میں احداث جائز ہے جب تک نہی وارد نہ ہو اور جو امر ایک طرح سے دینی ہو اورایک طرح سے دنیاوی ہوتوجس وجہ سے وہ دنیاوی ہو اس اعتبار سے اس میں جدت سے کام لینا جائز ہے جیسے اخبار نکالنا امر تجارت کیلئے ہو تو امر دنیاہے،اگر تبلیغ کے لیے ہو تو امر دین ہے ،کسی امر کو اپنی طرف سے واجب وسنت یاحرام یا مکروہ سمجھنے لگیں تو اس صورت میں وہ کام ممنوع ٹھہرے گا اس کا کرنا منع ہوگا۔مقاصد یعنی عبادات نمازروزہ صدقہ اور تلاوت قرآن مجید میں کسی امر کا احداث کسی مصلحت کی بنا پر جائز نہیں اور امر مطلق کے جمیع جزیات کو اس طرح ادا کرنا جائز ہے کہ ان میں تقیید اور تخصیص تشریع کی صورت اختیار نہ کرے جیسے نوافل میں لوگوں کوبلاکر اہتمام کے ساتھ جماعت کرانااور کھانا رکھ کر قرآن پڑھنے کو متعین کرنا،تیسرا، ساتواں اور چالیسواں صدقہ کیلئے مقرر کرنا اس قسم کے امورجوعبادت میں بصورت التزام کئے جاتے ہیں۔جن میں تشریع کا اعتقاد یاتشریع کا وہم پڑتا ہے،مطلق یا عام ادلّہ کے نیچے نہیں رہتے۔
ان بدعات کو ان مبادی پر جن میں مصالح مرسلہ کی بنا پر احداث جائز ہے قیاس نہیں کرسکتے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات:
امر دین دو قسم کے ہیں ایک مبادی اور ایک مقاصد۔
مبادی میں کسی مصلحت حادثہ کی بنا پرکسی کام کا نکالنا جائز ہے اور مقاصد میں منع ہے۔
اعتقادات اورعبادات مقاصد ہیں ۔
صرف ونحو درس وتبلیغ مبادی میں ہیں۔مبادی میں کسی نئے مقتضٰی کی بناپر احداث جائز ہیں۔
پس اخبار اگر تبلیغِ دین کے لئے ہوتوبہر کیف مبادی میں داخل ہے اور مبادی میں احداث مصلحت وقتیہ کی بنا پر جائز ہے،حدیث کا لکھنا اور اس کیلئے تفصیلی طورپر قواعد وضوابط بتانا اور کتابوںکا مختلف صورتوں میں لکھنا اور آج کل طبع کرنا اور تبلیغ کیلئے جلسے قائم کرنامصلحت وقتیہ کی بنا پر جائز ہے مگر عبادات میں احداث جائز نہیں۔
ہم پہلے کہہ آئے ہیںکہ بدعت سنت ترکیہ کی مخالفت کا نام ہے اور سنت ترکیہ اس امرسے عبارت ہے کہ ایک کام کا مقتضیٰ رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں موجود ہواوراس کے کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو پھرآپﷺ نے نہ کیا ہواور بعد میںبھی اس کام کیلئے کوئی نیا مقتضیٰ بندوںکی معصیت کے علاوہ پیدا نہ ہواہو ،ایسے کام کے ترک کو سنت ترکیہ کہتے ہیں۔ادلّہ کتاب وسنت سے بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عبادات میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نیا مقتضیٰ پیدا نہیں ہو سکتاصرف ایک صورت ہو سکتی ہے کہ سابق مانع اُٹھ جائے مگر اس کام کے ثابت کرنے کیلئے کہ اس کام کا مقتضیٰ فلاں امر ہے شریعت کی ضرورت ہے۔مجردعقل سے مقتضیٰ ثابت نہیں ہو سکتا۔
پس عبادات میں یہی بات محقق ہے کہ اس سے نئے کام کا احداث جائز نہیںہے۔
اگر کوئی دینی امر عبادات کے قبیل سے نہ ہو تو اس میں نیا مقتضیٰ پیدا ہو سکتاہے اور اس نئے مقتضیٰ کے مقتضیٰ ہونے پر عمومات سے استدلال کرنا درست ہے۔
اب مندرجہ ذیل امورمیں جو احداث کیا گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں نیا مقتضیٰ پیدا ہو گیا ہے اور مقتضیٰ کا مقتضیٰ ہوناعموم ادلّہ سے ثابت ہوامثلاً حدیث کی کتابت کااس قدر اہتمام یہ حادث ہے اس کا مقتضیٰ ضیاع کا خطرہ ہے اور اس کا مقتضیٰ ہوناحفظ شریعت کے ادلّہ سے ثابت ہوتا ہے اگرچہ اس پر قرن اوّل وثانی میں شاذونادر اعتراض کئے گئے مگرجمہورعلماء نے اس وقت اس کوبنظر استحسان دیکھا۔پھرقرن ثالث میں اس پر اجماع ہوگیاکیونکہ حفظ شریعت واجب ہے اور اس وقت حفظ کا طریقہ وہی تھا جو انہوں نے اختیار کیا اور مقدمہ واجب کا واجب ہوتاہے۔
مبادی کے صحیح یا باطل ہونے کا یہ سبب ہوتا ہے کہ یہ مقصد کی طرف پہنچاتے ہیں یا نہیں۔اس قدریہ مسئلہ عقلی ہوتا ہے نہ کہ شرعی، ہاں اس لحاظ سے یہ مسئلہ دینی بن جاتا ہے کہ اس کے کرنے پر ثواب کی امید رکھی جائے۔اب اس کیلئے دلیل کی ضرورت ہے مگر عبادات کی طرح اس میں خاص دلیل کی ضرورت نہیںکیونکہ اس کی بنا مصلحت پر ہے۔اس لئے عموم ادلّہ سے بھی یہاں کام چل جاتاہے۔اس واسطے یہاںخاص دلیل نہ ہونے سے سنت ترکیہ کی مخالفت لازم نہیں آتی۔اور امور دنیا کی بنا چونکہ صرف مصلحت پر ہے اگرچہ اس کا علم شریعت سے ہواہے جیسے کھجوروں کی تلقیح کے بارہ میں جو حدیث گزر چکی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس واسطے مجرد مصلحت کے متحقق ہونے سے اس کی اباحت ثابت ہو جاتی ہے۔اس میں کسی خاص یا عام دلیل کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔اس واسطے صورت مذکورہ میں سنت ترکیہ کی مخالفت لازم نہیں آتی مگر جس وقت کسی امر کی ممانعت ہو تو اس صورت اس کا کرناخلاف شرع ہو گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اصول کی بات:
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مانعین بدعت(اہل سنت،اہل حدیث) کا یہ مذہب نہیں کہ اگر کسی چیز کا وجود قرون ثلاثہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے زمانہ میں ہوتو وہ بدعت نہیںرہتی،بلکہ اُس چیزکو بدعت سے خارج کرتے ہیں جو ان زمانوں میں بلانکیررائج ہو،کیونکہ جو چیزیں ان زمانوں میں بلا انکار رائج ہو گئی ہیں ان پر کوئی نہ کوئی شرعی دلیل ضرور پائی جاتی ہے۔جیساکہ تتبع اور استقراء سے معلوم ہوتا ہے،کیونکہ جو چیزیںان زمانوں میں بلا انکار رائج ہوئیں یا تو مصالح مرسلہ کے قبیل سے ہیں جن کیلئے عام ادلّہ پائی جاتی ہیںاگر عبادات سے ہیںتو ایسی چیزیں ہیںجن کا متقضیٰ رسول اللہ ﷺ کے وقت تھا مگر ان کے کرنے سے اس وقت کوئی مانع تھا جو رسول اللہ ﷺ کے بعد اٹھ گیا اور بدعات میں یہ دونوں باتیں نہیں ہوتیں۔
شیخ علی القاریؒ کا استدلال: خیرالقرون میں کسی عمل کے عدم ذکر اور کفار سے مشابہ ہونے سے مکروہ اور ممنوع ہونے پر استدلال شیخ علی القاری شرح مناسک میں فرماتے ہیں۔
''ولا یرفع یدیہ عند رویۃ البیت ای ولو حال دعائہ لعدم ذکرہ من المشاھیر وکلام الطھاوی صریح فی انہ یکرہ الرفع عندعلماء ناالثلاثۃ ونقل عن جابر انہ فعل الیھود''
بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ نہیں اُٹھائے جائیں گے اگر چہ دعا کے لیے ہوں کیونکہ مشھور روایات میں اس کا ذکر نہیں۔طحاوی کی کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تینوں علمائ(امام ابو حنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ)کے نزدیک ہاتھ اُٹھانا مکروہ ہے اور جابرؓ سے منقول ہے کہ یہ یہود کا فعل ہے۔
الاستاذ المحدث حافظ محمد گوندلویؒ فرماتے ہیں:
اس عبارت میں ملا علی قاریؒنے منع کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ اس کا کہیں ذکر نہیں،پھر یہود کی مشابہت کاذکرکیاہے ،حالا نکہ یہودی بیت اللہ کا حج نہیں کرتے بلکہ مسجد اقصٰی کا احترام کرتے ہیں۔وہ اُس کو دیکھ کر ہاتھ اُٹھاتے ہوں گے پس معلوم ہواکہ تشبیہ کیلئے ہر طرح سے موافقت ضروری نہیں اور بعض سے ہاتھ اُٹھانے کا استحباب آیاہے۔ملا علی قاریؒ اس کی وجہ بیان کرکے اس کا رد کرتے ہیں،ان کی عربی عبارت کا ترجمہ یہ ہے جو ہاتھ اٹھانے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔وہ مطلق دعا کے آداب سے استدلال کرتے ہیں مگر ہر حالت میں وہاں کی مخصوص حالت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔کیا تم کو معلوم نہیں کہ نبی ﷺ نے طواف میں دعا کی اور ہاتھ نہیں اٹھائے۔
صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے فعل مبارک کے خاص خاص اندازکا بھی خیال رکھتے تھے۔''عن ابن عمر ؓ انہ یقول ان رفعکم ایدیکم بدعۃ مازاد رسول اللّٰہ ﷺعلی ھذہ یعنی الصدر'' (مشکوٰۃ) عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیںتمہارا (دعا کے لیے ) اتنا اونچاہاتھ اٹھانا بدعت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے (دعا کے لیے )سینے سے اونچا ہاتھ نہیں اٹھایا۔
عبداللہ بن عمر ؓ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے میں اندازے کا بھی لحاظ رکھا ہے ان دلائل مذکورہ سے بحث کر نامقصود نہیں۔بلکہ بدعت کے مسئلہ پر ان سے روشنی ڈالنامقصود ہے۔اب موصوف غور فرمائیں کہ جشن میلاد،محفل میلاد وغیرہ کہاں ثابت ہیں اور کیا ان میں نصارٰی کے عید میلادعیسی ؑ( کرسمس) سے مشابہت نہیں ہے؟
تو پھر ان کے مکروہ اور بدعت ہونے میں کیا شبہ ہے؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک غلطی اور اس کا ازالہ:
دوسرا پہلو کے تحت مولف نے مسکوت عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مبا ح اور جائز ہے کیونکہ الاصل فی الأشیاء الا باحۃ
جواب:۔ یہ تب ہے کہ یہاں نہ امر ہونہ ترغیب اور نہ نہی ہونہ ممانعت اور نہ ہی ناپسندیدگی۔
مولّف کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتاہے کہ شریعت میں جمیع نوازل (تمام احکامات) کا بیان نہیںہے۔
حالانکہ ہر مسلمان کاعقیدہ ہونا چاہیے کہ شریعت مطھرہ میں تمام امور خواہ دینی ہوں خواہ دنیاوی سب کا بیان موجود ہے۔کسی چیز کا عدم ذکر عدم شئی کو مستلزم نہیںہوتا،یعنی ان کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے سب احکام بیان نہیں فرمائے اور سارا معاملہ مسکوت عنہ پر چھوڑدیا ہے۔
حدیث نبوی ہے ۔
'' اذا امرتکم بشیٔ فاتوامنہ مااستطعتم واذانھیتکم عن شیٔ فاجتنبوہ ''
ترجمہ:جس چیز کا میں تمہیں حکم دوںحسب استطاعت اس کو بجا لاؤ اور جب کسی چیز سے روکوں اس سے اجتناب کرو۔
استاذ المحدث گوندلوی ؒ فرماتے ہیں:
اس حدیث سے معلو م ہوتاہے کہ جس حکم کے متعلق امر وارد ہو گا،وہ بحسب استطاعت واجب العمل اور فر ض ہوگا اور جس سے منع کیا گیا ہوگا،وہ واجب الاجتناب اور حرام ہو گا اور جس میں نہ امرہے نہ نہی وہ نہ واجب نہ حرام وہ مباح ہوگا جو مسنون اور مکروہ دونوںکو شامل ہے۔جس سے جمیع احکام ونوازل اور حوادث کا بیان ظاہر ہیـ"پس اعتراض باقی نہ رہا"
حلال ومباح جس کا فعل وترک دونوں غیر ضروری ہیں۔ عبادات اور دینی امور میں مباح کی ذیل میں فعل وترک آئیںتو ترک کو ترجیح ہوگی جیسے پہلے گذرا۔
کیونکہ عبادات میں اصل تحریم اور ممانعت ہے اور عادات میں اصل اباحت ہے۔پہلی اصل کے لحاظ سے ثبوت درکار ہے اور دوسری اصل میں نہی وارد ہونے تک اس کے اختیار کرنے کی اجازت ہے۔بدعت امور دین میں جاری ہوتی ہے جب کوئی کا م بلا اذنِ شرع پیداہوگا۔اس میں تین طرح سے تحریف(تبدیلی)اور مخالفت شریعت ہوگی ۔
۱۔سنت ترکیہ کی مخالفت سے
۲۔بدعت کی ممانعت میں جو ادلّہ وارد ہوئی ہیں ان کی مخالفت سے۔
۳ ۔ نص پر زیادتی کرنے سے یا نص مطلق کی مخالفت سے۔
اس قسم کی بدعت لامحالہ سنت کو اٹھانے والی ہوتی ہے۔
 
Top