• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسرا پہلو
موصوف صفحہ ۷ پر لکھتے ہیں کہ ہر چیز اصل میں مباح ہے۔ جن چیزوں کے متعلق شریعت مطھرہ نے حکم دیاہے یا ترغیب دی ہے۔وہ فرض، واجب ،سنت اور مستحب علی حسب الحکم قرار پاگئیں۔
جن چیزوں کے متعلق شریعت مطھرہ نے ممانعت فرمائی ہے یا ناپسندگی کا اظہار فرمایاہے۔وہ حرام، مکروہ تحریمی،تنز یہی اور ساءت و علی حسب الحکم قرار پاگئیں۔ اور جب چیزوں کے متعلق شریعت مطھر ہ نے سکوت فرمایا یعنی حکم وترغیب نہ ہی ممانعت و ناپسندگی کا اظہار فرمایاہے۔وہ سب چیزیں بلاشبہ جائزومباح ہیں۔
اس کے بعد چھ آیات مبارکہ اور احادیث ذکر کی ہیں۔ موصوف کا خیال ہے کہ وہ شریعت مطھرہ میں مسنون اعمال کے علاوہ جن اعمال کوبالالتزام بجا لاتے ہیں مثلا عیدمیلاد کی خصوصی محافل وجلوس وغیرہ نماز جنازہ کے بعد دفن سے پہلے دعا اور اذان سے پہلے اور بعد میں برکت کیلئے صلوٰۃ وسلام بلند آواز سے اور دیگر رسوم و رواج وہ سب مباح ہیں اگر چہ شرع شریف ان سے خاموش ہے لیکن وہ الأصل فی الأشیاء الاباحۃ۔ اصل میں تمام اشیاء میں اباحت وجواز ہے اس کے تحت مباح اور جائز ہیں اور انہیں کار ثواب سمجھ کر بجا لانا شریعت اسلام کے مطابق ہے۔اسلئے ان کے بعض ان اعمال کو مباح سے بڑھ کر سنت کا مقام دیتے ہیں (جاء الحق )اور بعض (طاہرالقادری ) فرماتے ہیں کہ عید میلاد کو ہم شرعی عید نہیں کہتے شرعی عیدیں دو ہی ہیں لیکن یہ ان سے بھی بڑھ کر ہے اسے ہمیشہ مناتے رہنا چاہئے۔
پہلے ہم ان آیات کے متعلق تفصیلا بیان کرتے ہیں تاکہ کوئی مغالطہ نہ رہے اور موصوف کے استدلال کی کمزوری واضح ہو جائے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
موصوف کی دلیل اباحت
۱:۔ آیت کریمہ:
قُلْ لَّا ٓ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّا ٓ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْس'' اَوْفِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْر'' رَّحِیْم'' ہ الآیۃ
(یعنی اے پیغمبران مشرکوں سے ) کہہ دو۔مجھ پر جو (قرآن شریف) اتراہے۔اس میں کوئی چیز کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سورکا گوشت وہ ناپاک ہے۔یا گناہ کہ اللہ تعالیٰ کے سواجانورپر غیر اللہ کا نا م پکارا جائے ...آیت۔۱۴۵ سورۃ انعام۔
اس آیت کریمہ سے محرمات کا حصر سمجھا گیا ہے۔قطع نظر اس بات کے کہ اس کا تعلق مطعومات یعنی کھانے پینے کی اشیاء سے ہے۔آیت کریمہ میں مذکورہ اشیاء کے علاوہ پر حرام ہونے یا کسی اور چیز پر حرمت کے حکم کو اس کے خلاف تصور کرکے مذعومہ اصل اباحت کے اور مسکوت عنہ کے متضاد جانتے ہوئے مطعومات کے علاوہ عبادات میں بدعت اور حرمت کے اطلاق کے رد پر استدلال کی گیا ہے۔
ملحوظہ:۔ یہ صحیح ہے کہ حلال وحرام کا حکم بذریعہ وحی الٰہی(قرآن مجید اور حدیث شریف )کے ہی معلوم ہوتا ہے لھذاکسی کویہ حق نہیں کہ منصب ِتشریع پر فائض ہو کر ایسے فتوے جاری کرے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اوراس پر افتراء کے مترادف ہے۔
اسلامی شریعت میں تو اللہ تعالیٰ نے سورۃالتحریم میں اپنے پیارے نبی محمدﷺ سے بھی فرمایا ہے کہ آپ اپنے اوپر شہد کو اپنی ازواج مطھرات کی خوشنودی میں کیوں حرام فرماتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے۔
گویا اصل شارع اللہ تعالیٰ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ اس کی وحی سے حلال اور حرام کا بیان فرمانے والے ہیں اور ہمارامدعٰی بھی یہی ہے کہ بغیر اذن شرع کے عبادات کا اختراع وایجاد بھی جائزو مباح نہیں۔ایسے ہی مطعومات کی حلت وحرمت کا حکم ہے۔
ایسا نہیں کہ محرمات چونکہ محصور ومتعین ہیں ان کے مقابلہ میں مباح زیادہ ہیں لہذا اس بنیا د پر میدان کھلا ہے۔ہر طرح کی من مرضی کرتے ہوئے کسی بھی دلیل وثبوت سے صرف نظر کرکے عدم ممانعت کا اصول جو مطعومات کی اباحت اور عادات کیلئے ہے اسے عام سمجھ لو اور عبادات کیلئے بھی دلیل بنایا جائے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مذکورۃ الصدر آیت کریمہ میں اگر چہ بعض اہل علم نے حصر سمجھا ہے لیکن اس کے نزول کے بعد بھی بعض چیزوں کو قرآن وحدیث یعنی وحی الٰہی کی روشنی میں علماء نے حرام قرار دیا ہے۔چنا نچہ اس سلسلہ میں استاذی المکرم شیخ التفسیروالحدیث محمد عبدہ الفلاح ؒ کے اشرف الحواشی آیت ۱۴۵۔ سورۃانعام سے نہایت جامع مانع حاشیہ نقل کیا جاتا ہے تا کہ آیت کریمہ کے جملہ مشمولات پر واقفیت حاصل ہو پائے اور خلط مبحث سے بچاجا سکے۔
آپ رقمطراز ہیں:۔ اس آیت میں اشکال ہے کہ محرمات ان چار چیزوں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہیں۔اس بنا پر علماء نے آیت کی تاویل کی ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جن جانوروں کا کھانا دستور ہے ان میں یہی حرام ہیں(موضح القرآن) یایہ کہا جائے کہ یہ آیت مکّی ہے اور مکۃالمکرمہ میں ان اشیاء کے علاوہ کوئی چیز حرام نہ تھی۔پھر اس کے بعد مدینہ میں سورۃ المائدہ، سورۃ البقرہ آیت ۱۷۳ نازل ہوئیں۔تو ان چارچیزوں کے علاوہ اور چیزیں بھی حرام قرار دے دی گئیں۔
دیکھئے سورۃالمائدۃ آیت۳۔
علاوہ ازیں نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں بھی بعض اور چیزوں کو حرام قرار دیا۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے ہر درندے شکاری پرندے گھریلو گدھے اور کتے کو حرام قرار ہے۔(بخاری مسلم)
علماء حدیث وفقہ نے اس آیت کی یہی تاویل کی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت۔وَاُحِلّ لکم مَاوَرَاء ذلِکم کہ ان حرام رشتوں کے علاوہ باقی تمہارے لئے حلال ہیں۔اس آیت کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ نے بعض رشتے حرام قرار دیے ہیں مثلاً فرمایا:۔ ایک عورت سے نکاح ہونے کے بعد اس کی موجودگی میں اس عورت کی خالہ یا پھوپھی سے نکاح حرام ہے۔مقصد یہ کہ آیت کے عموم میں حدیث سے تخصیص ہو گی ،لہذا بعض سلف کا ان چار چیزوں کے علاوہ باقی اشیاء کو حلال سمجھنا صحیح نہیں ہے۔بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔حافظ ابن عبدالبرـؒ نے سورۃانعام کے مکّی ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
اس آیت میں دراصل بحیرہ سائبہ وغیرہ کی حلت کو واضح کرناہے جو جاہلیت میں لوگوں نے اپنی طرف سے حرام قرار دے رکھے تھے۔ورنہ محرمات کا حصر مقصود نہیں ۔فَالاستثنَاء منقطعٌ(ابن کثیر قرطبی)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مزید وضاحت
علامہ جمال الدین القاسمیؒامام ابنِ تیمیہؒ سے اسباب نزول کی معرفت کے فوائد کے ضمن میں سورۃانعام کی اس آیت میں محرمات کے حصر کے وہم کودور کرنے کیلئے نقل کرتے ہیں۔
ٓقال الشافعیؒ معناہ فی قولہ تعالیٰ قل لا اجدفیما اوحی اِلیَّ محرماً....الآیۃ الانعام ۱۴۵ان الکفارلماحرَّموا مااحل اللّٰہ وکانواعلی المضادۃ والمحادۃفجاء ت الآیۃمناقضۃ لغرضھم فکانّہ قال لا حلال الاّ ماحرمتموہ ولا حرام الاّ ما احللتموہ اذ لامنزلۃ من یقول لا تاکل الیوم حلاوۃ فتقول لا اٰ کل الیوم الا الحلاوۃوالغرض المضادۃلا النفی والاثبات علی الحقیقۃ فکانہ تعالیٰ قال لاحرام الاماحللتموہ من المیتۃ والدم ولحم الخنزیرومااحل لغیراللّٰہ بہ ولم یقصدحل ماوراء ہ اذ ا القصد اثبات التحریم لا اثبات الحل۔ محاسن التاویل ج ۱ص۳۴۔
مذکورہ الصدرسورۃانعام کی اس آیت کی امام محمدبن ادریس الشافعیؒ کی طرف سے نہایت عمدہ تفسیر کا مفہوم ترجمہ ملاحظہ کریں۔آپ فرماتے ہیں کہ کفارنے جب اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام قرار دیااور وہ ضد اور مخالفت پر قائم تھے۔تو یہ آیت کریمہ ان کے مناقضہ اور نقیض کے طور پر نازل ہوئی گویا کہ اس میں اللہ نے فرمایا:۔حلال نہیں مگر جو تم نے حرام قرار دیا اور حرام نہیں مگر جو تم نے حلال ٹھہرایا کیونکہ جو دوسرے کو کہے کہ تم آج میٹھا نہ کھاؤ تو وہ جواب میں کہے کہ میں آج میٹھا ہی کھاؤں گا۔تو ایسی بات کی کچھ حیثیت نہیں ہے کیونکہ مقصد ضداور مخالفت ہے اور حقیقت یہ نفی ہے نہ اثبات کہ گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مطعومات میں سے وحی الہی کے مطابق کسی کھانے والے پر حرام نہیں ہے مگر جسے تم نے حلال ٹھہرایا ہے۔ سور کا گوشت اور جو غیر اللہ کے نام پر شہرت دیا گیا ہے۔(یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)اور مذکورہ اشیاء کے علاوہ کے حلال ہونے کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ یہاں مقصد تحریم کو ثابت کرنا ہے۔نہ کہ حلت کوثابت کرنا۔
اس کی تائید میں امام الحرمینؒ فرماتے ہیں۔
قال امام الحرمین وھذا فی غایۃ الحسن ،ولولاسبق الشافعی الی ذلک لما کنّا نستجیز مخالفۃ مالک ٍفی حصر المحرمات فی ما ذکرتہ الآیۃ و تعیین المبھم ٓفیھا۔محاسن التاویل ج ۱ص۳۴۔
امام شافعی ؒکی یہ نہایت حسین اور عمدہ بات ہے۔اگر امام شافعیؒ اس کی طرف سبقت نہ لے گئے ہوتے تو ہم مذرکورۃ الصدرآیت میں محرمات کا جو حصربیان ہوا اور اس میں مبھم کی تعیین ہوئی۔اس میں امام مالکؒ کی کبھی بھی مخالفت جائز نہ سمجھتے۔ انتھٰی بقدر الحاجۃ
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
آپ اس موقف سے اگر متفق ہیں کہ محرمات انہی چار چیزوں میں محصور ہیں۔تو چشم ماروشن دل ماشاد کہ اس اساس پر کُھلاّکھائیں۔لیکن آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ آپ کے نزدیک بھی ان اشیاء کے علاوہ مکروھات محرمات کی خاصی طویل فہرست ہے۔چنانچہ آیت مذکورہ کوپیش کرنے کافائدہ نہ ہوا۔عبادات و طاعات کے بدون اذن شرع اور عدم ثبوت کے بدعت وحرام ہونے پر اصل تحریم کے تحت اور معاملات وعادات(جن میں ماکولات مطعومات ملبوسات بھی شامل ہیں )میں شرعاً ممانعت نہ وارد ہونے تک اباحت کی اصل کے ذیل میں قبول کرنے سے کوئی چارہ نہیں ہے جبکہ مندرجہ بالامحرمات کے علاوہ محرمات فی النکاح کا بیان الگ سے دوسری آیات میں مذکور ہے۔نیز محرمات فی السنۃ کا بیان مستفادالگ ہے۔ اورمستزادبالنھی مع الوعیدالشدید الگ ہے اور منھی عنہ ہونے کی وجہ سے الگ احکام ہیں۔کل بدعۃ ضلالۃ بھی جامع کلمہ ہے اور نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جو امع ا لکلم کے اعزاز سے نوازا ہے۔چنانچہ ہر خطبہ میں اس کو بیان فرمایا ہے۔اہل علم نے احکام شریعت میں منصوص علیہ کے حکم سے غیر منصوص علیہ کے حکم کو متحد اور یکساں بیان فرمایا ہے جیسے آیت کریمہ انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر الآیہ
میں منصوص علیہ لحم خنزیر اور غیر منصوص علیہ شحم خنزیروجلد خنزیر اور ان کا حکم حرمت یکساں ہے۔
2 :۔ آیت کریمہ
:۔ولاتاکلواأموالکم بینکم بالباطل الّاان تکون تجارۃ۔
منصوص علیہ اکل مال بالباطل ہے اور غیر منصوص علیہ لباس ودیگر اشیاء کا استعمال بالباطل لیکن حکم حرمت ایک ہے۔
3آیت کریمہ:
وان آتیتم احدٰھن قنطارا فلا تأخذوامنہ شیأً۔
منصوص علیہ حرمت اخذ مھرقنطار اور غیر منصوص زیادہ یا کم از قنطار۔
4آیت مبارکہ:
حرمت علیکم اُمھاتکم وبناتکم واخواتکم
منصوص علیہ حرمت نکاح اُمھات وبنات اور غیر منصوص جدات وبنات الأولاد۔
5آیت کریمہ:
ولاتقل لھما افٍّ منصوص علیہ التافیف
یعنی اُف کہنا۔بحکم لاتقل لھما افٍّ اور غیر منصوص علیہ مطلق ایذاء والدین ہے۔
6آیت کریمہ:
قل لاَاجد فیما اوحی الیّ علی طاعمٍ یطعمہ الا ان تکون میتۃ الخ
اور دیگر آیات میں نسخ وتخصیص و حصر کے بجائے دوسرے شرع شریف کے تمام ادلّہ کو سامنے رکھ تطبیق دی گئی ہے لھذا آیت کریمہ میں حصر مان کر دوسری تمام اشیاء کی حلت سمجھ کر اصل اباحت کا عمومی حکم سمجھنا اور دوسرے دلائل کو نظر انداز کر دینا کسی طور مناسب نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعات سے پیار
تعجب ہے کہ آپ بدعت کی ترید ومذمت کے جملہ دلائل کو جو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ اور اقوال صحابہ پر مشتمل ہیں اور دلالت اور ثبوت میں کسی تاویل کے متحمل بھی نہیں انہیں ممانعت میں کوئی بھی حیثیت نہیں دیتے اور ساتھ کل بدعۃ ضلالۃ سے شرعی بدعت کو گمراہی فرماتے ہوئے اس سے کوئی ممنوع اور حرام حکم ثابت کرنے کو بعید خیال کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ آپ لوگ اصطلاحی مباح کی وکالت کررہے ہیں جو فرض واجب سنت مستحب کے علاوہ ہے کیونکہ ان کیلئے ثبوت اور دلالت کے مستقل دلائل ہیں۔مباح کیلئے یہی حکم ہے کہ اسے بے جا تکلف فرما کر اس سے بحث وتمحیص کو منع کر دیا گیا ہے اور بس!
( تکلف ممنوع کا بیان اور حکم آگے آ رہا ہے)
رسالہ کے صفحہ ۱۵ پر نمبر۷ کے تحت لکھتے ہیں۔مشہور غیر مقلد علامہ وحید الزمان نے یہ حدیث نقل کی ہے۔
کلُّ شیئٍ لک مطلق حتٰی یردَ فیہ نھیٌ۔
ہر چیز کا کرنا تم کو روا ہے یہاں تک کہ اس کی ممانعت میں کچھ وارد نہ ہوجائے۔(یعنی قرآن وحدیث میں اسکی ممانعت نہ آجائے)یہ حدیث دین کی ایک بڑی اصل ہے۔تمام کھانے پینے کی چیزیں دنیا کے رسم اور رسومات مباح ہیں جب تک ان کی ممانعت کسی نص سے ثابت نہ ہو۔لغات الحدیث ج۳ صفحہ ۳۸۔مطبوعہ میر محمدکتب خانہ کراچی۔
موصوف کی خوش فہمی
مولوی صاحب نے بلاتامل خوش فہمی سے علامہ وحید الزمان ؒکی بات اپنی تائید میں سمجھ کرنقل کردی ہے۔ورنہ اس حوالہ سے تو یہ بات واضح ہورہی ہے کہ کھانے پینے کی تمام چیزیں اور دنیا کے رسم ورواج مباح ہیں جب تک ان کی ممانعت کسی خاص نص قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہویہی بات ہم کہتے ہیں کہ ماکولات مطعومات یعنی کھانے پینے کی اشیاء میں اصل مباح ہونا ہے جب تک منع نہ فرمایا جاوے۔
چنانچہ علامہ وحیدالزماں ؒ نے حلت وحرمت کے پہلو سے رسم ورسومات کہہ کر ان کے دینی پہلوکوذکر فرمایا ہے اب کیسے باور کیا جائے کہ وہ عبادات کو رسم ورواج کہہ کر ان کا حکم بیان فرمارہے ہیں بلکہ یہ تو ایک طرح سے قید احترازی کی صورت ہے اور وہ عبادات اور عادات میں فرق ملحوظ رکھ رہے ہیں اورموصوف تمام کھانے پینے کی اشیاء اور رسم ورسومات کیلئے ان کی بات سے اصل اباحت کے تحت مباح ہونا ثابت کررہے ہیں حالانکہ یہاں عبادات کا تو بیان ہی نہیں جن کیلئے وحی الٰہی یعنی قرآن وسنت سے ہی ثبوت درکار ہے۔بدون اذن شرع کے عبادات کی مشروعیت کیسے ثابت ہو سکتی ہے۔
غور سے دیکھا جائے نمبر ۷ کے حوالہ کا لغوی معنی کے لحاظ سے دنیاوی رسم ورسومات سے تعلق تو بنتا ہے عبادات میں شرعی بدعات کیلئے کچھ ثبوت نہیں بنتاکہ ان کو مباح قرار دیا جائے موصوف چونکہ سورۃانعام کی مذکورہ آیت میں محرمات کا حصر مانتے ہیں لہذا اس کے علاوہ اپنے معمولات کے متعلق قرآن وسنت اور حدیث شریف سے بالتنصیض حرام ہونے کے فتوٰی کاحوالہ دریافت فرماتے ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں سورۃانعام سے باقی اشیاء کی حلت کا حکم سمجھتے ہوئے ان پر کلی طور پر قطعی حرام ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
موصوف سے سوال
سوال یہ ہے کہ آپ کی طرف سے بالتنصیص مذکورہ الصدرآیات سے قطع نظر کفروارتداومکروہ وحرام ہونے کے فتاوی جاری ہوئے ہیں جو تجانب اہل سنت وغیرہ کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں مثلاً بحکم شریعت مسٹر جناح(محمد علی جناح) قطعاًمرتد اورخارج ازاسلام ہے اور تمام مسلم لیگیوں کے متعلق بھی یہی فتوٰی ہے ۔حتی کہ علامہ اقبالؒ اور دیگر رہنماؤں کو بھی کافرقراردیاگیاہے۔تجانب اہل سنت ص۱۲۲مطبوعہ بریلی
حرمت سجدہ تعظیمی میں مستقل تالیف الزبدۃالذ کیہ لتحریم سجدۃِ التحیۃہے کہ سجدہ تعظیمی حرام ہے۔اب اس کی تحریم کیلئے دوسری آیت قرآن سے یا حدیث شریف سے الگ دلائل ہیں مطلب یہی ناں کہ اس کا حرام ہوناحرام لذاتہ ہے اور اس کی حرمت بغیرہ بھی ہے۔اگرچہ یہ سورۃ انعام کی حرام چیزوں کی فہرست سے خارج ہے۔ویسے ہی آپ کی فقہ میں محظورات اور مکرو ہات ومحرمات ہیں کہ وہ دوسرے ادلّہ کی روشنی میں یہ حکم رکھتے ہیں کیونکہ آپ بھی اس آیت کومذکورہ اشیا ء کی تحریم میں منحصر نہیں مانتے ۔
احمد رضا خانصاحب کے نزدیک تیجہ اور چالیسواں
سوم ساتویں او ر چالیسویں کے بارے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں(ملاحظہ کریں ،ص ۳۳۴احکام شریعت)
الجواب:۔سبحان اللہ اے مسلمان یہ پوچھتاہے،یوں پوچھ کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اورشدید گناہوں،سخت وشنیع خرابیوں پر مشتمل ہے ۔اوّلایہ دعوت خود ناجائز وبدعت شنیعہ وقبیحہ ہے کہ امام احمد اپنے مسند اور ابن ماجہ سنن میں بہ سند صحیح جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے راوی کنّانعدُّ الاجتماع الی اہل المیت وصنع الطعام ِ من النیاحۃ۔ہم گروہ صحابہؓ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے ہاں کھانا تیا رکرانے کومردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔جس کی حرمت برابر متواتر حدیثیں ناطق ہیں امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ھدایہ میں فرماتے ہیں ،یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اہل المیت لانہ شُرِع فی السرور لا فی الشروروھی بدعۃ مستقبحۃ اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنا منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے ۔۲ ۔اسی طرح علامہ شربنالی نے مراقی الفلاح میں فرمایایکرہ الضیافۃ من اھل ا لمیت لانھا شرعت فی السرور لافی الشروروھی بدعۃ مستقبحۃ ۔۳۔ فتاوی خلاصہ ۔۴۔فتاوٰی سراجیہ ۔۵۔فتاوٰی ظھیریہ ۔۶۔فتاوی تاتارخانیہ اور ظھیریہ سے ۔۷۔خزانۃ المفتین کتاب الکراہیہ اور تاتا رخانیہ سے ۸۔ فتاوی ھندیہ بالفاظ متقاربہ ہے واللفظ للسراجیۃ لا یباح اتخاذ الضیافۃ عند ثلاثۃ ایام فی المصیبۃ ذاد فی الخلاصۃ لان الضیافۃ یتخذ عند السرورغمی میں یہ تیسرے دن کی دعوت جائز نہیں کہ دعوت تو خوشی میں ہوتی ہے ۔۹۔فتاوی امام قاضی خان کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے ۔یکرہ اتخاذ الضیافۃ فی ایام المصیبۃ لانھاایام تاسف فلایلیق بھا مایکون للسرور غمی میں ضیافت ممنوع ہے کہ یہ افسوس کے دن ہیں تو جو خوشی میں ہوتاہے ان کے لائق نہیں ۱۰ ۔تبیین الحائق اما م زیلعی میں ہے لا بأس بالجلوس المصیبۃ الی ثلث من غیر ارتکاب محظور من فرش البسط والاطعمۃ من اھل ا لمیت ۔مصیبت کے لیے تین دن بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ کسی امر ممنوع کا ارتکاب نہ کیا جائے ،جیسے مکلف فرش بچھانے اور میت والوں کی طرف سے کھانا کھانے وغیرہ ۔۱۱۔ امام بزاری وجیز میں فرماتے ہیں یکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول والثالث وبعد الاسبوع ،یعنی میت کے پہلے دن یا تیسرے دن یا ہفتہ کے بعد جو کھانے تیار کرائے جاتے ہیں سب مکروہ وحرام ہیں ۔
(ص ۳۳۴احکام شریعت از احمد رضا خانصاحب مطبوعہ نور ی کتب خانہ لاہور )
غور فرمائیں احمد رضا کے پیرو کس قدر ان کے مخالف جارہے ہیں کہ پیٹ پرستی کی خاطر سارے دین کو اباحت کی بھینٹ چڑھا دینے پر بضد ہیں ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
منتحب کنزالعمال کے صفحہ ۲۲۶ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
التعزیۃ مرۃ رواہ الدیلمی عن عثمان رضی اللّٰہ عنہ۔
یہاں سوال ابھرتا ہے کہ چالیسویں تک تو یہ نص مؤثر ہو منع اور حرام ہونے میں اور اس کے بعد اسکی افادیت وتاثیر ختم ہو جائے اور ظاہر ہے کہ وہ رشتہ دار چالیسویں تک کلمہ کلام اور ذکر خیر ہی کرتے ہوں گے۔تاہم منع کی دلیل کے عموم میں تخصیص زمانی مکانی کی اسی درجے کی کسی اور دلیل کی ضرورت ہے۔یہاں یہ تاویل بھی کوئی گنجائش نہیں رکھتی کہ مجالس ایصال ثواب کیلئے اچھے اور نئے طریقے شرعاً نہ سہی انتظامی طرز پر تو جائز ہیں۔ممانعت کی دلیل آجانے پر تو آپ بھی حرمت کے قائل ہیں تو کہ صحابی رسول ﷺ نے کسی عمل کے رسول ﷺ کے زمانہ مبارک اور عہد خیرالقرون میں صحابہ کے حوالے سے دفن کے بعد اہل میت کے ہاں ہر اجتماع اور کھانے کے پکوان کو نوحہ سے شمارکیاہے گویا حرام کہا ہے۔یہاں بھی عہد نبوی اور عہد صحابہ میں کسی دینی کام کے عدم ثبوت وعدم فعل نبوی کے عرف وعادات اور طرز عمل کی سند ہونا اور معتبر ہونے کا اعتبار ثابت ہوتا ہے بلکہ کنّا نعدّ پر غور کرنے سے اس مسئلہ پر اجماع صحابہ بھی ثابت ہوتا ہے۔
تنبیہ:۔اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان اہل میت کے ہاں شادی بیاہ یا دوسری ہر دعوت و اجتماع کو منع کرتے ہیں بلکہ ہمارے پیش نظر جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کے مصداق سے چالیسویں کے بعدکے زمانے کو بھی شامل ہے جو ماتم کے مفہوم کو شامل ہے یعنی دعوت واجتماع اہل میت کے ہاں دفن کے بعد دونوں حرام اور ممنوع ہیں۔
ایک وضاحت وفات کے تیسرے دن تک عمو می طور پر سوگ جائز ہے لیکن سوئم کے اجتماع اور دعوت کا ممنوع ہونا اس کا سوگ ہونا نہیں بلکہ نوحہ کی طرح ہوناہے، ماتم ممنوع کی صورت ہے اور کفار کی مشابہت ہے ،دسویں بیسویں اور چالیسویں میں ممانعت کی وجہ اس کا ماتم اور نوحہ ہوناہے حالانکہ سوگ کی حد صرف تین دن ہے اورسوگ دوقسم پر ہے۔
۱۔ ایک صورت تین دن کے اندر بدون نوحہ کے ہویہ جائز ہے۔
۲۔دوسری صورت ممنوع سوگ کی کہ تین دن کے اندر نوحہ کے ساتھ ہویا تین سے اوپر ہو یا کفار کی طرح ہو ان رسوم کو تعیین کے لحاظ سے غیر شرعی مانتے ہوئے ایصال ثواب کیلئے انتظامی ضرورت کے تحت ان پر اصرار ودوام کرنا ان کے رسوم ہونے سے ایصال ثواب کی شرعی حیثیت میں جواز فراہم نہیں کرتاکیونکہ ایصال ثواب اور رسوم میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں فی عھد رسول ﷺ کے مذکورنہ ہونے سے اس کا موقوف ہونا سمجھنا بھی غلطی ہے کیونکہ ممنوع ہونے کیلئے عہد یعنی آپ کے زمانہ میں ہونے کالفظ ضروری نہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حدیث مرفوع کی د و قسمیں ہیں:
ایک حقیقی دوسری حکمی۔
یہ حدیث حکماً مرفوع ہے کیونکہ اس اجتماع کو حرام قرار دینا عقلی چیز نہیں ہے پھر مرفوع حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ ۱ ۔ قولی ۲۔فعلی ۳۔تقریری۔ اور یہ حدیث تقریری حدیث کی قسم ہے۔جیسا کہ احمد رضا خان صاحب کے فتاوی میں پڑھ چکے ہیں ۔
اصل اباحت کی د لیل نمبر۸:
ابن ماجہ شریف میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے چند ضروری چیزوں کو حلت وحرمت کے متعلق جب پوچھا تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا: {الحلال ما احل اللّٰہ فی کتابہ والحرام ماحرم اللّٰہ فی کتابہِ وما سکت عنہ فھومما عفی عنہ}حلال ہے وہ جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیاہے اور جس کا ذکرنہیں فرمایاوہ معاف ہیں۔ (ابن ماجہ شریف : ۲۴۹)
جواباً عرض ہے:
کہ موصوف نے اصل اباحت کیلئے جو آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ ذکر کی ہیں ان سب کا تعلق کھانے پینے اور لباس سے ہے مثلاً اس حدیث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے الجبن و السمن اورالفراء کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہﷺ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ ظاہر ہے پنیر، گھی اورکپڑوں کے بارے میں سوال کیا کیونکہ یہ چیزیں فارس سے آتی تھی اور وہ مجوسی اور کفار تھے اور بعض نے فرا کے معنی حماروحشی یعنی جنگلی گدھے کے کیے ہیں(الفراء سے مرادوہ کپڑے ہیں جو درندوں کے چمڑوں یا بالوں سے تیار کیے جاتے ہیں)تو ان کا تعبدی امور یاعبادات سے کوئی تعلق نہیں لہذا ان کے حکم میں مسکوت عنہ یعنی جہاں حلت وحرمت واضح نہیں۔شرع شریف خاموش ہے۔فقہا شافعیہ نے اباحت کا حکم سمجھا ہے۔لیکن دوسرے اہل علم نے جن میں امام ابو حنیفہؒ بھی شامل ہیں۔اصل تحریم کو اختیار کیا ہے اور مسکوت عنہ کو عبادات میں بدعت کے دلائل کی روشنی میں مسکوت عنہ سے خارج سمجھا ہے۔ مبا ح کی بنیا د پر شریعت سازی سے پر ہیز کیا ہے اور یہی مذہب منصور ہے۔
کیونکہ مذکورہ حدیث کے علاوہ ابو ثعلبہ الخشنی ؒ کی روایت جسے امام طبری،دارقطنی، الحاکم نے تخریح کیا اور درمنثور اور جامع العلوم والحکم اور امام ابن کثیر ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{ ان اللّٰہ فرض فرائض فلا تضیعوھا وحدّحدوداً فلا تعتدوھا ونھی عن اشیاء فلا تنتھکوھا وسکت عن اشیاء من غیر نسیان لھارحمۃً لکم فلا تبحثوا عنھا} (دارقطنی)
یعنی اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر فرما دیے انہیں ضائع نہ کرو اور شرع کی حدیں مقرر کر دیں ان سے آگے نہ بڑھو اور بعض چیزوں سے منع فرما دیا ان کی حرمت کو پامال نہ کرو اور بعض سے بغیر بھولنے اور نسیان کے خاموشی اختیار فرمائی تم ان سے بحث اور کریدنہ کرو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک دوسری روایت میں ہے فلا تتکلفوھا کہ ان میں تکلّف نہ کرو ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہے کہ تم محکمات کو زیر عمل رکھو متشابہات سے پرہیز کرو نھی کے صیغے ہیں گویا آپ ﷺ نے ان سے ہر لحاظ سے روک دیا ہے کیونکہ ان کا حکم ہم سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔چہ جائے کہ ہم اس کو اصل الاصول قرار دے کر مسائل کا استنباط شروع کر دیں لہذا آپﷺکے فرمان پر غور کرنا چاہیے اور ایسے بے جا تکلف سے بچنا چاہیے کیونکہ متفق علیہ حدیث شریف جسے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
{ ان الحلال بین و انّ الحرام بین وبینھما امور مشتبھات لا یعلمھن کثیر من الناس فمن اتقی الشبھات فقد استبرء لدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام الخ الحدیث}
یعنی حلال بھی واضح ہے حرام بھی واضح ہے ان دونوں کے درمیان کچھ باتیں شبہے والی ہیں کچھ کام شبہے والے ہیں توجو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین کو عیب سے اور اپنی عزت کو تہمت سے پاک کر لیا اور جو شبھات میں پڑا تو وہ حرام میں گِر گیا ۔ الی آخر الحدیث
ان احادیث کی روشنی میں ایمان وتقوی کا سبق ملتا ہے تاکہ حرام سے بچا جا سکے ،سنت مبارکہ کے مطابق اسوۂ کامل کو اختیار کرنے میں ہی سعادت دارین ہے۔
{احسن الکلام کلام اللّٰہ احسن الھدی ھدی محمد ﷺ}( الحدیث)
یعنی سب باتوں سے حسین اور پیاری کلام اللہ تعالیٰ کی ہے اور سب سے حسین اور پیارا نمونہ ا وراسوۂ محمد کریم ﷺکا طریق ومنہج ہے۔
اس کے علاوہ جملہ اشیاء میں اباحت کے عموم سے متعلق جو آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں ان کا تعلق بھی کھانے پینے اور لباس وغیرہ یعنی عادات سے ہے جس میں ممانعت وارد ہونے تک بقول آپ کے جواز ہے لیکن حلال حرام کے مابین مسکوت عنہ کومشتبہ اشیاء میں شامل کیا ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے{ من وقع فی الشبھات وقع فی الحرام}( الحدیث) جو شبہات میں پڑا وہ حرام میں پڑا۔
اب ہمارے مہربان ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں کہ وہ مسکو ت عنہ کو مشتبھات میں شامل مانتے ہیں یا نہیں؟ پھر وہ عادات وعبادات میں مسکوت عنہ کو مباح جانتے ہوئے اس پر بحث کر کے تکلف کا ارتکاب کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کے منع فرمانے سے بھی نہیں رکتے۔ لطف یہ کہ اپنے معمولات کو سنت بھی نہیں کہتے لیکن بدعات کیلئے شریعت کے مقاصدوکلیات کو نظر انداز کرکے اہل سنت میں داخلہ پر بھی اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے معمولات پر حرام ہونے کا حکم کیوں لگایا جاتا ہے اور تقاضا ہے کہ بالتنصیص کوئی ایسی آیت یا حدیث بتائی جائے۔جس میں متعین طور پر ان کے معمولات پر حرام ہونے کا حکم لگایا گیاہو۔
کتاب وسنت سے عدم ثبوت عدم فعل نبویﷺ کے باوجود مانعین سے صرف دلائل ممانعت پیش کرنے کا مطالبہ ہے ،حالانکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے
{ وَمَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ج}
اور جوتم کو اللہ کے رسول دیں تو اس کو لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔
وَمَآاٰتاکُمُ الرَّسُوْل میں وہ سارا دین آگیا ہے جسے الیوم اکملت لکم دینکم سے تعبیر فرمایا ہے اور وَمَا نَھٰاکُم میں شرک اور بدعات بدرجہ اولیٰ شامل ہیں لہذا ان سے اجتناب ہی میں نجات ہے جیسے کہ اتباع رسول ﷺ میں سعادت دارین ہے۔
 
Top