ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
گھر کی دلیل
احمد رضا بریلوی نے احکام شریعت میںاس حدیث کی رو سے اہل میت کے ہاں کھانے پکانے اور اجتماع کو حرام فرمایاہے اور اس پر تفصیلاً بحث کی ہے۔
ایصالِ ثواب کی مجالس کا انعقاد
ممکن ہے مولوی صاحب موصوف الاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے اصول کے تحت باوجود عدم ثبوت کے جائز اور مشروع جانتے ہوںلیکن یہ خیال رہے کہ یہ اصل شوافع کی ہے اور امام شافعیؒ فرماتے ہیںکہ فوت شدہ گان کوثواب پہنچانایا ھِبہ کرناقرآن وحدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ہی نہیں ۔
چنانچہ امام ابن کیثر ؒ سورۃ نجم کی تفسیر میں آیت کریمہ ،و ان لیس للانسان الا ماسعیٰ النجم ۳۸۔۳۹
یعنی انسان کیلئے نہیں ہے مگر وہی جو اس نے خود کوشش کی
اور پچھلی آیت مبارکہ أن لاتزر وازرۃ وزریٰ أخریٰ کے مطابق جیسے دوسرے کا بوجھ کفر اور گناہوں کا مجر م کے سواکوئی نہیں اٹھانے گا اور اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا۔
ایسے ہی وہ اس اجروثواب کے علاوہ جو اس نے خوداپنے لیے کمایاہے حاصل نہیں کرپائے گا۔فرماتے ہیں
"من ھذہ الآیۃ الکریمۃ استنبط الشافعی ؒ ومن اتبعہ ان القرأۃ لا یصل اھداء ثوابھا الی الموتیٰ لانہ لیس من عملھم ولاکسبھم ولھذا لم یندب الیہ رسول اللّٰہ ﷺ امتہ ولا حثھم علیہ ولا أرشد ھم الیہ بنص ولا ایماء ولم ینقل ذالک عن احد من الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم ولو کان خیر اً لسبقونا الیہ ،و باب القربات یقتصر علی النصوص ولا یتصرف فیہ بأنواء الا قسیۃ والآراء فاما الدعاء والصدقۃ فذاک مجمع علی وصولھما منصوص من الشارع علیھا ابن کثیر ص۲۵۸ج ۴
ترجمہ:۔ اس آیت کریمہ سے امام شافعی ؒ اور آپ کے متّبعین نے یہ استنباط کیا ہے کہ تلاوت ِقرآن کا اھداء ثواب فوت شدہ گان کونہیں پہنچتاکیونکہ وہ ان کا عمل نہیں اور نہ وہ ان کی کسب وکمائی ہے۔اسی لئے رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو اس کی ترغیب نہیں دلائی نہ انہیں اس پر شوق دلایا اورنہ ان کو اس کی طرف نص اورایماسے راہنمائی فرمائی اور نہ ہی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی ایک سے منقول ہوا اوراگر اِھداء ثواب میں خیر ہوتی تو وہ ہم سے اس کی طرف سبقت لے جاتے اور قربات کے باب میںنصوص پر اقتصار کیا جاتا ہے اور اس میں طرح طرح کے قیاس اور آراء سے تصرف نہیں کیا جاتا۔البتہ دعا میت کیلئے اور صدقہ اس کی طرف سے مجمع علیہ مسئلہ ہے کہ اس کا ثواب اس کو پہنچتا ہے اور یہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے نصوص کے ساتھ ثابت ہے ۔ابن کثیر ص۲۵۸ج ۴
نوحہ کی ترغیب (معاذاللہ)
اب قابل غور یہ بات ہے کہ ایصال ثواب کی مجالس کے انعقاد میں اس قدر اہتمام کرنا،بلا بلاکر اعلانات کرکے دعوت نامے چھپواکر دیے جاتے ہیں۔یہ تحری اور دعوتیں ایک طرح سے نعی اور ایسا اجتماع ودعوت ہے جو بالا تفاق حرام ہے اور یہ ماتم قائم کرنے اور غم تازہ کرنے کی مجلسیں ہیں۔جن کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں اور یہ شریعت میں اضافہ ہیںاور یہی بدعت شرعی ہے جو ضلالت اور گمراہی ہے اور یہ غیر ثابت امر کو سنت کا درجہ دینا ہے اور یہی سنت کی تبدیلی ہے جیساکہ امام شافعی ؒ سے منقول ہوا۔
حدیث شریف میں حدیث ِابی ھریرہؓ میں جتنا بیان آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اذامات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاث الخ
یہ بھی امام شافعی کے موقف کی تائید کرتا ہے۔بہر صورت اس مسئلہ کی قانونی حیثیت بیان کردی گئی ہے اور ان دعوتوںکو علماء کا کھانا بھی مکروہ ہے اور پھر اہل میت کیلئے تو اقرباء کھانے کا انتظام کریںعلماء حنفیہ نے لکھا ہے کہ دعوت سرور میں ہوتی ہے نہ کہ مصیبت میں اور قرآن خوانی کرکے دعوت لینا مکروہ ہے اور بدعت ِقبیحہ ہے۔لہذاجب ان مجالسِ ایصال ِثواب کا کچھ ثبوت قرآن سنت سے اور صحابہ سے نہیںتو کیا بتایا جائے کہ ان کے اہتمام سے کس سنت میں تبدیلی آتی ہے۔عدم ثبوت کی وجہ سے یہ مجالس اپنی خصوصیت کی وجہ سے ناجائز ہونگی کیونکہ ان میں ایک طرح کی تشریع پائی جاتی ہے۔
احمد رضا بریلوی نے احکام شریعت میںاس حدیث کی رو سے اہل میت کے ہاں کھانے پکانے اور اجتماع کو حرام فرمایاہے اور اس پر تفصیلاً بحث کی ہے۔
ایصالِ ثواب کی مجالس کا انعقاد
ممکن ہے مولوی صاحب موصوف الاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے اصول کے تحت باوجود عدم ثبوت کے جائز اور مشروع جانتے ہوںلیکن یہ خیال رہے کہ یہ اصل شوافع کی ہے اور امام شافعیؒ فرماتے ہیںکہ فوت شدہ گان کوثواب پہنچانایا ھِبہ کرناقرآن وحدیث اور اجماع صحابہ سے ثابت ہی نہیں ۔
چنانچہ امام ابن کیثر ؒ سورۃ نجم کی تفسیر میں آیت کریمہ ،و ان لیس للانسان الا ماسعیٰ النجم ۳۸۔۳۹
یعنی انسان کیلئے نہیں ہے مگر وہی جو اس نے خود کوشش کی
اور پچھلی آیت مبارکہ أن لاتزر وازرۃ وزریٰ أخریٰ کے مطابق جیسے دوسرے کا بوجھ کفر اور گناہوں کا مجر م کے سواکوئی نہیں اٹھانے گا اور اس پر دوسرے کا بوجھ نہیں لادا جائے گا۔
ایسے ہی وہ اس اجروثواب کے علاوہ جو اس نے خوداپنے لیے کمایاہے حاصل نہیں کرپائے گا۔فرماتے ہیں
"من ھذہ الآیۃ الکریمۃ استنبط الشافعی ؒ ومن اتبعہ ان القرأۃ لا یصل اھداء ثوابھا الی الموتیٰ لانہ لیس من عملھم ولاکسبھم ولھذا لم یندب الیہ رسول اللّٰہ ﷺ امتہ ولا حثھم علیہ ولا أرشد ھم الیہ بنص ولا ایماء ولم ینقل ذالک عن احد من الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم ولو کان خیر اً لسبقونا الیہ ،و باب القربات یقتصر علی النصوص ولا یتصرف فیہ بأنواء الا قسیۃ والآراء فاما الدعاء والصدقۃ فذاک مجمع علی وصولھما منصوص من الشارع علیھا ابن کثیر ص۲۵۸ج ۴
ترجمہ:۔ اس آیت کریمہ سے امام شافعی ؒ اور آپ کے متّبعین نے یہ استنباط کیا ہے کہ تلاوت ِقرآن کا اھداء ثواب فوت شدہ گان کونہیں پہنچتاکیونکہ وہ ان کا عمل نہیں اور نہ وہ ان کی کسب وکمائی ہے۔اسی لئے رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو اس کی ترغیب نہیں دلائی نہ انہیں اس پر شوق دلایا اورنہ ان کو اس کی طرف نص اورایماسے راہنمائی فرمائی اور نہ ہی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی ایک سے منقول ہوا اوراگر اِھداء ثواب میں خیر ہوتی تو وہ ہم سے اس کی طرف سبقت لے جاتے اور قربات کے باب میںنصوص پر اقتصار کیا جاتا ہے اور اس میں طرح طرح کے قیاس اور آراء سے تصرف نہیں کیا جاتا۔البتہ دعا میت کیلئے اور صدقہ اس کی طرف سے مجمع علیہ مسئلہ ہے کہ اس کا ثواب اس کو پہنچتا ہے اور یہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے نصوص کے ساتھ ثابت ہے ۔ابن کثیر ص۲۵۸ج ۴
نوحہ کی ترغیب (معاذاللہ)
اب قابل غور یہ بات ہے کہ ایصال ثواب کی مجالس کے انعقاد میں اس قدر اہتمام کرنا،بلا بلاکر اعلانات کرکے دعوت نامے چھپواکر دیے جاتے ہیں۔یہ تحری اور دعوتیں ایک طرح سے نعی اور ایسا اجتماع ودعوت ہے جو بالا تفاق حرام ہے اور یہ ماتم قائم کرنے اور غم تازہ کرنے کی مجلسیں ہیں۔جن کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں اور یہ شریعت میں اضافہ ہیںاور یہی بدعت شرعی ہے جو ضلالت اور گمراہی ہے اور یہ غیر ثابت امر کو سنت کا درجہ دینا ہے اور یہی سنت کی تبدیلی ہے جیساکہ امام شافعی ؒ سے منقول ہوا۔
حدیث شریف میں حدیث ِابی ھریرہؓ میں جتنا بیان آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
اذامات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاث الخ
یہ بھی امام شافعی کے موقف کی تائید کرتا ہے۔بہر صورت اس مسئلہ کی قانونی حیثیت بیان کردی گئی ہے اور ان دعوتوںکو علماء کا کھانا بھی مکروہ ہے اور پھر اہل میت کیلئے تو اقرباء کھانے کا انتظام کریںعلماء حنفیہ نے لکھا ہے کہ دعوت سرور میں ہوتی ہے نہ کہ مصیبت میں اور قرآن خوانی کرکے دعوت لینا مکروہ ہے اور بدعت ِقبیحہ ہے۔لہذاجب ان مجالسِ ایصال ِثواب کا کچھ ثبوت قرآن سنت سے اور صحابہ سے نہیںتو کیا بتایا جائے کہ ان کے اہتمام سے کس سنت میں تبدیلی آتی ہے۔عدم ثبوت کی وجہ سے یہ مجالس اپنی خصوصیت کی وجہ سے ناجائز ہونگی کیونکہ ان میں ایک طرح کی تشریع پائی جاتی ہے۔